غزل
طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں
میں نے آنکھوں میں اس کی دیکھا ہے
اک ستارہ سا جھلملاتا ہے
کیسا غم تھا؟ اٹھائے پھرتا تھا
ابر اب ٹوٹ کر جو برسا ہے
ہائے بیچارگی سمندر کی
چپ ہے اور وسعتوں میں پھیلا ہے
آؤ! پھر ایڑیاں رگڑتے ہیں
پھر سے دریا غرور کرتا ہے
پھر سے باتیں تمہاری کرتا ہوں
پھر غزل کہنے کا ارادہ ہے
آ ! سمندر سے پوچھ لیتے ہیں
کیا یہ آنکھوں سے تیری گہرا ہے؟
ایسی ویرانیاں بھی کیا دل میں؟
دشت، حیرت سے مجھ کو تکتا ہے
ہم عداوت کو جانتے ہی نہیں
اپنا مسلک تو دوستی کا ہے
خواب آنکھوں میں کوئی جاگا تھا
رت جگوں کا عذاب اترا یے
"ناامیدی ہے کفر" جب سوچو
کوئی جگنو چمکنے لگتا ہے