مسجد کی فریاد
طاهر انجم صدیقی
اے عید الفطر ! میں مسجد ہوں، سن آواز تو میری
گیا رمضان ، تو آئی ، مسرت ساتھ میں لائی
تری آمد سے تو بستی میں یوں مسلم سبھی خوش ہیں
سبھی اطفال خوش ، بوڑھے بھی خوش اور نوجواں خوش ہیں
مگر آمد سے تیری میں بہت افسردہ خاطر ہوں !
غموں سے رورہی ہوں اور دکھ سے میں تڑپتی ہوں !
کہ جب تک تو نہ آئی تھی مرا رمضاں تھا اور میں تھی
نمازی کے قدم پا کر میں ہر دم شاد رہتی تھی !
اذانیں سن کے میری سمت کتنے لوگ آتے تھے!
تلاوت کرتے جاتے تھے، نمازیں پڑھتے جاتے تھے!
تری آمد سے پہلے ماہِ رمضان میں یہ حالت تھی
بہت ہی شاد رہتی تھی کہ میں آباد رہتی تھی
مگر تو نے تو آکر بحرِ غم میں ہے مجھے ڈالا
جو میں آبا رہتی تھی مجھے ویران کر ڈالا
نمازی اتنے کم آتے ہیں کہ دوصف کے لالے ہیں!
کہاں رونق تھی مجھ میں اور کہاں مکڑی کے جالے ہیں!
مسرت کا مری تو نے بتا کیوں قتل کر ڈالا ؟
کہ میں آبا د ر ہتی تھی مجھے ویران کر ڈالا
فقط اپنی خوشی کے واسطے ایسا کیا تو نے ؟
رہ مسجد سے مسلم کو ہے کیوں بھٹکا دیا تو نے ؟
تھا بہتر اس سے تیرے حق میں تو واپس چلی جاتی
صلہ اس کا تجھے ملتا خوشی بھی ڈھیر سی پاتی
مگر افسوس ! عید الفطر ! صد افسوس ! صد افسوس !
تری قسمت پر اور تقدیر مسلم پر ہے صد افسوس !
کہ میں ویراں رہوں گی جب تلک رمضاں نہ آئے گا
مسلمان فکر میں دنیا کی ، عقبٰی بھول جائے گا
نعت، حمد اور مناجات تینوں کا لطف ایک ہی کلام میں ضرور پڑھیں. 🔽
میں تری حمد لکھوں اور تو مجھے نعت سکھا