Translate ترجمہ

Showing posts with label تجزیہ اور تنقید Criticisms and Analities. Show all posts
Showing posts with label تجزیہ اور تنقید Criticisms and Analities. Show all posts

Wednesday, May 31, 2023

"بھورے بالوں والا" کا تجزیاتی مطالعہ

"بھورے بالوں والا" کا تجزیاتی مطالعہ


افسانہ نگار: ڈاکٹر شہروز خاور

تجزیاتی گفتگو: طاہر انجم صدیقی

تاریخ: ٢٠، مئی ٢٠٢٣ء بروز سنیچر

زیرِ اہتمام: انجمن محبانِ ادب و سٹی کالج، مالیگاؤں 

بمقام: سٹی کالج، مالیگاؤں





          ڈاکٹر شہروز خاور کے افسانے کا عنوان پڑھ کر غبارے والا، بانسری والا، پنکچر والا اور کنجی آنکھوں والا جیسے افسانوں کے کئی عنوانات ذہن کی سطح پر ابھرتے ہیں. فاضل افسانہ نگار نے فیشن کے طور پر اس افسانے کا عنوان "بھورے بالوں والا" نہیں رکھا ہے بلکہ اس افسانے کا تقاضہ تھا کہ اس کا عنوان کچھ اسی قسم کا رکھا جائے. اس کا سبب یہ ہے کہ افسانے میں کسی بھی کردار کا نام اور مذہب ظاہر نہیں کیا گیا ہے. ایسے افسانوں میں گڈو، راجو یا پھر والا کے لاحقے کے ساتھ استعمال کی گئی صفات کو نام کے طور پر استعمال کرلیا جاتا ہے.

         افسانہ سیدھے سادے بیانیے اور مکالمے پر مشتمل ہے. افسانے میں فلیش بیک تکنیک کا استعمال ہوا ہے بلکہ باریک بینی سے دیکھا جائے تو کہانی بیان کرنے کے لیے افسانے کے ایک کردار کو آگے کردیا گیا ہے. راوی ایک چھوٹا بچہ ہے جو کسی آشرم، یتیم خانے یا بچوں کے کسی مددگار ٹرسٹ میں دیگر بچوں کے ساتھ رہا ہے فاضل افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ ان کے کسی ادارے کے تعلق سے وضاحتاً کچھ نہ لکھنے کے باوجود بھی ہے قاری کی سمجھ میں آجاتا ہے کہ کہانی نے کسی ایسے ہی ادارے میں جَنَم لیا ہوگا. 

           فاضل افسانہ نگار کی کامیاب کوشش رہی ہے کہ وہ زبان کی خامیوں سے بچیں. لیکن وہ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ راوی کی زبان اس کی عمر اور اس کے ماحول کے مطابق ہونی چاہیے تھی. جبکہ اس افسانے میں صاف طور پر محسوس ہوتا ہے کہ فاضل افسانہ نگار اور افسانے کے راوی کی زبان میں فرق مشکل ہی سے کیا جا سکے گا.

           افسانے کا پہلا جملہ دیکھیں:

            "آج کا خوشی کا دن تھا لیکن میں اپنے انتخاب پر اتنا بھی خوش نہیں تھا جتنا میرے دوست سمجھ رہے تھے."

            اس جملے میں بھاری بھرکم الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا ہے لیکن ان کا استعمال کسی بچے کے بس کا محسوس نہیں ہوتا. خاص طور پر نفسیاتی طور پر متاثرہ کسی بچے کا تو خاص طور پر محسوس نہیں ہوتا.

            اسی قبیل کے مزید چند جملے دیکھیں:

           اول: " میں نے پیچھے مڑ کر دیکھنا مناسب نہیں سمجھا یا شاید میں دیکھنا ہی نہیں چاہتا تھا یا پھر مجھے دیکھنا بھی نہیں چاہیے تھا."           

           دوم: "دائیں جانب چند کرسیاں اور ایک ٹیبل ایسے رکھے تھے جیسے کئی برسوں سے ان کے لیے سے وہی جگہ مختص کر دی گئی ہو."

           سوم: "میرے ہوتے ہوئے بھی فقرے اچھالے جا رہے تھے.

           ان جملوں سے قاری کے بچکانہ پن کی بو نہیں آتی بلکہ یہ کسی باشعور شخص کے محسوس ہوتے ہیں. جن کو پڑھ کر نہیں سمجھا جاسکتا کہ یہ کسی بچے کی زبان سے ادا ہو رہے ہوں گے.

           بھورے بالوں والا" سے منتخب یہ چند جملے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ افسانے کے راوی کی زبان افسانے اور اس کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتی اس کا سبب یہ ہے کہ افسانے میں بچوں کے کھیلنے کا تو تذکرہ ہے لیکن کہیں بھی ان بچوں کی تعلیم و تربیت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے. جبکہ افسانہ نگار کو ایسا کرنا چاہیے تھا. 

           اس کے علاوہ افسانے میں کسی جگہ افسانے کی داخلی منطق بھی راوی کی زبان کے لئے کوئی جواز فراہم کرتی نظر نہیں آتی.         

           افسانے کے پہلے جملے کو دوبارہ دیکھیں:

           "آج خوشی کا دن تھا لیکن میں اپنے انتخاب پر اتنا بھی خوش نہیں تھا جتنا میرے دوست سمجھ رہے تھے." 

           اس جملے کو پڑھ کر سمجھا جا سکتا ہے کہ فاضل افسانہ نگار نے افسانے کے کردار کے توسط سے افسانے کا آغاز ایک تضاد سے کرتے ہوئے لکھا ہے  کہ اس روز خوشی کا دن تھا مگر راوی اتنا خوش نہیں تھا جتنا اس کے دوست سمجھ رہے تھے لیکن دوستوں کی اس سمجھ کا کوئی منطقی جواز افسانے میں موجود نہیں ہے اور اگر افسانے کے راوی کے دل میں بھورے بالوں والے کے والدین کی فطرت کی وجہ سے گود لینے والوں کے تعلق سے یہ خدشات پیدا ہو گئے ہوں کہ کہیں وہ بھی بات بات پر لڑائی کرنے والے، سختی کرنے والے اور شک کرنے والے نہ ہوں تو پھر جملے کا پہلا حصہ سوالیہ نشان کی زد میں آجائے گا اور افسانے کا راوی خود کے گود لئے جانے کے دن کو خوشی کا دن نہیں کہے گا. 

           حالانکہ جب تضاد بیانی سے افسانے کا آغاز کرکے قاری کو افسانے کی قرأت کے لئے روک لیا جاتا ہے تو پھر افسانہ نگار پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس تضاد بیانی کو افسانے کی داخلی منطق سے جواز بھی مہیا کرے لیکن "بھورے بالوں والا" والا کی داخل منطق اس معاملے میں میں گونگی ثابت ہوتی ہے. 

           "بھورے بالوں والا" کی کہانی ایک یتیم بچے کی کہانی ہے جس کی اوٹ سے فاضل افسانہ نگار یہ بتانا چاہتے ہیں کہ والدین کی تو تو میں میں، لڑائی جھگڑے اور شکوک و شبہات کی وجہ سے بچوں پر غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں بچوں کے اپنے بھی جذبات و احساسات ہوتے ہیں اگر وہ مجروح ہوں تو پھر بچے بغاوت اور احتجاج پر اتر آتے ہیں. 

           چونکہ فاضل افسانہ نگار کا تعلق درس و تدریس سے ہے اس لیے انہوں نے بچوں کی نفسیات کی بنیاد پر افسانے کی عمارت کھڑی کی ہے اور بتایا ہے کہ میاں بیوی کے نامناسب رویوں کی وجہ سے ان کا اپنا بیٹا گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے جس کی کمی پوری کرنے کے لیے وہ دوسرے بچے کو گود لیتے ہیں مگر وہ بھی ان کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر بھاگ جاتا ہے اور پھر انھیں اپنے ہی بچے کو گود لینا پڑتا ہے. 

           اس افسانے میں کئی ایسے مقامات آتے ہیں کہ افسانے کا عقدہ وقت سے پہلے ہی کھل جاتا ہے اور پڑھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ بھورے بالوں والا گود لینے والوں کا ہی بیٹا ہے. 

           افسانے کے راوی کی زبانی ثبوت دیکھیں:

           "ان کی کار میدان میں داخل ہوئی تو بھورے بالوں والا کھیل چھوڑ کر بھاگا اور اپنے پلنگ کے نیچے جا کر چھپ گیا."

           اس جملے کی رو سے بھورے بالوں والے کا بھاگنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی کار کو پہچان چکا تھا اس لئے کھیل چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا. حالانکہ یہاں پلنگ کے نیچے جا کر چھپنے کا جو منظر بیان کیا گیا ہے اس سے راوی کے اختیارات پر سوالیہ نشان عائد ہوتا ہے کیونکہ افسانے کا راوی تو کھیلنے کی جگہ پر ہی موجود تھا. بھلا وہ بھورے بالوں والے کے پلنگ کے نیچے جا چھپنے کا منظر کیسے بیان کرسکتا ہے؟ اگر فاضل افسانہ نگار "پلنگ کے نیچے چھپ گیا ہوگا" کا استعمال کرلیتے تو بعد میں استعمال شدہ جملوں کے استعمال کا جواز بھی مل جاتا کہ بھورے بالوں والا جب کبھی ناراض یا غصے میں ہوتا تھا تو جا کر پلنگ کے نیچے چھپ جاتا تھا اور وہ جگہ صرف راوی کو ہی معلوم تھی. 

           اسی مقام پر دوسرے ہی پیراگراف میں اس منظر کے بعد راوی کے خیالات کے اس اظہار سے قاری کو دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی ہے. 

           "ممکن ہے ان کا بیٹا مر گیا ہو؟" 

          سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف بچے کے مرنے پر ہی لوگ گود لیتے ہیں؟ جواب ہونا چاہئے "نہیں"

          کیونکہ صرف اپنے بچے کے مرجانے پر کسی دوسرے بچے کو گود نہیں لیتے بلکہ اولاد کا گھر چھوڑ کر بھاگ جانااولاد اور اولاد کا نہ ہونا اور  بھی گود لینے کا بڑا سبب بنتا ہے. 

          چونکہ فاضل افسانہ نگار کو خدشہ تھا کہ اگر وہ ابتدا میں بھورے بالوں والے کے گھر سے بھاگنے کا تذکرہ کر بیٹھتے تو افسانہ پہلے ہی کھل جاتا. اس لئے انہوں نے افسانہ نگارانہ فریب کا استعمال کرلیا ہے.

          افسانے کے راوی سے جب گود لینے والے کہتے ہیں کہ وہ انہیں چھوڑ کر کبھی نہ جائے تب بھی افسانے کا تاثر زائل ہوتا ہے اور صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ان کا بیٹا انہیں چھوڑ کر چلا گیا ہے اور وہ وہی بھورے بالوں والا ہے. 

          اسی پیراگراف میں چھٹیاں ختم ہوتے ہی نئی اسکول میں افسانے کے راوی کے بھی ایڈمیشن کے اظہار سے  سمجھ میں آ جاتا ہے کہ بھورے بالوں والا ہی ان کا بیٹا ہے جو اسکول جاتا تھا مگر اب وہ گھر میں ہی نہیں ہے. اگر یہاں فاضل افسانہ نگار لفظ "بھی" کا استعمال نہیں کرتے تو اس اعتراض کی گنجائش نہیں نکلتی. 

          اتنا ہی نہیں بلکہ اس اظہار کے بعد فورا ہی راوی کو بھورے بالوں والے کے ہی طرح کے محسوسات کا ذکر بھی افسانے کے تاثر کو مجروح کرتا ہے.

          آگے چل کر فاضل افسانہ نگار جب ایک مرتبہ راوی کی زبانی کہلواتے ہیں کہ سب کچھ ویسا ہی ہو رہا تھا جیسا بھورے بالوں والے کے ساتھ ہوتا تھا تب بھی کا تاثر مجروح ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور قاری کی سمجھ میں آجاتا ہے کہ بھورے بالوں والا ہی گود لینے والو‍ ں کا سگا بیٹا ہے.

         اس کے بعد افسانے میں بیان کردہ سارے خیالات چغلی کھاتے چلے جاتے ہیں کہ بھورے بالوں والا ہی گود لینے والوں کا بیٹا ہے.

         کسی افسانے کا تجسس قبل از وقت ہی ختم ہوجائے اور اس کا تاثر خود افسانہ نگار ہی کئی مقامات پر مجروح کرے اور اس افسانے سے قاری کی دلچسپی ختم ہوجائے تو اس افسانے کو بہت کامیاب افسانہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ قاری کی دلچسپی ایسے افسانے  سے کم ہو جاتی ہے اور وہ ورق پلٹ کر آگے بڑھ جانا مناسب سمجھتا ہے.

         اسی طرح افسانے کے راوی کے گود لینے والوں کے گھر میں پلنگ کے نیچے جا چھنے کا منطقی جواز بھی افسانے میں موجود نہیں ہے. سبب یہ ہے کہ راوی اس وقت کمرے کے دروازے کو مضبوطی سے بند کر لیتا ہے اور بات واضح ہو چکی ہوتی ہے کہ راوی پر گود لینے والوں کی لڑائی سے کچھ اچھا تاثر مرتب نہیں ہورہا ہے. اس لیے اس کا مضبوطی سے دروازہ بند لینا سمجھ میں آتا ہے لیکن دروازہ بند کر لینے کے باوجود بھی ہے پلنگ کے نیچے جا چھپنا بڑا مصنوعی محسوس ہوتا ہے. 

         اس کے بعد کا حصہ بھی تصنع بھرا محسوس ہوتا ہے جب راوی گود لینے والوں کے گھر سے بھاگ کر واپس پرانے مقام پر پہنچ کر ہچکچاتا اور یہ محسوس کرتا ہے کہ وہاں اسی کا انتظار ہورہا تھا اور وہاں دیدی کا راوی کو "بھورے بالوں والے" کہہ کر بلانا بھی کم مصنوعی نہیں لگتا.

          نیز اسی مقام پر راوی کا یہ بیان کرنا کہ دیدی اسے اتنا جانتی تھی کہ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر ہی سب کچھ سمجھ جاتی تھی. اگر واقعی وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر ہی سب کچھ سمجھ جاتی تھی تو قاری یہ سوچنے میں حق بجانب ہوگا کہ دیدی راوی کو اس وقت بھورے بالوں والا کہہ کر کیوں بلاتی ہے؟ لیکن یہی تو وہ درد ہے جو افسانہ نگار کو افسانے کے تانے بانے بُننے پر مجبور کرگیا ہے مگر افسوس ہے کہ فاضل افسانہ نگار نے اس تاثر کو واقعات کی اپنی ہی ترتیب سے کئی مقامات پر اس طرح مجروح کیا ہے کہ یہاں قاری پر وہ اتنا اثر ڈالنے میں کامیاب نظر نہیں آتے جتنا ہونا چاہئے تھا. 

          بلکہ میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ افسانوں کو بڑی باریک بینی سے دیکھنے والے ڈاکٹر شہروز خاور جیسا شخص اپنے ہی افسانے کی اتنی موٹی موٹی باتوں کو نظر انداز کیسے کر گیا؟

          امید کرتا ہوں کہ وہ میری باتوں پر غور کریں گے. 

          اگر میری گفتگو میں کہیں تلخی پیدا ہوگئی ہو تو

          "رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف"

          خدا حافظ.

Sunday, April 16, 2023

تجزیہ: بون سائی پر گفتگو

 *بون ۔ سائی*

افسانہ نگار: محمد یحییٰ جمیل

گفتگو: طاہرانجم صدیقی (مالیگاؤں) 





          بزمِ افسانہ کے توسط سے محمد یحییٰ جمیل کا بون سائی پڑھنے میں آیا. عنوان اپنی جانب راغب کرنے والا ہے. با معنی ہے اور افسانے کی روشنی میں اپنے علامتی مفہوم کو واضح بھی کررہا ہے.

          افسانے کی ابتدا دیکھیں:

        "مجھے باغبانی سے زیادہ دلچسپی نہیں ۔پھر بون -سائی پودوں کے بارے میں کیا جانتا؟ کل پرکاش سے معلوم ہوا کہ بون-سائی، چینی لفظ ’پین زائی‘ کا جاپانی تلفظ ہے۔ ’بون‘ یعنی ٹرے اور’ سائی‘ یعنی درخت۔"

           🔸بڑی خوبصورتی سے یحی' جمیل نے سائنسی معلومات کو مکالموں کے توسط سے افسانے کا حصہ بنا دیا ہے. یہاں یہ معلومات کسی مضمون کا ٹکڑا معلوم نہیں ہورہی ہے بلکہ افسانہ نگار کی فنکاری کے سبب افسانے کا حصہ بن گئی ہے.

           افسانے کے راوی کے پڑوس میں کرایہ دار کی حیثیت سے آنے والوں کے تذکرے کے ساتھ افسانہ آگے سرکتا ہے. اسی تذکرے میں ایک لیڈی پروفیسر کا بھی ذکر شامل ہے لیکن افسانے کا راوی بہت جلد افسانے کو اصل کہانی کی طرف یوں موڑ دیتا ہے. 

          *مہتاب کا ایسا مزاج ہوگا، ابا جی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پڑوسیوں نے پہلی بار ہمارے گھر سے اونچی آوازیں سنی تھیں۔ نوبیاہتا سہیلیوں سے سنے گئے رنگین قصوں نے مجھے بد ذوق اور خشک مزاج شوہر ثابت کیا تھا۔ بھرے پرے گھر میں ناز و نیاز کی گنجائش بھی کم تھی۔*

           🔸محمد یحی' جمیل نے کتنی خوبصورتی سے انسانی بون سائی، خواہشات کے بون سائی، چاہتوں کے بون سائی، سنہرے خوابوں کے بون سائی کو پیش کردیا ہے. بھرے پرے گھر میں نئی نویلی دلہن کے سنہرے خوابوں میں کتر بیونت کرکے بون سائی بنا کر گھر کے ٹرے میں سجانے پر جو نفسیاتی ردِ عمل سامنے آیا اسی بنیاد پر افسانہ کھڑا کر دیا ہے محمد یحی' جمیل  نے. 

          *ایک سال بعد مجھے دوسرے شہر میں ملازمت مل گئی۔ نئے شہر میں شفٹ ہوتے ہوئے سوچا تھا سال دو سال بعد واپس آجاؤں گا، لیکن وہ دن پھر کبھی نہیں آیا۔ میں یہیں ریٹایر ہوا۔*

           🔸راوی خود بھی بون سائی بن گیا ہے. وہ خود اپنی خواہشات اور چاہتوں میں کتربیونت کررہا ہے اور کھلی فضا میں آزادی سے زندگی گزارنے کی بجائے زندگی کے ایک چھوٹے سے ٹرے میں مقیّد ہوگیا ہے.

           بلکہ مہتاب کے تزکرے کے بعد افسانہ نگار کا یہ بیان بھی راوی کو رفتہ رفتہ بون سائی میں تبدیل ہوتے ہوئے دکھانے کے لیے کافی ہے. دیکھیں:

        "کچھ دوست بہت نالائق مل گئے۔ ویک اینڈ پر دیر رات تک بیٹھک ہوجاتی۔ مہتاب کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی۔ ایک مرتبہ تواس نے غصے میں اپنی نسیں کاٹنے کی کوشش تھی۔ پڑوس کی عورتوں سے میل جول کو ، جانے کیوں وہ عار سمجھتی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کی مرضی نے قانون کی شکل اختیار کر لی۔ امی، اباجی صرف دوچار دن کے لیے آئیں۔ بھائیوں سے تہواروں پر ملاقات کروں۔ بہن سال میں ایک بار آئے اور دو دن سے زیادہ نہ ٹھہرے۔ سال میں صرف عیدین پر دعوت ہو۔ ویکیشن پر کوئی نہ آئے۔دوست اگر آئیں تو طہارت خانہ ہرگز استعمال نہ کریں۔ ضروری کام سے جاؤں اور فوراً لوٹ آؤں۔ گھریلو کاموں میں بہر حال مدد کروں۔"

        ان تذکروں کے بعد بون سائی بنانے کے عمل کو بتانا اس افسانے کا اہم حصہ ہے. اس چھوٹے لیکن اہم حصے کے ذریعے افسانے کے کرداروں کی نفسیاتی کیفیات سمجھی جا سکتی ہیں. دیکھیں:

           ’’جس پودے کا بون سائی بنانا ہو اسے گملے سے نکال کر اس کی بڑی ڈالیاں کاٹ لیتے ہیں۔ جڑیں بھی کم کرتے ہیں۔ پھر اتھلے گملے میں کھاد اور مٹی کے ساتھ لگادیتے ہیں۔ اس کی غیر ضروری شاخوں اور پتوں کو کاٹتے رہنا ہوتا ہے۔ تاکہ اس کی لمبائی ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔‘‘

          🔸یہ صرف بون سائی پودوں کی بابت نہیں بتایا جارہا ہے بلکہ افسانہ نگار اپنے افسانے کے کرداروں کے ساتھ ہونے والے ہر قسم کے اس جبر کی طرف اشارہ ہے جو ان کی فطری جبلتوں اور فطری خواہشوں کے گملے سے نکال کر، بڑی ڈالی کاٹ کراس کی جڑیں کم کرکے، شاخوں اور پتوں کو بھی کتر ڈالا جاتا ہے اور گھر کے اتھلے گملے میں لگا کر اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ان کی خواہشیں بہت اونچائی تک سر نہ اٹھا پائیں اور ان کی فطری جبلتیں مخصوص حدوں کو پار نہ کرسکیں. ان ساری باتوں پر دھیان دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا کہ ان لوگوں کو مخصوص مراعات بھی دی جائیں. 

          فاضل افسانہ نگار نے اپنے افسانے کے اس اقتباس سے اپنے مرکزی خیال کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ اس میں کامیاب ہیں.

          اس کے بعد وہ افسانے کے کلائمکس کی طرف تیزی سے مڑتے ہیں اور افسانے کے راوی کو بون سائی کے ساتھ جو عمل کرتے ہوئے دکھاتے ہیں وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے. دیکھیں:

         "میں نے بون-سائی کو اتھلے گملے سے نکالا اور زمین میں لگا دیا۔ مٹی برابر کرنے کے بعد اس پر پانی کا چھڑکاو کیا۔ ہلکی ہوا کے جھونکوں سے ننھانیم لہلہانے لگا تھا۔ جلد ہی یہ چھتنار ہوجائے گا۔"

         🔸یہ ہے فطری آزادی کی طرف راغب کرنے والا قدم. یہ ہے جیو اور جینے دو کے اصول پر چل کر اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو گلزار کردینے کا پیغام جسے قاری تک پہنچانے میں یحی' جمیل کامیاب ہیں اور افسانہ بھی یہیں پر مکمل ہے. یہی افسانے کا کلائمکس بھی ہے اور خاصا اثردار ہے لیکن اس کے آگے بھی یحی' جمیل صاحب نے لکھا ہے اور میرے خیال سے انھیں نہیں لکھنا چاہئے تھا. آپ بھی دیکھیں:

           "اس کام سے فارغ ہوکر مجھے وہ ذہنی سکون میسر آیا جس کے لیے میں مدت سے ترس رہا تھا۔" 

        "یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ فطرت کا گلا گھونٹ کر اسے بونا بنادیں۔اسے تناور درخت کیوں بننے نہ دیا جائے؟ آخر درخت اسی لیے تو ہے کہ پرندے اس پر گھونسلے بنائیں، اس کی شاخوں پر چہچہائیں، اس کے نیچے بچے کھیلیں، اس کے پھل کھائیں، کیڑے مکوڑے بھی اس سے اپنی غذا حاصل کریں۔ وہ بیچارہ تو سب کے لیے مفید ہے، پھر سب کو محروم کر کے اپنی تسکین کے لیے اس پر ظلم کیوں؟بلکہ اپنی غرض کے لیے سب پر ظلم کیوں؟؟"

        افسانے کا مندرجہءبالا اقتباس ایک تقریر ہے جو افسانہ نگار یہ سوچ کر کرگئے ہیں کہ شاید قاری کو ان کا افسانہ سمجھ میں نہیں آیا ہو گا. جبکہ ایسا نہیں ہے. ان کا افسانہ اپنے کلائمکس سے ہی ساری باتیں سمجھا چکاہے. انھیں اس جانب دھیان دینا چاہئے تھا.

اگر کچھ الفاظ چبھ رہے ہوں تو

          "رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف"


Thursday, April 13, 2023

تجزیہ: نیم بپلیٹ پر گفتگو

  نیم پلیٹ" پر گفتگو" 

افسانہ نگار: طارق چھتاری

گفتگو: طاہرانجم صدیقی، مالیگاؤں. 




           خدا جانے میں نے "نیم پلیٹ" کو کب پڑھا تھا؟ سب کچھ دھندلایا ہوا ہے. ایسا لگتا ہے کہ یاد کرنے کے لئے ذرا سا بھی زور لگاؤں گا تو میرے اپنے وجود میں ہی کہیں چھناکے سے کچھ ٹوٹ پھوٹ جائے گا یا پھر میرے اپنے وجود سے کوئی چیز اکھڑ کر نیچے گر پڑے گی.

           "نیم پلیٹ" کو پڑھنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ بہت پہلے پڑھے گئے افسانے کی نیم پلیٹ اور افسانہ نگار کا نام *طارق چھتاری* آج تک ذہن سے چمٹا ہوا ہے اور طارق چھتری صاحب نے اپنے افسانے کا آغاز یوں کیا. 

           ’’کیا نام تھا اس کا ؟ اُف بالکل یاد نہیں آ رہا ہے۔‘‘

        🔸افسانہ اس سوال سے شروع ہوتا ہے اور ختم بھی ہوجاتا ہے لیکن ایک تجسس سا سارے افسانے میں سحر بن کر سمویا ہوا محسوس ہوتا ہے. ایسا لگتا ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ افسانہ پڑھ لیا جائے اور کیدار ناتھ کو اس سوال کا جواب دے دیا جائے لیکن افسانہ ختم ہوجانے کے بعد بھی کیدار ناتھ کی بیچارگی کا مداوا نہی‍ں ملتا اور وہ سارے افسانے میں پریشان پریشان نظر آتے ہیں. دیکھیں:

          "انھوں نے پیشانی پہ ہاتھ رکھا۔"

           "پچھتر سالہ کیدار ناتھ کے ماتھے کی بے شمار جھریاں بوڑھی ہتھیلی کے نیچے دب کر پھڑپھڑنے لگیں۔" 

          🔸اسے فنکارانہ کردار نگاری کی خوبی سمجھوں؟ خوبصورت منظرنگاری کہوں یا کمال کی جذبات نگاری کا نام دوں؟ جوبھی ہے، ہے بڑا جاندار اور شاندار.

          ’’سر لا کی ماں ..........’’ ا ن کے منھ سے بے ساختہ نکل پڑا۔

          🔸بیٹی کا نام یاد رہنا اور بیوی کا نام بھول جانا؟ بھی ایک بڑا عجیب روگ ہے. بڑا المیہ:

          "کیدار ناتھ نے جھنجھلا کر سرہانے رکھی چھڑی کو اٹھایا ، گلے میں کس کے مفلر لپیٹا اور بار بار چھڑی کو فرش پر پٹخنے لگے۔ پھر دونوں ہاتھوں میں چھڑی کو جکڑ کر اس طرح سر کے قریب لائے جیسے اس کے ہتھے سے اپنا سر پھوڑ ڈالنا چاہتے ہوں۔" 

         🔸یہ اقتباس بتاتا ہے کہ طارق چھتاری صاحب کا مشاہدہ غضب کا ہے. کیدار ناتھ کی حرکات و سکنات بالکل فطری ہیں. آدمی یاد کرنے کے لئے یقینی طور پر اپنے ماتھے یا سر کو ہاتھ ضرور لگاتا ہے.

         ’’ تعجب ہے اپنی بیوی کا نام بھول گیا !اسے مرے ہوئے بھی تو چالیس برس گذر گئے ہیں۔تین سال کا عرصہ ہوتا ہی کتنا ہے۔صرف تین سال ہی تو اس کے ساتھ رہ پایا تھا میں۔‘‘

        🔸کیدارناتھ کے مکالمے بیانیہ کا کام کرجاتے ہیں اور وہ کہانی کہنے کا آرٹ دکھا کر یہ ثابت کرجاتے ہیں کہ کہانی کو آگے سرکانے کے لئے فنکار کو تو بس بہانہ چاہئے وہ کس چیز سے کیا کام لے لے کچھ کہا نہیں جا سکتا.

        "وہ لرز گئے اور گھبرا کر ایک پاؤں اس کے اندر رکھ دیا پھر دوسرا پاؤں ، اب وہ دروازے کے باہر کھڑے تھے۔سب کچھ خالی تھا ، ان کے ذہن کی طرح ، وہ سمت بھول گئے تھے اور الماری کے بجائے باہر جانے والا دروازہ کھول بیٹھے تھے۔"

       🔸اوہ....... کیا المیہ ہے. ابھی بیوی کا نام یاد ہی نہیں آسکا تھا اور اب سمتوں نے اپنے ہاتھ پاؤں سکیڑ لئے. ہائے رے بیچارگی.

       "باہر سڑک پر کہرا جما ہوا تھا۔ کھمبوں کے بلب مدھم دیوں کی طرح ٹمٹما رہے تھے۔ سنسان سڑک پر انھیں لگا کہ یکایک بھیڑ امڈ آئی ہے۔ چاروں طرف شور ہو رہا ہے۔ باجے کے شور سے کان پھٹے جا رہے ہیں۔دور کہرے میں چھپی ہوئی ڈولی ____سرخ جوڑا پہنے دلہن مسکرا رہی ہے۔

       سڑک پر ایک پتھر کا ٹکڑا پڑا تھا ، انھیں ٹھوکر لگی اور وہ لڑکھڑا کر کھمبے سے جا ٹکرائے ، بہت زور سے دھکا دیا تھا محلے بھر کی لڑکیوں نے ، اور پھر دروازہ بند۔

’’ کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘ نام معلوم ہوتے ہوئے بھی اس کا نام پوچھا تھا انھوں نے۔ وہ شرما گئی تھی اور گھٹنوں میں منھ چھپا لیا تھا۔ انھوں نے پھر پوچھا تو اس نے آہستہ سے اپنا نام بتایا۔"

          🔸فلیش بیک تکنیک کا اچھا استعمال کیا ہے طارق صاحب نے وہ بھی اتنی ہوشیاری اور فنکاری کے ساتھ کہ پتہ ہی نہیں چلتا کب ہم کیدارناتھ کے ماضی میں ان کے حجلہءعروسی میں انھیں اپنی بیوی کا نام پوچھتے دیکھ رہے ہیں. حالانکہ بالکل ہی اٹپٹا سا لگتا ہے شوہر کا اپنی بیوی کا نام پوچھنا.

          ’’ کیا بتایا تھا اس نے ؟ اف بالکل یاد نہیں۔‘‘

         🔸اس مکالمے کو پڑھ کر..... ایک کسک سی محسوس ہوتی ہے دل میں. دل چاہتا ہے کہ انھیں سرلا کی ماں کا نام جلدی یاد آجائے. یہی تو ہوتی ہے فنکاری. یہی تو ہوتا ہے فنکار جو لفظ بیچارہ استعمال کئے بغیر کردار کی حرکات و سکنات اور رویوں سے اس کی بیچارگی ظاہر کردیتا ہے اور ایسی صورت میں قاری کو اس سے بھرپور ہمدردی بھی ہوجاتی ہے.

         ’’اچھا تو اپنے باپ کے نام کی پلیٹ اکھاڑ کر............‘‘ کھٹ سے کوئی چیز گری۔

        🔸کیا فنکاری ہے! واااہ. کمال کا بیانیہ ہے طارق چھتاری صاحب کے پاس. ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے وجود کا کوئی ٹکڑا کھٹ سے نیچے گرگیا ہو. اس قسم کے جملوں نے تو افسانے کی تاثرانگیزی میں کمال ہی کر دکھایا ہے.

        انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کر قدموں میں آن گری ہے۔ وہ سہم گئے اور مجرم کی طرح گردن جھکا لی۔ یہ کسی کے نام کی پلیٹ تھی۔ مگر ایک حرف بھی صاف نہیں۔ سب کچھ مٹ چکا ہے۔

       🔸صرف نام کی پلیٹ کے حروف نہیں مٹے بلکہ ایک دور دھندلا گیا. ایک تہذیب کے نمایاں خطوط دھندلے ہوگئے اور پھر داد دینی پڑی طارق چھتاری صاحب کے بیانیہ کی. ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے لفظوں کی انگلیوں سے ہمارے محسوسات سے کھیل رہے ہیں. کبھی کوئی منظر سامنے کررہے ہیں تو کبھی مکالموں کی چبھن کا احساس دلا رہے ہیں. کبھی جذبات نگاری کا جادو جگا رہے ہیں. دیکھیں:

       "ان کے جسم میں سنسناہٹ سی ہونے لگی۔ لاغر ٹانگیں جو ابھی ابھی کانپ رہی تھیں ، پیاسے ہرن کی کلانچیں مارنے کو بے تاب ہو اٹھیں۔"

       "وہ بھاگ رہے ہیں۔ نہیں آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔ یا رینگ رہے ہیں یا پھر کھڑے کھڑے ہی ................یہ تو معلوم نہیں مگر وہ اپنے گھر سے کئی میل دور سرلا کے گھر کے بہت قریب آن پہنچے ہیں۔"

      🔸کیا کرب بھر دیا ہے سارے افسانے میں طارق چھتاری صاحب کے ظالم قلم نے. ذرا سا دم تو لینے دیتے جناب. آپ تو اپنے قلم کو مہارت کے ساتھ چلائے چلے جارہے ہیں اور ایک حساس قاری کو سانس لینے تک کی فرصت نہیں دے رہے ہیں. کمال کے فنکار ہیں آپ بھی.

     " سرلا سے اس  کی ماں کا نام پوچھ ہی لیں گے۔

سرلا کو اپنی ماں کا نام یاد ہو گا ؟ کیوں نہیں ...........کوئی ماں کا نام بھی بھولتا ہے کیا۔

’’ پاروتی دیوی.......‘‘ ان کی ماں کا نام پاروتی دیوی تھا۔ انھیں پچھتر سال کی عمر میں بھی اپنی ماں کا نام یاد ہے۔"

        🔸یہ مزید ظلم ہے. بےچارے پچھتر برس کے بوڑھے کو اس عمر میں بھی اپنی ماں کا نام یاد ہے مگر بیوی کا نام اس کے حافظے سے یوں صاف ہوگیا ہے جیسے اس کا نام واقعی تھا ہی نہیں.

       " کیسے اپنی ماں کا نام بھولی ہو گی؟ کیدار ناتھ کا دل اندر سے اتنا خوش ہو رہا تھا کہ ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔"

      🔸امید کی ایک کرن تھی سرلا جو اپنی ماں کا نام اپنے باپ کو بتا سکتی تھی. یہی سبب ہے کہ کیدار ناتھ خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں.

      "بوڑھے آسمان کی گود سے نئے سورج کا گولا جھانک رہا ہے۔"

     🔸اس افسانے سے پہلے میں نے آج تک ایسا بیان نہیں پڑھا ہے. کیا زبردست بیان ہے! باپ کی طرف سے شفقت سے بھرپور بیان اور بیٹی کی طرف سے باپ کے لئے محبت بھرا بیان. واہ طارق صاحب واہ. شاید یہ آپ ہی کرسکتے تھے.

    "کیدار ناتھ کے پنجوں کی انگلیاں سرد ہو کر سُن پڑچکی ہیں ، جیسے ان میں گوشت ہے ہی نہیں اور وہ اندر سے بالکل خالی ، بالکل کھوکھلی ہو چکی ہیں ، پرندے ان کے سر پر منڈلاتے منڈلاتے سرلا کے مکان کے اوپر جا بیٹھتے ہیں اور وہ سرلا کے مکان کے باہر کھڑے کھڑے تھک چکے ہیں۔’’ میں یہاں کھڑا ہوں۔ آتے جاتے لوگ دیکھ کر کیا سوچیں گے۔"

   🔸طارق صاحب! مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے آج میں داد دیتے دیتے تھک جاؤں گا. آج مجھے یقین ہوچلا ہے کہ واقعی کرشن چندر کو افسانہ خوانی پر شعرا کی طرح داد ملا کرتی تھی.

    " اب تو دن چڑھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ سرلا سو کر اٹھ گئی ہو گی۔ اندر چلنا چاہئے۔"

      "نام کی پلیٹ اکھاڑ کر ...............’’ کھٹ سے کوئی چیز گری ، انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کو قدموں میں آن گری ہے۔دھندلے دھندلے حرف ابھرنے لگے اور ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔"

        🔸اوہ.....ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا. سرلا کے گھر کی نام کی پلیٹ نیچے آگری. وہ اب وہاں نہیں رہتی یا رہتی بھی ہے تو اب اس کی کوئی شناخت نہیں ہے. شناخت اگر رہی بھی ہوگی تو اسے زبردستی مٹا دیا گیا ہے اور نیم پلیٹ اکھڑ کر کیدار ناتھ کے قدموں میں آپڑی ہے. دھندلے دھندلے حروف ابھرنے لگے ہیں مگر پھر آنکھوں میں مارے ضعف کے اندھیرا چھا گیا ہے.

         "کیدار ناتھ نے اپنے جسم پر چڑھے گرم کپڑوں کو اس طرح ٹٹولا  جیسے وہ ڈھونڈ رہے ہوں کہ کپڑوں کے اندر جسم ہے بھی یا نہیں۔" 

         🔸انسانی جسم کے کمزور و ناتواں ہونے کا فنکارانہ بیان طارق چھتاری صاحب کے فن کا اعتراف چاہتا ہے.

         "گھر لوٹنے کے لئے بس پکڑی۔اب ان کے جسم کی ساری رگیں ڈھیلی پڑ چکی تھیں۔"

       🔸آخری امید اور آخری سہارے کو کھو دینے کے بعد انسان کی حالت یقیناُ ایسی ہی ہوجاتی ہوگی جیسی کیدار ناتھ کی ہوئی تھی.

       "اندھیرا گہرا ہو تا جا رہا تھا ، کیدار ناتھ کو محسوس ہوا کہ دیواریں ان کی طرف کھسکتی چلی آ رہی ہیں۔"

       🔸ان دو جملوں میں کیدارناتھ کی بے بسی کا کتنا اچھا اظہار کیا گیا ہے! 

     سارا افسانہ بظاہر ایک شخص کی یادداشت سے پہلے بیوی اور پھر رفتہ رفتہ سارے ناموں کے مٹ جانے کا المیہ بن کر پیش ہوا ہے.

     کردار نگاری کمال کی ہے. جذبات نگاری کا جواب نہیں. مناظر تو یوں بیان ہوئے ہیں جیسے پڑھنے والا انھیں برسوں سے جانتا ہو اور پھر جگہ جگہ طارق چھتاری صاحب کے فنکارانہ اظہار نے سارے افسانے کو عجیب سے درد، کسک اور تجسس سے بھر دیا ہے. یہ ہوتا ہے افسانہ اور یہ ہوتی ہے افسانہ نگاری.

         میرے احباب جانتے ہیں کہ پہلے میں بہت ڈینگیں مارا کرتا تھا کہ تخلیق کار مقدّم ہے. نقاد تو بیچارہ ایک طفیلی جاندار ہے. جب تک تخلیق زندہ رہے گی وہ جونک بن کر اس سے چمٹا رہے گا اور خود بھی زندہ رہنے کی کوشش کرے گا لیکن وہ تخلیق کار مجھ جیسا کمزور تخلیق کار نہیں ہوسکتا بلکہ طارق چھتاری صاحب جیسا فنکار ہوسکتا ہے.

Wednesday, January 25, 2023

تجزیہ : "کڑوا تیل" پر گفتگو. افسانہ نگار: غضنفر

 کڑوا تیل

افسانہ نگار: غضنفر

گفتگو: طاہر انجم صدیقی( مالیگاؤں) 



          جب"کڑوا تیل" پڑھنا شروع کیا تو میں سوچ میں پڑگیا کہ"غضنفرصاحب کا نام اردو ادب کا اتنا بڑا نام ہے اور وہ افسانے کے نام پر بچوں کی کہانیوں کی سی باتیں افسانے کے نام پر کیوں پیش کررہے ہیں؟ میں نے اپنے ادبی بچپن سے جس نام کو اردو افسانے کے حوالے سے دیکھا ہے، اس نام سے کولہو کے بیل کی کہانی کیوں پیش کی گئی ہے؟
           مگر جب افسانے کا مطالعہ پورا ہوگیا تومجھے اپنے اندر سے ایک آواز سی اٹھتی محسوس ہوئی ۔
"طاہر! تم ابھی بچّے ہ ہو۔ شاید تمہارے ادبی دودھ کے دانت ابھی ابھی ٹوٹے ہیں !" 
         اور مجھے کہنا پڑا کہ کیا کہانی بُنی ہے جناب غضنفر نے!! 
         بیانیہ چست، جزویات نگاری کمال کی، مکالمے بالکل فطری، منظر نگاری بہترین، جذبات نگاری کا بھی جواب نہیں۔ تکنیک سادہ بیانیہ کی سی لیکن فلیش بیک اور فلیش فارورڈ دونوں عوامل ساتھ لئے ہوئے۔ کردار نگاری ایسی کہ داد دینی ہی پڑے اور کلائمکس ایسا کہ افسانہ ختم ہوا تو کولہو کے بیل سے ہمدردی کے جذبات دل کے اندر زندہ ملے۔ 
         جب غضنفر صاحب "کڑواتیل" میں ایک مکالمہ لکھتے ہیں :
         " اس گھانی کے بعد آپ کی باری آئے گی۔"
تو وہ افسانے کے راوی کو بھی اس ظلم میں شریک کر لیتے ہیں جو کولہو سے جتے بیل پر کیا جا رہا ہے اورافسانے کا ذیل کا جملہ پوری طاقت کے ساتھ ظلم کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے:
       "کولہو کسی پائیدار لکڑی کا بنا ہوا تھا۔"
افسانے میں ظلم و جبر کے تسلسل کی طرف بھی واضح اشارہ موجود ہے۔دیکھیں:
          "بیل جس دائرے میں گھوم رہا تھا اس دائرے کا فرش دبا ہوا تھا ۔کمرے کے باقی فرش کے مقابلے میں اس حصے کی زمین کی سطح نیچی ہو گئی تھی ۔"
          افسانے میں کولہو کے دائرے کی زمین کا نیچے دب جانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بیل کو سونٹے کے جبر سےاس حصے پر اتنی مرتبہ چلنے پر مجبور کیا گیا ہے کہ ہے کہ وہ زمین باقی زمینوں کے مقابلے میں نیچے دب گئی ہے۔
          یہاں پر ایک خاص بات کی طرف دھیان جاتا ہے کہ غضنفر صاحب کے پاس جزویات نگاری کا فن بھی کمال کا ہے۔ وہ جزویات نگاری کے لئے بہت سارے الفاظ خرچ نہیں کرتے بلکہ کم سے کم لفظوں میں اپنی بات بھی کہہ جاتے ہیں ۔ اس بات کا ثبوت "کڑوا تیل " کے ان مقامات سے یکجا کیا جا سکتا ہے جہاں وہ کولہو، کولہو کے بیل ، کولہو سےنکلنے والے تیل ، کولہو کے لئے تیار کئے جانے والے نوجوان بیل اور کولہو کے باہر کی دنیا کی تفصیلات بیان کرتے ہیں۔تفصیلات کیا ہیں ؟ ایسا لگتا ہے جیسے وہ قاری کے ذہن کے اسکرین پر لفظوں سےمتحرک تصاویر بناتے چلے جارہے ہیں۔ ایک مثال دیکھیں:
          "کولہو کسی پائیدار لکڑی کا بنا تھا اور کمرے کے بیچوں بیچ کچے فرش میں بڑی کاری گری اورمضبوطی کے ساتھ گڑا تھا۔ کولہو کی پکی ہوئی پائدار لکڑی تیل پی کر اور بھی پک گئی تھی اور کسی سیاہی آمیز سرخ پتھر کی طرح دمک رہی تھی۔
          اس کا منہ اوکھلی کی طرح کھلا ہوا تھا۔منہ کے اندر سے اوپر کی جانب موسل کی مانند ایک گول مٹول ڈندا نکلا ہوا تھا جس کے اوپری سرے سے جوئے کا ایک سرا جڑا تھا۔جوئے کا دوسرا سرا بیل کے کندھے سے بندھا تھا جسے بیل کھینچتا ہوا ایک دائرے میں گھوم رہا تھا۔
بیل جس دائرے میں گھوم رہا تھا اس دائرے کا فرش دبا ہوا تھا ۔کمرے کے باقی فرش کے مقابلے میں اس حصے کی زمین کی سطح نیچی ہو گئی تھی ۔"
          میں نے خود کبھی کولہو اور اس میں جتے بیل کو گھومتے نہیں دیکھا لیکن افسانے کے اس حصے کو پڑھ لینے کے بعد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کولہو اب میرے لئے کسی اجنبی چیز کا نام بھی نہیں ہے ۔ یہ غضنفر صاحب کی جزویات نگاری کا کمال ہے۔اس قسم کی خوبصورت جزویات نگاری سے افسانہ "کڑواتیل"سجا ہوا ہے جس پر سر دھنتے ہی بنتا ہے اور غضنفر صاحب کے فن کے لئے بیساختہ داددینے کو دل چاہتا ہے.
          "کڑواتیل" میں ایک جگہ لکھا ہے:
          "دانے ڈنڈے سے دب کر چپٹے ہوتے جارہے تھے۔"
          غضنفر صاحب یہاں صرف دانوں کو ہی کچلتا ہوا نہیں بتانا چاہتے ہیں بلکہ یہاں تو وہ بیل کی آزادی، بیل کے حقوق، بیل کی خواہشات کے کچلے جانے کی تڑپ ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور ان دبے کچلے دانوں سے بوند بوند ٹپکنے والا تیل اُس مظلوم بیل سے اپنا مفاد کشید کرلینے والوں کی طرف واضح کرتا ہے۔
          "کڑوا تیل"کا راوی جب کہانی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :
          "لہراتی ہوئی پٹیاں میری آنکھوں پر بندھ گئیں۔"
تو اس کا یہ بیان صرف بیان نہیں ہے بلکہ مظلوم سےایک قسم کی ہمدردی کا احساس ہے۔ یہ احساس افسانے میں کئی بہانوں سے اجاگر کیا ہے۔ راوی کا بیل کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کا سبب پوچھنا، شاہ جی سے تیل نکلنے کے بعد بچ رہنے والے کَھل کو بیل کو کھِلانے کے بارے میں پوچھنا اور پھر بیل کی کمزوری کا اظہار کرکے اسے ریٹائرڈ کرنے کو کہنا افسانے میں اسی ہمدردی کا اظہار ہے جس کے لئے افسانہ بُنا گیا ہے۔
            یہ تو ہوا اس سادی سی کہانی کا معاملہ جو کولہو کے بیل کو مرکز کرکے لکھی ہے۔ اگر ہم اس سے کوئی اور مطلب اخذ نہ بھی کریں تب بھی غضنفر صاحب کے فن کی داد دینی ہی پڑے گی لیکن جب یہی کہانی اپنی علامات کو آشکار کرتی ہے تو پھر دل کہتا ہے شاید اسی لئے غضنفر صاحب کا نام اردو فکشن کے لئے ایک معیار کا نام ہے۔
            "کڑوا تیل" کا مرکزی کردار بیل لاغر ہو چکا ہے۔اس کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ ناک میں نکیل پڑی ہے۔ منہ پر جاب چڑھا ہے۔ بیل جوئے سے بندھا کولہو کے دائرے میں گھوم رہا ہے۔ کبھی اس کا پیر لڑکھڑا جائے تو شاہ جی کا سونٹا لہراتا ہوا سڑاک سڑاک اس کی پیٹھ پر آپڑتا ہے۔ بیل اپنی تلملاہٹ اور لڑکھڑاہٹ دونوں پر تیزی سے قابو پاکر اسی مخصوص دائرے میں گھومنے لگتا ہے۔
            اس افسانے کوپڑھنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ کولہو کا بیل خود میں ہوں جس کو استعمال کرتے ہوئے میرے اپنے خاندان کے لوگ زندگی سے عرق کشید رہے ہیں اور میری آنکھوں پر فرض کی پٹیاں کسی ہوئی ہیں۔ میرے منہ پر ادب و احترام کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ میری ناک میں روایات کی نکیل پڑی ہوئی ہے اور میں سماج میں ہونے والی بدنامی کے سونٹے کی "سڑاک سڑاک" سے خوفزدہ ہو کر کولہو کے بیل کی طرح مخصوص دائرے میں گھوم رہا ہوں جس کے فرش پر کسی چاک کو رکھ کر طاقت کے ساتھ نیچے دبا دیا گیا ہو۔ یعنی گھر سے فیکٹری اور فیکٹری سے گھر۔
            پھر مجھے محسوس ہوا کہ نہیں نہیں یہ تو میرا سیٹھ ہے جو زندگی کا عرق نکالنے کے لئے اپنے کولہو میں مجھے جوتے ہوئے ہے۔ میری آنکھوں پر ضرورت کی پٹی بندھی ہے۔ منہ پر مصلحت کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ ناک میں خاندانی  روایات کی نکیل پڑی ہوئی ہے۔ مستقبل کی فکر کے سونٹے سڑاک سڑاک" میری پیٹھ پر پڑتے ہیں اور میں لوہے کی مشینوں کے گرد ضروریاتِ زندگی کا تیل کشید کرنے کے لئے گھوم رہا ہوں۔ اس تیل سے تو مجھے ایک بوند بھی نہیں ملنے والی۔ نہ ہی بچ رہنے والی کَھل میرے حصے میں آنے والی ہے۔
            پھر دل نے کہا نہیں ایسا بھی نہیں بلکہ یہ تو ہماری قوم کے ملّا ہیں جو اپنے کولہو میں ہمیں جوت کر زندگی سے عرق کشید کرنا چاہتے ہیں اور ہم اعتقاد کی پٹی آنکھوں پر باندھے، احترام کا جاب منہ پر چڑھائے، جہنم کے عذاب کے خوف کی نکیل ناک میں ڈالے، ان کی خانقاہوں سے جتے ان کے بتائے گئے گھیروں میں گھوم رہے ہیں۔ ہمارے نذرانوں کا تیل کشید ہو رہا ہے۔ہمارے پیٹھ پربددعاؤں کے سونٹے لہرا رہے ہیں اور ہم گھومتے جارہے ہیں۔
            پھر محسوس ہوا کہ نہیں یہ تو ہمارے سیاسی لیڈران یا حکمراں ہیں جو اپنے کولہو میں ہماری پوری قوم کو جوتے ہوئے ہیں۔ قوم کی آنکھوں پر ڈر اور خوف کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ منہ پر نقصان کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ ناک میں سرکاری فیصلوں کی نکیل ہے اور ہم ان کی گندی سیاست کے کولہو سے جتےاس دائرے میں گھوم رہے ہیں جسے انہوں نے اپنے سیاسی مفاد کے لئے کھینچ رکھا ہے۔ اگر ہم ذرا سا بھی ڈگمگاتے ہیں تو ہماری پیٹھ پر ان کی چالبازیوں کے سونٹے قہر بن کر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
            پھر محسوس ہوا کہ غضنفر صاحب نے اس افسانے میں محض ایک کولہو کے بیل کی کہانی نہیں بیان کی ہے بلکہ یہ کہانی تو اقوامِ متحدہ کی کہانی ہے جو اپنے مفادات کا عرق کشید کرنے کے لئے دنیا کے زیادہ تر ممالک کو اپنے کولہو میں جوتے ہوئے ہے۔ ان کی آنکھوں پر دھمکیوں کی پٹیاں بندھی ہوئی ہے۔ ان کے منہ پر اقتصادیات کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ ناک میں ملک کی سلامتی کی نکیل پڑی ہوئی ہے۔ منہ پر قرضہ جات کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ مستقبل کی فکر سے بندھے تمام ممالک اقوامِ متحدہ کے کولہو سے جتے ہوئے ہیں اور خوب گاڑھا گاڑھا تیل کشید ہوکر ڈالرس کی قدر میں اضافہ کرتا جارہا ہے۔ کوئی ملک اگر عراق کی طرح بدکتا ہے تو پابندیوں کے سونٹے سڑاک سڑاک اس کی پیٹھ پر پڑنے لگتے ہیں۔ افغانستان کی طرح کولہو کے دائرے سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو اس کی پیٹھ پر افواج کی گنیں، میزائل اور بم سونٹےبن کر سڑاک سڑاک  پڑنے لگتے ہیں اور کولہو سے جتے ممالک کولہو کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ خواہ انھیں کھَل ملے یا نہ ملے۔
          اس لئے نہ ہی میں اس ظلم کے خلاف بغاوت کا اعلان کرکے اپنی مرضی کے مطابق کولہو سے باہر کی آزاد فضا میں سانس لینا چاہتا ہوں۔ نہ ہی مزدوری کے کولہو سے رسی تڑا کر کچھ اور کرنا چاہتا ہوں۔ نہ میری قوم کٹھ ملاؤں کے کولہو سے خود کو آزاد کرانا چاہتی ہے۔ نہ ہم مختلف سیاسی مسائل کی نکیل سے خود کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ نہ ہی دنیا کے ممالک اقوامِ متحدہ کی دادا گیری کی نکیل سے آزاد ہوکر کھلی فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں۔
           سبھی سر جھکائے کولہو کے بیل کی طرح مظلوم بنے گھوم رہے ہیں۔ آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ منہ پر جاب چڑھا ہوا ہے۔ ناک میں نکیل ہے۔ کوئی جو ہم پر ترس کھا رہا ہے۔ ہم سے ہمدردی رکھتا ہےوہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپارہا ہے کیونکہ وہ بھی ضرورت کے کولہو سے بندھا ہوا ہے اور شاہ جی سونٹے پہ سونٹا مارے جارہے ہیں۔ تیل نکلتا جارہا ہے۔ بھلےہی نکلنے والاتیل ہمارے درد اور تکلیف کی بدولت ہمیں"کڑوا تیل" محسوس ہورہا ہو لیکن وہ شاہ جی کے لئے تو بڑا ہی مفید ہے۔
           غضنفر صاحب کی اس سادہ سی کہانی کی علامات کی پرتیں ہر اس ماحول میں کُھلیں گی جہاں کسی مظلوم پر ظلم کرکے فائدہ کشید کیا جارہا ہو اور یہ علامتی کہانی کی خوبی ہی ہے کہ اس کا ایک تاثر قائم نہیں ہوتا۔ الگ الگ قارئین پر ایک ہی علامتی کہانی کا الگ الگ تاثر قائم ہوتا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ افسانے کا ذہین قاری بسا اوقات افسانے میں برتی گئی علامتوں کے پروں سے مفاہیم کی ان سرحدوں کو بھی پھلانگ جاتا ہے جو خود افسانہ نگار کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں ۔حالانکہ کہتے ہیں کہ افسانہ وحدتِ تاثر کی زمین پر اپنی بنیادیں استوار کرتا ہے لیکن افسانے میں برتی گئیں علامات الگ الگ قارئین کو ان کے مزاج و مطالعہ و مشاہدہ و نظریات کی بنیادوں پر جدا جدا مفاہیم ماخوذ کر لینے کی آزادی عطا کرتی ہیں۔ اسے کولہو کے بیل کی طرح محض ایک ہی معنی سے جوتے نہیں رکھنا چاہتیں۔
حالانکہ بعض علامتی کہانیاں اتنی زیادہ الجھی ہوئی ہوتیں ہیں کہ قاری عجیب قسم کی الجھنوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ معنی کا کوئی در اس پر کھُلتا ہی نہیں ہے جبکہ غضنفر صاحب کے اس افسانے کی کہانی میں علامتیں اتنی واضح ہیں کہ قاری ایک خاص معنی نکال ہی سکتا ہے۔یہ کہانی اس کے لئے معمہ بننے کی بجائےایک اچھی کہانی کے طور پر یاد بھی رہے گی۔
٭ختم شد٭

Sunday, January 15, 2023

تجزیہ: سنگھاردان پر گفتگو


تجزیہ

سنگھار دان

افسانہ نگار: شموئل احمد

گفتگو: طاہرانجم صدیقی (مالیگاؤں)




🔸شموئل احمد صاحب کے "سنگھار دان" کو تجزیہ کے لیے  پڑھنا، میرے لئے اس افسانے کی دوسری قرأت تھی. افسانے کا آغاز شموئل احمد صاحب نے جس طریقے سے کیا ہے افسانے کی ابتدا کا یہ آرٹ بھی خوب ہے، اس آرٹ میں کہانی کا آغاز درمیان سے کیا جاتا ہے اور ایک ایسی کشمکش بیان کی جاتی ہے کہ قاری انجام معلوم کرنے کے لئے رک جاتا ہے اور پھر فنکار کی کہانی کے بہاؤ کے ساتھ روانی سے بہتا چلاجاتاہے.
شموئل احمد صاحب نے بھی اسی آرٹ کا استعمال کرکے قاری کو باندھ لینے کا کام آغاز میں ہی کرلیا ہے.
🔸دوسرے پیراگراف میں شموئل احمد صاحب نے نہایت ہی آسانی کے ساتھ ایک پیشہ ور عورت کے لچھن کو برجموہن کی بیٹیوں میں منتقل ہوتے دکھایا ہے لیکن ایک خاص احتیاط برتی ہے کہ وہ فحش نگاری کا ارتکاب نہ کرسکیں. بس ایک بات جو مجھے کھٹک رہی ہے وہ ایک طوائف اور ویشیا کا درمیانی فرق ہے. شموئل صاحب نے افسانے کی ابتدا سے بھی پہلے یہ جملہ افسانے کے ماتھے پر سجایا ہے:
*فساد میں رنڈیاں بھی لوٹی گئی تھیں....*
جبکہ برجموہن کی بیٹیوں کے جو لچھن دکھائے بیان کئے گئے ہیں وہ کسی ویشیا کے ہیں. حالانکہ شموئل احمد صاحب نے سکنگھاردان کو نسیم جان نامی طوائف کا بتایا ہے.
اگرمیں اس تضاد کو سمجھنے میں غلطی کررہاہوں تو مجھے سمجھایا جائے.
افسانے میں ایک جگہ لکھا ہے:
*یہ خوف برجموہن کے دل میں اُسی دن گھر کر گیا تھا جس دن اس نے نسیم جان کا سنگھاردان لوٹا تھا۔*   
اس حوالے کی موجودگی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب برجموہن کے دل میں سنگھاردان کو لوٹنے والے دن ہی یہ خوف تھا تو پھر وہ اسے گھر لے کر ہی کیوں گیا؟ اور گھر لے بھی گیا تو اپنے بیڈ روم میں رکھا.
اس عمل کا کوئی جواز افسانے میں موجود نہیں ہے. جس چیز سے آدمی کو خوف ہو وہ بھلا اسے اپنے گھر کیوں لے جائے گا؟ اگر خوفزدہ ہونے کے بعد بھی لے گیا تو اس کے اس عمل کے پیچھے ایک بھرپور جواز ہونا چاہئے مگر سنگھار دان کو گھر لے جانے کے معاملے میں افسانے کی داخلی منطق خاموش ہے.
🔸ایک جگہ برجموہن کے لات مارنے پر جب نسیم جان زمین پر گر کر دہری ہوجاتی تب شموئل صاحب نے لکھا ہے:
*اس کے بلاوز کے بٹن کھل گئے اور چھاتیاں جھونے لگیں۔*
حالانکہ شموئل احمد صاحب چاہتے تو اس پیراگراف میں نسیم جان کے بلاؤز کا بٹن کھلنے کے بعد "بو" والی منظر نگاری کرسکتے تھے مگر انہوں نے اپنے قلم پر گرفت مضبوط رکھی اور اسے پھسلنے نہیں دیا.
آگے چل کر شموئل صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے:
*برجموہن جب اتر رہا تھا تو یہ سوچ کر اس کو لذت ملی کہ سنگھاردان لوٹ کر اس نے نسیم جان کو گویا اس کے خاندانی اثاثے سے محروم کر دیا ہے۔*
🔸جس طرف شموئل احمد صاحب نے اس جگہ اشارہ کیا ہے وہ ذہنیت بڑی زہریلی ہوتی ہے اور فسادات میں یہی ذہنیت بہت نقصان کرواتی ہے. اور ہو سکتا ہے کہ اس ذہنیت کو بدلنے کے لئے ہی شموئل صاحب نے "سنگھار دان" کا تانا بانا بُنا ہو.
اس بات کا ثبوت افسانے سے ہی یوں ملتا ہے:
*برجموہن کو کو لگا کہ آگ زنی اور لوٹ مار میں ملوث دوسرے بلوائی بھی یقینا احساس کی اس لذت سے گزر رہے ہوں گے کہ ایک فرقہ کو اس کی وراثت سے محروم کر دینے کی سازش میں وہ پیش پیش ہیں۔*
🔸شموئل احمد صاحب نے مذہبی منافرت کے سبب انسان کے رذیل بن جانے کا المیہ پیش کرتے ہوئے کتنی آسانی سے ثابت کردیا ہے کہ یہ منافرت جب انسان کے اندر سرایت کرجاتی ہے تو انسان پوری طرح سے شیطنت پر اتر آتا ہے. وہ یہ تک نہیں دیکھتا کہ وہ جس کا نقصان کررہا ہے وہ کون ہے؟ اسی لئے برجموہن نے بھی نسیم جان جیسی طوائف کو بھی نہیں دیکھا اور اس کا سنگھار دان اس کے احتجاج کے باوجود اٹھا لایا جس کا خمیازہ اسے آگے چل کر بھگتنا پڑا.
🔸اس افسانے کو پڑھنے کے بعد نہ جانے کیوں مجھے سعادت حسن منٹو کا "خوشیا" اور ٹھنڈاگوشت یاد آرہا ہے. شاید ان دونوں افسانوں کے حوالے سے میں سنگھار دان پر مزید کچھ بات کرسکوں.
          ٹھنڈا گوشت" کا ایسر سنگھ بھی ایک مجرمانہ عمل کا مرتکب ہوتاہے. پاداش میں بلونت کور کے سامنے پتّے پھینٹے تک ہی محدود رہتا ہے. پتّے پھینکنے سے معذور ہوجاتا ہے. وہی حال سنگھار دان کے برجموہن کا دکھائی دیتا ہے کہ وہ اسی احساس کے نفسیاتی اثرات کے سبب "خوشیا" بن جاتا ہے اور قاری صاف طور محسوس کرتا ہے کہ اس کی بیٹیاں اس کے وجود کو شاید "خوشیا"جیسا ہی سمجھنے لگی ہیں. تبھی تو اس کے عکس کے آئینے میں نظر آنے کے بعد بھی اس کی موجودگی کا کوئی احساس نہیں کرتیں. میری ان باتوں سے قطعی یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ شموئل صاحب کا افسانہ منٹو کے افسانوں سے میل کھاتا ہے بلکہ میں تو صاف. طورپر اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ سنگھاردان ایک الگ کہانی ہے جس کا اپنا الگ رنگ ہے، الگ ٹریٹمنٹ ہے، الگ موضوع ہے اور الگ ہی تاثر ہے. اس افسانے میں انسان کی سفاکی پر چوٹ کی گئی ہے اور برے کام کو برے انجام تک پہنچنے کا اظہار کیا گیا ہے. 
           افسانہ بڑا رواں ہے. افسانے کی سطور میں شموئل صاحب نے ایک ایسا بہاؤ رکھ دیا ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے. افسانے کی زبان پیاری ہے اور افسانے کا ہر جزو مل کر ایک کُل بن جانے کے بعد نہایت متاثر کن بن گیا ہے. نیز .کلائمکس تو واقعی قابلِ تعریف ہے



منشی پریم چند کے "پوس کی رات" پر گفتگو






Monday, January 09, 2023

تجزیہ: پوس کی رات

تجزیہ:    پوس کی رات

 افسانہ نگار:  پریم چند

 گفتگو: طاہرانجم صدیقی

 



            منشی پریم چند کا "پوس کی رات" پہلے بھی پڑھ چکا تھا لیکن تجزیے کے لئے پڑھنے کا ایک الگ ہی موڈ ہوتا ہے. پڑھتا گیا اور لکھتا گیا. لکھتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ میں منشی پریم چند جی سے مخاطب ہوں. مجھے اس انداز میں بڑی اپنائیت سی لگی. اگر کسی کی طبیعت پر گراں ہو تو میں صدقِ دل سے معذرت خواہ ہوں. دیکھیں:

منشی جی! افسانے کے آغاز میں آپ نے ہلکو کی بیوی کے لئے لکھا ہے:

"منی بہو"

           ہم بھلا کیوں اسے منی بہو مان لیں؟ وہ تو ہمارے لئے ہلکو کی بیوی ہے نا! اور ہلکو کے والدین کا تو کچھ آتا پتہ بھی نہیں ہے افسانے میں اس لئے یہ "منی بہو" والا انداز کچھ عجیب سا لگا ہے مجھے. 

  پھر آپ نے ایک جگہ ہلکو کے بھاری قدموں سے آگے بڑھنے کے تذکرے کے ساتھ قوسین کا یوں استعمال کیا ہے:

*(جو اس کےنام کو غلط ثابت کر رہا تھا)*

🔸منشی جی! آپ کو قوسین کے اس جملے کی ضرورت آپ کے زمانے میں پڑی ہوگی لیکن ہمارے زمانے میں اس جملے پر کم از کم میں تو اعتراض کر ہی سکتا ہوں. آخر آپ کیوں مزاح پیدا کرنا چاہ رہے ہیں اس کے توسط سے؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس طرح آپ افسانے کے اس مقام کے تاثر کو زائل کررہے ہیں؟

آپ کی کہانی آگے بڑھتی ہے اور آپ ہلکو کی زبان سے یہ ایک جملہ کہلواتے ہیں:

*ہلکورنجیدہ ہو کر بولا، ’’تو کیا گالیاں کھاؤں۔‘‘*

🔸یہاں بھی آپ کے فن کی داد دینی پڑے گی کہ ایک چھوٹے سے مکالمے میں آپ نے نہ جانے کتنی جھڑکیاں اور گالیاں مخفی کردی ہیں. ہلکو کا رنجیدہ ہو کر گالیوں کا تذکرہ کرنا اس بات کا غماز ہے کہ وہ بہت ساری گالیوں اور جھڑکیوں کا سامنا کرچکا ہے.

ہلکو اور منی کی مکالماتی جھڑپ کے بعد منی کو مجبوراً آگے بڑھ کر روپیہ اٹھاتے ہوئے آپ نے یوں دکھایا ہے:

*اس نے طاق پر سے روپے اٹھائے اور لاکر ہلکو کے ہاتھ پر رکھ دیے۔*

🔸 منشی جی! جن کے یہاں پیسوں کی تنگی ہو کہ تین روپے ادا کرنے میں بھی ان کی کمر ٹوٹ جاتی ہو وہ ان تین روپیوں کو اس طرح طاق پر کھلا نہیں رکھیں گے. کہیں چھپاکر، کہیں اڑس کر، یا پھر کسی ڈبے وغیرہ میں بند کرکے رکھیں گے. شاید آپ کے پاس تین روپیوں کی اتنی اہمیت نہ رہی ہو لیکن ہلکو اور اس کی بیوی کے لئے وہ تین روپے بڑے اہم رہے ہوں گے. اس لئے ان کا اس طرح طاق پر رکھ دینا ذرا غیر فطری سا لگتا ہے لیکن اس کے فوراً بعد ہی آپ نے کیا انداز اختیار کیا ہے:

*پھر بولی، ’’تم اب کی کھیتی چھوڑ دو۔ مزدوری میں سکھ سے ایک روٹی تو کھانے کو ملے گی۔ کسی کی دھونس تو نہ رہے گی اچھی کھیتی ہے مزدوری کر کے لاؤ وہ بھی اس میں جھونک دو۔ اس پر سے دھونس۔‘‘*

 🔸مُنّی کی زبان سے اس قسم کے فطری مکالمے ادا کروانے کا فن بھی داد طلب ہے. آپ نے حقیقت نگاری سے ہمیں آشنا کرکے ہم پر احسان کیا ہے. ہم آپ کے شکر گزار ہیں. 

اتنا ہی نہیں بلکہ آپ نے یہاں جس فنکاری کا اظہار کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے:

*ہلکو نےروپے لیے اور اسی طرح باہر چلا۔ معلوم ہوتا تھا وہ اپنا کلیجہ نکال کر دینے جارہا ہے۔ اس نے ایک ایک پیسہ کاٹ کر تین روپے کمبل کے لیے جمع کیے تھے۔ وہ آج نکلے جارہے ہیں۔ ایک ایک قدم کے ساتھ اس کا دماغ اپنی ناداری کے بوجھ سے دبا جارہاتھا۔*

🔸درون ذات جھانکنے اور جذبات کو الفاظ کا جامہ عطا کرنے کا یہ ہنر بھی آپ کے پاس ہے منشی جی! بہت خوب! کتنی خوبصورتی کے ساتھ آپ نے ہلکو کی غربت، محنت و مشقت سے تین روپے جمع کرنے اور کمبل خرید کر پوس کی سرد راتوں میں کچھ گرمی کا انتظام کرنے کے جتن کو بیان کیا ہے آپ نے. منشی جی! قابلِ تعریف ہے آپ کا یہ فن جسے آپ نے ہم تک پہنچایا ہے. 

اس کے بعد کا اقتباس بھی داد طلب ہے. دیکھیں:

*پوس کی اندھیری رات۔ آسمان پر تارے بھی ٹھٹھرتے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ ہلکو اپنےکھیت کے کنارے اوکھ کے پتوں کی ایک چھتری کےنیچے بانس کے کھٹولے پر اپنی پرانی گاڑھے کی چادر اوڑھے ہوئےکانپ رہا تھا۔ کھٹولے کے نیچے ا س کا ساتھی کتا ’’جبرا‘‘ پیٹ میں منھ ڈالے سردی سے کوں کوں کررہا تھا۔ دو میں سے ایک کو بھی نیند نہ آتی تھی۔*

🔸 منشی جی! آپ نے اس منظر نگاری کے ذریعے کسی آرٹسٹ کو وہ مواد مہیا کردیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس اقتباس کے ذریعے ایک خوبصورت پینٹنگ بنا ڈالے. اچھا لگا افسانے کا یہ حصہ پڑھ کر. 

اور اس حصے میں تو آپ نے کمال کا ہنر سکھادیا ہے ہمیں. آپ خود دیکھیں:

*ہلکو نے گھٹنوں کو گردن میں چمٹاتے ہوئے کہا۔ ’’کیوں جبرا جاڑا لگتا ہے کہا تو تھا گھر میں پیال پر لیٹ رہ۔ تو یہاں کیا لینے آیا تھا۔ اب کھا سردی، میں کیا کروں۔ جانتا تھا۔ میں حلوہ پوری کھانے آرہا ہوں۔ دوڑتے ہوئے آگے چلے آئے۔ اب روؤ اپنی نانی کے نام کو۔‘‘ جبرانے لیٹے ہوئے دم ہلائی اور ایک انگڑائی لے کر چپ ہو گیا شاید وہ یہ سمجھ گیا تھا کہ اس کی کوں، کوں کی آواز سے اس کےمالک کو نیند نہیں آرہی ہے۔*

🔸 جانوروں اور بے جان چیزوں سے بات کرکے دل کا بوجھ ہلکا کرلینے کی نفسیات بھی بڑی عجیب ہوتی ہے. منشی جی! آپ نے یہاں اسی کا تذکرہ کیا ہے اور خوب کیا ہے. آپ نے اسی بہانے پوس کی رات کھیت میں سردی سے ٹھٹھرنے کے خلاف ایک احتجاج بھی درج کرادیا ہے۔ 

آپ نے جب یہ جملہ افسانے میں لکھا تو یہاں بھی ایک فنکارانہ بیان سامنے آیا:

*تقدیر کی خوبی ہے مزدوری ہم کریں۔ مزہ دوسرے لوٹیں۔‘‘

🔸معاشی نابرابری کے خلاف ناراضگی کا فنکارانہ اظہار ہے یہ جملہ آپ نے یہاں بھرپور کوشش کی ہے کہ قاری کو قطعی طور پر یہ احساس نہ ہو کہ ہلکو نہیں بلکہ ہلکو کی زبان سے فنکار بول رہا ہے. آپ اپنی کوشش می‍ں کامیاب ہیں. 

اور پھر پوس کی رات کی ٹھنڈ میں اپنے کھیت کی حفاظت کے لئے جاگنے والے ہلکو کی پریشانیوں کا یوں تذکرہ کیاہے:

*ہلکو، پھر لیٹا۔ اور یہ طے کر لیا کہ چاہے جو کچھ ہو اب کی سو جاؤں گا۔ لیکن ایک لمحہ میں اس کا کلیجہ کانپنے لگا۔ کبھی اس کروٹ لیٹا کبھی اس کروٹ۔ جاڑا کسی بھوت کی مانند اس کی چھاتی کو دبائے ہوئے تھا۔*

🔸واہ منشی جی واہ! آپ نے سردی سے ٹھٹھرتے کانپتے ہلکو کو یہاں جس انداز سے پیش کیا ہے وہ بھی خوب ہے. کلیجے کا کانپنا اور جاڑے کا بھوت کی مانند ہلکو کی چھاتی دبانا کمال کا بیان ہے. بڑا پیارا لگا یہ بیان بھی. 

اس کے بعد بھی سرد ہواؤں اور کھلی فضا میں آسمان کو چھت بنانے والے ہلکو کے بارے میں آپ نے لکھا:

*جب کسی طرح نہ رہا گیا تو اس نے جبرا کو دھیرے سے اٹھا یا اور اس کے سر کو تھپ تھپا کر اسے اپنی گو د میں سلا لیا۔ کتے کے جسم سےمعلوم نہیں کیسی بدبو آرہی تھی پر اسے اپنی گود سے چمٹاتے ہوئےایسا سکھ معلوم ہوتا تھا جو ادھر مہینوں سے اسے نہ ملا تھا۔*

🔸منشی جی! آپ اس اقتباس میں ہلکو کے کون سے سکھ کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہے ہیں؟ کہیں اس کی ازدواجی زندگی کی طرف تو اشارہ نہیں کرنا چاہ رہے ہیں آپ؟ مجھے لگتا ہے کہ شاید ایسا ہی ہے اور کمال ہے یہ اظہار بھی. آپ نے کیا خوبصورت بہانا تراشا ہے اس بیان کا! یہ ہنر بھی ہم تک آپ پہنچا گئے ہیں لیکن جب آپ نے لکھا:

*جبرا شاید یہ خیال کر رہا تھا کہ بہشت یہی ہے اور ہلکو کی روح اتنی پاک تھی کہ اسے کتے سے بالکل نفرت نہ تھی۔*

🔸 تو منشی جی! مجھے ایسا لگتا ہے کہ  آپ یہاں تضاد بیانی کا شکار ہوگئے ہیں ورنہ آپ کو اوپر یوں نہیں لکھنا تھا:

*کتے کے جسم سےمعلوم نہیں کیسی بدبو آرہی تھی.*

اب جب لکھ ہی دیا تھا تو پھر ہلکو کی روح کی پاکیزگی اور نفرت کا ذکر نہیں کرنا تھا. 

ہوسکتا ہے کہ میں یہاں غلطی کررہا ہوں سمجھنے کی. امید ہے کہ آپ برا نہیں مانیں میری باتوں کا.

پھر آپ نے رات میں وقت معلوم کرنے کے جس علم کے بارے میں لکھا ہے وہ اچھا لگا. دیکھیں:

*وہ سات ستارے جو قطب کے گرد گھومتے ہیں۔ ابھی اپنا نصف دورہ بھی ختم نہیں کرچکے جب وہ اوپر آجائیں گےتو کہیں سویرا ہو گا۔ابھی ایک گھڑی سے زیادہ رات باقی ہے۔*

🔸منشی جی! اب تو یہ ہنر نئی نسل کے لئے عجوبہ ہے. ہم تو اپنے موبائل کے توسط سے پتہ لگاتے ہیں کہ وقت کیا ہوا ہے؟ اور ہاں ایک خاص بات یہ بھی کہ ہم کو گوگل کے توسط سے ہی موسم کی سختی و نرمی کا پتہ چل جاتا ہے. تاروں کے ذریعے وقت معلوم کرنے کا ہنر آپ لوگوں کے ساتھ شاید رخصت ہوگیا ہو یا پھر ہوسکتا ہے کھیتی باڑی کرنے والے لوگوں کو ابھی بھی اس کا علم ہو مگر جب آپ نے اچانک یہ بیان لکھا: 

*ہلکو کےکھیت سے تھوڑی دیر کے فاصلہ پر ایک باغ تھا۔ پت جھڑ شروع ہو گئی تھی۔ باغ میں پتوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ہلکو نے سوچا چل کر پتیاں بٹوروں اور ان کو جلا کر خوب تاپوں.*

🔸تو منشی جی! اسے پڑھ کر مجھے لگتا ہے کہ آپ کو یہاں اس قسم کے بیانیے سے کام نہیں لینا تھا. نہ جانے کیوں مجھے یوں محسوس ہورہا ہے کہ آپ نے یہاں اپنے افسانہ نگار ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے. آپ نے جب دیکھا کہ سردی بہت زیادہ ہے تو آپ نے کھیت کے پاس کے باغ کی یاد دلا دی تاکہ آپ کہانی کو تھوڑا آگے سرکا سکیں اور کہانی کو آگے سرکانے کے بعد جب آپ نے ذیل کا جملہ لکھا:

*ہاتھ ٹھٹھرتے جاتے تھے۔ ننگے پاؤں گلے جاتے تھےاور وہ پتیوں کا پہاڑ کھڑا کر رہا تھا۔ اسی الاؤ میں وہ سردی کو جلا کر خاک کردے گا۔*

🔸تو بیساختہ میں کہہ اٹھا واہ منشی جی واہ! کیا خوبصورت اظہار کیا ہے آپ نے ہلکو کے جذبات کا. بہت اچھا لگا یہ اظہار. 

اس کے بعد ہلکو کے کھیت کا نیل گایوں کو اجاڑ دینا. ہلکو کا مزدوری کے لئے تیار نہ ہونا. منی کا لگان دینے سے انکار کرنا اور ہلکو کا کسان بنے رہنے کی ضد کرنا جیسے فطری ردِ عمل کے ساتھ افسانہ آپ نے ختم کردیا مگر میں اور مجھ جیسے قاری کے دل میں ہلکو اور منی جیسے پریشان حال لوگوں سے ایک قسم کا ہمدردانہ جذبہ بیدار کردیا اور ان کے مستقبل کی فکریں بھی پیدا کردیں. شاید آپ چاہتے بھی یہی تھے اور آپ کامیاب ہیں اپنی چاہت میں. بہت خوب