غزل
طاہرانجم صدیقی
کہانی پھر کوئی لکھوا رہے ہیں
"نئے کردار ملتے جارہے ہیں"
سنو! کچھ سانپ پھر بل کھا رہے
ہمیں اندر سے ڈستے جارہے ہیں
کسی کی یاد کے کچھ پھول طاہر
ہماری روح تک مہکا رہے ہیں
چلو صحرا نوردی سیکھ ہی لیں
اگر ہم عشق کرنے جارہے ہیں
بچھا رکھا ہے دل کو راستے پر
سنا تھا ہم نے وہ بھی آرہے ہیں
تِرے دریا کو ٹھوکر میں اڑا کر
ابھی ہم کربلا سے آرہے ہیں
کہاں تک ناز دریا کا اٹھاتے
لو ہم ایڑی رگڑنے جا رہے ہیں
عقابوں نے مری پرواز دیکھی
خود اپنے پر کترنے جارہے ہیں
ابھی تو اک دیا روشن کیا تھا
ہواؤں کو پسینے آ رہے ہیں
وہی احساس کی سولی ہے پھر سے
اسی پر خود کو ٹھونکے جارہے ہیں
نقابِ سبز نوچی ہے خزاں نے
یہ برگ و بار تب مُرجھا رہے ہیں
ہوا کے پاؤں کو اب کون باندھے؟
یہ پتّوں کو بہت کھڑکا رہے ہیں
انھیں سیراب کرنا ہے ندی کو
مدھر سا گیت جھرنے گا رہے ہیں
ہمارا تذکرہ چھڑتے ہی طاہرؔ
کئی چہرے اترتے جارہے ہیں
اس حمد کو ضرور پڑھیں: 🔽
بدی کیا جانب اٹھے قدم کو مرا یہ احساس روکتا ہے
بہت خوب.... زبردست.... عمران جمیل
ReplyDeleteبہت شکریہ
ReplyDeleteشہناز فاطمہ
Deleteماشاءاللہ ماشاءاللہ بہت خوب صورت اشعار ہر شعر لاجواب ہے اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آمین
بہت شکریہ
Deleteاچھی غزل ہوئی ہے مبارک ہو اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ReplyDeleteبہت شکریہ
Deleteماشاء اللہ 💐 مبارک باد محترم
ReplyDeleteبہت شکریہ
Delete