Translate ترجمہ

Showing posts with label طنزومزاح کے شاعر بدرالدین بادلؔ. Show all posts
Showing posts with label طنزومزاح کے شاعر بدرالدین بادلؔ. Show all posts

Monday, July 17, 2023

طنزو مزاح کے شاعر: بدرالدین بادل ؔ

 طنز و مزاح کے شاعر بدرالدین بادل

 اشعار اور حالات کے آئینے میں

 (از قلم: طاہر انجم صدیقی)  


   مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ مالیگاؤں کے فتح میدان  میں مشاعرے کا اسٹیج سجا ہوا تھا. شہنشاہِ نظامت ثقلین حیدر اپنی نشست پر براجمان تھے. وہ مشاعرہ گاہ میں موجود سامعین کے شور سے تنگ آچکے تھے. فعلن فعلن کے وزن کے ساتھ مسلسل ایک شاعر کا نام مشاعرہ گاہ میں گونج رہا تھا. انہوں نے اپنی نشست چھوڑ دی اور کھڑے ہو کر مائک سنبھالتے ہوئے کہنا شروع کیا.

  "یہ "آلا بالا" اور آم چھو نیم چھو" کیا ہے؟ میں نہیں جانتا .

    (ایک تذکرہ یہ بھی سنا ہے کہ 'آم چھو نیم چھو' سے چِڑ کر خدا جانے منہ ہی منہ میں کیا پڑھ کر ثقلین حیدر نے مائک پر" چھو" کیا کہ بڑی دیر تک مائک ہی بند رہا. ساؤنڈ والے نے اسے آن کرنے کی بہت کوشش کی لیکن  ناکام رہا. دوبارہ ثقلین حیدر نے مائک پر آکر "چھو" کہا تو مائک آن ہو گیا. اگر اس تعلق سے آپ میں سے کسی کو کچھ علم ہوتو کمنٹ میں تصدیق کریں. نوازش ہوگی.)

   مائک دوبارہ آن ہوا تو ثقلین حیدر گویا ہوئے. 

   "آپ بضد ہیں تو آپ کے لیے انہیں دوبارہ آواز دے رہا ہوں آئیے بادل صاحب!" 

    وہ بادل صاحب کوئی اور نہیں بلکہ بدرالدین بادل تھے. وہی بدرالدین بادل جن کا "آم چھو نیم چھو" اور "آلا بالا مکڑی کا جالا" بہت سے سنجیدہ افراد پسند نہیں کرتے تھے. میں نے آج اسی بدرالدین بادل پر قلم اٹھایا ہے. 

   بھلا ہو خیال انصاری صاحب کا کہ انہوں نے بدرالدین بادل پر قلم اٹھانے پر اکسانے کے لیے مجھ سے ملاقات کی اور دریافت کیا کہ کیا میں نے بادل پر مضمون لکھا ہے؟ 

   میں نے کہا "نہیں!"

   اور سبب بھی بتا دیا کہ ان کے اشعار میرے پاس نہیں ہیں. میرے منہ سے اتنا نکلتے ہی خیال انصاری صاحب کا ہاتھ ان کی زنبیل میں چلا گیا اور جب باہر آیا تو ڈاکٹر شاہینہ پروین صدیقی کی ترتیب و تدوین کے نتیجے میں شائع ہونے والی کتاب "بادل کی مزاحیہ شاعری" میرے حوالے کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

   "لیجیے! بادل کی کتاب حاضر ہے."

     گھر پہنچ کر میں نے کتاب کا مطالعہ کرنا شروع کیا. مطالعہ سے پہلے ہی میں یہ جانتا تھا کہ بادل روپیوں پیسوں سے بڑے غریب شاعر تھے لیکن وہ ہنسی، مسکراہٹ اور خوشیوں کے موتی لٹانے میں بڑے امیر کبیر واقع ہوئے تھے. یہی وجہ ہے کہ مشاعروں کے سامعین جب بدرالدین بادل کا نام سنتے تھے تو وہ بیساختہ ہنسنے پر مجبور ہو جاتے تھے. ان کی بانچھیں کِھل جایا کرتی تھیں اور وہ اپنے بچپن کے کھیل کھیل میں بغیر کچھ سمجھے گائے جانے والے گیتوں کے بولوں کی بنیاد پر بادل کی منظومات سننے کو تیار ہوجایا کرتے تھے.

   استادِ محترم ڈاکٹر الیاس صدیقی کے مطابق اگر بادل چاہتے تو مزید تھوڑی سی تعلیم حاصل کرکے کسی اسکول میں درس و تدریس سے وابستہ ہوجاتے لیکن گھر کے حالات اور گھر والوں میں شعور کی پختگی کی کمی کے سبب وہ دسویں جماعت تک ہی تعلیم حاصل کرسکے ۔ علم کی دنیا سے نکل کر وہ ابھی عملی زندگی کا ٹھیک طرح سے خاکہ بھی نہیں بنا سکے تھے کہ زندگی کی ضرورتوں نے انھیں اپنے شکنجوں میں جکڑ کر پاور لوم کی گھڑگھڑاہٹ کی طرف گھسیٹ لیا. وہ ایک مرتبہ پاور لوم سے منسلک ہوئے تو پھر اس برزخ سے باہر نکل ہی نہیں سکے. 

   جس طرح بادل کے والدین بادل کے علاوہ اپنی کسی اور اولاد کو اچھی تعلیم نہیں دلا سکے تھے بالکل اسی طرح بادل بھی صرف اپنی ایک بیٹی کو ہی تعلیم کے زیوروں سے آراستہ کر سکے. غالباً یہی سبب ہے کہ وہی تعلیم یافتہ بیٹی خود بادل اور بادل کے گھر والوں کے لئے رحمت ثابت ہوئی.

   میں نے "بدرالدین بادل کی مزاحیہ شاعری" کے مطالعے کے بعد یہ جانا ہے کہ ان کی شاعری میں حالات کی کڑھن، کسم پرسی کی چبھن صاف طور پر محسوس کی جاسکتی ہے بلکہ بعض مقامات پر تو بادل کے اشعار چیختے چلاتے محسوس ہوتے ہیں. 

   بادل نے "آم چھو نیم چھو" اور "آلا بالا مکڑی کا جالا" جیسی منظومات میں مزاح کے پہلو میں طنز اور درد بھی کو بھی چھپا دیا ہے. ان کی ایسی منظومات کے تعلق سے استاد محترم ڈاکٹر الیاس صدیقی نے مذکورہ کتاب میں یوں لکھا ہے:

   "بچپن میں گلی محلوں میں دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے جو انوکھے بول والے چھوٹے چھوٹے گیت بادل نے گائے یا سنے تھے انھیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس نے استائی اور سنچائی میں تبدیل کرکے ایسے معنی خیز اور ترنم ریز گیت لکھے جو اس کی بے پناہ مقبولیت اور ہر دل عزیزی کا سبب بن گئے."

   ڈاکٹر الیاس صدیقی کی اس بات پر یقین کرنے کے لئے بادل کی کتاب کے پہلے گیت" آلا بالا مکڑی کا جالا" کو دیکھیں:

   اس گیت کا بول وہ بول ہے جب بچے ایک دوسرے کا کان پکڑ کر بیٹھتے ہیں اور جھوم جھوم کر ایک لے کے ساتھ گاتے ہیں. بادل نے گیت کا عنوان وہیں سے اٹھایا ہے اور کم عمری کی طویل العمر پیروڈی کر دی ہے لیکن اس پیروڈی میں بچپن کی معصومیت نہیں ہے. بچپن کا بھولا پن نہیں ہے بلکہ اس گیت میں غمِ جان بھی ہے اور غمِ جہان بھی ہے. 

   اس گیت کے تعلق سے صاف طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بادل گر چہ ایک غریب اور پاور لوم سے لوہا لے کر اپنا رزقِ حلال کشید کرنے والے شاعر تھے لیکن ان کی نظر شہر مالیگاو ¿ں کی نبض بن کر پھڑکنے والی صنعت کے اتار چڑھاو ¿ اور باریکیوں پر بھی تھی. غالبا یہی سبب ہے کہ ان کے اس گیت میں ایل پی اور کاونٹ جیسی کاروباری اصطلاحات موجود ہیں. دیکھیں:

   کم پونجی میں دھندہ کیا ہے

   سوت کا ایل پی ہم نے بھرا ہے

   پہلے سٹ میں نکلا دیوالہ 

   آلا بالا مکڑی کا جالا 

   بادل نے اس بند میں شہر مالیگاؤں کے پاور لوم بنکروں کی کم سرمائے کے ساتھ کاروبار شروع کرنے کی علت کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کے نقصان کی طرف بھی متوجہ کیا ہے. وہ بتانا چاہتے تھے کہ اس طرح جس بیوپاری سے خام مال لیا جائے گا اس کو اس کی قیمت وقت پر نہ ادا کی جائے تو ہرجانے کے طور پر وہ مزید رقم طلب کرے گا اور دیر سے ادائیگی پر ایل پی نام سے جرمانے کی رقم بھی بھرنی پڑے گی. 

   مطلب یہ ہے کہ بادل پاور لوم مزدور ہوتے ہوئے بھی اس باریکی کو جان گئے تھے کہ مضبوط سرمایہ کاری سے گھن کی طرح کھا جانے والی دیمکوں سے بچا جاسکتا ہے اور دو پیسے کمائے جا سکتے ہیں.

   دوسرے بند میں وہ یوں فرماتے ہیں:

   کاو ¿نٹ میں ایسی مار پڑی ہے

   سائزنگ کے مالک سے بک بک ہوئی ہے

   ہوگیا سارا گڑبڑ گھوٹالا

   آلا بالا مکڑی کا جالا

   اتنا ہی نہیں بلکہ بادل نے اس ایک نظم میں پاور لوم صنعت پر چھانے والی مندی، اس کے نقصانات، مقادم، میتھا اور ٹیکسٹائل کے علاوہ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی وغیرہ کو بھی شامل کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض پاور لوم مزدور نہیں تھے بلکہ وہ اس صنعتِ پارچہ بافی کی باریکیوں، وسائل اور مسائل تک سے واقف تھے. 

   بادل کا دوسرا گیت "انتا منیا کوڑی روپیا" وہ گیت ہے جب مالیگاوئں کے گھروں کے بڑے یعنی والدین، بھائی، بہن، چاچا اور چاچی وغیرہ گھر میں موجود چھوٹے بچے کو اپنے پیروں پر جھولے کی طرح جھولاتے ہیں اور یہی گیت گاتے ہیںلیکن جب بادل نے اس گیت کے بول کو اپنے گیت میں جگہ دی تو گھر کے بڑوں کو موضوع کیا. انہوں نے اس گیت میں مسلم سماج میں پھیلی برائیوں پر خوب طنز کیا ہے. گیت کا بند دیکھیں:

   کاندھے سے کاندھا چھِلتا ہے دیکھو

    دھکّے پہ دھکّا لگتا ہے دیکھو

    کتنے مگن ہیں بھوجی اور بھیا

    انتا منیا کوڑی روپیا

    یہ سماج کی اس برائی کی طرف اشارہ ہے جب میلے میں گھومنے والے لوگ مختلف قسم کی چھیڑخانیوں کا شکار ہوتے ہیں. ایسے مقام پر مرد و زن کا پہنچنا شہر مالیگاو ¿ں میں قابلِ اعتراض سمجھا جاتا ہے. نظم کے مذکورہ بالا بند میں بادل نے اسی طرف اشارہ کیا ہے لیکن آگے چل کر نوجوان لڑکیوں کا جترا میں جانا، مسلم خواتین کا فلم بینی کے لیے سنیما کا رخ کرنا، عورتوں کا دوکانوں پر خریدی کے لیے جانا اور میچنگ اوڑھنی کے نام پر بازاروں کی زینت بڑھانا بھی بادل کو نہیں بھاتا تھا. انہوں نے مردانہ غیرت پر چوٹ کرنے والے کئی بند اس نظم میں شامل کیے ہیں.

    اس کے بعد کی نظم "تیر پہ تیر" میں پیری فقیری کی آڑ میں چھرخانیاں کرنے، سیاستدانوں کے عوام کو جھوٹے خواب دکھا کر الّو بنانے کے طرف اشارہ کیا گیا ہے جبکہ "آندھی بوندی آوت ہے" آسمان میں اڑتے پھرنے والے بادلوں کی گرج کے بعد جب آسمان سے ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوتی ہے تو بچوں کا من خوشی سے مور بن جاتا ہے۔وہ بیساختہ گھروں سے باہر بھاگ نکلتے ہیں. کھلے آسمان کے نیچے جمع ہوتے ہیں اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے دونوں ہاتھ کھول کر ایک ہی جگہ پر بار بار گھوم گھوم کر

"آندھی بوندی آتی ہے چڑیا ڈھول بجاتی ہے"

گانے لگتے ہیں. وہ ماحول بڑا پیارا لگتا ہے. شاید آسمان کو بھی ان معصوم بچوں کا جھوم جھوم جانا، مسرور کن انداز میں اوپر دیکھتے ہوئے گانا بھلا لگتا ہے ہے اور وہ اپنی بانہیں کھول کر ان بچوں پر تصدق کے موتی نچھاور کرنے لگتا ہے. 

    بادل نے اسی ماحول سے” آندھی بوندی آوت ہے“ کواٹھا کر اپنی نظم کا عنوان کیا ہے اور نظم میں امیروں کی کنجوسی، احسان جتانے، شادی بیاہ میں کھانا پکانے والوں کا بغیر کسی کی اجازت سے ایک بڑی ٹوکری بھر کھانا اپنے گھر بھیج دینے کی برائی، بچوں کی کہانی سے دوری اور ٹی وی سے قربت کی طرف بادل نے طنز بھرے اشارے کیے ہیں.

   لکھنے کو تو بادل کی منظومات پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے. اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی منظومات میں موجود غیرمعروف بول بھلے ہی اردو والوں کے لیے بے معنی ہوں لیکن ان بے معنی بولوں کی بنیادوں پر کھڑی منظومات میں بڑی معنی خیز باتیں موجود ہیں. حالانکہ ان غیر معروف بولوں سے کم از کم مالیگاو ¿ں والے تو نابلد نہیں ہیں بلکہ اکثر لوگوں نے بچپن میں ان غیر معروف بولوں کو گنگنایا اور ان پر جھوم جھوم کر گایا ہوگا لیکن مضمون کی طوالت کے خوف سے بدرالدین بادل کی بقیہ منظومات سے صرفِ نظری کر کے ان کی ہزلوں کی طرف رجوع ہونا مناسب سمجھتا ہوں.

   چونکہ بادل جیسا مشاعرہ لوٹ لینے والاشاعر موضوع ہے اس لیے مشاعروں کا تذکرہ ہوجانا بھی موزوں ہے۔

اردو مشاعرہ اور مشاعرے کے تبدیل ہوتے ہوئے ماحول سے جو لوگ واقفیت رکھتے ہیں انھیں اس بات کا علم بھی ضرور ہوگا کہ مشاعرہ گاہوں میں آواز کی پٹری پر غزل کے دوڑنے کا آغاز ہوا تو پھر دوڑ تھمی ہی نہیں. اسی بھاگ دوڑ کے سبب تہت اللفظ کی اچھی خاصی معیاری آوازیں لوگوں کو سنائی نہیں دیں. اب یہ الگ بات ہے کہ کچھ شعراءکے گلے کے ساتھ ساتھ ان کے اشعار بھی اچھے ہوتے ہیں. 

   یہی شکایت بدرالدین بادل کو بھی تھی. حالانکہ وہ اچھی طرح سنے جاتے تھے لیکن ایک حساس دل رکھنے والا شاعر اگر خود مشاعرہ گاہوں کے ماحول میں گردش کرنے والی باتوں کو محسوس نہ کرے تو بھلا اس کی حسیت پر سوالیہ نشان کیوں نہ عائد ہو؟ 

   یہی سبب ہے کہ بدرالدین بادل کو ذیل کا شعر وضع کرنا پڑا:

بڑے بے تکے شعر کہہ ڈالے بادل

ترنم کا جادو جگانا پڑے گا

ان کے کہنے کا صاف اور سیدھا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ بے تکے اور خراب اشعار کو ترنم کے توسط سے مشاعروں میں پڑھا جا سکتا ہے. 

   اسی شکایت کو بادل اپنے دوسرے شعر میں ذرا الگ انداز سے بیان کیا ہے. دیکھیں:

   کل کے مشاعرے میں تو قوال ہی چلے

   بادل تو ٹھیک بارہ بجے اپنے گھر گیا

   بادل صرف اتنا کہہ کر ہی خاموش نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے بہت ہی اونچی اور کان پھاڑ آواز میں کلام پڑھنے والوں کو بھی یوں چھیڑا ہے. دیکھیں:

   چیختے ہیں بے طرح کچھ شاعرِ بے س ±ر یہاں

   شہر سے اب دور قبرستان ہونا چاہیے

   وہ بے سرے شاعروں کی کان پھاڑنے والی آوازوں سے گھبرا کر مُردوں کے اپنی قبروں سے نکل بھاگنے کا مزاحیہ تذکرہ کرتے کرتے خراب گلے والے شعرا سے رحم کی درخواست کرتے نظر آتے ہیں. 

   اپنے ہی کلام کا اپنی ہی مریل سی آواز سے قتل کرنے والے شعرا پر طنز کا نشانہ سادھتے ہوئے بادل نے یہ شعر پیش کیا ہے. 

   حد تو یہ ہے کہ آج گونگے بھی

   چند اشعار لے کے آئے ہیں

   کیونکہ پہلے تو نہایت نحیف و نزار آوازوں پر کان لگا لگا کر اشعار سننا ہی خود پر ظلم تھا اب جن کو خود قدرت نے آوازیں ہی نہیں دی ہیں ان کو مشاعروں کی زینت بنانے کی حرکتیں دیکھنے میں آتی ہیں. بادل اسی پر معترض ہیں۔

   آگے چل کر بادل نے شاعروں کے درمیان موجود متشاعروں کی لعنت پر باکل ہی واضح انداز سے احتجاج کیا ہے. دیکھیں:

   تیس دنوں میں ایک غزل تو دیتے ہو

   روزانہ دس بارہ چائے پلاوں کیا؟ 

   اور متشاعروں کی غزلیں لکھوا لینے کی ڈھٹائی پر بھرپور طنز کیا ہے.

   اتنا ہی نہیں بلکہ شعرا کی شعر سنانے کی عادت پر بھی چوٹ کرتے ہوئے انہوں نے یوں کہا ہے:

   آج اک شعر بھی سنانا نہیں

   اتنا احسان شاعرو! کر دو!

   جب بادل جیسے شاعر نے خود اپنی ہی دنیا کے درویش ہوتے ہوئے اس پر تنقیدی نظر ڈالی تھی تو بھلا شعرا کی دنیا کے باہر وہ کیوں نہیں جھانکتے؟

   بادل نے صرف اس دنیا کو جھانک کر نہیں دیکھا ہے بلکہ بہت اچھی طرح دنیا کا جائزہ لیا تھا.

   دیکھیں کہ انہوں نے ابتدا پڑوس سے کی تھی.

   بے پردگی تو حد سے تجاوز ہی کر گئی

   بادل ہیں "محوِ ٹی وی" پڑوسن کے ساتھ ساتھ

   اس شعر میں ”لفظ ِ ٹی وی“ کو واوین کیا گیا ہے. شاید ان کو معلوم ہوگا کہ اس اضافت پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے لیکن طنز و مزاح کے نام پر شاید درگزر سے کام لیا جا سکتا ہے. 

   جب بہت زیادہ ٹی وی اینٹینا گھروں کی چھتوں پر آویزاں ہونے لگے تھے تب ڈشوں کی آمد آمد ہوئی تھی اور مختلف النوع ٹی وی چینلوں کے لیے یہی ٹی وی اینٹینا لوگوں کو ناکافی محسوس ہونے لگے تھے. تب گھروں کی چھتوں پر ہونے والی تبدیلیوں کو اپنے ماتھے کی آنکھوں سے دیکھ کر بادل کا ماتھا یوں ٹھنکا تھا:

   کبھی تھا ناز اہلِ شہر کو جن خاندانوں پر

   خصوصی چھتریاں ہیں نصب اب ان کے مکانوں پر

   پھر اس کے بعد فلمی اداکاروں کی مداحی کے دور کا زور بھی بادل سے مخفی نہیں تھا. انہوں نے علامہ اقبال سے استفادہ کرتے ہوئے یوں احتجاج درج کرایا تھا:

   ہوئے گِرویدہ شاہ رخ خان، جوہی چاو ¿لہ کے وہ

   بسیرا کیا کریں گے وہ پہاڑوں کی چٹانوں پر؟ 

   اس کے بعد سماج کا ایک المیہ بھی بادل سے چھ ±پا ہوا نہیں تھا. انہوں نے اسے یوں بیان کیا ہے:

   ہم نے تھیٹر میں دیکھی "ڈوائن لَوَرس"

   ایک ہی صف میں تھے، کل پسر اور میں

   ایک شاعر جو سماج کا حصہ ہو وہ سب کچھ لکھے لیکن سیاست یا سیاست دانوں پر نہ لکھے تو ایک عجیب قسم کا ادھورا پن محسوس ہوتا ہے اور اگر یہ کام کوئی طنز و مزاح کا شاعر کرے تو لازمی طور پر اس سے شکایت کی جانی چاہیئے. 

   بادل نے اپنے سامعین اور قارئین کو یہ موقع نہیں دیا بلکہ ذیل کے اشعار میں ان کی سیاسی بصیرت اور سیاست کے تعلق سے ان کے نظریے کو سمجھا جا سکتا ہے. 

   میرے بچوں پہ رحم کھاو رے

   ایک کرسی مجھے دلاو رے

   کھ ±ل جا سِم سِم مجھے سکھاو رے

   اب کے ممبر مجھے بناو رے

   واقعی اب سیاست میں آنے والے عوام کی خدمت کے لیے بلکہ ڈھیرا ساری دولت کے لیے قدم رنجا ہوتے ہیں۔بادل کا دوسرا قطعہ اسی بات کا گواہ ہے۔دیکھیں:

آگیا انتخاب کا موسم

مرغ و ماہی کباب کا موسم

ان سے تھا انقلاب کا موسم 

ان سے گھپلوں کے باب کا موسم

عوام کے حافظوں میں سیاسی لوگوں کے ایسے ایسے فراڈ موجود ہیں کہ اب انھیں جانوروں کی بجائے چارے پر ترس آنے لگا ہے۔ اس کے باوجودسیاسی افراد بقولِ بادل الیکشن کا بغل بجتے ہی ووٹوں کی بھیک کے لیے کشکول تھامے نکل جاتے ہیں:

صوفی، سنتوں کے نگر میں شور برپا ہو گیا

کرسیوں کے سب بھکاری اب صدا دینے لگے

جبکہ بھکاریوں کی طرح ووٹ ووٹ کی رٹ لگانے والے ان لوگوں کے مقاصد کو طشت از بام کرتے ہوئے بادل نے یوں لکھا ہے:

"سکندر لوٹ کر بھی خوش نہیں دولت زمانے کی" 

خزانہ لوٹ کر پبلک کا ممبر رقص کرتے ہیں

اتنا ہی نہیں بلکہ سیاستدانوں کی حرکتوں سے اوب کر بادل پریشان اور مسلسل لُٹنے والی عوام کو یہ کہہ کر جھنجھوڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں :

ہرگز نہ اپنے بچے کو تو ڈاکٹر بنا

اس کو وکیل اور نہ انجینئر بنا

بھرنا ہے خالی پیٹ تجوری کا گر تجھے

شہری کمیٹیوں کا اسے کونسلر بنا

   درج بالا اشعار بادل کی سیاست اور سیاسی لوگوں کے تعلق سے بادل کا نظریہ ظاہر کرتے ہیں کہ سرکاری خزانے کو لوٹتے رہنا، گھپلے بازی کرتے رہنا، عوام کو صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرنا جیسی برائیاں سیاسی افراد میں پائی جاتی ہیں اور وہ بقولِ بادل عوام کو بندروں کی طرح نچاتے رہتے ہیں. یقین نہ آئے تو بادل کی زبانی سنیں:

   گاندھی کے دیش والے سب ہو گئے مداری

   پھولے نہیں سماتے بندر نچا نچا کر

  بادل نے اپنے اشعار کے توسط سے ایک طرف جہاں اپنے سیاسی نظریے کا اظہار کیا ہے وہیں انہوں نے لوگوں کے اس خیال کا بھی پاس رکھا ہے کہ طنزو مزاح لکھنے والا بہت سنجیدہ ہوتا ہے. ان کی سنجیدگی ان کے اشعار کی صورت دیکھیں :

  گھر میں بیٹی تو اک امانت ہے

  یہ ضروری نہیںکہ رو کر دو

اپنے سائے سے بھی وہ ڈرنے لگے ہیں آج کل

بے دھڑک جو کود پڑتے تھے کبھی انگار میں

   بادل نے ایک طرف جہاں ایسی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے تو وہیں دوسری طرف انہوں نے خوبیوں والوں سے چھیڑخانی بھی خوب کی ہے. مثالیں دیکھیں:

   بادل ناصر کاظمی کو چھیڑنے پر آئے تو ان کے سورج کو چونچ میں لیے کھڑے رہنے والے مرغے کو ہی حلال کربیٹھے. پہلے ناصر کاظمی کے مرغے کی طاقت دیکھیں:

   سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا

   کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی

   اب بادل کے ذریعے اسی مرغے کی درگت دیکھیں:

   چونچ میں سورج لے کے کھڑا ہے بس بھی کر

   پیٹ میں مرغا پہنچ چکا ہے بس بھی کر 

   تجھ کو مبارک میرے بھائی رنگِ جدید

   مصرعہ سر سے گزر رہا ہے بس بھی کر 

   بادل ایک جگہ افتخار عارف کی نظم "اورہوا چپ رہی"کی ہوا خراب کرنے کے لیے نظم کی فاختہ پر خوبصورتی سے جو احتجاج درج کرایا تھا۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے:

   شاخِ زیتون پہ انڈے نہیں لگتے بادل

   ہاں! مگر جدّتِ شعری یہ عجوبہ رکھّے

   بادل کے کلام میں خود ان کے اطراف اور ہمارے جوانب میں پھیلے موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں. بادل نے ان موضوعات کو کبھی طنز کے نشتر کے طور پر استعمال کیا ہے، کبھی درد کے ساتھ استعمال کیا ہے، کبھی سنجیدگی کے ساتھ استعمال کیا ہے اور کبھی کبھی خالص مزاح بھی ان کے کلام میں اپنی جھلک دکھا جاتا ہے. دیکھیں:

   تنبیہہ کو میری وہ حماقت سمجھیں

   بڑ ہانکنے والوں کی ہی عادت سمجھیں

   ہیں تیری ہی مانند وہ شاید بادل 

   جورو کی غلامی کو سعادت سمجھیں

اس مثال سے بادل بھی روایتی مزاح نگاروں کی طرح بیوی کے نام پر داد خواہی کے منتظر دکھائی دیتے ہیں جبکہ ذیل کے قطعہ میں بادل نے مزاح کو بڑے ہی خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے۔دیکھیں:

   دکھائیں سَرف والے اشتہار ایسا بھی ٹی وی پر

   ڈبوئیں سَرف میں لارا کو تو عمران خاں نکلے

   مشین اے کاش ایسی بھی ہو اب ایجاد اے بادل 

   اگر بوڑھا ہو داخل اس میں تو بن کر جواں نکلے

اسی طرح ہندوستان کی بہت کچھ جان کر بھی کچھ نہ کرنے والی پولس پر انہوں نے یوں طنز کیا ہے:

راہ چلتے آنکھ سے کاجل نکالیں دوستو! 

شہر کے چوروں میں کتنی سینہ زوری ہوگئی؟ 

پَل میں برآمد کریں کریں ڈکّی سے جو ریوالور

ان پولس والوں کی واکی ٹاکی چوری ہوگئی

جبکہ ذیل کے قطعہ میں بادل کے مزاح کو بھر پور طور پر محسوس کرتے ہوئے اس سے محظوظ ہوا جا سکتا ہے۔

میں نے پوچھا کل فقط اتنا ہی چندو لال سے

پانچ سو میں یہ بتا کتنے گدھے مل جائیں گے؟ 

مسکرا کر اس نے دیکھا میرے چہرے کی طرف

اور بولا آپ جیسے چار ہی مِل پائیں گے

   ان طنزومزاح بھرے اشعار کے حوالے کے لیے اشعار جمع کرتے کرتے بادل کایہ قطع بھی سامنے آگیا تھا:

حشر اب شہرِ ادب میں کچھ اٹھانا چاہیے

خرچ سے اپنے مزار اپنا بنانا چاہیے

کب تلک آخر کرو گے دوستوں کا انتظار

جشن بادل خود تمہیں اپنا منانا چاہیے

   ان چار مصرعوں کو پڑھنے کے بعد میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ واقعی بدرالدین بادل کی شعری خدمات کے اعتراف میں جشن منعقد ہوا بھی تھایا نہیں؟

ابھی ان خیالات کو ٹھیک سے قلم بند بھی نہیں کر پایا ہوں کہ بادل کے اشعار سے میرے منتخب کردہ چار مصرعے اپنی جانب متوجہ کرگئے. آپ بھی دیکھیں:

   جیتے جی تو جھوٹے منہ پوچھا نہیں

   بعد مرنے کے دعا کرنے لگے

   چار مصرعے تعزیت کے لکھ کے ہم

   دوستی کا حق ادا کرنے لگے

   خدا ہی جانے کہ ڈاکٹر الیاس صدیقی کے علاوہ بادل کے دوستوں نے ان کا حق ادا کیا بھی ہے یا نہیں لیکن میں ان پر لکھے اس مضمون کو اپنی سعادت سمجھتا ہوں وہ بھی اس اعتراف کے ساتھ کہ 

   حق تو یہ کہ حق ادا نہ ہوا

المیہ یہ ہے کہ آج کل تو لوگ کسی فنکار کی رخصت پر چار الفاظ تک لکھنے کی زحمت اٹھانا گوارا نہیں کرتے۔

٭٭٭

 اس کوبھی پڑھیں 🔽
کولاژ: سعادت حسن منٹو