روٹی کی آپ بیتی
طاہر انجم صدیقی،مالیگاﺅں۔
سنا ہے کہ سانس لینے کی طرح بولنا بھی ہر کسی کاپیدائشی حق ہے اس لئے نہ سانس لینے پر کسی قسم کی ”ائیر پٹی“ نافذ کی گئی ہے اور نہ ہی بولنے پر کسی قسم کی ”لکچر پٹی“لیکن ہمارا تو یہ حال ہے کہ بولنا تو دور کی بات”ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام “تم ڈنکا بجاﺅ بھی تو چرچا نہیں ہوتامثال کے طور پر اگر ہم یہ واضح کر دیں کہ ہم روٹی ہیں تو آپ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی طرح زمین بوس ہو جائیں گے اور ہوش میں آنے پر منہ بجا بجا کر دوسروں سے کہتے پھرےں گے کہ ”روٹی بول سکتی ہے! ۔۔۔۔روٹی بول بھی سکتی ہے!!!“کیوں میاں!کیا صرف آپ نے ہی بولنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ ہم پیٹ بھر سکتے ہیں تو بول کیوں نہیں سکتے ؟جبکہ آپ میں سے اکثر لوگ تو صرف باتوں سے ہی پیٹ بھر تے رہتے ہیں ۔اس وقت تو ہم واویلا نہیں مچاتے نا۔۔۔۔۔اور مچائیں بھی کیوں ؟کہ خود انسانوں کو ہی انسانوں کے بھوکے مر جانے کا کوئی غم نہیں ۔غم تو دور کی بات جناب ! آپ تو ان بیچارے مرجانے والوں کا تذکرہ ایسے کرتے ہیں گویا مرنے والے انسان نہیں کیڑے مکوڑے رہے ہوں۔ہاں !تو ہمیں خوشی ہوئی کہ آپ ہمارے بولنے پر بے ہوش نہیں ہوئے ۔ورنہ ابھی کل ہی بات ہے آپ کے دوست مابدولت ہمارے بولنے کی بدولت واڈیا دواخانہ کی زینت بن چکے ہیں ۔لیکن آپ ہمیں بیٹھے بیٹھے اس طرح دیکھ کیوں رہے ہیں؟کھاتے کیوں نہیں ؟اوہ!۔۔۔۔دانت میں درد ہونے لگا ہے آپ کے ۔۔۔۔ہمارے ساتھ ساتھ منہ میں ایک پتھربھی آگیا تھا چھوٹا سا۔۔۔۔تو اس میں بیگم پر دانت کیوں پیس رہے ہیں آپ ؟؟۔۔۔۔دیکھتے نہیں کہ ان ہاتھ میںزنانہ میزائل یعنی بیلن ہے ۔شایدآپ کوبھی معلوم ہو کہ عورت اور بیلن کے اس سنگم کی سنگینی پر ایک عورت زدہ شاعر نے یوںدہائی دی تھی کہعورتیں یوں بھی بنا کرتی ہیں ویلن اکثرشوہروں پر ہی گرا کرتے ہیں بیلن اکثرہاں معلوم ہے کہ خدا نے آپ کی بیگم کو دو آنکھیں دی ہیں اس لئے گیہوں سے کنکر پتھر وہ بالکل اسی طرح الگ کر سکتی تھیں جس طرح بڑے بڑے سرکاری عہدوں سے مسلمانوں کو الگ کر دیا جاتا ہے ۔۔۔۔لیکن جناب کوبھی تو بتّیس دانت ملے ہیں ۔ایک آدھ پتھر نہیں چبا سکتے آپ؟خدا جانے لوہے کے چنے کیسے چبائیں گے؟؟؟آپ تو کنکر سی بات پر منہ پھُلائے بیٹھے ہیں۔ محترم جناب!سبق سیکھیں ہم سے سبق!ہم نے روٹی ہو کر جتنے مصائب جھیلے ہیں ہماری جگہ آپ ہوتے تو کب کے پراٹھا بن گئے ہوتے۔ہیں کھائیں ہم نے اتنی ٹھوکریں کچھ اس زمانے کیاگر خود آپ ہوتے تو پراٹھا بن گئے ہوتےآپ نہیں جانتے کہ گذشتہ موسمِ سرما کے سرد مصائب کے درمیان ہماری آنکھ کھلی ۔ہم نے اطراف کا جائزہ لیا ۔پورے کھیت میں ہماری برادری موجود تھی ۔ آس پاس کے کھیتوں میں بھی ہمارے ساتھی موجود تھے لیکن معاف کرنا جناب !ہم لوگوں نے آپ کی طرح حصے بٹوارے نہیں کئے کہ یہ سنّی مسجد ہے یہاں دوسرے مسلک والے نماز نہیں پڑھ سکتے ۔یہ دیوبندی مسجد ہے یہاں غیر مقلد نہیں آسکتے اور یہ رافضیوں کی عبادت گاہ ہے جہاں دوسرے مسلک والوں کا داخلہ بذریعہ پاس بھی ممکن نہیں۔۔۔۔ہم یہ نہیں دیکھتے کہ کون کیا ہے ؟بلکہ ہم تو اتنا سمجھتے ہیں کہ ہمارا مقصد ایک ہے اور ہاں ہم آپ لوگوں کی طرح یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ اچھا ہے مگر ہندو ہے۔وہ ٹھیک کہہ رہا ہے لیکن سکھ ہے ۔ہم تو جو اچھا ہوتا ہے اسے اچھا ہی سمجھتے ہیںاور جو برا ہوتا ہے اسے لیڈروں کی طرح اچھا بناکر نہیں پیش کرتے ۔ہاںتو خیر! جب ہمار اجنم ہوا تو ہم سبز رنگ کے تھے ۔ہم نے اس وقت رنگ کی بنیاد پر کوئی فساد نہیں کھڑا کیا ۔بلکہ اپنی رنگت اور نازکی میں مگن رہے۔قدرت نے ہماری حفاظت کا معقول انتظام کر کے ہمیں بالیوں میں چھپا دیا۔ٹھنڈی ہوا ،گرم دھوپ،پانی اور کھاد کی صورت میں ہماری غذا برابر ہم تک پہنچتی رہی ۔ہم نے اس وقت دوسروں کا حق مار کر بڑے بڑے گوداموںمیں ناجائز ذخیرہ نہیں کیا ۔سردی گئی۔ سورج کی تھوڑی زیادہ تپش نے ہمارے رنگ کو سنہری بنا دیا ۔آپ لوگوں کی طرح نہیں کہ ایک بار دل میںسنا ہے کہ سانس لینے کی طرح بولنا بھی ہر کسی کاپیدائشی حق ہے. نہ سانس لینے پر کسی قسم کی ”ائیر پٹی“ نافذ کی گئی ہے اور نہ ہی بولنے پر کسی قسم کی ”لکچر پٹی“ لیکن ہمارا تو یہ حال ہے کہ بولنا تو دور کی بات”ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام “تم ڈنکا بجاﺅ بھی تو چرچا نہیں ہوتامثال کے طور پر اگر ہم یہ واضح کر دیں کہ ہم روٹی ہیں تو آپ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی طرح زمین بوس ہو جائیں گے اور ہوش میں آنے پر منہ بجا بجا کر دوسروں سے کہتے پھریں گے کہ ”روٹی بول سکتی ہے! ۔۔۔۔روٹی بول بھی سکتی ہے!!!“کیوں میاں!کیا صرف آپ نے ہی بولنے کا ٹھیکہ لے رکھا ہے؟ ہم پیٹ بھر سکتے ہیں تو بول کیوں نہیں سکتے ؟جبکہ آپ میں سے اکثر لوگ تو صرف باتوں سے ہی پیٹ بھر لیتے ہیں. تب تو اس ہم واویلا نہیں مچاتے نا۔۔۔۔۔ اور مچائیں بھی کیوں؟ کہ خود انسانوں کو ہی انسانوں کے بھوکے مر جانے کا کوئی غم نہیں. غم تو دور کی بات جناب ! آپ تو ان بیچارے مرجانے والوں کا تذکرہ ایسے کرتے ہیں گویا مرنے والے انسان نہیں کیڑے مکوڑے رہے ہوں۔ہاں !تو ہمیں خوشی ہوئی کہ آپ ہمارے بولنے پر بے ہوش نہیں ہوئے۔ ورنہ ابھی کل ہی بات ہے آپ کے دوست مابدولت ہمارے بولنے کی بدولت واڈیا دواخانہ کی زینت بن چکے ہیں ۔لیکن آپ ہمیں بیٹھے بیٹھے اس طرح کیوں دیکھ رہے ہیں؟ کھاتے کیوں نہیں؟اوہ!۔۔۔۔دانت میں درد ہونے لگا ہے آپ کے ۔۔۔۔ہمارے ساتھ ساتھ ایک پتھربھی آگیا تھا چھوٹا سا۔۔۔۔تو اس میں بیگم پر دانت کیوں پیس رہے ہیں آپ ؟؟۔۔۔۔دیکھتے نہیں کہ ان ہاتھ میں دونوں طرف سے داغا جانے والا زنانہ میزائل. وجود ہے۔ شایدآپ کو بھی معلوم ہو کہ عورت اور بیلن کے اس سنگم کی سنگینی پر ایک عورت زدہ شاعر نے یوں دہائی دی تھی کہعورتیں یوں بھی بنا کرتی ہیں ویلن اکثرشوہروں پر ہی گرا کرتے ہیں بیلن اکثرہاں معلوم ہے کہ خدا نے آپ کی بیگم کو دو آنکھیں دی ہیں اس لئے گیہوں سے کنکر پتھر وہ بالکل اسی طرح الگ کر سکتی تھیں جس طرح بڑے بڑے سرکاری عہدوں سے مسلمانوں کو الگ کر دیا جاتا ہے ۔۔۔۔لیکن جناب کو بھی تو بتّیس دانت ملے ہیں ۔ایک آدھ پتھر چبا نہیں سکتے آپ؟ خدا جانے لوہے کے چنے کیسے چبائیں گے؟؟؟آپ تو کنکر سی بات پر منہ پھُلائے بیٹھے ہیں۔محترم جناب!سبق سیکھیں ہم سے سبق! ہم نے روٹی ہو کر جتنے مصائب جھیلے ہیں ہماری جگہ آپ ہوتے تو کب کے پراٹھا بن گئے ہوتے۔ہیں کھائیں ہم نے اتنی ٹھوکریں کچھ اس زمانے کیاگر خود آپ ہوتے تو پراٹھا بن گئے ہوتےآپ نہیں جانتے کہ گذشتہ موسمِ سرما کے سرد مصائب کے درمیان ہماری آنکھ کھلی۔ ہم نے اطراف کا جائزہ لیا ۔پورے کھیت میں ہماری برادری موجود تھی ۔ آس پاس کے کھیتوں میں بھی ہمارے ساتھی موجود تھے لیکن معاف کرنا جناب !ہم لوگوں نے آپ کی طرح حصے بٹوارے نہیں کئے کہ یہ سنّی مسجد ہے یہاں دوسرے مسلک والے نماز نہیں پڑھ سکتے ۔یہ دیوبندی مسجد ہے یہاں غیر مقلد نہیں آسکتے اور یہ رافضیوں کی عبادت گاہ ہے جہاں دوسرے مسلک والوں کا داخلہ بذریعہ پاس بھی ممکن نہیں۔۔۔۔ہم یہ نہیں دیکھتے کہ کون کیا ہے ؟بلکہ ہم تو اتنا سمجھتے ہیں کہ ہمارا مقصد ایک ہے اور ہاں ہم آپ لوگوں کی طرح یہ بھی نہیں دیکھتے کہ وہ اچھا ہے مگر ہندو ہے۔ وہ ٹھیک کہہ رہا ہے لیکن سکھ ہے. ہم تو جو اچھا ہوتا ہے اسے اچھا ہی سمجھتے ہیں اور جو برا ہوتا ہے اسے لیڈروں کی طرح اچھا بناکر نہیں پیش کرتے ۔ہاں تو خیر! جب ہمارا جنم ہوا تو ہم سبز رنگ کے تھے۔ ہم نے اس وقت رنگ کی بنیاد پر کوئی فساد نہیں کھڑا کیا ۔بلکہ اپنی رنگت اور نازکی میں مگن رہے۔ قدرت نے ہماری حفاظت کا معقول انتظام کر کے ہمیں بالیوں میں چھپا دیا۔ ٹھنڈی ہوا ،گرم دھوپ، پانی اور کھاد کی صورت میں ہماری غذا برابر ہم تک پہنچتی رہی ۔ہم نے اس وقت دوسروں کا حق مار کر بڑے بڑے گوداموں میں ناجائز ذخیرہ نہیں کیا ۔سردی گئی۔ سورج کی تھوڑی زیادہ تپش نے ہمارے رنگ کو سنہری بنا دیا ۔آپ لوگوں کی طرح نہیں کہ ایک بار دل میں جو نفرت کا سیاہ رنگ بٹھا لیا سو بٹھا لیا اور وہ سیاہ ہے تو اسے سیاہ ہی رہنے دیں۔ اگر چہ وہ ہمارے شباب کا زمانہ تھا لیکن آپ سا نہیں کہ سنیما گھروں میں جائیں، ہلّڑ مچائیں ،اپنے ہیرو اور ہیروئن کے نام پر پیسے لٹائیں،راہ چلتی لڑکیوں پر پھبتیاں کسیں۔ ہم تو بس وہیں کھڑے جھومتے رہے۔ جھومتے جھومتے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ ہماری رنگت سونے کو شرمانے لگی۔تب ہم اپنی رنگت پر عورتوں کی طرح مغرور نہیں ہوئے. مسرور ہو گئے۔ہمیں کیا خبر تھی کہ ان مسرور کن لمحات کے بعد ایک انسان ہماری تمام مسرتوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے گا ۔۔۔۔کسان آیا تب اس کی درانتی تھی اور ہمارا جسم ۔۔۔۔ہم فسادات میں کٹنے والے انسانوں کی طرح کٹتے رہے۔ کوئی شکوہ بھی نہیں کیا. ورنہ آپ حضرات تو ذرا ذرا سی بات پر خدا سے شکوہ شکایت کرنا شانِ بندگی سمجھتے ہیں۔جھوٹ لگے تو آپ علامہ اقبال کی بانگِ درا کا ”شکوہ “ اٹھا کر پڑھ سکتے ہیں۔کسان نے ہمیں کاٹ کاٹ کر ایک کھلے میدان میں جمع کردیا اور بیلوں کے کھروں نے روند روند کر ہمیں ہماری بالیوں سے نکال باہر کیا ۔وہ بھی اتنی ہی آسانی سے جتنی آسانی سے ٹیم انڈیا کو کوئی بھی دوسری ٹیم فائنل کی دوڑ سے باہر کر دیتی ہے۔مرتے کیا نہ کرتے ؟ الگ ہو گئے ہم. آپ لوگوں کی طرح کوئی تحریک نہیں چلائی اور نہ ہی بھوک ہڑتال کی ۔ ہماری شرافت کا جائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمیں بڑی بڑی بوریوں میں بند کر کے شہری منڈی لایا گیا گیا۔ ہم چپ چاپ چلے آئے ۔جائے پیدائش کو لے کر کسی کھڑاگ میں نہیں پڑے اور نہ ہی جنم بھومی کی آڑ میں کسی مسجد کو شہید کیا.منڈی سے ٹرک اور لاریوں میں لاد لاد کر ہمیں ادھر ادھر لے جایا گیا. کوئی مشرق میں گیا تو کوئی مغرب میں۔جبکہ ہم فلور مل جا پہنچے۔پھر کیا تھا ؟ہم پر مظالم کا ہمالہ ٹوٹ پڑا۔ ہمیں چھیلا جاتا رہا ،چھانا پھٹکا گیا تاکہ مٹی اور کنکر پتھر اور دوسرا کوڑا کرکٹ ہم سے الگ ہو سکے۔ آپ لوگوں نے لیلہ مجنوں کو نہیں ملنے دیا تو بھلا ہم کس کھیت کی مولی ہیں؟ ہمیں الگ الگ کر نے کے بعد دھویا گیا۔ سکھایا گیااور بوروں میں بھرکر الگ الگ گوداموں میں لا پٹخا گیا ۔ہم نے سمجھا کہ چلو اب مصیبت کے دن ٹلے لیکن واہ ری قسمت! وہاں ہماری بوریوں کو دوبارہ کھول کھول کر ہمارے ساتھ پھر سے کنکر ،پتھراور دوسرا کوڑا کرکٹ ملایا جانے لگا۔ہم حیران ہی تو رہ گئے کہ کبھی تو ایسے الگ کر دیا گیا تھا جیسے ہندوستان سے پاکستان اور اب ایسے ملایا جا رہا ہے جیسے حیدرآباد سے ہندوستان۔ بعد میں غیب سے یہ مضمون آیا کہ اسے ہی ملاوٹ کہتے ہیں. ورنہ اگر انسان ہی دوسروں کا درد سمجھنے لگے تو پھر کا ہے کا رونا؟؟؟کچھ دنوں بعد ہمیں گوداموں سے بھی تڑی پار کرنے کے لئے ٹرک اور لاریوں پر سوار کر دیا گیا۔ ہم کئی سمتوں میں بٹ گئے۔راستے میں ہماری بوریوں میں کئی جگہوں پر کنکر پتھر ملائے گئے اور ان ملاوٹو ں کے دوران آپ ہمیں لے کر اپنے گھر آ پہنچے۔آپ کی بیگم نے ہمیں پھر سے صاف کیا. ایک ایک کنکر ،ایک ایک پتھر کو ہم سے بڑی محبت کیساتھ الگ کیا اور ہم خوش ہو گئے کہ چلو میاں ! ایک ہمدرد تو ملا ۔ اسی خوشی کا نتیجہ ہے کہ ہم وہ باتیں آپ کے گوش و گزار نہیں کریں گے جو بیگم کی بھنبھناہٹوں نے آپ کے تعلق سے بتائی ہیں۔ اگر ہم بتا دیں تو پھر یقینا بیگم آپ کی شوہرانہ دہشت گردی کا شکار ہو جائیں گی۔ہماری صفائی کے بعد انہوں نے ہمیں ایک صاف ڈبّے میں بھر دیا ۔آپ ہمیں لے کر چکّی پر جا پہنچے۔۔۔۔اور جب کئی گھنٹوں بعد ہمیں لینے آئے تو ہم پس کر ”بھرتا “اور آپ کے الفاظ میں آٹا بن چکے تھے۔آپ ہمیں پھر سے گھر لے آئے۔ بیگم نے ہمیں تھوڑی سی مقدار میں نکالا اور ہمارے اوپر پانی ڈالنے لگیں۔ ہم لوگوں نے خوف سے ایک دوسرے کو جکڑ لیا ۔آپ کی طرح مصیبت دیکھ کر بھاگ نہیں کھڑے ہوئے۔آپ کی بیگم نے ہمیں خوب اچھی طرح گوندھا۔۔۔۔تھوڑا تھوڑا لے کر چوکی پر پٹخ کر بیلن سے ہمیں پھیلاتی رہیں۔ ہم پھیلتے گئے کیونکہ آپ کی طرح بیلن کھانے کی بجائے پھیل جانے ہی میں آفیت تھی ۔ انہوں نے اسی پر تو بس نہیں کیا بلکہ جلتے ہوئے اسٹو پر رکھے گرم گرم توے پر ہمیں دے مارا۔ ہم تلملا ہی تو اٹھے مگر انسانوں کی طرح غصے میں آکر آپے سے باہر نہیں ہوئے ۔۔۔۔اسی دوران آپ آگئے اور بیگم سے دریافت کیا ۔”کیا روٹی پک گئی ہے؟“آپ کی بیگم نے جو کچھ بھی بھنبھناتے ہوئے ہمیں روٹی کی ٹوکری میں پٹخا اسے سن کر ٹھنڈی سانس لینے کی کسے فرصت تھی؟ ہم آہِ گرم بھرتے ہوئے بیٹھتے چلے گئے لیکن آپ ایک دو نوالہ کھانے کے بعد بیٹھے بیٹھے ہمیں دیکھ رہے ہیں اور ادھر آپ کی بیگم بھنبھناتی ہوئی روٹی پکانے میں مصروف ہیں.ایک خاص بات بتائیں کہ ہمیں آج ہی اپنا یہ نیا نام ”روٹی “ معلوم پڑا ہے۔ جو خدا جانے کب تک برقرار رہے کیونکہ بمبئی کو ممبئی کردیا گیا ہے. وی ٹی کو شیواجی ٹرمینلس، اورنگ آباد کو سمبھا جی نگر ۔اس سے پہلے کہ ہم”شیوٹی“ یا ”کرشنوٹی“ وغیرہ جیسے ناموں کا شکار ہو جائیں آپ ہمیں کھانا شروع کردیں اور پیٹ بھر کر کھا لیں۔ خدا حافظ۔٭٭٭
Translate ترجمہ
Thursday, February 02, 2023
انشائیہ : روٹی کی آپ بیتی
Labels:
طنز و مزاح Humorous

Subscribe to:
Post Comments (Atom)
شہناز فاطمہ صاحبہ کا تبصرہ:
ReplyDeleteبھئی واہ مزا آگیا کیا خوبصورت انداز بیاں ہے انشائیہ کا
طنز ومزاح کے ساتھ گیہوں کی داستان زندگی اتنے پرلطف پیراءے میں بیاں کی ہے کہ دل عش عش کر اٹھا
جزئیات نگاری اور منظرنگاری کا بھی جواب نہیں گیہوں کے بدلتے رنگ و روپ اور اسکی زندگی میں پیش آنے والے سارے مراحل و مسائل اتنے دلکش انداز میں بیان کیے گئے ہیں کہ بےساختہ دل واہ کھ اٹھے
طنز ومزاح کے چھوٹے چھوٹے جملے انشائیہ میں اپنا ایک الگ رنگ بکھیر گءے
روٹی کتنی محنتوں جفاکشی کا ثمرہ ہے اسکا اظہار محترم جناب طاہر انجم صدیقی صاحب نے بڑے ہی دلفریب انداز میں کیا ہے اور اسبات پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ کتنی قیمتی ہے
اور کیا حالات حاضرہ کا رنگ چل ہے ملاوٹ کا اسی طرح ہر پوائنٹ کو بڑے ہی لطیف اسٹاءیل سے انشائیہ میں پرویا ہے جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے محترم جناب طاہر انجم صدیقی کی
بعض جملے تو دل میں اتر گءے بعض کو پڑھ کر دیر تک ہنستی رہی
مجھے نہیں پتہ تھا کہ محترم جناب طاہر انجم صدیقی صاحب اتنے زبردست طنز و ظرافت نگار بھی ہیں بہر حال بہت داد و تحسین کے و ستایش کے ساتھ نیک خواہشات اور پرخلوص دلی مبارک باد قبول کریں
بہت شکریہ
Deleteماشاءاللہ بہت پسند آیا۔اللہ نظربد سے حفاظت فرمائے
ReplyDeleteآمین
Deleteجزاک اللہ