نور ہوں سردار جس کے ایسی جنّت پر سلام
(طاہرؔ انجم صدیقی ، مالیگاؤں)
نور نوری پشت پر، سجدے کی وسعت پر سلام
نور کی گردن پہ بوسے کی سعادت پر سلام
نور کے کانوں میں جو گھولیں اذانیں نور نے
اس اذانِ نور اور نوری سماعت پر سلام
نور آئے، نور سے بولے چُنیں بس ایک نور
نور کی خاطر جو دی بیٹے کی رخصت پر سلام
اہلِ بیتِ نور کا جس میں ہے نوری تذکرہ
ہاں اسی قرآن کی نورانی آیت پر سلام
نور کا کہنا کہ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں
نور کے الفاظ پر، نورانی عظمت پر سلام
نور کعبے سے ملا اک دو نہیں پچیس بار
نور کے پیدل سفر، نوری ریاضت پر سلام
کیا اندھیروں کے خطوط آئے اُجالا چل پڑا!
ظلم کے ہاتھوں نہ کی تھی، نوری بیعت پر سلام
مقتدی جو کھا گئیں، تاریکیاں افسوس کن
نور اکیلا بچ گیا، نوری امامت پر سلام
نور کے ساتھی بہتّر، سب پہ امّت کا درود
نور والے قافلے، نوری قیادت پر سلام
نور نے جانیں نچھاور کی ہیں دینِ نور پر
نور سے جو پائی اس نوری سخاوت پر سلام
نور اکیلا ڈٹ گیا تھا کہہ اٹھے گا کارزار
جو ملی تھی نور سے اس نوری جرأت پر سلام
کانپ اٹھّے دشمنانِ نور نوری خوف سے
ذوالفقارِ نور کی دوشاخہ ہیبت پر سلام
نور نے خود ہی سکھائی تھی جو اپنے نور کو
اس نمازِ عشق میں سجدے کی حالت پر سلام
آفریں ہر اک رکوع اور سجدے پر صد آفریں
جو نہ پوری ہو سکی اس نوری رکعت پر سلام
نور کے حصے لکھی تھی کربلا کی ریت پر
جس پہ نازاں ہو شہادت اس شہادت پر سلام
نوجواناں اترائیں گے جنّت میں طاہرؔ دیکھنا
نور ہوں سردار جس کے ایسی جنّت پر سلام
No comments:
Post a Comment