Translate ترجمہ

Showing posts with label خاکے SKETCHES. Show all posts
Showing posts with label خاکے SKETCHES. Show all posts

Monday, July 17, 2023

طنزو مزاح کے شاعر: بدرالدین بادل ؔ

 طنز و مزاح کے شاعر بدرالدین بادل

 اشعار اور حالات کے آئینے میں

 (از قلم: طاہر انجم صدیقی)  


   مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ مالیگاؤں کے فتح میدان  میں مشاعرے کا اسٹیج سجا ہوا تھا. شہنشاہِ نظامت ثقلین حیدر اپنی نشست پر براجمان تھے. وہ مشاعرہ گاہ میں موجود سامعین کے شور سے تنگ آچکے تھے. فعلن فعلن کے وزن کے ساتھ مسلسل ایک شاعر کا نام مشاعرہ گاہ میں گونج رہا تھا. انہوں نے اپنی نشست چھوڑ دی اور کھڑے ہو کر مائک سنبھالتے ہوئے کہنا شروع کیا.

  "یہ "آلا بالا" اور آم چھو نیم چھو" کیا ہے؟ میں نہیں جانتا .

    (ایک تذکرہ یہ بھی سنا ہے کہ 'آم چھو نیم چھو' سے چِڑ کر خدا جانے منہ ہی منہ میں کیا پڑھ کر ثقلین حیدر نے مائک پر" چھو" کیا کہ بڑی دیر تک مائک ہی بند رہا. ساؤنڈ والے نے اسے آن کرنے کی بہت کوشش کی لیکن  ناکام رہا. دوبارہ ثقلین حیدر نے مائک پر آکر "چھو" کہا تو مائک آن ہو گیا. اگر اس تعلق سے آپ میں سے کسی کو کچھ علم ہوتو کمنٹ میں تصدیق کریں. نوازش ہوگی.)

   مائک دوبارہ آن ہوا تو ثقلین حیدر گویا ہوئے. 

   "آپ بضد ہیں تو آپ کے لیے انہیں دوبارہ آواز دے رہا ہوں آئیے بادل صاحب!" 

    وہ بادل صاحب کوئی اور نہیں بلکہ بدرالدین بادل تھے. وہی بدرالدین بادل جن کا "آم چھو نیم چھو" اور "آلا بالا مکڑی کا جالا" بہت سے سنجیدہ افراد پسند نہیں کرتے تھے. میں نے آج اسی بدرالدین بادل پر قلم اٹھایا ہے. 

   بھلا ہو خیال انصاری صاحب کا کہ انہوں نے بدرالدین بادل پر قلم اٹھانے پر اکسانے کے لیے مجھ سے ملاقات کی اور دریافت کیا کہ کیا میں نے بادل پر مضمون لکھا ہے؟ 

   میں نے کہا "نہیں!"

   اور سبب بھی بتا دیا کہ ان کے اشعار میرے پاس نہیں ہیں. میرے منہ سے اتنا نکلتے ہی خیال انصاری صاحب کا ہاتھ ان کی زنبیل میں چلا گیا اور جب باہر آیا تو ڈاکٹر شاہینہ پروین صدیقی کی ترتیب و تدوین کے نتیجے میں شائع ہونے والی کتاب "بادل کی مزاحیہ شاعری" میرے حوالے کرتے ہوئے انہوں نے کہا:

   "لیجیے! بادل کی کتاب حاضر ہے."

     گھر پہنچ کر میں نے کتاب کا مطالعہ کرنا شروع کیا. مطالعہ سے پہلے ہی میں یہ جانتا تھا کہ بادل روپیوں پیسوں سے بڑے غریب شاعر تھے لیکن وہ ہنسی، مسکراہٹ اور خوشیوں کے موتی لٹانے میں بڑے امیر کبیر واقع ہوئے تھے. یہی وجہ ہے کہ مشاعروں کے سامعین جب بدرالدین بادل کا نام سنتے تھے تو وہ بیساختہ ہنسنے پر مجبور ہو جاتے تھے. ان کی بانچھیں کِھل جایا کرتی تھیں اور وہ اپنے بچپن کے کھیل کھیل میں بغیر کچھ سمجھے گائے جانے والے گیتوں کے بولوں کی بنیاد پر بادل کی منظومات سننے کو تیار ہوجایا کرتے تھے.

   استادِ محترم ڈاکٹر الیاس صدیقی کے مطابق اگر بادل چاہتے تو مزید تھوڑی سی تعلیم حاصل کرکے کسی اسکول میں درس و تدریس سے وابستہ ہوجاتے لیکن گھر کے حالات اور گھر والوں میں شعور کی پختگی کی کمی کے سبب وہ دسویں جماعت تک ہی تعلیم حاصل کرسکے ۔ علم کی دنیا سے نکل کر وہ ابھی عملی زندگی کا ٹھیک طرح سے خاکہ بھی نہیں بنا سکے تھے کہ زندگی کی ضرورتوں نے انھیں اپنے شکنجوں میں جکڑ کر پاور لوم کی گھڑگھڑاہٹ کی طرف گھسیٹ لیا. وہ ایک مرتبہ پاور لوم سے منسلک ہوئے تو پھر اس برزخ سے باہر نکل ہی نہیں سکے. 

   جس طرح بادل کے والدین بادل کے علاوہ اپنی کسی اور اولاد کو اچھی تعلیم نہیں دلا سکے تھے بالکل اسی طرح بادل بھی صرف اپنی ایک بیٹی کو ہی تعلیم کے زیوروں سے آراستہ کر سکے. غالباً یہی سبب ہے کہ وہی تعلیم یافتہ بیٹی خود بادل اور بادل کے گھر والوں کے لئے رحمت ثابت ہوئی.

   میں نے "بدرالدین بادل کی مزاحیہ شاعری" کے مطالعے کے بعد یہ جانا ہے کہ ان کی شاعری میں حالات کی کڑھن، کسم پرسی کی چبھن صاف طور پر محسوس کی جاسکتی ہے بلکہ بعض مقامات پر تو بادل کے اشعار چیختے چلاتے محسوس ہوتے ہیں. 

   بادل نے "آم چھو نیم چھو" اور "آلا بالا مکڑی کا جالا" جیسی منظومات میں مزاح کے پہلو میں طنز اور درد بھی کو بھی چھپا دیا ہے. ان کی ایسی منظومات کے تعلق سے استاد محترم ڈاکٹر الیاس صدیقی نے مذکورہ کتاب میں یوں لکھا ہے:

   "بچپن میں گلی محلوں میں دوستوں اور سہیلیوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے جو انوکھے بول والے چھوٹے چھوٹے گیت بادل نے گائے یا سنے تھے انھیں بڑی خوبصورتی کے ساتھ اس نے استائی اور سنچائی میں تبدیل کرکے ایسے معنی خیز اور ترنم ریز گیت لکھے جو اس کی بے پناہ مقبولیت اور ہر دل عزیزی کا سبب بن گئے."

   ڈاکٹر الیاس صدیقی کی اس بات پر یقین کرنے کے لئے بادل کی کتاب کے پہلے گیت" آلا بالا مکڑی کا جالا" کو دیکھیں:

   اس گیت کا بول وہ بول ہے جب بچے ایک دوسرے کا کان پکڑ کر بیٹھتے ہیں اور جھوم جھوم کر ایک لے کے ساتھ گاتے ہیں. بادل نے گیت کا عنوان وہیں سے اٹھایا ہے اور کم عمری کی طویل العمر پیروڈی کر دی ہے لیکن اس پیروڈی میں بچپن کی معصومیت نہیں ہے. بچپن کا بھولا پن نہیں ہے بلکہ اس گیت میں غمِ جان بھی ہے اور غمِ جہان بھی ہے. 

   اس گیت کے تعلق سے صاف طور پر کہا جا سکتا ہے کہ بادل گر چہ ایک غریب اور پاور لوم سے لوہا لے کر اپنا رزقِ حلال کشید کرنے والے شاعر تھے لیکن ان کی نظر شہر مالیگاو ¿ں کی نبض بن کر پھڑکنے والی صنعت کے اتار چڑھاو ¿ اور باریکیوں پر بھی تھی. غالبا یہی سبب ہے کہ ان کے اس گیت میں ایل پی اور کاونٹ جیسی کاروباری اصطلاحات موجود ہیں. دیکھیں:

   کم پونجی میں دھندہ کیا ہے

   سوت کا ایل پی ہم نے بھرا ہے

   پہلے سٹ میں نکلا دیوالہ 

   آلا بالا مکڑی کا جالا 

   بادل نے اس بند میں شہر مالیگاؤں کے پاور لوم بنکروں کی کم سرمائے کے ساتھ کاروبار شروع کرنے کی علت کی طرف اشارہ کیا ہے اور اس کے نقصان کی طرف بھی متوجہ کیا ہے. وہ بتانا چاہتے تھے کہ اس طرح جس بیوپاری سے خام مال لیا جائے گا اس کو اس کی قیمت وقت پر نہ ادا کی جائے تو ہرجانے کے طور پر وہ مزید رقم طلب کرے گا اور دیر سے ادائیگی پر ایل پی نام سے جرمانے کی رقم بھی بھرنی پڑے گی. 

   مطلب یہ ہے کہ بادل پاور لوم مزدور ہوتے ہوئے بھی اس باریکی کو جان گئے تھے کہ مضبوط سرمایہ کاری سے گھن کی طرح کھا جانے والی دیمکوں سے بچا جاسکتا ہے اور دو پیسے کمائے جا سکتے ہیں.

   دوسرے بند میں وہ یوں فرماتے ہیں:

   کاو ¿نٹ میں ایسی مار پڑی ہے

   سائزنگ کے مالک سے بک بک ہوئی ہے

   ہوگیا سارا گڑبڑ گھوٹالا

   آلا بالا مکڑی کا جالا

   اتنا ہی نہیں بلکہ بادل نے اس ایک نظم میں پاور لوم صنعت پر چھانے والی مندی، اس کے نقصانات، مقادم، میتھا اور ٹیکسٹائل کے علاوہ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی وغیرہ کو بھی شامل کیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ محض پاور لوم مزدور نہیں تھے بلکہ وہ اس صنعتِ پارچہ بافی کی باریکیوں، وسائل اور مسائل تک سے واقف تھے. 

   بادل کا دوسرا گیت "انتا منیا کوڑی روپیا" وہ گیت ہے جب مالیگاوئں کے گھروں کے بڑے یعنی والدین، بھائی، بہن، چاچا اور چاچی وغیرہ گھر میں موجود چھوٹے بچے کو اپنے پیروں پر جھولے کی طرح جھولاتے ہیں اور یہی گیت گاتے ہیںلیکن جب بادل نے اس گیت کے بول کو اپنے گیت میں جگہ دی تو گھر کے بڑوں کو موضوع کیا. انہوں نے اس گیت میں مسلم سماج میں پھیلی برائیوں پر خوب طنز کیا ہے. گیت کا بند دیکھیں:

   کاندھے سے کاندھا چھِلتا ہے دیکھو

    دھکّے پہ دھکّا لگتا ہے دیکھو

    کتنے مگن ہیں بھوجی اور بھیا

    انتا منیا کوڑی روپیا

    یہ سماج کی اس برائی کی طرف اشارہ ہے جب میلے میں گھومنے والے لوگ مختلف قسم کی چھیڑخانیوں کا شکار ہوتے ہیں. ایسے مقام پر مرد و زن کا پہنچنا شہر مالیگاو ¿ں میں قابلِ اعتراض سمجھا جاتا ہے. نظم کے مذکورہ بالا بند میں بادل نے اسی طرف اشارہ کیا ہے لیکن آگے چل کر نوجوان لڑکیوں کا جترا میں جانا، مسلم خواتین کا فلم بینی کے لیے سنیما کا رخ کرنا، عورتوں کا دوکانوں پر خریدی کے لیے جانا اور میچنگ اوڑھنی کے نام پر بازاروں کی زینت بڑھانا بھی بادل کو نہیں بھاتا تھا. انہوں نے مردانہ غیرت پر چوٹ کرنے والے کئی بند اس نظم میں شامل کیے ہیں.

    اس کے بعد کی نظم "تیر پہ تیر" میں پیری فقیری کی آڑ میں چھرخانیاں کرنے، سیاستدانوں کے عوام کو جھوٹے خواب دکھا کر الّو بنانے کے طرف اشارہ کیا گیا ہے جبکہ "آندھی بوندی آوت ہے" آسمان میں اڑتے پھرنے والے بادلوں کی گرج کے بعد جب آسمان سے ہلکی ہلکی بوندا باندی شروع ہوتی ہے تو بچوں کا من خوشی سے مور بن جاتا ہے۔وہ بیساختہ گھروں سے باہر بھاگ نکلتے ہیں. کھلے آسمان کے نیچے جمع ہوتے ہیں اور آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے دونوں ہاتھ کھول کر ایک ہی جگہ پر بار بار گھوم گھوم کر

"آندھی بوندی آتی ہے چڑیا ڈھول بجاتی ہے"

گانے لگتے ہیں. وہ ماحول بڑا پیارا لگتا ہے. شاید آسمان کو بھی ان معصوم بچوں کا جھوم جھوم جانا، مسرور کن انداز میں اوپر دیکھتے ہوئے گانا بھلا لگتا ہے ہے اور وہ اپنی بانہیں کھول کر ان بچوں پر تصدق کے موتی نچھاور کرنے لگتا ہے. 

    بادل نے اسی ماحول سے” آندھی بوندی آوت ہے“ کواٹھا کر اپنی نظم کا عنوان کیا ہے اور نظم میں امیروں کی کنجوسی، احسان جتانے، شادی بیاہ میں کھانا پکانے والوں کا بغیر کسی کی اجازت سے ایک بڑی ٹوکری بھر کھانا اپنے گھر بھیج دینے کی برائی، بچوں کی کہانی سے دوری اور ٹی وی سے قربت کی طرف بادل نے طنز بھرے اشارے کیے ہیں.

   لکھنے کو تو بادل کی منظومات پر بہت کچھ لکھا جا سکتا ہے. اس کا سبب یہ ہے کہ ان کی منظومات میں موجود غیرمعروف بول بھلے ہی اردو والوں کے لیے بے معنی ہوں لیکن ان بے معنی بولوں کی بنیادوں پر کھڑی منظومات میں بڑی معنی خیز باتیں موجود ہیں. حالانکہ ان غیر معروف بولوں سے کم از کم مالیگاو ¿ں والے تو نابلد نہیں ہیں بلکہ اکثر لوگوں نے بچپن میں ان غیر معروف بولوں کو گنگنایا اور ان پر جھوم جھوم کر گایا ہوگا لیکن مضمون کی طوالت کے خوف سے بدرالدین بادل کی بقیہ منظومات سے صرفِ نظری کر کے ان کی ہزلوں کی طرف رجوع ہونا مناسب سمجھتا ہوں.

   چونکہ بادل جیسا مشاعرہ لوٹ لینے والاشاعر موضوع ہے اس لیے مشاعروں کا تذکرہ ہوجانا بھی موزوں ہے۔

اردو مشاعرہ اور مشاعرے کے تبدیل ہوتے ہوئے ماحول سے جو لوگ واقفیت رکھتے ہیں انھیں اس بات کا علم بھی ضرور ہوگا کہ مشاعرہ گاہوں میں آواز کی پٹری پر غزل کے دوڑنے کا آغاز ہوا تو پھر دوڑ تھمی ہی نہیں. اسی بھاگ دوڑ کے سبب تہت اللفظ کی اچھی خاصی معیاری آوازیں لوگوں کو سنائی نہیں دیں. اب یہ الگ بات ہے کہ کچھ شعراءکے گلے کے ساتھ ساتھ ان کے اشعار بھی اچھے ہوتے ہیں. 

   یہی شکایت بدرالدین بادل کو بھی تھی. حالانکہ وہ اچھی طرح سنے جاتے تھے لیکن ایک حساس دل رکھنے والا شاعر اگر خود مشاعرہ گاہوں کے ماحول میں گردش کرنے والی باتوں کو محسوس نہ کرے تو بھلا اس کی حسیت پر سوالیہ نشان کیوں نہ عائد ہو؟ 

   یہی سبب ہے کہ بدرالدین بادل کو ذیل کا شعر وضع کرنا پڑا:

بڑے بے تکے شعر کہہ ڈالے بادل

ترنم کا جادو جگانا پڑے گا

ان کے کہنے کا صاف اور سیدھا مطلب یہ نکالا جاسکتا ہے کہ بے تکے اور خراب اشعار کو ترنم کے توسط سے مشاعروں میں پڑھا جا سکتا ہے. 

   اسی شکایت کو بادل اپنے دوسرے شعر میں ذرا الگ انداز سے بیان کیا ہے. دیکھیں:

   کل کے مشاعرے میں تو قوال ہی چلے

   بادل تو ٹھیک بارہ بجے اپنے گھر گیا

   بادل صرف اتنا کہہ کر ہی خاموش نہیں ہوئے بلکہ انہوں نے بہت ہی اونچی اور کان پھاڑ آواز میں کلام پڑھنے والوں کو بھی یوں چھیڑا ہے. دیکھیں:

   چیختے ہیں بے طرح کچھ شاعرِ بے س ±ر یہاں

   شہر سے اب دور قبرستان ہونا چاہیے

   وہ بے سرے شاعروں کی کان پھاڑنے والی آوازوں سے گھبرا کر مُردوں کے اپنی قبروں سے نکل بھاگنے کا مزاحیہ تذکرہ کرتے کرتے خراب گلے والے شعرا سے رحم کی درخواست کرتے نظر آتے ہیں. 

   اپنے ہی کلام کا اپنی ہی مریل سی آواز سے قتل کرنے والے شعرا پر طنز کا نشانہ سادھتے ہوئے بادل نے یہ شعر پیش کیا ہے. 

   حد تو یہ ہے کہ آج گونگے بھی

   چند اشعار لے کے آئے ہیں

   کیونکہ پہلے تو نہایت نحیف و نزار آوازوں پر کان لگا لگا کر اشعار سننا ہی خود پر ظلم تھا اب جن کو خود قدرت نے آوازیں ہی نہیں دی ہیں ان کو مشاعروں کی زینت بنانے کی حرکتیں دیکھنے میں آتی ہیں. بادل اسی پر معترض ہیں۔

   آگے چل کر بادل نے شاعروں کے درمیان موجود متشاعروں کی لعنت پر باکل ہی واضح انداز سے احتجاج کیا ہے. دیکھیں:

   تیس دنوں میں ایک غزل تو دیتے ہو

   روزانہ دس بارہ چائے پلاوں کیا؟ 

   اور متشاعروں کی غزلیں لکھوا لینے کی ڈھٹائی پر بھرپور طنز کیا ہے.

   اتنا ہی نہیں بلکہ شعرا کی شعر سنانے کی عادت پر بھی چوٹ کرتے ہوئے انہوں نے یوں کہا ہے:

   آج اک شعر بھی سنانا نہیں

   اتنا احسان شاعرو! کر دو!

   جب بادل جیسے شاعر نے خود اپنی ہی دنیا کے درویش ہوتے ہوئے اس پر تنقیدی نظر ڈالی تھی تو بھلا شعرا کی دنیا کے باہر وہ کیوں نہیں جھانکتے؟

   بادل نے صرف اس دنیا کو جھانک کر نہیں دیکھا ہے بلکہ بہت اچھی طرح دنیا کا جائزہ لیا تھا.

   دیکھیں کہ انہوں نے ابتدا پڑوس سے کی تھی.

   بے پردگی تو حد سے تجاوز ہی کر گئی

   بادل ہیں "محوِ ٹی وی" پڑوسن کے ساتھ ساتھ

   اس شعر میں ”لفظ ِ ٹی وی“ کو واوین کیا گیا ہے. شاید ان کو معلوم ہوگا کہ اس اضافت پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے لیکن طنز و مزاح کے نام پر شاید درگزر سے کام لیا جا سکتا ہے. 

   جب بہت زیادہ ٹی وی اینٹینا گھروں کی چھتوں پر آویزاں ہونے لگے تھے تب ڈشوں کی آمد آمد ہوئی تھی اور مختلف النوع ٹی وی چینلوں کے لیے یہی ٹی وی اینٹینا لوگوں کو ناکافی محسوس ہونے لگے تھے. تب گھروں کی چھتوں پر ہونے والی تبدیلیوں کو اپنے ماتھے کی آنکھوں سے دیکھ کر بادل کا ماتھا یوں ٹھنکا تھا:

   کبھی تھا ناز اہلِ شہر کو جن خاندانوں پر

   خصوصی چھتریاں ہیں نصب اب ان کے مکانوں پر

   پھر اس کے بعد فلمی اداکاروں کی مداحی کے دور کا زور بھی بادل سے مخفی نہیں تھا. انہوں نے علامہ اقبال سے استفادہ کرتے ہوئے یوں احتجاج درج کرایا تھا:

   ہوئے گِرویدہ شاہ رخ خان، جوہی چاو ¿لہ کے وہ

   بسیرا کیا کریں گے وہ پہاڑوں کی چٹانوں پر؟ 

   اس کے بعد سماج کا ایک المیہ بھی بادل سے چھ ±پا ہوا نہیں تھا. انہوں نے اسے یوں بیان کیا ہے:

   ہم نے تھیٹر میں دیکھی "ڈوائن لَوَرس"

   ایک ہی صف میں تھے، کل پسر اور میں

   ایک شاعر جو سماج کا حصہ ہو وہ سب کچھ لکھے لیکن سیاست یا سیاست دانوں پر نہ لکھے تو ایک عجیب قسم کا ادھورا پن محسوس ہوتا ہے اور اگر یہ کام کوئی طنز و مزاح کا شاعر کرے تو لازمی طور پر اس سے شکایت کی جانی چاہیئے. 

   بادل نے اپنے سامعین اور قارئین کو یہ موقع نہیں دیا بلکہ ذیل کے اشعار میں ان کی سیاسی بصیرت اور سیاست کے تعلق سے ان کے نظریے کو سمجھا جا سکتا ہے. 

   میرے بچوں پہ رحم کھاو رے

   ایک کرسی مجھے دلاو رے

   کھ ±ل جا سِم سِم مجھے سکھاو رے

   اب کے ممبر مجھے بناو رے

   واقعی اب سیاست میں آنے والے عوام کی خدمت کے لیے بلکہ ڈھیرا ساری دولت کے لیے قدم رنجا ہوتے ہیں۔بادل کا دوسرا قطعہ اسی بات کا گواہ ہے۔دیکھیں:

آگیا انتخاب کا موسم

مرغ و ماہی کباب کا موسم

ان سے تھا انقلاب کا موسم 

ان سے گھپلوں کے باب کا موسم

عوام کے حافظوں میں سیاسی لوگوں کے ایسے ایسے فراڈ موجود ہیں کہ اب انھیں جانوروں کی بجائے چارے پر ترس آنے لگا ہے۔ اس کے باوجودسیاسی افراد بقولِ بادل الیکشن کا بغل بجتے ہی ووٹوں کی بھیک کے لیے کشکول تھامے نکل جاتے ہیں:

صوفی، سنتوں کے نگر میں شور برپا ہو گیا

کرسیوں کے سب بھکاری اب صدا دینے لگے

جبکہ بھکاریوں کی طرح ووٹ ووٹ کی رٹ لگانے والے ان لوگوں کے مقاصد کو طشت از بام کرتے ہوئے بادل نے یوں لکھا ہے:

"سکندر لوٹ کر بھی خوش نہیں دولت زمانے کی" 

خزانہ لوٹ کر پبلک کا ممبر رقص کرتے ہیں

اتنا ہی نہیں بلکہ سیاستدانوں کی حرکتوں سے اوب کر بادل پریشان اور مسلسل لُٹنے والی عوام کو یہ کہہ کر جھنجھوڑتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں :

ہرگز نہ اپنے بچے کو تو ڈاکٹر بنا

اس کو وکیل اور نہ انجینئر بنا

بھرنا ہے خالی پیٹ تجوری کا گر تجھے

شہری کمیٹیوں کا اسے کونسلر بنا

   درج بالا اشعار بادل کی سیاست اور سیاسی لوگوں کے تعلق سے بادل کا نظریہ ظاہر کرتے ہیں کہ سرکاری خزانے کو لوٹتے رہنا، گھپلے بازی کرتے رہنا، عوام کو صرف ووٹ بینک کے طور پر استعمال کرنا جیسی برائیاں سیاسی افراد میں پائی جاتی ہیں اور وہ بقولِ بادل عوام کو بندروں کی طرح نچاتے رہتے ہیں. یقین نہ آئے تو بادل کی زبانی سنیں:

   گاندھی کے دیش والے سب ہو گئے مداری

   پھولے نہیں سماتے بندر نچا نچا کر

  بادل نے اپنے اشعار کے توسط سے ایک طرف جہاں اپنے سیاسی نظریے کا اظہار کیا ہے وہیں انہوں نے لوگوں کے اس خیال کا بھی پاس رکھا ہے کہ طنزو مزاح لکھنے والا بہت سنجیدہ ہوتا ہے. ان کی سنجیدگی ان کے اشعار کی صورت دیکھیں :

  گھر میں بیٹی تو اک امانت ہے

  یہ ضروری نہیںکہ رو کر دو

اپنے سائے سے بھی وہ ڈرنے لگے ہیں آج کل

بے دھڑک جو کود پڑتے تھے کبھی انگار میں

   بادل نے ایک طرف جہاں ایسی سنجیدگی کا مظاہرہ کیا ہے تو وہیں دوسری طرف انہوں نے خوبیوں والوں سے چھیڑخانی بھی خوب کی ہے. مثالیں دیکھیں:

   بادل ناصر کاظمی کو چھیڑنے پر آئے تو ان کے سورج کو چونچ میں لیے کھڑے رہنے والے مرغے کو ہی حلال کربیٹھے. پہلے ناصر کاظمی کے مرغے کی طاقت دیکھیں:

   سورج کو چونچ میں لیے مرغا کھڑا رہا

   کھڑکی کے پردے کھینچ دیے رات ہو گئی

   اب بادل کے ذریعے اسی مرغے کی درگت دیکھیں:

   چونچ میں سورج لے کے کھڑا ہے بس بھی کر

   پیٹ میں مرغا پہنچ چکا ہے بس بھی کر 

   تجھ کو مبارک میرے بھائی رنگِ جدید

   مصرعہ سر سے گزر رہا ہے بس بھی کر 

   بادل ایک جگہ افتخار عارف کی نظم "اورہوا چپ رہی"کی ہوا خراب کرنے کے لیے نظم کی فاختہ پر خوبصورتی سے جو احتجاج درج کرایا تھا۔ یہ دیکھا جا سکتا ہے:

   شاخِ زیتون پہ انڈے نہیں لگتے بادل

   ہاں! مگر جدّتِ شعری یہ عجوبہ رکھّے

   بادل کے کلام میں خود ان کے اطراف اور ہمارے جوانب میں پھیلے موضوعات دیکھنے کو ملتے ہیں. بادل نے ان موضوعات کو کبھی طنز کے نشتر کے طور پر استعمال کیا ہے، کبھی درد کے ساتھ استعمال کیا ہے، کبھی سنجیدگی کے ساتھ استعمال کیا ہے اور کبھی کبھی خالص مزاح بھی ان کے کلام میں اپنی جھلک دکھا جاتا ہے. دیکھیں:

   تنبیہہ کو میری وہ حماقت سمجھیں

   بڑ ہانکنے والوں کی ہی عادت سمجھیں

   ہیں تیری ہی مانند وہ شاید بادل 

   جورو کی غلامی کو سعادت سمجھیں

اس مثال سے بادل بھی روایتی مزاح نگاروں کی طرح بیوی کے نام پر داد خواہی کے منتظر دکھائی دیتے ہیں جبکہ ذیل کے قطعہ میں بادل نے مزاح کو بڑے ہی خوبصورت انداز سے پیش کیا ہے۔دیکھیں:

   دکھائیں سَرف والے اشتہار ایسا بھی ٹی وی پر

   ڈبوئیں سَرف میں لارا کو تو عمران خاں نکلے

   مشین اے کاش ایسی بھی ہو اب ایجاد اے بادل 

   اگر بوڑھا ہو داخل اس میں تو بن کر جواں نکلے

اسی طرح ہندوستان کی بہت کچھ جان کر بھی کچھ نہ کرنے والی پولس پر انہوں نے یوں طنز کیا ہے:

راہ چلتے آنکھ سے کاجل نکالیں دوستو! 

شہر کے چوروں میں کتنی سینہ زوری ہوگئی؟ 

پَل میں برآمد کریں کریں ڈکّی سے جو ریوالور

ان پولس والوں کی واکی ٹاکی چوری ہوگئی

جبکہ ذیل کے قطعہ میں بادل کے مزاح کو بھر پور طور پر محسوس کرتے ہوئے اس سے محظوظ ہوا جا سکتا ہے۔

میں نے پوچھا کل فقط اتنا ہی چندو لال سے

پانچ سو میں یہ بتا کتنے گدھے مل جائیں گے؟ 

مسکرا کر اس نے دیکھا میرے چہرے کی طرف

اور بولا آپ جیسے چار ہی مِل پائیں گے

   ان طنزومزاح بھرے اشعار کے حوالے کے لیے اشعار جمع کرتے کرتے بادل کایہ قطع بھی سامنے آگیا تھا:

حشر اب شہرِ ادب میں کچھ اٹھانا چاہیے

خرچ سے اپنے مزار اپنا بنانا چاہیے

کب تلک آخر کرو گے دوستوں کا انتظار

جشن بادل خود تمہیں اپنا منانا چاہیے

   ان چار مصرعوں کو پڑھنے کے بعد میں یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ واقعی بدرالدین بادل کی شعری خدمات کے اعتراف میں جشن منعقد ہوا بھی تھایا نہیں؟

ابھی ان خیالات کو ٹھیک سے قلم بند بھی نہیں کر پایا ہوں کہ بادل کے اشعار سے میرے منتخب کردہ چار مصرعے اپنی جانب متوجہ کرگئے. آپ بھی دیکھیں:

   جیتے جی تو جھوٹے منہ پوچھا نہیں

   بعد مرنے کے دعا کرنے لگے

   چار مصرعے تعزیت کے لکھ کے ہم

   دوستی کا حق ادا کرنے لگے

   خدا ہی جانے کہ ڈاکٹر الیاس صدیقی کے علاوہ بادل کے دوستوں نے ان کا حق ادا کیا بھی ہے یا نہیں لیکن میں ان پر لکھے اس مضمون کو اپنی سعادت سمجھتا ہوں وہ بھی اس اعتراف کے ساتھ کہ 

   حق تو یہ کہ حق ادا نہ ہوا

المیہ یہ ہے کہ آج کل تو لوگ کسی فنکار کی رخصت پر چار الفاظ تک لکھنے کی زحمت اٹھانا گوارا نہیں کرتے۔

٭٭٭

 اس کوبھی پڑھیں 🔽
کولاژ: سعادت حسن منٹو 






Tuesday, July 11, 2023

سعادت حسن منٹو: کولاژ

  (مجھے نہیں معلوم کہ اس مضمون کو مضامین کی صنف کا کون سا نام دیا جائے گا؟ لیکن میں نے اپنی سمجھ کے مطابق اسے ایک نام دے دیا ہے. معذرت خواہ ہوں.)




١٨ جنوری سعادت حسن منٹو کی ٦٧ویں کی 

مناسبت سے پیش ہے ایک تحریر. 

🔸 کولاژ: سعادت حسن منٹو 🔸

کولاژ: طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں


          انسان کسی بھی شخص شئے یا مقام کے تعلق سے انہیں لوگوں کی باتیں قابلِ قبول سمجھتا ہے جو اس شخص، شئے یا مقام سے قریب رہے ہوں. البتہ ان کے قریب رہنے والوں کی باتوں کے حوالے سے راقم الحروف نے سعادت حسن منٹو کے تعلق سے لکھے گئے اس مضمون میں کرشن چندر، احمد شجاع پاشا، باری علیگ، شورش کاشمیری، ممتاز مفتی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریہ، تحسینفراقی، سید وقار عظیم، شاہدہ ناز، سجاد ظہیر، شمیم حنفی، سید فراز احمد، حمید اختر، کنہیا لال کپور، یوسف ظفر اور یونس جاوید وغیرہ کی باتوں میں بہت ہی کم بلکہ نہیں کے برابر ترمیم و اضافہ کرکے انہیں پیش کیا ہےاور حقیقت تو یہ ہے کہ راقم الحروف نے اس مضمون میں صرف اور صرف لفظوں کے موتی ایک دھاگے میں پرونے کا کام کیا ہے. وہ بھی اس احساس کے ساتھ کہ موتی بہرحال دوسروں کے ہی ہیں. البتہ ان موتیوں کی مدد سے اردو کے افسانوی ادب کے ایک عظیم فنکار سعادت حسن منٹو کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی کوشش ضرور کی ہے. 

          لانبا، ترچھا، چپٹا، گورا گورا، ہاتھ کی پشت پروریدیں ابھری ہوئیں. گردن کا حلقوم باہر نکلا ہوا، سوکھی ٹانگوں پر بڑے بڑے پاؤں لیکن بے ڈول نہیں. ایک عجیب سی نفاست، نسائیت لئے ہوئے، چہرے پر جھنجھلاہٹ، آواز میں بے چینی لکھنے میں اضطراب، آداب میں تلخی، چلنے میں عجلت. سعادت حسن منٹو کو پہلی بار دے کر ان ہی باتوں کا احساس ہوتا تھا. (کرشن چند)

          اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھاجیسے یرقان میں مبتلا ہے.(کنہیا لال کپور) منٹو کا ماتھا سیمیں پردے کی طرح مستطیل تھا. نیچے سے کم فراخ اور اوپر سے زیادہ، بال سیدھے، لمبے اور گھنے تھے. آنکھوں میں ایک وحشی چمک، ایک بے باک درشتی، ایک ایسی سوجھ بوجھ تھی جسے دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے منٹو موت کے دروازے کے اندر جا کر لوٹ آیا ہو. (کرشن چندر) 

          سعادت حسن منٹو (11 مئی) 1912ء  میں ضلع لدھیانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا. وہ امرتسر کے ایک انتہائی معزز کشمیری خاندان کا رکن تھا. وہ لوگ اپنی ذہانت کے لیے دور دور مشہور تھے(احمد شجاع پاشا) 

          منٹو نے مقامی اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے علیگڑھ کا رخ کیا مگر جلد ہی اسے وہاں سے رخصت ہونا پڑا(احمد شجاع پاشا) 

          سعادت حسن منٹو کے والد منصف تھے. انہوں نے دو شادیاں کی تھیں. سعادت کی والدہ ان کی دوسری بیوی تھی. انہوں نے اپنی پہلی اہلیہ کی اولاد کی تعلیم و تربیت پر اتنی توجہ کی کہ ان کی وفات کے بعد چھوٹی بیگم اور ان کی اولاد سعادت اور اس کی بڑی بہن ناصرہ اقبال کے لیے تلخ یادوں کے سوا اور کچھ باقی نہ بچا. (ابوسعید قریشی) 

          منٹو اپنے بزرگوں کی عزت کرتا تھا، ان سے محبت نہیں. اس کے آداب میں، اخلاق میں زاویہ ء نگاہ میں اس قدر شدید اختلاف تھا کہ اس نے بچپن ہی سے اپنا گھر چھوڑ دیا تھا اور اپنے لئے نئی راہ کی تلاش شروع کر دی تھی. علی گڑھ، لاہور، امرتسر، بمبئی، دہلی ان مقامات نے منٹو کے مختلف رنگ دیکھے ہیں. روسی ادب کا پرستار منٹو، چینی ادب کا شیدا منٹو، تلخی اور یاسیت کا شکار منٹو، گمنام منٹو، بھٹیار خانوں، شراب خانوں اور قحبہ خانے میں جانے والا منٹو اور پھر گھریلو منٹو، محبت کرنے والا منٹو، دوستوں کی مدد کرنے والا منٹو، ترشی اور تلخی کو مٹھاس میں سمونے والا منٹو، اردو کا معروف ترینمنٹو (کرشن چندر) 

          باری علیگ نے منٹو کو ایک فلم دیکھنے پر آمادہ کیا اور واپسی پر اس فلم پر تبصرہ لکھنے کی شرط رکھی. دوسرے روز "مساوات" میں جو چند سطریں منٹو کی شائع ہوئیں اس سے وہ بہت خوش ہوا اور ان سطروں کی اشاعت نے ہی سعادت حسن کے اندر چھپے ہوئے افسانہ نگار منٹو کو بیدار کیا. (باری علیگ) اور شاید منٹو وہ پہلا ادیب تھا جو فلم اسے ادب کی طرف آیا اور اپنی شہرت کی بنیادیں استوار کرکے پھر فلم کی طرف چلا گیا. (کرشن چندر) بمبئی کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے منٹو کی صلاحیتوں کو جلا بخشی. وہ بمبئی میں ایک عام ہفتہ وار پرچے کے مدیر کی حیثیت سے داخل ہوا اور جب وہاں سے باہر نکلا تو ایک مشہور آدمی تھا. (احمد شجاع پاشا) 

          وہ ایک کاغذ لیتا اور اپنے قلم سے 786 لکھ کر افسانہ لکھنا شروع کر دیتا. نہ اس نے کبھی اپنے کرداروں کے متعلق سوچا اور نہ نقطہ ء عروج کے متعلق. پہلا جملہ لکھنے کے بعد اس کے قلم میں روانی پیدا ہوجاتی. اس کی آنکھیں متبسم ہوجاتیں اور وہ لکھتے چلا جاتا. لکھنے سے پہلے اسے خود بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کیا لکھنے والا ہے اور فقرہ لکھ کر منٹو نے کبھی اسے کاٹا نہ تھا. (ممتاز مفتی) اس کاقلم مشین کی طرح چلنے لگتا. آدھے گھنٹے کے اندر اندر کہانی ختم کرکے وہ جھپاک سے ایڈیٹر کے سپرد کردیتا. وہ اپنی تحریر پر نظرِ ثانی کرنے کا عادی نہیں تھا. ایک ہاتھ سے کہانی ایڈیٹر کے حوالے کرتا اور دوسرا ہاتھ نقدی وصول کرنے کے لئے آگے بڑھا دیتا. رقم گننا اس نے کبھی گوارہ نہ کیا. اسے وہ گھٹیا اور ذلیل حرکت خیال کرتا تھا. اس دور میں اس کا 30 روپے روز کا خرچ تھا. جب تک پورا جمع نہ کر لیتا چین نہ پڑتا. اس کی ضرورت نے اسے زودنویس بنا ڈالا تھا. اس نے ایک ایک نشست میں طویل سے طویل افسانہ ہی ختم نہیں کیا بلکہ بسا اوقات ایک ہی نشست میں کی افسانوں کا مجموعہ لکھ ڈالا. اس کا اصول تھا کہ پہلے علیحدہ علیحدہ قیمت پر افسانے بیچتا. پھر کسی ناشر کے پاس مجموعہ بھیجتا اور اس طرح ایک معقول رقم پیدا کر لیتا لیکن جو کچھ کماتا اس کا بہت بڑا حصہ شراب کی بھینٹ چڑھ جاتا. 

          منٹو نے خود 1951ء میں لکھا تھا کہ وہ فیشن نویس، دہشت پسند، سنکی، لطیفہ باز اور رجعت پسند سہی لیکن ایک بیوی کا خاوند اور تین بچیوں کا باپ بھی تھا. ان میں سے اگر کوئی بیمار ہوجاتا اور موزوں و مناسب علاج کے لیے اسے درد کے در کی بھیک مانگنی پڑتی تو اسے بہت کوفت ہوتی. اس کے دوست بھی تھے جو اس سے زیادہ مفلوق الحال تھے. بروقت اگر وہ ان کی مدد نہ کر سکتا تو اسے بہت تکلیف ہوتی. دنیوی معاملات میں اگر وہ کسی کا یا خود اپنا سر جھکا ہوا دیکھتا تو اسے بہت دکھ ہوتا. 

          منٹو کے دوستوں اور نقادوں کا خیال تھا کہ اس کی زندگی ایک مستقل عذاب تھی اور موت نے اس کو اس عذاب سے نجات دلادی لیکن وہ زندگی سے پوری طرح لطف اندوز ہوتا تھا اور اس نے شجرِ ممنوعہ کے ہر گوشے سے زندگی کا رس نچوڑ تھا. 

          اس کی تحریریں دنیا جہاں کی گندگیوں سے آلودہ ہوتی تھی لیکن وہ خود ایک صاف ستھرا آدمی تھا. اس کی عادتیں بڑی پاک صاف تھیں. (احمد شجاع پاشا) صفائی، باقاعدگی اور عمدگی اس کے مزاج کا خاصہ تھیں. وہ لاابالی پن، پھوہڑپن جو اکثر ادیبوں کے گھروں میں ملتا ہے منٹو کے ہاں نہیں تھا. منٹو کے گھر میں کوئی بات ٹیڑھی نہیں تھی. صرف اس کی سوچ ٹیڑھی تھی مگر اس میں بھی ایک واضح ترکیب تھی.(کرشن چندر)

           مختصر اردو افسانے میں تقلیل اور اختصار کے عمل کا آغاز منٹو سے ہوتا ہے. (انیس ناگی) اس کے افسانوں کے رنگ عجیب ہوتے تھے. ان کی تراش نرالی ہوتی تھی. اس کے استعارے اچھوتے ہوتے تھے. ان میں شعریت اور شفقی اوصاف نہیں ہوتے تھے. وہ ادب میں حسن نہیں اقلیدس کا قائل تھا. ہر چیز نپی تلی رکھتا تھا. وہ اپنے استعاروں کے مفہوم، تاثر اور حدود اربعہ سے بخوبی واقف تھا اور لاشعوری حسن سے نہیں، ایک متعین ترتیب اور جیومیٹری کی اشکال سے تاثر پیدا کرنا چاہتا تھا اور اکثر رومانیت پسندوں سے کہیں زیادہ کامیاب رہتا تھا. (کرشن چندر)

          اس کی بیشتر تخلیقات عظیم بشریت کے نصب العین پر پوری اترتی تھیں اور اپنی سادگی اور سچائی اور تلخی کے اندر ایک شعری حُسن کی نمو رکھتی تھیں جس کے حصول کے لئے انسان کا سینہ آج تک ترس رہا ہے. (کرشن چندر)

          خاص طور پر جنسیات کے مسئلے پر جس بیباکانہ انداز میں منٹو نے قلم اٹھایا تھا، ہمارے ادب میں اور ہندی ادب میں اور مراٹھی، گجراتی، بنگالی زبان کے تراجم میں اور دوسری زبان میں بھی اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے. منٹو نے پہلے تو شرم اور شرم کے خول اکھاڑے ہیں پھر غلاظت کو صاف کیا ہے اور پھر اصل موضوع کو صابن سے دھو کر اتنا چمکایا کہ آج ہم میں سے ہر شخص جنس کی اہمیت، اس کی پیچیدگیوں، اس کے گوناگوں تاثرات سے بخوبی واقف نظر آتا ہے. اس جنسی تعلیم کے لیے ہم بڑی حد تک منٹو کے معترف ہیں. یہ تعلیم اس نے اپنی جوانی اور اپنی صحت کو خطرہ میں ڈال کردی ہے. (‌کرشن چندر) 

          سچائی کی تلاش میں وہ کیچڑ کے اندر گٹھنوں گٹھنوں تک دھنس گیا. اس کے کپڑے ضرور آلودہ ہو گئے لیکن اس کی روح کبھی میلی نہیں ہوئی اس کے افسانوں کے اندر چھپا چھپا کرب اس کا گواہ ہے. وہ عورت کی عزت کا، اس کی عصمت کا اور اس کے گھریلو پن کا جس قدر قائل تھا کوئی دوسرا مشکل سے ہوتا. اس لیے جب وہ عورتکی عزت کو جاتے ہوئے دیکھتا، اسے اپنا ناموس کھوتے ہوئے دیکھتا، اس کے گھریلو پن کو مٹتے ہوئے دیکھتا تو وہ بے قرار ہو جاتا اور بے تاب ہو کر جاننا چاہتا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور جب وہ ہر بار اپنے مشاہدے کو بروئے کار لا کر ایک ہی تسلسل کو، ایک ہی ترتیب کو، سماج کے ایک ہی نظام کو دیکھتا تو وہ غصے میں آکر اسے تھپڑ مارنا چاہتا. منٹو اپیل کا قائل نہیں تھا. وہ ڈرانے اور تھپڑ مارنے کا قائل تھا. اس کے ہر افسانے کے آخر میں ایک طمانچہ ہوتا تھا جو پڑھنے والے کے منہ پر اس طرح پڑتا تھا کہ قاری بھنّا کر رہ جاتا تھا اور منٹو کو صلواتیں سنانا لگتا تھا مگر منٹو اس طمانچے سے کبھی باز نہیں آیا جسے بہت سے نقاد منٹو کی اذیت پسندی کہتے تھے. اس کی وہ اذیت پسندی، اذیت پسندی نہیں بلکہ اس کی زخمی انسانیت کی ایک بدلی ہوئی صورت تھی اور یہی چیز آپ کو منٹو کے اطوار وگفتار، اس کی تخلیقات، اس کے قول و فعل میں ہر جگہ دکھائی دے گی. (کرشن چندر)

          وہ معاشرے کے ابنارمل کرداروں کو خصوصی طور پر قابلِ توجہ سمجھتا تھا. ان کی ذہنی اور نفسیاتی کمزوریوں کو ہمدردانہ انداز میں دیکھتا تھا اور انہیں مجرم سمجھنے کی بجائے ان کی انسانیت کو واضح کرنے کی کوشش کرتا تھا. (ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا) وہ ہمارے ان افسانہ نگاروں میں سے تھا جنہوں نے اردو افسانوں کو رومانیت کی دھند سے نکالا اور اسے حقیقت نگاری بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بے رحم حقیقت نگاری کے عنصر سے باثروت کیا. (تحسین فراقی)

          منٹو اپنے افسانوں میں سیدھے سادے، روزمرہ کے بول چال کے جملوں سے ایسی مثال اور تشبیہ سے، جو دوسروں کی نظر میں بالکل حقیر اور بے حیثیت تھیں، اور ایسے چلتے ہوئے فقروں سے جن میں سنجیدگی اور متانت کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا، گہری سے گہری، سنجیدہ سے سنجیدہ اور مؤثر سے مؤثر بات کہنے کا کام لیتا تھا. (سید وقار عظیم) 

          منٹو اپنے طرز احساس کے اعتبار سے ایک ارتقائی نقطہ ء نظر کا حامی تھا اس لیے اس نے انسان، جنس اور سماج کی تثلیث کو اپنی تحریروں کا محور بنایا. لہذا اس نے جہاں جنسی حقیقت نگاری اور سیاسی ابتری کی المناک منظر نگاری کی وہاں انسانی نفسیات کا بھرپور مطالعہ کرکے اس کے اندر کی خلا کو بھی پر کرنے کی کوشش کی. 

          کلرک، مزدور، طوائف، رندِخرابات، زاہدِ پاکباز، کشمیر یا بمبئی، دہلی، لاہور، فلم اسٹوڈیو، کالج، بازار، گھر، ہوٹل، چائے خانے، بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں، مرد اور ان سب کی ذہنی الجھنیں اور ان ساری چیزوں سے بڑھ کر جنس اور اس کے گوناگوں مظاہر منٹو کے موضوعات تھے. (سید وقار عظیم) 

          منٹو کی تحریریں بے حد شور مچاتی تھیں. اس کی نثر پڑھ کر یوں لگتا تھا جیسے کوئی سازندہ اکارڈین رکھ کر کنستر بجا رہا ہو. منٹو اپنے تحریروں میں شدتِ احساس پیدا کرنے کے معاملے میں اور ہوگیا تھا. ہم عصر افسانہ نگاروں سے زیادہ نمایاں ہونے کے جنون میں اس نے لفظوں کی جگہ گالیاں برت ڈالی تھیں.(شاہدہ ناز) اس کے چند افسانے ہمارے ادب کے بہترین افسانوں میں شمار کیے جا سکتے ہیں لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اس کے بعض افسانے خراب ہیں. (سجاد ظہیر) دنیا کی ہر چیز کی طرح منٹو نہ اچھا ہے اور نہ محض برا. (سید وقار عظیم) 

          بحیثیت افسانہ نگار منٹو کے وژن کا سب سے اہم پہلو یہی تھا کہ کہانی کےڈھانچے کی تعمیر میں سب کام کرنے والے کسی مذہب یا اس کی بنیاد میں شامل کسی بھی لفظ پر وہ اپنی ذات کو مسلط نہیں کرتا تھا. ہر شئے، ہر اسم، تصویر کے ہر نقطے اور ہر لکیر کی اپنی حیثیت کا تعین وہ اس طور پر کرتا تھا کہ اس کی اپنی شخصیت کبھی ان پر غالب نہیں آتی تھی. (شمیم حنفی) 

          وہ جو کچھ بھی کہنا چاہتا تھا اس کا کسی تکلف یا تمہید کے بغیر فوراً آغاز کر دیتا تھا. وہ سادہ گو اور سادہ بیان تھا لیکن اس کے ہاں کہانی کا مرکزی کردار اتنا جاندار، اتنا پرتاثیراور سچا ہوتا تھا کہ قاری کہانی کے بہاؤ کے ساتھ بہنے پر مجبور ہو جاتا تھا. (سید سرفراز احمد) 

          وہ عظیم افسانہ نگار تھا. فنِ افسانہ نگاری کے تمام اسرار و رموز پر اس کی پوری پوری گرفت تھی. اسے افسانے کی ایک ایک سطر پر بھرپور داد ملتی تھی. سامعین اس کا افسانہ سن کر واہ واہ کی صدائیں بے ساختہ بلند کرتے تھے. جس طرح مقبول شاعر مشاعروں کو اپنی شاعری سے لوٹ لیتے ہیں اس طرح منٹو بھی افسانہ سنا کر ادبی نشست کو لوٹ لیا کرتا تھا. اس جیسا افسانہ نگار اردو زبان کو شاید ہی اب نصیب ہو. (حبیب جالب)

          لوگ کہتے ہیں منٹو شراب بہت پیتا تھا لیکن میں اسے تسلیم نہیں کرتا. میں اس منٹو کو جانتا تو ضرور ہوں جو شراب پیتا تھا لیکن مجھے اس منھ پھٹ، بے لگام اور انا پرست، بے لحاظ منٹو کے پیچھے جو شراب پیتا تھا، اصلی منٹو بھی نظر آتا تھا جو انتہائی کمزور، انتہائی نرم و نازک جذبات سے معمور نظر آتا تھا. اس منٹو کو بہت کم لوگ جانتے تھے لیکن جو اس کو جانتے تھے انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ منٹو کی اصل صورت ہی یہ تھی. اس کی بیباکی، بے لگامی اور اکھڑ پن اسی چیز کی بازگشت تھی. جن لوگوں نے اسے بہت قریب سے دیکھا تھا انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ تھوڑی سی کوشش کے بعد اس کے اندر جھانک کر دیکھا جائے تو محض چھلا چھلایا، نرم و نازک اور بالکل بے بس و بے کس آدمی نظر آتا تھا. (حمید اختر) 

          وہ طبعی موت نہیں مرا. اسے مار ڈالا گیا اور اسے مارنے والوں میں سب سے بڑا ہاتھ اس کے دوستوں کا تھا. اچھے اور برے دونوں قسم کے دوستوں کا. برے دوستوں نے اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اس کی دشمنی کے لیے اسے مل کر برباد کرتے رہے اور اچھے دوستوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرکے مارڈالا. (حمید اختر)

          18 جنوری 1955 کو منٹو انتقال کر گیا ہے اور اسے میانی صاحب قبرستان میں دفن کردیا گیا. (یوسف ظفر) جی چاہتا ہے وہ کچھ اور جی لیتا. اسے کہانی کی ضرورت نہ سہی مگر کہانی کو اس کی ضرورت تھی. (یونس جاوید)


یہ تحریر بھی آپ کے ذوقِ مطالعہ کی منتظر ہے: 🔽
ایک حقیقی شاعر، فرحان دلؔ



Tuesday, January 03, 2023

خاکہ: ایک حقیقی شاعر: فرحان دلؔ

ایک حقیقی شاعر : فرحان دل

ازقلم: طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں 




          فرحان دل صرف دیکھنے میں ہی شاعر نظر نہیں آتے بلکہ وہ حقیقتاً شاعر ہیں. وہ نہ صرف شاعر ہیں بلکہ بڑے غضب کے شاعر ہیں. شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کے قدردانوں میں اچھے اچھوں کے نام آتے ہیں. میں نے تو بہت سارے ایسے لوگوں کو بھی فرحان کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے جو مالیگاؤں کی شاعری کو دوسرے درجے کی چیز سمجھتے ہیں. فرحان دل کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ وہ جس طرح نکلتے قدوقامت کے ہیں ان کا کلام بھی انہی کی طرح ذرا نکلتا ہوا ہی ہوتا ہے.

          خاص طور پر ان کی طویل ترین غزلیں اور نظمیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں. وہ اپنے کلام کو مشاعروں میں بھلے ہی اس ڈرامائی انداز میں پیش نہیں کر پاتے جتنا لوگ کر لیا کرتے ہیں لیکن کاغذ پر شائع ہونے والے ان کے کلام پر پڑھنے والے سر ضرور دھنتے ہیں.

          شاید یہی وجہ ہے کہ نثر نگاری کی صلاحیت رکھنے والے فرحان دل کو جب نثری انجمنوں میں خاطر خواہ پذیرائی ہوتی نظر نہیں آئی تو انہوں نے نثری پروگراموں سے اجتناب کرنا شروع کردیا.

         وہ آج کل شاعری کا ایک واٹس اپ گروپ دبستانِ سخن چلا رہے ہیں جس میں روزانہ ایک مصرعہ دیا جاتا ہے اور اس مصرعہ پر گروپ میں شامل اراکین اور ایڈمن کی جانب سے فی البدیہہ اشعار موزوں کیے جاتے ہیں. اگر شعر میں کوئی سقم ہو، بحر میں کوئی نقص ہو یا لفظوں کا غلط استعمال ہوا ہو تو دوستانہ ماحول میں اس پر گفتگو کی جاتی ہے.

          فرحان دل نہ صرف خود اپنا وضع کردہ مصرعہ دیتے ہیں بلکہ دوسرے شعرائے کرام کے مصرعوں کو بھی ان کے نام اور بحر و ردیف و قافیہ کی وضاحت کے ساتھ دبستانِ سخن میں پیش کرتے ہیں. 

راقم کو بھی اس گروپ کا رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے.

          یہی وجہ ہے کہ اس موقع پر میں یہ بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جس شاعر پر متشاعر ہونے کا شک ہو اسے اس گروپ میں شامل کردیں.

          فرحان دل کے دبستانِ سخن میں اس کی ساری قلعی کھُل جائے گی کیونکہ وہاں فرحان دل جیسے سچے شاعر، شکیل میواتی جیسے پکّے شاعر، شکیل انجم جیسے اچھے شاعر کی موجودگی میں اسے کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی پڑے گا اور جیسے ہی وہ کچھ کہے گا، خود اس کی اور دوسرے لوگوں کی سمجھ میں آجائے گا کہ وہ کتنا بڑا فنکار ہے؟

          فرحان دل فیبریکشنر بھی ہیں. ناولٹی فیبریکشن کی اپنی شاپ سے رزقِ حلال کشید کرتے تھے. لفظوں کو جوڑ جوڑ اشعار کی شکل دینے والے اس شاعر نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اسے لوہے، اینگل اور پتھروں کو توڑ جوڑ کر کھڑکی، دروازے، ٹیبل، اسٹول اور دیگر چیزیں بنانی پڑیں گی. 

          اس کام سے پہلے فرحان ریڈیم کٹنگ کے ذریعے لوگوں کی گاڑیوں کو خوبصورت عطا کیا کرتے تھے نیز وہ موبائل لیمیشن کا کام بھی نہایت خوبصورتی سے کیا کرتے تھے. 

          اگر آپ کسی سچے فنکار سے ملنا چاہتے ہیں تو ایک مرتبہ فرحان دل سے ضرور ملاقات کریں. یقینا آپ کو ان سے مل کر دلی مسرت کا احساس ہوگا اور آپ ان کے اشعار پر داد دیئے بغیر نہیں رہ سکیں گے. 

          حالانکہ راقم آج کل اپنے احباب کے ساتھ کوشش میں ہے کہ فرحان دل کو نثری انجمنوں سے بھی مربوط کیا جائے کیونکہ میں نے ان کی ان بیاضوں کو دیکھا ہے جن پر افسانے تو افسانے، ناولٹ اور طنزومزاح پر مشتمل مضامین بھی موجود ہیں لیکن ان کی یہ صلاحیتیں عوام و خواص دونوں کی نظروں سے مخفی ہیں. 

          اگر ہم لوگ کامیاب ہوگئے تو یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل میں ایک اچھے شاعر کے علاوہ ایک اچھے نثرنگار کا استقبال مالیگاؤں کا اردو ادب کرسکتا ہے اور یہ استقبال ہونا ہی چاہئے.


یہ تحریر بھی آپ کے ذوقِ مطالعہ کی داد چاہتی ہے. 🔽

ایک انسان فنکار: احمد عثمانی



 



Monday, December 26, 2022

مضمون : ایک انسان فنکار، احمد عثمانی

*ایک انسان فنکار: احمد عثمانی*

تحریر: طاہرانجم صدیقی (مالیگاؤں)


         شہر مالیگاوں پیشتر شعرا نے جہاں پوری اردو دنیا میں اپنے شہر کا نام روشن کیا وہی افسانہ نگاروں بے بھی اردو کی نئی پرانی تمام بستیوں کو اپنے قلم کے ذریعے مالیگاؤں سے متعارف کرایا ہے. مذکورہ افسانہ نگاروں کی صف میں نشاط شاہدوی، سلطان سبحانی، سجاد عزیز، عرفان عارف، شبیر ہاشمی، خیال انصاری، خان انعام الرحمن اور مجید انور وغیرہ کا نام جتنی اہمیت رکھتا ہے اتنا ہی اہم نام احمد عثمانی صاحب کا بھی ہے. 
           احمد عثمانی شہر مالیگاوں کی اس ادبی شخصیت کا نام ہے جس نے نہ صرف افسانے لکھے بلکہ ناول اور بچوں کی کہانیاں تخلیق کرنے میں بھی پیچھے نہیں رہے. افسانے انہوں نے جہاں عام سے لکھے وہی علامتی، تمثیلی، اور تجریدی افسانے بھی لکھے اور اردو کے افسانوی ادب میں اپنے حصے کے جواہرات شامل کیا. اپنی اہمیت کا احساس دوسروں کے دلوں میں پیدا کیا اور ایک ادیب کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی. 
           ان کی بنی ہوئی شناخت کے سبب ہی جب میں ان سے پہلی مرتبہ افسانہ نگار کی ہے حیثیت سے ملا تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ وہی احمد عثمانی ہیں جنہوں نے "رات کا منظر" ، "اپنے آپ کا قیدی" اور "اپنی مٹی" جیسے افسانوں کے مجموعے اردو ادب کو بخشے ہیں. 
           گہری گندمی رنگت، پیشانی پر تفکر کے نشانات، بولنے میں تھوڑے سے تیز رفتار مگر اچانک ہی جملے کو درمیان سے  توڑ دینے کے عادی، جملے کی تکمیل پر بعض اوقات اوپری تالو سے زبان رگڑ کر کسی نامعلوم ذائقے کے متلاشی اور سفاری سوٹ میں ذرا سے دبتے قد والے اس انسان سے مل کر قطعی طور پر مجھے محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اتنے بڑے ادیب ہیں بلکہ احمد عثمانی صاحب سے گفتگو کے دوران صاف طور پر یہ احساس اپنا سر اٹھا رہا تھا کہ اس وقت احمد عثمانی صاحب اپنی شناخت اور اپنی عظمت کی اونچی کرسی سے اتر کر میری اپنی سطح پر، خود میرے اپنے سامنے اور میرے ساتھ کھڑے ہیں. 
           بالکل عام سا لہجہ، سیدھے سادے الفاظ، باتوں میں کوئی الجھاؤ نہیں، گفتگو میں کوئی خورد برد نہیں. ان کی باتوں سے لگتا تھا جیسے ان کے دل و ذہن اور زبان کے درمیان کوئی بھی چیز حائل نہیں ہے ورنہ ان کی سطح کے کچھ ہی ادیب ہوں گے جو نئی نسل کے ایک نوجوان افسانہ نگار سے اس قسم کا برتاؤ کر سکیں کیونکہ ان کی باتوں سے، ان کی حرکات سے یا پھر ان کے رکھ رکھاؤ سے کہیں نہ کہیں ان کے عظیم فنکار ہونے کی بو آہی جاتی ہے مگر احمد عثمانی صاحب تو بڑے ہی خلوص کے ساتھ پیش آئے اور انہوں نے اپنے برتاؤ سے مجھے جتنی عزت بخشی اس سے کہیں زیادہ عظمت وہ اپنے لئے میرے دل میں بنا گئے. 
          اتنے پرخلوص اتنے ملنسار اور اسے سیدھے سادے احمد عثمانی صاحب کی تخلیقات کی دنیا میں جب ہم  داخل ہوتے ہیں تو پھر وہ کہیں بھی سمجھو تہ نہیں کرتے. مسلسل اپنی فنکاری کا اظہار کرتے چلے جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان کے فن کا کوئی سرا بھی ہمارے ہاتھ آ نہیں پاتا اور وہ آگے بڑھ جاتے ہیں.
          احمد عثمانی صاحب نے جہاں ترقی پسندوں کا ساتھ دیا وہیں جدیدیت کی تحریک سے بھی آشنا رہے. یہاں تک کہ مابعد جدیدیت کی لہر سے بھی وہ واقف رہے ہیں اور اپنے گرد و پیش ہونے والی تبدیلیوں پر نگاہ رکھ کر انہوں نے ان سے بھرپور استفادہ کیا ہے. نیز اس استفادے سے اپنے فن کو پختگی عطا کی ہے تاکہ تادیر ادبی دنیا میں ان کے فن کی روشنی پھیلی رہے اور یہ سچ بھی ہے کہ اسی ادیب کا تخلیق کردہ ادب صدیوں تک زندہ رہا ہے جس نے زمانے کے تغیر کے ساتھ اپنے فن میں بھی تبدیلیاں پیدا کرکے اسے زمانے کی ضرورت کے مطابق استعمال کیا ہے. 
          اس لیے احمد عثمانی صاحب کے ناول "زندگی تیرے لیے" اور بچوں کے ناولٹ "نوٹ کے پودے" کے بعد ان کا افسانوی مجموعہ "قفس"بھی منظر عام پر آ چکا ہے. اس موقع پر مجھے اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ یقینا مذکورہ مجموعے میں شامل افسانے بھی آج کے مسائل سے ضرور آنکھیں ملائیں گے اور ان کی ضرورتوں کو بھی ضرور پورا کریں گے. 
          قفس کے ساتھ مری نیک خواہشیں طاہر قفس کے بعد بھی اِک عزم ان کا شہ پر ہو
          مذکورہ بالا تمام سطور "قفس" کے اجرا کی تقریب میں میں نے احمد عثمانی صاحب کے سامنے پڑھی تھیں مگر اب ان سطور کو لکھ رہا رہا ہوں تو احمد عثمانی صاحب اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں. آج رات ہی ان کی تدفین عمل میں آئی ہے.
          قفس کے بعد بھی وہ رکے نہیں، وہ تھکے نہیں، وہ نچلے نہیں بیٹھے بلکہ لکھتے رہے اور مسلسل لکھتے رہے حتی کہ شہر مالیگاؤں میں منعقد ہونے والی بیشتر افسانوی نشستوں شریک ہوکر اپنے افسانے بھی سناتے رہے. افسانہ نگاری کی نئی نسل کو راہیں دکھاتے رہے. حوصلہ دیتے رہے. نیز ماہنامہ بیباک کے مدیر ہارون بی اے صاحب نے اپنی علالت کے بعد ماہنامہ بیباک کی ادارت کی جو ذمہ داریاں ان کے کاندھوں پر ڈالی تھیں وہ  اسے اخیر وقت تک سنبھالے رہے اور باقاعدگی سے "بیباک"جیسا ادبی رسالہ ہر ماہ نکالتے رہے.
          اب "زندگی تیرے لئے" احمد عثمانی صاحب جیسا "اپنے آپ کا قیدی" "رات کا منظر" چھوڑ کر "قفس" توڑ" کر" اپنی مٹی" میں دفن ہوچکا ہے. صرف اس فنکار انسان کی یادیں،  باتیں اور الفاظ ہمارے درمیان زندہ ہیں. ایسے موقع پر اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس" فنکارانسان" کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے. آمین!



یہ بھی پڑھیں :