Translate ترجمہ

Saturday, February 11, 2023

غزل: وہ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا نہیں کرتے؟

غزل

طاہرانجم صدیقی



وہ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا نہیں کرتے؟

بتا دے کوئی انھیں ہم دغا نہیں کرتے


انھیں ہی مات مِلا کرتی ہے بساطوں پر

"جو چال سوچ سمجھ کر چلا نہیں کرتے"


وہی شکایتیں کرتے ہیں راستوں کی بہت 

جو اپنے تلوے کبھی آبلہ نہیں کرتے


 نتیجہ دیکھ چکے ہیں، بکھرنا پڑتا ہے

ہم اپنی ذات کو اب آئینہ نہیں کرتے


انھیں ہی گھیرے رہا کرتی ہے ہوس اکثر

قلندروں میں جو طاہر رہا نہیں کرتے


عجیب لوگ ہیں اپنی سنائے جاتے ہیں

ادیب لوگ کسی کی سنا نہیں کرتے


ہم ایسے لوگ ہیں سر بھی کٹا کے خوش ہوں گے

وہ اور ہوں گے جو طاہرؔ وفا نہیں کرتے



اس غزل کو بھی دیکھ لیں. 🔽

کہانی پھر کوئی لکھوا رہے ہیں




4 comments:

  1. شہناز فاطمہ
    بھئی واہ کیا بات ہے بہت ہی زبردست غزل ہرشعر لاجواب ہے ماشاءاللہ پروردگار سلامت رکھے آمین اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آمین

    ReplyDelete
    Replies
    1. بہت شکریہ! جزاک اللہ خیرا کثیرا

      Delete
  2. عمدہ کاوش لائقِ ستائش ، مبارک باد ،اردو پائندہ باد

    ReplyDelete