ہزل
کب دو گے ہمیں صاحب! آرام خدا جانے؟
کیوں ہم سے نکلتے ہیں سو کام خدا جانے؟
لگتے ہو میاں تم بھی ہم کو تو چچا چھکّن
"آغاز قیامت ہے، انجام خدا جانے"
لاحول پڑھا کرتے ہیں تم کو جو سنتے ہیں
کیوں خود کو سمجھتے ہو خیّامؔ خدا جانے؟
اِک ذہن کی تیزی کو سنتے ہیں میاں بدّھو
کھا جاتے ہیں کتنے ہی بادام خدا جانے؟
رشوت کو ہمیشہ ہی سودھان رہے پولس
کب دے گا خدا ان کو وِشرام خدا جانے؟
ستّر کی خزاؤں نے سب جھاڑ دئیے پتّے
کیوں بن کے نکلتے ہیں گلفام خدا جانے؟
اِک شعر اُڑایا تھا دی اس کو خبر کس نے؟
کس درجہ مچائے گا کہرام خدا جانے؟
ہیں جھرّیاں چہرے پہ کہہ دوں تو برا مانیں
آئینہ دکھانے کا انجام خدا جانے
اشعار خدا جس پر آسان کرے اس کو
کیوں دیں متشاعر کا وہ نام خدا جانے؟
بیلن بھی ہے، چمچے بھی سب پاس رکھے طاہرؔ
ڈھائیں گی قیامت کیا مادام! خدا جانے؟
یہ کلام بھی آپ کے ذوق کی داد چاہتا ہے. 🔽
ہم نے دنیا میں لہو رنگ تماشا دیکھا
السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
ReplyDeleteجناب یہ تازہ ہزل زیادہ متاثر نہ کرسکی. از راہ کرم آپ سنجیدگی کے ساتھ سنجیدہ غزل پر ہی توجہ دیں تو بہتر رہے گا. ردّ و قبول تسلیم.
آپ کے مشورے کے لیے شکرگزار ہوں جناب!
Deleteکیا کہنے طاہر بھائی •• واہ واہ
ReplyDeleteبہت شکریہ
Deleteواہ، بہت خوب
ReplyDeleteبہت شکریہ
Deleteشہناز فاطمہ
ReplyDeleteبھئی واہ لطف آگیا ہر شعر لاجواب ہے خصوصاً مقطع تو غضب کا یے بہت داد اور تحسین کے ساتھ نیک خواہشات اور پرخلوص دلی مبارک باد قبول کریں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آمین
بہت شکریہ
Deleteواہ، بہت خوب! ماشاءاللہ
ReplyDeleteبہت شکریہ
Deleteایک شعر اڑایا--------
ReplyDeleteہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام کے مصداق
مزاح کے ساتھ طنز
بہت خوب جناب