جہان بھر کے ہوں جلوے ہزار آنکھوں میں
رہے مدینے کی لیکن بہار آنکھوں میں
بسا کے ناز کریں جب غُبار آنکھوں میں
ہو میری آنکھوں کا تب ہی شمار آنکھوں میں
جھُکیں تو وہ ہوں، اُٹھیں تو وہی نظر آئیں
"کچھ ایسا کردے مرے کردگار آنکھوں میں"
انھیں جو دیکھیں خوشی سے برس پڑیں آنکھیں
انہی کی یاد کے ہوں آبشار آنکھوں میں
فرشتے جھوم اُٹھیں حشر میں اگر اٹھوں
میں اُن کی دید کا لے کر خمار آنکھوں میں
کبھی اٹھایا تھا اک خار خاکِ طیبہ سے
کھلاتا رہتا ہے وہ لالہ زار آنکھوں میں
سجائے رکھتا ہوں میں ان سے دل کی جنت کو
سمیٹ لایا ہوں نقش و نگار آنکھوں میں
ابھی بھی سامنے لگتا ہے سبز گنبد ہے
ابھی تلک ہیں اُنہی کے مینار آنکھوں میں
ابھی بھی لگتا ہے جاتا ہوں اُن کی ہی جانب
کھُلا ہے اُن کا ابھی بھی دیار آنکھوں میں
ابھی بھی لگتا ہے طیبہ نگر میں چلتا ہوں
ابھی بھی گھومے ہے ہر رہگزار آنکھوں میں
وہ جن کی نسلیں سلامت رکھی ہیں خود تو نے
مدینے کے وہ کبوتر اُتار آنکھوں میں
مدینے سے یہ جو لَوٹیٖں نہیں رہیں بیباک
عجب قرینہ، عجب سا وَقار آنکھوں میں
بقیع والے سلامت رہیں! سلام بھی لیں!
ہیں اُن کے پیاروں کے اب بھی مزار آنکھوں میں
مینار و گنبد و محراب و جالیاں یا در
کہاں کہاں کا رکھا ہے قرار آنکھوں میں؟
جہاں بھی ذکر چلے یہ چھلک ہی جاتی ہیں
جواز، نامِ محمد ہے یار آنکھوں میں
میں دیکھ آیا ہوں طاہرؔ مدینہ بستی کو
کریں تلاش کوئی شئے سُنار آنکھوں میں








