یہ افسانہ ناگپور یونیورسٹی میں ایم اے (اردو) چوتھے سیمسٹر، کے نصاب میں شامل ہے۔
بون سائی
محمد یحییٰ جمیل
مجھے باغبانی سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ پھر بون-سائی پودوں کے بارے میں کیا جانتا۔ کل پرکاش سے معلوم ہوا کہ بون-سائی، چینی لفظ ’پین زائی‘ کا جاپانی تلفظ ہے۔ ’بون‘ یعنی ٹرے اور’ سائی‘ یعنی درخت۔
’’پھر بون-سائی کہنا چاہیے، بون-سائی درخت نہیں؟‘ ‘
’’جس سے بات واضح ہوجائے وہ کہنا چاہیے۔‘‘ اس نے مسکراکر کہا۔ مجھے اس کی بات اچھی لگی۔ آخر زبان ہماری سہولت کے لیے ہے۔
پرکاش سے چند روز قبل ہی میری دوستی ہوئی ہے۔ اس نے پڑوس کا بنگلہ کرایہ پر لیا ہے۔ وہ اس کی بیوی اور تین سال کی بچی, چھوٹی سی فیملی ہے. اس بنگلے میں آنے والے ہر کرایہ دار سے میں دوستی کر لیتا ہوں۔ یوں زندگی کی یکسانیت کم ہوجاتی ہے۔ انصاری صاحب کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نے اس بنگلے کو کرایہ پر اٹھادیا ۔ اس کی بیوی کو امراوتی پسند نہیں اس لیے وہ ناگپور منتقل ہوگئے۔ وکیل ہے کہیں بھی پریکٹس کر سکتا ہے۔
پچھلی مرتبہ یہاں ایک پروفیسر آگئی تھی, سنگل تھی. عمر کوئی پچاس پچپن کے بیچ رہی ہوگی۔ ہمیشہ ہلکے رنگ کی ساڑی پہنتی اور انتہائی باوقار لگتی۔ روز صبح لان میں کتاب لے کر بیٹھی ہوتی۔ اگراسے باہر نکلنے میں دیر ہوجاتی تو میں انتظار کرنے لگتا۔ شام میں کلاسیکل موسیقی کی آواز آتی. شاید ریاض بھی کرتی تھی. فنون لطیفہ سے محبت کرنے والے مجھے بہت پسند ہیں۔ باوجود اس کے میں نے اپنی دوستی ، دیدار تک محدود رکھی تھی۔ پسند اپنی جگہ, اس کی تنہائی پسندی کا احترام بھی ضروری تھا.
اُس کے جاتے ہی پرکاش یہاں آگیا، گویا نمبر لگائے بیٹھا تھا۔ عمر کے لمبے فرق کے باوجود وہ بہت جلد بے تکلف ہوگیا۔ ورنہ آج کے نوجوان ریٹایرڈ آدمی سے زیادہ بات کہاں کرتے ہیں؟ پھر وہ بیٹے ہی کیوں نا ہوں۔ خیر، پرکاش بہت اچھا لڑکا ہے۔ چند ہی ماہ کے لیے آیا ہے۔ اس کے گھر کا رِنوویشن مکمل ہوتے ہی وہ چلا جائے گا۔
’’آج کیوں دیر کردی؟‘‘ مہتاب نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔
’’ہاں، ذرا دیر ہوگئی، سوری۔ ‘‘ اور کیا جواب دیتا۔ پہلے دیا کرتا تھا اور اکثر توتو میں میں شروع ہوجاتی۔ پھر جواب دینا بند کردیا تو بھی بحث کی گنجائش نکل آتی۔ گفتگو کا یہ طرز ذرا دیر سے آیا تھا۔
’’کسی دوست کے گھر بیٹھ گئے ہوں گے، مجھے کیا بے وقوف سمجھتے ہیں…‘‘وہ بڑبڑائی۔
’’چاے بنادوں؟‘‘ میں نے اس کی بات ان سنی کرتے ہوئے پوچھا۔
’’ کل شکر کم ہوگئی تھی۔تین چمچے ڈالنا۔‘‘
مہتاب پیاری پھوپھی کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ مجھ سے زیادہ، دونوں خاندانوں کے لیے یہ رشتہ اہم تھا، سو ہوگیا۔ مجھے بھی کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ خاندان، خوبصورتی، دینداری سبھی کچھ تو تھا۔ بات شروع ہوئی اور میں گھوڑی چڑھا دیا گیا۔ لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں والا تھرل ہی نہیں ملا۔ لیکن مہتاب کا ایسا مزاج ہوگا، ابا جی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پڑوسیوں نے پہلی بار ہمارے گھر سے اونچی آوازیں سنی تھیں۔ نوبیاہتا سہیلیوں سے سنے گئے رنگین قصوں نے مجھے بد ذوق اور خشک مزاج شوہر ثابت کیا تھا۔ بھرے پرے گھر میں ناز و نیاز کی گنجائش بھی کم تھی۔ ایک سال بعد مجھے دوسرے شہر میں ملازمت مل گئی۔ نئے شہر میں شفٹ ہوتے ہوئے سوچا تھا سال دو سال بعد واپس آجاؤں گا، لیکن وہ دن پھر کبھی نہیں آیا۔ میں یہیں ریٹایر ہوا۔
نئے شہر میں بھی چین کہاں تھا۔ کچھ دوست بہت نالائق مل گئے۔ ویک اینڈ پر دیر رات تک بیٹھک ہوجاتی۔ مہتاب کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی۔ ایک مرتبہ تواس نے غصے میں اپنی نسیں کاٹنے کی کوشش تھی۔ پڑوس کی عورتوں سے میل جول کو ، جانے کیوں وہ عار سمجھتی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کی مرضی نے قانون کی شکل اختیار کر لی۔ امی، اباجی صرف دوچار دن کے لیے آئیں۔ بھائیوں سے تہواروں پر ملاقات کروں۔ بہن سال میں ایک بار آئے اور دو دن سے زیادہ نہ ٹھہرے۔ سال میں صرف عیدین پر دعوت ہو۔ ویکیشن پر کوئی نہ آئے۔دوست اگر آئیں تو طہارت خانہ ہرگز استعمال نہ کریں۔ ضروری کام سے جاؤں اور فوراً لوٹ آؤں۔ گھریلو کاموں میں بہر حال مدد کروں۔
’’کمر میں بہت تکلیف ہے۔‘‘جب میں نے اسے چاے کی پیالی پکڑائی تو وہ دھیرے سے بولی۔
’’ہوں....‘‘
’’اگر آپ کو ایسی تکلیف ہوتی تو پل بھر برداشت نہیں کر سکتے تھے۔‘‘
کاش کسی نے درد کی پیمائش کا آلہ ایجاد کرلیا ہوتا۔ مگر کیا تب بھی میں کچھ کر پاتا؟ عرق النسا کے درد نے میرا جینا وبال کر رکھا تھا لیکن خیر۔
’’کل ڈاکٹر کو دکھا دیں گے۔‘‘
’’آپ کا کل، جلدی نہیں آتا ۔‘‘
برسوں پہلے میں نے مہتاب کو واکنگ کا مشورہ دیا تھا۔ پھر تین گھنٹے بری طرح پریشانی میں گذرے تھے ۔ وہ مجھے بتائے بغیر اپنی کزن کے گھر چلی گئی تھی، پیدل۔ یہ اچھا سبق تھا جو مجھے آج تک یاد ہے۔ اس لیے ہر تکلیف پر ڈاکٹر بہترین آپشن تھا۔ البتہ میں ہر شام گھومنے چلا جاتا ہوں۔ پرکاش کو بھی ایوننگ واک پسند ہے۔ کیا بات ہے!
’’اچھا پرکاش، بون- سائی کی قیمت کیا ہوتی ہے؟‘‘
’’ ڈپینڈ کرتا ہے، دو،ڈھائی ہزار سے ایک لاکھ تک۔ ‘‘
’’اور اسے بننے میں کتنا وقت لگتا ہے؟‘‘
’’کسی دن نرسری آئیے، آپ کو بون-سائی کے بارے میں تفصیل سے بتاؤں گا۔‘‘
’’ضرور۔‘‘ مہتاب اگر اپنے بھائی کے گھر جائے تو موقعہ مل سکتا تھا۔ ایسے تو ممکن نہیں۔ مگر وہ پہلے بھی اپنے گھر بہت کم جایا کرتی تھی۔ پیاری پھوپھی کے انتقال کے بعد تو اس کا میکا ہی ختم ہوگیا۔ بھائی کے گھر بمشکل جاتی ہے۔ اس کی بھابھی نہیں چاہتی کہ یہ سواری وہاں اترے۔ بھائی خود نالاں ہو تو پھر بھابھی کا کیا کہنا۔
’’کل چلیں؟‘‘پرکاش نے پوچھا۔
’’ارے نہیں، بتاؤں گا تمھیں۔‘‘میں نے بات ٹال دی۔
رات کے کھانے پر میں نے پرکاش کی تعریف کی تو مہتاب کو بہت ناگوار گذرا۔
’’اب آپ نے اسے پیچھے لگا لیا؟‘‘
اسے ڈر تھا کہ کہیں میں اسے کھانے پر نہ بلالوں۔ حالانکہ کسی دوست کو کھانے پر بلائے زمانہ بیت چکا تھا۔ اب تو کوئی دوست بھول کر بھی نہیں آتا۔ اس لیے عرصہ سے چاے بھی نہیں پلائی تھی ۔ اس شہر میں شفٹ ہونے کے بعد جب میں پہلی بار گھر گیا تو امی نے کہا تھا، تیرے جانے کے بعد ایک لیٹر دودھ کم کردینا پڑا۔ میرے دوست بہت تھے اور ان کی آمد سے انھیں خوشی ہی ہوتی تھی۔ خود بھی بہت سوشل تھیں۔ اللہ درجات بلند کرے۔
پھر جس دن پینشن لینے بینک جانا تھا میں پرکاش کی نرسری پہنچ گیا۔ اس دن دیر بھی ہوجائے تو مہتاب خاموش رہتی ۔ پرکاش بہت خوش ہوا۔ سارا کام چھوڑ کر مجھے گھماتا رہا۔ پھر بون-سائی درختوں کے پاس پہنچ کر بولا، ’’ہمارے یہاں، پیپل، املی، نیم، فائی کس، بوگن ویلا، برگد، گل مہر، سنترا، آم وغیرہ کے بون سائی بنائے جاتے ہیں۔‘‘
’’بون-سائی بنتے کیسے ہیں؟‘‘
’’ جس پودے کا بون سائی بنانا ہو اسے گملے سے نکال کر اس کی بڑی ڈالیاں کاٹ لیتے ہیں۔ جڑیں بھی کم کرتے ہیں۔ پھر اتھلے گملے میں کھاد اور مٹی کے ساتھ لگادیتے ہیں۔ اس کی غیر ضروری شاخوں اور پتوں کو کاٹتے رہنا ہوتا ہے۔ تاکہ اس کی لمبائی ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔‘‘
’’اس کی کھاداسپیشل ہوتی ہے؟‘‘
’’نہیں، وہی عام کھاد ڈالی جاتی ہے ۔ فائی کس اور پیپل کے لیے کھاد کے ساتھ مٹی کی جگہ باریک کرش ملایا جاتاہے۔‘‘
’’دو سے تین سال بعد بون-سائی کا گملا بدلنا پڑتاہے۔‘‘
’’ہوں… دیکھو، کچھ سیدھے ہیں کچھ ذرا ترچھے، بالکل عام درختوں کی طرح۔‘‘
وہ ہنسا اور بولا، ’’یہ بھی ہماری کاریگری ہے۔‘‘
’’اچھا!‘‘
’’المونیم کے تاروں سے ڈالیوں کو اپنی مرضی کے مطابق شکل دیتے ہیں۔ اس طرح دیڑھ دو سال میں بون سائی کی ابتدائی صورت بن جاتی ہے۔ یہ دیکھیے، یہ سیدھے تنے والا بون-سائی ہے اسے Formal Upright کہتے ہیں. Informal Upright میں اس کا تنا ٹیڑھا رکھا جاتا ہے. پہاڑوں پر تیز ہوا کی وجہ سے درخت جھک جاتے ہیں اس طرح کا لک دینے کے لیے Slanting Upright کیا جاتا ہے۔ Forest کا لک دینے کے لیے ایک برتن میں چار پانچ بون- سائی اگائے جاتے ہیں۔ یہ بون سائی بالکل جنگل کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ ‘‘
’’یعنی کوئی چاہے تو جنگل خرید کر لے جائے۔‘‘
’’شوق سے…‘‘
میں نے پرکاش کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر شعر پڑھا:
’’کر علاجِ وحشت دل چارہ گر
لا دے اک جنگل مجھے بازار سے‘‘
وہ مسکرا کر میری جانب دیکھتا رہا۔
’’اردو کے بہت بڑے شاعر ہوئے ہیں، مومن خاں مومن۔ ان کا شعرہے!‘‘ میں بولا۔
’’ میں دوسری لائن سمجھا۔‘‘
’’کیا سمجھے؟‘‘
’’ مومن صاحب کو یہ گفٹ کیا جاسکتا ہے ۔‘‘ ہم دونوں دیر تک ہنستے رہے۔
آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ میں نے رومال سے آنکھیں صاف کیں، اور کافی پی کر گھر کے لیے نکل پڑا۔
پھر ایک دن پرکاش بھی چلا گیا۔ لیکن جانے سے پہلے اس نے مجھے نیم کا ایک بون-سائی تحفہ میں دیا۔ نہایت قیمتی گملے والا۔ بہت پیارا ۔ میں نے اسے مومن کا شعر فریم کرکے دے دیا۔ وہ بہت خوش ہوا۔ میں نے بون -سائی بالکونی میں رکھ دیا۔ بنگلے کی جانب تاکہ اس کے ساتھ پرکاش کی یاد تازہ رہے۔
اس دن جب سونے کے لیے لیٹا تو نیند آنکھوں سے غائب تھی۔ دیر تک جاگتا رہا۔ نومبر کا مہینہ تھا۔ ہوا میں ٹھنڈک بڑھ گئی تھی۔ میں نے مہتاب کو دیکھا، وہ گہری نیند میں تھی۔ میں آہستہ سے اٹھا اور بون-سائی کے سامنے جا بیٹھا۔ یہ بون-سائی نیم، گاؤں والے نیم کے درخت سے کتنا ملتا جلتا ہے۔ نچلی شاخ تو بالکل ویسی ہے۔ اس بون- سائی کے نیچے چند بچے کھیل رہے تھے۔
میں نے چشمہ اتار دیا اور غور سے دیکھنے لگا۔ اوہ، یہ تو میں اور میرے چھوٹے بھائی ہیں۔ منّی نمبولیاں جمع کررہی ہے۔ گھر کے آنگن میں وہ اِن کی دُکان لگائے گی۔اس نے سنہری رنگ کا شلوار کرتا پہنا ہے۔ آنکھوں میں بڑا سا کاجل لگا ہے۔ اس کے کتھیا بال، لال رنگ کے ربن سے بندھے ہیں۔ میں شاخ پر چڑھا اور کود گیا۔ ’آہ…‘میری چیخ نکل گئی۔ میرے پیر میں کانچ کا ٹکڑا چبھ گیاہے۔ دونوں بھائی دوڑ کر آئے۔ ایک نے میرا پیر اپنی گود میں رکھ لیا۔ خون سے اس کا قمیص سرخ ہونے لگا ہے۔ دوسرا کانچ کا ٹکڑا نکالنے کی کوشش کررہاہے۔ منی رو رہی ہے۔ ’’بھیا آپ کو بہت درد ہورہا ہوگا نا؟‘‘
’’نہیں.... تو رو مت۔‘‘
’’بھیا، آپ سے ملے دو سال ہوگئے۔ آپ کی بہت یاد آرہی ہے۔‘‘ وہ بولی۔
میں نے اس کے آنسو پونچھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور میری انگلیاں بون-سائی کے تنے کو چھو گئیں. پھر میں تیزی سے بون-سائی لے کر گھر کے آنگن میں چلا گیا۔ اب گڑھا کرنے کے لیے کسی چیز کی ضرورت تھی۔ اسٹور میں سلاخ مل گئی۔ کچھ ہی دیر میں بالشت بھر کا گڑھا ہوگیا۔ میں نے بون-سائی کو اتھلے گملے سے نکالا اور زمین میں لگا دیا۔ مٹی برابر کرنے کے بعد اس پر پانی کا چھڑکاو کیا۔ ہلکی ہوا کے جھونکوں سے ننھا نیم لہلہانے لگا تھا۔ جلد ہی یہ چھتنار ہوجائے گا۔ اس کام سے فارغ ہوکر مجھے وہ ذہنی سکون میسر آیا جس کے لیے میں مدت سے تڑپ رہا تھا۔
یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ فطرت کا گلا گھونٹ کر اسے بونا بنادیں۔اسے تناور درخت کیوں بننے نہ دیا جائے؟ آخر درخت اسی لیے تو ہے کہ پرندے اس پر گھونسلے بنائیں، اس کی شاخوں پر چہچہائیں، اس کے نیچے بچے کھیلیں، اس کے پھل کھائیں، کیڑے مکوڑے بھی اس سے اپنی غذا حاصل کریں۔ وہ بیچارہ تو سب کے لیے مفید ہے، پھر سب کو محروم کر کے اپنی تسکین کے لیے اس پر ظلم کیوں؟ بلکہ اپنی غرض کے لیے سب پر ظلم کیوں؟؟
🌳 ختم شد
بون سائی۔۔۔۔ محمد یحییٰ جمیل کا خوبصورت علامتی افسانہ ہے جس میں کیا ہےانہوں نے معاشرے کی تلخ سچائی اور رشتوں کی نزاکت اور تلخ شیریں حقیقتوں کو پیش کیا ہے ۔ مہتاب کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں جڑنے، اس کے مزاج و فطرت کو جانتے سمجھتے ہوۓ بھی بڑوں اور بزرگوں کی خوشیوں کی خاطر ان کے فیصلوں پر سرتسلیم خم کرکے اپنی تہزیب اوراعلی اخلاقی اقدار کی عکاسی نک ی ہے۔ افسانہ اپنی ارتقائی منزل کی طرف اس وقت پہنچتا ہے جب افسانے کا ہیرو تنہائی میں نیند اچاٹ ہوجانے پر بون سائی کو دیکھ کر پرکاش کی یادکرتا ہے اور اس ننھے پودے کو مٹی میں اباد کرتا ہے اور ماضی کی حسین یادوں میں) کھو جاتا ہے اچانک اس کے پاؤں میں کانچ گڑنا، خون بہنا ننھی بہن کا بھی بیتابی معصوم مربع اکی بھارت کا اپنی گود میں پیر اٹھا لینا یہ اس کے اندرون کی اپنا) سے جدائی اور ملنے کی تڑپ قاری کو اندر تک چھلنی کردیتی ہے افسانہ کی یہی معراج ہے
ReplyDeleteوہیں درختو ہوتے ہی اس لیے کہ پرندے بسیرا کریں مہتاب کے مزاج کی وجہ سے داستان اور رشتہ داروں سے جدائی کا خیال اور ملنے کی تڑپ درباری ہے مین اس خوب صرف افسانے پر یحییٰ جمیل کے لیے مبارکباد پیش کرتا ہوں ساتھ ہی اس عمدہ پیش کش پر اپ بھی مبارکباد کے مستحق ہیں
کرن
30 PM
Deleteآپ کے گراں قدر تاثرات کے لیے ممنون و شکرگزار ہوں.
طاہرستان پر "بون سائی" پر میری تجزیاتی گفتگو بھی ضرور پڑھیں.
ReplyDeleteافسانہ نگار : محمد یحییٰ جمیل
مبصر: مختار خان
part (1) پارٹ 1
یحییٰ جمیل سے میرا تعارف پچھلے چار پانچ برسوں سے ہے۔ چونکہ میرا بھی تعلق امراوتی شہر سے ہے اس لیے وطن لوٹنے پر اکثر یحییٰ جمیل سے ملاقاتیں ہوتی رہتی ہیں۔ اس دوران سماجی، ادبی موضوع پر خوب تبادلہء خیال بھی ہوتا ہے۔ بات چیت میں اکثر ہندی، مراٹھی اور دیگر زبانوں میں ادبی سرگرمیوں کے رجحان کو لیکر گفتگو کا ایک لمبا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ یحییٰ، ممبئی کی ادبی ثقافتی سرگرمیوں کو بہت شوق اور دلچسپی کے ساتھ سنتے ہیں۔ آپ شگفتہ مزاج اور کم گو انسان ہیں۔
اپنی ملاقاتوں کے دوران یحییٰ جمیل کو میں نے با شعور اور ایک سنجیدہ فنکار کے روپ میں پایا۔
دیگر زبانوں کے ساتھ ساتھ اُنکے ہم عصرادیبوں کی رچناؤں پرآپ کی نظربرابربنی رہتی ہے۔
یحییٰ اپنی کہانیوں میں اکثر آس پاس کے موضوعات کو چنتے ہیں۔ ان موضوعات کے ذریعے معاشرہ میں انسانی قدروں کی پامالی، رشتوں میں آئے سطحی پن، بڑھتے ہوئے مصنوعی رجحان کی کسک کو وہ تخلیقی رنگ میں بڑی خوبصورتی کے ساتھ پیش کرتے ہیں، عموماً اُنکی تخلیق سیدھی سپاٹ نہیں ہوتی،
تصویر میں کھینچیں لکیریں بھلے ہی سیدھی نظر آئیں لیکن اس کے بھیتر ایک ہلکا ساخم ضرور ہوتا ہے۔ ٹھیک ٹھیک فائن آرٹ کی کسی پینٹنگ کی طرح ابسٹریکٹ ، ظاہری طور پر ان کی کہانیاں سرل سیدھی جان پڑتی ہیں۔ پر یہ اپنے بھیتر ایک گہرا رمز لیے ہوتی ہیں۔ بس ایک ہلکا سا اشارہ سا دے کر خاموش ہوجاتی ہیں۔ یحییٰ کہانی کہتے ہیں لیکن ساتھ ہی بہت کچھ چھپا بھی جاتے ہیں یعنی ان کہا تلاشنے کی ذمہداری وہ قاری پر چھوڑ دیتے ہیں۔ اب یہ قاری پر ہےکہ وہ کہانی کے بھیتر اترے ، سمجھے اور اس چھپے سنسار کے درشن پاکر محظوظ ہوتا جائے۔
اس طرح اُن کی کہانیاں بڑی شائستگی کے ساتھ قاری کے ذوق و شعور گڑھنے، سنوارنے کے ساتھ ساتھ ذوقِ ادب کے احساس کو دو بالا کر جاتی ہے۔
اسی طرح۔۔۔۔۔ پیش کردہ کہانی بونسائی بھی اپنے آس پاس کے معاشرہ کی تلخ حقیقت کا ایک بیان ہے۔ سرسری مطالعہ میں کہانی صرف ایک متوسط پریوار تک سیمِت جان پڑتی ہے۔
پر میں اس کہانی کو آج کے معاشرہ کے پتن کی یعنی زوال کی کہانی سمجھتا ہُوں۔
ایک طرف تو انسان چاند سے بالاتر مریخ پر اپنے قدم جمانے کی سوچ رہا ہے پر وہیں دوسری طرف معاشرہ کا اپنی ذات تک محدود ہونے کہ عمل بھی بڑی تیزی کے ساتھ جاری ہے۔
بے جا صارفیت، خود غرضی خود نمائی، اپنے گھر پریوار تک محدود دائروں کی جکڑن اس کے قد کو لگاتار بونا بناتی جا رہی ہے۔ یعنی اسے بونسائی بناتی جاتا رہی ہے۔ ( جاری ہے ۔۔۔۔۔پارٹ 2
ReplyDeleteپارٹ 2
۔۔افسانہ ۔بونسائی ۔۔ تبصرہ ۔مختار خان
مقدس گرنتھ اُپنیشد کی ایک کتھا کے مطابق یہ پوری کائنات ایک قدآور درخت کی مانند ہے۔ ۔جسکی کئی شاخیں اورانگنت پھل پھول ہیں۔ جب تک اس درخت پر بہار ہے تب تک برہمانڈ میں جیون باقی ہے ۔ لیکن وہیں یُگانتر سے اس قد آور درخت کے سکڑنے کا عمل بھی متواتر جاری ہے ۔ ایسا قیاس ہے کہ جس دن یہ درخت سکڑ کر ایک نهنے سے پو دے یا بیج کی شکل میں تبدیل ہو جائیگا اُس دِن یہ کائنات فنا ہو جائے گی۔
اس کتھا کے تناظر میں یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک درخت کا تناور ہونا زندگی کی نشانی ہے۔
وہیں اس تناور درخت کا سکڑنا یا بونسائی ہوجانا فنا کی طرف گامزن ہونا ہے۔ یعنی درخت تناور ہوکر پھل، پھول، پرندوں اور راہ گیروں کو اپنی ذات سے جلا بخشنے کا کام کرتا ہے۔ درخت دوسروں کو سایہ د یتا ہے، سہارا بنتا ہے۔ ۔ماحول کو تروتازہ رکھتا غرض یہ کہ درخت کے ساتھ ساتھ جیون بھی خوب پھلتا پھولتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف ایک بونسائی، درخت تو ہے پر وہ بڑے درختوں کا متبادل ہرگز نہیں ہو سکتا۔
۔بونسائی ،اس علامت کے ذریعہ مصنف نے ایک تہہ دار کہانی کہی ہے۔ بڑی خوشی کی بات ہے کہ اس کہانی کو کئی زاویوں سے دیکھا گیا ۔
میں سمجھتا ہوں مصنف نے بونسائی کو میڈیم بناکر ہمارے سامنے ایک سوال کھڑا کیا ہے۔ کیا انسانی معاشرہ کو بھی بونسائی بنایا جا سکتا ہے ؟ اگر ہاں تو۔۔۔
وہ کون سا طرزعمل ہے جس کے ذریعہ ایک جیتا جاگتا ہاڈ مانس کا انسان بونسائی میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
در اصل بونسائی عمل خلاف قدرت ہے۔ قدرت کسی جاندار شے کو بونسائی بنانے کے حق میں نہیں ہے۔ یعنی کوئی پودا اپنے آپ بونسائی نہیں بنتا۔ وہ تو کھلنا چاہتا ہے۔ قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونا چاہتا ہے۔ اپنے وجود سے اس کائنات میں خوبصورت رنگ بھرنا چاہتا ہے۔ بونسائی بن کر وہ صرف ڈرائنگ تک قطعی محدود نہیں رہنا چاہتا۔
بونسائی درخت باقاعدہ ایک طرزِ عمل کے تحت وجود میں آتے ہیں۔
اسی طرح انسانی معاشرہ بھی ایک مخصوص طرزِ عمل کے ذریعہ بونسائی نسل میں تبدیل ہوئے جا رہا ہے۔ یہی لمحہء فکریہ ہے۔ یہی بات مصنف کو بھی کچو ٹتی ہے۔
آج انسانی معاشرہ علاقائیت، تنگ نظری،تقلید، مذہبی، لسانی، وطن پرستی جیسے رجحانات کے دائروں میں سمٹتا جا رہا ہے۔ اسے یہ متعدد دائرے لگاتار بونسائی بناتے جا رہے ہیں۔ انسان خود اپنے آپ کو ان
دائروں میں جکڑتا جا رہا ہے۔
آج معاشرہ میں دانشور، ادیب، رہنما ،علماء واعظ تو ضرور نظر آتے ہیں۔ اُنکی صورت شکل ہی بھی ہو بہو ویسی ہی ہے۔ پر افسوس اُن میں قد آور درخت کی طرح وسعت نظر نہیں آتی۔
ان کا شعورایک بونسائی درخت کی طرز پر محدود ہوکر رہ گیا۔ یہ انکا چہرہ مہرہ ، ہاؤ بھاؤ ضرور ایک قد آور انسان سے نظر آتے ہیں لیکن یہ نہ بھولیں کہ ان کی نشوو نما ایک پنجرے میں ہورہی ہے انکی ذہنی پرواز محدود ہو کر رہ گئی ۔
انکی ذہنی و فکری نشوو نما ایک صحت مند ماحول میں نہیں ہوسکی۔
آج کا ادیب ، دانشور، سیاسی رہنما، واعظ معاشرہ میں موجود تو ضرور ہے۔ پر انکی بصیرت، انکا شعور بونسائی بنتے جانے کے عمل سے گزر رہا ہے۔
مصنف بونسائی ہونے کا قطعی حامی نہیں ہے وہ ایک قدآور درخت کی تمنا رکھتا ہے۔
وہ اپنے آنے والی نسلوں کو بونسائیت سے محفوظ رکھنا چاہتا ہے۔ وہ ایک ایسے صحت مند معاشرہ کی توقع کرتا ہے۔ جو بیجا بندشوں سے آزاد ہو۔ جہاں ہر کسی کو آگے بڑھنے کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ آنے والی نسل کا ہر فرد ایک تناور درخت کی طرح قد آور انسان بنے تاکہ وہ دوسروں کا سہارا بنِ سکے۔ جس طرح بونسائی درخت ملکر کبھی جنگل نہیں کہلا سکتے۔ اسی طرح بونسائی انسان مل کر ایک صحت مند معاشرہ کی تشکیل نہیں کر سکتے۔
9867210054
خان مختار ،ممبئی۔
خان مختار صاحب نے اس افسانے پر بڑی پیاری گفتگو کی ہے. ان کا شکرزار ہوں
Delete