Translate ترجمہ

Tuesday, January 31, 2023

حمد : بدی کی جانب اٹھے قدم کو مرا یہ احساس روکتا ہے

حمد 

(طاہر انجم صدیقی) 





 بدی کی جانب اٹھے قدم کو مرا یہ احساس روکتا ہے 

مرے تصور کے روزنوں سے کوئی تو مجھ کو بھی تک رہا ہے 


فلک سے لے کر  زمین تک جن حسیں منا ظر کا سلسلہ ہے 

وہ سارے منظر پکارتے ہیں مصوری کوئی کر رہا ہے 


کوئی تو ہے جو بچھائے سبزے کوئی تو ہے جو کھلائے گلشن 

کوئی تو ہے سخت پتھروں سے بھی کونپلیں جو نکالتا ہے 


زمیں، فلک، چاند، تارے ، سورج سب اپنی اپنی حدوں کے اندر 

کوئی تو ہے جو خلائے تاریک میں سبھوں کو سنبھالتا ہے 


یہ کون دن کو ہے شام کرتا ہے کون شاموں کو شب بنائے؟ 

یہ کون وقت ِ مقررہ پر ہماری صبحیں اُجالتا ہے 


یہ کس نے ہم کو حیات بخشی ہے؟ کس نے اعلیٰ صفات بخشی؟ 

خلیفۃ الارض کہہ کے کس نے جہاں میں اشرف بنا دیا ہے؟ 


اس مناجات کا لطف بھی ضرور اٹھائیں. 🔽


مناجات : بڑی امید بڑی آس لے کے آیا ہوں

 مناجات

(طاہر انجم صدیقی) 




بڑی امید بڑی آس لے کے آیا ہوں 

کرم کا تیرے میں وِشواس لے کر آیا ہوں 


میں نامراد زمانے سے کیا طلب کرتا؟

سوال اپنا تِرے پاس لے کے آیا ہوں 


تیری عطا کے سمندر سے فیض پانے کو 

میں اپنے ہونٹوں پہ پھر پیاس لے کے آیا ہوں 


مسرتوں کا مرے سر پہ کر دے تو سایہ 

سلگتے جسم کا احساس لے کے آیا ہوں 


بلا رہی تھی مجھے حمد کی تری وادی 

غزل کے شہر سے بن باس لے کے آیا ہوں 


مرے خدا مجھے انعام دے رضا اپنی 

ترے قصیدے کا قرطاس لے کے آیا ہوں 



انسان کے نہ ہونے سے دوبارہ زندہ ہونے 

تک کے تذکروں پر مشتمل حمد ضرور پڑھیں. 

🔽

ہم کہیں رہتے نہیں پر ہم کو لاتا کون ہے؟ 



حمد: ہم کہیں رہتے نہیں پر ہم کو لاتا کون ہے؟

  .اپنے رب کی نعمتوں کا شکر ضرور ادا کریں

حمد

طاہرانجم صدیقی 


 ہم کہیں رہتے نہیں پر ہم کو لاتا کون ہے؟ 

عالم ِ ارواح میں ہم کو بناتا کون ہے؟ 


باپ کے نطفے میں شامل کون کرتا ہے ہمیں؟ 

جسم و صورت پیٹ میں ماں کے بناتا کون ہے؟ 


جسم کے باہر کے اعضاء کو تناسب دے ہے کون؟ 

اندرون ِ جسم اعضاء کو سجاتا کون ہے؟ 


بے بسی کی کس کے آگے ہوتے ہیں تصویر ہم؟

روح دیتا کون ہے؟ سانسیں دلاتا کون ہے؟ 


کون پھیلائے رگوں کا جال سارے جسم میں؟ 

اور لہو ساری سانسوں میں ہی پھراتا کون ہے؟ 


پیٹ میں ماں کے سنبھالے کون رکھتا ہے ہمیں؟ 

اور ہم کو ناف سے روزی دلاتا کون ہے؟ 


کون کرتا ہے مقرر ساعت ِ مخصوص کو؟ 

رحم ِ مادر سے ہمیں دنیا میں لاتا کون ہے؟ 


ظلمتوں میں قید ہم کو کون رکھتا ہے جناب؟ 

سوچیئے تو روشنی میں ہم کو لاتا کون ہے؟ 


پیٹ بھر لینے کی طاقت ہم میں جب ہوتی نہیں

دودھ ماں کے سینے سے ہم کو دلاتا کون ہے؟ 


نرم و نازک پھول کی صورت ہمیں رکھتا ہے کون؟ 

اور ہمارے جسم کو پرواں چڑھاتا کون ہے؟ 


ہاتھ پیروں کو ہلانے کا ہنر دیتا ہے کون؟

اور چلنا، دوڑنا ہم کو سکھاتا کون ہے؟ 


ہم کو بچپن کی مسرت کون دیتا ہے جناب؟ 

لطف ہم سب کو جوانی کا دلاتا کون ہے؟ 


زندگی کی راہ ِ سنجیدہ دکھا دیتا ہے کون؟ 

دے ضعیفی اور کمر طاہر جھکاتا کون ہے؟ 


قوت ِ گویائی ہم کو تحفہ میں دیتا ہے کون؟ 

اور ہنر سن لینے کا ہم کو سکھاتا کون ہے؟ 


کون یہ احساس کا سرمایہ کرتا ہے عطا

فرق موسم ، غم ، خوشی کا پھر کراتا کون ہے؟ 


لذتیں محسوس کرنے کا ہنر ہے کون دے؟ 

ہم کو یہ احساس خوشبو کا دلاتا کون ہے؟ 


کون آنکھوں کو عطا کرتا ہے یہ نظارگی؟ 

ہم کو اس دنیا کی رنگینی دکھاتا کون ہے؟ 


ایک مدت تک بچا کر موت سے رکھتا ہے کون؟ 

زندگی کی راہ پر ہم کو چلاتا کون ہے؟ 


کون لفظ ِ کن سے مٹی سے بناتا ہے ہمیں؟ 

اور لفظِ کن سے مٹی میں ملاتا کون ہے؟ 


ہم کو دوبارہ کرے گا کون پیدا خاک سے؟ 

راز یہ قرآن میں ہم کو بتاتا کون ہے؟


کیا آپ اس نعت کو نہیں پڑھیں گے؟ 🔽


Monday, January 30, 2023

نعت : میں ایک اسمِ ضیا بار لکھنے والا ہوں

نعت

طاہر انجم صدیقی




میں ایک اسم ضیاء بار لکھنے والا ہوں 

نبی کے نام کی تکرار لکھنے والا ہوں

ہواؤ! باادب! آئے نہ گرد کاغذ پر 

میں نعت ِ سیّد ِ ابرار لکھنے والا ہوں 

مِرے قلم کا فرشتے طواف کرتے ہیں 

میں ان کی یاد میں اشعار لکھنے والا ہوں 

ستارے آرزو کرتے ہیں لفظ بننے کی 

کہ نعتِ سیّدِ ابرار لکھنے والا ہوں 

چکوریوں نے تخیّل کو میرے آ گھیرا

میں وصفِ چہرۂ انوار لکھنے والا ہوں

مچل رہا ہے خوشی سے مرا قلم طاہر ؔ

میں نعت ِ احمد ِ مختار لکھنے والا ہوں


یہ کلام بھی پڑھیں. نوازش ہوگی. 🔽


Wednesday, January 25, 2023

تجزیہ : "کڑوا تیل" پر گفتگو. افسانہ نگار: غضنفر

 کڑوا تیل

افسانہ نگار: غضنفر

گفتگو: طاہر انجم صدیقی( مالیگاؤں) 



          جب"کڑوا تیل" پڑھنا شروع کیا تو میں سوچ میں پڑگیا کہ"غضنفرصاحب کا نام اردو ادب کا اتنا بڑا نام ہے اور وہ افسانے کے نام پر بچوں کی کہانیوں کی سی باتیں افسانے کے نام پر کیوں پیش کررہے ہیں؟ میں نے اپنے ادبی بچپن سے جس نام کو اردو افسانے کے حوالے سے دیکھا ہے، اس نام سے کولہو کے بیل کی کہانی کیوں پیش کی گئی ہے؟
           مگر جب افسانے کا مطالعہ پورا ہوگیا تومجھے اپنے اندر سے ایک آواز سی اٹھتی محسوس ہوئی ۔
"طاہر! تم ابھی بچّے ہ ہو۔ شاید تمہارے ادبی دودھ کے دانت ابھی ابھی ٹوٹے ہیں !" 
         اور مجھے کہنا پڑا کہ کیا کہانی بُنی ہے جناب غضنفر نے!! 
         بیانیہ چست، جزویات نگاری کمال کی، مکالمے بالکل فطری، منظر نگاری بہترین، جذبات نگاری کا بھی جواب نہیں۔ تکنیک سادہ بیانیہ کی سی لیکن فلیش بیک اور فلیش فارورڈ دونوں عوامل ساتھ لئے ہوئے۔ کردار نگاری ایسی کہ داد دینی ہی پڑے اور کلائمکس ایسا کہ افسانہ ختم ہوا تو کولہو کے بیل سے ہمدردی کے جذبات دل کے اندر زندہ ملے۔ 
         جب غضنفر صاحب "کڑواتیل" میں ایک مکالمہ لکھتے ہیں :
         " اس گھانی کے بعد آپ کی باری آئے گی۔"
تو وہ افسانے کے راوی کو بھی اس ظلم میں شریک کر لیتے ہیں جو کولہو سے جتے بیل پر کیا جا رہا ہے اورافسانے کا ذیل کا جملہ پوری طاقت کے ساتھ ظلم کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے:
       "کولہو کسی پائیدار لکڑی کا بنا ہوا تھا۔"
افسانے میں ظلم و جبر کے تسلسل کی طرف بھی واضح اشارہ موجود ہے۔دیکھیں:
          "بیل جس دائرے میں گھوم رہا تھا اس دائرے کا فرش دبا ہوا تھا ۔کمرے کے باقی فرش کے مقابلے میں اس حصے کی زمین کی سطح نیچی ہو گئی تھی ۔"
          افسانے میں کولہو کے دائرے کی زمین کا نیچے دب جانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بیل کو سونٹے کے جبر سےاس حصے پر اتنی مرتبہ چلنے پر مجبور کیا گیا ہے کہ ہے کہ وہ زمین باقی زمینوں کے مقابلے میں نیچے دب گئی ہے۔
          یہاں پر ایک خاص بات کی طرف دھیان جاتا ہے کہ غضنفر صاحب کے پاس جزویات نگاری کا فن بھی کمال کا ہے۔ وہ جزویات نگاری کے لئے بہت سارے الفاظ خرچ نہیں کرتے بلکہ کم سے کم لفظوں میں اپنی بات بھی کہہ جاتے ہیں ۔ اس بات کا ثبوت "کڑوا تیل " کے ان مقامات سے یکجا کیا جا سکتا ہے جہاں وہ کولہو، کولہو کے بیل ، کولہو سےنکلنے والے تیل ، کولہو کے لئے تیار کئے جانے والے نوجوان بیل اور کولہو کے باہر کی دنیا کی تفصیلات بیان کرتے ہیں۔تفصیلات کیا ہیں ؟ ایسا لگتا ہے جیسے وہ قاری کے ذہن کے اسکرین پر لفظوں سےمتحرک تصاویر بناتے چلے جارہے ہیں۔ ایک مثال دیکھیں:
          "کولہو کسی پائیدار لکڑی کا بنا تھا اور کمرے کے بیچوں بیچ کچے فرش میں بڑی کاری گری اورمضبوطی کے ساتھ گڑا تھا۔ کولہو کی پکی ہوئی پائدار لکڑی تیل پی کر اور بھی پک گئی تھی اور کسی سیاہی آمیز سرخ پتھر کی طرح دمک رہی تھی۔
          اس کا منہ اوکھلی کی طرح کھلا ہوا تھا۔منہ کے اندر سے اوپر کی جانب موسل کی مانند ایک گول مٹول ڈندا نکلا ہوا تھا جس کے اوپری سرے سے جوئے کا ایک سرا جڑا تھا۔جوئے کا دوسرا سرا بیل کے کندھے سے بندھا تھا جسے بیل کھینچتا ہوا ایک دائرے میں گھوم رہا تھا۔
بیل جس دائرے میں گھوم رہا تھا اس دائرے کا فرش دبا ہوا تھا ۔کمرے کے باقی فرش کے مقابلے میں اس حصے کی زمین کی سطح نیچی ہو گئی تھی ۔"
          میں نے خود کبھی کولہو اور اس میں جتے بیل کو گھومتے نہیں دیکھا لیکن افسانے کے اس حصے کو پڑھ لینے کے بعد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کولہو اب میرے لئے کسی اجنبی چیز کا نام بھی نہیں ہے ۔ یہ غضنفر صاحب کی جزویات نگاری کا کمال ہے۔اس قسم کی خوبصورت جزویات نگاری سے افسانہ "کڑواتیل"سجا ہوا ہے جس پر سر دھنتے ہی بنتا ہے اور غضنفر صاحب کے فن کے لئے بیساختہ داددینے کو دل چاہتا ہے.
          "کڑواتیل" میں ایک جگہ لکھا ہے:
          "دانے ڈنڈے سے دب کر چپٹے ہوتے جارہے تھے۔"
          غضنفر صاحب یہاں صرف دانوں کو ہی کچلتا ہوا نہیں بتانا چاہتے ہیں بلکہ یہاں تو وہ بیل کی آزادی، بیل کے حقوق، بیل کی خواہشات کے کچلے جانے کی تڑپ ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور ان دبے کچلے دانوں سے بوند بوند ٹپکنے والا تیل اُس مظلوم بیل سے اپنا مفاد کشید کرلینے والوں کی طرف واضح کرتا ہے۔
          "کڑوا تیل"کا راوی جب کہانی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :
          "لہراتی ہوئی پٹیاں میری آنکھوں پر بندھ گئیں۔"
تو اس کا یہ بیان صرف بیان نہیں ہے بلکہ مظلوم سےایک قسم کی ہمدردی کا احساس ہے۔ یہ احساس افسانے میں کئی بہانوں سے اجاگر کیا ہے۔ راوی کا بیل کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کا سبب پوچھنا، شاہ جی سے تیل نکلنے کے بعد بچ رہنے والے کَھل کو بیل کو کھِلانے کے بارے میں پوچھنا اور پھر بیل کی کمزوری کا اظہار کرکے اسے ریٹائرڈ کرنے کو کہنا افسانے میں اسی ہمدردی کا اظہار ہے جس کے لئے افسانہ بُنا گیا ہے۔
            یہ تو ہوا اس سادی سی کہانی کا معاملہ جو کولہو کے بیل کو مرکز کرکے لکھی ہے۔ اگر ہم اس سے کوئی اور مطلب اخذ نہ بھی کریں تب بھی غضنفر صاحب کے فن کی داد دینی ہی پڑے گی لیکن جب یہی کہانی اپنی علامات کو آشکار کرتی ہے تو پھر دل کہتا ہے شاید اسی لئے غضنفر صاحب کا نام اردو فکشن کے لئے ایک معیار کا نام ہے۔
            "کڑوا تیل" کا مرکزی کردار بیل لاغر ہو چکا ہے۔اس کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ ناک میں نکیل پڑی ہے۔ منہ پر جاب چڑھا ہے۔ بیل جوئے سے بندھا کولہو کے دائرے میں گھوم رہا ہے۔ کبھی اس کا پیر لڑکھڑا جائے تو شاہ جی کا سونٹا لہراتا ہوا سڑاک سڑاک اس کی پیٹھ پر آپڑتا ہے۔ بیل اپنی تلملاہٹ اور لڑکھڑاہٹ دونوں پر تیزی سے قابو پاکر اسی مخصوص دائرے میں گھومنے لگتا ہے۔
            اس افسانے کوپڑھنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ کولہو کا بیل خود میں ہوں جس کو استعمال کرتے ہوئے میرے اپنے خاندان کے لوگ زندگی سے عرق کشید رہے ہیں اور میری آنکھوں پر فرض کی پٹیاں کسی ہوئی ہیں۔ میرے منہ پر ادب و احترام کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ میری ناک میں روایات کی نکیل پڑی ہوئی ہے اور میں سماج میں ہونے والی بدنامی کے سونٹے کی "سڑاک سڑاک" سے خوفزدہ ہو کر کولہو کے بیل کی طرح مخصوص دائرے میں گھوم رہا ہوں جس کے فرش پر کسی چاک کو رکھ کر طاقت کے ساتھ نیچے دبا دیا گیا ہو۔ یعنی گھر سے فیکٹری اور فیکٹری سے گھر۔
            پھر مجھے محسوس ہوا کہ نہیں نہیں یہ تو میرا سیٹھ ہے جو زندگی کا عرق نکالنے کے لئے اپنے کولہو میں مجھے جوتے ہوئے ہے۔ میری آنکھوں پر ضرورت کی پٹی بندھی ہے۔ منہ پر مصلحت کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ ناک میں خاندانی  روایات کی نکیل پڑی ہوئی ہے۔ مستقبل کی فکر کے سونٹے سڑاک سڑاک" میری پیٹھ پر پڑتے ہیں اور میں لوہے کی مشینوں کے گرد ضروریاتِ زندگی کا تیل کشید کرنے کے لئے گھوم رہا ہوں۔ اس تیل سے تو مجھے ایک بوند بھی نہیں ملنے والی۔ نہ ہی بچ رہنے والی کَھل میرے حصے میں آنے والی ہے۔
            پھر دل نے کہا نہیں ایسا بھی نہیں بلکہ یہ تو ہماری قوم کے ملّا ہیں جو اپنے کولہو میں ہمیں جوت کر زندگی سے عرق کشید کرنا چاہتے ہیں اور ہم اعتقاد کی پٹی آنکھوں پر باندھے، احترام کا جاب منہ پر چڑھائے، جہنم کے عذاب کے خوف کی نکیل ناک میں ڈالے، ان کی خانقاہوں سے جتے ان کے بتائے گئے گھیروں میں گھوم رہے ہیں۔ ہمارے نذرانوں کا تیل کشید ہو رہا ہے۔ہمارے پیٹھ پربددعاؤں کے سونٹے لہرا رہے ہیں اور ہم گھومتے جارہے ہیں۔
            پھر محسوس ہوا کہ نہیں یہ تو ہمارے سیاسی لیڈران یا حکمراں ہیں جو اپنے کولہو میں ہماری پوری قوم کو جوتے ہوئے ہیں۔ قوم کی آنکھوں پر ڈر اور خوف کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ منہ پر نقصان کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ ناک میں سرکاری فیصلوں کی نکیل ہے اور ہم ان کی گندی سیاست کے کولہو سے جتےاس دائرے میں گھوم رہے ہیں جسے انہوں نے اپنے سیاسی مفاد کے لئے کھینچ رکھا ہے۔ اگر ہم ذرا سا بھی ڈگمگاتے ہیں تو ہماری پیٹھ پر ان کی چالبازیوں کے سونٹے قہر بن کر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
            پھر محسوس ہوا کہ غضنفر صاحب نے اس افسانے میں محض ایک کولہو کے بیل کی کہانی نہیں بیان کی ہے بلکہ یہ کہانی تو اقوامِ متحدہ کی کہانی ہے جو اپنے مفادات کا عرق کشید کرنے کے لئے دنیا کے زیادہ تر ممالک کو اپنے کولہو میں جوتے ہوئے ہے۔ ان کی آنکھوں پر دھمکیوں کی پٹیاں بندھی ہوئی ہے۔ ان کے منہ پر اقتصادیات کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ ناک میں ملک کی سلامتی کی نکیل پڑی ہوئی ہے۔ منہ پر قرضہ جات کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ مستقبل کی فکر سے بندھے تمام ممالک اقوامِ متحدہ کے کولہو سے جتے ہوئے ہیں اور خوب گاڑھا گاڑھا تیل کشید ہوکر ڈالرس کی قدر میں اضافہ کرتا جارہا ہے۔ کوئی ملک اگر عراق کی طرح بدکتا ہے تو پابندیوں کے سونٹے سڑاک سڑاک اس کی پیٹھ پر پڑنے لگتے ہیں۔ افغانستان کی طرح کولہو کے دائرے سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو اس کی پیٹھ پر افواج کی گنیں، میزائل اور بم سونٹےبن کر سڑاک سڑاک  پڑنے لگتے ہیں اور کولہو سے جتے ممالک کولہو کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ خواہ انھیں کھَل ملے یا نہ ملے۔
          اس لئے نہ ہی میں اس ظلم کے خلاف بغاوت کا اعلان کرکے اپنی مرضی کے مطابق کولہو سے باہر کی آزاد فضا میں سانس لینا چاہتا ہوں۔ نہ ہی مزدوری کے کولہو سے رسی تڑا کر کچھ اور کرنا چاہتا ہوں۔ نہ میری قوم کٹھ ملاؤں کے کولہو سے خود کو آزاد کرانا چاہتی ہے۔ نہ ہم مختلف سیاسی مسائل کی نکیل سے خود کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ نہ ہی دنیا کے ممالک اقوامِ متحدہ کی دادا گیری کی نکیل سے آزاد ہوکر کھلی فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں۔
           سبھی سر جھکائے کولہو کے بیل کی طرح مظلوم بنے گھوم رہے ہیں۔ آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ منہ پر جاب چڑھا ہوا ہے۔ ناک میں نکیل ہے۔ کوئی جو ہم پر ترس کھا رہا ہے۔ ہم سے ہمدردی رکھتا ہےوہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپارہا ہے کیونکہ وہ بھی ضرورت کے کولہو سے بندھا ہوا ہے اور شاہ جی سونٹے پہ سونٹا مارے جارہے ہیں۔ تیل نکلتا جارہا ہے۔ بھلےہی نکلنے والاتیل ہمارے درد اور تکلیف کی بدولت ہمیں"کڑوا تیل" محسوس ہورہا ہو لیکن وہ شاہ جی کے لئے تو بڑا ہی مفید ہے۔
           غضنفر صاحب کی اس سادہ سی کہانی کی علامات کی پرتیں ہر اس ماحول میں کُھلیں گی جہاں کسی مظلوم پر ظلم کرکے فائدہ کشید کیا جارہا ہو اور یہ علامتی کہانی کی خوبی ہی ہے کہ اس کا ایک تاثر قائم نہیں ہوتا۔ الگ الگ قارئین پر ایک ہی علامتی کہانی کا الگ الگ تاثر قائم ہوتا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ افسانے کا ذہین قاری بسا اوقات افسانے میں برتی گئی علامتوں کے پروں سے مفاہیم کی ان سرحدوں کو بھی پھلانگ جاتا ہے جو خود افسانہ نگار کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں ۔حالانکہ کہتے ہیں کہ افسانہ وحدتِ تاثر کی زمین پر اپنی بنیادیں استوار کرتا ہے لیکن افسانے میں برتی گئیں علامات الگ الگ قارئین کو ان کے مزاج و مطالعہ و مشاہدہ و نظریات کی بنیادوں پر جدا جدا مفاہیم ماخوذ کر لینے کی آزادی عطا کرتی ہیں۔ اسے کولہو کے بیل کی طرح محض ایک ہی معنی سے جوتے نہیں رکھنا چاہتیں۔
حالانکہ بعض علامتی کہانیاں اتنی زیادہ الجھی ہوئی ہوتیں ہیں کہ قاری عجیب قسم کی الجھنوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ معنی کا کوئی در اس پر کھُلتا ہی نہیں ہے جبکہ غضنفر صاحب کے اس افسانے کی کہانی میں علامتیں اتنی واضح ہیں کہ قاری ایک خاص معنی نکال ہی سکتا ہے۔یہ کہانی اس کے لئے معمہ بننے کی بجائےایک اچھی کہانی کے طور پر یاد بھی رہے گی۔
٭ختم شد٭

Tuesday, January 24, 2023

غزل : میں ایک لفظِ انا کا ہوا غلام نہیں

 

 غزل 

طاہر انجم صدیقی




 میں ایک لفظ انا کا ہوا غلام نہیں"

مری لغت میں کہیں لفظ انتقام نہیں"


کلام کہنے میں جس کے کوئی کلام نہیں

ادب کی بزم میں اس کا کہیں پہ نام نہیں


ضروری تو نہیں جو بھی ہو میرے پیچھے ہو

مجھے بتاؤ میں فنکار ہوں، امام نہیں


ذرا رکو تو سہی، دوستو! سنو تو سہی

ابھی تو درد کا قصہ ہوا تمام نہیں


 ہے لفظ لفظ اسی ایک شخص سے منسوب

مری کتاب میں جس شخص کا ہی نام نہیں 


جسے بھی دیکھو وہ آنکھیں دکھاتا ہے طاہرؔ

ہمارے ہاتھ میں شمشیرِ بے نیام نہیں


چھوٹی سی یہ نظم اپنے دوستوں سے ضرور شیئر کریں. 🔽

چلو اک کام کرتے ہیں (معرّی' نظم) 



Friday, January 20, 2023

افسانہ مکھیاں

افسانہ


مکّھیاں

(طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں) 


          کالج سے واپسی پراکرم اپنے پُرانے مکان کی طرف سے گزرا۔ اس مکان کے بازو والے خستہ حال جھونپڑے کی چھت اپنے آگے بنائے گئے ٹاٹ کے سائبان میں جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی۔سائبان کے نیچے لگی چارپائی کے اطراف مکّھیاں بھنبھنا رہیں تھیں۔ انھیں دیکھ کر وہ سوچنے لگا.
          ۔۔۔۔۔اتنی ساری مکّھیاں میں نے اور کہاں دیکھی ہیں؟۔۔۔۔۔کچرے کے ڈھیر پر؟۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟ ۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر؟؟؟۔۔۔۔۔جواب ملا کہیں اور۔۔۔۔”
وہ پھر سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔۔کہاں؟؟؟؟۔۔۔۔۔مگر جواب میں بہت سارے سوالیہ نشانات اس کےذہن میں بکھرتے چلے گئے اور اس نے زینو چاچا کی چارپائی کی طرف دیکھا۔
          پہلی نظر میں وہ دکھائی ہی نہیں دئیے۔ ذرا غور کرنے پر ان کا وجود چارپائی سے الگ ہوا اور پھر جھرّیوں کے جال کے ساتھ ننگی چارپائی کی بنت میں استعمال ہونے والی رسّیوں میں کھو سا گیا۔ رسّیاں بھی تو ان کی جلد کی طرح میلی ہو چکی تھیں۔ زینو چاچا اپنے بدن کی طرح لاغر چارپائی میں دھنسے پڑے تھے۔ اُس کے ایک پائے کو اُن کی سانسوں کی طرح باندھ کر جبراً کھڑا کیا گیا تھا۔ دوسرے پائے کو ان کی زندگی کے گراف کی طرح اونچا اٹھانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔
          ان کی ذرا سی حرکت سے ڈھیر ساری مکھیاں بھنبھنانے لگتیں۔ حالانکہ چارپائی کا ضروری حصہ بننے سے پہلے زینو چاچا اپنے کپڑوں پر مکھّی تک بیٹھنے نہیں دیتے تھے۔ سفید کپڑے تو ان کی جان ہوا کرتے تھے۔ قمیص، پتلون ہو یا کرتا پاجامہ ان کا رنگ سفید ضرور ہوا کرتا تھا۔ جوانی میں تو ان کی ٹوپی، رومال، بیلٹ، پین، جوتے اور موزے تک سفید ہوا کرتے تھے۔ وہ تھے تو پاور لوم مزدور مگر جب صبح سویرے اپنے گھر سے کھانے کا ٹفن لئے نکلتے تو ان پر کسی رئیس زادے کا گمان ہوتا تھا. دن بھر پاور لوم سے لوہا لے کر گھر کے تانے بانے سلجھانے کے لئے زینو چاچا اپنے کمزور اور دبلے پتلے بدن کو مشقّت میں ڈالے رہتے۔ شام کو پرندوں کے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ جانے کے ایک آدھ گھنٹہ بعد وہ پاور لوم کارخانے سے تھکے ہارے باہر نکلتے۔
         کپاس کے ذرّات ضرورت بن کر ان کے بالوں سے چمٹے صاف دکھائی دیتے ۔ وہ بیس برس کی عمر میں ہی مکمل بوڑھے نظرآتے لیکن بوڑھے ہو جانے پر بھی جوان بیٹوں نے انھیں آرام نہیں دیا۔ وہ مسلسل محنت مزدوری کرتے رہے اور بیٹے مفت کا لقمہ توڑتے رہے۔
          چھ مہینہ پہلے جب ان کے لئے چارپائی لگائی گئی تھی تب رسّیاں بڑی صاف ستھری تھیں۔ چارپائی بھی تو اچانک ہی لگانی پڑی تھی۔رات آٹھ بجے کے قریب وہ معمول کے مطابق اپنے گھر پہنچے تو باہر ہی سے انہوں نے آواز دی۔
         ’’شہناز!۔۔۔۔۔اے ۔۔۔۔۔شہناز بیٹی!۔۔۔۔۔ذرا پانی دے تو۔۔۔۔۔‘‘
          تھوڑی دیر بعدان کی چھوٹی بہو شہناز بڑبڑاتی ہوئی پانی بھری ٹوٹی بالٹی لائی اور ایک جھٹکے سے رکھ کر کچھ بڑبڑاتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔ انہوں نے ایک گہری سانس لے کرواپس جاتی ہوئی شہناز کو دیکھا اور سوچنے لگے۔
           ’’صرف یہی لوگ تو رہ گئے ہیں ساتھ میں۔۔۔۔۔شریفہ اور نازیہ کی شادی تو میں نے باہر دوسرے شہر میں کردی ہے۔۔۔۔چلو اچھا ہے سکون سے تو ہیں دونوں۔۔۔۔۔مگر یہ سلیم تو شادی کے ایک مہینے بعد ہی گھر سےالگ ہو گیا تھا۔ تب سے وہ ادھر آتا ہی کہاں ہے؟ اور کریم نے بھی تو جاتے جاتے کتنا جھگڑا کیا تھا ؟؟؟۔۔۔۔۔اب رہ گیا یہ علیم! تو یہ بھی کہاں ٹھیک سے بات کرتا ہے۔۔۔۔۔‘‘
           بس اس سے آگے وہ مزید کچھ نہیں سوچ سکے اور دھڑام سے زمین پر گر گئے۔
          گرنے سے کئی ایک جگہ چوٹیں آئیں مگر جب پاس پڑوس کے لوگوں نے انھیں اٹھایا گیا تو پتہ چلا کہ ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔
تب ان کے لئے چارپائی لگادی گئی۔
          اب اُسی چارپائی سے کچروں کے ڈھیر سے زیادہ بدبو اٹھتی تھی اور گندگی سے کہیں زیادہ مکّھیاں ان کے بدن اور چارپائی پر بھنبھناتی تھیں۔ تبھی تو ان کی بہو انھیں کھانا یوں دیتی جیسے کچرے کے ڈھیر پر کچرا پھینک کر بڑی تیزی سے دور چلی جانا چاہتی ہو۔ ان کا اپنابیٹا بھی اُن سے گندگی کے ڈھیر کی طرح کترا کر گزرتا تھا مگر مکّھیاں برابر انھیں گھیرے رہتیں۔
          بالکل غیر محسوس طریقے سے زینو چاچا کا بدن لاغر ہوتے ہوتے مکّھیوں کا حصّہ بنتا چلا گیا۔ کئی مرتبہ آتے جاتے دیکھ کر انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اکرم کو بلایا۔ ہاتھ ہلتے ہی مکّھیوں کی بھبھناہٹ ایک احتجاج بن کر اس کے کانوں تک پہنچی مگر وہ سرد آہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔
          ان سے ملنے ہی کی وجہ سے ان کی بہو بیٹے سے اس کی ان بن ہوئی تھی۔
          اکرم دو ایک دن کے ناغے سے برابر ان سے ملنے جایا کرتا تھا لیکن ایک روز جب وہ زینو چاچا کی چارپائی کے ایک کو نے پر بیٹھا ان سے باتیں کررہا تھا کہ اُس کے والدین خودمعاشی طور پربہت پریشان ہیں۔ ورنہ ان کے لئے علاج کا کچھ انتظام ضرور کرتے اور وہ تو خود ابھی کالج میں ہے۔اس کے پاس کہاں اتنے پیسے کہ وہ ان کی کچھ مدد کر سکے؟ اگر وہ چاہیں تو ان کے بیٹے کو سرکاری دواخانے میں علاج کے لئے لے جانے کو کہہ سکتے ہیں۔ وہ خودبھی ساتھ ہی رہے گا اور ۔۔۔۔۔۔
          مگردرمیان میں ہی چاچا کی بہو اندر سے تلملاتی ہوئی آئی اور برس پڑی ۔
           ’’اے اکرم ! تو مت آیا کر تو یہاں ۔۔۔۔۔‘‘
وہ ہکا بکا ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگا اور اس کی چڑھی ہوئی تیوریاں دیکھتے ہوئے بولا۔
          ’’شہناز بھابھی ۔۔۔۔کیا ہوا ؟۔۔۔۔۔ایسے کیوں بول رہی ہو؟۔۔۔۔۔”
          ” ‎بس بول دی نا ۔۔۔۔۔۔۔نہیں آنا ادھر تو نہیں آنا سمجھے ۔۔۔۔اور اتنی ہی ہمدردی ہے اگر ان سے تولے جا اپنے گھر رکھ سمجھے ۔۔۔۔۔دیکھو جی ! یہ اکرم ابّا کو تمہارے بارے میں کیا کیا بول رہا تھا ابھی۔۔۔۔۔اور میں بول رہی ہوں تو منہ چلارہا ہے مجھ سے۔۔۔۔۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ پیر پٹختی ہوئی گھر میں چلی گئی مگر علیم تیزی سے باہر نکلا ۔
          اسے دیکھ کر اکرم کا خون کھول اٹھا. جینس پینٹ، جینس شرٹ، گلے میں سنہری چین ۔ بائیں ہاتھ میں کڑا ، بال فلمی ہیرو کے انداز سے سنوارے ہوئے اپنے بالوں کو مزید سنوارتے ہوئے کہنے لگا ۔
          ’’سن اےاکرم ! دوبارہ ادھر آیا نا۔۔۔۔۔تو ہاتھ پاؤں توڑ ڈالوں گا. سمجھا کیا؟ ۔۔۔۔۔دکھائی مت دینا ادھر دوبارہ ۔۔۔۔۔سالے لڑائی لگاتا ہے باپ بیٹے میں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
           ’’کیسی لڑائی علیم بھائی ۔۔۔؟ اس نے زینو چاچا کی طرف دیکھا ۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔۔۔اکرم بس اتنا سمجھ سکا کہ اس کا زینو چاچا سے ملنا ان لوگوں کو خراب لگتا ہے ۔
          ’’ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔چلا جاتا ہوں ۔۔۔۔۔نہیں آؤں گا ۔۔۔۔۔۔چلو چاچا ۔۔۔جو غلطی ہوئی معاف کرنا ۔۔۔۔۔‘‘
اس نے جھک کر چاچا سے کہا ۔
          اکرم کی آواز بھرا گئی۔ علیم اندر چلا گیا ۔ چاچا خاموش رہے ۔عجیب سی نظروں سے اُسے دیکھتے رہے ۔ اُس نے اٹھ کراپنی چپل پہنی اور چلتے چلتے زینو چاچا کو دیکھا ۔ ان کی آنکھوں کے کناروں سے آنسو ڈھلک رہے تھے ۔اکرم کی آنکھیں بھیگنے لگیں…… اور کیوں نہ بھیگتیں ؟ وہ انہیں کی گود میں کھیل کر تو بڑا ہوا تھا ۔ حالانکہ وہ رشتے میں اس کے کچھ نہیں لگتے تھے ۔ بس پڑوسی تھے لیکن اسے بچپن میں زینو چاچا سےبہت پیار ملا تھا۔
اکرم کو اُس کے گھر والوں نے بتایا تھا کہ صبح جب اُس کی آنکھ کھلتی تو ناشتے کی بجائے زینو چاچا کا تقاضا کرتا اور ان کے لئے اتنی ضد کرتا کہ کسی کے ذریعے زینو چاچا کی گود میں پہنچا ہی دیا جاتا ۔ وہ اگر ناشتہ کر رہے ہوتے تو زانو پر بٹھا کر اپنے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے نوالے اُس کے منہ میں ڈالتے۔ ناشتے کے بعد اُس کا منہ دُھلاتے، تولیہ سے اپنا اور اُس کا منہ ہاتھ پونچھتے اور اُسے گود میں اٹھا کر ہوٹل کی طرف چل دیتے ۔
          اپنے لئے گرما گرم چائے اور اکرم لئے دودھ کا آرڈر دیتے۔ دودھ آ جانے پر چائے کا گلاس ایک طرف رکھ کر دودھ ٹھنڈا کرنے لگتے ۔۔۔۔ گلاس ہلاتے جاتے ۔۔۔اور اُس میں پھونک بھی مارتے جاتے۔ حالانکہ وہ بہت گرم چائے پینے کے عادی تھے مگر دودھ ٹھنڈا کرنے کے چکّر میں اُن کی چائے بھی ٹھنڈی ہو جاتی ۔ جب وہ ٹھنڈا ہوجانے والا دودھ اُسے پلا دیتے تو چائے ان کے انتظار میں پانی ہو جاتی ۔ وہ اسے ایک ہی سانس میں پی جاتے ۔
        جب ہو ٹل سے واپس آ کر زینو چاچا اکرم کو اُس کے گھر والوں کے سپرد کرتے تو وہ ان سے چمٹ جاتا۔ ان کے کپڑے، داڑھی، کان، ناک یا سر کے بالوں میں سے جو بھی ہاتھ آجاتا اسے مضبوطی سے جکڑ لیتا مگر جیسے تیسے وہ اُسے گھر والوں کو سونپ کر پاورلوم کارخانے کی جانب چل دیتے اور اکرم اُن کے لیے روروکر پورا گھر سر پر اٹھا لیتا تھا لیکن آج زینو چاچا کو دیکھنے کے بعد ایک سرد آہ بھر کر بوجھل قدموں سے اُسے آگے بڑھ جانا پڑا۔ ایسا لگتا جیسے ان کے اطراف کی مکھیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہو اوراُس ذہن کے سوالیہ نشانات بھی اتنی ہی تیزی سے پھیلتے جارہے ہوں۔
          “۔۔۔۔۔کہاں دیکھی ہے اتنی مکھیاں میں نے ؟۔۔۔۔کہاں ہے ؟؟۔۔۔۔۔کچڑے کے ڈھیر پر ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟؟؟۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر ؟؟؟؟؟ مگر جواب میں سوالیہ نشانات ذہن میں پھیلتے چلے جاتے۔
ایک دن جب اکرم ادھر گیا تو زینو چاچا کی چارپائی سے مکھیوں کے بھنبھنانے کا شور نہیں اٹھا ۔اُن کا جنازہ ہی اٹھ گیا ۔۔۔وہ جنازے کے ساتھ ساتھ تھا ۔
جنازے کو چاروں طرف سے دیکھ چکا تھا ۔ مکھیوں کا کہیں پتہ نہیں تھا مگران کی بھنبھناہٹ برابر اُس کے ذہن میں گونج رہی تھی ۔وہ جنازے کو کاندھا دے رہا تھا۔ مکھیاں ان کے جنازے کے ساتھ نظر نہیں آرہی تھیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بے شمار مکھیاں اُس کے ذہن میں بھنبھناتی ہوئی رینگ رہی ہوں ۔
         رینگتی بھنبھناتی مکھیوں کو اپنے ذہن میں لئے لئےاکرم جنازے سے آگے بڑھ گیا۔قبرستان قریب آگیا ۔ وہ جنازے سے آ گے بڑھتا گیا ۔ اچانک مکھیوں کی بھنبھنانے کا وہی شور اکرم کے کان کے پردوں سے ٹکرایا ۔ اُس نے فوراً پلٹ کر جنازے کی طرف دیکھا زینو چاچا کا جنازہ ان کے بیٹوں کے کاندھوں پر تھا ۔مگر مکھیاں وہاں نہیں تھیں۔ اُس نے مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرف دھیان دیا اور نظر گھما کرقبرستان کی دیوار کی طرف دیکھا۔ رس نکالنے والی مشین سے گنے کا سارا رس نکال کر گنّے کے تقریباً سوکھ جانے والے پھوگ کو ایک آدمی پہلے سے پڑے پھوگ کے ڈھیر پرپھینک رہا تھا جس پر بے شمار مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔

(ختم شد)


اس افسانے کو پڑھ کر زندگی کی زنجیر کو سمجھیں🔽

Sunday, January 15, 2023

تجزیہ: سنگھاردان پر گفتگو


تجزیہ

سنگھار دان

افسانہ نگار: شموئل احمد

گفتگو: طاہرانجم صدیقی (مالیگاؤں)




🔸شموئل احمد صاحب کے "سنگھار دان" کو تجزیہ کے لیے  پڑھنا، میرے لئے اس افسانے کی دوسری قرأت تھی. افسانے کا آغاز شموئل احمد صاحب نے جس طریقے سے کیا ہے افسانے کی ابتدا کا یہ آرٹ بھی خوب ہے، اس آرٹ میں کہانی کا آغاز درمیان سے کیا جاتا ہے اور ایک ایسی کشمکش بیان کی جاتی ہے کہ قاری انجام معلوم کرنے کے لئے رک جاتا ہے اور پھر فنکار کی کہانی کے بہاؤ کے ساتھ روانی سے بہتا چلاجاتاہے.
شموئل احمد صاحب نے بھی اسی آرٹ کا استعمال کرکے قاری کو باندھ لینے کا کام آغاز میں ہی کرلیا ہے.
🔸دوسرے پیراگراف میں شموئل احمد صاحب نے نہایت ہی آسانی کے ساتھ ایک پیشہ ور عورت کے لچھن کو برجموہن کی بیٹیوں میں منتقل ہوتے دکھایا ہے لیکن ایک خاص احتیاط برتی ہے کہ وہ فحش نگاری کا ارتکاب نہ کرسکیں. بس ایک بات جو مجھے کھٹک رہی ہے وہ ایک طوائف اور ویشیا کا درمیانی فرق ہے. شموئل صاحب نے افسانے کی ابتدا سے بھی پہلے یہ جملہ افسانے کے ماتھے پر سجایا ہے:
*فساد میں رنڈیاں بھی لوٹی گئی تھیں....*
جبکہ برجموہن کی بیٹیوں کے جو لچھن دکھائے بیان کئے گئے ہیں وہ کسی ویشیا کے ہیں. حالانکہ شموئل احمد صاحب نے سکنگھاردان کو نسیم جان نامی طوائف کا بتایا ہے.
اگرمیں اس تضاد کو سمجھنے میں غلطی کررہاہوں تو مجھے سمجھایا جائے.
افسانے میں ایک جگہ لکھا ہے:
*یہ خوف برجموہن کے دل میں اُسی دن گھر کر گیا تھا جس دن اس نے نسیم جان کا سنگھاردان لوٹا تھا۔*   
اس حوالے کی موجودگی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب برجموہن کے دل میں سنگھاردان کو لوٹنے والے دن ہی یہ خوف تھا تو پھر وہ اسے گھر لے کر ہی کیوں گیا؟ اور گھر لے بھی گیا تو اپنے بیڈ روم میں رکھا.
اس عمل کا کوئی جواز افسانے میں موجود نہیں ہے. جس چیز سے آدمی کو خوف ہو وہ بھلا اسے اپنے گھر کیوں لے جائے گا؟ اگر خوفزدہ ہونے کے بعد بھی لے گیا تو اس کے اس عمل کے پیچھے ایک بھرپور جواز ہونا چاہئے مگر سنگھار دان کو گھر لے جانے کے معاملے میں افسانے کی داخلی منطق خاموش ہے.
🔸ایک جگہ برجموہن کے لات مارنے پر جب نسیم جان زمین پر گر کر دہری ہوجاتی تب شموئل صاحب نے لکھا ہے:
*اس کے بلاوز کے بٹن کھل گئے اور چھاتیاں جھونے لگیں۔*
حالانکہ شموئل احمد صاحب چاہتے تو اس پیراگراف میں نسیم جان کے بلاؤز کا بٹن کھلنے کے بعد "بو" والی منظر نگاری کرسکتے تھے مگر انہوں نے اپنے قلم پر گرفت مضبوط رکھی اور اسے پھسلنے نہیں دیا.
آگے چل کر شموئل صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے:
*برجموہن جب اتر رہا تھا تو یہ سوچ کر اس کو لذت ملی کہ سنگھاردان لوٹ کر اس نے نسیم جان کو گویا اس کے خاندانی اثاثے سے محروم کر دیا ہے۔*
🔸جس طرف شموئل احمد صاحب نے اس جگہ اشارہ کیا ہے وہ ذہنیت بڑی زہریلی ہوتی ہے اور فسادات میں یہی ذہنیت بہت نقصان کرواتی ہے. اور ہو سکتا ہے کہ اس ذہنیت کو بدلنے کے لئے ہی شموئل صاحب نے "سنگھار دان" کا تانا بانا بُنا ہو.
اس بات کا ثبوت افسانے سے ہی یوں ملتا ہے:
*برجموہن کو کو لگا کہ آگ زنی اور لوٹ مار میں ملوث دوسرے بلوائی بھی یقینا احساس کی اس لذت سے گزر رہے ہوں گے کہ ایک فرقہ کو اس کی وراثت سے محروم کر دینے کی سازش میں وہ پیش پیش ہیں۔*
🔸شموئل احمد صاحب نے مذہبی منافرت کے سبب انسان کے رذیل بن جانے کا المیہ پیش کرتے ہوئے کتنی آسانی سے ثابت کردیا ہے کہ یہ منافرت جب انسان کے اندر سرایت کرجاتی ہے تو انسان پوری طرح سے شیطنت پر اتر آتا ہے. وہ یہ تک نہیں دیکھتا کہ وہ جس کا نقصان کررہا ہے وہ کون ہے؟ اسی لئے برجموہن نے بھی نسیم جان جیسی طوائف کو بھی نہیں دیکھا اور اس کا سنگھار دان اس کے احتجاج کے باوجود اٹھا لایا جس کا خمیازہ اسے آگے چل کر بھگتنا پڑا.
🔸اس افسانے کو پڑھنے کے بعد نہ جانے کیوں مجھے سعادت حسن منٹو کا "خوشیا" اور ٹھنڈاگوشت یاد آرہا ہے. شاید ان دونوں افسانوں کے حوالے سے میں سنگھار دان پر مزید کچھ بات کرسکوں.
          ٹھنڈا گوشت" کا ایسر سنگھ بھی ایک مجرمانہ عمل کا مرتکب ہوتاہے. پاداش میں بلونت کور کے سامنے پتّے پھینٹے تک ہی محدود رہتا ہے. پتّے پھینکنے سے معذور ہوجاتا ہے. وہی حال سنگھار دان کے برجموہن کا دکھائی دیتا ہے کہ وہ اسی احساس کے نفسیاتی اثرات کے سبب "خوشیا" بن جاتا ہے اور قاری صاف طور محسوس کرتا ہے کہ اس کی بیٹیاں اس کے وجود کو شاید "خوشیا"جیسا ہی سمجھنے لگی ہیں. تبھی تو اس کے عکس کے آئینے میں نظر آنے کے بعد بھی اس کی موجودگی کا کوئی احساس نہیں کرتیں. میری ان باتوں سے قطعی یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ شموئل صاحب کا افسانہ منٹو کے افسانوں سے میل کھاتا ہے بلکہ میں تو صاف. طورپر اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ سنگھاردان ایک الگ کہانی ہے جس کا اپنا الگ رنگ ہے، الگ ٹریٹمنٹ ہے، الگ موضوع ہے اور الگ ہی تاثر ہے. اس افسانے میں انسان کی سفاکی پر چوٹ کی گئی ہے اور برے کام کو برے انجام تک پہنچنے کا اظہار کیا گیا ہے. 
           افسانہ بڑا رواں ہے. افسانے کی سطور میں شموئل صاحب نے ایک ایسا بہاؤ رکھ دیا ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے. افسانے کی زبان پیاری ہے اور افسانے کا ہر جزو مل کر ایک کُل بن جانے کے بعد نہایت متاثر کن بن گیا ہے. نیز .کلائمکس تو واقعی قابلِ تعریف ہے



منشی پریم چند کے "پوس کی رات" پر گفتگو






Monday, January 09, 2023

تجزیہ: پوس کی رات

تجزیہ:    پوس کی رات

 افسانہ نگار:  پریم چند

 گفتگو: طاہرانجم صدیقی

 



            منشی پریم چند کا "پوس کی رات" پہلے بھی پڑھ چکا تھا لیکن تجزیے کے لئے پڑھنے کا ایک الگ ہی موڈ ہوتا ہے. پڑھتا گیا اور لکھتا گیا. لکھتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ میں منشی پریم چند جی سے مخاطب ہوں. مجھے اس انداز میں بڑی اپنائیت سی لگی. اگر کسی کی طبیعت پر گراں ہو تو میں صدقِ دل سے معذرت خواہ ہوں. دیکھیں:

منشی جی! افسانے کے آغاز میں آپ نے ہلکو کی بیوی کے لئے لکھا ہے:

"منی بہو"

           ہم بھلا کیوں اسے منی بہو مان لیں؟ وہ تو ہمارے لئے ہلکو کی بیوی ہے نا! اور ہلکو کے والدین کا تو کچھ آتا پتہ بھی نہیں ہے افسانے میں اس لئے یہ "منی بہو" والا انداز کچھ عجیب سا لگا ہے مجھے. 

  پھر آپ نے ایک جگہ ہلکو کے بھاری قدموں سے آگے بڑھنے کے تذکرے کے ساتھ قوسین کا یوں استعمال کیا ہے:

*(جو اس کےنام کو غلط ثابت کر رہا تھا)*

🔸منشی جی! آپ کو قوسین کے اس جملے کی ضرورت آپ کے زمانے میں پڑی ہوگی لیکن ہمارے زمانے میں اس جملے پر کم از کم میں تو اعتراض کر ہی سکتا ہوں. آخر آپ کیوں مزاح پیدا کرنا چاہ رہے ہیں اس کے توسط سے؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس طرح آپ افسانے کے اس مقام کے تاثر کو زائل کررہے ہیں؟

آپ کی کہانی آگے بڑھتی ہے اور آپ ہلکو کی زبان سے یہ ایک جملہ کہلواتے ہیں:

*ہلکورنجیدہ ہو کر بولا، ’’تو کیا گالیاں کھاؤں۔‘‘*

🔸یہاں بھی آپ کے فن کی داد دینی پڑے گی کہ ایک چھوٹے سے مکالمے میں آپ نے نہ جانے کتنی جھڑکیاں اور گالیاں مخفی کردی ہیں. ہلکو کا رنجیدہ ہو کر گالیوں کا تذکرہ کرنا اس بات کا غماز ہے کہ وہ بہت ساری گالیوں اور جھڑکیوں کا سامنا کرچکا ہے.

ہلکو اور منی کی مکالماتی جھڑپ کے بعد منی کو مجبوراً آگے بڑھ کر روپیہ اٹھاتے ہوئے آپ نے یوں دکھایا ہے:

*اس نے طاق پر سے روپے اٹھائے اور لاکر ہلکو کے ہاتھ پر رکھ دیے۔*

🔸 منشی جی! جن کے یہاں پیسوں کی تنگی ہو کہ تین روپے ادا کرنے میں بھی ان کی کمر ٹوٹ جاتی ہو وہ ان تین روپیوں کو اس طرح طاق پر کھلا نہیں رکھیں گے. کہیں چھپاکر، کہیں اڑس کر، یا پھر کسی ڈبے وغیرہ میں بند کرکے رکھیں گے. شاید آپ کے پاس تین روپیوں کی اتنی اہمیت نہ رہی ہو لیکن ہلکو اور اس کی بیوی کے لئے وہ تین روپے بڑے اہم رہے ہوں گے. اس لئے ان کا اس طرح طاق پر رکھ دینا ذرا غیر فطری سا لگتا ہے لیکن اس کے فوراً بعد ہی آپ نے کیا انداز اختیار کیا ہے:

*پھر بولی، ’’تم اب کی کھیتی چھوڑ دو۔ مزدوری میں سکھ سے ایک روٹی تو کھانے کو ملے گی۔ کسی کی دھونس تو نہ رہے گی اچھی کھیتی ہے مزدوری کر کے لاؤ وہ بھی اس میں جھونک دو۔ اس پر سے دھونس۔‘‘*

 🔸مُنّی کی زبان سے اس قسم کے فطری مکالمے ادا کروانے کا فن بھی داد طلب ہے. آپ نے حقیقت نگاری سے ہمیں آشنا کرکے ہم پر احسان کیا ہے. ہم آپ کے شکر گزار ہیں. 

اتنا ہی نہیں بلکہ آپ نے یہاں جس فنکاری کا اظہار کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے:

*ہلکو نےروپے لیے اور اسی طرح باہر چلا۔ معلوم ہوتا تھا وہ اپنا کلیجہ نکال کر دینے جارہا ہے۔ اس نے ایک ایک پیسہ کاٹ کر تین روپے کمبل کے لیے جمع کیے تھے۔ وہ آج نکلے جارہے ہیں۔ ایک ایک قدم کے ساتھ اس کا دماغ اپنی ناداری کے بوجھ سے دبا جارہاتھا۔*

🔸درون ذات جھانکنے اور جذبات کو الفاظ کا جامہ عطا کرنے کا یہ ہنر بھی آپ کے پاس ہے منشی جی! بہت خوب! کتنی خوبصورتی کے ساتھ آپ نے ہلکو کی غربت، محنت و مشقت سے تین روپے جمع کرنے اور کمبل خرید کر پوس کی سرد راتوں میں کچھ گرمی کا انتظام کرنے کے جتن کو بیان کیا ہے آپ نے. منشی جی! قابلِ تعریف ہے آپ کا یہ فن جسے آپ نے ہم تک پہنچایا ہے. 

اس کے بعد کا اقتباس بھی داد طلب ہے. دیکھیں:

*پوس کی اندھیری رات۔ آسمان پر تارے بھی ٹھٹھرتے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ ہلکو اپنےکھیت کے کنارے اوکھ کے پتوں کی ایک چھتری کےنیچے بانس کے کھٹولے پر اپنی پرانی گاڑھے کی چادر اوڑھے ہوئےکانپ رہا تھا۔ کھٹولے کے نیچے ا س کا ساتھی کتا ’’جبرا‘‘ پیٹ میں منھ ڈالے سردی سے کوں کوں کررہا تھا۔ دو میں سے ایک کو بھی نیند نہ آتی تھی۔*

🔸 منشی جی! آپ نے اس منظر نگاری کے ذریعے کسی آرٹسٹ کو وہ مواد مہیا کردیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس اقتباس کے ذریعے ایک خوبصورت پینٹنگ بنا ڈالے. اچھا لگا افسانے کا یہ حصہ پڑھ کر. 

اور اس حصے میں تو آپ نے کمال کا ہنر سکھادیا ہے ہمیں. آپ خود دیکھیں:

*ہلکو نے گھٹنوں کو گردن میں چمٹاتے ہوئے کہا۔ ’’کیوں جبرا جاڑا لگتا ہے کہا تو تھا گھر میں پیال پر لیٹ رہ۔ تو یہاں کیا لینے آیا تھا۔ اب کھا سردی، میں کیا کروں۔ جانتا تھا۔ میں حلوہ پوری کھانے آرہا ہوں۔ دوڑتے ہوئے آگے چلے آئے۔ اب روؤ اپنی نانی کے نام کو۔‘‘ جبرانے لیٹے ہوئے دم ہلائی اور ایک انگڑائی لے کر چپ ہو گیا شاید وہ یہ سمجھ گیا تھا کہ اس کی کوں، کوں کی آواز سے اس کےمالک کو نیند نہیں آرہی ہے۔*

🔸 جانوروں اور بے جان چیزوں سے بات کرکے دل کا بوجھ ہلکا کرلینے کی نفسیات بھی بڑی عجیب ہوتی ہے. منشی جی! آپ نے یہاں اسی کا تذکرہ کیا ہے اور خوب کیا ہے. آپ نے اسی بہانے پوس کی رات کھیت میں سردی سے ٹھٹھرنے کے خلاف ایک احتجاج بھی درج کرادیا ہے۔ 

آپ نے جب یہ جملہ افسانے میں لکھا تو یہاں بھی ایک فنکارانہ بیان سامنے آیا:

*تقدیر کی خوبی ہے مزدوری ہم کریں۔ مزہ دوسرے لوٹیں۔‘‘

🔸معاشی نابرابری کے خلاف ناراضگی کا فنکارانہ اظہار ہے یہ جملہ آپ نے یہاں بھرپور کوشش کی ہے کہ قاری کو قطعی طور پر یہ احساس نہ ہو کہ ہلکو نہیں بلکہ ہلکو کی زبان سے فنکار بول رہا ہے. آپ اپنی کوشش می‍ں کامیاب ہیں. 

اور پھر پوس کی رات کی ٹھنڈ میں اپنے کھیت کی حفاظت کے لئے جاگنے والے ہلکو کی پریشانیوں کا یوں تذکرہ کیاہے:

*ہلکو، پھر لیٹا۔ اور یہ طے کر لیا کہ چاہے جو کچھ ہو اب کی سو جاؤں گا۔ لیکن ایک لمحہ میں اس کا کلیجہ کانپنے لگا۔ کبھی اس کروٹ لیٹا کبھی اس کروٹ۔ جاڑا کسی بھوت کی مانند اس کی چھاتی کو دبائے ہوئے تھا۔*

🔸واہ منشی جی واہ! آپ نے سردی سے ٹھٹھرتے کانپتے ہلکو کو یہاں جس انداز سے پیش کیا ہے وہ بھی خوب ہے. کلیجے کا کانپنا اور جاڑے کا بھوت کی مانند ہلکو کی چھاتی دبانا کمال کا بیان ہے. بڑا پیارا لگا یہ بیان بھی. 

اس کے بعد بھی سرد ہواؤں اور کھلی فضا میں آسمان کو چھت بنانے والے ہلکو کے بارے میں آپ نے لکھا:

*جب کسی طرح نہ رہا گیا تو اس نے جبرا کو دھیرے سے اٹھا یا اور اس کے سر کو تھپ تھپا کر اسے اپنی گو د میں سلا لیا۔ کتے کے جسم سےمعلوم نہیں کیسی بدبو آرہی تھی پر اسے اپنی گود سے چمٹاتے ہوئےایسا سکھ معلوم ہوتا تھا جو ادھر مہینوں سے اسے نہ ملا تھا۔*

🔸منشی جی! آپ اس اقتباس میں ہلکو کے کون سے سکھ کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہے ہیں؟ کہیں اس کی ازدواجی زندگی کی طرف تو اشارہ نہیں کرنا چاہ رہے ہیں آپ؟ مجھے لگتا ہے کہ شاید ایسا ہی ہے اور کمال ہے یہ اظہار بھی. آپ نے کیا خوبصورت بہانا تراشا ہے اس بیان کا! یہ ہنر بھی ہم تک آپ پہنچا گئے ہیں لیکن جب آپ نے لکھا:

*جبرا شاید یہ خیال کر رہا تھا کہ بہشت یہی ہے اور ہلکو کی روح اتنی پاک تھی کہ اسے کتے سے بالکل نفرت نہ تھی۔*

🔸 تو منشی جی! مجھے ایسا لگتا ہے کہ  آپ یہاں تضاد بیانی کا شکار ہوگئے ہیں ورنہ آپ کو اوپر یوں نہیں لکھنا تھا:

*کتے کے جسم سےمعلوم نہیں کیسی بدبو آرہی تھی.*

اب جب لکھ ہی دیا تھا تو پھر ہلکو کی روح کی پاکیزگی اور نفرت کا ذکر نہیں کرنا تھا. 

ہوسکتا ہے کہ میں یہاں غلطی کررہا ہوں سمجھنے کی. امید ہے کہ آپ برا نہیں مانیں میری باتوں کا.

پھر آپ نے رات میں وقت معلوم کرنے کے جس علم کے بارے میں لکھا ہے وہ اچھا لگا. دیکھیں:

*وہ سات ستارے جو قطب کے گرد گھومتے ہیں۔ ابھی اپنا نصف دورہ بھی ختم نہیں کرچکے جب وہ اوپر آجائیں گےتو کہیں سویرا ہو گا۔ابھی ایک گھڑی سے زیادہ رات باقی ہے۔*

🔸منشی جی! اب تو یہ ہنر نئی نسل کے لئے عجوبہ ہے. ہم تو اپنے موبائل کے توسط سے پتہ لگاتے ہیں کہ وقت کیا ہوا ہے؟ اور ہاں ایک خاص بات یہ بھی کہ ہم کو گوگل کے توسط سے ہی موسم کی سختی و نرمی کا پتہ چل جاتا ہے. تاروں کے ذریعے وقت معلوم کرنے کا ہنر آپ لوگوں کے ساتھ شاید رخصت ہوگیا ہو یا پھر ہوسکتا ہے کھیتی باڑی کرنے والے لوگوں کو ابھی بھی اس کا علم ہو مگر جب آپ نے اچانک یہ بیان لکھا: 

*ہلکو کےکھیت سے تھوڑی دیر کے فاصلہ پر ایک باغ تھا۔ پت جھڑ شروع ہو گئی تھی۔ باغ میں پتوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ہلکو نے سوچا چل کر پتیاں بٹوروں اور ان کو جلا کر خوب تاپوں.*

🔸تو منشی جی! اسے پڑھ کر مجھے لگتا ہے کہ آپ کو یہاں اس قسم کے بیانیے سے کام نہیں لینا تھا. نہ جانے کیوں مجھے یوں محسوس ہورہا ہے کہ آپ نے یہاں اپنے افسانہ نگار ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے. آپ نے جب دیکھا کہ سردی بہت زیادہ ہے تو آپ نے کھیت کے پاس کے باغ کی یاد دلا دی تاکہ آپ کہانی کو تھوڑا آگے سرکا سکیں اور کہانی کو آگے سرکانے کے بعد جب آپ نے ذیل کا جملہ لکھا:

*ہاتھ ٹھٹھرتے جاتے تھے۔ ننگے پاؤں گلے جاتے تھےاور وہ پتیوں کا پہاڑ کھڑا کر رہا تھا۔ اسی الاؤ میں وہ سردی کو جلا کر خاک کردے گا۔*

🔸تو بیساختہ میں کہہ اٹھا واہ منشی جی واہ! کیا خوبصورت اظہار کیا ہے آپ نے ہلکو کے جذبات کا. بہت اچھا لگا یہ اظہار. 

اس کے بعد ہلکو کے کھیت کا نیل گایوں کو اجاڑ دینا. ہلکو کا مزدوری کے لئے تیار نہ ہونا. منی کا لگان دینے سے انکار کرنا اور ہلکو کا کسان بنے رہنے کی ضد کرنا جیسے فطری ردِ عمل کے ساتھ افسانہ آپ نے ختم کردیا مگر میں اور مجھ جیسے قاری کے دل میں ہلکو اور منی جیسے پریشان حال لوگوں سے ایک قسم کا ہمدردانہ جذبہ بیدار کردیا اور ان کے مستقبل کی فکریں بھی پیدا کردیں. شاید آپ چاہتے بھی یہی تھے اور آپ کامیاب ہیں اپنی چاہت میں. بہت خوب



Thursday, January 05, 2023

معرّی' نظم: چلو اک کام کرتے ہیں

*چلو اک کام کرتے ہیں*

(طاہر انجم صدیقی)


کسی لفظِ غلط جیسے
کتابِ ذہن سے اپنی
کسی کو کیا کُھرچنا اب؟
کسی سے روٹھنا کیسا؟ 
کسی سے کیوں شکایت ہو؟ 
کسی سے کیوں بغاوت ہو؟ 
کسی سے کیوں عداوت ہو؟
چلو اِک کام کرتے ہیں
ہماری ہر شکایت سے
ہماری ہر بغاوت سے
ہماری ہر عداوت سے
*ہم اپنے دل کے قبرستان کو آباد کرتے ہیں*


اس غزل کے لیے بھی وقت نکالیں. نوازش ہوگی. 🔽





Tuesday, January 03, 2023

غزل: یہی کہ ڈوب مروں گا نا اور کیا ہوگا

غزل

طاہر انجم صدیقی 

 

یہی کہ ڈوب مروں گا نا! اور کیا ہوگا؟
شناوروں میں مرا نام تو لکھا ہوگا 

قدم قدم پہ بڑا سخت معرکہ ہوگا
ہمارے جینے کا جب فلسفہ نیا ہو گا

ہمارے شعر کا کچھ رنگ بھی جدا ہوگا
ہماری فکر کا اپنا ہی زاویہ ہوگا

پھر آج حکم ہے ہتھیار ڈال دینے کا
سنا تھا ہم کہ اب کے مقابلہ ہوگا

مِرے اجالے کریں گے اندھیروں کی تکفیر
مِرا چراغ ہواؤں کا مرثیہ ہوگا

میں ہچکیوں سے یہی سوچ کر بہت خوش ہوں
ہتھیلی پر وہ ِمِرا نام لکھ رہا ہوگا

ہمارے خون کے چھینٹے جہاں پڑے ہوں گے
وہیں سے دیکھنا، سورج ابھررہا ہوگا

حسینیت پہ تصدّق کریں گے جانیں ہم
ہمارے سامنے جس روز کربلا ہو گا


نئے سال کی آمد پر ایک نظم. 🔽

افسانہ: اپنے حصے کا نخلستان

اپنے حصے کا نخـــلســــــتان 

طاہر انجم صدیقی (مالیگاؤں)







گوری رنگت والا بچہ اور اس کا بابا نہ جانے کب سے اپنے ہی سایوں کو روند رہے تھے۔ان کے سائے دھیرے دھیرے بڑھتے جا رہے تھے۔ اُس گول مٹول سے بچے نے اپنی آنکھوں کے کٹوروں کو بالکل ہی چھوٹا کرلیا اورریگستان کے سینے پرحدِ نگاہ تک پھیلتی چلی جانے والی دھوپ کو دیکھتے ہوئے کہا۔

’’کتنی تیز دھوپ ہے بابا!؟‘‘

’’ہاں بیٹا! بہت تیز ہے مگر اپنے حصّے کا نخلستان ڈھوندنا تو پڑے گا ۔۔۔۔۔‘‘

باپ نے اپنے سر پر لپٹے کپڑے کے ایک سرے سے پہلے بچے کے چہرے پر امڈ آنے والی ڈھیر ساری پسینے کی بوندوں کو صاف کیا پھر اپنا چہرہ بھی پونچھ لیا۔ پسینے کے ساتھ ریت کے باریک باریک ذرات اس کپڑے سے لپٹے چلے آئے۔ 

باپ نے اپنے بیٹے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔

’’اِدھر آ بیٹا ! ۔۔۔۔میری چھاؤں میں آجا ۔۔۔۔‘‘

گوری رنگت والا چھ سات برس کا معصوم چہرے والا وہ بچّہ اپنے باپ کے سائے میں ہو گیا ۔

’’ہاں بابا! اب دھوپ نہیں لگتی ۔۔۔۔مگر کتنی گرمی ہے  ؟۔۔۔۔اور یہ ہوا اپنے ساتھ کتنی ریت اڑا رہی ہے؟‘‘

بچے نے اپنی پلکوں کے دریچوں کو کھول بند کرتے ہوئے کہا۔

’’ہوں !۔۔۔۔رک بیٹا ذرا!‘‘

وہ دونوں رک گئے۔

باپ نے اپنے سر کا کپڑا کھولا۔اس کے دو ٹکڑے کئے ۔ چھوٹا ٹکڑا بچے کے سر اور چہرے پر اس طرح لپیٹا کہ صرف اس کی آنکھوں کے کٹورے ہی کھلے رہ گئے۔

’’لے بیٹا! میری انگلی پکڑ کر چل ۔‘‘

دونوں ریگستان کی سلگتی ریت پرچلتے رہے۔

ہوا کے گرم تھپیڑے ان سے ٹکراتے رہے۔

ریت کے ذراّت اڑتے رہے. 

ان کے بالوں اور کپڑوں سے الجھتے رہے. 

پلکیں بند کر لینے کے باوجود بھی ان کی آنکھوں کو پریشان کرتے رہے ۔

وہ دونوں اپنے سایوں کے ساتھ ساتھ ریگستان کے سینے کو بھی روندتے رہے. 

اس سفر میں انہیں کئی نخلستان ملے لیکن ان پر دوسرے لوگ قابض تھے ۔

ان کو اپنے حصّے کے نخلستان کی تلاش تھی۔

دھوپ بڑی شدت کی تھی۔

ہوائیں تیز چل رہی تھیں۔

ریت سارے ریگستان میں اپنا وجود پھیلائے ہوئے تھی۔

باپ نے اپنی آنکھوں کو مسلتے ہوئے صحرا کے سکوت کو توڑا۔

’’تجھے معلوم ہے بیٹا !۔۔۔۔ایک مرتبہ میں بھی اپنے بابا کے ساتھ ایسے ہی ریگستان سے گذر رہا تھا۔۔۔۔لیکن اس روز دھوپ تو اِس سے بھی تیز تھی  ۔۔۔۔مگر جیسے میں نے تجھے اپنے سائے میں کیا ہے نا ۔۔۔۔تیرے دادا نے بھی مجھے اپنے سائے میں کر لیا تھا ۔‘‘

’’پھر تو تم کو بھی دھوپ نہیں لگ رہی ہو گی ۔۔۔۔ ہے نا ؟‘‘

بچے کو محسوس ہوا جیسے اس کے بابا کو کوئی نخلستان مل گیا ہو۔ وہ بہت خوش ہوگیا۔

’’ہاں بیٹا! مجھے بھی دھوپ نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔۔مگر معلوم ہے پھر کیا ہوا تھا ؟‘‘

’’کیا ہوا تھا بابا؟‘‘

لپیٹے گئے کپڑے سے جھانکتی بچے کی کٹورا آنکھیں سوالیہ نشان بن گئیں۔

’’تیرے دادا آسمان کی طرف چلے گئے تھے ۔‘‘

’’آسمان کی طرف  !!۔۔۔۔وہ کیسے بابا ؟‘‘

بچے کی آنکھوں کے حلقے مزید پھیل گئے۔

اس نے حیرت اور معصومیت سے پوچھا۔

’’رک بیٹا! بتاتا ہوں۔۔۔۔ذرا انگلی چھوڑ تو میری!‘‘

بچے نے دیکھا کہ وہ ابھی تک اپنے بابا کی انگلی تھامے کھڑا تھا۔ 

اس نے جھٹ سے انگلی چھوڑ دی۔

’’۔۔۔۔دیکھ بیٹا! ۔۔۔۔ایسے گئے تھے وہ آسمان کی طرف!‘‘

اس نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دئیے ۔

بچے نے آسمان کی طرف اٹھے ہوئے اس کے ہاتھوں کو دیکھا۔

بچے پر پڑنے والا بابا کا سایہ غائب ہو گیا. 

اس کے بابا کے پیر دھیرے دھیرے اُپر اٹھنے لگے۔

اس کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

وہ اپنے بابا کواوپر اٹھتا دیکھتا رہا ۔

دھوپ کی شدّت نے اس کی حیرت کو جھلسایا تو وہ چونک گیا ۔

اس نے اپنے سر اور چہرے پر لپٹے کپڑے کو کھول کر آسمان کی طرف دیکھا۔

اس کابابا اوپر جارہا تھا ۔

’’بابا !۔۔۔۔نیچے آؤ نا! ۔۔۔۔کتنی تیز دھوپ ہے؟‘‘

اس نے اپنے بابا کو واپس بلایا۔

’’۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’بابا !۔۔۔۔ بہت تیزدھوپ ہے ۔۔۔۔تم کچھ بولتے کیوں نہیں؟ ۔۔۔۔اوپر کیوں جا رہے ہوبابا؟ ۔۔۔۔نیچے آؤ نا !‘‘

اوپر سے کوئی جواب نہ آیا۔

وہ چلانے لگا۔

’’با با ۔۔۔۔ بابا۔۔۔۔او بابا!۔۔۔۔نیچے آؤ نا بابا!۔۔۔۔نیچے ۔۔۔۔نی۔۔۔۔چے ۔۔۔۔نی ۔۔۔۔نی‘‘

اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بوندیں نکل کر گالوں سے لڑھکیں اور اس کے گرد آلود کپڑے میں جذب ہوگئیں۔ 

اس نے اوپر دیکھتے دیکھتے اپنے گٹھنے سلگتی ریت پر ٹیک دئیے۔

آنسوؤں کی بہت ساری بوندیں اُس کی آنکھوں سے نکل پڑیں اور اُس نے دہاڑ مار مار کر روتے ہوئے اپنے لب کھولے ۔

’’با با۔۔۔۔نی ۔۔۔۔چے ۔۔۔۔بابا!۔۔۔۔‘‘

مگر نیچے نظر پڑتے ہی اُس کی آواز گلے میں ہی اٹک گئی ۔

نیچے اُس کا بابا ریگستان کی سلگتی ریت پر اپنے ہی سائے پر بے حس و حرکت پڑا تھا ۔

وہ ابھی اپنے بابا کو اِس حالت میں آنسو بھری آنکھوں سے دیکھ ہی رہا تھا کہ کسی نے اُس کے گرد آلود کپڑے کا کنارہ پیچھے کی طرف کھینچا۔

وہ بڑی پھرتی سے پیچھے مُڑا۔

اُس کے پیچھے ایک چھ سات سالہ، کٹورا آنکھوں والا  بچّہ کھڑا تھا.

اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا، کٹورا آنکھوں والے بچے نے معصومانہ انداز میں اُسے دیکھتے ہوئے کہا. 

’’کتنی تیز دھوپ ہے بابا!‘‘

اُس نے گوری رنگت والے اُس بچّے کو دیکھا۔

پھراپنے اطراف حدِّ نگاہ تک پھیلتے چلے گئے گرم ریگستان کو دیکھا اور ایک ٹھنڈی سانس لے کر اٹھ کھڑا ہوا ۔

اس کے منہ سے بیساختہ نکلا۔

’’اِدھر آ بیٹا ! ۔۔۔۔میری چھاؤں میں آجا ۔۔۔۔‘‘


(ختم شد)




اس کو پڑھیں🔽

پنکھڑی اِک گلاب کی سی



مضمون: ایک پیریڈ کا اسٹوڈنٹ

 مختار یونس سر کے شعری مجموعے کے اجرا میں پڑھا گیا مضمون




*ایک پیریڈ کا اسٹوڈنٹ*

طاہر انجم صدیقی ( مالیگاؤں) 


          انسانی ذہن بھولنا چاہے تو ورلڈ ٹریڈ سینٹرجیسےحادثے کو بھی چٹکیوں میں اڑا دیتا ہے اور یاد رکھنا چاہے تو بیچارے اخترانصاری یوں پریشان ہوجاتے ہیں:
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
بعض مرتبہ یہی حافظہ ایسی باتیں سامنے لے آتا ہے کہ طبیعت ہری ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوتا ہے۔  مختار یونس سر کا نام سن کر ذہن کے کسی گوشے سے ایک مسکراہٹ سر اٹھا کر لبوں تک چلی آتی ہے اور ذہن و دل کی فضا کو محترم کر دیتی ہے لیکن اس فضا میں سبزی ترکاری کاٹنے والی ایک شمشیربھی چمکنے لگتی ہے۔
           اس شمشیرکے بے نیام ہونے کا قصہ یہ ہے کہ میں مالیگاؤں ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کی بارہویں جماعت کے طالبِ علم کی حیثیت اپنے آخری دنوں کو گن رہا تھا کہ میرے اندر کے شاعر نے اپنی کلاس کے تمام لوگوں کے ناموں کو ایک نظم میں استعمال کر ڈالا۔ وہ نظم میں نے مختار یونس سر کو دکھائی۔  ان کا پہلا سوال بحر سمجھنےسےمتعلق تھا۔  پھر انہوں نےکچھ اشعار پڑھے اور کہا۔
           "بحر تو ٹھیک ہے اور اس میں تم نے لڑکوں کا نام استعمال کیا ہے ان کی تو کوئی بات نہیں لیکن لڑکیوں کا نام کیوں استعمال کیا ہے؟"
          میں سوچنے لگا کہ کیا کہوں؟ بلکہ مجھے کیا کہنا چاہئے؟ سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا لیکن سامنے تھے مختار یونس سر!  فوراً سوال بدل گئے۔
         " تم نے اس نظم کو کیوں لکھا ہے؟"
         میرے پاس اس سوال کا بھی جواب تیارنہیں تھا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ مختار یونس سر نے سوال بدلنے کی ہیٹ ٹرک کرڈالی۔
         "کیا اسے اخبار میں شائع کرنا ہے؟ اگر ایسا کیا تو لڑکیوں کے گھر والے اس پر اعتراض کرسکتے ہیں۔ تب تم کیا کرو گے؟"
         میں نے کہا۔
         "نہیں سر! اس کو اخبار میں چھپانا نہیں ہے بلکہ میں اس نظم کا زیراکس کرکے اپنی کلاس میں بانٹ دوں گا۔"
        مختار سرمسکرانے لگے اور انہوں نے کہا۔
       " بیٹا! قلم تلوار ہے۔  اس سے سبزی ترکاری کاٹنے کا کام نہیں لینا چاہئے۔"
       یقین جانیں کہ مختار یونس سر کے اس جملے نے قلم کی اہمیت کو مجھ پر یوں اجاگر کرکیا کہ میں نے ان سے اپنی نظم واپس لے لی۔  میرے یار دوست اس نظم کو مانگتے رہ گئے مگر میں نے اس کا زیراکس تک کسی کو نہیں دیا اور اس نظم سے یوں دستبردار ہوا کہ اب وہ نظم خود میرے اپنے پاس بھی محفوظ نہیں۔
          مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مختار یونس سر جب ہماری کلاس میں پہلی مرتبہ آئے تھے تب میں سولہ برس کی بالی عمر کو سلام کرنے کے قابل ہو چکا تھا۔
اونچے قد کے ساتھ ان کے خیالات کا قد بھی ذرا نکلتا ہوا ہی تھا۔ اللہ نے ان کو صحت اچھی دی تھی اور وہ گفتگو بھی بڑی صحت مند کیا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو سے یقینی طور پر آس پاس کے لوگوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہوں گے کیونکہ سنا ہے کہ ہنسنے مسکرانے سے زندگی اور صحت کے علاوہ صرف حاسدین پر ہی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ان سے متاثر ہونے کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ جب مجھے مختار یونس سر کے مزحیہ کلام کے مجموعہ کے اجرا کی تقریب میں اپنے تاثرات کے اظہار کے لئے کہا گیا تو قلمی طور پر بونا ہونے کے باوجود بھی میں نے انکار نہیں کیا۔سبب تھے مختار یونس سر۔
یقین جانیں کہ انہوں نے ہم لوگوں کو بارہوں جماعت میں صرف ایک سبق ’’لکھنو کا چِہلُم‘‘ ہی پڑھایا تھا۔ میں دوسروں کی بات نہیں کرتا لیکن آج بھی مجھ کو ان کے پڑھانے کا اسٹائل،پڑھنے کا انداز،سمجھانے کا ہنر اور بچوں میں سمجھ لینے کی امنگ بھر دینے کا فن یاد آتا ہے۔
ہم لوگوں کو اردو کا مضمون عبدالحلیم کاردار سر پڑھایا کرتے تھے لیکن’’ لکھنو کا چہلم‘‘ آتے ہی انہوں نے اوراق پلٹنے کا حکم دے دیا۔ کچھ لوگ پریشان ہوگئے اور کچھ خوش لیکن کچھ ہی دنوں بعدعبدالحلیم کاردار سر کی جگہ مختار یونس سرکی کلاس میں آمد سے یہ پریشانی دور اور خوشی کافور ہو گئی۔
سر نے آتے ہی کہا۔
’’جو صاحبِ کتاب ہیں وہ کتاب نکالیں اور جن کے پاس کتاب نہیں ہے وہ اہلِ کتاب سے استفادہ کریں۔‘‘
سر کی اس بات کوکچھ لوگ سمجھ گئے اور جو نہیں سمجھے وہ سمجھا دئیے گئے۔
ادھر ادھر کی باتوں کے بعد مختار یونس سر نے ہم میں سے ایک کو اردو کی کتاب سے ’’لکھنو کا چہلم‘‘ پڑھنے کو کہا۔
اس نے پڑھنا شروع کیا۔
’’لکھنو کا چَہلَم‘‘
سر نے فوراً ٹوکا ۔
’’چَہلَم نہیں چِہلُم پڑھو‘‘
وہ کسی پڑھنے والے کوکہیں پر بھی روک کر اس سے آگے کسی کو بھی پڑھنے کو کہتے رہے اور غلط پڑھنے پر کلاس کو مزاح بھرے جملوں سے زعفران زار کرتے رہے۔
ایک نے جیسے ہی لفظ اِمام کو اَمام پڑھا مختار یونس سر کی رگِ ظرافت پھڑک اٹھی۔انہوں نے فوراً کہا۔
’’رُکو! او اَمام !ایسے اَمام کے پیچھے نماز بھی حرام۔ یہ لفظ اِمام ہے اِمام ۔‘‘
ایک نے لفظ ’’دُلدُل‘‘ کو ’’دَلدَل‘‘ پڑھ دیا تو مختار یونس سر نے اپنا رنگِ شوخیانہ یوں ظاہر کیا ۔
’’ارے بیٹا! یہ کربلا کے دُلدُل کو کس دَلدَل میں پھنسانے کا ارادہ ہے؟
ایک نے’’ انوپ اَنجن‘‘ کو’’انوپ اِن جن‘‘ پڑھا تو سر نےٹوکا کہ ’’ایسے اِنجن والی ٹرین کامنزل تک پہنچنا مشکل ہے۔
ہماری کلاس کےاس ارجنٹائنا دورہ کے درمیان مختار یونس سر نے کلاس میں بیٹھے ہوشیار،کم ہوشیارسبھی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جیسے کبڈی کا کوئی دھاکڑ کھلاڑی جب مخالف خیمے میں پہنچتا ہے تو ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ہر کوئی الرٹ اور اٹینشن والے موڈ میں دکھائی دیتا ہے۔وہی حال ہماری کلاس کا تھا۔
اس کے بعد مختار یونس سر نے"لکھنو کا چہلم" خود پڑھنا شروع کیا۔ پہلے ہی جملے میں موجود "گھٹا ٹوپ اندھیرا‘‘ کو انہوں نے اس انداز سے پڑھا کہ سن کر محسوس ہوتا تھا کہ یہ اندھیرا ہمارے اطراف پھیلا ہوا ہے. 
مختار یونس سر نے اپنے مخصوص انداز سے اس سبق کو کچھ یوں پڑھا کہ آج ستائیس سال گزر جانے کے باوجود بھی مجھے وہ یاد ہیں۔ ان کے پڑھنے کا انداز یاد ہے۔ ان کے پڑھانے کا طریقہ یاد ہے۔ کاش! وہ آج حیات ہوتے تو دیکھتے کہ ان کے ایک پیریڈ کے اسٹوڈنٹ نے قلم کی تلوار سے سبزی ترکاری تو نہیں کاٹ ڈالی؟
میں عتیق شعبان سر کو مختار یونس سر کے مزاحیہ کلام کی تالیف پر مبارکباددینےکے بعدیہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ان کی مزاحیہ نثر کی اشاعت کی بھی کوئی سبیل نکالیں تاکہ اردو دنیا ان کے مزاح سے لطف اندوز ہو، مالیگاؤں کے حوالے سے مزاح کا یہ محترم نام پہچانے اور 
ان کے فن کا اعتراف کرے۔



 Read this also:👇


 


خاکہ: ایک حقیقی شاعر: فرحان دلؔ

ایک حقیقی شاعر : فرحان دل

ازقلم: طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں 




          فرحان دل صرف دیکھنے میں ہی شاعر نظر نہیں آتے بلکہ وہ حقیقتاً شاعر ہیں. وہ نہ صرف شاعر ہیں بلکہ بڑے غضب کے شاعر ہیں. شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کے قدردانوں میں اچھے اچھوں کے نام آتے ہیں. میں نے تو بہت سارے ایسے لوگوں کو بھی فرحان کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے جو مالیگاؤں کی شاعری کو دوسرے درجے کی چیز سمجھتے ہیں. فرحان دل کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ وہ جس طرح نکلتے قدوقامت کے ہیں ان کا کلام بھی انہی کی طرح ذرا نکلتا ہوا ہی ہوتا ہے.

          خاص طور پر ان کی طویل ترین غزلیں اور نظمیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں. وہ اپنے کلام کو مشاعروں میں بھلے ہی اس ڈرامائی انداز میں پیش نہیں کر پاتے جتنا لوگ کر لیا کرتے ہیں لیکن کاغذ پر شائع ہونے والے ان کے کلام پر پڑھنے والے سر ضرور دھنتے ہیں.

          شاید یہی وجہ ہے کہ نثر نگاری کی صلاحیت رکھنے والے فرحان دل کو جب نثری انجمنوں میں خاطر خواہ پذیرائی ہوتی نظر نہیں آئی تو انہوں نے نثری پروگراموں سے اجتناب کرنا شروع کردیا.

         وہ آج کل شاعری کا ایک واٹس اپ گروپ دبستانِ سخن چلا رہے ہیں جس میں روزانہ ایک مصرعہ دیا جاتا ہے اور اس مصرعہ پر گروپ میں شامل اراکین اور ایڈمن کی جانب سے فی البدیہہ اشعار موزوں کیے جاتے ہیں. اگر شعر میں کوئی سقم ہو، بحر میں کوئی نقص ہو یا لفظوں کا غلط استعمال ہوا ہو تو دوستانہ ماحول میں اس پر گفتگو کی جاتی ہے.

          فرحان دل نہ صرف خود اپنا وضع کردہ مصرعہ دیتے ہیں بلکہ دوسرے شعرائے کرام کے مصرعوں کو بھی ان کے نام اور بحر و ردیف و قافیہ کی وضاحت کے ساتھ دبستانِ سخن میں پیش کرتے ہیں. 

راقم کو بھی اس گروپ کا رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے.

          یہی وجہ ہے کہ اس موقع پر میں یہ بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جس شاعر پر متشاعر ہونے کا شک ہو اسے اس گروپ میں شامل کردیں.

          فرحان دل کے دبستانِ سخن میں اس کی ساری قلعی کھُل جائے گی کیونکہ وہاں فرحان دل جیسے سچے شاعر، شکیل میواتی جیسے پکّے شاعر، شکیل انجم جیسے اچھے شاعر کی موجودگی میں اسے کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی پڑے گا اور جیسے ہی وہ کچھ کہے گا، خود اس کی اور دوسرے لوگوں کی سمجھ میں آجائے گا کہ وہ کتنا بڑا فنکار ہے؟

          فرحان دل فیبریکشنر بھی ہیں. ناولٹی فیبریکشن کی اپنی شاپ سے رزقِ حلال کشید کرتے تھے. لفظوں کو جوڑ جوڑ اشعار کی شکل دینے والے اس شاعر نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اسے لوہے، اینگل اور پتھروں کو توڑ جوڑ کر کھڑکی، دروازے، ٹیبل، اسٹول اور دیگر چیزیں بنانی پڑیں گی. 

          اس کام سے پہلے فرحان ریڈیم کٹنگ کے ذریعے لوگوں کی گاڑیوں کو خوبصورت عطا کیا کرتے تھے نیز وہ موبائل لیمیشن کا کام بھی نہایت خوبصورتی سے کیا کرتے تھے. 

          اگر آپ کسی سچے فنکار سے ملنا چاہتے ہیں تو ایک مرتبہ فرحان دل سے ضرور ملاقات کریں. یقینا آپ کو ان سے مل کر دلی مسرت کا احساس ہوگا اور آپ ان کے اشعار پر داد دیئے بغیر نہیں رہ سکیں گے. 

          حالانکہ راقم آج کل اپنے احباب کے ساتھ کوشش میں ہے کہ فرحان دل کو نثری انجمنوں سے بھی مربوط کیا جائے کیونکہ میں نے ان کی ان بیاضوں کو دیکھا ہے جن پر افسانے تو افسانے، ناولٹ اور طنزومزاح پر مشتمل مضامین بھی موجود ہیں لیکن ان کی یہ صلاحیتیں عوام و خواص دونوں کی نظروں سے مخفی ہیں. 

          اگر ہم لوگ کامیاب ہوگئے تو یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل میں ایک اچھے شاعر کے علاوہ ایک اچھے نثرنگار کا استقبال مالیگاؤں کا اردو ادب کرسکتا ہے اور یہ استقبال ہونا ہی چاہئے.


یہ تحریر بھی آپ کے ذوقِ مطالعہ کی داد چاہتی ہے. 🔽

ایک انسان فنکار: احمد عثمانی



 



Sunday, January 01, 2023

نظم : گیا سال وہ، یہ نیا سال ہے

 نیا سال

(طاہرانجم صدیقی) 





گیا سال وہ یہ نیا سال ہے 

ہمارا ابھی تک برا حال ہے 

گرانی ابھی بھی ہے بازار میں 

مسائل سبھی کے ہیں گھر بار میں 

کہیں فکر لوگوں کو چولہے کی ہے 

کہیں فکر ورثے کی ، حصے کی ہے 

کہیں فکر دال اور آٹے کی ہے 

کہیں فکر بزنس میں گھاٹے کی ہے 

کہیں فکر پالک ، بجا لے کی ہے 

کہیں فکر رنگیں اجالے کی ہے 

کہیں فکر اسکولی بستے کی ہے 

کہیں فکر با دام و پستے کی ہے

کہیں لوڈ شیڈنگ پر حیرتیں 

کہیں پر ہیں مزدوروں سے نفرتیں 

کہیں پر تو راکیل ملتا نہیں 

کہیں پر بنا اے سی چلتا نہیں 

کہیں بند راشن کا ہے کچھ ملال 

کہیں ہوتے جاتے ہیں مر غے حلال 

کہیں پر ہے گھر پٹی بڑھنے کا غم

کہیں پر حویلی بھی پڑتی ہے کم 

کہیں ترسیں بڑھ جانے کو اجرتیں 

کہیں غم نہیں بڑ ھنے سے قیمتیں

کوئی بھٹکے ہے نوکری کے لئے 

کو ئی تڑ پے ہے لیڈری کےلئے 

کوئی غمزدہ سب گنوا دینے پر

کوئی خوش ہے دو لت کما لینے پر 

کوئی ہے پریشان بیماری سے 

کوئی خوش ہے اپنی زمیں داری سے 

کہیں بچے کی فیس کا ہے خیال 

کہیں ٹیکس کو ما ر لینے کی چال 

کہیں فکر ہے چھت ٹپک جا نے کی 

کہیں فکر بلڈنگ بنوا نے کی 

غرض کہ جد ھر دیکھو حیرانیاں 

جہاں پر بھی دیکھو پریشانیاں 

ہیں باقی مسائل گئے سال کے

نئے ہیں مسائل نئے سال کے



اس حمد سے صَرفِ نظری نہ کریں. نوازش ہوگی. 🔽