Translate ترجمہ

Friday, January 20, 2023

افسانہ مکھیاں

افسانہ


مکّھیاں

(طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں) 


          کالج سے واپسی پراکرم اپنے پُرانے مکان کی طرف سے گزرا۔ اس مکان کے بازو والے خستہ حال جھونپڑے کی چھت اپنے آگے بنائے گئے ٹاٹ کے سائبان میں جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی۔سائبان کے نیچے لگی چارپائی کے اطراف مکّھیاں بھنبھنا رہیں تھیں۔ انھیں دیکھ کر وہ سوچنے لگا.
          ۔۔۔۔۔اتنی ساری مکّھیاں میں نے اور کہاں دیکھی ہیں؟۔۔۔۔۔کچرے کے ڈھیر پر؟۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟ ۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر؟؟؟۔۔۔۔۔جواب ملا کہیں اور۔۔۔۔”
وہ پھر سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔۔کہاں؟؟؟؟۔۔۔۔۔مگر جواب میں بہت سارے سوالیہ نشانات اس کےذہن میں بکھرتے چلے گئے اور اس نے زینو چاچا کی چارپائی کی طرف دیکھا۔
          پہلی نظر میں وہ دکھائی ہی نہیں دئیے۔ ذرا غور کرنے پر ان کا وجود چارپائی سے الگ ہوا اور پھر جھرّیوں کے جال کے ساتھ ننگی چارپائی کی بنت میں استعمال ہونے والی رسّیوں میں کھو سا گیا۔ رسّیاں بھی تو ان کی جلد کی طرح میلی ہو چکی تھیں۔ زینو چاچا اپنے بدن کی طرح لاغر چارپائی میں دھنسے پڑے تھے۔ اُس کے ایک پائے کو اُن کی سانسوں کی طرح باندھ کر جبراً کھڑا کیا گیا تھا۔ دوسرے پائے کو ان کی زندگی کے گراف کی طرح اونچا اٹھانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔
          ان کی ذرا سی حرکت سے ڈھیر ساری مکھیاں بھنبھنانے لگتیں۔ حالانکہ چارپائی کا ضروری حصہ بننے سے پہلے زینو چاچا اپنے کپڑوں پر مکھّی تک بیٹھنے نہیں دیتے تھے۔ سفید کپڑے تو ان کی جان ہوا کرتے تھے۔ قمیص، پتلون ہو یا کرتا پاجامہ ان کا رنگ سفید ضرور ہوا کرتا تھا۔ جوانی میں تو ان کی ٹوپی، رومال، بیلٹ، پین، جوتے اور موزے تک سفید ہوا کرتے تھے۔ وہ تھے تو پاور لوم مزدور مگر جب صبح سویرے اپنے گھر سے کھانے کا ٹفن لئے نکلتے تو ان پر کسی رئیس زادے کا گمان ہوتا تھا. دن بھر پاور لوم سے لوہا لے کر گھر کے تانے بانے سلجھانے کے لئے زینو چاچا اپنے کمزور اور دبلے پتلے بدن کو مشقّت میں ڈالے رہتے۔ شام کو پرندوں کے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ جانے کے ایک آدھ گھنٹہ بعد وہ پاور لوم کارخانے سے تھکے ہارے باہر نکلتے۔
         کپاس کے ذرّات ضرورت بن کر ان کے بالوں سے چمٹے صاف دکھائی دیتے ۔ وہ بیس برس کی عمر میں ہی مکمل بوڑھے نظرآتے لیکن بوڑھے ہو جانے پر بھی جوان بیٹوں نے انھیں آرام نہیں دیا۔ وہ مسلسل محنت مزدوری کرتے رہے اور بیٹے مفت کا لقمہ توڑتے رہے۔
          چھ مہینہ پہلے جب ان کے لئے چارپائی لگائی گئی تھی تب رسّیاں بڑی صاف ستھری تھیں۔ چارپائی بھی تو اچانک ہی لگانی پڑی تھی۔رات آٹھ بجے کے قریب وہ معمول کے مطابق اپنے گھر پہنچے تو باہر ہی سے انہوں نے آواز دی۔
         ’’شہناز!۔۔۔۔۔اے ۔۔۔۔۔شہناز بیٹی!۔۔۔۔۔ذرا پانی دے تو۔۔۔۔۔‘‘
          تھوڑی دیر بعدان کی چھوٹی بہو شہناز بڑبڑاتی ہوئی پانی بھری ٹوٹی بالٹی لائی اور ایک جھٹکے سے رکھ کر کچھ بڑبڑاتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔ انہوں نے ایک گہری سانس لے کرواپس جاتی ہوئی شہناز کو دیکھا اور سوچنے لگے۔
           ’’صرف یہی لوگ تو رہ گئے ہیں ساتھ میں۔۔۔۔۔شریفہ اور نازیہ کی شادی تو میں نے باہر دوسرے شہر میں کردی ہے۔۔۔۔چلو اچھا ہے سکون سے تو ہیں دونوں۔۔۔۔۔مگر یہ سلیم تو شادی کے ایک مہینے بعد ہی گھر سےالگ ہو گیا تھا۔ تب سے وہ ادھر آتا ہی کہاں ہے؟ اور کریم نے بھی تو جاتے جاتے کتنا جھگڑا کیا تھا ؟؟؟۔۔۔۔۔اب رہ گیا یہ علیم! تو یہ بھی کہاں ٹھیک سے بات کرتا ہے۔۔۔۔۔‘‘
           بس اس سے آگے وہ مزید کچھ نہیں سوچ سکے اور دھڑام سے زمین پر گر گئے۔
          گرنے سے کئی ایک جگہ چوٹیں آئیں مگر جب پاس پڑوس کے لوگوں نے انھیں اٹھایا گیا تو پتہ چلا کہ ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔
تب ان کے لئے چارپائی لگادی گئی۔
          اب اُسی چارپائی سے کچروں کے ڈھیر سے زیادہ بدبو اٹھتی تھی اور گندگی سے کہیں زیادہ مکّھیاں ان کے بدن اور چارپائی پر بھنبھناتی تھیں۔ تبھی تو ان کی بہو انھیں کھانا یوں دیتی جیسے کچرے کے ڈھیر پر کچرا پھینک کر بڑی تیزی سے دور چلی جانا چاہتی ہو۔ ان کا اپنابیٹا بھی اُن سے گندگی کے ڈھیر کی طرح کترا کر گزرتا تھا مگر مکّھیاں برابر انھیں گھیرے رہتیں۔
          بالکل غیر محسوس طریقے سے زینو چاچا کا بدن لاغر ہوتے ہوتے مکّھیوں کا حصّہ بنتا چلا گیا۔ کئی مرتبہ آتے جاتے دیکھ کر انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اکرم کو بلایا۔ ہاتھ ہلتے ہی مکّھیوں کی بھبھناہٹ ایک احتجاج بن کر اس کے کانوں تک پہنچی مگر وہ سرد آہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔
          ان سے ملنے ہی کی وجہ سے ان کی بہو بیٹے سے اس کی ان بن ہوئی تھی۔
          اکرم دو ایک دن کے ناغے سے برابر ان سے ملنے جایا کرتا تھا لیکن ایک روز جب وہ زینو چاچا کی چارپائی کے ایک کو نے پر بیٹھا ان سے باتیں کررہا تھا کہ اُس کے والدین خودمعاشی طور پربہت پریشان ہیں۔ ورنہ ان کے لئے علاج کا کچھ انتظام ضرور کرتے اور وہ تو خود ابھی کالج میں ہے۔اس کے پاس کہاں اتنے پیسے کہ وہ ان کی کچھ مدد کر سکے؟ اگر وہ چاہیں تو ان کے بیٹے کو سرکاری دواخانے میں علاج کے لئے لے جانے کو کہہ سکتے ہیں۔ وہ خودبھی ساتھ ہی رہے گا اور ۔۔۔۔۔۔
          مگردرمیان میں ہی چاچا کی بہو اندر سے تلملاتی ہوئی آئی اور برس پڑی ۔
           ’’اے اکرم ! تو مت آیا کر تو یہاں ۔۔۔۔۔‘‘
وہ ہکا بکا ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگا اور اس کی چڑھی ہوئی تیوریاں دیکھتے ہوئے بولا۔
          ’’شہناز بھابھی ۔۔۔۔کیا ہوا ؟۔۔۔۔۔ایسے کیوں بول رہی ہو؟۔۔۔۔۔”
          ” ‎بس بول دی نا ۔۔۔۔۔۔۔نہیں آنا ادھر تو نہیں آنا سمجھے ۔۔۔۔اور اتنی ہی ہمدردی ہے اگر ان سے تولے جا اپنے گھر رکھ سمجھے ۔۔۔۔۔دیکھو جی ! یہ اکرم ابّا کو تمہارے بارے میں کیا کیا بول رہا تھا ابھی۔۔۔۔۔اور میں بول رہی ہوں تو منہ چلارہا ہے مجھ سے۔۔۔۔۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ پیر پٹختی ہوئی گھر میں چلی گئی مگر علیم تیزی سے باہر نکلا ۔
          اسے دیکھ کر اکرم کا خون کھول اٹھا. جینس پینٹ، جینس شرٹ، گلے میں سنہری چین ۔ بائیں ہاتھ میں کڑا ، بال فلمی ہیرو کے انداز سے سنوارے ہوئے اپنے بالوں کو مزید سنوارتے ہوئے کہنے لگا ۔
          ’’سن اےاکرم ! دوبارہ ادھر آیا نا۔۔۔۔۔تو ہاتھ پاؤں توڑ ڈالوں گا. سمجھا کیا؟ ۔۔۔۔۔دکھائی مت دینا ادھر دوبارہ ۔۔۔۔۔سالے لڑائی لگاتا ہے باپ بیٹے میں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
           ’’کیسی لڑائی علیم بھائی ۔۔۔؟ اس نے زینو چاچا کی طرف دیکھا ۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔۔۔اکرم بس اتنا سمجھ سکا کہ اس کا زینو چاچا سے ملنا ان لوگوں کو خراب لگتا ہے ۔
          ’’ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔چلا جاتا ہوں ۔۔۔۔۔نہیں آؤں گا ۔۔۔۔۔۔چلو چاچا ۔۔۔جو غلطی ہوئی معاف کرنا ۔۔۔۔۔‘‘
اس نے جھک کر چاچا سے کہا ۔
          اکرم کی آواز بھرا گئی۔ علیم اندر چلا گیا ۔ چاچا خاموش رہے ۔عجیب سی نظروں سے اُسے دیکھتے رہے ۔ اُس نے اٹھ کراپنی چپل پہنی اور چلتے چلتے زینو چاچا کو دیکھا ۔ ان کی آنکھوں کے کناروں سے آنسو ڈھلک رہے تھے ۔اکرم کی آنکھیں بھیگنے لگیں…… اور کیوں نہ بھیگتیں ؟ وہ انہیں کی گود میں کھیل کر تو بڑا ہوا تھا ۔ حالانکہ وہ رشتے میں اس کے کچھ نہیں لگتے تھے ۔ بس پڑوسی تھے لیکن اسے بچپن میں زینو چاچا سےبہت پیار ملا تھا۔
اکرم کو اُس کے گھر والوں نے بتایا تھا کہ صبح جب اُس کی آنکھ کھلتی تو ناشتے کی بجائے زینو چاچا کا تقاضا کرتا اور ان کے لئے اتنی ضد کرتا کہ کسی کے ذریعے زینو چاچا کی گود میں پہنچا ہی دیا جاتا ۔ وہ اگر ناشتہ کر رہے ہوتے تو زانو پر بٹھا کر اپنے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے نوالے اُس کے منہ میں ڈالتے۔ ناشتے کے بعد اُس کا منہ دُھلاتے، تولیہ سے اپنا اور اُس کا منہ ہاتھ پونچھتے اور اُسے گود میں اٹھا کر ہوٹل کی طرف چل دیتے ۔
          اپنے لئے گرما گرم چائے اور اکرم لئے دودھ کا آرڈر دیتے۔ دودھ آ جانے پر چائے کا گلاس ایک طرف رکھ کر دودھ ٹھنڈا کرنے لگتے ۔۔۔۔ گلاس ہلاتے جاتے ۔۔۔اور اُس میں پھونک بھی مارتے جاتے۔ حالانکہ وہ بہت گرم چائے پینے کے عادی تھے مگر دودھ ٹھنڈا کرنے کے چکّر میں اُن کی چائے بھی ٹھنڈی ہو جاتی ۔ جب وہ ٹھنڈا ہوجانے والا دودھ اُسے پلا دیتے تو چائے ان کے انتظار میں پانی ہو جاتی ۔ وہ اسے ایک ہی سانس میں پی جاتے ۔
        جب ہو ٹل سے واپس آ کر زینو چاچا اکرم کو اُس کے گھر والوں کے سپرد کرتے تو وہ ان سے چمٹ جاتا۔ ان کے کپڑے، داڑھی، کان، ناک یا سر کے بالوں میں سے جو بھی ہاتھ آجاتا اسے مضبوطی سے جکڑ لیتا مگر جیسے تیسے وہ اُسے گھر والوں کو سونپ کر پاورلوم کارخانے کی جانب چل دیتے اور اکرم اُن کے لیے روروکر پورا گھر سر پر اٹھا لیتا تھا لیکن آج زینو چاچا کو دیکھنے کے بعد ایک سرد آہ بھر کر بوجھل قدموں سے اُسے آگے بڑھ جانا پڑا۔ ایسا لگتا جیسے ان کے اطراف کی مکھیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہو اوراُس ذہن کے سوالیہ نشانات بھی اتنی ہی تیزی سے پھیلتے جارہے ہوں۔
          “۔۔۔۔۔کہاں دیکھی ہے اتنی مکھیاں میں نے ؟۔۔۔۔کہاں ہے ؟؟۔۔۔۔۔کچڑے کے ڈھیر پر ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟؟؟۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر ؟؟؟؟؟ مگر جواب میں سوالیہ نشانات ذہن میں پھیلتے چلے جاتے۔
ایک دن جب اکرم ادھر گیا تو زینو چاچا کی چارپائی سے مکھیوں کے بھنبھنانے کا شور نہیں اٹھا ۔اُن کا جنازہ ہی اٹھ گیا ۔۔۔وہ جنازے کے ساتھ ساتھ تھا ۔
جنازے کو چاروں طرف سے دیکھ چکا تھا ۔ مکھیوں کا کہیں پتہ نہیں تھا مگران کی بھنبھناہٹ برابر اُس کے ذہن میں گونج رہی تھی ۔وہ جنازے کو کاندھا دے رہا تھا۔ مکھیاں ان کے جنازے کے ساتھ نظر نہیں آرہی تھیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بے شمار مکھیاں اُس کے ذہن میں بھنبھناتی ہوئی رینگ رہی ہوں ۔
         رینگتی بھنبھناتی مکھیوں کو اپنے ذہن میں لئے لئےاکرم جنازے سے آگے بڑھ گیا۔قبرستان قریب آگیا ۔ وہ جنازے سے آ گے بڑھتا گیا ۔ اچانک مکھیوں کی بھنبھنانے کا وہی شور اکرم کے کان کے پردوں سے ٹکرایا ۔ اُس نے فوراً پلٹ کر جنازے کی طرف دیکھا زینو چاچا کا جنازہ ان کے بیٹوں کے کاندھوں پر تھا ۔مگر مکھیاں وہاں نہیں تھیں۔ اُس نے مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرف دھیان دیا اور نظر گھما کرقبرستان کی دیوار کی طرف دیکھا۔ رس نکالنے والی مشین سے گنے کا سارا رس نکال کر گنّے کے تقریباً سوکھ جانے والے پھوگ کو ایک آدمی پہلے سے پڑے پھوگ کے ڈھیر پرپھینک رہا تھا جس پر بے شمار مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔

(ختم شد)


اس افسانے کو پڑھ کر زندگی کی زنجیر کو سمجھیں🔽

18 comments:

  1. بہت خوب طاہر انجم صدیقی صاحب.. افسانہ بھی اور تبصرے بھی بہت خوب رہے.. عمران جمیل

    ReplyDelete
  2. سلیم سرفراز (عالمی افسانہ فورم)September 7, 2023 at 2:37 PM

    میلے کے آغاز پر نیک خواہشات.
    افسانہ عمدہ اور پراثر ہے ـ پختہ زبان وبیان کے ساتھ عمدہ منظر نگاری و جزیات نگاری. اختتام خوب ہے. میلے میں شرکت کے لیے مبارکباد

    ReplyDelete
  3. زارا مظہر (عالمی افسانہ فورم)September 7, 2023 at 2:38 PM

    بہت عمدہ افسانہ ۔۔۔بلکہ ایک انسانی المیہ ۔۔ ایسے کئی المیے ہمارے ارد گرد سسک رہے ہیں ۔۔ مگر مصنف کے تخیل نے ایک فن پارہ تراشا ہے ۔۔۔ کہیں کہیں مقامی زبان کی آ میزش نے افسانے کو مزید مضبوط تحریر بنا دیا ۔۔۔ مبارکباد ۔

    ReplyDelete
  4. سیدصداقت حسینSeptember 7, 2023 at 2:39 PM

    سماج میں محبتوں کا اطلاق روپے پیسے دھن دولت دیکھ کر ہوتا ہے ۔ ایسے ہی نا پسندیدہ رویوں پر طنز کرتا ہوا ایک افسانہ ۔

    ReplyDelete
  5. جی. حسین (عالمی افسانہ فورم)September 7, 2023 at 2:40 PM

    جناب ایڈمن!
    افسانہ میلے کے بروقت انعقاد پر مبارکباد قبول فرمائیے!
    افسانہ نمبر 1 لکھنے کے بعد افسانے کا نام نظر نہیں آیا۔
    "مکھیاں" ازاں طاہر انجم صدیقی صاحب۔ آغاز میں ایک ایسا افسانہ سامنے آیا جسے کردار اساس افسانہ قرار دیا جا سکتا ہے۔ سماج میں انسانی زندگی سے کسی سادہ ترین بات پر پلاٹ کھڑا کر کے کہانی کی عمارت اسارنا آسان نہیں ہوتا۔ فاضل مصنف نے نہایت ہوشیاری سے اختتام کو چھپا کر رکھا اور مکھیوں کو پہلے کہاں اتنی بڑی تعداد میں دیکھا تھا۔۔۔کی تکرار نے تجسس کے عنصر کو مہمیز کیا اور یہی اس سادہ سی لیکن پر اثر کہانی کا۔۔۔میرے نزدیک۔۔۔کامیاب ترین پہلو ہے۔
    للہ میں سمجھ رہا تھا کہ اختتام پر lynching کے بعد کسی لاش پر مکھیاں بیٹھی ہوئی ملیں گی۔۔۔لیکن حیرت کا پہاڑ تب گرا جب فاضل مصنف نے انسانی زندگی کے چکر کو گنے، اس کے رس اور پھوگ سے جا ملایا۔ بہت حد تک یہ تلخ ترین سچائی ہی ہے۔ وہ جھونپڑی کے آگے بدبودار زینو ہو یا ٹالکم پاوڈر کی خوشبو میں صاف بستر پر پڑا سیٹھ حنیف ہو ۔۔۔ آخر کار پھوگ ہی میں بدل جاتا ھے۔۔۔یہی اس انسانی زندگی کا المیہ ہے۔ میں فاضل مصنف کو گنے کی مشین سے نکلتے رس اور گنے کا پھوگ میں بدل جانے کے مشاہدے سے ایک افسانہ تخلیق کر دینے پر دلی مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
    سلامتی ہو 😊

    ReplyDelete
  6. افضال انصاری (عالمی افسانہ فورم)September 7, 2023 at 2:41 PM

    ایک اچھے افسانے سے اس عالیشان ایونٹ کا آغاز ہوا ۔
    افسانے کے عنوان سے یوں لگا جیسے یہ کوئی مکمل علامتی افسانہ ہوگا لیکن مکمل تو نہیں نیم علامتی کہا جاسکتا ہے اور جس چابکدستی سے قلمکار نے مکھیوں کو بطور ایک علامت کے برتا ہے اس کی داد دیتے بنتی ہے ۔
    ابتداء سے ہی تجسس کی ایک لہر کشاں کشاں کلائمکس تک لے گئی جہاں ایک قطعی غیر متوقع لیکن انتہائی پر اثر کلائمکس موجود تھا ۔
    ایسے المیے ہمارے آس پاس اکثر و بیشتر نظر آتے ہیں لیکن قلمکار کے حساس دل نے جس شدت سے اسے محسوس کیا اس درد کو مکمل طور سے کاغذ پر منتقل کرنے میں کامیاب رہے ۔

    عنوان کے لیے خصوصی داد...

    قلمکار کو مبارکباد اور ساتھ ہی ساتھ انتظامیہ کا خصوصی شکریہ کہ ایونٹ کی شروعات مالیگاؤں کے قلمکار سے کی ۔
    ایونٹ کے لیے نیک خواہشات

    ReplyDelete
  7. کوثر بیگ. عالمی افسانہ فورمSeptember 7, 2023 at 2:42 PM

    ماشاءاللہ
    میلہ کی شروعات ایک متاثر کن عمدہ افسانہ سے ہوئی ہے ۔ آخری کی دو لائن میں پوری کہانی بڑی خوبی سے سمائی ہے ۔
    بہت بہت مبارک باد پیش ہے پہلی تحریر کےلئے

    ReplyDelete
  8. زندگی کا رس ختم ہو جائے تو پھوگ پر مکھیاں ہی بھنبھناتی ہیں ایک سماجی اور انسانی المیے پر لکھی گئی کہانی جو احساس سے لبریز ہے مبارکباد

    ReplyDelete
  9. فرحین جمال : عالمی افسانہ فورمSeptember 7, 2023 at 2:44 PM

    " مکھیاں"

    میلے کا آغاز ایک اچھے اور پر اثر افسانے سے ہوا _ زینو چاچا کی زندگی کی بہت عمدہ عکاسی کی گئی زندہ تھے تو پاور لوم کا کارآمد پرزہ بنے رہے اور بڑھاپے میں بے کار ،نا کارہ جان کر کچرے کے ڈھیر پر پھینک دیا گیا _ "مکھیاں " ایک اچھی علامت کے طور پر استعمال کی گئیں کیونکہ وہ جس چیز پر بھی بیٹھتی ہیں اسکا عرق چوستی ہیں اور بیٹوں نے بوڑھے بدن سے تمام عرق چوس کر خالی ڈھانچہ کندھوں پر اٹھا کر قبر میں اتارا ..
    بہت خوب ..

    ReplyDelete
  10. عائشہ فرح : عالمی افسانہ فورمSeptember 7, 2023 at 2:45 PM

    ایونٹ کے آغاز پر تمام ایڈمن صاحبان کو دلی مبارکباد ۔۔
    پہلا افسانہ اپنے عنوان کے ساتھ ہی دلچسپ لگا۔جس میں افسانہ نگار نے انسانی زندگی کےسفاک حقیقت کو پیش کیا ہے۔
    افسانے میں مکھیوں کی بھنبھناہٹ ،کہا ں دیکھا،؟۔۔یہ سوال قاری کے ذہن میں مخلتف اندازے ،سوچیں پیدا کرتا ہے۔لیکن افسانہ نگار نے اختتام میں رس نکالے گنے کے چھلکوں پر مکھیوں کی بھنبھناہٹ "سے اپنے تخیل کو جوڑ دیا ہے ۔ جو انسانی زندگی اور رشتوں کی بے حسی کا منہ بولتا ثبوت یے۔جس طرح گنے سے اس کی ساری مٹھاس لینے کے بعد کچرے کے ڈھیر پر مکھیوں کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے اسی طرح انسان سے بھی اس کی پوری مٹھاس چھیننے کے بعد مکھیوں کے لیے کچرے کی طرح پھینک دیا جاتا ہے۔۔
    میرے خیال میں افسانے کا انجام ہی اس افسانے کی کامیابی ہے۔
    افسانہ نگار کو بہترین موضوع کے انتخاب اور بہترین پیشکشی پر دلی مبارکباد ۔۔
    ایونٹ میں پہلے افسانے کے ساتھ شامل ہونے پر بھی مبارکباد اور نیک خواہشات

    ReplyDelete
  11. صبیحہ گیلانیSeptember 7, 2023 at 2:46 PM

    علامتی اختتام
    اچھی تحریر
    زینو چاچا اکثر افسانوں کا کردار ہے سو نام بدل لیتے تو زیادہ اچھا تھا. کیپ اٹ اپ

    ReplyDelete
  12. مدثرملک: عالمی افسانہ فورمSeptember 7, 2023 at 2:47 PM

    اس میلے کا آغاز بہت اچھے افسانے سے کیا گیا. .کہانی کی سادگی میں ہی اس کا حسن تھا. .اور اسی حساب سے کہانی کی بنت کی گئی جو خوب ہے. . کہانی میں تجسس کا پہلو ڈالنے کے لئے جو تکنیک استعمال کی گئی وہ بھی قابل تعریف ہے. مجموعی طور پر ایک سادہ کہانی کو علامتی رنگ دیا گیا اور میں اسے بہت اچھی کاوش کہوں گا. . شاد رہیں. .

    ReplyDelete
  13. شہریارقاضی : عالمی افسانہ فورمSeptember 7, 2023 at 2:48 PM

    بہت عمدہ افسانہ، جس کے اختتام نے اسے یادگار بنا دیا

    ReplyDelete
  14. بختاور فہمی: عالمی افسانہ فورمSeptember 7, 2023 at 2:49 PM

    علامتی رنگ میں رنگا عمدہ افسانہ، پلاٹ، تھیم اور حقیقی پس منظر میں تحریر درج بالا افسانہ پڑھتے پڑھتے شہر مالیگاؤں کا تصور ابھر آیا، چونکہ دو مرتبہ ادبی شہر مالیگاؤں جانا ہوا، واقعی افسانہ نگار نے کیا ہی زبردست منظر نگاری کی ہے، پاورلوم کارخانہ، پاورلوم مزدور، اور کام میں مشغول مزودورں کے سر بال وغیرہ میں کپڑوں کی بُنائی کے دھاگے و کپاسی لگنا ، گاؤں میں ہر جگہ کھاٹ ،۔۔۔۔
    اور قبرستان، باہر قبرستان کی دیوار سے لگ کر ہی گنّے کے جوس کی دُکانیں وغیرہ وغیرہ سب آنکھوں دیکھا ہے، افسانہ پڑھ کر قیام کے وہ دِن یاد آگئے۔۔۔

    افسانہ نگار طاہر انجم سر نے مکھی ، مکھیوں کی بھنبھناہٹ پھر گنّے کی علا مت کا خوبصورت استعمال کر کے افسانے میں جان ڈال دی ہے۔۔۔
    ایک اچھا بہترین عمدہ افسانے کے لئے مبارکباد نیک خواہشات
    🌺🌷🌹

    ReplyDelete
  15. سیدحسن قیام رضا: عالمی افسانہ فورمSeptember 7, 2023 at 2:50 PM

    میلے کا پہلا افسانہ دیکھ کر خوشی ہوئی ،اور اس بات سے بھی کہ میلہ کا پہلا افسانہ مالیگاؤں کی نمائندگی کررہا ہے ۔افسانہ دلچسپ ہے اور رواں ہے سوالیہ نشانات بہت زیادہ ہیں افسانہ نگار کو بہت بہت مبارکباد ۔

    ReplyDelete
  16. حناحورین: عالمی افسانہ فورمSeptember 7, 2023 at 2:51 PM

    بہت خوبصورت افسانہ۔۔۔۔سماج کی سفاکیت ظاہر کرتا ہوا۔۔
    اور آخری لائنز کے لیے جتنی داد دی جاۓ کم ہے۔۔۔

    ReplyDelete