Translate ترجمہ

Showing posts with label طنز و مزاح Humorous. Show all posts
Showing posts with label طنز و مزاح Humorous. Show all posts

Monday, July 17, 2023

طنزو مزاح کے شاعر: بدرالدین بادل ؔ

 طنز و مزاح کے شاعر بدرالدین بادل

 اشعار اور حالات کے آئینے میں

 (از قلم: طاہر انجم صدیقی)  


   مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ مالیگاؤں کے فتح میدان  میں مشاعرے کا اسٹیج سجا ہوا تھا. شہنشاہِ نظامت ثقلین حیدر اپنی نشست پر براجمان تھے. وہ مشاعرہ گاہ میں موجود سامعین کے شور سے تنگ آچکے تھے. فعلن فعلن کے وزن کے ساتھ مسلسل ایک شاعر کا نام مشاعرہ گاہ میں گونج رہا تھا. انہوں نے اپنی نشست چھوڑ دی اور کھڑے ہو کر مائک سنبھالتے ہوئے کہنا شروع کیا.

  "یہ "آلا بالا" اور آم چھو نیم چھو" کیا ہے؟ میں نہیں جانتا .

    (ایک تذکرہ یہ بھی سنا ہے کہ 'آم چھو نیم چھو' سے چِڑ کر خدا جانے منہ ہی منہ میں کیا پڑھ کر ثقلین حیدر نے مائک پر" چھو" کیا کہ بڑی دیر تک مائک ہی بند رہا. ساؤنڈ والے نے اسے آن کرنے کی بہت کوشش کی لیکن  ناکام رہا. دوبارہ ثقلین حیدر نے مائک پر آکر "چھو" کہا تو مائک آن ہو گیا. اگر اس تعلق سے آپ میں سے کسی کو کچھ علم ہوتو کمنٹ میں تصدیق کریں. نوازش ہوگی.)

   مائک دوبارہ آن ہوا تو ثقلین حیدر گویا ہوئے. 

   "آپ بضد ہیں تو آپ کے لیے انہیں دوبارہ آواز دے رہا ہوں آئیے بادل صاحب!" 

    وہ بادل صاحب کوئی اور نہیں بلکہ بدرالدین بادل تھے. وہی بدرالدین بادل جن کا "آم چھو نیم چھو" اور "آلا بالا مکڑی کا جالا" بہت سے سنجیدہ افراد پسند نہیں کرتے تھے. میں نے آج اسی بدرالدین بادل پر قلم اٹھایا ہے. 

   بھلا ہو خیال انصاری صاحب کا کہ انہوں نے بدرالدین بادل پر قلم اٹھانے پر اکسانے کے لیے مجھ سے ملاقات کی اور دریافت کیا کہ کیا میں نے بادل پر مضمون لکھا ہے؟ 

   میں نے کہا "نہیں!"

   اور سبب بھی بتا دیا کہ ان کے اشعار میرے پاس نہیں ہیں. میرے منہ سے اتنا نکلتے ہی خیال انصاری صاحب کا ہاتھ ان کی زنبیل میں چلا گیا اور جب باہر آیا تو ڈاکٹر شاہینہ پروین صدیقی کی ترتیب و تدوین کے نتیجے میں شائع ہونے والی کتاب "بادل کی مزاحیہ شاعری" میرے حوالے کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

   "لیجیے! بادل کی کتاب حاضر ہے."

     گھر پہنچ کر میں نے کتاب کا مطالعہ کرنا شروع کیا. مطالعہ سے پہلے ہی میں یہ جانتا تھا کہ بادل روپیوں پیسوں سے بڑے غریب شاعر تھے لیکن وہ ہنسی، مسکراہٹ اور خوشیوں کے موتی لٹانے میں بڑے امیر کبیر واقع ہوئے تھے. یہی وجہ ہے کہ مشاعروں کے سامعین جب بدرالدین بادل کا نام سنتے تھے تو وہ بیساختہ ہنسنے پر مجبور ہو جاتے تھے. ان کی بانچھیں کِھل جایا کرتی تھیں اور وہ اپنے بچپن کے کھیل کھیل میں بغیر کچھ سمجھے گائے جانے والے گیتوں کے بولوں کی بنیاد پر بادل کی منظومات سننے کو تیار ہوجایا کرتے تھے.

   استادِ محترم ڈاکٹر الیاس صدیقی کے مطابق اگر بادل چاہتے تو مزید تھوڑی سی تعلیم حاصل کرکے کسی اسکول میں درس و تدریس سے وابستہ ہوجاتے لیکن گھر کے حالات اور گھر والوں میں شعور کی پختگی کی کمی کے سبب وہ دسویں جماعت تک ہی تعلیم حاصل کرسکے ۔ علم کی دنیا سے نکل کر وہ ابھی عملی زندگی کا ٹھیک طرح سے خاکہ بھی نہیں بنا سکے تھے کہ زندگی کی ضرورتوں نے انھیں اپنے شکنجوں میں جکڑ کر پاور لوم کی گھڑگھڑاہٹ کی طرف گھسیٹ لیا. وہ ایک مرتبہ پاور لوم سے منسلک ہوئے تو پھر اس برزخ سے باہر نکل ہی نہیں سکے. 

   جس طرح بادل کے والدین بادل کے علاوہ اپنی کسی اور اولاد کو اچھی تعلیم نہیں دلا سکے تھے بالکل اسی طرح بادل بھی صرف اپنی ایک بیٹی کو ہی تعلیم کے زیوروں سے آراستہ کر سکے. غالباً یہی سبب ہے کہ وہی تعلیم یافتہ بیٹی خود بادل اور بادل کے گھر والوں کے لئے رحمت ثابت ہوئی.

   میں نے "بدرالدین بادل کی مزاحیہ شاعری" کے مطالعے کے بعد یہ جانا ہے کہ ان کی شاعری میں حالات کی کڑھن، کسم پرسی کی چبھن صاف طور پر محسوس کی جاسکتی ہے بلکہ بعض مقامات پر تو بادل کے اشعار چیختے چلاتے محسوس ہوتے ہیں. 

   بادل نے "آم چھو نیم چھو" اور "آلا بالا مکڑی کا جالا" جیسی منظومات میں مزاح کے پہلو میں طنز اور درد بھی کو بھی چھپا دیا ہے. ان کی ایسی منظومات کے تعلق سے استاد محترم ڈاکٹر الیاس صدیقی نے مذکورہ کتاب میں یوں لکھا ہے:

   "بچپن میں گلی محلوں میں دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے جو انوکھے بول والے چھوٹے چھوٹے گیت بادل نے گائے یا سنے تھے انھیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس نے استائی اور سنچائی میں تبدیل کرکے ایسے معنی خیز اور ترنم ریز گیت لکھے جو اس کی بے پناہ مقبولیت اور ہر دل عزیزی کا سبب بن گئے."

   ڈاکٹر الیاس صدیقی کی اس بات پر یقین کرنے کے لئے بادل کی کتاب کے پہلے گیت" آلا بالا مکڑی کا جالا" کو دیکھیں:

   اس گیت کا بول وہ بول ہے جب بچے ایک دوسرے کا کان پکڑ کر بیٹھتے ہیں اور جھوم جھوم کر ایک لے کے ساتھ گاتے ہیں. بادل نے گیت کا عنوان وہیں سے اٹھایا ہے اور کم عمری کی طویل العمر پیروڈی کر دی ہے لیکن اس پیروڈی میں بچپن کی معصومیت نہیں ہے. بچپن کا بھولا پن نہیں ہے بلکہ اس گیت میں غمِ جان بھی ہے اور غمِ جہان بھی ہے. 

   اس گیت کے تعلق سے صاف طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بادل گر چہ ایک غریب اور پاور لوم سے لوہا لے کر اپنا رزقِ حلال کشید کرنے والے شاعر تھے لیکن ان کی نظر شہر مالیگاو ¿ں کی نبض بن کر پھڑکنے والی صنعت کے اتار چڑھاو ¿ اور باریکیوں پر بھی تھی. غالبا یہی سبب ہے کہ ان کے اس گیت میں ایل پی اور کاونٹ جیسی کاروباری اصطلاحات موجود ہیں. دیکھیں:

   کم پونجی میں دھندہ کیا ہے

   سوت کا ایل پی ہم نے بھرا ہے

   پہلے سٹ میں نکلا دیوالہ 

   آلا بالا مکڑی کا جالا 

   بادل نے اس بند میں شہر مالیگاؤں کے پاور لوم بنکروں کی کم سرمائے کے ساتھ کاروبار شروع کرنے کی علت کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کے نقصان کی طرف بھی متوجہ کیا ہے. وہ بتانا چاہتے تھے کہ اس طرح جس بیوپاری سے خام مال لیا جائے گا اس کو اس کی قیمت وقت پر نہ ادا کی جائے تو ہرجانے کے طور پر وہ مزید رقم طلب کرے گا اور دیر سے ادائیگی پر ایل پی نام سے جرمانے کی رقم بھی بھرنی پڑے گی. 

   مطلب یہ ہے کہ بادل پاور لوم مزدور ہوتے ہوئے بھی اس باریکی کو جان گئے تھے کہ مضبوط سرمایہ کاری سے گھن کی طرح کھا جانے والی دیمکوں سے بچا جاسکتا ہے اور دو پیسے کمائے جا سکتے ہیں.

   دوسرے بند میں وہ یوں فرماتے ہیں:

   کاو ¿نٹ میں ایسی مار پڑی ہے

   سائزنگ کے مالک سے بک بک ہوئی ہے

   ہوگیا سارا گڑبڑ گھوٹالا

   آلا بالا مکڑی کا جالا

   اتنا ہی نہیں بلکہ بادل نے اس ایک نظم میں پاور لوم صنعت پر چھانے والی مندی، اس کے نقصانات، مقادم، میتھا اور ٹیکسٹائل کے علاوہ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی وغیرہ کو بھی شامل کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض پاور لوم مزدور نہیں تھے بلکہ وہ اس صنعتِ پارچہ بافی کی باریکیوں، وسائل اور مسائل تک سے واقف تھے. 

   بادل کا دوسرا گیت "انتا منیا کوڑی روپیا" وہ گیت ہے جب مالیگاوئں کے گھروں کے بڑے یعنی والدین، بھائی، بہن، چاچا اور چاچی وغیرہ گھر میں موجود چھوٹے بچے کو اپنے پیروں پر جھولے کی طرح جھولاتے ہیں اور یہی گیت گاتے ہیںلیکن جب بادل نے اس گیت کے بول کو اپنے گیت میں جگہ دی تو گھر کے بڑوں کو موضوع کیا. انہوں نے اس گیت میں مسلم سماج میں پھیلی برائیوں پر خوب طنز کیا ہے. گیت کا بند دیکھیں:

   کاندھے سے کاندھا چھِلتا ہے دیکھو

    دھکّے پہ دھکّا لگتا ہے دیکھو

    کتنے مگن ہیں بھوجی اور بھیا

    انتا منیا کوڑی روپیا

    یہ سماج کی اس برائی کی طرف اشارہ ہے جب میلے میں گھومنے والے لوگ مختلف قسم کی چھیڑخانیوں کا شکار ہوتے ہیں. ایسے مقام پر مرد و زن کا پہنچنا شہر مالیگاو ¿ں میں قابلِ اعتراض سمجھا جاتا ہے. نظم کے مذکورہ بالا بند میں بادل نے اسی طرف اشارہ کیا ہے لیکن آگے چل کر نوجوان لڑکیوں کا جترا میں جانا، مسلم خواتین کا فلم بینی کے لیے سنیما کا رخ کرنا، عورتوں کا دوکانوں پر خریدی کے لیے جانا اور میچنگ اوڑھنی کے نام پر بازاروں کی زینت بڑھانا بھی بادل کو نہیں بھاتا تھا. انہوں نے مردانہ غیرت پر چوٹ کرنے والے کئی بند اس نظم میں شامل کیے ہیں.

    اس کے بعد کی نظم "تیر پہ تیر" میں پیری فقیری کی آڑ میں چھرخانیاں کرنے، سیاستدانوں کے عوام کو جھوٹے خواب دکھا کر الّو بنانے کے طرف اشارہ کیا گیا ہے جبکہ "آندھی بوندی آوت ہے" آسمان میں اڑتے پھرنے والے بادلوں کی گرج کے بعد جب آسمان سے ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوتی ہے تو بچوں کا من خوشی سے مور بن جاتا ہے۔وہ بیساختہ گھروں سے باہر بھاگ نکلتے ہیں. کھلے آسمان کے نیچے جمع ہوتے ہیں اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے دونوں ہاتھ کھول کر ایک ہی جگہ پر بار بار گھوم گھوم کر

"آندھی بوندی آتی ہے چڑیا ڈھول بجاتی ہے"

گانے لگتے ہیں. وہ ماحول بڑا پیارا لگتا ہے. شاید آسمان کو بھی ان معصوم بچوں کا جھوم جھوم جانا، مسرور کن انداز میں اوپر دیکھتے ہوئے گانا بھلا لگتا ہے ہے اور وہ اپنی بانہیں کھول کر ان بچوں پر تصدق کے موتی نچھاور کرنے لگتا ہے. 

    بادل نے اسی ماحول سے” آندھی بوندی آوت ہے“ کواٹھا کر اپنی نظم کا عنوان کیا ہے اور نظم میں امیروں کی کنجوسی، احسان جتانے، شادی بیاہ میں کھانا پکانے والوں کا بغیر کسی کی اجازت سے ایک بڑی ٹوکری بھر کھانا اپنے گھر بھیج دینے کی برائی، بچوں کی کہانی سے دوری اور ٹی وی سے قربت کی طرف بادل نے طنز بھرے اشارے کیے ہیں.

   لکھنے کو تو بادل کی منظومات پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے. اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی منظومات میں موجود غیرمعروف بول بھلے ہی اردو والوں کے لیے بے معنی ہوں لیکن ان بے معنی بولوں کی بنیادوں پر کھڑی منظومات میں بڑی معنی خیز باتیں موجود ہیں. حالانکہ ان غیر معروف بولوں سے کم از کم مالیگاو ¿ں والے تو نابلد نہیں ہیں بلکہ اکثر لوگوں نے بچپن میں ان غیر معروف بولوں کو گنگنایا اور ان پر جھوم جھوم کر گایا ہوگا لیکن مضمون کی طوالت کے خوف سے بدرالدین بادل کی بقیہ منظومات سے صرفِ نظری کر کے ان کی ہزلوں کی طرف رجوع ہونا مناسب سمجھتا ہوں.

   چونکہ بادل جیسا مشاعرہ لوٹ لینے والاشاعر موضوع ہے اس لیے مشاعروں کا تذکرہ ہوجانا بھی موزوں ہے۔

اردو مشاعرہ اور مشاعرے کے تبدیل ہوتے ہوئے ماحول سے جو لوگ واقفیت رکھتے ہیں انھیں اس بات کا علم بھی ضرور ہوگا کہ مشاعرہ گاہوں میں آواز کی پٹری پر غزل کے دوڑنے کا آغاز ہوا تو پھر دوڑ تھمی ہی نہیں. اسی بھاگ دوڑ کے سبب تہت اللفظ کی اچھی خاصی معیاری آوازیں لوگوں کو سنائی نہیں دیں. اب یہ الگ بات ہے کہ کچھ شعراءکے گلے کے ساتھ ساتھ ان کے اشعار بھی اچھے ہوتے ہیں. 

   یہی شکایت بدرالدین بادل کو بھی تھی. حالانکہ وہ اچھی طرح سنے جاتے تھے لیکن ایک حساس دل رکھنے والا شاعر اگر خود مشاعرہ گاہوں کے ماحول میں گردش کرنے والی باتوں کو محسوس نہ کرے تو بھلا اس کی حسیت پر سوالیہ نشان کیوں نہ عائد ہو؟ 

   یہی سبب ہے کہ بدرالدین بادل کو ذیل کا شعر وضع کرنا پڑا:

بڑے بے تکے شعر کہہ ڈالے بادل

ترنم کا جادو جگانا پڑے گا

ان کے کہنے کا صاف اور سیدھا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ بے تکے اور خراب اشعار کو ترنم کے توسط سے مشاعروں میں پڑھا جا سکتا ہے. 

   اسی شکایت کو بادل اپنے دوسرے شعر میں ذرا الگ انداز سے بیان کیا ہے. دیکھیں:

   کل کے مشاعرے میں تو قوال ہی چلے

   بادل تو ٹھیک بارہ بجے اپنے گھر گیا

   بادل صرف اتنا کہہ کر ہی خاموش نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے بہت ہی اونچی اور کان پھاڑ آواز میں کلام پڑھنے والوں کو بھی یوں چھیڑا ہے. دیکھیں:

   چیختے ہیں بے طرح کچھ شاعرِ بے س ±ر یہاں

   شہر سے اب دور قبرستان ہونا چاہیے

   وہ بے سرے شاعروں کی کان پھاڑنے والی آوازوں سے گھبرا کر مُردوں کے اپنی قبروں سے نکل بھاگنے کا مزاحیہ تذکرہ کرتے کرتے خراب گلے والے شعرا سے رحم کی درخواست کرتے نظر آتے ہیں. 

   اپنے ہی کلام کا اپنی ہی مریل سی آواز سے قتل کرنے والے شعرا پر طنز کا نشانہ سادھتے ہوئے بادل نے یہ شعر پیش کیا ہے. 

   حد تو یہ ہے کہ آج گونگے بھی

   چند اشعار لے کے آئے ہیں

   کیونکہ پہلے تو نہایت نحیف و نزار آوازوں پر کان لگا لگا کر اشعار سننا ہی خود پر ظلم تھا اب جن کو خود قدرت نے آوازیں ہی نہیں دی ہیں ان کو مشاعروں کی زینت بنانے کی حرکتیں دیکھنے میں آتی ہیں. بادل اسی پر معترض ہیں۔

   آگے چل کر بادل نے شاعروں کے درمیان موجود متشاعروں کی لعنت پر باکل ہی واضح انداز سے احتجاج کیا ہے. دیکھیں:

   تیس دنوں میں ایک غزل تو دیتے ہو

   روزانہ دس بارہ چائے پلاوں کیا؟ 

   اور متشاعروں کی غزلیں لکھوا لینے کی ڈھٹائی پر بھرپور طنز کیا ہے.

   اتنا ہی نہیں بلکہ شعرا کی شعر سنانے کی عادت پر بھی چوٹ کرتے ہوئے انہوں نے یوں کہا ہے:

   آج اک شعر بھی سنانا نہیں

   اتنا احسان شاعرو! کر دو!

   جب بادل جیسے شاعر نے خود اپنی ہی دنیا کے درویش ہوتے ہوئے اس پر تنقیدی نظر ڈالی تھی تو بھلا شعرا کی دنیا کے باہر وہ کیوں نہیں جھانکتے؟

   بادل نے صرف اس دنیا کو جھانک کر نہیں دیکھا ہے بلکہ بہت اچھی طرح دنیا کا جائزہ لیا تھا.

   دیکھیں کہ انہوں نے ابتدا پڑوس سے کی تھی.

   بے پردگی تو حد سے تجاوز ہی کر گئی

   بادل ہیں "محوِ ٹی وی" پڑوسن کے ساتھ ساتھ

   اس شعر میں ”لفظ ِ ٹی وی“ کو واوین کیا گیا ہے. شاید ان کو معلوم ہوگا کہ اس اضافت پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے لیکن طنز و مزاح کے نام پر شاید درگزر سے کام لیا جا سکتا ہے. 

   جب بہت زیادہ ٹی وی اینٹینا گھروں کی چھتوں پر آویزاں ہونے لگے تھے تب ڈشوں کی آمد آمد ہوئی تھی اور مختلف النوع ٹی وی چینلوں کے لیے یہی ٹی وی اینٹینا لوگوں کو ناکافی محسوس ہونے لگے تھے. تب گھروں کی چھتوں پر ہونے والی تبدیلیوں کو اپنے ماتھے کی آنکھوں سے دیکھ کر بادل کا ماتھا یوں ٹھنکا تھا:

   کبھی تھا ناز اہلِ شہر کو جن خاندانوں پر

   خصوصی چھتریاں ہیں نصب اب ان کے مکانوں پر

   پھر اس کے بعد فلمی اداکاروں کی مداحی کے دور کا زور بھی بادل سے مخفی نہیں تھا. انہوں نے علامہ اقبال سے استفادہ کرتے ہوئے یوں احتجاج درج کرایا تھا:

   ہوئے گِرویدہ شاہ رخ خان، جوہی چاو ¿لہ کے وہ

   بسیرا کیا کریں گے وہ پہاڑوں کی چٹانوں پر؟ 

   اس کے بعد سماج کا ایک المیہ بھی بادل سے چھ ±پا ہوا نہیں تھا. انہوں نے اسے یوں بیان کیا ہے:

   ہم نے تھیٹر میں دیکھی "ڈوائن لَوَرس"

   ایک ہی صف میں تھے، کل پسر اور میں

   ایک شاعر جو سماج کا حصہ ہو وہ سب کچھ لکھے لیکن سیاست یا سیاست دانوں پر نہ لکھے تو ایک عجیب قسم کا ادھورا پن محسوس ہوتا ہے اور اگر یہ کام کوئی طنز و مزاح کا شاعر کرے تو لازمی طور پر اس سے شکایت کی جانی چاہیئے. 

   بادل نے اپنے سامعین اور قارئین کو یہ موقع نہیں دیا بلکہ ذیل کے اشعار میں ان کی سیاسی بصیرت اور سیاست کے تعلق سے ان کے نظریے کو سمجھا جا سکتا ہے. 

   میرے بچوں پہ رحم کھاو رے

   ایک کرسی مجھے دلاو رے

   کھ ±ل جا سِم سِم مجھے سکھاو رے

   اب کے ممبر مجھے بناو رے

   واقعی اب سیاست میں آنے والے عوام کی خدمت کے لیے بلکہ ڈھیرا ساری دولت کے لیے قدم رنجا ہوتے ہیں۔بادل کا دوسرا قطعہ اسی بات کا گواہ ہے۔دیکھیں:

آگیا انتخاب کا موسم

مرغ و ماہی کباب کا موسم

ان سے تھا انقلاب کا موسم 

ان سے گھپلوں کے باب کا موسم

عوام کے حافظوں میں سیاسی لوگوں کے ایسے ایسے فراڈ موجود ہیں کہ اب انھیں جانوروں کی بجائے چارے پر ترس آنے لگا ہے۔ اس کے باوجودسیاسی افراد بقولِ بادل الیکشن کا بغل بجتے ہی ووٹوں کی بھیک کے لیے کشکول تھامے نکل جاتے ہیں:

صوفی، سنتوں کے نگر میں شور برپا ہو گیا

کرسیوں کے سب بھکاری اب صدا دینے لگے

جبکہ بھکاریوں کی طرح ووٹ ووٹ کی رٹ لگانے والے ان لوگوں کے مقاصد کو طشت از بام کرتے ہوئے بادل نے یوں لکھا ہے:

"سکندر لوٹ کر بھی خوش نہیں دولت زمانے کی" 

خزانہ لوٹ کر پبلک کا ممبر رقص کرتے ہیں

اتنا ہی نہیں بلکہ سیاستدانوں کی حرکتوں سے اوب کر بادل پریشان اور مسلسل لُٹنے والی عوام کو یہ کہہ کر جھنجھوڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں :

ہرگز نہ اپنے بچے کو تو ڈاکٹر بنا

اس کو وکیل اور نہ انجینئر بنا

بھرنا ہے خالی پیٹ تجوری کا گر تجھے

شہری کمیٹیوں کا اسے کونسلر بنا

   درج بالا اشعار بادل کی سیاست اور سیاسی لوگوں کے تعلق سے بادل کا نظریہ ظاہر کرتے ہیں کہ سرکاری خزانے کو لوٹتے رہنا، گھپلے بازی کرتے رہنا، عوام کو صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرنا جیسی برائیاں سیاسی افراد میں پائی جاتی ہیں اور وہ بقولِ بادل عوام کو بندروں کی طرح نچاتے رہتے ہیں. یقین نہ آئے تو بادل کی زبانی سنیں:

   گاندھی کے دیش والے سب ہو گئے مداری

   پھولے نہیں سماتے بندر نچا نچا کر

  بادل نے اپنے اشعار کے توسط سے ایک طرف جہاں اپنے سیاسی نظریے کا اظہار کیا ہے وہیں انہوں نے لوگوں کے اس خیال کا بھی پاس رکھا ہے کہ طنزو مزاح لکھنے والا بہت سنجیدہ ہوتا ہے. ان کی سنجیدگی ان کے اشعار کی صورت دیکھیں :

  گھر میں بیٹی تو اک امانت ہے

  یہ ضروری نہیںکہ رو کر دو

اپنے سائے سے بھی وہ ڈرنے لگے ہیں آج کل

بے دھڑک جو کود پڑتے تھے کبھی انگار میں

   بادل نے ایک طرف جہاں ایسی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے تو وہیں دوسری طرف انہوں نے خوبیوں والوں سے چھیڑخانی بھی خوب کی ہے. مثالیں دیکھیں:

   بادل ناصر کاظمی کو چھیڑنے پر آئے تو ان کے سورج کو چونچ میں لیے کھڑے رہنے والے مرغے کو ہی حلال کربیٹھے. پہلے ناصر کاظمی کے مرغے کی طاقت دیکھیں:

   سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا

   کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی

   اب بادل کے ذریعے اسی مرغے کی درگت دیکھیں:

   چونچ میں سورج لے کے کھڑا ہے بس بھی کر

   پیٹ میں مرغا پہنچ چکا ہے بس بھی کر 

   تجھ کو مبارک میرے بھائی رنگِ جدید

   مصرعہ سر سے گزر رہا ہے بس بھی کر 

   بادل ایک جگہ افتخار عارف کی نظم "اورہوا چپ رہی"کی ہوا خراب کرنے کے لیے نظم کی فاختہ پر خوبصورتی سے جو احتجاج درج کرایا تھا۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے:

   شاخِ زیتون پہ انڈے نہیں لگتے بادل

   ہاں! مگر جدّتِ شعری یہ عجوبہ رکھّے

   بادل کے کلام میں خود ان کے اطراف اور ہمارے جوانب میں پھیلے موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں. بادل نے ان موضوعات کو کبھی طنز کے نشتر کے طور پر استعمال کیا ہے، کبھی درد کے ساتھ استعمال کیا ہے، کبھی سنجیدگی کے ساتھ استعمال کیا ہے اور کبھی کبھی خالص مزاح بھی ان کے کلام میں اپنی جھلک دکھا جاتا ہے. دیکھیں:

   تنبیہہ کو میری وہ حماقت سمجھیں

   بڑ ہانکنے والوں کی ہی عادت سمجھیں

   ہیں تیری ہی مانند وہ شاید بادل 

   جورو کی غلامی کو سعادت سمجھیں

اس مثال سے بادل بھی روایتی مزاح نگاروں کی طرح بیوی کے نام پر داد خواہی کے منتظر دکھائی دیتے ہیں جبکہ ذیل کے قطعہ میں بادل نے مزاح کو بڑے ہی خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے۔دیکھیں:

   دکھائیں سَرف والے اشتہار ایسا بھی ٹی وی پر

   ڈبوئیں سَرف میں لارا کو تو عمران خاں نکلے

   مشین اے کاش ایسی بھی ہو اب ایجاد اے بادل 

   اگر بوڑھا ہو داخل اس میں تو بن کر جواں نکلے

اسی طرح ہندوستان کی بہت کچھ جان کر بھی کچھ نہ کرنے والی پولس پر انہوں نے یوں طنز کیا ہے:

راہ چلتے آنکھ سے کاجل نکالیں دوستو! 

شہر کے چوروں میں کتنی سینہ زوری ہوگئی؟ 

پَل میں برآمد کریں کریں ڈکّی سے جو ریوالور

ان پولس والوں کی واکی ٹاکی چوری ہوگئی

جبکہ ذیل کے قطعہ میں بادل کے مزاح کو بھر پور طور پر محسوس کرتے ہوئے اس سے محظوظ ہوا جا سکتا ہے۔

میں نے پوچھا کل فقط اتنا ہی چندو لال سے

پانچ سو میں یہ بتا کتنے گدھے مل جائیں گے؟ 

مسکرا کر اس نے دیکھا میرے چہرے کی طرف

اور بولا آپ جیسے چار ہی مِل پائیں گے

   ان طنزومزاح بھرے اشعار کے حوالے کے لیے اشعار جمع کرتے کرتے بادل کایہ قطع بھی سامنے آگیا تھا:

حشر اب شہرِ ادب میں کچھ اٹھانا چاہیے

خرچ سے اپنے مزار اپنا بنانا چاہیے

کب تلک آخر کرو گے دوستوں کا انتظار

جشن بادل خود تمہیں اپنا منانا چاہیے

   ان چار مصرعوں کو پڑھنے کے بعد میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ واقعی بدرالدین بادل کی شعری خدمات کے اعتراف میں جشن منعقد ہوا بھی تھایا نہیں؟

ابھی ان خیالات کو ٹھیک سے قلم بند بھی نہیں کر پایا ہوں کہ بادل کے اشعار سے میرے منتخب کردہ چار مصرعے اپنی جانب متوجہ کرگئے. آپ بھی دیکھیں:

   جیتے جی تو جھوٹے منہ پوچھا نہیں

   بعد مرنے کے دعا کرنے لگے

   چار مصرعے تعزیت کے لکھ کے ہم

   دوستی کا حق ادا کرنے لگے

   خدا ہی جانے کہ ڈاکٹر الیاس صدیقی کے علاوہ بادل کے دوستوں نے ان کا حق ادا کیا بھی ہے یا نہیں لیکن میں ان پر لکھے اس مضمون کو اپنی سعادت سمجھتا ہوں وہ بھی اس اعتراف کے ساتھ کہ 

   حق تو یہ کہ حق ادا نہ ہوا

المیہ یہ ہے کہ آج کل تو لوگ کسی فنکار کی رخصت پر چار الفاظ تک لکھنے کی زحمت اٹھانا گوارا نہیں کرتے۔

٭٭٭

 اس کوبھی پڑھیں 🔽
کولاژ: سعادت حسن منٹو 






Saturday, April 01, 2023

مزاح: پَنے میاں کا چاند

 *پُنّے مِیاں کا چاند*


ازقلم: طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں، انڈیا




          ہمارے ننھے سے پُنّے میاں ان دنوں چرچا میں تھے. چرچا کا سبب تھا چاند. چاند بھی ایسا ویسا نہیں. رمضان کا چاند تھا. پُنّے میاں جانتے تھے کہ اس چاند کے دکھائی دیتے ہی کھانے کے ہوٹلوں اور چائے خانوں کو اچھی طرح سے پردہ کرایا جاتا ہے اور شیاطین بند کر دیے جاتے ہیں لیکن پنّے میاں کا منہ کسی بھی حال بند ہونے کو تیار نہیں تھا. ان کو اس مرتبہ شوق چرایا تھا چاند دیکھنے کا. حالانکہ ان کو گھر کا چاند تک دھندلا دکھائی دیتا تھا. 

          ان کے چاند نے ان کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا.

          "دیکھو جی! یہ چاند واند کا چکر چھوڑو! بیس اور دو سو کے نوٹوں کا فرق تو تم سمجھتے نہیں ہو..... باریک سے چاند کو کیسے دیکھو گے؟

         پنّے میاں ہتھے سے ہی اکھڑ گئے. 

        " دیکھ گڈو کی امّاں! نوٹ کی بات مت کر....... اتنی واہیات نوٹ چھاپی ہے جہاں پناہ نے کہ بس اللہ کی پناہ! اب بھلا بتاؤ...... کہاں پرانا سو کا نوٹ اور کہاں یہ نیا؟ مجھ کو تو یہ پرانا نوٹ نئے سو کے نوٹ کے سامنے ہاتھی کے کان جیسا لگتا ہے. اور یہ نیا دس کا نوٹ...... اونہہ...... ایسا لگتا ہے جیسے ساڑھے چار روپے بارہ آنے کا نوٹ ہے.......بات کرتی ہے نوٹ کی......."

        "اور وہ دوہزار کا نوٹ...... اس کی بھی کچھ سنادو......"

       " او پپّو کی نانی! وہ نوٹ کسی بچے کو تھما کر دیکھ..... دو کے چار نہ کر دے تو صاحب علی خان نام نہیں میرا.......ہمارے زمانے میں ایسے نوٹ بچوں کے دل بہلانے کو استعمال ہوتے تھے لیکن اب تو دل دہلاتا ہے یہ نوٹ."

       "بچوں کی تو بات ہی مت کرنا جی........ خود تمہیں پچھلی عید کی چاند رات کو دو ہزار کا نوٹ......... "

      " او..... رک میری چاندنی بیگم! رک ذرا....... چاند رات پر سے یاد آیا کہ مجھ کو اب کی مرتبہ رمضان کا چاند دیکھنا ہے. تو مجھ کو باتوں کے کھلونوں میں مت بہلا..... اس بار میں کسی کی سنوں گا نہیں ہاں. بس چاند دیکھوں گا مطلب چاند دیکھوں گا."

        "میں کہتی ہوں تم گڈو کو گڑیا سمجھ کر بلاتے ہو اور گڑیا کو گڈو جان کر چلّاتے ہو......تم کہاں باریک سا چاند دیکھنے پر اڑے ہو....... ضد چھوڑو جی........"

        "منی کی دادی! جب میں نے تجھ سے کہہ دیا نا کہ چاند دیکھوں گا تو بس دیکھوں گا."

       " ہاں بابا! جاؤ سورج دیکھو...... چاند دیکھو....... اور دیکھ لینا تو مجھ کو بھی دکھا دینا."

      "اے لو کر لو بات!....... پیر خود محتاج ہے شفاعت خاک کرے گا......"

      "اسی لیے تو کہہ رہی ہوں جی کہ موئے چاند کا فراق چھوڑو."

      "نہیں چاندنی بیگم نہیں! کم سے کم تو تو نہ روک چاند دیکھنے سے.......تجھے معلوم ہے کہ چاند دیکھنے سے بھی ثواب ملتا ہے."

      اتنا کہتے کہتے پُنّے میاں نے اپنے جیبِ خاص سے پان کی ڈبیا نکالی اور بیگم کے ذریعے لگائے گئے پانوں کی تہوں میں سے ایک پان منہ میں رکھ لیا.

      ان کی بیگم فوراً سمجھ گئیں کہ پُنّے میاں نے توپ کے دہانے میں گولہ داخل کر دیا ہے. اب ان کے سامنے ٹکنا موت کو دعوت دینے جیسا ہے. 

      "ہاں آئی گڑیا..... ابھی آئی"

      کہہ کر پُنّے مِیاں کو جُل دے گئیں. اب یہ الگ بات ہے کہ اس وقت تو گڑیا گھر میں تھی ہی نہیں.      

      پُنّے مِیاں توپ کا دہانہ کھولے چاندنی بیگم کو جاتے ہوئے دیکھتے رہ گئے. 

      تھوڑی دیر بعد وہ گھر سے نکلے تو ایک دوست ان کے ہتھے چڑھ گئے. 

      "اماں سنو یار! شفیق! کہاں بھاگے جا رہے ہو تم! آج رمضان کی چاند رات ہے. کچھ خبر وبر ہے. تم کو آج چاند واند دیکھنا ہے کہ نہیں؟" 

      "نہیں یار پُنّے! چاند کہاں دکھائی دیتا ہے اب مجھے!"

      "ہاں! ٹھیک ہے تمہاری نظر کمزور ہے لیکن انتیس کا چاند دیکھنے کا جو ثواب ہے اس سے کیوں ہاتھ دھونا؟...... چاند دیکھنا چاہئے تم کو."

       "پُنّے مِیاں! تم تو میری نظر پہ یوں تبصرہ کررہے ہو جیسے آج بھی سوئی میں دھاگہ پرو لیتے ہو"

      "اَمَاں میاں شفیق! ناراض کیوں ہوتے ہو؟ نظر تو ہماری بھی کچھ بہت اچھی نہیں ہے."

      پُنّے مِیاں نے رازدارانہ انداز سے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں کوئی سن تو نہیں رہا ہے؟ اور پھر اپنی بات جاری رکھی. 

     " دیکھو یار شفیق! میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کم از ہم چاند دیکھنے کی اداکاری تو کر سکتے ہی‍ں نا؟ تو ہم کو چاند دیکھنا چاہئے....... ہاتھ آئے ثواب سے کیوں ہاتھ دھونا......سمجھے."

     "ہاں بھئی! سمجھ گیا......ہم دیکھیں گے چاند...... آتا ہوں شام کو."

     "اپنی مسجد والی چوک پر ہی آنا."

     پُنّے مِیاں نے سمجھانے کے سے انداز میں کہا اور آگے بڑھ گئے.

     اس روز پُنّے مِیاں کی حالت دیدنی تھی. وہ سارا دن سیماب پا رہے. پھرکی طرح ادھر ادھر گھومتے رہے. اپنے یار دوستوں کو چاند دیکھنے کی دعوت دیتے رہے اور یہ سلسلہ کچھ ایسا چلا کہ شام کو جب لوگ باگ چاند دیکھنے جمع ہوئے تو سارا محلہ جان چکا تھا کہ آج پُنّے مِیاں چاند دیکھنے والے ہیں. 

     بچوں کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا. وہ ہر کس و ناکس سے ٹکراتے، پوچھتے پھر رہے تھے کہ چاند کب دکھے گا؟ نوجوان الگ الگ ٹولیاں بنا کر گپیں لڑاتے کھڑے تھے. بزرگوں میں پُنّے میاں بار بار آسمان کی جانب دیکھ رہے تھے. مارے جذبات کے انہوں نے شمالاً جنوباً بھی نظر دوڑا دی تھی کہ مبادا چاند کہیں ادھر سے نہ جھانک لے. وہ پان پہ پان چباتے جاتے تھے اور باتوں کے گولے داغے جاتے تھے مگر کم بخت چاند بھی جیسے ٹھانے بیٹھا تھا کہ "اب کی بار نو دیدار!"

     لوگ باگ مچل رہے تھے. بچے پنجوں پر اچھل رہے تھے مگر چندا ماما بھلا کب نکل رہے تھے؟ وہ تو کہیں دبکے بیٹھے تھے کہ اگر ایک طبقہ دیکھ لے اور ایک فرقہ نہ دیکھے تو تفرقہ پڑجائے. کوئی آج ہی تراویح پڑھائے اور کوئی دن بھر کھائے. 

     ایسے حالات میں بھی لوگ آسمان پر چاند کو کم، زمین پر پُنّے مِیاں کو زیادہ تلاش کرتے رہے. وجہ تھی ان کا دھنڈورا.     

     "چاند دیکھوں گا!"

     "چاند دیکھنا چاہئے!" 

     "چاند دیکھ کر ثواب کمانا ہی چاہئے!"

      الگ الگ اقوالِ پُنّوی جس تیزی سے لوگوں کے ذہنوں میں گردش کررہے تھے اس سے کہیں زیادہ تیز پُنّے مِیاں کی نظریں گھوم رہی تھیں. 

      مغرب کی اذان ہو چکی تھی مگر پُنّے مِیاں چاند دیکھ کر ثواب کمانے کے لیے مسجد والی چوک پر ڈٹے رہے. جماعت ختم ہوگئی لیکن پُنّے مِیاں کا ہاتھوں کا چھجہ بنا بنا کر مغربی افق پر چاند کو کھوجنے کا خود ساختہ فریضہ ختم نہیں ہوا.

      "وہ رہا چاند!" 

      "کہاں؟" 

      "کدھر؟" 

      پُنّے مِیاں کی نظریں بڑی تیزی سے آسمان کی طرف لپکیں. سبھوں کے ساتھ وہ بھی فلکیات کی خاک چھاننے میں مصروف ہوگئے مگر اچانک ہی

      "کھی کھی کھی" 

      کی آوازوں نے اسے شوشہ ثابت کردیا. ان کا پارہ چڑھ گیا. 

      "یہ کیا بیہودگی ہے بھئی! اب چاند کو بھی مذاق بناؤ گے تم لوگ!" 

      چاند دیکھنے والوں میں سے قہقہوں نے سر ابھارا. 

       "وہ رہا چاند!" 

       "وہ دیکھو چاند!" 

      " چاند دِکھ گیا" 

      جیسے جملوں کی تکرار اور کھی کھی کے ساتھ ادھر ادھر سے قہقہوں کا وہ زور اٹھا کہ پُنّے مِیاں کسے پکڑوں؟ کسے ڈانٹوں کی زندہ تصویر بنے ایک طرف لپکے ہی تھے کہ لڑکھرائے اور دھڑام سے زمین پر آرہے.

      لوگ باگ ان کی طرف لپکے. وہ ان کو زمین سے اٹھانا ہی چاہتے تھے کہ پُنّے مِیاں خود ہی اٹھے، کپڑے جھاڑے اور تن کر کھڑے ہوگئے. انھیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ابھی ابھی زمیں بوس ہوئے تھے. 

      ان کے دوست شفیق کی نظر جیسے ہی ان کے ماتھے پر پڑی وہ بیساختہ ہنسنے لگے. انہوں نے لوگوں کو مخاطب کیا اور ہنستے ہوئے کہا.

      "لو بھئی! پُنّے مِیاں کا چاند دیکھو چاند!" 

      لوگ پُنّے مِیاں کی طرف متوجہ ہوئے. ان کے ماتھے پر ایک بڑا سا گومڑ نکل آیا تھا.

       "چاند دیکھو چاند"

       کے ساتھ قہقہوں کا وہ زور چلا کہ خدا کی پناہ!

       اس کے بعد بہت دنوں تک پُنّے مِیاں جہاں کہیں دکھائی دیتے کسی کونے کھدرے سے  "چاند دیکھو چاند!" کا نعرہ ان کے کانوں سے آ ٹکراتا. وہ اول فول بکتے ہوئے کنّی کاٹ جانے میں ہی عافیت سمجھتے. 

      

(ختمۂ جاریہ)




طنز و مزاح کے شاعر بدرالدین بادل

Friday, March 24, 2023

پُنّے میاں (مزاح) از: طاہر انجم صدیقی

انشائیہ 

 پُنّے میاں

ازقلم: طاہر انجم صدیقی




          پُنّے میاں عمر کی چوتھی دہائی کو پار کر چکے ہیں. ان کا قد ساڑھے تین فٹ ہی ہے. ان کو دیکھ کرسوچا جا سکتا ہے کہ اپنی ماں کا یہ سپوت جب پالنے کا پوت رہا ہوگا تو اس کے پاؤں پالنے میں کیسے نظر آئے ہوں گے؟ صرف پاؤں ہی کیا دیکھنے والی آنکھ کو ہاتھ بھی سجھائی نہیں دیتا ہوگا۔ یہ بیچارے ہتھیلی بھر کی جسامت کے ساتھ دنیا میں وارد جو ہوئے تھے. 

          ممتا کی ماری ماں بیچاری! جب کاجل لگانا چاہتی ہوگی تو پُنّے میاں کی ناک کالی ہوجاتی ہوگی۔ ناک سے کترا کر نکلتے نکلتے ہونٹوں کی شامت آجاتی ہوگی۔ ہونٹوں کو بچاتے بچاتے محاروۃً نہیں بلکہ عملاً ان کا منہ کالا ہوجاتا ہوگا۔ منہ دھلانے کے چکر میں ان کی مکمل والدہ ء محترمہ گھن چکر بن جاتی ہوں گی۔ (مکمل اس لئے کہ وہ قد کاٹھی میں ٹھیک ٹھاک تھیں) وہ سوچتی ہوں گی کہ اپنے جان سے پیارے بے بی کو سنبھالیں یا جانسن بے بی سوپ کو؟ کیونکہ سوپ حجم میں یقیناً پُنّے میاں کے سر سے تھوڑا بڑا ہی دکھائی دیتا ہوگا۔

        حالانکہ پُنّے میاں پیدائشی طور پُنّے نہیں تھے. بالکل ننھّے سے تھے مگر جوانی کے جوش اور بڑبڑاتے ہوئے پُر جوش رہنے کے وبال نے انھیں پُنّے میاں بنا ڈالا۔ پھیکو، بکواسی اور مسٹر تفصّل حسین جیسے القابات تو انھیں لڑکپن کی دہلیز پار کرتے ہی عطا کئے جا چکے تھے. البتہ پُنّے میاں ان کی ذات سے یوں چمٹ کر رہ گیا جیسے کنجوس اپنے مال سے زندگی بھر چمٹا رہتا ہے۔ وجہ تسمیہ وہ خود تھے۔

وہ اپنی ہر بات میں "اپُن نے ایسا کیا، اپُن نے ویسا کیا، اپُن نے ایسا بولااور اپُن نے ویسا بولا، اپن اِدھر گیا ،اپن اُدھر گیا جیسی شکلوں میں اپُن نے، اپُن نے" کا استعمال اتنی کثرت سے کرتے تھے کہ لوگ باگ انھیں " پُنّے میاں" ہی کہنے لگ گئے۔ طرہ یہ کہ ’’پُنّے میاں‘‘ ان سے یوں گھُل مِل گیا جیسے ان دونوں کی ٹوپیاں اور لنگوٹیاں ایک ساتھ سِلی اور دُھلی گئیں ہوں۔

          اسی ’’پُنّے میاں‘‘ نام کے سبب کئی جگہوں سے ان کی شادی کا ہونے والارشتہ اٹوٹ ہونے سے قبل ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا مگر ’’پُنّے میاں‘‘ ان کی شادی کے کارڈ تک ان کا تعاقب کرتا رہا اورشادی کارڈ پر مسلمانوں کی طرح فوری اتی کرمن کر بیٹھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ شبِِ زفاف کے دوسرے روز ملاقات ہوتے ہی پُنِّے میاں نے خوشی خوشی بتایا تھا کہ ان کی دولہن یعنی پُنّی بیگم ان سے "پنّے میاں" کا مطلب اور وجہ تسمیہ جاننا چاہ رہی تھی۔ 

شبِ زفاف سے یاد آیا کہ پُنّے میاں دولہوں کی دنیا کے اکلوتے سامع تھے جنہوں نے اس رات کی اونچ نیچ کے بارے میں مناظرے کرنے تک کے دعوے کئے تھے لیکن جب وہ خود گھوڑی چڑھے تو اسی اونچ نیچ سمجھانے والے دوست سے انہوں نے مکرر ارشاد فرمایا اور پوری سنجیدگی سے فرمایا تھا۔ حالانکہ جب بعد میں یار دوستوں تک یہ خبر پہنچا دی گئی تو پُنّے میاں یوں جُل دینے کی کوشش کرنے لگے۔ 

"اماں نہیں یار! وہ تو اپُن مٗذاق کررہا تھا بھائی سے۔ "

          پُنّے میاں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ قد سے بھلے ہی بونے ہیں مگر پسند امیتابھ بچن کو کرتے ہیں اور اسی قد کی مناسبت سے اتنی ہی لمبی لمبی چھوڑتے بھی ہیں۔ 

        ایک مرتبہ بیٹھے بیٹھے بتانے لگے کہ جب وہ اسکول پڑھتے تھے تواپنی سائیکل کو ایک طرف اتنا ترچھا کرکے چلاتے تھے کہ پیڈل زمین سے جا لگتا تھا اور سائیکل ٹائروں کی بجائےرِنگ پر چلاکرتی تھی۔دوستوں میں سے ایک نے کہا کہ سائیکل تھوڑی سے سیدھی کرلو پُنّے میاں!مگر وہ ہتھے سے ہی اکھڑ گئے۔

"کیوں سیدھی کروں بھلا۔ اپُن نے سائیکل ایسے ہی چلائی ہے مطلب چلائی ہے بس۔ تمہارے باپ کا کیاجاتا ہے؟"

ایک ساتھی نے ان کا جملہ ختم ہوتے ہی ان کی تائید کردی۔

"ارے بھئی مانتے کیوں نہیں! وہ سائیکل اتنی ہی ٹیڑھی چلاتے تھے۔ بس اس کا ٹیوب ٹائر نکال لیتے تھے تبھی تو وہ رِنگ پر چلا کرتی تھی۔"

  ایک مرتبہ پُنّے میاں کے دوستوں کے ساتھ شہر سے دور نکلے۔ ان کے دوست ٹکہ تلنے کے لئے چولہے کی آگ سلگانے کا جتن کرنے لگے۔ ہوا برابر ان کی کوششوں پر پانی پھیرتی رہی۔ وہ جس سمت سے بھی چولہے کو بچانا چاہتے ہوا اسی سمت سے چولہے پر حملہ آور ہوجاتی۔ اللہ اللہ کرکے چولہے کی لکڑیوں نے آگ پکڑی ہی تھی کہ پُنّے میاں نے ایک بڑی سی لکڑی چولہے میں ٹھونس دی۔ آگ پکڑتی لکڑیوں نے وہ دھواں دھار احتجاج کیا کہ ان کے یار دوست ہتھے سے اکھڑ گئے۔ نتیجتہً ان کو وہ ڈانٹ پلائی گئی کہ پُنّے میاں کو لذید ترین ٹکہ بھی منہ بسور بسور کر ہی کھانا پڑا۔

         ایک مرتبہ یہی پُنّے میاں تھے جب ایک ہل اسٹیشن کے تفریحی سفر پر انھیں منرل واٹر کی چار پانچ بوتلیں لانے کو کہا گیا تھا۔ انھیں بوتلوں کی خرید کے لئے رقم جان بوجھ کر نہیں دی گئی تھی۔ موسم چونکہ گرم تھا اس لئےدوستوں کی طرف سےہدایت کی گئی کہ ذرا پانی ٹھنڈا دیکھ کر لانا۔ پانی تھوڑا کم ٹھنڈا رہے تو بھی چلے گا ۔لیکن گرم پانی مت لانا۔ آٹھ لوگوں سے بھری گاڑی میں جب وہ داخل ہوئے تو گاڑی آگے بڑھنے لگی لیکن ان کے ہاتھ میں پانی کی صرف ایک ہی بوتل دیکھ کر ایک دوست فوراً پوچھ بیٹھا۔

          "یہ کیا یار پُنّے! صرف ایک ہی بوتل؟ اتنا لمبا سفر ہے۔ ہم آٹھ لوگ ہیں اور موسم اتنا گرم ہے۔"

پُنّے میاں فوراً دلیل دینے لگے۔

          "ارے یار ! یہی ایک بوتل تھی ۔ اس لئے ایک ہی لے آیا۔"

          ان کی بات پر کسی کو بھی یقین نہیں آیا کہ شدید گرمی میں اتنی بڑی دوکان پر پانی کی صرف ایک ہی بوتل ہو۔

          "ایسا تو نہیں ہوسکتا یارپُنّے!"

          "یعنی میں جھوٹ بول رہا ہوں؟ چلو چل کر پوچھ لو۔"

            پُنّے میاں کویقین تھا کہ یاردوست ہیں یقین کرلیں گے؟ مگر وہ یہ بھول گیے تھے کہ وہ پُنّے میاں کے دوست تھے. گاڑی چلانے والےدوست نے فوراً سے پیشتر ہی گاڑی کو یوٹرن دے دیا ۔وہ یو ٹرن اتنی صفائی سے لیا گیا تھا کہ آج تک اس ڈرائیور دوست کو اس کے لئے داد دی جاتی ہے۔

یوٹرن کے ساتھ ساتھ پُنّے میاں کی زبان بھی اِدھر اُدھر ٹرن لینے کی کوشش کرنے لگی۔

" ارے نہیں یار ! میرا مطلب تھا.......وہ دوکان والا........مطلب کہ موسم کی وجہ....... دراصل یہی........."

          پُنّے میاں کی زبان رکنے سے پہلے ہی گاڑی اسی دوکان پر واپس جا رکی. وہ بولتے رہے۔ اپنی فطرت کے مطابق پُنّے میاں کی زبان سرعتِ الفاظ کا شکار رہی۔ ان کے ہاتھوں کی حرکت میں برکت ہوتی گئی اور اس سے کہیں زیادہ تیزی سے ان کےچہرے پر جغرافیائی تبدیلیاں بھی نظر آنے لگیں۔ 

"ارے یار ! میرا مطلب تھا کہ پانی کی بوتل ختم۔۔۔۔۔۔ مطلب تھا کہ دوکان والے ۔۔۔۔۔۔میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ دوکان والے نے ابھی ابھی فریزر میں پانی کی بوتلیں ڈالی ہیں۔"

ڈرائیور دوست نے اندر بیٹھے بیٹھے ہی دوکان دار سے ہانک لگا کر پوچھ لیا۔

"ٹھنڈے پانی کی کتنی بوتل ہے بھائی؟"

"ہے نا بھائی صاحب! آپ جتنی کہو دے دوں۔"

           گاڑی کی چھت اگر کمزور ہوتی تو یقیناً دوستوں کے قہقہوں سے اڑ ہی جاتی۔ پُنّے میاں پُنّے میاں جھینپے اورہاتھ پاؤں ڈھیلے کرکے بیٹھ گئے۔ انہوں نےتھوڑی دیر کے لئے چپ پیر کا روزہ رکھ لیا لیکن دوستوں میں کانا پھوسی اور کھی کھی جاری رہی۔

(ختم شد) 




Thursday, February 02, 2023

انشائیہ : روٹی کی آپ بیتی

روٹی کی آپ بیتی

طاہر انجم صدیقی،مالیگاﺅں۔





سنا ہے کہ سانس لینے کی طرح بولنا بھی ہر کسی کاپیدائشی حق ہے اس لئے نہ سانس لینے پر کسی قسم کی ”ائیر پٹی“ نافذ کی گئی ہے اور نہ ہی بولنے پر کسی قسم کی ”لکچر پٹی“لیکن ہمارا تو یہ حال ہے کہ بولنا تو دور کی بات
”ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام “
تم ڈنکا بجاﺅ بھی تو چرچا نہیں ہوتا
مثال کے طور پر اگر ہم یہ واضح کر دیں کہ ہم روٹی ہیں تو آپ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی طرح زمین بوس ہو جائیں گے اور ہوش میں آنے پر منہ بجا بجا کر دوسروں سے کہتے پھرےں گے کہ ”روٹی بول سکتی ہے! ۔۔۔۔روٹی بول بھی سکتی ہے!!!“
کیوں میاں!کیا صرف آپ نے ہی بولنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ ہم پیٹ بھر سکتے ہیں تو بول کیوں نہیں سکتے ؟جبکہ آپ میں سے اکثر لوگ تو صرف باتوں سے ہی پیٹ بھر تے رہتے ہیں ۔اس وقت تو ہم واویلا نہیں مچاتے نا۔۔۔۔۔اور مچائیں بھی کیوں ؟کہ خود انسانوں کو ہی انسانوں کے بھوکے مر جانے کا کوئی غم نہیں ۔غم تو دور کی بات جناب ! آپ تو ان بیچارے مرجانے والوں کا تذکرہ ایسے کرتے ہیں گویا مرنے والے انسان نہیں کیڑے مکوڑے رہے ہوں۔
ہاں !تو ہمیں خوشی ہوئی کہ آپ ہمارے بولنے پر بے ہوش نہیں ہوئے ۔ورنہ ابھی کل ہی بات ہے آپ کے دوست مابدولت ہمارے بولنے کی بدولت واڈیا دواخانہ کی زینت بن چکے ہیں ۔لیکن آپ ہمیں بیٹھے بیٹھے اس طرح دیکھ کیوں رہے ہیں؟کھاتے کیوں نہیں ؟اوہ!۔۔۔۔دانت میں درد ہونے لگا ہے آپ کے ۔۔۔۔ہمارے ساتھ ساتھ منہ میں ایک پتھربھی آگیا تھا چھوٹا سا۔۔۔۔تو اس میں بیگم پر دانت کیوں پیس رہے ہیں آپ ؟؟۔۔۔۔دیکھتے نہیں کہ ان ہاتھ میںزنانہ میزائل یعنی بیلن ہے ۔شایدآپ کوبھی معلوم ہو کہ عورت اور بیلن کے اس سنگم کی سنگینی پر ایک عورت زدہ شاعر نے یوںدہائی دی تھی کہ
عورتیں یوں بھی بنا کرتی ہیں ویلن اکثر
شوہروں پر ہی گرا کرتے ہیں بیلن اکثر
ہاں معلوم ہے کہ خدا نے آپ کی بیگم کو دو آنکھیں دی ہیں اس لئے گیہوں سے کنکر پتھر وہ بالکل اسی طرح الگ کر سکتی تھیں جس طرح بڑے بڑے سرکاری عہدوں سے مسلمانوں کو الگ کر دیا جاتا ہے ۔۔۔۔لیکن جناب کوبھی تو بتّیس دانت ملے ہیں ۔ایک آدھ پتھر نہیں چبا سکتے آپ؟خدا جانے لوہے کے چنے کیسے چبائیں گے؟؟؟
آپ تو کنکر سی بات پر منہ پھُلائے بیٹھے ہیں۔ محترم جناب!سبق سیکھیں ہم سے سبق!ہم نے روٹی ہو کر جتنے مصائب جھیلے ہیں ہماری جگہ آپ ہوتے تو کب کے پراٹھا بن گئے ہوتے۔
ہیں کھائیں ہم نے اتنی ٹھوکریں کچھ اس زمانے کی
اگر خود آپ ہوتے تو پراٹھا بن گئے ہوتے
آپ نہیں جانتے کہ گذشتہ موسمِ سرما کے سرد مصائب کے درمیان ہماری آنکھ کھلی ۔ہم نے اطراف کا جائزہ لیا ۔پورے کھیت میں ہماری برادری موجود تھی ۔ آس پاس کے کھیتوں میں بھی ہمارے ساتھی موجود تھے لیکن معاف کرنا جناب !ہم لوگوں نے آپ کی طرح حصے بٹوارے نہیں کئے کہ یہ سنّی مسجد ہے یہاں دوسرے مسلک والے نماز نہیں پڑھ سکتے ۔یہ دیوبندی مسجد ہے یہاں غیر مقلد نہیں آسکتے اور یہ رافضیوں کی عبادت گاہ ہے جہاں دوسرے مسلک والوں کا داخلہ بذریعہ پاس بھی ممکن نہیں۔۔۔۔ہم یہ نہیں دیکھتے کہ کون کیا ہے ؟بلکہ ہم تو اتنا سمجھتے ہیں کہ ہمارا مقصد ایک ہے اور ہاں ہم آپ لوگوں کی طرح یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ اچھا ہے مگر ہندو ہے۔وہ ٹھیک کہہ رہا ہے لیکن سکھ ہے ۔ہم تو جو اچھا ہوتا ہے اسے اچھا ہی سمجھتے ہیںاور جو برا ہوتا ہے اسے لیڈروں کی طرح اچھا بناکر نہیں پیش کرتے ۔
ہاںتو خیر! جب ہمار اجنم ہوا تو ہم سبز رنگ کے تھے ۔ہم نے اس وقت رنگ کی بنیاد پر کوئی فساد نہیں کھڑا کیا ۔بلکہ اپنی رنگت اور نازکی میں مگن رہے۔قدرت نے ہماری حفاظت کا معقول انتظام کر کے ہمیں بالیوں میں چھپا دیا۔ٹھنڈی ہوا ،گرم دھوپ،پانی اور کھاد کی صورت میں ہماری غذا برابر ہم تک پہنچتی رہی ۔ہم نے اس وقت دوسروں کا حق مار کر بڑے بڑے گوداموںمیں ناجائز ذخیرہ نہیں کیا ۔
سردی گئی۔ سورج کی تھوڑی زیادہ تپش نے ہمارے رنگ کو سنہری بنا دیا ۔آپ لوگوں کی طرح نہیں کہ ایک بار دل میں
سنا ہے کہ سانس لینے کی طرح بولنا بھی ہر کسی کاپیدائشی حق ہے. نہ سانس لینے پر کسی قسم کی ”ائیر پٹی“ نافذ کی گئی ہے اور نہ ہی بولنے پر کسی قسم کی ”لکچر پٹی“ لیکن ہمارا تو یہ حال ہے کہ بولنا تو دور کی بات
”ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام “
تم ڈنکا بجاﺅ بھی تو چرچا نہیں ہوتا
مثال کے طور پر اگر ہم یہ واضح کر دیں کہ ہم روٹی ہیں تو آپ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی طرح زمین بوس ہو جائیں گے اور ہوش میں آنے پر منہ بجا بجا کر دوسروں سے کہتے پھریں گے کہ ”روٹی بول سکتی ہے! ۔۔۔۔روٹی بول بھی سکتی ہے!!!“
کیوں میاں!کیا صرف آپ نے ہی بولنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ ہم پیٹ بھر سکتے ہیں تو بول کیوں نہیں سکتے ؟جبکہ آپ میں سے اکثر لوگ تو صرف باتوں سے ہی پیٹ بھر لیتے ہیں. تب تو اس ہم واویلا نہیں مچاتے نا۔۔۔۔۔ اور مچائیں بھی کیوں؟ کہ خود انسانوں کو ہی انسانوں کے بھوکے مر جانے کا کوئی غم نہیں. غم تو دور کی بات جناب ! آپ تو ان بیچارے مرجانے والوں کا تذکرہ ایسے کرتے ہیں گویا مرنے والے انسان نہیں کیڑے مکوڑے رہے ہوں۔
ہاں !تو ہمیں خوشی ہوئی کہ آپ ہمارے بولنے پر بے ہوش نہیں ہوئے۔ ورنہ ابھی کل ہی بات ہے آپ کے دوست مابدولت ہمارے بولنے کی بدولت واڈیا دواخانہ کی زینت بن چکے ہیں ۔لیکن آپ ہمیں بیٹھے بیٹھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں؟ کھاتے کیوں نہیں؟
اوہ!۔۔۔۔دانت میں درد ہونے لگا ہے آپ کے ۔۔۔۔ہمارے ساتھ ساتھ ایک پتھربھی آگیا تھا چھوٹا سا۔۔۔۔تو اس میں بیگم پر دانت کیوں پیس رہے ہیں آپ ؟؟۔۔۔۔دیکھتے نہیں کہ ان ہاتھ میں دونوں طرف سے داغا جانے والا زنانہ میزائل. وجود ہے۔ شایدآپ کو بھی معلوم ہو کہ عورت اور بیلن کے اس سنگم کی سنگینی پر ایک عورت زدہ شاعر نے یوں دہائی دی تھی کہ
عورتیں یوں بھی بنا کرتی ہیں ویلن اکثر
شوہروں پر ہی گرا کرتے ہیں بیلن اکثر
ہاں معلوم ہے کہ خدا نے آپ کی بیگم کو دو آنکھیں دی ہیں اس لئے گیہوں سے کنکر پتھر وہ بالکل اسی طرح الگ کر سکتی تھیں جس طرح بڑے بڑے سرکاری عہدوں سے مسلمانوں کو الگ کر دیا جاتا ہے ۔۔۔۔لیکن جناب کو بھی تو بتّیس دانت ملے ہیں ۔ایک آدھ پتھر چبا نہیں سکتے آپ؟ خدا جانے لوہے کے چنے کیسے چبائیں گے؟؟؟
آپ تو کنکر سی بات پر منہ پھُلائے بیٹھے ہیں۔
محترم جناب!سبق سیکھیں ہم سے سبق! ہم نے روٹی ہو کر جتنے مصائب جھیلے ہیں ہماری جگہ آپ ہوتے تو کب کے پراٹھا بن گئے ہوتے۔
ہیں کھائیں ہم نے اتنی ٹھوکریں کچھ اس زمانے کی
اگر خود آپ ہوتے تو پراٹھا بن گئے ہوتے
آپ نہیں جانتے کہ گذشتہ موسمِ سرما کے سرد مصائب کے درمیان ہماری آنکھ کھلی۔ ہم نے اطراف کا جائزہ لیا ۔پورے کھیت میں ہماری برادری موجود تھی ۔ آس پاس کے کھیتوں میں بھی ہمارے ساتھی موجود تھے لیکن معاف کرنا جناب !ہم لوگوں نے آپ کی طرح حصے بٹوارے نہیں کئے کہ یہ سنّی مسجد ہے یہاں دوسرے مسلک والے نماز نہیں پڑھ سکتے ۔یہ دیوبندی مسجد ہے یہاں غیر مقلد نہیں آسکتے اور یہ رافضیوں کی عبادت گاہ ہے جہاں دوسرے مسلک والوں کا داخلہ بذریعہ پاس بھی ممکن نہیں۔۔۔۔ہم یہ نہیں دیکھتے کہ کون کیا ہے ؟بلکہ ہم تو اتنا سمجھتے ہیں کہ ہمارا مقصد ایک ہے اور ہاں ہم آپ لوگوں کی طرح یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ اچھا ہے مگر ہندو ہے۔ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے لیکن سکھ ہے. ہم تو جو اچھا ہوتا ہے اسے اچھا ہی سمجھتے ہیں اور جو برا ہوتا ہے اسے لیڈروں کی طرح اچھا بناکر نہیں پیش کرتے ۔
ہاں تو خیر! جب ہمارا جنم ہوا تو ہم سبز رنگ کے تھے۔ ہم نے اس وقت رنگ کی بنیاد پر کوئی فساد نہیں کھڑا کیا ۔بلکہ اپنی رنگت اور نازکی میں مگن رہے۔ قدرت نے ہماری حفاظت کا معقول انتظام کر کے ہمیں بالیوں میں چھپا دیا۔ ٹھنڈی ہوا ،گرم دھوپ، پانی اور کھاد کی صورت میں ہماری غذا برابر ہم تک پہنچتی رہی ۔ہم نے اس وقت دوسروں کا حق مار کر بڑے بڑے گوداموں میں ناجائز ذخیرہ نہیں کیا ۔
سردی گئی۔ سورج کی تھوڑی زیادہ تپش نے ہمارے رنگ کو سنہری بنا دیا ۔آپ لوگوں کی طرح نہیں کہ ایک بار دل میں جو نفرت کا سیاہ رنگ بٹھا لیا سو بٹھا لیا اور وہ سیاہ ہے تو اسے سیاہ ہی رہنے دیں۔ اگر چہ وہ ہمارے شباب کا زمانہ تھا لیکن آپ سا نہیں کہ سنیما گھروں میں جائیں، ہلّڑ مچائیں ،اپنے ہیرو اور ہیروئن کے نام پر پیسے لٹائیں،راہ چلتی لڑکیوں پر پھبتیاں کسیں۔ ہم تو بس وہیں کھڑے جھومتے رہے۔ جھومتے جھومتے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہماری رنگت سونے کو شرمانے لگی۔تب ہم اپنی رنگت پر عورتوں کی طرح مغرور نہیں ہوئے. مسرور ہو گئے۔
ہمیں کیا خبر تھی کہ ان مسرور کن لمحات کے بعد ایک انسان ہماری تمام مسرتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا ۔۔۔۔کسان آیا تب اس کی درانتی تھی اور ہمارا جسم ۔۔۔۔ہم فسادات میں کٹنے والے انسانوں کی طرح کٹتے رہے۔ کوئی شکوہ بھی نہیں کیا. ورنہ آپ حضرات تو ذرا ذرا سی بات پر خدا سے شکوہ شکایت کرنا شانِ بندگی سمجھتے ہیں۔جھوٹ لگے تو آپ علامہ اقبال کی بانگِ درا کا ”شکوہ “ اٹھا کر پڑھ سکتے ہیں۔
کسان نے ہمیں کاٹ کاٹ کر ایک کھلے میدان میں جمع کردیا اور بیلوں کے کھروں نے روند روند کر ہمیں ہماری بالیوں سے نکال باہر کیا ۔وہ بھی اتنی ہی آسانی سے جتنی آسانی سے ٹیم انڈیا کو کوئی بھی دوسری ٹیم فائنل کی دوڑ سے باہر کر دیتی ہے۔
مرتے کیا نہ کرتے ؟ الگ ہو گئے ہم. آپ لوگوں کی طرح کوئی تحریک نہیں چلائی اور نہ ہی بھوک ہڑتال کی ۔ ہماری شرافت کا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں بڑی بڑی بوریوں میں بند کر کے شہری منڈی لایا گیا گیا۔ ہم چپ چاپ چلے آئے ۔جائے پیدائش کو لے کر کسی کھڑاگ میں نہیں پڑے اور نہ ہی جنم بھومی کی آڑ میں کسی مسجد کو شہید کیا.
منڈی سے ٹرک اور لاریوں میں لاد لاد کر ہمیں ادھر ادھر لے جایا گیا. کوئی مشرق میں گیا تو کوئی مغرب میں۔جبکہ ہم فلور مل جا پہنچے۔
پھر کیا تھا ؟ہم پر مظالم کا ہمالہ ٹوٹ پڑا۔ ہمیں چھیلا جاتا رہا ،چھانا پھٹکا گیا تاکہ مٹی اور کنکر پتھر اور دوسرا کوڑا کرکٹ ہم سے الگ ہو سکے۔ آپ لوگوں نے لیلہ مجنوں کو نہیں ملنے دیا تو بھلا ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟ ہمیں الگ الگ کر نے کے بعد دھویا گیا۔ سکھایا گیااور بوروں میں بھرکر الگ الگ گوداموں میں لا پٹخا گیا ۔ہم نے سمجھا کہ چلو اب مصیبت کے دن ٹلے لیکن واہ ری قسمت! وہاں ہماری بوریوں کو دوبارہ کھول کھول کر ہمارے ساتھ پھر سے کنکر ،پتھراور دوسرا کوڑا کرکٹ ملایا جانے لگا۔
ہم حیران ہی تو رہ گئے کہ کبھی تو ایسے الگ کر دیا گیا تھا جیسے ہندوستان سے پاکستان اور اب ایسے ملایا جا رہا ہے جیسے حیدرآباد سے ہندوستان۔ بعد میں غیب سے یہ مضمون آیا کہ اسے ہی ملاوٹ کہتے ہیں. ورنہ اگر انسان ہی دوسروں کا درد سمجھنے لگے تو پھر کا ہے کا رونا؟؟؟
کچھ دنوں بعد ہمیں گوداموں سے بھی تڑی پار کرنے کے لئے ٹرک اور لاریوں پر سوار کر دیا گیا۔ ہم کئی سمتوں میں بٹ گئے۔راستے میں ہماری بوریوں میں کئی جگہوں پر کنکر پتھر ملائے گئے اور ان ملاوٹو ں کے دوران آپ ہمیں لے کر اپنے گھر آ پہنچے۔
آپ کی بیگم نے ہمیں پھر سے صاف کیا. ایک ایک کنکر ،ایک ایک پتھر کو ہم سے بڑی محبت کیساتھ الگ کیا اور ہم خوش ہو گئے کہ چلو میاں ! ایک ہمدرد تو ملا ۔ اسی خوشی کا نتیجہ ہے کہ ہم وہ باتیں آپ کے گوش و گزار نہیں کریں گے جو بیگم کی بھنبھناہٹوں نے آپ کے تعلق سے بتائی ہیں۔ اگر ہم بتا دیں تو پھر یقینا بیگم آپ کی شوہرانہ دہشت گردی کا شکار ہو جائیں گی۔
ہماری صفائی کے بعد انہوں نے ہمیں ایک صاف ڈبّے میں بھر دیا ۔آپ ہمیں لے کر چکّی پر جا پہنچے۔۔۔۔اور جب کئی گھنٹوں بعد ہمیں لینے آئے تو ہم پس کر ”بھرتا “اور آپ کے الفاظ میں آٹا بن چکے تھے۔
آپ ہمیں پھر سے گھر لے آئے۔ بیگم نے ہمیں تھوڑی سی مقدار میں نکالا اور ہمارے اوپر پانی ڈالنے لگیں۔ ہم لوگوں نے خوف سے ایک دوسرے کو جکڑ لیا ۔آپ کی طرح مصیبت دیکھ کر بھاگ نہیں کھڑے ہوئے۔آپ کی بیگم نے ہمیں خوب اچھی طرح گوندھا۔۔۔۔تھوڑا تھوڑا لے کر چوکی پر پٹخ کر بیلن سے ہمیں پھیلاتی رہیں۔ ہم پھیلتے گئے کیونکہ آپ کی طرح بیلن کھانے کی بجائے پھیل جانے ہی میں آفیت تھی ۔ انہوں نے اسی پر تو بس نہیں کیا بلکہ جلتے ہوئے اسٹو پر رکھے گرم گرم توے پر ہمیں دے مارا۔ ہم تلملا ہی تو اٹھے مگر انسانوں کی طرح غصے میں آکر آپے سے باہر نہیں ہوئے ۔۔۔۔اسی دوران آپ آگئے اور بیگم سے دریافت کیا ۔
”کیا روٹی پک گئی ہے؟“
آپ کی بیگم نے جو کچھ بھی بھنبھناتے ہوئے ہمیں روٹی کی ٹوکری میں پٹخا اسے سن کر ٹھنڈی سانس لینے کی کسے فرصت تھی؟ ہم آہِ گرم بھرتے ہوئے بیٹھتے چلے گئے لیکن آپ ایک دو نوالہ کھانے کے بعد بیٹھے بیٹھے ہمیں دیکھ رہے ہیں اور ادھر آپ کی بیگم بھنبھناتی ہوئی روٹی پکانے میں مصروف ہیں.
ایک خاص بات بتائیں کہ ہمیں آج ہی اپنا یہ نیا نام ”روٹی “ معلوم پڑا ہے۔ جو خدا جانے کب تک برقرار رہے کیونکہ بمبئی کو ممبئی کردیا گیا ہے. وی ٹی کو شیواجی ٹرمینلس، اورنگ آباد کو سمبھا جی نگر ۔اس سے پہلے کہ ہم”شیوٹی“ یا ”کرشنوٹی“ وغیرہ جیسے ناموں کا شکار ہو جائیں آپ ہمیں کھانا شروع کردیں اور پیٹ بھر کر کھا لیں۔ خدا حافظ۔
٭٭٭

Tuesday, January 03, 2023

مضمون: ایک پیریڈ کا اسٹوڈنٹ

 مختار یونس سر کے شعری مجموعے کے اجرا میں پڑھا گیا مضمون




*ایک پیریڈ کا اسٹوڈنٹ*

طاہر انجم صدیقی ( مالیگاؤں) 


          انسانی ذہن بھولنا چاہے تو ورلڈ ٹریڈ سینٹرجیسےحادثے کو بھی چٹکیوں میں اڑا دیتا ہے اور یاد رکھنا چاہے تو بیچارے اخترانصاری یوں پریشان ہوجاتے ہیں:
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
بعض مرتبہ یہی حافظہ ایسی باتیں سامنے لے آتا ہے کہ طبیعت ہری ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوتا ہے۔  مختار یونس سر کا نام سن کر ذہن کے کسی گوشے سے ایک مسکراہٹ سر اٹھا کر لبوں تک چلی آتی ہے اور ذہن و دل کی فضا کو محترم کر دیتی ہے لیکن اس فضا میں سبزی ترکاری کاٹنے والی ایک شمشیربھی چمکنے لگتی ہے۔
           اس شمشیرکے بے نیام ہونے کا قصہ یہ ہے کہ میں مالیگاؤں ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کی بارہویں جماعت کے طالبِ علم کی حیثیت اپنے آخری دنوں کو گن رہا تھا کہ میرے اندر کے شاعر نے اپنی کلاس کے تمام لوگوں کے ناموں کو ایک نظم میں استعمال کر ڈالا۔ وہ نظم میں نے مختار یونس سر کو دکھائی۔  ان کا پہلا سوال بحر سمجھنےسےمتعلق تھا۔  پھر انہوں نےکچھ اشعار پڑھے اور کہا۔
           "بحر تو ٹھیک ہے اور اس میں تم نے لڑکوں کا نام استعمال کیا ہے ان کی تو کوئی بات نہیں لیکن لڑکیوں کا نام کیوں استعمال کیا ہے؟"
          میں سوچنے لگا کہ کیا کہوں؟ بلکہ مجھے کیا کہنا چاہئے؟ سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا لیکن سامنے تھے مختار یونس سر!  فوراً سوال بدل گئے۔
         " تم نے اس نظم کو کیوں لکھا ہے؟"
         میرے پاس اس سوال کا بھی جواب تیارنہیں تھا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ مختار یونس سر نے سوال بدلنے کی ہیٹ ٹرک کرڈالی۔
         "کیا اسے اخبار میں شائع کرنا ہے؟ اگر ایسا کیا تو لڑکیوں کے گھر والے اس پر اعتراض کرسکتے ہیں۔ تب تم کیا کرو گے؟"
         میں نے کہا۔
         "نہیں سر! اس کو اخبار میں چھپانا نہیں ہے بلکہ میں اس نظم کا زیراکس کرکے اپنی کلاس میں بانٹ دوں گا۔"
        مختار سرمسکرانے لگے اور انہوں نے کہا۔
       " بیٹا! قلم تلوار ہے۔  اس سے سبزی ترکاری کاٹنے کا کام نہیں لینا چاہئے۔"
       یقین جانیں کہ مختار یونس سر کے اس جملے نے قلم کی اہمیت کو مجھ پر یوں اجاگر کرکیا کہ میں نے ان سے اپنی نظم واپس لے لی۔  میرے یار دوست اس نظم کو مانگتے رہ گئے مگر میں نے اس کا زیراکس تک کسی کو نہیں دیا اور اس نظم سے یوں دستبردار ہوا کہ اب وہ نظم خود میرے اپنے پاس بھی محفوظ نہیں۔
          مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مختار یونس سر جب ہماری کلاس میں پہلی مرتبہ آئے تھے تب میں سولہ برس کی بالی عمر کو سلام کرنے کے قابل ہو چکا تھا۔
اونچے قد کے ساتھ ان کے خیالات کا قد بھی ذرا نکلتا ہوا ہی تھا۔ اللہ نے ان کو صحت اچھی دی تھی اور وہ گفتگو بھی بڑی صحت مند کیا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو سے یقینی طور پر آس پاس کے لوگوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہوں گے کیونکہ سنا ہے کہ ہنسنے مسکرانے سے زندگی اور صحت کے علاوہ صرف حاسدین پر ہی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ان سے متاثر ہونے کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ جب مجھے مختار یونس سر کے مزحیہ کلام کے مجموعہ کے اجرا کی تقریب میں اپنے تاثرات کے اظہار کے لئے کہا گیا تو قلمی طور پر بونا ہونے کے باوجود بھی میں نے انکار نہیں کیا۔سبب تھے مختار یونس سر۔
یقین جانیں کہ انہوں نے ہم لوگوں کو بارہوں جماعت میں صرف ایک سبق ’’لکھنو کا چِہلُم‘‘ ہی پڑھایا تھا۔ میں دوسروں کی بات نہیں کرتا لیکن آج بھی مجھ کو ان کے پڑھانے کا اسٹائل،پڑھنے کا انداز،سمجھانے کا ہنر اور بچوں میں سمجھ لینے کی امنگ بھر دینے کا فن یاد آتا ہے۔
ہم لوگوں کو اردو کا مضمون عبدالحلیم کاردار سر پڑھایا کرتے تھے لیکن’’ لکھنو کا چہلم‘‘ آتے ہی انہوں نے اوراق پلٹنے کا حکم دے دیا۔ کچھ لوگ پریشان ہوگئے اور کچھ خوش لیکن کچھ ہی دنوں بعدعبدالحلیم کاردار سر کی جگہ مختار یونس سرکی کلاس میں آمد سے یہ پریشانی دور اور خوشی کافور ہو گئی۔
سر نے آتے ہی کہا۔
’’جو صاحبِ کتاب ہیں وہ کتاب نکالیں اور جن کے پاس کتاب نہیں ہے وہ اہلِ کتاب سے استفادہ کریں۔‘‘
سر کی اس بات کوکچھ لوگ سمجھ گئے اور جو نہیں سمجھے وہ سمجھا دئیے گئے۔
ادھر ادھر کی باتوں کے بعد مختار یونس سر نے ہم میں سے ایک کو اردو کی کتاب سے ’’لکھنو کا چہلم‘‘ پڑھنے کو کہا۔
اس نے پڑھنا شروع کیا۔
’’لکھنو کا چَہلَم‘‘
سر نے فوراً ٹوکا ۔
’’چَہلَم نہیں چِہلُم پڑھو‘‘
وہ کسی پڑھنے والے کوکہیں پر بھی روک کر اس سے آگے کسی کو بھی پڑھنے کو کہتے رہے اور غلط پڑھنے پر کلاس کو مزاح بھرے جملوں سے زعفران زار کرتے رہے۔
ایک نے جیسے ہی لفظ اِمام کو اَمام پڑھا مختار یونس سر کی رگِ ظرافت پھڑک اٹھی۔انہوں نے فوراً کہا۔
’’رُکو! او اَمام !ایسے اَمام کے پیچھے نماز بھی حرام۔ یہ لفظ اِمام ہے اِمام ۔‘‘
ایک نے لفظ ’’دُلدُل‘‘ کو ’’دَلدَل‘‘ پڑھ دیا تو مختار یونس سر نے اپنا رنگِ شوخیانہ یوں ظاہر کیا ۔
’’ارے بیٹا! یہ کربلا کے دُلدُل کو کس دَلدَل میں پھنسانے کا ارادہ ہے؟
ایک نے’’ انوپ اَنجن‘‘ کو’’انوپ اِن جن‘‘ پڑھا تو سر نےٹوکا کہ ’’ایسے اِنجن والی ٹرین کامنزل تک پہنچنا مشکل ہے۔
ہماری کلاس کےاس ارجنٹائنا دورہ کے درمیان مختار یونس سر نے کلاس میں بیٹھے ہوشیار،کم ہوشیارسبھی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جیسے کبڈی کا کوئی دھاکڑ کھلاڑی جب مخالف خیمے میں پہنچتا ہے تو ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ہر کوئی الرٹ اور اٹینشن والے موڈ میں دکھائی دیتا ہے۔وہی حال ہماری کلاس کا تھا۔
اس کے بعد مختار یونس سر نے"لکھنو کا چہلم" خود پڑھنا شروع کیا۔ پہلے ہی جملے میں موجود "گھٹا ٹوپ اندھیرا‘‘ کو انہوں نے اس انداز سے پڑھا کہ سن کر محسوس ہوتا تھا کہ یہ اندھیرا ہمارے اطراف پھیلا ہوا ہے. 
مختار یونس سر نے اپنے مخصوص انداز سے اس سبق کو کچھ یوں پڑھا کہ آج ستائیس سال گزر جانے کے باوجود بھی مجھے وہ یاد ہیں۔ ان کے پڑھنے کا انداز یاد ہے۔ ان کے پڑھانے کا طریقہ یاد ہے۔ کاش! وہ آج حیات ہوتے تو دیکھتے کہ ان کے ایک پیریڈ کے اسٹوڈنٹ نے قلم کی تلوار سے سبزی ترکاری تو نہیں کاٹ ڈالی؟
میں عتیق شعبان سر کو مختار یونس سر کے مزاحیہ کلام کی تالیف پر مبارکباددینےکے بعدیہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ان کی مزاحیہ نثر کی اشاعت کی بھی کوئی سبیل نکالیں تاکہ اردو دنیا ان کے مزاح سے لطف اندوز ہو، مالیگاؤں کے حوالے سے مزاح کا یہ محترم نام پہچانے اور 
ان کے فن کا اعتراف کرے۔



 Read this also:👇


 


Monday, December 12, 2022

مضمون : پیام انصاری (حالات سے رلانے والا مزاحیہ شاعر)

*پیام انصاری*

*(حالات سے رلانے والا مزاحیہ شاعر)*

(طاہرانجم صدیقی، مالیگاؤں) 





          دبلے پتلے بدن، پستہ قد گوری، رنگت ماتھے پر تفکر کی گہری لکیروں اور معمولی کپڑوں کے مالک اس شاعر کو جب شہر مالیگاؤں کے لوگ دیکھتے تھے تو بے ساختہ مسکرا اٹھتے تھے مگر فورا ہی ان کی یہ مسکراہٹ سنجیدگی میں بدل جاتی تھی اور وہ لوگ اس شاعر کو ہمدردی اور ترحم آمیز نظروں سے دیکھنے پر مجبور ہو جاتے تھے کیونکہ اس شاعر کا حلیہ اس کی کسمپرسی کے داستان سنا رہا ہوتا تھا۔ اس کا چہرہ اس کی پریشانیوں کی کہانی بیان کررہا ہوتا تھا اور اس کا پیشہ اس کی غربت اور افلاس کا افسانہ بیان کر رہا ہوتا تھا۔
          ‏ مگر جب اسی شاعر کے اشعار کی بات کی جائے تو شہر مالیگاؤں کی مشاعرہ گاہوں میں اس کے نام کا اعلان "کھی کھی کھی"  کی آوازیں بلند کردیتا تھا اور جب وہ شاعر اپنا کام خود اپنے منفرد انداز میں سناتا تھا تو لوگ مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہو جاتے تھے۔ ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر گر پڑتے تھے اور بیچارے شاعر کو  داد بھی نہیں دے پاتے تھے۔ جب تک وہ اپنی ہنسی سنبھال کر پیٹ کے مروڑ کو کم کرتے وہ شاعر دادو تحسین سے بے پرواہ اپنے دوسرے اشعار سنانے میں مگن ہو جاتا تھا۔
          ‏یہ وہی شاعر ہے جس پر ترس کھا کر، اسے صرف چھٹی جماعت کا تعلیم یافتہ سمجھ کر، اسے ہلکا پھلکا اور دبلا پتلا دیکھ کر، اسے غریب دوست جان کر ایک گوشت پوست، قد کاٹھی، تعلیم اور روپیوں سے امیر شخص نے پی ایچ ڈی کے لیے اپنے شہر مالیگاؤں آنے کی بات ظاہر کی تھی۔
          ‏ اپنا نام سن کر وہ شاعر بڑی زور سے ہنسا تھا کہ مالیگاؤں کا وہ مداح جو ممبئی میں کسی کالج میں جونیئرلیکچرار تھا وہ  پروفیسر شپ کے لئے اسی شاعر پر پی ایچ ڈی کرنا چاہتا تھا مگر وہ شاعر ممبئی سے مالیگاؤں چلے آئے اس دوست پر ہنس رہا تھا کیونکہ اس شاعر کے بقول مذکورہ شاعر انتہائی پھٹیچر، غریب، چھٹی کلاس تک ہی پڑھا ہوا تھا۔
          ‏ پھر بھی جب وہ پی ایچ ڈی کے لیے اپنے دوست کے بتائے گئے پتے یعنی گھر کے نام پر ٹوٹے پھوٹے مکان پر پہنچا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ دروازے پر اس کا وہی چھٹی جماعت کا تعلیم یافتہ، ہلکا پھلکا، دبلا پتلا اور غریب دوست کھڑا تھا۔ تب اس نے اس سے پوچھا تھا کہ وہ یہاں کیا کر رہا ہے تو وہ شاعر مسکرا کر بولا تھا کہ میں ہوں تمہارے بچپن کا دوست شبیر احمد محمد ایوب اور آج کا پیغام انصاری وہ ہلکا پھلکا اور تک بند شاعر جس پر تم پی ایچ ڈی کرنے آئے ہو۔ "خوش آمدید"
          ‏ جی ہاں یہ وہی پیام انصاری تھےتھا جنہیں لوگ شبیر احمد کی بجائے پیام انصاری کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد یوپی سے مالیگاؤں آئے تھے۔ انہوں نے 7 مارچ 1924 کو دنیا آنکھیں کھولیں۔  انھیں وراثت میں چار لوم ملے تھے لیکن وہ بہنوں کے حصے میں چلے گئے اور وہ اپنے اور اپنوں کے پیٹ کی خاطر دوسروں کا پیٹ صاف کرنے کا چورن بیچنے لگے۔
          ‏ان کے حالات کے بعد جب گفتگو کا رخ ان کے اشعار کی طرف موڑتے ہیں تو انھیں کے بقول ان کی تاحیات شاعری کا پٹارا ہاتھ لگتا ہے۔ جس کا نام ہے "پلاسٹک کے آنسو"۔
          پیام انصاری کے مزاحیہ اشعار کے ‏مجموعہ "پلاسٹک کے آنسو" کا نام ایسا نام ہے جس پر غور کرتے ہی ذہن کے کسی کونے سے مسکراہٹ ابھرتی ہے اور ہونٹوں تک ک آتے آتے معدوم سی ہو جاتی ہے۔
          ‏  پیام انصاری نےاپنی پہلی ہی ہزل کے مطلع کے ذریعے علمِ عروض سے اپنی وابستگی کا اظہار یوں کرتے ہیں:
          ‏اہک جوتا، تین چپل، پانچ سینڈل، چار لات
          ‏فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلات
          ‏
          ‏ماڈرن بیٹی کی رخصتی پر وہ نئے زمانے کے مطابق یوں نصیحت کرتے ہیں:
          ‏ اپنے شوہر کو دلدّل ہی بنانا بانو
          ‏لکس صابن سے تو ہرروز نہانا بانو
          مدرسوں اور مسجدوں کے چندہ خور ٹرسٹ کے خلاف احتجاجا لکھتے ہیں:
          ‏ کھا گئے چندہ مدرسے کا ٹرسٹی بن کر
          ‏جن کو ہم شیخ سمجھتے تھے وہ ڈاکو نکلے
          ‏ پھر ملا جیسی صورت والوں کا پول کھولتے ہیں:
          ‏ ملا جیسی صورت والا وہ جو میرا پڑوسی ہے
          ‏ اس نے میرا مرغا چرایا رات کو ساڑھے تین بجے
          ‏ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ایک خیال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیام انصاری نہ جانے کیوں ملّا لوگوں پر اتنا طنز کرتے ہیں کہ پلاسٹک کے آنسو‌‌‌‌‌‌‌‌ میں دو چار اشعار کے بعد ایک نہ ایک شعر ملّا صفت افراد کی شانِ عالمانہ میں گستاخانہ عرض کر ہی دیتے ہیں۔ دیکھیں:
          ‏حبّ نبی کا دعوی لیکن حافظ، قاری، ملا جی
          ‏شوق سے دیکھیں ٹیلیویژن میرے آقا شاہ امم 
          ‏اس شعر کو بھی دیکھ لیں جس میں پیام انصاری ملا  لوگوں کا نام بدل کر پھر ان پر یوں کرم کرتے ہیں:
          ‏ہم میاں بیوی پہ اب اتنا کرم ہے پیر کا 
          ‏رات دن گڑبڑ بڑ ہے ،گھر میں ہے چلن کفگیر کا
          ‏وہ اتنے پر ہی بس نہیں کرتے بلکہ مولوی، ملا کو یوں ڈراتے ہیں:
          ‏حشر کے دن ہر بشر دیکھا بھالا جائے گا
          ‏ مولوی، ملا کا بھی کس بل نکالا جائے گا
          ‏اس کے بعد وہ مالیگاؤں کے سیٹھوں کو تلملا کر رکھ دینے والے چار مصرعے پلاسٹک کے آنسو کے صفحات پر یوں ثبت کرتے ہیں:
          ‏ کھڑ کھڑ آتی ہوئی مشینوں میں 
          ‏ہم غریبوں کا خون جلتا ہے
          ‏ہم کماتے ہیں رات دن اے دوست
          ‏اپنے ٹکڑوں پہ سیٹھ پلتا ہے
          ‏حالانکہ پیام انصاری کو یہ علم رہا ہی ہوگا کہ سیٹھوں سے پہلے خود مزدور ہی پاور لوم سے روزی کشید کرکے اپنے بیوی بچوں کو پالنے کا جتن کرتا ہے۔
          ‏ ایک مزاح نگار اور خاص طور پر مزاح لکھنے والا ایک شاعر اگر بیگم کا ذکر نہ کرے تو شاید اس کی شاعری کو وہ ادھورا ہی سمجھے۔ غالبا اسی لئے پیام انصاری بھی ذکر نہ کرے ایسا ممکن ہی نہیں ہے اسی لئے پیام انصاری نے بھی بیگم اور زن مرید کے تعلق سے یوں لکھا ہے:
          ‏ بیگم کا اپنی ہاتھ بٹانے میں رہ گیا 
          ‏اک زن مرید جھاڑو لگانے میں رہ گیا
          ‏ لیکن پیام انصاری ہنسی ہنسی میں موجودہ حالات کے مطابق بڑی پیاری بات کی ہے۔ دیکھیں:
          ‏پڑھ لکھ کے غیر کرسی کے حقدار ہوگئے
          ‏ اور میں پتنگ کی پیچ لڑانے میں رہ گیا
          ‏ہماری قوم کے لئے بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم تعلیم سے دور ہوکر محکوم بیٹھے ہیں جبکہ ہمارے سامنے موجود دوسری قوموں نے خود کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے دنیا والوں پر حکمرانی کا سلسلہ دراز کررہا ہے۔
          ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کی خدمات کو بری طرح نظر انداز کرنے پر احتجاج کرتے ہوئے پیام انصاری نے یوں لکھا ہے:
          ‏ جس نے وطن کے واسطے دی اپنی جاں اسے 
          ‏غدار کہتے جاؤ گے کہ پندرہ اگست ہے
          ‏لیکن اسی نظم میں ہندوستان کو دیمک کی طرح کھوکھلا کردیئے والی رشوت خوری کی طرف طنز بھرا اشارہ کرتے ہوئے پیام انصاری نے اپنے بیدار ہونے کا ثبوت یوں دیا ہے:
          ‏رشوت ہمارے باپ کا پہلا سبق پیام
          ‏مسکا ہمیں لگاؤ کہ پندرہ اگست ہے
          ‏پیام انصاری کے کلام میں اس شعر پر نظر پڑتے ہی ادبی چاشنی کا احساس ہوتا ہے اور شعر پر داد دیتے ہی بنتی ہے۔ دیکھیں:
          ‏اب بزم ناز میں ہم آئیں تو کیسے آئیں؟
          ‏درباں لیے کھڑا ہے ڈنڈا تیری گلی میں
          ‏غرض کہ پیام انصاری کی پلاسٹک کے آنسو کے مطالعہ کے دوران ایک طرف جہاں مزاح پر مشتمل اشعار ملتے ہیں وہیں دوسری طرف طنز کے ایسے نشتر بھی دکھائی دیتے ہیں جو ذہن وہ دل پر کچوکے لگاتے ہیں۔ 
          ‏وہی پیام جو طنز و مزاح کا شاعر
          ‏نظر میں آپ کی جوکر ہے کیا کیا جائے؟
          ‏امید ہے کہ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد آپ کے ذہنوں میں پیام انصاری کے فن اور شخصیت کے تعلق سے بہت ساری باتیں اور یادیں اجاگر ہوں۔ اگر واقعی ایسا ہو تو آپ بھی قلم اٹھائیں اور اس شاعر کو اس کا حق دینے کی کوشش ضرور کریں۔
(ختم شد) 

          



یہ تحریر بھی آپ کی منتظر ہے🔽