Translate ترجمہ

Showing posts with label بزمِ افسانہ ( BAZM-E-AFSANA). Show all posts
Showing posts with label بزمِ افسانہ ( BAZM-E-AFSANA). Show all posts

Sunday, April 16, 2023

افسانہ : بون سائی از یحی' جمیل


 یہ افسانہ ناگپور یونیورسٹی میں ایم اے (اردو) چوتھے سیمسٹر، کے نصاب میں شامل ہے۔

 بون سائی

محمد یحییٰ جمیل





        مجھے باغبانی سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ پھر بون-سائی پودوں کے بارے میں کیا جانتا۔ کل پرکاش سے معلوم ہوا کہ بون-سائی، چینی لفظ ’پین زائی‘ کا جاپانی تلفظ ہے۔ ’بون‘ یعنی ٹرے اور’ سائی‘ یعنی درخت۔

’’پھر بون-سائی کہنا چاہیے، بون-سائی درخت نہیں؟‘ ‘

’’جس سے بات واضح ہوجائے وہ کہنا چاہیے۔‘‘ اس نے مسکراکر کہا۔ مجھے اس کی بات اچھی لگی۔ آخر زبان ہماری سہولت کے لیے ہے۔

        پرکاش سے چند روز قبل ہی میری دوستی ہوئی ہے۔ اس نے پڑوس کا بنگلہ کرایہ پر لیا ہے۔ وہ  اس کی بیوی اور تین سال کی بچی, چھوٹی سی فیملی ہے. اس بنگلے میں آنے والے ہر کرایہ دار سے میں دوستی کر لیتا ہوں۔ یوں زندگی کی یکسانیت کم ہوجاتی ہے۔ انصاری صاحب کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نے اس بنگلے کو کرایہ پر اٹھادیا ۔ اس کی بیوی کو امراوتی پسند نہیں اس لیے وہ ناگپور منتقل ہوگئے۔ وکیل ہے کہیں بھی پریکٹس کر سکتا ہے۔

        پچھلی مرتبہ یہاں ایک پروفیسر آگئی تھی, سنگل تھی. عمر کوئی پچاس پچپن کے بیچ رہی ہوگی۔ ہمیشہ ہلکے رنگ کی ساڑی پہنتی اور انتہائی باوقار لگتی۔ روز صبح لان میں کتاب لے کر بیٹھی ہوتی۔ اگراسے باہر نکلنے میں دیر ہوجاتی تو میں انتظار کرنے لگتا۔ شام میں کلاسیکل موسیقی کی آواز آتی. شاید ریاض بھی کرتی تھی. فنون لطیفہ سے محبت کرنے والے مجھے بہت پسند ہیں۔ باوجود اس کے میں نے اپنی دوستی ، دیدار تک محدود رکھی تھی۔ پسند اپنی جگہ, اس کی تنہائی پسندی کا احترام بھی ضروری تھا. 

         اُس کے جاتے ہی پرکاش یہاں آگیا، گویا نمبر لگائے بیٹھا تھا۔ عمر کے لمبے فرق کے باوجود وہ بہت جلد بے تکلف ہوگیا۔ ورنہ آج کے نوجوان ریٹایرڈ آدمی سے زیادہ بات کہاں کرتے ہیں؟ پھر وہ بیٹے ہی کیوں نا ہوں۔ خیر، پرکاش بہت اچھا لڑکا ہے۔ چند ہی ماہ کے لیے آیا ہے۔ اس کے گھر کا رِنوویشن مکمل ہوتے ہی وہ چلا جائے گا۔

’’آج کیوں دیر کردی؟‘‘ مہتاب نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔

’’ہاں، ذرا دیر ہوگئی، سوری۔ ‘‘ اور کیا جواب دیتا۔ پہلے دیا کرتا تھا اور اکثر توتو میں میں شروع ہوجاتی۔ پھر جواب دینا بند کردیا تو بھی بحث کی گنجائش نکل آتی۔ گفتگو کا یہ طرز ذرا دیر سے آیا تھا۔

’’کسی دوست کے گھر بیٹھ گئے ہوں گے، مجھے کیا بے وقوف سمجھتے ہیں…‘‘وہ بڑبڑائی۔

’’چاے بنادوں؟‘‘ میں نے اس کی بات ان سنی کرتے ہوئے پوچھا۔

’’ کل شکر کم ہوگئی تھی۔تین چمچے ڈالنا۔‘‘

        مہتاب پیاری پھوپھی کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ مجھ سے زیادہ، دونوں خاندانوں کے لیے یہ رشتہ اہم تھا، سو ہوگیا۔ مجھے بھی کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ خاندان، خوبصورتی، دینداری سبھی کچھ تو تھا۔ بات شروع ہوئی اور میں گھوڑی چڑھا دیا گیا۔ لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں والا تھرل ہی نہیں ملا۔ لیکن مہتاب کا ایسا مزاج ہوگا، ابا جی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پڑوسیوں نے پہلی بار ہمارے گھر سے اونچی آوازیں سنی تھیں۔ نوبیاہتا سہیلیوں سے سنے گئے رنگین قصوں نے مجھے بد ذوق اور خشک مزاج شوہر ثابت کیا تھا۔ بھرے پرے گھر میں ناز و نیاز کی گنجائش بھی کم تھی۔ ایک سال بعد مجھے دوسرے شہر میں ملازمت مل گئی۔ نئے شہر میں شفٹ ہوتے ہوئے سوچا تھا سال دو سال بعد واپس آجاؤں گا، لیکن وہ دن پھر کبھی نہیں آیا۔ میں یہیں ریٹایر ہوا۔

        نئے شہر میں بھی چین کہاں تھا۔ کچھ دوست بہت نالائق مل گئے۔ ویک اینڈ پر دیر رات تک بیٹھک ہوجاتی۔ مہتاب کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی۔ ایک مرتبہ تواس نے غصے میں اپنی نسیں کاٹنے کی کوشش تھی۔ پڑوس کی عورتوں سے میل جول کو ، جانے کیوں وہ عار سمجھتی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کی مرضی نے قانون کی شکل اختیار کر لی۔ امی، اباجی صرف دوچار دن کے لیے آئیں۔ بھائیوں سے تہواروں پر ملاقات کروں۔ بہن سال میں ایک بار آئے اور دو دن سے زیادہ نہ ٹھہرے۔ سال میں صرف عیدین پر دعوت ہو۔ ویکیشن پر کوئی نہ آئے۔دوست اگر آئیں تو طہارت خانہ ہرگز استعمال نہ کریں۔ ضروری کام سے جاؤں اور فوراً لوٹ آؤں۔ گھریلو کاموں میں بہر حال مدد کروں۔

’’کمر میں بہت تکلیف ہے۔‘‘جب میں نے اسے چاے کی پیالی پکڑائی تو وہ دھیرے سے بولی۔

’’ہوں....‘‘

’’اگر آپ کو ایسی تکلیف ہوتی تو پل بھر برداشت نہیں کر سکتے تھے۔‘‘

کاش کسی نے درد کی پیمائش کا آلہ ایجاد کرلیا ہوتا۔ مگر کیا تب بھی میں کچھ کر پاتا؟ عرق النسا کے درد نے میرا جینا وبال کر رکھا تھا لیکن خیر۔

’’کل ڈاکٹر کو دکھا دیں گے۔‘‘

’’آپ کا کل، جلدی نہیں آتا ۔‘‘

 برسوں پہلے میں نے مہتاب کو واکنگ کا مشورہ دیا تھا۔ پھر تین گھنٹے بری طرح پریشانی میں گذرے تھے ۔ وہ مجھے بتائے بغیر اپنی کزن کے گھر چلی گئی تھی، پیدل۔ یہ اچھا سبق تھا جو مجھے آج تک یاد ہے۔ اس لیے ہر تکلیف پر ڈاکٹر بہترین آپشن تھا۔ البتہ میں ہر شام گھومنے چلا جاتا ہوں۔ پرکاش کو بھی ایوننگ واک پسند ہے۔ کیا بات ہے!

’’اچھا پرکاش، بون- سائی کی قیمت کیا ہوتی ہے؟‘‘

’’ ڈپینڈ کرتا ہے، دو،ڈھائی ہزار سے ایک لاکھ تک۔ ‘‘

’’اور اسے بننے میں کتنا وقت لگتا ہے؟‘‘

’’کسی دن نرسری آئیے، آپ کو بون-سائی کے بارے میں تفصیل سے بتاؤں گا۔‘‘

’’ضرور۔‘‘ مہتاب اگر اپنے بھائی کے گھر جائے تو موقعہ مل سکتا تھا۔ ایسے تو ممکن نہیں۔ مگر وہ پہلے بھی اپنے گھر بہت کم جایا کرتی تھی۔ پیاری پھوپھی کے انتقال کے بعد تو اس کا میکا ہی ختم ہوگیا۔ بھائی کے گھر بمشکل جاتی ہے۔ اس کی بھابھی نہیں چاہتی کہ یہ سواری وہاں اترے۔ بھائی خود نالاں ہو تو پھر بھابھی کا کیا کہنا۔

’’کل چلیں؟‘‘پرکاش نے پوچھا۔

’’ارے نہیں، بتاؤں گا تمھیں۔‘‘میں نے بات ٹال دی۔

رات کے کھانے پر میں نے پرکاش کی تعریف کی تو مہتاب کو بہت ناگوار گذرا۔

’’اب آپ نے اسے پیچھے لگا لیا؟‘‘

اسے ڈر تھا کہ کہیں میں اسے کھانے پر نہ بلالوں۔ حالانکہ کسی دوست کو کھانے پر بلائے زمانہ بیت چکا تھا۔ اب تو کوئی دوست بھول کر بھی نہیں آتا۔ اس لیے عرصہ سے چاے بھی نہیں پلائی تھی ۔ اس شہر میں شفٹ ہونے کے بعد جب میں پہلی بار گھر گیا تو امی نے کہا تھا، تیرے جانے کے بعد ایک لیٹر دودھ کم کردینا پڑا۔ میرے دوست بہت تھے اور ان کی آمد سے انھیں خوشی ہی ہوتی تھی۔ خود بھی بہت سوشل تھیں۔ اللہ درجات بلند کرے۔

        پھر جس دن پینشن لینے بینک جانا تھا میں پرکاش کی نرسری پہنچ گیا۔ اس دن دیر بھی ہوجائے تو مہتاب خاموش رہتی ۔ پرکاش بہت خوش ہوا۔ سارا کام چھوڑ کر مجھے گھماتا رہا۔ پھر بون-سائی درختوں کے پاس پہنچ کر بولا، ’’ہمارے یہاں، پیپل، املی، نیم، فائی کس، بوگن ویلا، برگد، گل مہر، سنترا، آم وغیرہ کے بون سائی بنائے جاتے ہیں۔‘‘

’’بون-سائی بنتے کیسے ہیں؟‘‘

’’ جس پودے کا بون سائی بنانا ہو اسے گملے سے نکال کر اس کی بڑی ڈالیاں کاٹ لیتے ہیں۔ جڑیں بھی کم کرتے ہیں۔ پھر اتھلے گملے میں کھاد اور مٹی کے ساتھ لگادیتے ہیں۔ اس کی غیر ضروری شاخوں اور پتوں کو کاٹتے رہنا ہوتا ہے۔ تاکہ اس کی لمبائی ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔‘‘

’’اس کی کھاداسپیشل ہوتی ہے؟‘‘

’’نہیں، وہی عام کھاد ڈالی جاتی ہے ۔ فائی کس اور پیپل کے لیے کھاد کے ساتھ مٹی کی جگہ باریک کرش ملایا جاتاہے۔‘‘

’’دو سے تین سال بعد بون-سائی کا گملا بدلنا پڑتاہے۔‘‘

’’ہوں… دیکھو، کچھ سیدھے ہیں کچھ ذرا ترچھے، بالکل عام درختوں کی طرح۔‘‘

وہ ہنسا اور بولا، ’’یہ بھی ہماری کاریگری ہے۔‘‘

’’اچھا!‘‘

’’المونیم کے تاروں سے ڈالیوں کو اپنی مرضی کے مطابق شکل دیتے ہیں۔ اس طرح دیڑھ دو سال میں بون سائی کی ابتدائی صورت بن جاتی ہے۔ یہ دیکھیے، یہ سیدھے تنے والا بون-سائی ہے اسے Formal Upright کہتے ہیں. Informal Upright  میں اس کا تنا ٹیڑھا رکھا جاتا ہے. پہاڑوں پر تیز ہوا کی وجہ سے درخت جھک جاتے ہیں اس طرح کا لک دینے کے لیے Slanting Upright کیا جاتا ہے۔  Forest کا لک دینے کے لیے ایک برتن میں چار پانچ بون- سائی اگائے جاتے ہیں۔ یہ بون سائی بالکل جنگل کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ ‘‘

’’یعنی کوئی چاہے تو جنگل خرید کر لے جائے۔‘‘

’’شوق سے…‘‘

 میں نے پرکاش کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر شعر پڑھا:

’’کر علاجِ وحشت دل چارہ گر

لا دے اک جنگل مجھے بازار سے‘‘

وہ مسکرا کر میری جانب دیکھتا رہا۔

’’اردو کے بہت بڑے شاعر ہوئے ہیں، مومن خاں مومن۔ ان کا شعرہے!‘‘ میں بولا۔

’’ میں دوسری لائن سمجھا۔‘‘

’’کیا سمجھے؟‘‘

’’ مومن صاحب کو یہ گفٹ کیا جاسکتا ہے ۔‘‘ ہم دونوں دیر تک ہنستے رہے۔

آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ میں نے رومال سے آنکھیں صاف کیں، اور کافی پی کر گھر کے لیے نکل پڑا۔

        پھر ایک دن پرکاش بھی چلا گیا۔ لیکن جانے سے پہلے اس نے مجھے نیم کا ایک بون-سائی تحفہ میں دیا۔ نہایت قیمتی گملے والا۔ بہت پیارا ۔ میں نے اسے مومن کا شعر فریم کرکے دے دیا۔ وہ بہت خوش ہوا۔ میں نے بون -سائی بالکونی میں رکھ دیا۔ بنگلے کی جانب تاکہ اس کے ساتھ پرکاش کی یاد تازہ رہے۔

        اس دن جب سونے کے لیے لیٹا تو نیند آنکھوں سے غائب تھی۔ دیر تک جاگتا رہا۔ نومبر کا مہینہ تھا۔ ہوا میں ٹھنڈک بڑھ گئی تھی۔ میں نے مہتاب کو دیکھا، وہ گہری نیند میں تھی۔ میں آہستہ سے اٹھا اور بون-سائی کے سامنے جا بیٹھا۔ یہ بون-سائی نیم، گاؤں والے نیم کے درخت سے کتنا ملتا جلتا ہے۔ نچلی شاخ تو بالکل ویسی ہے۔ اس بون- سائی کے نیچے چند بچے کھیل رہے تھے۔

میں نے چشمہ اتار دیا اور غور سے دیکھنے لگا۔ اوہ، یہ تو میں اور میرے چھوٹے بھائی ہیں۔ منّی نمبولیاں جمع کررہی ہے۔ گھر کے آنگن میں وہ اِن کی دُکان لگائے گی۔اس نے سنہری رنگ کا شلوار کرتا پہنا ہے۔ آنکھوں میں بڑا سا کاجل لگا ہے۔ اس کے کتھیا بال، لال رنگ کے ربن سے بندھے ہیں۔ میں شاخ پر چڑھا اور کود گیا۔ ’آہ…‘میری چیخ نکل گئی۔ میرے پیر میں کانچ کا ٹکڑا چبھ گیاہے۔ دونوں بھائی دوڑ کر آئے۔ ایک نے میرا پیر اپنی گود میں رکھ لیا۔ خون سے اس کا قمیص سرخ ہونے لگا ہے۔ دوسرا کانچ کا ٹکڑا نکالنے کی کوشش کررہاہے۔ منی رو رہی ہے۔ ’’بھیا آپ کو بہت درد ہورہا ہوگا نا؟‘‘

’’نہیں.... تو رو مت۔‘‘

’’بھیا، آپ سے ملے دو سال ہوگئے۔ آپ کی بہت یاد آرہی ہے۔‘‘ وہ بولی۔

میں نے اس کے آنسو پونچھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور میری انگلیاں بون-سائی کے تنے کو چھو گئیں. پھر میں تیزی سے بون-سائی لے کر گھر کے آنگن میں چلا گیا۔ اب گڑھا کرنے کے لیے کسی چیز کی ضرورت تھی۔ اسٹور میں سلاخ مل گئی۔ کچھ ہی دیر میں بالشت بھر کا گڑھا ہوگیا۔ میں نے بون-سائی کو اتھلے گملے سے نکالا اور زمین میں لگا دیا۔ مٹی برابر کرنے کے بعد اس پر پانی کا چھڑکاو کیا۔ ہلکی ہوا کے جھونکوں سے ننھا نیم لہلہانے لگا تھا۔ جلد ہی یہ چھتنار ہوجائے گا۔ اس کام سے فارغ ہوکر مجھے وہ ذہنی سکون میسر آیا جس کے لیے میں مدت سے تڑپ رہا تھا۔

        یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ فطرت کا گلا گھونٹ کر اسے بونا بنادیں۔اسے تناور درخت کیوں بننے نہ دیا جائے؟ آخر درخت اسی لیے تو ہے کہ پرندے اس پر گھونسلے بنائیں، اس کی شاخوں پر چہچہائیں، اس کے نیچے بچے کھیلیں، اس کے پھل کھائیں، کیڑے مکوڑے بھی اس سے اپنی غذا حاصل کریں۔ وہ بیچارہ تو سب کے لیے مفید ہے، پھر سب کو محروم کر کے اپنی تسکین کے لیے اس پر ظلم کیوں؟ بلکہ اپنی غرض کے لیے سب پر ظلم کیوں؟؟

🌳 ختم شد

Wednesday, April 12, 2023

افسانہ: نیم پلیٹ (طارق چھتری)


نیم پلیٹ

طارق چھتاری



 

’’کیا نام تھا اس کا ؟ اُف بالکل یاد نہیں آ رہا ہے۔‘‘ کیدار ناتھ نے اپنے اوپر سے لحاف ہٹا کر پھینک دیا اور اٹھ کر بیٹھ گئے۔

’’ یہ کیا ہو گیا ہے مجھے ، ساری رات بیت گئی نیند ہی نہیں آ رہی ہے۔ ہو گا کچھ نام وام نہیں یاد آتا تو کیا کروں ، لیکن نام تو یاد آنا ہی چاہئے۔آخر وہ میری بیوی تھی ، میری دھرم پتنی۔‘‘انھوں نے پیشانی پہ ہاتھ رکھا۔پچھتر سالہ کیدار ناتھ کے ماتھے کی بے شمار جھریاں بوڑھی ہتھیلی کے نیچے دب کر پھڑپھڑنے لگیں۔

’’ سر لا کی ماں ..........’’ ا ن کے منھ سے بے ساختہ نکل پڑا۔

’’ وہ تو ٹھیک ہے مگر کچھ نام بھی تھا اس کا۔ کیا نام تھا؟ اس کے نام کا پہلا اکچھر ..........ہاں کچھ کچھ یاد آ رہا ہے ............‘‘ انھوں نے پیر پلنگ کے نیچے لٹکا دیے اور وہ لائٹ آن کرنے کے لئے دیوار میں لگے سوئچ کی طرف بڑھے۔

’’ اس کے نام کا پہلا اکچھر ..............’’کے ‘‘ نہیں نہیں۔ہاں ہاں یاد آ گیا۔‘‘

ان کا جھریوں سے بھرا پوپلا منھ مسکرانے کے لئے تیار ہو ہی رہا تھا کہ کھانسی کا ایک ٹھسکا لگا اور پھر بھول گئے کہ وہ اکچھر کیا تھا۔

کمرے میں چاروں طرف روشنی پھیل چکی تھی۔

’’ ڈھائی بجنے کو ہیں۔‘‘ ان کی نظر ٹائم پیس پر پڑ گئی۔

ٹائم پیس .............؟ ہاں ..............ٹا..............نہیں ،  پیس.....’’سا‘‘ ارے ہاں _____

’’ سا‘‘ ہی تو تھا اس کے نام کا پہلا اکچھر۔‘‘

’’ سا‘‘ ؟ نہیں یہ تو سرلا کی ماں۔آخر نام بھی تو کچھ تھا اس کا۔‘‘ کیدار ناتھ نے جھنجھلا کر سرہانے رکھی چھڑی کو اٹھایا ، گلے میں کس کے مفلر لپیٹا اور بار بار چھڑی کو فرش پر پٹخنے لگے۔ پھر دونوں ہاتھوں میں چھڑی کو جکڑ کر اس طرح سر کے قریب لائے جیسے اس کے ہتھے سے اپنا سر پھوڑ ڈالنا چاہتے ہوں۔

’’ تعجب ہے اپنی بیوی کا نام بھول گیا !اسے مرے ہوئے بھی تو چالیس برس گذر گئے ہیں۔تین سال کا عرصہ ہوتا ہی کتنا ہے۔صرف تین سال ہی تو اس کے ساتھ رہ پایا تھا میں۔‘‘

وہ خالی خالی نظروں سے کمرے کو گھور رہے ہیں۔پلنگ، میز، کرسی اور الماری، کتابیں ..........الماری کتابوں سے بھری پڑی ہو گی ، الماری کے پٹ بند ہیں۔ وہ پلنگ کی جانب بڑھے اور پھر الماری کی طرف مڑ گئے۔ دروازہ کھولا الماری خالی تھی ____نہ اس میں کتابیں تھیں اور نہ خانے۔‘‘ ارے اس میں تو پچھلی دیوار بھی نہیں ہے۔‘‘

وہ لرز گئے اور گھبرا کر ایک پاؤں اس کے اندر رکھ دیا پھر دوسرا پاؤں ، اب وہ دروازے کے باہر کھڑے تھے۔سب کچھ خالی تھا ، ان کے ذہن کی طرح ، وہ سمت بھول گئے تھے اور الماری کے بجائے باہر جانے والا دروازہ کھول بیٹھے تھے۔ باہر سڑک پر کہرا جما ہوا تھا۔ کھمبوں کے بلب مدھم دیوں کی طرح ٹمٹما رہے تھے۔ سنسان سڑک پر انھیں لگا کہ یکایک بھیڑ امڈ آئی ہے۔ چاروں طرف شور ہو رہا ہے۔ باجے کے شور سے کان پھٹے جا رہے ہیں۔دور کہرے میں چھپی ہوئی ڈولی ____سرخ جوڑا پہنے دلہن مسکرا رہی ہے۔

سڑک پر ایک پتھر کا ٹکڑا پڑا تھا ، انھیں ٹھوکر لگی اور وہ لڑکھڑا کر کھمبے سے جا ٹکرائے ، بہت زور سے دھکا دیا تھا محلے بھر کی لڑکیوں نے ، اور پھر دروازہ بند۔

’’ کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘ نام معلوم ہوتے ہوئے بھی اس کا نام پوچھا تھا انھوں نے۔ وہ شرما گئی تھی اور گھٹنوں میں منھ چھپا لیا تھا۔ انھوں نے پھر پوچھا تو اس نے آہستہ سے اپنا نام بتایا۔

’’ کیا بتایا تھا اس نے ؟ اف بالکل یاد نہیں۔‘‘ اور وہ چھڑی کو زمین پر ٹیکتے ہوئے تیز تیز قدموں سے چل پڑے۔ انھیں کہاں جانا ہے ؟ پتہ نہیں۔پھر بھی وہ چلتے رہے اور اب اپنے گھر سے بہت دور نکل آئے تھے۔

یہ علاقہ کون سا ہے ؟ کیلاش نگر ؟ ہاں شاید وہی ہے۔ آگے دائیں طرف ان کے دوست شرما جی کی کوٹھی ہے۔ باہر گیٹ پر نیم پلیٹ لگی ہے۔’’ ست پرکاش شرما۔‘‘ وہ ان کے دفتر کے ساتھی تھے۔ گذرے ہوئے کئی برس ہو گئے۔

اچانک کیدار ناتھ ٹھٹھکے اور رک گئے۔’’ ارے یہی تو ہے شرما جی کی کوٹھی ، ہاں باکل یہی ہے۔ وہ وہاں لگی ہے ان کے نام کی پلیٹ۔‘‘ کیدار ناتھ کو کمرے کی دھندلی فضا میں ایک تختی نظر آئی۔

’’ شرما ..........‘‘ انھوں نے پڑھا۔ ’’ رام پرکاش شرما۔‘‘

’’رام پرکاش ...........؟.نہیں ان کا نام تو ست پرکاش تھا۔ پھر غور سے دیکھا۔

’’ رام پرکاش شرما (ایڈوکیٹ)۔‘‘ صاف صاف لکھا تھا۔

انھیں یاد آیا کہ ایک روز شرما جی نے کہا تھا۔’’ میرا بیٹا رام پرکاش ایڈوکیٹ ہو گیا ہے۔‘‘

’’ اچھا تو اپنے باپ کے نام کی پلیٹ اکھاڑ کر............‘‘ کھٹ سے کوئی چیز گری۔ انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کر قدموں میں آن گری ہے۔ وہ سہم گئے اور مجرم کی طرح گردن جھکا لی۔ یہ کسی کے نام کی پلیٹ تھی۔ مگر ایک حرف بھی صاف نہیں۔ سب کچھ مٹ چکا ہے۔ ان کے جسم میں سنسناہٹ سی ہونے لگی۔ لاغر ٹانگیں جو ابھی ابھی کانپ رہی تھیں ، پیاسے ہرن کی کلانچیں مارنے کو بے تاب ہو اٹھیں۔

 وہ بھاگ رہے ہیں۔ نہیں آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔ یا رینگ رہے ہیں یا پھر کھڑے کھڑے ہی ................یہ تو معلوم نہیں مگر وہ اپنے گھر سے کئی میل دور سرلا کے گھر کے بہت قریب آن پہنچے ہیں۔

سرلا سے اس  کی ماں کا نام پوچھ ہی لیں گے۔

سرلا کو اپنی ماں کا نام یاد ہو گا ؟ کیوں نہیں ...........کوئی ماں کا نام بھی بھولتا ہے کیا۔

’’ پاروتی دیوی.......‘‘ ان کی ماں کا نام پاروتی دیوی تھا۔ انھیں پچھتر سال کی عمر میں بھی اپنی ماں کا نام یاد ہے۔

’’ پاروتی دیوی کی جے ..................‘‘ بچپن میں وہ اپنے با با کے ساتھ بیٹھے پوجا کر رہے تھے۔’’ بابا ..............اماں کا نام بھی تو پاروتی دیوی ہے۔‘‘ ’’ ہاں بیٹے یہی پاروتی دیوی ہیں جن کے نام پر تمہاری ماں کا نام رکھا گیا ہے۔‘‘ اور اس روز سے وہ آج تک روزانہ پاروتی دیوی کی پوجا کرتے ہیں اور جے بولتے ہیں۔ ماں تو بھگوان کا روپ ہوتی ہے ، پھر بھلا سرلا کیسے اپنی ماں کا نام بھولی ہو گی۔ کیدار ناتھ کا دل اندر سے اتنا خوش ہو رہا تھا کہ ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔ رفتار میں دھیما پن آ گیا مگر وہ اپنے بوڑھے جسم کو ڈھکیلتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے ____!!

’’ بابو جی آج اتنے سویرے آپ ادھر.........؟ ‘‘ سرلا نے  کسی سوچ میں ڈوبے کیدار ناتھ کو چائے کی پیالی دیتے ہوئے پوچھا۔ بوڑھے آسمان کی گود سے نئے سورج کا گولا جھانک رہا ہے۔ کیدار ناتھ کے پنجوں کی انگلیاں سرد ہو کر سُن پڑچکی ہیں ، جیسے ان میں گوشت ہے ہی نہیں اور وہ اندر سے بالکل خالی ، بالکل کھوکھلی ہو چکی ہیں ، پرندے ان کے سر پر منڈلاتے منڈلاتے سرلا کے مکان کے اوپر جا بیٹھتے ہیں اور وہ سرلا کے مکان کے باہر کھڑے کھڑے تھک چکے ہیں۔’’ میں یہاں کھڑا ہوں۔ آتے جاتے لوگ دیکھ کر کیا سوچیں گے۔ اب تو دن چڑھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ سرلا سو کر اٹھ گئی ہو گی۔ اندر چلنا چاہئے۔

نام کی پلیٹ اکھاڑ کر ...............’’ کھٹ سے کوئی چیز گری ، انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کو قدموں میں آن گری ہے۔دھندلے دھندلے حرف ابھرنے لگے اور ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ اندھیری رات..............کہرے سے بھری ہو ئی سرد رات ....................بے شمار کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ، کئی آوارہ کتے ان کے پیچھے لگ گئے ہیں۔وہ کتوں سے بچنے کے لئے ملٹن پارک میں گھس جاتے ہیں۔ملٹن پارک؟ اب تو اس کا نام گاندھی پارک ہو گیا ہے۔ گاندھی پارک ہو یا ملٹن پارک ،  ہے تو یہ وہی پارک جہاں وہ شادی کے دو دن بعد اسے لے کر آئے تھے۔پارک کی بارہ دری ٹوٹ کر کھنڈر بن گئی ہے۔ ٹوٹی ہوئی بارہ دری کے پتھروں کے نیچے سے ہوتی ہوئی ان کی نظریں چالیس برس پرانی بارہ دری میں گھس جاتی ہیں۔’’ آؤ یہاں بیٹھو .........کتنی خوبصورت ہیں یہ محرابیں۔‘‘ وہ دونوں سنگ مر مر کے ستون سے کمر ٹکا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر وہ دنیا سے بے خبر بہت دیر تک اس کے پاس بیٹھے رہے۔مہینوں ............برسوں .....................کہ اچانک ان کی بیٹی سر لا نے انھیں چونکا دیا۔

’’ بابو جی آپ چپ کیوں ہیں ؟ کیا سوچ رہے ہیں ؟

’’ کچھ نہیں بیٹی۔ میں سوچ رہا تھا آج اتنے سویرے ..............اصل میں ،  میں نے سوچا جو گیندر کے دفتر جانے سے پہلے ہی پہنچ جاؤں تو اچھا ہے۔‘‘

’’ بابو جی آج تو اتوار ہے۔‘‘

’’ اوہ ، ہاں آج تو اتوار ہے۔ کیا کروں بیٹی ریٹائر ہونے کے بعد دن تاریخ یاد ہی نہیں رہتے۔‘‘

وہ دل ہی دل میں سوچنے لگے۔’’ دن تاریخ کیا اب تو بہت کچھ یاد نہیں رہا۔‘‘

اتنے میں جو گیندر بھی آنکھیں ملتے ہوئے آئے اور کیدار ناتھ کو پرنام کر کے صوفے پر بیٹھ گئے۔

’’ با بو جی اتنے سویرے ؟ سب ٹھیک ہے نا۔‘‘

’’ میرے جلد ی آنے پر یہ لوگ اتنا زور کیوں دے رہے ہیں۔ ضرور میرے اچانک آنے سے یہ سب ڈسٹرب ہوئے ہوں گے۔ مجھے چلے جانا چاہئے ، ابھی............‘‘

کیدار ناتھ کو خاموش بیٹھا دیکھ کر سرلا بول پڑی۔’’ ارے بابو جی تو بھول ہی گئے تھے کہ آج اتوار ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟

آج اتوار ہے اور میں اس طرح بغیر بتائے یہاں چلا آیا ہوں۔ ہو سکتا ہے ان دونوں کا کوئی پروگرام ہو۔ اب میری وجہ سے ............‘‘

’’ہفتے میں  چھٹی اک ایک ہی دن تو ملتا ہے ان لوگوں کو۔مگر میں بھی تو روز روز نہیں آتا ، گھر سے چل پڑا تھا ، بس چلتا رہا اور چلتے چلتے جب سرلا کے گھر کے قریب آ گیا تو سوچا، ملتا چلوں ،  کیا یہ لوگ آج میرے لئے اپنے پروگرام نہیں چھوڑ سکتے ؟‘‘

کیدار ناتھ کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے ہیں۔

’’ کمبخت بڑھاپے میں آنسو بھی کتنی جلدی نکل آتے ہیں۔‘‘ وہ آنسوؤں کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے کہ سرلا نے ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔’’ یہ اس طرح کیا دیکھ رہی ہے ؟ کہیں سب کچھ سمجھ تو نہیں گئی۔‘‘

’’ کیا سمجھے گی ؟ یہ کہ میں اپنی بیوی کا نام بھول گیا ہوں اور رات بھر جاگتا رہا ہوں یا یہ کہ میں رو رہا ہوں۔‘‘

’’ بیٹی آج مجھے جو گیندر سے کچھ کام تھا ...........‘‘

’’ بابو جی مجھ سے ؟‘‘ جو گیندر نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔

’’ہاں یوں ہی ،  کوئی خاص بات نہیں تھی___‘‘ پھر وہ لان کی رف جھانکنے لگے۔

’’ آج بہت سردی ہے۔تمہارے لان میں تو سویرے ہی دھوپ آ جاتی ہے۔‘‘ سرلا نے لان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :

’’ہاں بابوجی ، ابھی تو دھوپ میں تیزی بھی نہیں آئی اور اوس بھی بہت ہے ،  پورا لان گیلا..........‘‘

وہ  کہہ رہی تھی کہ جو گیندر بیچ میں بول پڑے۔

’’ بابوجی ابھی کچھ کام کے سلسلے میں آپ کہہ رہے تھے ........‘‘

’’ کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں جلدی سے کام بتا کر چلتا بنوں تاکہ ان کے پروگرام ڈسٹرب نہ ہوں۔‘‘ کیدار ناتھ کھانسنے لگے اور کافی دیر تک کھانستے رہے۔ وہ کھانس رہے تھے اور سوچتے جا رہے تھے کہ اب کیا کہوں کہ بغیر سوچے سمجھے ہی بول پڑے ___

’’ بیٹے تمہیں نام یاد رہتے ہیں ؟‘‘

’’ کیسے نام بابوجی؟ ویسے میں ہمیشہ نام یاد رکھنے میں کمزور رہا ہوں ، اسی لئے ہسٹری کے پرچے میں میرے نمبر بہت کم آتے تھے۔‘‘

’’ اب کیا پوچھوں ؟ کیا سرلا سے یہی سوال کروں ؟مگر یہ تو بڑی بے تکی بات ہو گی۔ اگر سرلا خود ہی بول پڑے کہ بابو جی مجھے نام یاد رہتے ہیں ، تو جلدی سے پوچھ لوں کہ بتاؤ تمہاری ماں کا کیا نام تھا ___‘‘

کیدار ناتھ نے حسرت بھری نظروں سے سرلا کی طرف دیکھا لیکن وہ خاموش بیٹھی رہی اور پھر اٹھ کر کچن کی طرف چل دی ___

سورج چڑھے کافی دیر ہو چکی تھی۔ دھوپ میں بھی تیزی آتی جا رہی تھی۔لان کی ہری گھاس پر جمے شبنم کے قطرے اپنا وجود کھو چکے تھے۔ کیدار ناتھ نے اپنے جسم پر چڑھے گرم کپڑوں کو اس طرح ٹٹولا  جیسے وہ ڈھونڈ رہے ہوں کہ کپڑوں کے اندر جسم ہے بھی یا نہیں۔

دوپہر کا کھانا تیار تھا۔ لیکن ابھی تک سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھنے کا موقع نہیں مل پایا تھا۔ سرلا صبح سے کھانا تیار کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ کیدار ناتھ باہر دھوپ میں جا کر بیٹھتے تو کبھی اندر آ کر برآمدے میں ٹہلنے لگتے۔ کبھی جو گیندر سے ادھر اُدھر کی باتیں ہوتیں اور کبھی سرلا آتی تو اس تلاش میں رہتے کہ ذرا جو گیندر اٹھ کر جائیں اور وہ اکیلے میں سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھ لیں۔

 

’’اب دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا ہے۔ کھانے پر بات میں بات نکلے گی ، تب تو پاچھ ہی لوں گا۔‘‘ انھوں نے سوچا اور مطمئن ہو گئے۔

کھانے کی میز سج چکی ہے۔ سرلا نے کئی طرح کی سبزیاں بنائی ہیں ___کھانا بہت لذیذ ہے۔ آج بہت دنوں بعد اپنی بیٹی کے ہاتھوں کا کھانا ملا ہے۔ نوکر کے ہاتھ کا کھاتے کھاتے ان کا دل بھر گیا تھا۔سرلا کی ماں کے ہاتھ کا ذائقہ تو اب انھیں یاد بھی نہیں۔ اس کا نام بھی تو یاد نہیں __ان کا جی چاہا کہ جلدی سے پوچھ لیں۔

’’ بیٹی تمہاری ماں کا کیا نام تھا۔‘‘

’’ ارے یہ کیا۔ اگر اس طرح وہ کوئی سوال کریں گے تو یہ دونوں کیا سوچیں گے۔ دونوں قہقہہ مار کر ہنس پڑیں گے _____‘‘ کیدار ناتھ خود پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگے کہ کہیں بھول کر یہ سوال ان کے منھ سے نہ نکل پڑے ___‘‘ کس سے پوچھوں ؟ کمبخت خود ہی میرے ذہن میں آ جائے تو پوچھنا ہی کیوں پڑے ؟‘‘ انھوں نے بھویں سکوڑیں ، پیشانی پر بے شمار بل پڑ گئے پھر آنکھیں بند کر لیں اور اپنے ذہن سے جھوجھنے لگے۔’’ آج سرلا کا بیٹا نظر نہیں آ رہا ہے شاید اسے اپنی نانی کا نام یاد ہو____باتوں باتوں میں اس سے تو پوچھ ہی لوں گا ___‘‘’’ سرلا آج تمہارا بیٹا ......؟‘‘

’’ہاں پتا جی میں تو بتانا بھول ہی گئی۔ بی۔ اے پاس کرنے کے بعد اس نے کمپٹیشن کی تیاری شروع کر دی تھی۔ کل سے اس کے امتحان ہیں۔ دو دن پہلے ہی دلی چلا گیا ہے ____‘‘ ’’ او.......اچھا............تو گھر پر نہیں ہے۔‘‘کیدار ناتھ ایک ٹھنڈی سانس لے کر پھر کھانے میں مصروف ہو گئے۔ کھانا ختم ہو گیا اور کیدار ناتھ کو اپنی بیوی کا نام یاد نہیں آیا۔ کھانے کے بعد چائے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شام ہو گئی۔ کیدار ناتھ بغیر نام پوچھے ہی وہاں سے اٹھ پڑے۔ گھر لوٹنے کے لئے بس پکڑی۔اب ان کے جسم کی ساری رگیں ڈھیلی پڑ چکی تھیں۔ ہر ایک شخص کو دیکھ کر انھیں لگتا کہ اسے ضرور میری بیوی کا نام معلوم ہو گا۔ وہ ہر ایک سے پوچھنا چاہتے ہیں مگر کوئی شخص نہ تو ان کی طرف متوجہ ہوتا اور نہ ہی کچھ پوچھنے کے لئے ان کے ہونٹ کھلتے۔ سفر جاری رہا اور پھر اچانک ایک جھٹکے کے ساتھ بس رکی۔انھوں نے کھڑکی سے باہر جھانکا اور اترنے کے لئے سیٹ سے اٹھ کھڑے ہو گئے۔

کمرے میں چاروں طرف اندھیرا ہے۔ وہ بغیر روشنی کئے بستر پر ڈھیر ہو گئے۔ اندھیرا گہرا ہو تا جا رہا تھا ، کیدار ناتھ کو محسوس ہوا کہ دیواریں ان کی طرف کھسکتی چلی آ رہی ہیں۔ انھوں نے آنکھوں پر زور دے کر دیواروں کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں جلن ہو نے لگی۔ پورے کمرے میں دھواں بھر گیا تھا۔’’ اٹھ کر لائٹ جلا دی جائے۔‘‘ انھوں نے سوچا۔ مگر روشنی میں تو انھیں نیند ہی نہیں آتی۔ اندھیرے میں بھی کب آتی ہے۔ اب ان کی آنکھیں شعلوں کی طرح دہکنے لگی تھیں۔ جسم سے بھی آگ نکلنے لگے گی۔آگ کی لپٹیں بہت تیز  ہو گئی ہیں ،  سرلا کی ماں کی چتا جل رہی ہے ، روشنی بہت تیز ہے او انھیں نیند نہیں آ رہی ہے۔تو پھر آنکھیں نیند سے بوجھل کیوں ہوتی جا رہی ہیں _____؟جگہ جگہ سے جسم گل گیا ہے۔ وہ جدھر کروٹ لیتے ہیں ادھر سے شدید درد کی لہر اٹھتی ہے۔ ان کے ہاتھ پیر بالکل ٹھنڈے ہوتے جا رہے تھے کہ اچانک ذہن سے کوئی چیز نکل کر پلنگ کے نیچے فرش پر جا پڑی۔کیدار ناتھ اٹھ کر بیٹھ گئے۔لائٹ جلائی اور الماری کھول کر تمام کتابیں فرش پر بکھیر دیں۔ایک ایک کر کے میز کی دراز کے تمام کاغذات نکال ڈالے اور پرانے بکس سے کچھ فائلیں نکالیں پھر دیوانوں کی طرح انھیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے _____کسی کاغذ کو پڑھتے ،  کسی کو پھاڑ کر پھینک دیتے اور کسی کو تہہ کر کے رکھ لیتے۔’’کمبخت اس کی کوئی چٹھی بھی تو نہیں مل رہی ہے۔‘‘ اب کیدار ناتھ نے جھنجھلا کر کتابوں ، کاغذوں اور فائلوں کو نوچ کر پھینکنا شروع کر دیا ہے۔ دونوں ہاتھ بالکل شل ہو چکے ہیں۔ سانس رکنے لگی ہے۔ انھوں نے گھبرا کر گلے میں بندھے مفلر کا بل کھولنا چاہا کہ پتہ نہیں کیسے گرفت اور تنگ ہو گئی پھر ایک جھٹکے کے ساتھ مفلر کھینچ لیا اور بری طرح ہانپنے لگے۔’’ڈھونڈنے سے کوئی فائدہ نہیں _____یاد کرنا بھی بیکار ہے ، اب کچھ یاد نہیں آئے گا۔‘‘ اور وہ یاد کرنے لگے کہ ان کی بیوی کا کیا نام تھا۔

شانتی......................؟

نہیں _________

سروجنی________

نہیں ..............نہیں .......

سرشٹھا.............؟

اف یہ بھی نہیں ____

ہزاروں نام ان کے ذہن میں تیزی سے آنے لگے۔ پھر وہ بھول گئے کہ وہ کیا یاد کر رہے تھے۔

آج کون سا دن ہے ؟

اتوار_____

نہیں اتوار تو کل تھا۔

کل؟

اتوار تو اس دن تھا جب وہ سرلا کے گھر گئے تھے اور سرلا کے گھر گئے ہوئے اب صدیاں گذر چکی ہیں۔

 ان کی آنکھوں سے زرد روشنائی ٹپک کر پورے کمرے میں پھیل گئی ہے۔ کتابیں ، کاغذات اور فائلیں ____کچھ دھندلے دھندلے حروف نظر آئے۔

’’ شرما۔ہاں میرے دفتر کے ساتھی شرما۔‘‘

’’ پورا نام کیا تھا ان کا؟۔‘‘

’’ یہ بھی بھول گیا؟۔‘‘

’’ اور ان کے بیٹے کا؟۔‘‘

’’نہیں ، اب مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہے۔‘‘

پارک_____

’’کون سا پارک‘‘؟

’’ہاں وہی  پارک جہاں وہ کھڑی مسکرا رہی ہے۔‘‘

’’ لیکن اب تو اس پارک کا نام بھی بدل گیا ہے۔‘‘

’’ کیا ہے اس کا نیا نام؟‘‘

’’ نیا ہی کیا اب تو پرانا بھی یاد نہیں۔ میں سب کچھ بھولتا جا رہا ہوں۔‘‘

’’ میری بیٹی ____‘‘

’’ اف اس کا نام بھی نہیں یاد آ رہا ہے۔‘‘

’’ اس کے شوہر کا نام ؟‘‘

’’ہے بھگوان مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو کچھ بھی یاد نہیں۔‘‘

کیا صرف بیوی کے نام کے لئے وہ اتنے پریشان ہیں۔

نہیں ، کوئی اور چیز بھی ہے جسے وہ بھول گئے ہیں۔

’’ کیا چیز ہے وہ؟‘‘

وہ نیم پلیٹ جو بار بار ان کے ذہن سے نکل کر گر پڑتی ہے ! کیا لکھا ہے اس میں ؟ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ سب کچھ مٹ چکا ہے _____

دیواریں ، چھت،  دروازے اور فرش ...................کچھ بھی نہیں ہے۔دور تک پھیلا ہوا ایک بہت بڑا میدان ہے۔زمین میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ سور ج کا گولا پھیل کر اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ پورا آسمان  اس کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ روشنی اتنی تیز ہے کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ اچانک اور کوئی بہت چھوٹی سی چیز نظر آئی۔

’’ کیا ہے وہ ؟‘‘

’’ کوئی انسان ہے جو اپنے چاروں طرف مڑ مڑ کر دیکھ رہا ہے۔ اس کے قریب کوئی بھی نہیں ، وہ تنہا ہے ، بالکل تنہا۔‘‘

’’ ارے وہ تو میری طرف بڑھ رہا ہے ، اور اب میری آنکھوں کے اتنا قریب آ گیا کہ اس کے پیچھے سارا میدان ، آسمان اور سورج کا پھیلا ہوا گولا بھی چھپ گیا ہے۔‘‘

’’ کون ہے یہ شخص؟‘‘

’’میں ؟‘‘اور ان کی آنکھوں کے سامنے خود ان کی اپنی ذات اندھیرا بن کے چھانے لگی۔

’’ مگر میں کون ہوں ؟کیا نام ہے میرا؟‘‘

’’ایں ...................اب تو میں اپنا نام بھی بھول گیا۔‘‘ وہ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر زور سے چیخے اور بغیر ریڑھ کی ہڈی والے آدمی کی طرح دہرے ہوتے ہوتے اپنے آپ میں سمٹنے لگے۔ انھیں لگا وہ کئی گز زمین کے اندر دھنس گئے ہیں۔ ان کا دم گھٹ رہا ہے۔سر بری طرح چکرانے لگا اور آنکھوں میں نیلے پیلے بادل امڈ آئے۔ ہاتھ پاؤں سن پڑچکے ہیں  اور گلا رندھ گیا ہے ، جیسے کوئی بہت موٹی سی چیز اس میں اٹک گئی ہو۔ کانپتا ہوا ہاتھ انھوں نے گردن پر رکھ لیا اور کھنکھارنا چاہا مگر انھیں لگا کہ کھنکھارتے ہی ہچکی آ جائے گی  اور وہ مر جائیں گے۔

’’ نہیں ..........‘‘ وہ بہت زور سے چیخے۔ ان کے ہاتھ کی گرفت گلے پر خود بخود مضبوط ہو گئی تھی۔ دھندلے دھندلے حروف ابھرنے لگے۔

’’کے ................کے ..............‘‘ اف لگتا ہے دماغ کے پرخچے اڑ جائیں گے اور زبان کٹ کر دور جا گرے گی۔ انھوں نے غور سے دیکھا،  حرف کچھ کچھ صاف دکھائی دینے لگے تھے۔’’کیدا ا ا.................‘‘

اور پھر انھوں نے پڑھ لیا۔’’ کیدار ناتھ۔‘‘ وہ خوشی سے چیخ پڑے اور گلے پر ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ دل بہت زور سے دھڑکا،  پورے بدن میں گد گدی سی ہونے لگی اور وہ لڑکھڑاتے ہوئے پلنگ پر جا پڑے۔

’’ کیدار ناتھ، کیدار ناتھ____‘‘ وہ زور زور سے کہنے لگے جیسے اب انھیں سب کچھ یاد آ گیا ہو۔

اپنی بیٹی کا، دوست کا،  اس پارک کا اور اپنی بیوی کا نام ___ کیدار ناتھ !محسوس ہوا کہ ساری دنیا کا نام کیدار ناتھ ہے۔

پھر آہستہ سے اٹھے ، لائٹ بجھائی اور کیدار ناتھ، کیدار ناتھ کہتے ہوئے لحاف میں گھس گئے۔

صبح ہوئی تو انھوں نے خود کو بہت مطمئن محسوس کیا۔ رات بہت گہری اور سکون کی نیند آئی تھی۔!!


ختم شدہ

Monday, April 10, 2023

از: وسیم عقیل شاہ افسانہ:(روایت)

  افسانہ    

   روایت   

   وسیم عقیل شاہ 





   

    "رحمت ہو تجھ پر اے اللہ کی بندی، تیرا در سخی کا در اس سوالی کا سوال پورا کر  ـ" 

     اس گونج دار فریاد کے ساتھ ہی آمین آمین کی مترنم تکرار سے سناٹے میں ڈوبا پورا کاریڈور دھمک اٹھا ـ چند ہی ساعتوں میں یوں لگا جیسے کسی نے 'سن رائز اپارٹمنٹ' کی مردنی چھائی اس سات منزلہ عمارت میں نئی جان پھونک دی ہو ـ دروازے دھڑا دھڑ کھلنے اور بند ہونے لگے ـ اپارٹمنٹ کے دیگر مکینوں کی طرح میں بھی چونک پڑا ـ مگر اگلے ہی پل میرے ذہن کے پردے پر بابا پیر شُکراللہ کے آستانے کی متبرک تصویر اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ متحرک ہو اٹھی ـ تصویر کا نقش اتنا گہرا تھا کہ میں لوبان کی خوشبو تک محسوس کرنے لگا ـ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی مست فقیر بابا سلیم ہیں، جو سات آٹھ فقیروں کو ساتھ لیے دو برس پہلے تک ہر سال ہمارے گھر آتے رہے تھے ـ لہذا میں نے دروازہ کھولنے سے پہلے بہو کو آواز دی کہ وہ ڈرائنگ روم کو ذرا دیکھ لے ـ پھر کچھ توقف سے دروازے کی طرف بڑھا ـ بہو فوزیہ نے بڑی سرعت سے ٹی پائی پر رکھے برتن اٹھائے، سوفے وغیرہ کی شیٹس اور کھڑکیوں کے پردے درست کیے ـ 

     میں نے دروازہ کھول کر ان کا استقبال کیا اور پورے احترام کے ساتھ انھیں اندر لے آیا ـ جیسے ہی فقیروں کی یہ ٹولی اندر داخل ہوئی پورا گھر خس کی روح پرور خوشبو سے معطر ہوگیا ـ ان کے سروں پر بندھے سبز رنگ عمامے اور ٹخنوں تک جُھل رہے ہرے ہرے جبوں کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا جیسے عطرِ خس اپنا رنگ بھی ساتھ لایا ہے ـ بہو نے پردے کی آڑ سے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور کانچ کے خالی گلاس ایک خوبصورت سِرامک ٹرے میں رکھ کر مجھے سونپے ـ 

     مجھے بابا سلیم کے علاوہ ان میں سے کسی کی بھی صورت یاد نہیں تھی مگر یہ یقین تھا کہ یہی سات آٹھ فقیر بابا سلیم کے ساتھ ہمارے یہاں دعوت پر آتے رہے تھے ـ ان کے جُبّے اجلے اور جھولیاں دھلی ہوئی تھیں، مگر چہرے دھوپ کی تمازت سے جھلسے ہوئے نظر آ رہے تھے ـ بھوک ان کی الجھی ہوئی داڑھیوں میں اٹکی پڑی صاف دکھائی دیتی تھی ـ بابا سلیم کا حال بھی تقریباً ایسا ہی تھا ـ پہلے تو انھوں نے بہ نظر غائر ڈرائنگ روم کا جائزہ لیا ، پھر کچھ کہنا چاہا، لیکن لفظ ان کے کپکپاتے ہونٹوں کو چھو کر لوٹ گئے ـ بعد ازاں عصا اور کاسے کو ایک طرف رکھا اور درمیان میں رکھے سنگل صوفے پر اس انداز بیٹھ گئے جیسے مراقبے میں بیٹھے ہوں ـ پانی پیش کر دینے کے بعد میں نے دیکھا فقیروں کے چہروں پر بھی مغائرت تھی اور اسی اجنبیت سے وہ نظر گھما گھما کر دیوار کے ٹیکسچر کلر کو تو کبھی چھت کے پی اوپی اور اس میں لگی ایل ای ڈی لائٹس کی کاریگری کو دیکھ رہے تھے ـ 

     بابا سلیم یوں تو گویا دھیان لگائے بیٹھے تھے لیکن بار بار ان کی نظر کچن کے دروازے پر دستک دے رہی تھی ـ مجھے یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ وہ ریحانہ کی عدم موجودگی کو محسوس کر رہے ہیں ـ ہمارے خانوادے سے ان کے تعلق کی واحد کڑی میری بیوی ریحانہ تھی ـ گھر میں ریحانہ کے علاوہ انھیں کوئی سمجھ نہیں پاتا تھا اور وہ بھی گویا ہم میں سے صرف ریحانہ ہی کو جانتے تھے ـ ان کا ویسا سروکار گھر کے دوسرے کسی فرد سے رہا بھی نہ تھا ـ آج بھی ان کی صدا کا راست تخاطب اللہ کی سخی بندی یعنی ریحانہ ہی سے تھا ـ 

      ریحانہ کو اولیائے کرام پر حد درجہ اعتقاد تھا ـ پیر باباؤں کے آستانوں پر جانا، منتیں ماننا، نذر و نیاز کرنا اور درگاہ کے فقیروں کی غم گساری کرنا اس کا دینی فریضہ تھا ـ پیر بابا شکر اللہ سے اسے خاص عقیدت تھی ـ ہر تین چار مہینوں کے درمیان چالیس کلو میٹر کا سفر طے کر کے ان کی مزار پر حاضری دینے جایا کرتی تھی ـ قلندرانہ صفت رکھنے والے مست فقیر بابا سلیم انھی پیر بابا شکراللہ کے در کے سائل تھے ـ یہیں ریحانہ ان سے پہلی بار ملی اور ان کے زہد و تقوے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ـ تبھی سے بابا سلیم، ولی اللہ پیر بابا شکراللہ کے صندل پر ہر سال ہمارے گھر دعوت کھانے آنے لگے تھے ـ میں برسوں سے اس پر تکلف دعوت کا شاہد رہا ہوں ، اور 'بے اختیار' میزبان بھی ـ 

      میں نے دیکھا بابا سلیم کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے ـ ریحانہ کی غیر حاضری اب انھیں کھلنے لگی تھی ـ میرے لیے یہ حیرت اب تک بنی ہوئی تھی کہ جس کسی نے انھیں اس فلیٹ کا پتا دیا اس نے انھیں مزید کچھ کیوں نہیں بتایا !! سردست میں بھی انھیں اس وقت تک کچھ بھی بتانا نہیں چاہتا تھا جب تک میں انھیں پیٹ بھر کھانا کھلا کر اپنی نیک بیوی کی روایت کو قائم نہ کر لوں ـ اسی بیچ دل کے کسی گوشے میں انچاہی مسرت کا ایک دیپ بھی جل اٹھا تھا، کہ آج میں ان فقیروں کا 'با اختیار' میزبان ہوں ـ لیکن مجھے تھیلیاں لٹکائے بازار جانے کی ضرورت نہیں تھی ـ گھر میں سب کچھ موجود تھا ـ اناج، تیل اور مسالوں کے علاوہ فریج میں ہفتے بھر کا مٹن ،چکن اور سبزی؛ غرض کہ میرا بیٹا ارشد ہرا دھنیا، کڑی پتہ اور پودین ہرا تک ایک ہفتے کا اسٹاک کر کے رکھ لیتا ہے ـ 

      میرے کچن میں جا کر آنے کے کچھ دیر بعد ہی مکسر گرائنڈر کی گھُر گھُر اور پھر مزید کچھ دیر بعد کوکر کی سیٹی کی آواز سے ڈرائنگ روم میں بیٹھے فقیروں کی ریاضت میں جیسے خلل پڑ گیا ہو ـ ابھی اس کیفیت سے محظوظ ہوئے بیس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مسالوں کی اشتہا انگیز مہک اڑنے لگی اور اب میری بھی بھوک مچل کر شدید ہوگئی ـ 

      مہک جب بگھونے میں کھل کھل کرتے دلیم کی اٹھتی تو مومن باڑے کی پوری رمضانی گلی کو مہکا دیتی تھی ـ اس دن لنگر کا سا سماں ہوتا ـ ریحانہ بڑے خلوص سے ان فقیروں کی دعوت کیا کرتی تھی ـ دن کے شروع ہوتے ہی مسالے باٹ کر بِگُل بجا دیتی تو میرے بھی کان پھڑ پھڑا جاتے ـ میں سرکاری ملازم کی طرح بے دلی سے  تھیلیاں لٹکائے بازار کو روانہ ہوجاتا ـ اس دن مزید دو سیگڑیوں کا انتظام کیا جاتا ـ کسی پر دلیم تو کسی پر پلاؤ ـ زردہ اکثر چھوٹی سیگڑی پر اور چھوٹی پتیلی میں پکتا ـ اور گوشت کا سالن ہر دعوت کی مین ڈش ہوتا تھا ـ دیر تک گفگیر ہلتی، کوچے چلتے، ڈھکنے ہٹائے اور ڈھانکے جاتے اور اخیر کار اگلے کمرے میں سبز قالین پر سرخ دسترخوان بچھ جاتے ـ میری ذمہ داری آفتابہ لیے سلفچی میں مہمانوں کے ہاتھ دھلوانے سے لے کر اختتام پر دوبارہ ہاتھ دھلوانے تک محدود تھی ـ اس مختصر دورانیے میں مجھے طباق اور رکابیوں کو بھرا ہوا رکھنا ہوتا تھا ـ بعد از طعام سینی میں سجے لسی سے لبالب آب خوروں کو پیش کرنا یا پِرچ میں کھیر اتار اتار کر پلانا بھی میرے ذمے کا اہم کام تھا ـ پھر کھانے سے فراغت کے بعد جب ریحانہ ان کا عشائیہ کمنڈلوں میں بھر دیتی تو کمنڈلوں کو پورے احترام کے ساتھ مہمانوں کے سپرد کرنا بھی میرے فرائض میں شامل تھا ـ 

      کچن سے آتی کانچ کے برتنوں کی جل ترنگ کی سی آواز سے میں اپنے فلیٹ میں واپس لوٹا ـ یقیناً کھانا پک کر تیار چکا ہوگا ـ اس قیاس کے ساتھ ہی میں نے نظر اٹھائی اور دیکھا کہ اب سچ مچ سبھی فقیر مراقبے کی سی کیفیت میں لگ رہے تھے ـ ان کے چہروں پر اے سی کی ٹھنڈک کا سکون تھا، وگرنہ اپریل کی دھوپ تو ان کی صورتوں کو کباب بنائے ہوئے تھی ـ اتنا وقت بیت جانے کے بعد بھی سب پر خاموشی چھائی ہوئی تھی، گویا سکینہ نازل ہو رہی ہو ـ البتہ درمیان میں دو باتیں ضرور ہوئیں، لیکن ان دو باتوں میں ریحانہ کا ذکر کسی نے نہیں کیا ، میں نے، نہ ان میں سے کسی نے ـ بابا سلیم نے میری اس دریافت پر کہ آپ لوگ پچھلے دو برس سے کیوں تشریف نہیں لائے، بتایا کہ دو سال سے وہ آٹھ سو کلومیٹر دور آستانہء یاوری سے کسب فیض کر رہے تھے ـ ان کے اس جواب پر میرے ذہن میں ارشد کے الفاظ گونجے:

      "چھوڑیے ابو، شاید انھیں امی کی خبر مل گئی ہوگی ـ " 

      یہ الفاظ ارشد نے مجھ سے پچھلے برس اس وقت کہے تھے جب میں ان فقیروں کی مسلسل دوسری بار غیر حاضری پر کچھ فکر مند سا ہوگیا تھا ـ ارشد کے یہ الفاظ اس مزاج کے غماز تھے ـ اسے ریحانہ کا مزاروں پر جانا، یوں فقیروں کو مہمان بنا کر گھر میں لانا بالکل پسند نہ تھا ـ لیکن ریحانہ کی کھینچی ہوئی لکیر وہ کیسے پار کرتا ـ 

      اسی اثنا بابا سلیم نے فلیٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا : " مکان اچھا بنایا ہے ـ" بابا کے یہ جملے میرے لیے غیر متوقع تھے ـ ایک کاغذی مسکراہٹ میرے چہرے پر ابھری ـ اسی اثنا مجھے بہو فوزیہ کا خیال گزرا جو اس وقت کچن میں اپنی تمام صلاحیتیں جھونک رہی تھی ـ ابھی دو ڈھائی برس پہلے ہی وہ بہو بن کر اس گھر میں آئی اور بہت جلد دلوں میں گھر کر گئی ـ اس نے اپنی خوش مزاجی اور سگھڑ پن سے گھر کو جنت بنائے رکھنے میں کوئی کسر رکھ نہیں چھوڑی ہے ـ فوزیہ کی انھی خوبیوں کو دیکھ کر میں ارشد کے مستقبل سے مطمئن ہوجاتا ہوں ـ میں فوزیہ کو اپنی ہی طرح معصوم اور فرما بردار بھی سمجھتا ہوں ـ جس طرح مجھے گھر کے متعلق ریحانہ کے کسی فیصلے پر کبھی کوئی اعتراض نہیں رہا ویسے ہی اس نے بھی کبھی ارشد کے فیصلوں پر اعتراض نہیں کیا، نہ اس کے آگے سوچنے کی سعی کی ـ ارشد کی ہر بات، ہر حکم کو وہ حرف آخر سمجھ کر تسلیم کرتی ہے ـ ارشد نے مومن باڑے کا گھر بیچ کر راتوں رات ہمیں 'سن رائز 'اپارٹمنٹ میں شفٹ کروا دیا ـ اس نے کچھ نہ کہا، اور نہ میں نے ـ اور میں بھلا کہتا بھی کیا ! میں تو شروع ہی سے امور خانہ داری سے دور رہا ہوں، اور گھر کے ہر فیصلے پر چاہے ریحانہ کا فیصلہ ہو کہ ارشد کا ، بس اللھم خیر کہتا رہا ـ اور حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ریحانہ کسی طور اپنا گھر، اپنا محلہ چھوڑ کر کہیں اور جا کر رہنے کے لیے راضی نہیں تھی ـ کسی اپارٹمنٹ میں تو قطعی نہیں، اس کے نزدیک فلیٹوں کی زندگی گوشہ نشینی کی زندگی تھی ـ ارشد لاکھ دہائی دیتا لیکن وہ سرے سے انکار کر دیتی تھی ـ حالانکہ وہ ارشد کے سوشل اسٹیٹس کو سمجھتی تھی ـ لیکن اس نے ارشد کے جاب، اس کے کلچر اور اس کے دوستوں کو کبھی اپنے فیصلے میں رکاوٹ بننے نہیں دیا ـ 

       ادھر ظہر کی اذان کے لیے موذن نے کھنکارا اور ادھر بہو نے پردے کی آڑ سے کھانا لگ جانے کی اطلاع دی ـ 'آئیے' کہتے ہوئے میں نے ہاتھ دھلوانے کے لیے سب سے واش بیسن کی طرف چلنے کی گزارش کی ـ بابا سلیم کے نشست چھوڑتے ہی سبھی فقیر اٹھ کر ریل گاڑی کے ڈبوں کی مانند میرے پیچھے لگ گئے ـ ہاتھ دھلوانے کے بعد میں انھیں ڈائننگ روم میں لے گیا، جہاں ڈائننگ ٹیبل پر کھانا سج چکا تھا ـ ہر چند کہ وہ سب ایک عجب سی جھجک میں مبتلا تھے ، لیکن ان کی آنکھیں بھوک کو مات دینے کے جذبے سے چمک رہی تھیں ـ  ٹیبل پر بچھے پلاسٹک کے سلور دستر خوان پر کانچ کے ایک جیسے دکھائی دینے والے تین چار بڑے پیالے ڈھکے ہوئے تھے ـ نیز ٹیبل کے سروں تک سلیقے سے پھیلی ہوئی ایک جیسی ڈیزائن کی پلیٹیں، آنکھوں میں چبھنے کی حد تک چمچما رہی تھیں ـ ڈھائی تین گھنٹے کی انتظار جیسی ریاضت کے بعد اگر صرف دو روٹیاں ہی میسر آ جائے تو بھوکوں کے لیے کسی عرفان سے کم نہیں ـ لیکن ٹیبل پر چکن گریوی ، بھونے گوشت کا تری دار شوربہ ، زیرہ رائس ، گاجر کا حلوہ، سلاد کی پلیٹوں کی لمبی قطار، بٹر نان کے ڈھیر اور ڈھنگ سے سینکی گئی روٹیاں بھاپ اڑا اڑا کر استقبال کر رہی تھیں ـ  

        اپنی اپنی نشست سنبھالنے کے بعد اب سب لوگ بابا سلیم کی بسمہ اللہ کا انتظار کرنے لگے ، مگر بابا ـ ـ ـ ـ ـ ـ میرا دل ایک دم سے دھڑکا ـ مجھے خدشہ ہوا کہ مبادا ریحانہ سے متعلق اس وقت نہ پوچھ بیٹھے ـ دراصل میرے لیے ان لوگوں کی وقعت چند معمولی فقیروں سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی، لیکن ان کی نسبت ریحانہ سے تھی ـ بابا سلیم ریحانہ کے لیے پیر و مرشد کا درجہ رکھتے ہیں ـ اسی لیے سردست ان کی قدر  میرے لیے مقدم اور اولین ترجیح تھی ـ  

        بابا سلیم ریحانہ ہی کے منتظر تھے ـ  یقیناً وہ ہوتی تو ضرور دروازے پر کھڑی نگرانی کر رہی ہوتی اور مجھے یہاں سے وہاں دوڑاتی رہتی ـ اس دوران مجھ سے زیادہ اس کی مصروفیت دیکھنے کے قابل ہوتی تھی ـ اور اب بابا سلیم کی پیشانی پر ابھری سلوٹوں کو دیکھ کر میری حالت دیکھنے کے قابل تھی ـ بابا سلیم کے یوں دیر تک کھانا شروع نہ کرنے کی اس کشمکش کے بیچ میں نے سوچا کہ اگر ابھی نہیں تو کھانے کے بعد ضرور ریحانہ کے بارے میں پوچھیں گے ـ اس لیے بھی کہ بابا سلیم اکثر کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہی کلام فرماتے تھے ـ اس وقت ریحانہ کا موجود ہونا ضروری ہوتا تھا ـ اور ان کا یہ کلام حاضرین کے لیے مذہبی وعظ ہوا کرتا تھا ـ بابا سلیم کا کلام یا وعظ جو بھی ہو، بڑا فلسفیانہ طرز کا ہوتا تھا ـ سننے والے یقیناً آسانی سے سمجھ نہیں پاتے ہوں گے ، لیکن سنتے پوری دلجمعی کے ساتھ تھے ـ ریحانہ ویسے تو کچھ پڑھی لکھی نہ تھی کہ اس قدر ادق اور ثقیل زبان میں بابا کی رشد و ہدایت کو سمجھ سکے گی ، لیکن اس سنجیدگی سے سنتی تھی جیسے ایک ایک لفظ کو گرہ میں باندھ رہی ہو ـ میں نے اپنی پوری زندگی زبان کی تدریس کی لیکن میں خود بھی ان فلسفیانہ لفظیات اور تراکیب کو سمجھنے سے قاصر رہتا تھا ـ 

         سردست میری پریشانی کا سبب یہ تھا کہ اس وقت یا جب کھانا ختم ہوگا تب، بابا سلیم ریحانہ کی عدم موجودگی پر استفسار کریں گے تو میں انھیں کس طرح بتاؤں گا کہ ریحانہ آپ کی میزبانی کرنے یا آپ کو سننے کے لیے اب اس دنیا میں زندہ نہیں ہے ـ دو سال پہلے جب بابا سلیم اپنے ساتھیوں کے ساتھ آ کر چلے گئے تھے ، اس کے کچھ دو مہینے بعد ریحانہ مختصر علالت کی تاب نہ لاکر اچانک اللہ کو پیاری ہوگئی تھی ـ 

        آخر کار بابا سلیم نے بسمہ اللہ پڑھ لی ـ سب نے گویا راحت کا سانس لیا ـ مجھے بھی تناؤ سے راحت ملی ـ تمام لوگ اطمینان کے ساتھ کھانا کھانے میں منہمک ہو گئے ـ سبھی نے سیر ہو کر کھانا کھایا، کولڈرنکس پی اور واپس ڈرائنگ روم میں آ کر صوفوں پر دھنس گئے ـ کچھ دیر بعد فوزیہ نے پارسل کنٹینر میرے حوالے کیے اور میں نے ان کے ـ میں آخری کنٹینر ان کے حوالے کر کے اپنی نشست پر بیٹھا ہی تھا کہ بابا سلیم نے آخرکار ریحانہ کا ذکر چھیڑ ہی دیا ـ اب میں اس صورت حال کے لیے تیار تھا، لیکن تب بھی ویسی ہمت جٹانے میں ناکام ثابت ہو رہا تھا ـ جیسا بھی ہو مجھے اب انھیں ریحانہ کے انتقال کی خبر سنانی تھی، سو سنا دی ـ 

        میرا آخری جملہ ابھی پورا بھی نہ ہوا تھا کہ وہ ایک دم سے سیدھے ہوگئے ، جیسے صوفے کی پشت پر کانٹے اگ آئے ہوں ـ ان کے باقی ساتھیوں کو بھی مانو سانپ سونگھ گیا! بابا سلیم مجھے اس طرح دیکھنے لگے گویا مجھ سے کوئی ناقابل معافی گناہ سرزد ہوگیا ہو ـ پھر آہستہ آہستہ وہ یکسر گہرے رنج میں ڈوبتے چلے گئے ـ آن کی آن میں پورے کمرے پر غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی ـ وفور جذبات سے میرا دل بھی بیٹھ گیا ـ کچھ دیر اسی کیفیت میں غرق رہنے کے بعد انھوں نے آنکھیں بند کر لیں ـ پھر چند منٹوں بعد جب ان کی آنکھیں کھلیں تو ان کے ساتھی سعادت مند شاگردوں کی طرح بڑے ادب سے سبق سننے کے انداز میں ان کی طرف متوجہ ہوگئے ـ فوزیہ بھی پردے کی آڑ لیے کھڑی ادھر کی کیفیات کا اندازہ لگا رہی تھی ـ بابا سلیم نے ریحانہ کی مغفرت کے لیے خوب دل سے دعائیں کیں، جن پر ایک بار پھر آمین آمین کی مترنم صدائیں گونج اٹھیں ـ بعد ازاں کچھ توقف فرمایا اپنا وعظ شروع کیا ـ 

        اب کی دفعہ بابا سلیم کا خطاب پہلے کی طرح مختصر نہیں تھا ـ انھوں نے بہت دیر تک اپنی رشد ہدایت میں دین و دنیا اور اس کی جزیات کو سموئے رکھا،اس وعظ میں تہذیبوں کے بکھرنے کا نوحہ بھی اور روایت کے قائم رکھنے کا عزم اور ہدایت صاف تھی ـ حیرت کی بات یہ تھی کہ مجھے ان کی باتیں سمجھ میں آ رہی تھیں ـ اور جو کچھ وہ نہیں کہہ رہے تھے اس کے مفاہیم بھی مجھ پر منکشف ہو رہے تھے ـ کیا صرف چند گھنٹوں ہی میں میرا عقیدہ اتنا پختہ ہوگیا تھا ! ریحانہ کہا کرتی تھی، عقیدہ مضبوط ہو تو جو کہا نہیں گیا وہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے ـ 

        دوران خطاب بابا سلیم نے پردے کے پیچھے کھڑی میری بہو فوزیہ سے بھی تخاطب کیا،اسے ڈھیروں دعائیں دیں اور دیر تک اس کے ہاتھوں کے بنے کھانے کی تعریف کرتے رہے ـ اسی درمیان مجھے یہ خوشگوار احساس ہوا کہ پردے کے پیچھے فوزیہ نظر جھکائے دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگی اور ہلکی سی مسکان کے ساتھ اپنے ڈوپٹے کے کنارے کو شہادت کی انگلی پر لپیٹ رہی ہوگی ـ اور ایسا کرتے ہوئے وہ بالکل.... بالکل ریحانہ کی طرح لگ رہی ہوگی ـ 

        

                                        ختم شدہ ـ

Friday, January 20, 2023

افسانہ مکھیاں

افسانہ


مکّھیاں

(طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں) 


          کالج سے واپسی پراکرم اپنے پُرانے مکان کی طرف سے گزرا۔ اس مکان کے بازو والے خستہ حال جھونپڑے کی چھت اپنے آگے بنائے گئے ٹاٹ کے سائبان میں جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی۔سائبان کے نیچے لگی چارپائی کے اطراف مکّھیاں بھنبھنا رہیں تھیں۔ انھیں دیکھ کر وہ سوچنے لگا.
          ۔۔۔۔۔اتنی ساری مکّھیاں میں نے اور کہاں دیکھی ہیں؟۔۔۔۔۔کچرے کے ڈھیر پر؟۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟ ۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر؟؟؟۔۔۔۔۔جواب ملا کہیں اور۔۔۔۔”
وہ پھر سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔۔کہاں؟؟؟؟۔۔۔۔۔مگر جواب میں بہت سارے سوالیہ نشانات اس کےذہن میں بکھرتے چلے گئے اور اس نے زینو چاچا کی چارپائی کی طرف دیکھا۔
          پہلی نظر میں وہ دکھائی ہی نہیں دئیے۔ ذرا غور کرنے پر ان کا وجود چارپائی سے الگ ہوا اور پھر جھرّیوں کے جال کے ساتھ ننگی چارپائی کی بنت میں استعمال ہونے والی رسّیوں میں کھو سا گیا۔ رسّیاں بھی تو ان کی جلد کی طرح میلی ہو چکی تھیں۔ زینو چاچا اپنے بدن کی طرح لاغر چارپائی میں دھنسے پڑے تھے۔ اُس کے ایک پائے کو اُن کی سانسوں کی طرح باندھ کر جبراً کھڑا کیا گیا تھا۔ دوسرے پائے کو ان کی زندگی کے گراف کی طرح اونچا اٹھانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔
          ان کی ذرا سی حرکت سے ڈھیر ساری مکھیاں بھنبھنانے لگتیں۔ حالانکہ چارپائی کا ضروری حصہ بننے سے پہلے زینو چاچا اپنے کپڑوں پر مکھّی تک بیٹھنے نہیں دیتے تھے۔ سفید کپڑے تو ان کی جان ہوا کرتے تھے۔ قمیص، پتلون ہو یا کرتا پاجامہ ان کا رنگ سفید ضرور ہوا کرتا تھا۔ جوانی میں تو ان کی ٹوپی، رومال، بیلٹ، پین، جوتے اور موزے تک سفید ہوا کرتے تھے۔ وہ تھے تو پاور لوم مزدور مگر جب صبح سویرے اپنے گھر سے کھانے کا ٹفن لئے نکلتے تو ان پر کسی رئیس زادے کا گمان ہوتا تھا. دن بھر پاور لوم سے لوہا لے کر گھر کے تانے بانے سلجھانے کے لئے زینو چاچا اپنے کمزور اور دبلے پتلے بدن کو مشقّت میں ڈالے رہتے۔ شام کو پرندوں کے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ جانے کے ایک آدھ گھنٹہ بعد وہ پاور لوم کارخانے سے تھکے ہارے باہر نکلتے۔
         کپاس کے ذرّات ضرورت بن کر ان کے بالوں سے چمٹے صاف دکھائی دیتے ۔ وہ بیس برس کی عمر میں ہی مکمل بوڑھے نظرآتے لیکن بوڑھے ہو جانے پر بھی جوان بیٹوں نے انھیں آرام نہیں دیا۔ وہ مسلسل محنت مزدوری کرتے رہے اور بیٹے مفت کا لقمہ توڑتے رہے۔
          چھ مہینہ پہلے جب ان کے لئے چارپائی لگائی گئی تھی تب رسّیاں بڑی صاف ستھری تھیں۔ چارپائی بھی تو اچانک ہی لگانی پڑی تھی۔رات آٹھ بجے کے قریب وہ معمول کے مطابق اپنے گھر پہنچے تو باہر ہی سے انہوں نے آواز دی۔
         ’’شہناز!۔۔۔۔۔اے ۔۔۔۔۔شہناز بیٹی!۔۔۔۔۔ذرا پانی دے تو۔۔۔۔۔‘‘
          تھوڑی دیر بعدان کی چھوٹی بہو شہناز بڑبڑاتی ہوئی پانی بھری ٹوٹی بالٹی لائی اور ایک جھٹکے سے رکھ کر کچھ بڑبڑاتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔ انہوں نے ایک گہری سانس لے کرواپس جاتی ہوئی شہناز کو دیکھا اور سوچنے لگے۔
           ’’صرف یہی لوگ تو رہ گئے ہیں ساتھ میں۔۔۔۔۔شریفہ اور نازیہ کی شادی تو میں نے باہر دوسرے شہر میں کردی ہے۔۔۔۔چلو اچھا ہے سکون سے تو ہیں دونوں۔۔۔۔۔مگر یہ سلیم تو شادی کے ایک مہینے بعد ہی گھر سےالگ ہو گیا تھا۔ تب سے وہ ادھر آتا ہی کہاں ہے؟ اور کریم نے بھی تو جاتے جاتے کتنا جھگڑا کیا تھا ؟؟؟۔۔۔۔۔اب رہ گیا یہ علیم! تو یہ بھی کہاں ٹھیک سے بات کرتا ہے۔۔۔۔۔‘‘
           بس اس سے آگے وہ مزید کچھ نہیں سوچ سکے اور دھڑام سے زمین پر گر گئے۔
          گرنے سے کئی ایک جگہ چوٹیں آئیں مگر جب پاس پڑوس کے لوگوں نے انھیں اٹھایا گیا تو پتہ چلا کہ ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔
تب ان کے لئے چارپائی لگادی گئی۔
          اب اُسی چارپائی سے کچروں کے ڈھیر سے زیادہ بدبو اٹھتی تھی اور گندگی سے کہیں زیادہ مکّھیاں ان کے بدن اور چارپائی پر بھنبھناتی تھیں۔ تبھی تو ان کی بہو انھیں کھانا یوں دیتی جیسے کچرے کے ڈھیر پر کچرا پھینک کر بڑی تیزی سے دور چلی جانا چاہتی ہو۔ ان کا اپنابیٹا بھی اُن سے گندگی کے ڈھیر کی طرح کترا کر گزرتا تھا مگر مکّھیاں برابر انھیں گھیرے رہتیں۔
          بالکل غیر محسوس طریقے سے زینو چاچا کا بدن لاغر ہوتے ہوتے مکّھیوں کا حصّہ بنتا چلا گیا۔ کئی مرتبہ آتے جاتے دیکھ کر انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اکرم کو بلایا۔ ہاتھ ہلتے ہی مکّھیوں کی بھبھناہٹ ایک احتجاج بن کر اس کے کانوں تک پہنچی مگر وہ سرد آہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔
          ان سے ملنے ہی کی وجہ سے ان کی بہو بیٹے سے اس کی ان بن ہوئی تھی۔
          اکرم دو ایک دن کے ناغے سے برابر ان سے ملنے جایا کرتا تھا لیکن ایک روز جب وہ زینو چاچا کی چارپائی کے ایک کو نے پر بیٹھا ان سے باتیں کررہا تھا کہ اُس کے والدین خودمعاشی طور پربہت پریشان ہیں۔ ورنہ ان کے لئے علاج کا کچھ انتظام ضرور کرتے اور وہ تو خود ابھی کالج میں ہے۔اس کے پاس کہاں اتنے پیسے کہ وہ ان کی کچھ مدد کر سکے؟ اگر وہ چاہیں تو ان کے بیٹے کو سرکاری دواخانے میں علاج کے لئے لے جانے کو کہہ سکتے ہیں۔ وہ خودبھی ساتھ ہی رہے گا اور ۔۔۔۔۔۔
          مگردرمیان میں ہی چاچا کی بہو اندر سے تلملاتی ہوئی آئی اور برس پڑی ۔
           ’’اے اکرم ! تو مت آیا کر تو یہاں ۔۔۔۔۔‘‘
وہ ہکا بکا ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگا اور اس کی چڑھی ہوئی تیوریاں دیکھتے ہوئے بولا۔
          ’’شہناز بھابھی ۔۔۔۔کیا ہوا ؟۔۔۔۔۔ایسے کیوں بول رہی ہو؟۔۔۔۔۔”
          ” ‎بس بول دی نا ۔۔۔۔۔۔۔نہیں آنا ادھر تو نہیں آنا سمجھے ۔۔۔۔اور اتنی ہی ہمدردی ہے اگر ان سے تولے جا اپنے گھر رکھ سمجھے ۔۔۔۔۔دیکھو جی ! یہ اکرم ابّا کو تمہارے بارے میں کیا کیا بول رہا تھا ابھی۔۔۔۔۔اور میں بول رہی ہوں تو منہ چلارہا ہے مجھ سے۔۔۔۔۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ پیر پٹختی ہوئی گھر میں چلی گئی مگر علیم تیزی سے باہر نکلا ۔
          اسے دیکھ کر اکرم کا خون کھول اٹھا. جینس پینٹ، جینس شرٹ، گلے میں سنہری چین ۔ بائیں ہاتھ میں کڑا ، بال فلمی ہیرو کے انداز سے سنوارے ہوئے اپنے بالوں کو مزید سنوارتے ہوئے کہنے لگا ۔
          ’’سن اےاکرم ! دوبارہ ادھر آیا نا۔۔۔۔۔تو ہاتھ پاؤں توڑ ڈالوں گا. سمجھا کیا؟ ۔۔۔۔۔دکھائی مت دینا ادھر دوبارہ ۔۔۔۔۔سالے لڑائی لگاتا ہے باپ بیٹے میں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
           ’’کیسی لڑائی علیم بھائی ۔۔۔؟ اس نے زینو چاچا کی طرف دیکھا ۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔۔۔اکرم بس اتنا سمجھ سکا کہ اس کا زینو چاچا سے ملنا ان لوگوں کو خراب لگتا ہے ۔
          ’’ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔چلا جاتا ہوں ۔۔۔۔۔نہیں آؤں گا ۔۔۔۔۔۔چلو چاچا ۔۔۔جو غلطی ہوئی معاف کرنا ۔۔۔۔۔‘‘
اس نے جھک کر چاچا سے کہا ۔
          اکرم کی آواز بھرا گئی۔ علیم اندر چلا گیا ۔ چاچا خاموش رہے ۔عجیب سی نظروں سے اُسے دیکھتے رہے ۔ اُس نے اٹھ کراپنی چپل پہنی اور چلتے چلتے زینو چاچا کو دیکھا ۔ ان کی آنکھوں کے کناروں سے آنسو ڈھلک رہے تھے ۔اکرم کی آنکھیں بھیگنے لگیں…… اور کیوں نہ بھیگتیں ؟ وہ انہیں کی گود میں کھیل کر تو بڑا ہوا تھا ۔ حالانکہ وہ رشتے میں اس کے کچھ نہیں لگتے تھے ۔ بس پڑوسی تھے لیکن اسے بچپن میں زینو چاچا سےبہت پیار ملا تھا۔
اکرم کو اُس کے گھر والوں نے بتایا تھا کہ صبح جب اُس کی آنکھ کھلتی تو ناشتے کی بجائے زینو چاچا کا تقاضا کرتا اور ان کے لئے اتنی ضد کرتا کہ کسی کے ذریعے زینو چاچا کی گود میں پہنچا ہی دیا جاتا ۔ وہ اگر ناشتہ کر رہے ہوتے تو زانو پر بٹھا کر اپنے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے نوالے اُس کے منہ میں ڈالتے۔ ناشتے کے بعد اُس کا منہ دُھلاتے، تولیہ سے اپنا اور اُس کا منہ ہاتھ پونچھتے اور اُسے گود میں اٹھا کر ہوٹل کی طرف چل دیتے ۔
          اپنے لئے گرما گرم چائے اور اکرم لئے دودھ کا آرڈر دیتے۔ دودھ آ جانے پر چائے کا گلاس ایک طرف رکھ کر دودھ ٹھنڈا کرنے لگتے ۔۔۔۔ گلاس ہلاتے جاتے ۔۔۔اور اُس میں پھونک بھی مارتے جاتے۔ حالانکہ وہ بہت گرم چائے پینے کے عادی تھے مگر دودھ ٹھنڈا کرنے کے چکّر میں اُن کی چائے بھی ٹھنڈی ہو جاتی ۔ جب وہ ٹھنڈا ہوجانے والا دودھ اُسے پلا دیتے تو چائے ان کے انتظار میں پانی ہو جاتی ۔ وہ اسے ایک ہی سانس میں پی جاتے ۔
        جب ہو ٹل سے واپس آ کر زینو چاچا اکرم کو اُس کے گھر والوں کے سپرد کرتے تو وہ ان سے چمٹ جاتا۔ ان کے کپڑے، داڑھی، کان، ناک یا سر کے بالوں میں سے جو بھی ہاتھ آجاتا اسے مضبوطی سے جکڑ لیتا مگر جیسے تیسے وہ اُسے گھر والوں کو سونپ کر پاورلوم کارخانے کی جانب چل دیتے اور اکرم اُن کے لیے روروکر پورا گھر سر پر اٹھا لیتا تھا لیکن آج زینو چاچا کو دیکھنے کے بعد ایک سرد آہ بھر کر بوجھل قدموں سے اُسے آگے بڑھ جانا پڑا۔ ایسا لگتا جیسے ان کے اطراف کی مکھیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہو اوراُس ذہن کے سوالیہ نشانات بھی اتنی ہی تیزی سے پھیلتے جارہے ہوں۔
          “۔۔۔۔۔کہاں دیکھی ہے اتنی مکھیاں میں نے ؟۔۔۔۔کہاں ہے ؟؟۔۔۔۔۔کچڑے کے ڈھیر پر ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟؟؟۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر ؟؟؟؟؟ مگر جواب میں سوالیہ نشانات ذہن میں پھیلتے چلے جاتے۔
ایک دن جب اکرم ادھر گیا تو زینو چاچا کی چارپائی سے مکھیوں کے بھنبھنانے کا شور نہیں اٹھا ۔اُن کا جنازہ ہی اٹھ گیا ۔۔۔وہ جنازے کے ساتھ ساتھ تھا ۔
جنازے کو چاروں طرف سے دیکھ چکا تھا ۔ مکھیوں کا کہیں پتہ نہیں تھا مگران کی بھنبھناہٹ برابر اُس کے ذہن میں گونج رہی تھی ۔وہ جنازے کو کاندھا دے رہا تھا۔ مکھیاں ان کے جنازے کے ساتھ نظر نہیں آرہی تھیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بے شمار مکھیاں اُس کے ذہن میں بھنبھناتی ہوئی رینگ رہی ہوں ۔
         رینگتی بھنبھناتی مکھیوں کو اپنے ذہن میں لئے لئےاکرم جنازے سے آگے بڑھ گیا۔قبرستان قریب آگیا ۔ وہ جنازے سے آ گے بڑھتا گیا ۔ اچانک مکھیوں کی بھنبھنانے کا وہی شور اکرم کے کان کے پردوں سے ٹکرایا ۔ اُس نے فوراً پلٹ کر جنازے کی طرف دیکھا زینو چاچا کا جنازہ ان کے بیٹوں کے کاندھوں پر تھا ۔مگر مکھیاں وہاں نہیں تھیں۔ اُس نے مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرف دھیان دیا اور نظر گھما کرقبرستان کی دیوار کی طرف دیکھا۔ رس نکالنے والی مشین سے گنے کا سارا رس نکال کر گنّے کے تقریباً سوکھ جانے والے پھوگ کو ایک آدمی پہلے سے پڑے پھوگ کے ڈھیر پرپھینک رہا تھا جس پر بے شمار مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔

(ختم شد)


اس افسانے کو پڑھ کر زندگی کی زنجیر کو سمجھیں🔽

Tuesday, January 03, 2023

افسانہ: اپنے حصے کا نخلستان

اپنے حصے کا نخـــلســــــتان 

طاہر انجم صدیقی (مالیگاؤں)







گوری رنگت والا بچہ اور اس کا بابا نہ جانے کب سے اپنے ہی سایوں کو روند رہے تھے۔ان کے سائے دھیرے دھیرے بڑھتے جا رہے تھے۔ اُس گول مٹول سے بچے نے اپنی آنکھوں کے کٹوروں کو بالکل ہی چھوٹا کرلیا اورریگستان کے سینے پرحدِ نگاہ تک پھیلتی چلی جانے والی دھوپ کو دیکھتے ہوئے کہا۔

’’کتنی تیز دھوپ ہے بابا!؟‘‘

’’ہاں بیٹا! بہت تیز ہے مگر اپنے حصّے کا نخلستان ڈھوندنا تو پڑے گا ۔۔۔۔۔‘‘

باپ نے اپنے سر پر لپٹے کپڑے کے ایک سرے سے پہلے بچے کے چہرے پر امڈ آنے والی ڈھیر ساری پسینے کی بوندوں کو صاف کیا پھر اپنا چہرہ بھی پونچھ لیا۔ پسینے کے ساتھ ریت کے باریک باریک ذرات اس کپڑے سے لپٹے چلے آئے۔ 

باپ نے اپنے بیٹے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔

’’اِدھر آ بیٹا ! ۔۔۔۔میری چھاؤں میں آجا ۔۔۔۔‘‘

گوری رنگت والا چھ سات برس کا معصوم چہرے والا وہ بچّہ اپنے باپ کے سائے میں ہو گیا ۔

’’ہاں بابا! اب دھوپ نہیں لگتی ۔۔۔۔مگر کتنی گرمی ہے  ؟۔۔۔۔اور یہ ہوا اپنے ساتھ کتنی ریت اڑا رہی ہے؟‘‘

بچے نے اپنی پلکوں کے دریچوں کو کھول بند کرتے ہوئے کہا۔

’’ہوں !۔۔۔۔رک بیٹا ذرا!‘‘

وہ دونوں رک گئے۔

باپ نے اپنے سر کا کپڑا کھولا۔اس کے دو ٹکڑے کئے ۔ چھوٹا ٹکڑا بچے کے سر اور چہرے پر اس طرح لپیٹا کہ صرف اس کی آنکھوں کے کٹورے ہی کھلے رہ گئے۔

’’لے بیٹا! میری انگلی پکڑ کر چل ۔‘‘

دونوں ریگستان کی سلگتی ریت پرچلتے رہے۔

ہوا کے گرم تھپیڑے ان سے ٹکراتے رہے۔

ریت کے ذراّت اڑتے رہے. 

ان کے بالوں اور کپڑوں سے الجھتے رہے. 

پلکیں بند کر لینے کے باوجود بھی ان کی آنکھوں کو پریشان کرتے رہے ۔

وہ دونوں اپنے سایوں کے ساتھ ساتھ ریگستان کے سینے کو بھی روندتے رہے. 

اس سفر میں انہیں کئی نخلستان ملے لیکن ان پر دوسرے لوگ قابض تھے ۔

ان کو اپنے حصّے کے نخلستان کی تلاش تھی۔

دھوپ بڑی شدت کی تھی۔

ہوائیں تیز چل رہی تھیں۔

ریت سارے ریگستان میں اپنا وجود پھیلائے ہوئے تھی۔

باپ نے اپنی آنکھوں کو مسلتے ہوئے صحرا کے سکوت کو توڑا۔

’’تجھے معلوم ہے بیٹا !۔۔۔۔ایک مرتبہ میں بھی اپنے بابا کے ساتھ ایسے ہی ریگستان سے گذر رہا تھا۔۔۔۔لیکن اس روز دھوپ تو اِس سے بھی تیز تھی  ۔۔۔۔مگر جیسے میں نے تجھے اپنے سائے میں کیا ہے نا ۔۔۔۔تیرے دادا نے بھی مجھے اپنے سائے میں کر لیا تھا ۔‘‘

’’پھر تو تم کو بھی دھوپ نہیں لگ رہی ہو گی ۔۔۔۔ ہے نا ؟‘‘

بچے کو محسوس ہوا جیسے اس کے بابا کو کوئی نخلستان مل گیا ہو۔ وہ بہت خوش ہوگیا۔

’’ہاں بیٹا! مجھے بھی دھوپ نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔۔مگر معلوم ہے پھر کیا ہوا تھا ؟‘‘

’’کیا ہوا تھا بابا؟‘‘

لپیٹے گئے کپڑے سے جھانکتی بچے کی کٹورا آنکھیں سوالیہ نشان بن گئیں۔

’’تیرے دادا آسمان کی طرف چلے گئے تھے ۔‘‘

’’آسمان کی طرف  !!۔۔۔۔وہ کیسے بابا ؟‘‘

بچے کی آنکھوں کے حلقے مزید پھیل گئے۔

اس نے حیرت اور معصومیت سے پوچھا۔

’’رک بیٹا! بتاتا ہوں۔۔۔۔ذرا انگلی چھوڑ تو میری!‘‘

بچے نے دیکھا کہ وہ ابھی تک اپنے بابا کی انگلی تھامے کھڑا تھا۔ 

اس نے جھٹ سے انگلی چھوڑ دی۔

’’۔۔۔۔دیکھ بیٹا! ۔۔۔۔ایسے گئے تھے وہ آسمان کی طرف!‘‘

اس نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دئیے ۔

بچے نے آسمان کی طرف اٹھے ہوئے اس کے ہاتھوں کو دیکھا۔

بچے پر پڑنے والا بابا کا سایہ غائب ہو گیا. 

اس کے بابا کے پیر دھیرے دھیرے اُپر اٹھنے لگے۔

اس کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

وہ اپنے بابا کواوپر اٹھتا دیکھتا رہا ۔

دھوپ کی شدّت نے اس کی حیرت کو جھلسایا تو وہ چونک گیا ۔

اس نے اپنے سر اور چہرے پر لپٹے کپڑے کو کھول کر آسمان کی طرف دیکھا۔

اس کابابا اوپر جارہا تھا ۔

’’بابا !۔۔۔۔نیچے آؤ نا! ۔۔۔۔کتنی تیز دھوپ ہے؟‘‘

اس نے اپنے بابا کو واپس بلایا۔

’’۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’بابا !۔۔۔۔ بہت تیزدھوپ ہے ۔۔۔۔تم کچھ بولتے کیوں نہیں؟ ۔۔۔۔اوپر کیوں جا رہے ہوبابا؟ ۔۔۔۔نیچے آؤ نا !‘‘

اوپر سے کوئی جواب نہ آیا۔

وہ چلانے لگا۔

’’با با ۔۔۔۔ بابا۔۔۔۔او بابا!۔۔۔۔نیچے آؤ نا بابا!۔۔۔۔نیچے ۔۔۔۔نی۔۔۔۔چے ۔۔۔۔نی ۔۔۔۔نی‘‘

اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بوندیں نکل کر گالوں سے لڑھکیں اور اس کے گرد آلود کپڑے میں جذب ہوگئیں۔ 

اس نے اوپر دیکھتے دیکھتے اپنے گٹھنے سلگتی ریت پر ٹیک دئیے۔

آنسوؤں کی بہت ساری بوندیں اُس کی آنکھوں سے نکل پڑیں اور اُس نے دہاڑ مار مار کر روتے ہوئے اپنے لب کھولے ۔

’’با با۔۔۔۔نی ۔۔۔۔چے ۔۔۔۔بابا!۔۔۔۔‘‘

مگر نیچے نظر پڑتے ہی اُس کی آواز گلے میں ہی اٹک گئی ۔

نیچے اُس کا بابا ریگستان کی سلگتی ریت پر اپنے ہی سائے پر بے حس و حرکت پڑا تھا ۔

وہ ابھی اپنے بابا کو اِس حالت میں آنسو بھری آنکھوں سے دیکھ ہی رہا تھا کہ کسی نے اُس کے گرد آلود کپڑے کا کنارہ پیچھے کی طرف کھینچا۔

وہ بڑی پھرتی سے پیچھے مُڑا۔

اُس کے پیچھے ایک چھ سات سالہ، کٹورا آنکھوں والا  بچّہ کھڑا تھا.

اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا، کٹورا آنکھوں والے بچے نے معصومانہ انداز میں اُسے دیکھتے ہوئے کہا. 

’’کتنی تیز دھوپ ہے بابا!‘‘

اُس نے گوری رنگت والے اُس بچّے کو دیکھا۔

پھراپنے اطراف حدِّ نگاہ تک پھیلتے چلے گئے گرم ریگستان کو دیکھا اور ایک ٹھنڈی سانس لے کر اٹھ کھڑا ہوا ۔

اس کے منہ سے بیساختہ نکلا۔

’’اِدھر آ بیٹا ! ۔۔۔۔میری چھاؤں میں آجا ۔۔۔۔‘‘


(ختم شد)




اس کو پڑھیں🔽

پنکھڑی اِک گلاب کی سی



Friday, December 30, 2022

افسانہ : باپو کاکا


باپو کاکا
افسانہ نِگار  :    طاہر انجم صدیقی  ( مالیگاؤں) 
    


 ساٹھ پینسٹھ برس کے باپو کاکا میں نام کے علاوہ اور کو ئی عجیب بات نہیں تھی ۔ ’’باپو کاکا‘‘ نام ہی کہاں تھا؟ دو رشتوں کی پہچان تھا ۔ ویسے ان کا اصل نام رام داس تھا مگر ’’اہنسا پارک ‘‘میں رکھوالے کی حیثیت سے تقرری کے بعد وہاں تفریح کے لئے آنے والوں نے انہیں ’’باپو کاکا‘‘بنا دیا تھا ۔
لوگ پارک میں لگے مہاتما گاندھی کے قد آدم مجسمے کو دیکھتے اور پھر انہیں دیکھ کر کہہ اٹھتے ۔’’ارے باپو ۔۔۔۔۔ارے کاکا۔۔۔۔۔تم تو باکل باپو گا ندھی جیسے لگتے ہو ۔۔۔۔۔بالکل باپو لگتے ہو کاکا ۔۔۔۔باپو کاکا۔۔۔‘‘
جب وہ پارک میں آئے تھے تو کرتا پاجامہ پہنے تھے لیکن گاندھی جی کے چاہنے والوں نے انہیں دھوتیاں لا کر دیں اور پہنے پر مجبور کیا ۔ خود کے تئیں لوگوں کے پیار کو دیکھ کر باپوکاکا نے کرتا پاجامہ ترک کر دیا اور بخوشی دھوتی پہننے لگے ۔
دس سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی انہیں اچھی طرح یاد تھا کہ اسلم نام کے ایک نوجوان نے ہی انہیں سب سے پہلے باپو گاندھی کے ہم شکل ہونے کا احساس دلا کر ایک گول فریم کی بغیر نمبر کی عینک انہیں پہننے کو دی تھی کیو نکہ بڑھاپے کے باوجود بھی ان کی بینائی کمزور نہیں ہوئی تھی. دوسرے روز اس کے دوست ارون نے ایک لاٹھی لا کر دی تھی ۔۔۔اور پھر ان دونوں نے مل کر ایک دھوتی بھی خرید کر انہیں دی تھی ۔ ان دوستوں کی تقلید میں دیگر اور بہت سے لوگوں نے بھی انہیں دھوتیاں لا کر دی تھیں ۔ اس طرح ان کے پاس اچھی خاصی تعداد میں دھوتیاں جمع ہو گئیں ۔ تب ہی تو وہ روزانہ صبح اشنان کے بعد دھوتیاں تبدیل کیا کرتے تھے لیکن ۔۔۔اس صبح انہوں نے اشنان نہیں کیا اور نہ ہی دھوتی تبدیل کی۔  
اس روز جب باپو کاکا کی آنکھ کھلی تو صبح کے دھندلکے مشرقی افق پر سنہری تھال چھوڑ کر جا چکے تھے ۔ پارک کی دس سالہ دیکھ ریکھ کے دوران پہلی مرتبہ ان کی آ نکھ اتنی دیر سے کھلی تھی ۔ ورنہ صبح صادق سے پہلے ہی اپنا پیوند زدہ بستر چھوڑ دینا ان کا معمول تھا ۔          وہ موسم کی شدت سے بے پرواہ اپنا بستر چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے ۔۔۔دھوتی ٹھیک کرتے ۔۔۔دھوتی کے پلے کو اپنے بائیں کندھے پر ڈالتے ۔۔۔دائیں طرف اڑسا ہوا بٹوا درست کرتے ۔۔۔۔۔سر ہانے لاٹھی او ر عینک کے پاس رکھی ہوئی پیتل کی بالٹی اٹھا کر اپنی جھونپڑی کا دروازہ کھولتے ۔۔۔۔اور سامنے دیکھتے ۔۔۔باہر تھوڑی ہی دوری پر دو فٹ اونچے چبوترے پر کھڑے مہاتما گاندھی کے قدِآدم مجسمے پر ان کی نظریں جاٹھہرتیں ۔۔۔پوسٹ لیمپ کی روشنی میں ماہر مجسمہ ساز کے ہاتھوں قائم کی گئی ابدی مسکراہٹ گاندھی جی کے ہونٹوں پر پھیلی صاف دکھائی دیتی ۔۔۔۔انہیں محسوس ہوتا کہ مجسمے کے ساتھ ہی کوئی ان کے اندر بھی مسکرا رہا ہے ۔۔۔اس کے ہونٹوں پر گاندھی جی کی ابدی مسکراہٹ ہے ۔۔۔وہ دھیرے دھیرے پھیل رہی ہے ۔۔۔۔اور پھیلتے پھیلتے خود ان کے ہونٹوں تک آ گئی ہے ۔۔۔۔باپو کاکا خود بھی مسکرانے لگتے ۔۔۔ان ہونٹوں پر وہی ابدی مسکراہٹ پھیل جاتی مگر اپنی مسکرا ہٹ سے لا علم باپو کاکا اطراف کا جائزہ لیتے ۔۔۔انہیں پارک کی ہر شئے مسکراتی دکھائی دیتی ۔۔۔۔بیل بوٹے ۔۔۔۔درخت ۔۔۔پودے ۔۔۔۔جھاڑجھنکاڑ ۔ دیواریں ۔۔۔زمین اور آسمان۔۔۔ سبھی مسکراتے محسوس ہوتے۔
 اس مسکراتی فضا میں باپو کاکا اپنے ہاتھ میں بالٹی لئے سیدھے پارک کی بورنگ پر چلے جاتے ۔۔۔۔وہاں تین چار بالٹی پانی سے اشنان کرتے ۔۔واپس اپنی جھونپڑی میں جا کر دھوتی تبدیل کرتے ۔۔۔۔اتاری ہوئی گیلی دھوتی باہر لا کر دیوار کے قریب پڑے پتھر پر رکھتے اور پاس ہی نیم کیے درخت کے نیچے آلتی پالتی مار کر پرایا نام کا آسن جما لیتے ۔۔۔ان کا رخ مہا تما گاندھی کے مجسمے کی طرف ہوتا ۔۔۔۔اس دوران ان کی زبان سے گاندھی جی کے بول الفاظ کی صورت میں نکلتے اور سوئی ہوئی چڑیوں کو جگاتے رہتے ۔۔۔ 
 ’’ایشور اللہ تیرو نام ۔۔۔۔۔ایشور اللہ تیرو نام ۔۔۔۔‘‘ 
اس بول کی تکرار کو سن کر بیدار ہونے والی چڑیاں جب دوسری خوابیدہ چڑیوں کو جگانا شروع کرتیں تو نیم کے درخت کے نیچے بیٹھے باپو کاکا اپنی آنکھیں موند لیتے ۔۔اور منہ ہی منہ میں کچھ بدبدانے لگتے اس دوران کبھی کبھی کوئل کی کوک اور کوؤں کی کائیں کائیں بھی ان کے کانوں کے پردوں سے ٹکراتی رہتیں ۔۔۔تھوڑی دیر بعد جب چڑیوں کا خوشگوار شور اپنے شباب پر جا پہنچتا تو سورج چپکے چپکے مشرقی کنارے سے سر اٹھاتا ۔۔۔۔اور دھیرے دھیرے اوپر سرکنے لگتا ۔۔۔جیسے جیسے اجالا پھیلتا چڑیوں کا شور اس میں تحلیل ہوتا جاتا ۔۔۔جب سورج کی نرم گرم شعاعیں با پو کاکا تک پہنچیں تو وہ اپنی آنکھیں کھولتے ۔۔۔ان کی نظریں آہستہ آہستہ اوپر اٹھتیں اور گاندھی جی کے مجسمے پر سے رینگتی ہوئی ان کے چہرے پر جا ٹھہرتی ۔۔۔۔پھر وہاں سے پھسلتی ہوئی مجسمے کے پیروں تک چلی جاتیں۔۔۔۔وہ اٹھتے اور آگے بڑھ کر گاندھی جی کے پیروں کے پاس کی گرد اُٹھا کرآشیر واد کے طور پر بڑے احترام سے اپنے ماتھے پر لگا لیتے اور سیدھے اپنی جھونپڑی میں چلے جاتے.  
اندر جاکر اپنا بستر ایک کنارے رکھتے ۔۔۔۔عینک اپنی آنکھوں پر لگاتے ۔۔۔۔اور لاٹھی اٹھا کر جھونپڑی کے دروازے سے باہر نکلتے ۔۔۔۔پتھر پر رکھی گیلی دھوتی اٹھاتے ۔۔۔دوبارہ بورنگ پر جاتے ۔۔۔دھوتی کو اچھی طرح دھوتے اور سوکھنے کے لئے پھیلا کر پارک کی صاف صفائی میں جٹ جاتے ۔۔۔۔
لیکن اس روز جب ان کی آنکھ کھلی تو سورج طلوع ہو چکا تھا. چڑیوں کا خوشگوار شور کمزور پڑ چکا تھا اور ان کو محسوس ہورہا تھا کہ وہ بھی چڑیوں کے شور ہی کی طرح کمزور ہو چکے ہیں ۔ ان کی آنکھوں کے پپوٹے سوجے ہو ئے تھے ۔۔۔آنکھوں کی سفیدی میں نظر آنے والے لال ڈورے صاف ظاہر کر رہے تھے کہ ان کی نیند پوری نہیں ہوئی ہے ۔۔۔اور واقعی اخیر شب تک انہیں نیند نہیں آئی ہے۔۔۔۔وہ جاگ کر کر وٹیں بدلتے رہے تھے ۔۔۔بے چین رہے تھے ۔۔۔۔انہیں رہ رہ کر احساس ہو رہا تھا کہ ان کے چاروں طرف آ گ ہی آگ ہے ۔۔۔۔آگ میں بہت سارے لوگ جل رہے ہیں۔۔۔چیخ رہے ہیں ۔۔۔وہ آگ دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے ۔۔۔انہیں بھی جلا رہی ہے ۔۔۔ان کی جھونپڑی ۔۔۔۔۔پورا پارک ۔۔۔خود گاندھی جی بھی اس آگ کی لپیٹ میں ہیں۔۔۔۔باپو کاکا گاندھی جی کو بچانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔گاندھی جی کی طرف بڑھتے ہیں ۔۔مگر گاندھی جی غائب ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔انہیں چبوترہ خالی دکھائی دیتا ہے ۔۔۔جس کے اطراف آگ ہی آگ ہے ۔۔۔۔پورے پارک میں آگ ہے ۔۔۔پارک کے باہر جہاں بھی ان کی نظر جاتی ۔۔۔۔۔آگ ہی آگ نظر آ تی ہے اور دور دور تک گاندھی جی انہیں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔۔۔۔انہی احساسات میں کروٹیں بدلتے ہوئے ان کی رات گذری تھی ۔۔۔۔
وہ اپنے آپ کو بہت سمجھاتے رہے ۔۔۔دلاسے دیتے رہے ۔۔۔مگر ان کا دل نہ جانے کس مٹی کا بنا ہوا تھا کہ سمجھتا ہی نہیں تھا اور اسے جتنا بھی سمجھتاتے اتنا ہی الجھتا چلا جاتا ۔۔اور الجھتا بھی کیوں نہیں کہ شہر میں برپا ہونے والا فساد اُن کی آنکھوں کے سامنے ہی تو پھوٹا تھا۔ پارک میں اسلم اور ارون کے درمیان کوئی سخت قسم کی بحث جاری تھی باپو کاکا ان دونوں کی زور دار بحث سن ہی رہے تھے کہ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئے ۔۔۔۔باپو کاکا انہیں آوازیں دیتے دیتے لپکے مگر ان کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی لوگوں نے دونوں کو الگ کر دیا ۔۔۔اور پھر نہ جانے کیا ہوا کہ انہیں الگ کرنے والے لوگ ہی آپس میں الجھ گئے ۔۔۔ہاتھا پائی کا زور چلا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہندو مسلم فساد کی شکل اختیار کر گیا ۔
  پارک سے پھوٹنے والے فساد نے درجنوں لاشیں گرا کر ۔۔۔پچاسوں کو زخمی کرکے۔۔۔ سینکڑوں مقامات نذر آتش کرکے پو رے شہر کو آگ اور دھوئیں میں لپیٹ کر رکھ دیا تھا ۔۔۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کا اور مسلمانوں نے ہندوؤں کا دل کھول کر جانی و مالی نقصان کر نا جاری رکھا تھا لیکن حساس باپو کاکا بے چینی سے کروٹیں بدل بدل کر رات کے آخر پہر تک جاگ کر بس ذرا ہی دیر سو کر اٹھے تو سورج طلوع ہو چکا تھا ۔انہوں نے اپنی سوجی ہوئی آنکھوں کے پپوٹے دو ایک بار کھول بند کئے اور آہستگی سے اٹھ بیٹھے ۔۔۔ایک سرد آہ بھری اور بالٹی اٹھائے بغیر ہی بڑی نقاہت کے ساتھ جھونپڑی کے دروازے تک آئے۔۔۔دروازہ کھول کر باہر دیکھا اور چونک پڑے کیونکہ سامنے چبوترہ خالی پڑا تھا اور مہاتما گاندھی کا مجسمہ غائب تھا ۔۔۔وہ جلدی جلدی پارک کے گیٹ پر لگے پبلک ٹیلی فون کی طرف لپکے ۔ 
اپنی دھوتی میں اڑسائے بٹوئے سے ایک سکہ نکال کر ریسیوراٹھایا ۔سکہ سوراخ میں ڈالا۔۔۔پولس اسٹیشن کا نمبر ڈائل کیا اور جلدی جلدی مہاتما گاندھی کے مجسمے کے غائب ہونے کی رپورٹ دے کر گیٹ پر ہی پولس کا انتظار کرنے لگے ۔ 
پارک کے چاروں طرف دور نزدیک جگہ جگہ سے دھوئیں کے کالے کالے بادل اوپر اٹھتے صاف دکھائی دے رہے تھے ۔ ان پر افسوس کرتے ہوئے بس تھوڑے ہی دیر گزری تھی کہ کرفیو کی قائم کردہ خاموش فضا میں پولس جیپ کی آواز ابھر کر ان کے کانوں کے پردوں سے ٹکرائی ۔انہوں نے پارک کا گیٹ کھول دیا ۔  جیپ سیدھے پارک میں داخل ہوئی ۔ اس کا انجن خاموش ہو آ اور ایک انسپکٹر کے ساتھ ہی کئی کانسٹیبل نیچے اتر کر ان کی طرف لپکے ۔انسپکٹر نے باپو کاکا کو غور سے دیکھ کر پوچھا ۔
  ’’کون سا پتلا غائب ہوا ہے ؟۔۔۔۔۔‘‘
’’گا ندھی جی کا ساب ۔۔۔۔۔وہ اس چبوترے پر کا."   
باپو کاکا نے خالی چبوترے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ 
’’ابے بڈھے! یہاں شہر کی کنڈیشن خراب ہے اور تجھے مذاق سوجھا ہے۔۔۔۔وہ چبوترے پر تیرا باپ کھڑا ہے کیا ؟ ۔۔۔"
انسپکٹر نے گاندھی کے مجسمے کو دیکھ کر کہا
"کہاں ساب؟ وہ تو خالی ہے"
 انہوں نے حیرت سے چبوترے کو دیکھا. 
’’ابے اندھے ۔۔۔۔مذاق کرتا سالے بڈھے ۔۔۔۔‘‘ 
اتنا کہہ کر انسپکٹر نے ایک زور دار لات باپو کاکا کو دے ماری۔۔۔۔وہ چاروں خانے چت زمین پر گر گئے ۔۔۔۔مگر ان کے گرتے ہی چبوترے کی طرف سے کسی بھاری بھرکم چیز کے گرنے کی آواز پر انسپکٹر نے سر گھما کر دیکھا ۔۔۔۔چبوترے کے نیچے مہاتما گاندھی کا مجسمہ چاروں خانے چت پڑا تھا۔ 

   ختم شُد...


اس کو بھی پڑھیں. 🔽

Wednesday, December 28, 2022

افسانہ : فریم کے باہر

  فریم کے باہر 

  (طاہر انجم صدیقی) 


 

          باہر ہوائیں شور مچاتی ہوئی پھر رہی تھیں. دھرتی پر اندھیرا پاؤں پسارنے کی کوشش میں تھا. گھنی اور کالی کالی بدلیوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا. ساری فضا گرد و غبار سے اٹی پڑی تھی. ہوائیں شور مچاتی ہوئی ہال کی باہری دیواروں اور کھڑکیوں کے شیشوں سے سر ٹکرا رہی تھیں. ہال کے اندر آویزاں ایک فریم کے شیشے کے اندر سے وہ بائیں طرف دیکھ رہا تھا لیکن فریم کے باہر وہ بڑی تیز آواز سے ہنس رہا تھا ۔ اس کی ہنسی میں ایک عجیب قسم کا زہر سا ملا ہوا تھا ۔ اور وہ زہر خندی کے ساتھ ہنستا جا رہا تھا ۔ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنی ہنسی کےذریعے کسی کا بری طرح مذاق اڑا رہا ہو ۔۔۔۔اُسے اپنی ہنسی سے بری طرح ذلیل کر رہا ہو۔۔۔۔اور اپنے مقابل شخص کو بالکل ہی حقیر سمجھ کر ہنس رہا ہو. 
          اس کی زہر آلود ہنسی مکمل انتقام بن کر ہال میں گونج رہی تھی. 
          وہ ہال بڑا وسیع تھا۔۔۔۔ہال کے اندر ساگوان کی لکڑیوں سے بنی ڈھیر ساری نشستیں قوس کے سے انداز میں سجی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ نشستوں کے سامنے ایک میز سی بنائی گئی تھی. ہر میز پر مائک رکھا ہوا. تھا۔۔۔.نشستوں کا قوس جس سمت مڑتا تھا اُدھر ایک اسٹیج سا بنا ہوا تھا ۔۔۔۔اسٹیج پر بڑی خوبصورت اور اونچی نشست بنائی گئی تھی. اس کے سامنے رکھی میز پر بھی ایک مائک موجود تھا. ۔۔۔۔اسٹیج پر کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔اور نہ ہی قوس کے سے انداز میں سجائی گئی نشستوں کی قطاروں میں کوئی نظر آ رہا تھا۔
          ایسا لگتا تھا جیسے ان نشستوں ، اسٹیج اور ڈائس پر صرف اور صرف اس زہر خند ہنسی کا ہی قبضہ ہو ۔۔۔۔اور تمام جگہوں سے وہی ہنسی صدائے باز گشت بن کر ہال کی دیواروں سے کھیل رہی ہو. 
          باہر کا شور اور اندھیرا اسی بازگشت کے ساتھ مل کر اندر دندناتے پھرنے کی خاطر دیواروں اور کھڑکیوں کے شیشوں سے سر ٹکراتا پھر رہا تھا. 
        اچانک ہی ہنسی کی آوازوں نے ہال کی دیواروں اور کرسیوں سے ٹکرا ٹکرا کر دم توڑ دیا ۔۔۔۔اور ایک آواز ابھری. 
        ”کیا بات ہے؟۔۔۔۔اتناکیوں ہنس رہے ہو تم اور کس بات پر ہنسے جارہے ہو؟“
        نئی لیکن باوقار آواز نے سوال کیا۔ جواب میں ہنسنے والی آواز نے بولنا شروع کیا.
        ”میں ؟۔۔۔۔میں ہنس رہا ہوں تو صرف اس لئے کہ تم نے میری بہت مخالفت کی ۔۔۔۔ مجھے ہزار روکنا چاہا ۔۔۔۔ میرے راستے میں لاکھ رکاوٹیں ڈالیں ۔۔۔۔مگر دیکھو میں رکا نہیں اور آ ۔۔۔۔"
" نہیں..... میں نے تم کو روکنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ورنہ تم ماضی کے کسی کونے کھدرے میں ہی رینگ رہے ہوتے..... میں تو بس اپنی راہ چلتا گیا.....میں اپنے وچاروں اور ارادوں پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہا...... ورنہ اگر میں تمہارے خلاف چلا ہوتا تو آج تم میرے سامنے کھڑے نہیں ہوتے."
پروقار آواز کے فوراْ بعد ہنسنے والے آواز ہال میں سنائی دینے لگی. 
          "یہ سب صرف باتیں ہی ہیں. یقین جانو کہ اگر میں تمہارے ساتھ چلا نہیں تو کیا ہوا ؟ ۔۔۔۔میں نے اپنی راہیں الگ بنا لیں۔۔۔۔میں نے سفر کب بند کیا تھا؟ ۔۔۔۔دیکھ لو ۔۔۔۔میں زندگی میں اگر تم سے کبھی پیچھے تھا تو اب تمہارے سامنے کھڑا ہوں ۔۔۔۔تمہارے آدرشوں ۔۔۔۔تمہارے اصولوں۔۔۔۔اور تمہارے نظریات کی مٹّی پلید کرتے کرتے میں یہاں تک آ پہنچا ہوں ۔۔۔۔اور تم تو مجھ سے اچھّی طرح واقف ہو چکے ہو کہ میرے نظریات ۔۔۔۔میرے خیالات ۔۔۔۔اور میرے مقاصد نے تمہیں قدم قدم پر صدمہ پہنچایا ہے ۔۔۔۔تمہیں گولی مارنے میں اگر میں خود شامل نہیں تھا تو میرے اس قدم کے پیچھے میرا دماغ اور میرے نظریات ضرور کام کر رہے تھے ۔۔۔۔اور اب بھی کر رہے ہیں۔“
          ہال کے باہر کی تاریکیوں میں اضافہ ہو چکا تھا. ہواؤں نے آندھیوں کا روپ دھارن کرلیا تھا. درخت اپنی جگہوں سے اکھڑ رہے تھے.  فضا مزید غبار آلود ہوچکی تھی. تاریکیوں نے اپنے پاؤں مزید پسار لیے تھے. اور زہر خند لہجے والی آواز ہال میں گونج رہی تھی. 
        "میں تمہیں آج بھی روز مرتا ہوا دیکھتا ہوں کیونکہ اس اسٹیج اور قوس کی ترتیب میں سجی ان نشستوں پر بیٹھنے والے جب یہاں ملتے ہیں تو تمہارے نظریات، تمہارے وچار اور تمہارے مقاصد کی ارتھیاں سجاتے ہیں۔ تمہارے آدرشوں کی قبریں بناتے ہیں اور دھرتی پر میرا تانڈو شروع ہوجاتا ہے. تم یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو۔۔۔۔بے بس ۔۔۔۔بے کس۔۔۔۔۔کچھ بھی تو نہیں کرسکتے تم۔۔۔۔کیونکہ تم لاچار اور مجبور ہوچکے ہو۔ بالکل ویسے ہی جیسے کبھی تم نے مجھے لاچار اور بے بس بنا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔ہاہاہاہا!“
        زہریلی ہنسی ہال میں گونج ہی رہی تھی کہ پروقار آواز پھر سنائی دی. 
        "کاش! میں ایسا کرجاتا..... میں نے کبھی بھی تم کو بے بس اور مجبور کرنے کی کوشش نہیں کی. میں تو خود طاقت اور غصے کو استعمال کرنے کا مخالف رہا ہوں لیکن آج سوچتا ہوں کہ تمہارے خلاف مجھے دونوں کا استعمال کرلینا چاہئیے تھا. اگر میں واقعی ایسا کر گزرتا تو اس دھرتی کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا."
مگر جواب میں وہی زہرآلود ہنسی پورے ہال میں گونج گونج کر کرسیوں ،پوڈیم اور اسٹیج پر تانڈو کرنے لگی۔
دوسرے فریم میں حرکت پیدا ہوئی ۔۔۔۔اس میں سجی تصویر کے لبوں میں جنبش پیدا ہوئی اور ایک اطمینان بھری آواز ہال میں پھیلتی چلی گئی۔
” میں مجبور نہیں۔۔۔۔
"بیشک تمہارے نظریات نے میری جان لے لی تھی.... میں مر گیا تھا لیکن میرے وچار آج بھی زندہ ہیں. تم کو تو لگا تھا کہ میرا خون بہا کر میرے وچار کا بھی قتل کر دو گے......مگر دیکھ لو آج بھی میرے وچار امر ہیں اور میرے وچار دھارک آج بھی اسی دھرتی پر سانس لے رہے ہیں جس پر میرے سینے سے ابلنے والا خون بہا تھا. 
مجبور تم ہو۔۔۔کیونکہ تم کل بھی ہارے تھے اور آج بھی ہار ہی جاتے ہو۔۔۔۔۔معلوم ہے کیسے؟ ۔۔۔۔ایسے کہ تمہارے نظریات کی حمایت میں اٹھنے والی ہزاروں آوازوں پر میرے آدرشوں کی ایک کمزور سی آواز بھی بھاری پڑجاتی ہے۔۔۔۔۔بالکل اسی طرح جیسے میری آواز نے تمہاری ہنسی کی لاشیں بچھا دی ہیں۔۔۔۔۔دیکھ لو!۔۔۔۔ان نشستوں ۔۔۔۔پوڈیم۔۔۔۔اور اسٹیج کے اطراف تمہارے قہقہے مردہ پڑے ہیں۔“
اس نے ہال میں نظریں دوڑائیں ۔اس کے اپنے قہقہے چاروں طرف مردہ پڑے ہوئے تھے۔
اس نے کمزور سی آواز والے اس نحیف و نزار شخص کو دیکھا ۔وہ دھوتی پہنے ،لاٹھی لئے اپنے فریم میں مسکراتا کھڑا تھا اور اس کی عینک سے باہر جھانکتی آنکھیں اسے دیکھ رہی تھیں۔
اسے محسوس ہوا کہ اس بوڑھے کی نظروں کی چبھن اس کے برداشت سے باہر ہے.
          وہ لپک کر فریم میں واپس گھس گیا اور اس بوڑھے سے نظریں چرانے لگا۔ اس کے فریم میں گھستے ہی ایک چھناکے کی آواز ہال میں گونجی اور فریم کے شیشہ کی کرچیاں ہال کے مخملی فرش پر بکھرتی چلی گئیں. 
          
(ختم شدہ) 

Monday, December 19, 2022

رومانی افسانہ : پنکھڑی اک گلاب کی سی

*پنکھڑی اک گلاب کی سی*

(طاہرانجم صدیقی) 





           ہم لوگ اپنی دوڑتی بھاگتی مصروف زندگیوں سے تھوڑا وقت چرا کر مہینے دو مہینے میں کہیں نہ کہیں تفریح کے لئے نکل جایا کرتے تھے. میں راستوں کے اطراف قدرت کے سجائے گئے حسیں مناظر سے ہمیشہ ہی لطف اندوز ہوا کرتا تھا. پیچھے کی طرف دوڑے بھاگتے درختوں کی قطاریں، ایک چکّر سا کاٹتے ہوئے میدان، کھیت اور وادیاں، لپکتے چلے آنے والے چھوٹے بڑے پہاڑ، کہیں ان پہاڑوں کی چوٹیوں کو جھک کر چومتے سفید، سرمئی، اجلے اجلے ابر کے ٹکڑے اور ان کی بلائیں لے کر گزر جانے والی سیاہ بدلیاں، زمین کی محبت میں پہاڑوں سے اترتے چلے آنے والے جھرنے، لہراتی بل کھاتی ندیاں، ٹکٹکی باندھے آسمان کو تکے چلی جانے والی جھیلیں مجھے ہمیشہ ہی بڑی بھلی لگتی تھیں. البتہ جب کہیں چٹیل میدانوں یا ریگستانوں کے آس پاس سے گزر ہوتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ میں ان سے ناواقف نہیں ہوں. مگر اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا. میں ہل اسٹیشن پہنچنے تک اپنے موبائل پر مسلسل پڑھتا رہا. میرے دوست شکایت کرتے رہ گئے مگر میں نے ہل اسٹیشن پہنچنے کے بعد کتاب ختم کرکے ہی موبائل کو جیب میں رکھا.
          ہم لوگ گاڑی سے اتر کر اپنے جانے پہچانے مقام کی طرف بڑھے. وہاں قدرت نے چاروں طرف ہریالی بچھا رکھی تھی. ہواؤں کے تسلسل اور ان میں شامل ٹھنڈک زمین سےآٹھ نو سو فٹ اوپر اٹھ آنے کا خوش کن احساس پیدا کررہی تھی. موت کی سی خاموش گہری کھائی سے لوگوں کو بچانے کے لئے دور تک لوہے کا مضبوط جنگلہ لگایا گیا تھا. جنگلے سے دس پندرہ فٹ آگے بانس کی کھپچیوں اور بَلّیوں پر پلاسٹک کا سائبان تان کر چھوٹی چھوٹی دوکانیں بنائی گئی تھیں. ان دوکانوں کے مالک آنے والوں کو آوازیں دے کر اپنی طرف بلا رہے تھے. 
          "بولو بھائی چائے...... ہاں میڈم ناشتہ......" 
          "گرما گرم بھُٹا لے لو بھئی بھُٹّا!" 
          "بولو سر! گرین ٹی..... کولڈرنک...... آئسکریم....." 
           ہم دوستوں کے قدم بغیر کسی آواز کے اس دوکان کی طرف بڑھ گئے جس کے سامنے وہ کھڑی ہوئی تھی. سفید لباس اور اس کے گلے میں پڑا ہلکے زعفرانی رنگ کا دوپٹہ اسے بن سنور کر آنے والی دوسری لڑکیوں سے ممتاز کررہا تھا. وہ اپنی فیملی کے ساتھ ایک سفید گھوڑے کے پاس کھڑی تھی. اسے دیکھتے دیکھتے میرے ذہن میں ایک تکونی سایہ سا لہرا گیا. 
          کسی نے مجھے ٹہوکا سا دیا تو میں چونک اٹھا. 
          "اوئے رامش! کتابی کیڑے! اب کیا اس کا چہرہ بھی پڑھ ڈالے گا؟"
          مجھ سے مخاطب اپنے دوست کو میں نے خالی خالی نظروں سے دیکھا.
          میری آنکھوں میں اس دوشیزہ کے معصوم چہرے کا عکس دھندلا ہی نہیں ہوا تھا. اس کی گوری اور دل کی گہرائیوں کو روشن کر دینے والی رنگت دل کی دیواروں پر آویزاں تھی. ستواں ناک کے نیچے قدرت کے سجائے ہوئے یاقوتی ہونٹ میری آنکھوں میں اب بھی خمار کی صورت موجود تھے. شام کی سرخی کو شرما دینے والے رخساروں کی رنگت اور ان پر اٹھلانے والی ناگن لٹیں میرے دل کو جکڑے چلی جارہی تھیں. کمان ابروؤں تلے لانبی لانبی پلکوں کے سائبان میں بڑی بڑی کٹورا آنکھوں کی سفیدی میں تیرتی سیاہ پتلیاں دل کے تاروں کو مسلسل چھیڑے جا رہی تھیں. اس کا لہجہ کانوں میں رس گھول رہا تھا. اس کی میٹھی آواز دل تک اترتی چلی جارہی تھی، اس کے قہقہوں سے آس پاس جلترنگ بجتے محسوس ہورہے تھے. 
           وہ ایک شہزادی کی طرح دکھائی دے رہی تھی. اس کے ہاتھوں میں گھوڑے کی لگام تھی. گھوڑا باکل کسی غلام کی طرح سر جھکائے کھڑا تھا. گھوڑے کی دم زمین کو چھورہی تھی لیکن اس شہزادی کی پتلی اور نازک کمر کو چھو کر اٹھلاتے ہوئے بَھرے بَھرے کولہوں کو چوم چوم لینے والے بالوں نے ہواؤں سے ساز باز کر رکھی تھی. وہ تھوڑے تھورے وقفے سے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لینے کو مچل رہے تھے. وہ ایک عجیب سی شان کے ساتھ انھیں سہلاتی ہوئی اپنے شانوں سے پیچھے دھکیل رہی تھی.
           اسے دیکھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میں ابھی کچھ کہنے کے لئے لبوں کو جنبش دوں تو میرے الفاظ اشعار میں ڈھل جائیں. اس کے لہراتے بالوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ ہواؤں میں ہاتھ لہرا دوں تو سارے منظر پر جادو سا چھا جائے. اس کے رخساروں کی سرخی سے گمان ہورہا تھا کہ آسمان کی طرف ہاتھ بڑھا دوں تو شام اپنے رنگوں میں میری انگلیاں ڈبو دے. ان رنگوں کو زمین پر جھٹک دوں تو سینکڑوں رنگوں کے پھول کھِل جلائیں.
          پھول میرے دل میں کھل رہے تھے.......ایک..... دو اور سینکڑوں نہیں. ..... بلکہ انگنت پھول...... ان میں سے کچھ پھولوں کی پنکھڑیوں میں اس کے ہونٹ لرز رہے تھے. کچھ پھول اس کے سرخ رخساروں کی حیا سے شرما رہے تھے. کسی پھول میں اس کی آنکھوں کی سفیدی کِھلی ہوئی تھی. کسی پھول میں اس کی پرکشش رنگت مچل رہی تھی اور کسی کسی پھول سے وہ جھانکتی ہوئی سی محسوس ہورہی تھی. ان پھولوں کی جداگانہ خوشبوؤں کی لپٹیں اُٹھ اُٹھ کر فضا میں گھلی چلی جارہی تھیں. 
          وہ میری سانسوں میں عطر عطر سا اترتی چلی جا رہی تھی. میری روح تک اس کی خوشبو سے سرشار ہو چکی تھی. وہ میری نس نس میں اٹھلاتی پھر رہی تھی. میں محسوس کر رہا تھا کہ وہ میرے روئیں روئیں سے جھانک کر مجھے دیکھ رہی تھی. اس کے ہونٹ لرز رہے تھے. اس کے رخساروں کی سرخی مزید بڑھ رہی تھی. شرم سے جھک جانے والی لانبی لانبی پلکیں اس کی کٹورا آنکھوں کی پتلیوں پر عارضی نقاب ڈال رہی تھیں. میں مبہوت سا اسے تکے چلا جارہا تھا. میں بہت مسرور تھا. سرشار تھا. معطر تھا. وہ بھی شادماں دکھائی دے رہی تھی. ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ میری کیفیت سے لطف اندوز ہورہی ہو.
          وہ مجھے دیکھ رہی تھی. مسکرا رہی تھی. میرے ذہن میں ریت کے ذرات سے اٹی فضا واضح ہورہی تھی...... تکونی سائے ریت کے ذرات کا پردہ سرکا کر جھانکنے کا جتن کررہے تھے......آگ کی لَپٹیں لہرا رہی تھیں.
          میں اس سے کچھ بولنا چاہتا تھا مگر بولنے سے پہلے اس کی آواز کا جادو میری زبان گنگ کئے جارہا تھا. میں چاہتا تھا کہ اس کی طرف قدم بڑھاؤں مگر اس کے حسن کا طلسم میرے پیروں کو جکڑے ہوئے تھا. میں اٹھنا چاہتا تھا لیکن اس کے وجود کا قرب میرے اعصاب پر قابض تھا. میں اسے دیکھے جا رہا تھا. وہ پھولوں سے جھانکتی اپنی کٹورا آنکھوں سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھی. اس کی ہنسی کا جلترنگ میرے کانوں سے دل تک اترتا چلا جارہا تھا.......اور پھر اسی جلترنگ میں مدھم مدھم سی بھنبھناہٹ شامل ہوگئی......چاروں طرف سے وہی بھنبھناہٹ ابھرتی سی محسوس ہوئی.......اور لکڑیوں کے چٹخنے کی آوازیں واضح طور پر سنائی دینے لگیں.......ہمارے چاروں طرف انگاروں کے پھول کھل اٹھے. 
          اچانک ہی ان پھولوں میں ہلچل سی ہوئی اور وہ میرے سامنے آکھڑی ہوئی. میری سانسیں رک سی گئیں. اس نے میری طرف ہاتھ بڑھا دیا. میں نے اس کے ہاتھ کو دیکھا. مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے روشنی کا ایک ہالہ سا میری طرف بڑھا ہوا ہے. اس کی ہتھیلی پر چاندنی سی روشن روشن کوئی چیز کھِلی ہوئی ہے. 
          اس نے مٹھی بند کرلی. میرے وجود میں کوئی چیز بجھ سی گئی. میں تڑپ اٹھا. میں پہلو بدل ہی رہا تھا کہ اس نے اپنے یاقوتی لبوں کو جنبش دی. 
          "آپ کہاں گم ہیں شہزادہ خامون! کچھ فرمائیں کہ جان میں جان آئے."
          اس کے ہونٹوں سے پھول جھڑنے لگے. 
           اس کی آواز کے ساتھ ہی ایک عجیب قسم کی ٹھنڈک میرے کانوں سے ہوتی ہوئی دل تک پہنچنے لگی. میرے اندر کچھ اضطراب سا مچ گیا. مجھے اپنے اندر بڑی گہرائیوں سے کچھ آوازوں کا ایک کَوندا سا لپکتا محسوس ہونے لگا. میرے وجود نے مجھ سے سرگوشی کی.
          "اینیکسی......." 
          اس نام کی مٹھاس میری روح کی گہرائیوں تک پھیلتی چلی گئی. 
          "اینیکسی" 
          میرا وجود اس نام سے سرشار ہو کر مچل اٹھا. میرے زبان سے بے ساختہ نکلا. 
          "اینیکسی...... میری اینیکسی.......میری روح کی گہرائیوں پر قابض اینیکسی! اب تک تم کہاں تھیں؟....... بھلا کوئی روح اپنے جسم کو چھوڑ کر یوں رخصت ہوتی ہے جیسے تم وداع ہوئی تھیں؟ .......  میں نے تم کو کہاں نہیں تلاش کیا؟....... مصر کے سارے اہراموں میں تمہارے کے لئے بھٹکتا رہا....نیل کی گہرائیوں نے میرے منہ سے نکلی تمہارے نام کی پکار سنی...... فرات کے کناروں نے مجھے تمہارے عشق میں دیوانہ وار ادھر ادھر بھاگتے ہوئے دیکھا.......میرے تلوؤں نے تمہاری ایک جھلک کے لئے ریگستانوں کی پیاس بجھا ڈالی..... بابل اور نینوا کی وادیوں کا چپہ چپہ میرے ساتھ مل کر اینیکسی اینیکسی پکارتا رہا...... مگر تم ......تم کو نہ ملنا تھا......نہ ملیں......ہم دونوں کو تو ایک ساتھ حنوط کیا گیا تھا.......ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑرکھا تھا. ہم دونوں کا دوسرا ہاتھ ایک دوسرے کی کمر پر تھا. ہم ایک ہی تابوت میں تھے.. .....ہمارے جسم بھلے دو رہے ہوں.... مگر ہماری روحیں زمین اور آسمان کے کناروں کی طرح ملی ہوئی تھیں.........اس تابوت کو توڑ کر تم کہاں چلی گئیں تھیں اینیکسی.....؟"
          "میرے خامون....... میرے شہزادے...... معاف کرنا مجھے.... دراصل میں آپ کو بے جان ہوتے ہوئے دیکھ نہیں سکتی تھی......میں چاہتی تھی کہ آپ کے قدموں میں اپنی روح بچھا دوں...... اور میں نے وہی کیا بھی...... آپ میری تلاش میں بڑی سرعت سے کہیں نکل چکے تھے....... اس لئے مجھ پر آپ کی نظر نہیں پڑ سکی تھی...... اپنی روح کو آپ کے قدموں میں بچھا دینے والا وہ لمحہ بے انتہا مسرور کن تھا. میری روح عجیب قسم کی لذتوں سے سرشار تھی....... اور جب اس سرور کے درمیان آپ کا خیال آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ اپنا جسم چھوڑ کر کہیں رخصت ہو چکے تھے....... اس کے بعد میں خود بھی تو آپ کے لئے دیوانہ وار ادھر ادھر بھٹکتی رہی ہوں..... میں نے بھی آپ کے لئے بہت سارے ملکوں کی سرحدوں کو روندا ہے.......آپ کو کیا لگتا ہے...... آپ کی اینیکسی آپ کے بغیر رہ سکتی ہے شہزادہ خامون؟..... میں نے تو آپ کے لئے اپنا محل...... عیش و آرام..... سب کچھ چھوڑ دیا تھا...... تخت و تاج کو ٹھوکر میں اڑا دیا تھا..... آپ کے بغیر جی لینا کیا مجھ کو زیب دیتا؟ اس وقت جب ہماری روحوں کے اطراف کا ماحول گلنار تھا. میں آپ کے قدموں کی خاک کو اپنے ماتھے پر سجا رہی تھی."
          میں نے دیکھا. اینیکسی کی آنکھوں سے دو موتی نیچے ڈھلک آئے. وہ جیسے ہی زمین پر گرے زمین نے سسکاری سی بھری اور ان آنسوؤں کی جگہ دو پودوں کو سجا دیا. ان پودوں میں اینکسی کی آنکھوں کی شباہت کی دو پتیاں کھِل کر مجھے دیکھنے لگیں.
          میں تڑپ اٹھا. میرے اندر ایک ہلچل سی مچ گئی. میں اٹھ کھڑا ہوا. میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنی اینیکسی کا ہاتھ تھام لیا. صدیوں بعد اینیکسی کا لمس پاکر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے ہاتھوں میں روئی کا گالہ اور چاند کا ہالہ سا آگیا ہو. ایک عجیب سی لہر میرے ہاتھوں سے گزری اور ذہن و دل پر چھا گئی. 
          میں نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا. مزید دو موتی ڈھلکنے کو بیتاب تھے. میں نے ٹھنڈی سانس لی. انگلی کی پور سے ان آنسوؤں کو پونچھا. 
          "جانِ حیات اینیکسی! روتی کیوں ہو تم؟ دیکھو! قدرت نے ہمیں ملا ہی دیا ہے نا....."
          میری انگلی کا پور پہلے کافور سا ٹھنڈا ہوا اور پھر گرم ہونے لگا. گرم ہوتا گیا اور کسی انگارے کی مانند جلنے لگا. ہمارے تابوت کے چاروں طرف انگارے دہکتے رہے. لکڑیاں چٹخ چٹخ کر ہماری محبت کی گواہی دیتی رہیں. تکونی سایہ ہمیں گھیرے کھڑے لوگوں کی بھنبھناہٹ سنتا رہا. میں نے اپنی اینیکسی کو دیکھا. اس کی کٹورا آنکھوں میں پیار کا سمندر امڈا آیا تھا. اس نے مچل کر مجھے پوری قوت سے جکڑ لیا...... چاروں طرف دہکتے انگاروں پر اینیکسی کی سانسوں کی گرمی غالب آگئی. 
          "اینیکسی..... میری جان اینیکسی..."
          میں نے اسے سینے سے جکڑ لینے میں اپنی پوری قوت سی صرف کردی. میں اسے شاہانہ ظلم سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنے اندر ہی کہیں چھپا لینا چاہتا تھا..... وہ بھی میرے وجود میں مدغم ہو جانے کو بیتاب تھی....... اسی بیتابی میں اس نے میری ہتھیلی پر کچھ رکھ دیا..... میں نے مٹھی بند کرلی. دہکتے انگاروں کے درمیان میری ہتھیلی ٹھنڈی پڑنے لگی...... ٹھنڈک بڑھتی گئی.... آگ کی لَپٹیں تیز ہوتی گئیں. میرا پورا ہاتھ یخ بستہ ہونے کو تھا. رفتہ رفتہ میرے سارے وجود پر وہی ٹھنڈک غالب آتی چلی گئی. 
          اینیکسی میری بانہوں میں تھی. میری مٹھی بند تھی. ہم دونوں ایک ہی تابوت میں تھے. تابوت کے چاروں طرف انگارے دہک رہے تھے..... خوفو کے اہرام کے تکونی سائے میں جلائی گئی وہ آگ ہماری محبت کی گواہ تھی. ہم دونوں ایک ساتھ پگھل جانے کو بیتاب تھے....... میری برف ہوتی مُٹھّی سارے وجود کو ٹھنڈا کئے دے رہی تھی. 
          اچانک ہی کوئی میری مٹھی کھولنے کی کوشش کرنے لگا. 
         " رامش! یہ تو مُٹّھی میں کیا لئے بیٹھا ہے؟ اتنی ٹھنڈی کیوں ہے تیری مٹھی؟......تیرا پورا ہاتھ ہی برف ہورہا ہے! .....مگر رامش! تجھے تو بڑا تیز بخار ہے یار!"
         میں نے خالی خالی نظروں سے بولنے والے کو دیکھا.؟ وہ میرا دوست تھا....... میں نے اینیکسی کو دیکھا...... وہ میری بانہوں میں نہیں تھی..... میرے چاروں طرف ہریالی بچھی ہوئی تھی. اینیکسی گھوڑے کے پاس بھی نہیں تھی. گھوڑا ابھی بھی کسی غلام کی ہی طرح سر جھکائے کھڑا تھا......میں نے بند مٹھی کھولی...... میری ہتھیلی پر چاندنی سی کوئی شئے رکھی ہوئی تھی.....سفید..... خوشبودار......روشن روشن...... ایک پنکھڑی..... گلاب کی سی........
         
                    (ختم شد)