Translate ترجمہ

Thursday, April 13, 2023

تجزیہ: نیم بپلیٹ پر گفتگو

  نیم پلیٹ" پر گفتگو" 

افسانہ نگار: طارق چھتاری

گفتگو: طاہرانجم صدیقی، مالیگاؤں. 




           خدا جانے میں نے "نیم پلیٹ" کو کب پڑھا تھا؟ سب کچھ دھندلایا ہوا ہے. ایسا لگتا ہے کہ یاد کرنے کے لئے ذرا سا بھی زور لگاؤں گا تو میرے اپنے وجود میں ہی کہیں چھناکے سے کچھ ٹوٹ پھوٹ جائے گا یا پھر میرے اپنے وجود سے کوئی چیز اکھڑ کر نیچے گر پڑے گی.

           "نیم پلیٹ" کو پڑھنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ بہت پہلے پڑھے گئے افسانے کی نیم پلیٹ اور افسانہ نگار کا نام *طارق چھتاری* آج تک ذہن سے چمٹا ہوا ہے اور طارق چھتری صاحب نے اپنے افسانے کا آغاز یوں کیا. 

           ’’کیا نام تھا اس کا ؟ اُف بالکل یاد نہیں آ رہا ہے۔‘‘

        🔸افسانہ اس سوال سے شروع ہوتا ہے اور ختم بھی ہوجاتا ہے لیکن ایک تجسس سا سارے افسانے میں سحر بن کر سمویا ہوا محسوس ہوتا ہے. ایسا لگتا ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ افسانہ پڑھ لیا جائے اور کیدار ناتھ کو اس سوال کا جواب دے دیا جائے لیکن افسانہ ختم ہوجانے کے بعد بھی کیدار ناتھ کی بیچارگی کا مداوا نہی‍ں ملتا اور وہ سارے افسانے میں پریشان پریشان نظر آتے ہیں. دیکھیں:

          "انھوں نے پیشانی پہ ہاتھ رکھا۔"

           "پچھتر سالہ کیدار ناتھ کے ماتھے کی بے شمار جھریاں بوڑھی ہتھیلی کے نیچے دب کر پھڑپھڑنے لگیں۔" 

          🔸اسے فنکارانہ کردار نگاری کی خوبی سمجھوں؟ خوبصورت منظرنگاری کہوں یا کمال کی جذبات نگاری کا نام دوں؟ جوبھی ہے، ہے بڑا جاندار اور شاندار.

          ’’سر لا کی ماں ..........’’ ا ن کے منھ سے بے ساختہ نکل پڑا۔

          🔸بیٹی کا نام یاد رہنا اور بیوی کا نام بھول جانا؟ بھی ایک بڑا عجیب روگ ہے. بڑا المیہ:

          "کیدار ناتھ نے جھنجھلا کر سرہانے رکھی چھڑی کو اٹھایا ، گلے میں کس کے مفلر لپیٹا اور بار بار چھڑی کو فرش پر پٹخنے لگے۔ پھر دونوں ہاتھوں میں چھڑی کو جکڑ کر اس طرح سر کے قریب لائے جیسے اس کے ہتھے سے اپنا سر پھوڑ ڈالنا چاہتے ہوں۔" 

         🔸یہ اقتباس بتاتا ہے کہ طارق چھتاری صاحب کا مشاہدہ غضب کا ہے. کیدار ناتھ کی حرکات و سکنات بالکل فطری ہیں. آدمی یاد کرنے کے لئے یقینی طور پر اپنے ماتھے یا سر کو ہاتھ ضرور لگاتا ہے.

         ’’ تعجب ہے اپنی بیوی کا نام بھول گیا !اسے مرے ہوئے بھی تو چالیس برس گذر گئے ہیں۔تین سال کا عرصہ ہوتا ہی کتنا ہے۔صرف تین سال ہی تو اس کے ساتھ رہ پایا تھا میں۔‘‘

        🔸کیدارناتھ کے مکالمے بیانیہ کا کام کرجاتے ہیں اور وہ کہانی کہنے کا آرٹ دکھا کر یہ ثابت کرجاتے ہیں کہ کہانی کو آگے سرکانے کے لئے فنکار کو تو بس بہانہ چاہئے وہ کس چیز سے کیا کام لے لے کچھ کہا نہیں جا سکتا.

        "وہ لرز گئے اور گھبرا کر ایک پاؤں اس کے اندر رکھ دیا پھر دوسرا پاؤں ، اب وہ دروازے کے باہر کھڑے تھے۔سب کچھ خالی تھا ، ان کے ذہن کی طرح ، وہ سمت بھول گئے تھے اور الماری کے بجائے باہر جانے والا دروازہ کھول بیٹھے تھے۔"

       🔸اوہ....... کیا المیہ ہے. ابھی بیوی کا نام یاد ہی نہیں آسکا تھا اور اب سمتوں نے اپنے ہاتھ پاؤں سکیڑ لئے. ہائے رے بیچارگی.

       "باہر سڑک پر کہرا جما ہوا تھا۔ کھمبوں کے بلب مدھم دیوں کی طرح ٹمٹما رہے تھے۔ سنسان سڑک پر انھیں لگا کہ یکایک بھیڑ امڈ آئی ہے۔ چاروں طرف شور ہو رہا ہے۔ باجے کے شور سے کان پھٹے جا رہے ہیں۔دور کہرے میں چھپی ہوئی ڈولی ____سرخ جوڑا پہنے دلہن مسکرا رہی ہے۔

       سڑک پر ایک پتھر کا ٹکڑا پڑا تھا ، انھیں ٹھوکر لگی اور وہ لڑکھڑا کر کھمبے سے جا ٹکرائے ، بہت زور سے دھکا دیا تھا محلے بھر کی لڑکیوں نے ، اور پھر دروازہ بند۔

’’ کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘ نام معلوم ہوتے ہوئے بھی اس کا نام پوچھا تھا انھوں نے۔ وہ شرما گئی تھی اور گھٹنوں میں منھ چھپا لیا تھا۔ انھوں نے پھر پوچھا تو اس نے آہستہ سے اپنا نام بتایا۔"

          🔸فلیش بیک تکنیک کا اچھا استعمال کیا ہے طارق صاحب نے وہ بھی اتنی ہوشیاری اور فنکاری کے ساتھ کہ پتہ ہی نہیں چلتا کب ہم کیدارناتھ کے ماضی میں ان کے حجلہءعروسی میں انھیں اپنی بیوی کا نام پوچھتے دیکھ رہے ہیں. حالانکہ بالکل ہی اٹپٹا سا لگتا ہے شوہر کا اپنی بیوی کا نام پوچھنا.

          ’’ کیا بتایا تھا اس نے ؟ اف بالکل یاد نہیں۔‘‘

         🔸اس مکالمے کو پڑھ کر..... ایک کسک سی محسوس ہوتی ہے دل میں. دل چاہتا ہے کہ انھیں سرلا کی ماں کا نام جلدی یاد آجائے. یہی تو ہوتی ہے فنکاری. یہی تو ہوتا ہے فنکار جو لفظ بیچارہ استعمال کئے بغیر کردار کی حرکات و سکنات اور رویوں سے اس کی بیچارگی ظاہر کردیتا ہے اور ایسی صورت میں قاری کو اس سے بھرپور ہمدردی بھی ہوجاتی ہے.

         ’’اچھا تو اپنے باپ کے نام کی پلیٹ اکھاڑ کر............‘‘ کھٹ سے کوئی چیز گری۔

        🔸کیا فنکاری ہے! واااہ. کمال کا بیانیہ ہے طارق چھتاری صاحب کے پاس. ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے وجود کا کوئی ٹکڑا کھٹ سے نیچے گرگیا ہو. اس قسم کے جملوں نے تو افسانے کی تاثرانگیزی میں کمال ہی کر دکھایا ہے.

        انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کر قدموں میں آن گری ہے۔ وہ سہم گئے اور مجرم کی طرح گردن جھکا لی۔ یہ کسی کے نام کی پلیٹ تھی۔ مگر ایک حرف بھی صاف نہیں۔ سب کچھ مٹ چکا ہے۔

       🔸صرف نام کی پلیٹ کے حروف نہیں مٹے بلکہ ایک دور دھندلا گیا. ایک تہذیب کے نمایاں خطوط دھندلے ہوگئے اور پھر داد دینی پڑی طارق چھتاری صاحب کے بیانیہ کی. ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے لفظوں کی انگلیوں سے ہمارے محسوسات سے کھیل رہے ہیں. کبھی کوئی منظر سامنے کررہے ہیں تو کبھی مکالموں کی چبھن کا احساس دلا رہے ہیں. کبھی جذبات نگاری کا جادو جگا رہے ہیں. دیکھیں:

       "ان کے جسم میں سنسناہٹ سی ہونے لگی۔ لاغر ٹانگیں جو ابھی ابھی کانپ رہی تھیں ، پیاسے ہرن کی کلانچیں مارنے کو بے تاب ہو اٹھیں۔"

       "وہ بھاگ رہے ہیں۔ نہیں آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔ یا رینگ رہے ہیں یا پھر کھڑے کھڑے ہی ................یہ تو معلوم نہیں مگر وہ اپنے گھر سے کئی میل دور سرلا کے گھر کے بہت قریب آن پہنچے ہیں۔"

      🔸کیا کرب بھر دیا ہے سارے افسانے میں طارق چھتاری صاحب کے ظالم قلم نے. ذرا سا دم تو لینے دیتے جناب. آپ تو اپنے قلم کو مہارت کے ساتھ چلائے چلے جارہے ہیں اور ایک حساس قاری کو سانس لینے تک کی فرصت نہیں دے رہے ہیں. کمال کے فنکار ہیں آپ بھی.

     " سرلا سے اس  کی ماں کا نام پوچھ ہی لیں گے۔

سرلا کو اپنی ماں کا نام یاد ہو گا ؟ کیوں نہیں ...........کوئی ماں کا نام بھی بھولتا ہے کیا۔

’’ پاروتی دیوی.......‘‘ ان کی ماں کا نام پاروتی دیوی تھا۔ انھیں پچھتر سال کی عمر میں بھی اپنی ماں کا نام یاد ہے۔"

        🔸یہ مزید ظلم ہے. بےچارے پچھتر برس کے بوڑھے کو اس عمر میں بھی اپنی ماں کا نام یاد ہے مگر بیوی کا نام اس کے حافظے سے یوں صاف ہوگیا ہے جیسے اس کا نام واقعی تھا ہی نہیں.

       " کیسے اپنی ماں کا نام بھولی ہو گی؟ کیدار ناتھ کا دل اندر سے اتنا خوش ہو رہا تھا کہ ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔"

      🔸امید کی ایک کرن تھی سرلا جو اپنی ماں کا نام اپنے باپ کو بتا سکتی تھی. یہی سبب ہے کہ کیدار ناتھ خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں.

      "بوڑھے آسمان کی گود سے نئے سورج کا گولا جھانک رہا ہے۔"

     🔸اس افسانے سے پہلے میں نے آج تک ایسا بیان نہیں پڑھا ہے. کیا زبردست بیان ہے! باپ کی طرف سے شفقت سے بھرپور بیان اور بیٹی کی طرف سے باپ کے لئے محبت بھرا بیان. واہ طارق صاحب واہ. شاید یہ آپ ہی کرسکتے تھے.

    "کیدار ناتھ کے پنجوں کی انگلیاں سرد ہو کر سُن پڑچکی ہیں ، جیسے ان میں گوشت ہے ہی نہیں اور وہ اندر سے بالکل خالی ، بالکل کھوکھلی ہو چکی ہیں ، پرندے ان کے سر پر منڈلاتے منڈلاتے سرلا کے مکان کے اوپر جا بیٹھتے ہیں اور وہ سرلا کے مکان کے باہر کھڑے کھڑے تھک چکے ہیں۔’’ میں یہاں کھڑا ہوں۔ آتے جاتے لوگ دیکھ کر کیا سوچیں گے۔"

   🔸طارق صاحب! مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے آج میں داد دیتے دیتے تھک جاؤں گا. آج مجھے یقین ہوچلا ہے کہ واقعی کرشن چندر کو افسانہ خوانی پر شعرا کی طرح داد ملا کرتی تھی.

    " اب تو دن چڑھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ سرلا سو کر اٹھ گئی ہو گی۔ اندر چلنا چاہئے۔"

      "نام کی پلیٹ اکھاڑ کر ...............’’ کھٹ سے کوئی چیز گری ، انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کو قدموں میں آن گری ہے۔دھندلے دھندلے حرف ابھرنے لگے اور ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔"

        🔸اوہ.....ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا. سرلا کے گھر کی نام کی پلیٹ نیچے آگری. وہ اب وہاں نہیں رہتی یا رہتی بھی ہے تو اب اس کی کوئی شناخت نہیں ہے. شناخت اگر رہی بھی ہوگی تو اسے زبردستی مٹا دیا گیا ہے اور نیم پلیٹ اکھڑ کر کیدار ناتھ کے قدموں میں آپڑی ہے. دھندلے دھندلے حروف ابھرنے لگے ہیں مگر پھر آنکھوں میں مارے ضعف کے اندھیرا چھا گیا ہے.

         "کیدار ناتھ نے اپنے جسم پر چڑھے گرم کپڑوں کو اس طرح ٹٹولا  جیسے وہ ڈھونڈ رہے ہوں کہ کپڑوں کے اندر جسم ہے بھی یا نہیں۔" 

         🔸انسانی جسم کے کمزور و ناتواں ہونے کا فنکارانہ بیان طارق چھتاری صاحب کے فن کا اعتراف چاہتا ہے.

         "گھر لوٹنے کے لئے بس پکڑی۔اب ان کے جسم کی ساری رگیں ڈھیلی پڑ چکی تھیں۔"

       🔸آخری امید اور آخری سہارے کو کھو دینے کے بعد انسان کی حالت یقیناُ ایسی ہی ہوجاتی ہوگی جیسی کیدار ناتھ کی ہوئی تھی.

       "اندھیرا گہرا ہو تا جا رہا تھا ، کیدار ناتھ کو محسوس ہوا کہ دیواریں ان کی طرف کھسکتی چلی آ رہی ہیں۔"

       🔸ان دو جملوں میں کیدارناتھ کی بے بسی کا کتنا اچھا اظہار کیا گیا ہے! 

     سارا افسانہ بظاہر ایک شخص کی یادداشت سے پہلے بیوی اور پھر رفتہ رفتہ سارے ناموں کے مٹ جانے کا المیہ بن کر پیش ہوا ہے.

     کردار نگاری کمال کی ہے. جذبات نگاری کا جواب نہیں. مناظر تو یوں بیان ہوئے ہیں جیسے پڑھنے والا انھیں برسوں سے جانتا ہو اور پھر جگہ جگہ طارق چھتاری صاحب کے فنکارانہ اظہار نے سارے افسانے کو عجیب سے درد، کسک اور تجسس سے بھر دیا ہے. یہ ہوتا ہے افسانہ اور یہ ہوتی ہے افسانہ نگاری.

         میرے احباب جانتے ہیں کہ پہلے میں بہت ڈینگیں مارا کرتا تھا کہ تخلیق کار مقدّم ہے. نقاد تو بیچارہ ایک طفیلی جاندار ہے. جب تک تخلیق زندہ رہے گی وہ جونک بن کر اس سے چمٹا رہے گا اور خود بھی زندہ رہنے کی کوشش کرے گا لیکن وہ تخلیق کار مجھ جیسا کمزور تخلیق کار نہیں ہوسکتا بلکہ طارق چھتاری صاحب جیسا فنکار ہوسکتا ہے.

2 comments:

  1. طارق چھتاری صاحب کا افسانہ۔ نیم پلیٹ, کئ بار کا پڑھا ھوا اور خود افسانہ نگار کی زبان سے کئ مرتبہ کا سنا ھوا افسانہ ھے۔ اس پر لکھے گۓ بہت سے تبصرے اور تاثراتی تحریریں بھی نظر سے گزریں۔ یقیناً یہ ایک شاہکار افسانہ ھے۔
    طاھرانجم صاحب کا مضمون پڑھا, یہ تبصرہ سب سےنرالا اور منفرد لگا۔ مضمون نگار نے اپنی علمی, ادبی اور تجرباتی صلاحیتوں کو بروۓ کار لاتے ھوۓ, مذکورہ افسانے کے کیا کیا گوشے ڈھونڈ نکالے ھیں کہ بےساختہ زبان سے واہ نکل جاتی ھے۔ بہت محنت اور محبت سے لکھا گیا یہ مضمون نۓ نقادوں کےلۓ ایک نمونے کی حیثیت رکھتا ھے۔ طاھرانجم نے یہ تنقیدی مضمون پیش کرکے ثابت کردیا کہ ادب کے سمندر میں جتنی گہرائ میں غوطہ لگائینگے, اتنے قیمتی اور بے مثل موتی ہاتھ لگیں گے۔ اس مضمون سے افسانے کے بہت سے انچھوۓ پہلو نظر آۓ, اور مختلف زاویہء نگاہ سے افسانے کے درون میں دیکھنے کا موقع ملا۔
    طاھرانجم کو ان کے اس خوبصورت اور منفرد مضمون کی پیشکش کےلۓ دلی مبارکباد ۔
    غیاث الرحمٰن ۔

    ReplyDelete
    Replies
    1. سر! آپ کے یہ حوصلہ افزا کلمات کچھ مزید اچھا لکھنے پر اکسا رہے ہیں. جزاک اللہ خیرا کثیرا

      Delete