*پُنّے مِیاں کا چاند*
ازقلم: طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں، انڈیا
ہمارے ننھے سے پُنّے میاں ان دنوں چرچا میں تھے. چرچا کا سبب تھا چاند. چاند بھی ایسا ویسا نہیں. رمضان کا چاند تھا. پُنّے میاں جانتے تھے کہ اس چاند کے دکھائی دیتے ہی کھانے کے ہوٹلوں اور چائے خانوں کو اچھی طرح سے پردہ کرایا جاتا ہے اور شیاطین بند کر دیے جاتے ہیں لیکن پنّے میاں کا منہ کسی بھی حال بند ہونے کو تیار نہیں تھا. ان کو اس مرتبہ شوق چرایا تھا چاند دیکھنے کا. حالانکہ ان کو گھر کا چاند تک دھندلا دکھائی دیتا تھا.
ان کے چاند نے ان کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا.
"دیکھو جی! یہ چاند واند کا چکر چھوڑو! بیس اور دو سو کے نوٹوں کا فرق تو تم سمجھتے نہیں ہو..... باریک سے چاند کو کیسے دیکھو گے؟
پنّے میاں ہتھے سے ہی اکھڑ گئے.
" دیکھ گڈو کی امّاں! نوٹ کی بات مت کر....... اتنی واہیات نوٹ چھاپی ہے جہاں پناہ نے کہ بس اللہ کی پناہ! اب بھلا بتاؤ...... کہاں پرانا سو کا نوٹ اور کہاں یہ نیا؟ مجھ کو تو یہ پرانا نوٹ نئے سو کے نوٹ کے سامنے ہاتھی کے کان جیسا لگتا ہے. اور یہ نیا دس کا نوٹ...... اونہہ...... ایسا لگتا ہے جیسے ساڑھے چار روپے بارہ آنے کا نوٹ ہے.......بات کرتی ہے نوٹ کی......."
"اور وہ دوہزار کا نوٹ...... اس کی بھی کچھ سنادو......"
" او پپّو کی نانی! وہ نوٹ کسی بچے کو تھما کر دیکھ..... دو کے چار نہ کر دے تو صاحب علی خان نام نہیں میرا.......ہمارے زمانے میں ایسے نوٹ بچوں کے دل بہلانے کو استعمال ہوتے تھے لیکن اب تو دل دہلاتا ہے یہ نوٹ."
"بچوں کی تو بات ہی مت کرنا جی........ خود تمہیں پچھلی عید کی چاند رات کو دو ہزار کا نوٹ......... "
" او..... رک میری چاندنی بیگم! رک ذرا....... چاند رات پر سے یاد آیا کہ مجھ کو اب کی مرتبہ رمضان کا چاند دیکھنا ہے. تو مجھ کو باتوں کے کھلونوں میں مت بہلا..... اس بار میں کسی کی سنوں گا نہیں ہاں. بس چاند دیکھوں گا مطلب چاند دیکھوں گا."
"میں کہتی ہوں تم گڈو کو گڑیا سمجھ کر بلاتے ہو اور گڑیا کو گڈو جان کر چلّاتے ہو......تم کہاں باریک سا چاند دیکھنے پر اڑے ہو....... ضد چھوڑو جی........"
"منی کی دادی! جب میں نے تجھ سے کہہ دیا نا کہ چاند دیکھوں گا تو بس دیکھوں گا."
" ہاں بابا! جاؤ سورج دیکھو...... چاند دیکھو....... اور دیکھ لینا تو مجھ کو بھی دکھا دینا."
"اے لو کر لو بات!....... پیر خود محتاج ہے شفاعت خاک کرے گا......"
"اسی لیے تو کہہ رہی ہوں جی کہ موئے چاند کا فراق چھوڑو."
"نہیں چاندنی بیگم نہیں! کم سے کم تو تو نہ روک چاند دیکھنے سے.......تجھے معلوم ہے کہ چاند دیکھنے سے بھی ثواب ملتا ہے."
اتنا کہتے کہتے پُنّے میاں نے اپنے جیبِ خاص سے پان کی ڈبیا نکالی اور بیگم کے ذریعے لگائے گئے پانوں کی تہوں میں سے ایک پان منہ میں رکھ لیا.
ان کی بیگم فوراً سمجھ گئیں کہ پُنّے میاں نے توپ کے دہانے میں گولہ داخل کر دیا ہے. اب ان کے سامنے ٹکنا موت کو دعوت دینے جیسا ہے.
"ہاں آئی گڑیا..... ابھی آئی"
کہہ کر پُنّے مِیاں کو جُل دے گئیں. اب یہ الگ بات ہے کہ اس وقت تو گڑیا گھر میں تھی ہی نہیں.
پُنّے مِیاں توپ کا دہانہ کھولے چاندنی بیگم کو جاتے ہوئے دیکھتے رہ گئے.
تھوڑی دیر بعد وہ گھر سے نکلے تو ایک دوست ان کے ہتھے چڑھ گئے.
"اماں سنو یار! شفیق! کہاں بھاگے جا رہے ہو تم! آج رمضان کی چاند رات ہے. کچھ خبر وبر ہے. تم کو آج چاند واند دیکھنا ہے کہ نہیں؟"
"نہیں یار پُنّے! چاند کہاں دکھائی دیتا ہے اب مجھے!"
"ہاں! ٹھیک ہے تمہاری نظر کمزور ہے لیکن انتیس کا چاند دیکھنے کا جو ثواب ہے اس سے کیوں ہاتھ دھونا؟...... چاند دیکھنا چاہئے تم کو."
"پُنّے مِیاں! تم تو میری نظر پہ یوں تبصرہ کررہے ہو جیسے آج بھی سوئی میں دھاگہ پرو لیتے ہو"
"اَمَاں میاں شفیق! ناراض کیوں ہوتے ہو؟ نظر تو ہماری بھی کچھ بہت اچھی نہیں ہے."
پُنّے مِیاں نے رازدارانہ انداز سے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں کوئی سن تو نہیں رہا ہے؟ اور پھر اپنی بات جاری رکھی.
" دیکھو یار شفیق! میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کم از ہم چاند دیکھنے کی اداکاری تو کر سکتے ہیں نا؟ تو ہم کو چاند دیکھنا چاہئے....... ہاتھ آئے ثواب سے کیوں ہاتھ دھونا......سمجھے."
"ہاں بھئی! سمجھ گیا......ہم دیکھیں گے چاند...... آتا ہوں شام کو."
"اپنی مسجد والی چوک پر ہی آنا."
پُنّے مِیاں نے سمجھانے کے سے انداز میں کہا اور آگے بڑھ گئے.
اس روز پُنّے مِیاں کی حالت دیدنی تھی. وہ سارا دن سیماب پا رہے. پھرکی طرح ادھر ادھر گھومتے رہے. اپنے یار دوستوں کو چاند دیکھنے کی دعوت دیتے رہے اور یہ سلسلہ کچھ ایسا چلا کہ شام کو جب لوگ باگ چاند دیکھنے جمع ہوئے تو سارا محلہ جان چکا تھا کہ آج پُنّے مِیاں چاند دیکھنے والے ہیں.
بچوں کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا. وہ ہر کس و ناکس سے ٹکراتے، پوچھتے پھر رہے تھے کہ چاند کب دکھے گا؟ نوجوان الگ الگ ٹولیاں بنا کر گپیں لڑاتے کھڑے تھے. بزرگوں میں پُنّے میاں بار بار آسمان کی جانب دیکھ رہے تھے. مارے جذبات کے انہوں نے شمالاً جنوباً بھی نظر دوڑا دی تھی کہ مبادا چاند کہیں ادھر سے نہ جھانک لے. وہ پان پہ پان چباتے جاتے تھے اور باتوں کے گولے داغے جاتے تھے مگر کم بخت چاند بھی جیسے ٹھانے بیٹھا تھا کہ "اب کی بار نو دیدار!"
لوگ باگ مچل رہے تھے. بچے پنجوں پر اچھل رہے تھے مگر چندا ماما بھلا کب نکل رہے تھے؟ وہ تو کہیں دبکے بیٹھے تھے کہ اگر ایک طبقہ دیکھ لے اور ایک فرقہ نہ دیکھے تو تفرقہ پڑجائے. کوئی آج ہی تراویح پڑھائے اور کوئی دن بھر کھائے.
ایسے حالات میں بھی لوگ آسمان پر چاند کو کم، زمین پر پُنّے مِیاں کو زیادہ تلاش کرتے رہے. وجہ تھی ان کا دھنڈورا.
"چاند دیکھوں گا!"
"چاند دیکھنا چاہئے!"
"چاند دیکھ کر ثواب کمانا ہی چاہئے!"
الگ الگ اقوالِ پُنّوی جس تیزی سے لوگوں کے ذہنوں میں گردش کررہے تھے اس سے کہیں زیادہ تیز پُنّے مِیاں کی نظریں گھوم رہی تھیں.
مغرب کی اذان ہو چکی تھی مگر پُنّے مِیاں چاند دیکھ کر ثواب کمانے کے لیے مسجد والی چوک پر ڈٹے رہے. جماعت ختم ہوگئی لیکن پُنّے مِیاں کا ہاتھوں کا چھجہ بنا بنا کر مغربی افق پر چاند کو کھوجنے کا خود ساختہ فریضہ ختم نہیں ہوا.
"وہ رہا چاند!"
"کہاں؟"
"کدھر؟"
پُنّے مِیاں کی نظریں بڑی تیزی سے آسمان کی طرف لپکیں. سبھوں کے ساتھ وہ بھی فلکیات کی خاک چھاننے میں مصروف ہوگئے مگر اچانک ہی
"کھی کھی کھی"
کی آوازوں نے اسے شوشہ ثابت کردیا. ان کا پارہ چڑھ گیا.
"یہ کیا بیہودگی ہے بھئی! اب چاند کو بھی مذاق بناؤ گے تم لوگ!"
چاند دیکھنے والوں میں سے قہقہوں نے سر ابھارا.
"وہ رہا چاند!"
"وہ دیکھو چاند!"
" چاند دِکھ گیا"
جیسے جملوں کی تکرار اور کھی کھی کے ساتھ ادھر ادھر سے قہقہوں کا وہ زور اٹھا کہ پُنّے مِیاں کسے پکڑوں؟ کسے ڈانٹوں کی زندہ تصویر بنے ایک طرف لپکے ہی تھے کہ لڑکھرائے اور دھڑام سے زمین پر آرہے.
لوگ باگ ان کی طرف لپکے. وہ ان کو زمین سے اٹھانا ہی چاہتے تھے کہ پُنّے مِیاں خود ہی اٹھے، کپڑے جھاڑے اور تن کر کھڑے ہوگئے. انھیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ابھی ابھی زمیں بوس ہوئے تھے.
ان کے دوست شفیق کی نظر جیسے ہی ان کے ماتھے پر پڑی وہ بیساختہ ہنسنے لگے. انہوں نے لوگوں کو مخاطب کیا اور ہنستے ہوئے کہا.
"لو بھئی! پُنّے مِیاں کا چاند دیکھو چاند!"
لوگ پُنّے مِیاں کی طرف متوجہ ہوئے. ان کے ماتھے پر ایک بڑا سا گومڑ نکل آیا تھا.
"چاند دیکھو چاند"
کے ساتھ قہقہوں کا وہ زور چلا کہ خدا کی پناہ!
اس کے بعد بہت دنوں تک پُنّے مِیاں جہاں کہیں دکھائی دیتے کسی کونے کھدرے سے "چاند دیکھو چاند!" کا نعرہ ان کے کانوں سے آ ٹکراتا. وہ اول فول بکتے ہوئے کنّی کاٹ جانے میں ہی عافیت سمجھتے.
(ختمۂ جاریہ)
Punne miya ne apne paan khane ki aadat se majboor ho kar akhir kar 29 wan Roza bhi chhod diya
ReplyDelete😃😃😁😁😄😄😀😀🤣😅
🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹🌹
اچھا موضوع سجھایا ہے آپ نے.......
Deleteیہ حکایت صرف رمضان کے چاند تک محدود نہیں ہر اس چیز پر نظر اٹھاتی ہے جو عمرِ دراز کے سبب اکثر ضعیف العمر سے سر زد ہوتا ہے کسی کے لئے باعثِ مزہ تو کسی کے لئے عبرت پنّے میاں فرطِ جذبات میں گر تو گئے مگر انہیں احساس تک نہیں ہوا چوٹ لگنے کا مگر باشعور لوگ اس سے واقف ہوئے اور ایک عمر تک اپنی لئے طنز مزہ کا ذریعہ بنا لیا یہ نہیں سمجھ میں کی لاشعور کیا سمجھے
ReplyDelete1 na rakha
ReplyDeleteBaque acha hai
آج کے دور کو مد نظر رکھتے ہوۓ بہترین طنز و مزاح۔ فرائض کو چھوڑ باقی چیزوں کو افضلیت دینا ہو یا اخیر عمر کی بےبسی
ReplyDelete