*غزل*
(طاہر انجم صدیقی)
کرے تو کیا کرے سوچو یہ خاکسارِ دشت؟
"نظر اٹھانے نہیں دیتا روزگارِ دشت"
میں روندنا ہی نہیں چاہتا وقارِ دشت
قدم کو چومنے بے چین ہے قطارِ دشت
کچھ احتیاط بھی رکھتا ہے ہوشیارِ دشت
تب اس کے سامنے بے بس ہے اختیارِ دشت
نہ پوچھ دشت نوردوں سے تو خمارِ دشت
ہمیشہ دیکھ یوں ہی بیٹھ کر غبارِ دشت
بُلائے کھول کے بانہیں سدا حصارِ دشت
مجھے بھی چین کہاں لینے دے خمارِ دشت
چلا ہے جوش میں طاہرؔ جو شہ سوارِ دشت
شکایتیں نہ کرے اس سے اِخْتِصارِ دشت
خدا ہی جانے ہے کیوں کر وہ سوگوارِ دشت
بنائے بیٹھا ہے آنکھوں کو آبشارِ دشت
کبھی اسے سبھی کہتے تھے ہائے! یارِ دشت
وہ سر جھکائے ہوئے گزرا شرم سارِ دشت
کھُلا تمام ہی سمتوں سے ہے دیارِ دشت
کوئی تو مجنوں ہو لیلی' کا پھر سے یارِ دشت
تمہارے ساتھ ہوا تھا کوئی قرارِ دشت؟
!جو ساتھ لے کے چلے آئے یادگارِ دشت
کہیں ملے جو تمہیں عشق درکنارِ دشت
سلام کہنا ہمارا ہو گر مزارِ دشت
لٹا رہا ہے خوشی سے کوئی غبارِ دشت
ہے میرے پاس مداوائے خلفشارِ دشت
ہمارے آنے سے تم دیکھو حالِ زارِ دشت
وہ اور ہوں گے جو بن جاتے ہیں شکارِ دشت
یہ آبلے ہیں یا طاہرؔ کوئی نگارِ دشت
یا دستِ دشت کا ہے کوئی شاہکارِ دشت
Read this please🔽
بس ذرا دیر ہی کرلینا گوارا ہم کو
ماشاءاللہ بہت خوب جناب
ReplyDeleteبہت شکریہ میرے عزیز بہت شکریہ
Deleteماشاءاللہ، بہترین
ReplyDeleteجزاک اللہ
Deleteبہت خوب بھائی... ہر مطلع زبردست ہے....
ReplyDelete🌹🌹🌹❤️🌹🌹🌹
بہت بہت شکریہ
Deleteواہ۔ واقعیء اچھے اشعار تراشے ھیں۔
ReplyDeleteبہت شکریہ
Deleteبہت خوب مطلع بہت بہترین ہے
ReplyDeleteبہت شکریہ
Deleteبہت خوب ۔۔۔ بہترین شعری کاوش
ReplyDeleteبہت خوب
ReplyDeleteکیا بات ہے۔ بہت خوب
ReplyDeleteبہت شکریہ
Delete