غزل
طاہرانجم صدیقی
وہ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا نہیں کرتے؟
بتا دے کوئی انھیں ہم دغا نہیں کرتے
انھیں ہی مات مِلا کرتی ہے بساطوں پر
"جو چال سوچ سمجھ کر چلا نہیں کرتے"
وہی شکایتیں کرتے ہیں راستوں کی بہت
جو اپنے تلوے کبھی آبلہ نہیں کرتے
نتیجہ دیکھ چکے ہیں، بکھرنا پڑتا ہے
ہم اپنی ذات کو اب آئینہ نہیں کرتے
انھیں ہی گھیرے رہا کرتی ہے ہوس اکثر
قلندروں میں جو طاہر رہا نہیں کرتے
عجیب لوگ ہیں اپنی سنائے جاتے ہیں
ادیب لوگ کسی کی سنا نہیں کرتے
ہم ایسے لوگ ہیں سر بھی کٹا کے خوش ہوں گے
وہ اور ہوں گے جو طاہرؔ وفا نہیں کرتے