*بون ۔ سائی*
افسانہ نگار: محمد یحییٰ جمیل
گفتگو: طاہرانجم صدیقی (مالیگاؤں)
بزمِ افسانہ کے توسط سے محمد یحییٰ جمیل کا بون سائی پڑھنے میں آیا. عنوان اپنی جانب راغب کرنے والا ہے. با معنی ہے اور افسانے کی روشنی میں اپنے علامتی مفہوم کو واضح بھی کررہا ہے.
افسانے کی ابتدا دیکھیں:
"مجھے باغبانی سے زیادہ دلچسپی نہیں ۔پھر بون -سائی پودوں کے بارے میں کیا جانتا؟ کل پرکاش سے معلوم ہوا کہ بون-سائی، چینی لفظ ’پین زائی‘ کا جاپانی تلفظ ہے۔ ’بون‘ یعنی ٹرے اور’ سائی‘ یعنی درخت۔"
🔸بڑی خوبصورتی سے یحی' جمیل نے سائنسی معلومات کو مکالموں کے توسط سے افسانے کا حصہ بنا دیا ہے. یہاں یہ معلومات کسی مضمون کا ٹکڑا معلوم نہیں ہورہی ہے بلکہ افسانہ نگار کی فنکاری کے سبب افسانے کا حصہ بن گئی ہے.
افسانے کے راوی کے پڑوس میں کرایہ دار کی حیثیت سے آنے والوں کے تذکرے کے ساتھ افسانہ آگے سرکتا ہے. اسی تذکرے میں ایک لیڈی پروفیسر کا بھی ذکر شامل ہے لیکن افسانے کا راوی بہت جلد افسانے کو اصل کہانی کی طرف یوں موڑ دیتا ہے.
*مہتاب کا ایسا مزاج ہوگا، ابا جی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پڑوسیوں نے پہلی بار ہمارے گھر سے اونچی آوازیں سنی تھیں۔ نوبیاہتا سہیلیوں سے سنے گئے رنگین قصوں نے مجھے بد ذوق اور خشک مزاج شوہر ثابت کیا تھا۔ بھرے پرے گھر میں ناز و نیاز کی گنجائش بھی کم تھی۔*
🔸محمد یحی' جمیل نے کتنی خوبصورتی سے انسانی بون سائی، خواہشات کے بون سائی، چاہتوں کے بون سائی، سنہرے خوابوں کے بون سائی کو پیش کردیا ہے. بھرے پرے گھر میں نئی نویلی دلہن کے سنہرے خوابوں میں کتر بیونت کرکے بون سائی بنا کر گھر کے ٹرے میں سجانے پر جو نفسیاتی ردِ عمل سامنے آیا اسی بنیاد پر افسانہ کھڑا کر دیا ہے محمد یحی' جمیل نے.
*ایک سال بعد مجھے دوسرے شہر میں ملازمت مل گئی۔ نئے شہر میں شفٹ ہوتے ہوئے سوچا تھا سال دو سال بعد واپس آجاؤں گا، لیکن وہ دن پھر کبھی نہیں آیا۔ میں یہیں ریٹایر ہوا۔*
🔸راوی خود بھی بون سائی بن گیا ہے. وہ خود اپنی خواہشات اور چاہتوں میں کتربیونت کررہا ہے اور کھلی فضا میں آزادی سے زندگی گزارنے کی بجائے زندگی کے ایک چھوٹے سے ٹرے میں مقیّد ہوگیا ہے.
بلکہ مہتاب کے تزکرے کے بعد افسانہ نگار کا یہ بیان بھی راوی کو رفتہ رفتہ بون سائی میں تبدیل ہوتے ہوئے دکھانے کے لیے کافی ہے. دیکھیں:
"کچھ دوست بہت نالائق مل گئے۔ ویک اینڈ پر دیر رات تک بیٹھک ہوجاتی۔ مہتاب کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی۔ ایک مرتبہ تواس نے غصے میں اپنی نسیں کاٹنے کی کوشش تھی۔ پڑوس کی عورتوں سے میل جول کو ، جانے کیوں وہ عار سمجھتی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کی مرضی نے قانون کی شکل اختیار کر لی۔ امی، اباجی صرف دوچار دن کے لیے آئیں۔ بھائیوں سے تہواروں پر ملاقات کروں۔ بہن سال میں ایک بار آئے اور دو دن سے زیادہ نہ ٹھہرے۔ سال میں صرف عیدین پر دعوت ہو۔ ویکیشن پر کوئی نہ آئے۔دوست اگر آئیں تو طہارت خانہ ہرگز استعمال نہ کریں۔ ضروری کام سے جاؤں اور فوراً لوٹ آؤں۔ گھریلو کاموں میں بہر حال مدد کروں۔"
ان تذکروں کے بعد بون سائی بنانے کے عمل کو بتانا اس افسانے کا اہم حصہ ہے. اس چھوٹے لیکن اہم حصے کے ذریعے افسانے کے کرداروں کی نفسیاتی کیفیات سمجھی جا سکتی ہیں. دیکھیں:
’’جس پودے کا بون سائی بنانا ہو اسے گملے سے نکال کر اس کی بڑی ڈالیاں کاٹ لیتے ہیں۔ جڑیں بھی کم کرتے ہیں۔ پھر اتھلے گملے میں کھاد اور مٹی کے ساتھ لگادیتے ہیں۔ اس کی غیر ضروری شاخوں اور پتوں کو کاٹتے رہنا ہوتا ہے۔ تاکہ اس کی لمبائی ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔‘‘
🔸یہ صرف بون سائی پودوں کی بابت نہیں بتایا جارہا ہے بلکہ افسانہ نگار اپنے افسانے کے کرداروں کے ساتھ ہونے والے ہر قسم کے اس جبر کی طرف اشارہ ہے جو ان کی فطری جبلتوں اور فطری خواہشوں کے گملے سے نکال کر، بڑی ڈالی کاٹ کراس کی جڑیں کم کرکے، شاخوں اور پتوں کو بھی کتر ڈالا جاتا ہے اور گھر کے اتھلے گملے میں لگا کر اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ان کی خواہشیں بہت اونچائی تک سر نہ اٹھا پائیں اور ان کی فطری جبلتیں مخصوص حدوں کو پار نہ کرسکیں. ان ساری باتوں پر دھیان دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا کہ ان لوگوں کو مخصوص مراعات بھی دی جائیں.
فاضل افسانہ نگار نے اپنے افسانے کے اس اقتباس سے اپنے مرکزی خیال کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ اس میں کامیاب ہیں.
اس کے بعد وہ افسانے کے کلائمکس کی طرف تیزی سے مڑتے ہیں اور افسانے کے راوی کو بون سائی کے ساتھ جو عمل کرتے ہوئے دکھاتے ہیں وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے. دیکھیں:
"میں نے بون-سائی کو اتھلے گملے سے نکالا اور زمین میں لگا دیا۔ مٹی برابر کرنے کے بعد اس پر پانی کا چھڑکاو کیا۔ ہلکی ہوا کے جھونکوں سے ننھانیم لہلہانے لگا تھا۔ جلد ہی یہ چھتنار ہوجائے گا۔"
🔸یہ ہے فطری آزادی کی طرف راغب کرنے والا قدم. یہ ہے جیو اور جینے دو کے اصول پر چل کر اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو گلزار کردینے کا پیغام جسے قاری تک پہنچانے میں یحی' جمیل کامیاب ہیں اور افسانہ بھی یہیں پر مکمل ہے. یہی افسانے کا کلائمکس بھی ہے اور خاصا اثردار ہے لیکن اس کے آگے بھی یحی' جمیل صاحب نے لکھا ہے اور میرے خیال سے انھیں نہیں لکھنا چاہئے تھا. آپ بھی دیکھیں:
"اس کام سے فارغ ہوکر مجھے وہ ذہنی سکون میسر آیا جس کے لیے میں مدت سے ترس رہا تھا۔"
"یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ فطرت کا گلا گھونٹ کر اسے بونا بنادیں۔اسے تناور درخت کیوں بننے نہ دیا جائے؟ آخر درخت اسی لیے تو ہے کہ پرندے اس پر گھونسلے بنائیں، اس کی شاخوں پر چہچہائیں، اس کے نیچے بچے کھیلیں، اس کے پھل کھائیں، کیڑے مکوڑے بھی اس سے اپنی غذا حاصل کریں۔ وہ بیچارہ تو سب کے لیے مفید ہے، پھر سب کو محروم کر کے اپنی تسکین کے لیے اس پر ظلم کیوں؟بلکہ اپنی غرض کے لیے سب پر ظلم کیوں؟؟"
افسانے کا مندرجہءبالا اقتباس ایک تقریر ہے جو افسانہ نگار یہ سوچ کر کرگئے ہیں کہ شاید قاری کو ان کا افسانہ سمجھ میں نہیں آیا ہو گا. جبکہ ایسا نہیں ہے. ان کا افسانہ اپنے کلائمکس سے ہی ساری باتیں سمجھا چکاہے. انھیں اس جانب دھیان دینا چاہئے تھا.
اگر کچھ الفاظ چبھ رہے ہوں تو
"رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف"
No comments:
Post a Comment