Translate ترجمہ

Showing posts with label شاعری POETRY. Show all posts
Showing posts with label شاعری POETRY. Show all posts

Thursday, September 25, 2025

جہان بھر کے ہوں جلوے ہزار آنکھوں میں


نعتِ پاک

جہان بھر کے ہوں جلوے ہزار آنکھوں میں

رہے مدینے کی لیکن بہار آنکھوں میں

بسا کے ناز کریں جب غُبار آنکھوں میں

ہو میری آنکھوں کا تب ہی شمار آنکھوں میں


جھُکیں تو وہ ہوں، اُٹھیں تو وہی نظر آئیں

"کچھ ایسا کردے مرے کردگار آنکھوں میں"


انھیں جو دیکھیں خوشی سے برس پڑیں آنکھیں

انہی کی یاد کے ہوں آبشار آنکھوں میں


فرشتے جھوم اُٹھیں حشر میں اگر اٹھوں

 میں اُن کی دید کا لے کر خمار آنکھوں میں


کبھی اٹھایا تھا اک خار خاکِ طیبہ سے

کھلاتا رہتا ہے وہ لالہ زار آنکھوں میں


سجائے رکھتا ہوں میں ان سے دل کی جنت کو 

سمیٹ لایا ہوں نقش و نگار آنکھوں میں


ابھی بھی سامنے لگتا ہے سبز گنبد ہے

ابھی تلک ہیں اُنہی کے مینار آنکھوں میں


ابھی بھی لگتا ہے جاتا ہوں اُن کی ہی جانب

کھُلا ہے اُن کا ابھی بھی دیار آنکھوں میں


ابھی بھی لگتا ہے طیبہ نگر میں چلتا ہوں

ابھی بھی گھومے ہے ہر رہگزار آنکھوں میں 


وہ جن کی نسلیں سلامت رکھی ہیں خود تو نے

مدینے کے وہ کبوتر اُتار آنکھوں میں


مدینے سے یہ جو لَوٹیٖں نہیں رہیں بیباک

عجب قرینہ، عجب سا وَقار آنکھوں میں


بقیع والے سلامت رہیں! سلام بھی لیں!

ہیں اُن کے پیاروں کے اب بھی مزار آنکھوں میں


مینار و گنبد و محراب و جالیاں یا در

کہاں کہاں کا رکھا ہے قرار آنکھوں میں؟ 


جہاں بھی ذکر چلے یہ چھلک ہی جاتی ہیں

جواز، نامِ محمد ہے یار آنکھوں میں


میں دیکھ آیا ہوں طاہرؔ مدینہ بستی کو

کریں تلاش کوئی شئے سُنار آنکھوں میں

Friday, May 23, 2025

نومولود بچّہ

نومولود بچّہ

(از: طاہرانجم صدیقی)


الفاظ برتنے والا میں
الفاظ ہی مجھ سے روٹھ گئے


جذبات کو لکھنے والا میں

جذبات کے بندھن ٹوٹ گئے


لفظوں سے بنا  کر تصویریں

میں منظر منظر لکھتا تھا


میں پس منظر کو بھی اکثر

کاغذ پہ سجایا کرتا تھا


آنکھوں میں سجا جب اِک منظر

ہر منظر دھندلایا سا ہے


الفاظ ہیں میرے شرمندہ

اعمال ہیں کتنے پراگندہ؟


یہ سوچ کے طاہرؔ نادم ہوں

لبّیک مَیں پڑھتا جاتا ہوں


کعبے کو دیکھتا جاتا ہوں

کعبے سے آنکھ چراتا ہوں


لبّیک سے آنکھیں بھیگتی ہیں

اور اپنا ماضی دیکھتی ہیں


اِک سسکی روح سے اٹھتی ہے

اور دل کو مرکز کرتی ہے


آنکھوں سے پھوٹ نکلتی ہے

خود کعبہ بھی دھندلاتا ہے


اور مجھ کو یقین دلاتا ہے

اللہ کا وعدہ سچّا ہے


لبّیک تو پڑھتا آ تو سہی

دیکھے گا شانِ کریمی کو


جب روزِ محشر اُٹھّے گا

دیکھے گا شانِ رحیمی کو


وہ تیرے گناہ کے پربت کو

ریزہ ریزہ کرڈالے گا


تو حج کر کے جب لوٹے گا

پیدا ہوئے بچّے سا ہوگا


اللہ کی شانِ کریمی پر

ایمان ترا پختہ ہو گا


بس خود کو سنبھالے رکھنا تو

دنیا کے سارے جھمیلوں سے


بس دل کو بچائے رکھنا تو

دنیاداری کے میلوں سے


طاہرانجم صدیقی، مالیگاؤں
23/05/2025 (بروز جمعہ)

Wednesday, March 05, 2025

نعتِ پاک

طاہرستان پر تشریف آوری کے لیے شکریہ! امید ہے آپ اپنی آرا سے ضرور نوازیں گے. (طاہر انجم صدیقی)



Thanks for visiting *TAHIRISTAAN*. Visit again.


نعتِ پاک
طاہر انجم صدیقی 

کتنا تڑپائے گی سرکار کی الفت مجھ کو؟ 
"کتنے دن اور رلائے گی محبت مجھ کو"

میں نہ اِتراؤں تو پھر کون بھلا اِترائے؟
جانبِ طیبہ لئے جاتی ہے قسمت مجھ کو

اشک تھمتے، نہ قدم جمتے، گنہہ یاد ہیں سب
اور تمنّا کہ رہے آپ ﷺ سے نسبت مجھ کو

 طرزِ کہنہ ہی سہی نعت تو کہہ لیتا ہوں
کس کو پروا! ہے کہ آتی نہیں جدّت مجھ کو

 آپﷺ سے حسن مَیں حسّان کے فن سا چاہوں
اور مدحت کی بھی دے دیجے اجازت مجھ کو

عشق نے جھومتے جانے کی سعادت بخشی
دیکھتی رہ گئی طاہرؔ مِری جرأت مجھ کو

Friday, March 15, 2024

نعت پاک: "نعت میں بھی کبھی لکھوں ایسی"

 نعتِ پاک

(طاہر انجم صدیقی)





"نعت میں بھی کبھی لکھوں ایسی"

جس می‍ں الفت بھری ہو "جامی"سی

شاہِ بطحاﷺ کی شان یوں لکھّوں

مجھ کو حیرت سے دیکھے فردوسی

جیسی حسّان ابن ثابتؓ نے

نعت لکھّی ہے، میں لکھوں ویسی


میرے اشعار سے مدینے کی

ترجمانی ہو اور عکّاسی


جھومتا جاؤں میں مدینے کو

لاکھ پیچھے پڑی ہو ابلیسی


عشق طیبہ کا بانٹنے لگ جاؤں

پاس میرے رہے یہ ایجنسی


میں بھٹک ہی سکوں نہ طیبہ سے

اتنی مضبوط تھامے ہوں رسّی


ہر کسی کو سناؤں میں نعتیں

پھر وہ عبّاسی ہو یا مدراسی


میں تو سنّت پہ ہوں عمل پیرا

وجہ تم ڈھونڈتے ہو سائنسی

اور کچھ ہو عطا قلم میرے

نعتِ خیرالوری'ﷺ میں کنجوسی؟

ذکرِ شاہِ اممﷺ کو دوں ترجیح
جب بناؤں ادب کی پالیسی

جس کی ٹھنڈی ہوا کے آپﷺ گواہ

میں اسی ہند کا ہوا باسی

نعت کا رنگ دیکھ کر طاہرؔ

کرنے لگتے ہیں لوگ جاسوسی

طاہرستان پر تشریف آوری کے لیے شکریہ! آپ کی رائے اہمیت کی حامل ہوگی

Thank you very much for visiting *TAHIRISTAAN*. Visit again.

Sunday, March 10, 2024

غزل: تیرا گزر ہوا ہے سدا شعلگی کے ساتھ!

طاہرستان پر تشریف آوری کے لیے شکریہ! آپ کی رائے اہمیت کی حامل ہوگی

 مکمل غزل

طاہرؔ انجم صدیقی





تیرا گزر ہوا ہے سدا شعلگی کے ساتھ! 

گلشن میں اب کے آنا رُتِ شبنمی کے ساتھ


سورج، چراغ، جگنو بھی سہمے کھڑے رہے

اک سانحہ گزرتا رہا روشنی کے ساتھ


پلکوں پہ اشک، لب پہ تبسم سجا لیا

"غم کی ہنسی اڑائی ہے کس سادگی کے ساتھ"


انجام جانتے ہیں بجھا ڈالے گی ہوا

الجھے ہوئے چراغ ہیں پر تیرگی کے ساتھ


اب اس ادا پہ دل کو سنبھالیں کہاں تلک؟ 

دیکھے ہے کتنے پیار سے وہ برہمی کے ساتھ


پھر یوں ہوا کہ موت سے جی کو لگا لیا

بن ہی نہیں رہی تھی ذرا زندگی کے ساتھ


آنکھوں کو خواب، خواب کی تعبیر کیا پتہ؟

نیندوں کو ہی ہو بَیر جو تیرہ شبی کے ساتھ


اک برگِ سبز سوکھے شجر کا، دلیل ہے

کچھ تو خزاں کا ربط ہے طاہرؔ نمی کے ساتھ



Thank you very much for visiting *TAHIRISTAAN*. Visit again.

Wednesday, January 17, 2024

Thursday, August 24, 2023

غزل: نئے اجالوں کے جلتے چراغ روندے گئے







غزل

طاہرانجم صدیقی 




"نئے اجالوں کے جلتے چراغ روندے گئے"
مری قبا پہ ستاروں کے داغ روندے گئے

 کرو نہ تذکرہ سورج کا تم اندھیروں میں
اسی خطا پہ تو روشن دماغ روندے گئے

ہوا تھا یوں کہ اندھیروں پہ احتجاج کیا
ہوا یوں چاند ستاروں کے باغ روندے گئے

حرام کردی گئی روشنی اندھیروں پر
طلوعِ صبح کے سارے سراغ روندے گئے

جلے چراغ لویں کاٹ دیں زمانے نے
بجھے چراغ بنامِ فراغ روندے گئے

انڈیلنے کو چلے روشنی مناظر میں
صراحی چھِن گئی طاہرؔایاغ روندے گئے

Friday, July 28, 2023

سلامِ نور

 نور ہوں سردار جس کے ایسی جنّت پر سلام

(طاہرؔ انجم صدیقی ، مالیگاؤں) 


نور نوری پشت پر، سجدے کی وسعت پر سلام
نور کی گردن پہ بوسے کی سعادت پر سلام

نور کے کانوں میں جو گھولیں اذانیں نور نے
اس اذانِ نور اور نوری سماعت پر سلام

نور آئے، نور سے بولے چُنیں بس ایک نور
نور کی خاطر جو دی بیٹے کی رخصت پر سلام 

اہلِ بیتِ نور کا جس میں ہے نوری تذکرہ
ہاں اسی قرآن کی نورانی آیت پر سلام

نور کا کہنا کہ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں
نور کے الفاظ پر، نورانی عظمت پر سلام

نور کعبے سے ملا اک دو نہیں پچیس بار
نور کے پیدل سفر، نوری ریاضت پر سلام

کیا اندھیروں کے خطوط آئے اُجالا چل پڑا! 
ظلم کے ہاتھوں نہ کی تھی، نوری بیعت پر سلام

مقتدی جو کھا گئیں، تاریکیاں افسوس کن
نور اکیلا بچ گیا، نوری امامت پر سلام

نور کے ساتھی بہتّر، سب پہ امّت کا درود
نور والے قافلے، نوری قیادت پر سلام

نور نے جانیں نچھاور کی ہیں دینِ نور پر
نور سے جو پائی اس نوری سخاوت پر سلام

نور اکیلا ڈٹ گیا تھا کہہ اٹھے گا کارزار
جو ملی تھی نور سے اس نوری جرأت پر سلام

کانپ اٹھّے دشمنانِ نور نوری خوف سے
ذوالفقارِ نور کی دوشاخہ ہیبت پر سلام

نور نے خود ہی سکھائی تھی جو اپنے نور کو
اس نمازِ عشق میں سجدے کی حالت پر سلام

آفریں ہر اک رکوع اور سجدے پر صد آفریں 
جو نہ پوری ہو سکی اس نوری رکعت پر سلام

نور کے حصے لکھی تھی کربلا کی ریت پر
جس پہ نازاں ہو شہادت اس شہادت پر سلام

نوجواناں اترائیں گے جنّت میں طاہرؔ دیکھنا
نور ہوں سردار جس کے ایسی جنّت پر سلام

Wednesday, July 12, 2023

ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا نہیں کرتے؟ (غزل)

غزل

طاہرانجم صدیقی



وہ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا نہیں کرتے؟

بتا دے کوئی انھیں ہم دغا نہیں کرتے


انھیں ہی مات مِلا کرتی ہے بساطوں پر

"جو چال سوچ سمجھ کر چلا نہیں کرتے"


وہی شکایتیں کرتے ہیں راستوں کی بہت 

جو اپنے تلوے کبھی آبلہ نہیں کرتے


 نتیجہ دیکھ چکے ہیں، بکھرنا پڑتا ہے

ہم اپنی ذات کو اب آئینہ نہیں کرتے


انھیں ہی گھیرے رہا کرتی ہے ہوس اکثر

قلندروں میں جو طاہر رہا نہیں کرتے


عجیب لوگ ہیں اپنی سنائے جاتے ہیں

ادیب لوگ کسی کی سنا نہیں کرتے


ہم ایسے لوگ ہیں سر بھی کٹا کے خوش ہوں گے

وہ اور ہوں گے جو طاہرؔ وفا نہیں کرتے



Read this Ghazal please🔽
مری لغت میں کہیں لفظِ انتقام نہیں



Tuesday, July 11, 2023

"میں ایک لفظ انا کا ہوا غلام نہیں" : غزل

 غزل 

طاہر انجم صدیقی




 میں ایک لفظ انا کا ہوا غلام نہیں"

مری لغت میں کہیں لفظ انتقام نہیں"


کلام کہنے میں جس کے کوئی کلام نہیں

ادب کی بزم میں اس کا کہیں پہ نام نہیں


ضروری تو نہیں جو بھی ہو میرے پیچھے ہو

مجھے بتاؤ میں فنکار ہوں، امام نہیں


ذرا رکو تو سہی، دوستو! سنو تو سہی

ابھی تو درد کا قصہ ہوا تمام نہیں


 ہے لفظ لفظ اسی ایک شخص سے منسوب

مری کتاب میں جس شخص کا ہی نام نہیں


جسے بھی دیکھو وہ طاہر دکھاتا ہے آنکھیں

ہمارے ہاتھ میں شمشیرِ بے نیام نہیں


Read this Ghazal please🔽
میں نے آنکھوں میں اس کی دیکھا ہے

میں نے آنکھوں میں اس کی دیکھا ہے: غزل

غزل

طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں




میں نے آنکھوں میں اس کی دیکھا ہے

اک ستارہ سا جھلملاتا ہے


کیسا غم تھا؟ اٹھائے پھرتا تھا

ابر اب ٹوٹ کر جو برسا ہے


ہائے بیچارگی سمندر کی

چپ ہے اور وسعتوں میں پھیلا ہے


آؤ! پھر ایڑیاں رگڑتے ہیں

پھر سے دریا غرور کرتا ہے


پھر سے باتیں تمہاری کرتا ہوں

پھر غزل کہنے کا ارادہ ہے


آ ! سمندر سے پوچھ لیتے ہیں

کیا یہ آنکھوں سے تیری گہرا ہے؟


ایسی ویرانیاں بھی کیا دل میں؟ 

دشت، حیرت سے مجھ کو تکتا ہے


ہم عداوت کو جانتے ہی نہیں 

اپنا مسلک تو دوستی کا ہے


خواب آنکھوں میں کوئی جاگا تھا

رت جگوں کا عذاب اترا یے


"ناامیدی ہے کفر" جب سوچو

کوئی جگنو چمکنے لگتا ہے



Read this Naat please🔽
درِ نبی کا یہ اعزاز مجھ کو پانے دو


درِ نبیﷺ کا یہ اعزاز مجھ کو پانے دو (نعت)

حافظ اسماعیل یار علویؔ صاحب کے مصرعے پر

طرحی نعتِ پاک

(طاہرانجم صدیقی) 





 درِ نبیﷺ کا یہ اعزاز مجھ کو پانے دو
"مری اجل کو بصد شوق آج آنے دو"

رکو! رکو! تو ذرا پیارے قافلے والو! 
مجھے بھی ساتھ میں اپنے مدینے آنے دو

چلو! چلو! درِ رحمت ہے وا مدینے میں
شفاعت آپﷺ کے در سے مجھے بھی پانے دو

کہو! کہو! مجھے دیوانۂ نبیﷺ لیکن
درِ رسول ﷺ سے مجھ کو سند تو پانے دو

ہٹو! ہٹو! نظر آیا ہے گنبدِ خضری'
مری نگاہ کو معراج اس کی پانے دو

گرو گرو! درِ اقدس پہ تم تڑپ کے گرو!
نصیب اوجِ ثریّا پہ آج جانے دو

جہاں جہاں پہ پڑے پاؤں میرے آقاﷺ کے
وہاں کی مٹی مجھے چوم چوم آنے دو

پڑھو! پڑھو! مرے ساتھ اب درودیں تم بھی خوب
خدا کی ہے یہ جو سنّت مجھے نبھانے دو

لکھو لکھو! مرے حصے میں نیکیاں لکھّو!
فرشتو! نعتِ نبیﷺ مجھ کو گنگنانے دو

کِھلو! کھِلو! گلو! گلشن میں شوق سے لیکن
گلِ مدینہ کی اک پنکھڑی تو لانے دو

کھُلا! کھُلا! مرے عصیاں کا ہائے رے دفتر!
حضورﷺ! آپ کی کملی میں منہ چھپانے دو 

اٹھوں! اٹھوں! تو یوں عشقِ نبیﷺ میں طاہرؔ میں
کہ آپ ﷺ دیکھیں، فرشتوں سے کہہ دیں "جانے دو!" 


اس غزل کا ہر شعر مطعع ہے. ضرور پڑھیں. 🔽


Friday, July 07, 2023

 *غزل*

(طاہر انجم صدیقی) 


کرے تو کیا کرے سوچو یہ خاکسارِ دشت؟

"نظر اٹھانے نہیں دیتا روزگارِ دشت"


میں روندنا ہی نہیں چاہتا وقارِ دشت

قدم کو چومنے بے چین ہے قطارِ دشت


کچھ احتیاط بھی رکھتا ہے ہوشیارِ دشت

تب اس کے سامنے بے بس ہے اختیارِ دشت 


نہ پوچھ دشت نوردوں سے تو خمارِ دشت

ہمیشہ دیکھ یوں ہی بیٹھ کر غبارِ دشت


بُلائے کھول کے بانہیں سدا حصارِ دشت

مجھے بھی چین کہاں لینے دے خمارِ دشت


چلا ہے جوش میں طاہرؔ جو شہ سوارِ دشت

شکایتیں نہ کرے اس سے اِخْتِصارِ دشت


خدا ہی جانے ہے کیوں کر وہ سوگوارِ دشت

بنائے بیٹھا ہے آنکھوں کو آبشارِ دشت


کبھی اسے سبھی کہتے تھے ہائے! یارِ دشت

وہ سر جھکائے ہوئے گزرا شرم سارِ دشت


کھُلا تمام ہی سمتوں سے ہے دیارِ دشت

کوئی تو مجنوں ہو لیلی' کا پھر سے یارِ دشت


تمہارے ساتھ ہوا تھا کوئی قرارِ دشت؟ 

!جو ساتھ لے کے چلے آئے یادگارِ دشت


کہیں ملے جو تمہیں عشق درکنارِ دشت

سلام کہنا ہمارا ہو گر مزارِ دشت


لٹا رہا ہے خوشی سے کوئی غبارِ دشت

ہے میرے پاس مداوائے خلفشارِ دشت


ہمارے آنے سے تم دیکھو حالِ زارِ دشت

وہ اور ہوں گے جو بن جاتے ہیں شکارِ دشت


یہ آبلے ہیں یا طاہرؔ کوئی نگارِ دشت

یا دستِ دشت کا ہے کوئی شاہکارِ دشت


Read this please🔽

بس ذرا دیر ہی کرلینا گوارا ہم کو


Wednesday, June 14, 2023

غزل: بس ذرا دیر ہی کرلینا گوارا ہم کو

 غزل

از: طاہر انجم صدیقی 




بس ذرا دیر ہی کر لینا گوارا ہم کو
اُٹھ بھی جائیں تو اگر کر دے اشارہ ہم کو

اپنی لیلی' کے تصور میں مگن بیٹھے تھے
"قیس نے دشت سے جس وقت پکارا ہم کو"

ہم تو پلکوں پہ سجاتے ہیں تمہارا ہر غم
یوں عطا کرتی ہے تقدیر ستارہ ہم کو

ایڑیاں رگڑیں مگر بھیک نہ لی دریا سے
اور تکتا رہا حیرت سے کنارا ہم کو

گرد آلود رہے، چیتھڑے پہنے ہوئے ہم
وقتِ رخصت تری خلقت نے سنوارا ہم کو

اپنی مٹی کو اٹھا لائیں گے ہم مٹی سے
وقتِ محشر جو خدا تو نے پکارا ہم کو

تجھ سے امید معافی کی بڑی رکھتے ہیں
تیرے محبوب کا ہے نام سہارا ہم کو

تم رہے ساتھ تو وہ بات الگ تھی طاہرؔ
اب تو بھاتا نہیں کوئی بھی نظارہ ہم کو


یہ غزل ضرور پڑھیں. 🔽


Friday, April 28, 2023

غزل: دھندلائے ہوئے شیش نظارے میں نہیں تھا

 غزل

طاہرانجم صدیقی



دھندلائے ہوئے شیش نظارے میں نہیں تھا

کہہ دو کہ میں پلکوں کے ستارے میں نہیں تھا


سب لوگ مجھے اپنا بنانے پہ بضد تھے

میں ایک فقط تیرے اِجارے میں نہیں تھا


میں چونچ سے نکلا تو بڑی آگ پہ برسا

نمرود! کبھی تیرے  شرارے میں نہیں تھا


اِک تم جو مِرے ساتھ کھڑے تھے دمِ آخر

"برباد بھی ہو کر مَیں خسارے میں نہیں تھا"


پھیلی ہیں غلط فہمیاں کس بات سے میری؟

اک لفظِ غلط بھی تِرے بارے میں نہیں تھا


ہم آج بھی اس حکم کے محکوم ہیں جاناں! 

وہ حکم جو ابرو کے اشارے میں نہیں تھا


میں خوش ہوں نمو بن کے زمیں چیر رہا ہوں

پھٹ جائے کسی ایسے غبارے میں نہیں تھا


دعویٰ تو تھا جذبات سمو لینے کا لیکن

آرام کسی ایک بھی پارے میں نہیں تھا


اس وقت سے میں قیدِ سلاسِل کا ہوں عادی

جب میرا قدم وقت کے دھارے میں نہیں تھا 


مٹّی پہ رہا، اُٹھ کے فلک چومنے نکلا

طاہرؔ میں کسی ٹوٹتے تارے میں نہیں تھا




عید الفطر کی آمد پر مسجد کی فریاد ضرور پڑھیں🔽

اے عیدالفطر! میں مسجد ہوں سن آواز تو میری



Sunday, April 23, 2023

نظم: مسجد کی فریاد

 مسجد کی فریاد

طاهر انجم صدیقی



اے عید الفطر ! میں مسجد ہوں، سن آواز تو میری

گیا رمضان ، تو آئی ، مسرت ساتھ میں لائی


تری آمد سے تو بستی میں یوں مسلم سبھی خوش ہیں

سبھی اطفال خوش ، بوڑھے بھی خوش اور نوجواں خوش ہیں


مگر آمد سے تیری میں بہت افسردہ خاطر ہوں !

غموں سے رورہی ہوں اور دکھ سے میں تڑپتی ہوں !


کہ جب تک تو نہ آئی تھی مرا رمضاں تھا اور میں تھی

نمازی کے قدم پا کر میں ہر دم شاد رہتی تھی !


اذانیں سن کے میری سمت کتنے لوگ آتے تھے! 

تلاوت کرتے جاتے تھے، نمازیں پڑھتے جاتے تھے! 


تری آمد سے پہلے ماہِ رمضان میں یہ حالت تھی

بہت ہی شاد رہتی تھی کہ میں آباد رہتی تھی


مگر تو نے تو آکر بحرِ غم میں ہے مجھے ڈالا

جو میں آبا رہتی تھی مجھے ویران کر ڈالا


نمازی اتنے کم آتے ہیں کہ دوصف کے لالے ہیں! 

کہاں رونق تھی مجھ میں اور کہاں مکڑی کے جالے ہیں! 


مسرت کا مری تو نے بتا کیوں قتل کر ڈالا ؟

کہ میں آبا د ر ہتی تھی مجھے ویران کر ڈالا


فقط اپنی خوشی کے واسطے ایسا کیا تو نے ؟

رہ مسجد سے مسلم کو ہے کیوں بھٹکا دیا تو نے ؟


تھا بہتر اس سے تیرے حق میں تو واپس چلی جاتی

صلہ اس کا تجھے ملتا خوشی بھی ڈھیر سی پاتی


مگر افسوس ! عید الفطر ! صد افسوس ! صد افسوس !

تری قسمت پر اور تقدیر مسلم پر ہے صد افسوس !


کہ میں ویراں رہوں گی جب تلک رمضاں نہ آئے گا

مسلمان فکر میں دنیا کی ، عقبٰی بھول جائے گا






نعت، حمد اور مناجات تینوں کا لطف ایک ہی کلام میں ضرور پڑھیں. 🔽
میں تری حمد لکھوں اور تو مجھے نعت سکھا