Translate ترجمہ

Sunday, January 15, 2023

تجزیہ: سنگھاردان پر گفتگو


تجزیہ

سنگھار دان

افسانہ نگار: شموئل احمد

گفتگو: طاہرانجم صدیقی (مالیگاؤں)




🔸شموئل احمد صاحب کے "سنگھار دان" کو تجزیہ کے لیے  پڑھنا، میرے لئے اس افسانے کی دوسری قرأت تھی. افسانے کا آغاز شموئل احمد صاحب نے جس طریقے سے کیا ہے افسانے کی ابتدا کا یہ آرٹ بھی خوب ہے، اس آرٹ میں کہانی کا آغاز درمیان سے کیا جاتا ہے اور ایک ایسی کشمکش بیان کی جاتی ہے کہ قاری انجام معلوم کرنے کے لئے رک جاتا ہے اور پھر فنکار کی کہانی کے بہاؤ کے ساتھ روانی سے بہتا چلاجاتاہے.
شموئل احمد صاحب نے بھی اسی آرٹ کا استعمال کرکے قاری کو باندھ لینے کا کام آغاز میں ہی کرلیا ہے.
🔸دوسرے پیراگراف میں شموئل احمد صاحب نے نہایت ہی آسانی کے ساتھ ایک پیشہ ور عورت کے لچھن کو برجموہن کی بیٹیوں میں منتقل ہوتے دکھایا ہے لیکن ایک خاص احتیاط برتی ہے کہ وہ فحش نگاری کا ارتکاب نہ کرسکیں. بس ایک بات جو مجھے کھٹک رہی ہے وہ ایک طوائف اور ویشیا کا درمیانی فرق ہے. شموئل صاحب نے افسانے کی ابتدا سے بھی پہلے یہ جملہ افسانے کے ماتھے پر سجایا ہے:
*فساد میں رنڈیاں بھی لوٹی گئی تھیں....*
جبکہ برجموہن کی بیٹیوں کے جو لچھن دکھائے بیان کئے گئے ہیں وہ کسی ویشیا کے ہیں. حالانکہ شموئل احمد صاحب نے سکنگھاردان کو نسیم جان نامی طوائف کا بتایا ہے.
اگرمیں اس تضاد کو سمجھنے میں غلطی کررہاہوں تو مجھے سمجھایا جائے.
افسانے میں ایک جگہ لکھا ہے:
*یہ خوف برجموہن کے دل میں اُسی دن گھر کر گیا تھا جس دن اس نے نسیم جان کا سنگھاردان لوٹا تھا۔*   
اس حوالے کی موجودگی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب برجموہن کے دل میں سنگھاردان کو لوٹنے والے دن ہی یہ خوف تھا تو پھر وہ اسے گھر لے کر ہی کیوں گیا؟ اور گھر لے بھی گیا تو اپنے بیڈ روم میں رکھا.
اس عمل کا کوئی جواز افسانے میں موجود نہیں ہے. جس چیز سے آدمی کو خوف ہو وہ بھلا اسے اپنے گھر کیوں لے جائے گا؟ اگر خوفزدہ ہونے کے بعد بھی لے گیا تو اس کے اس عمل کے پیچھے ایک بھرپور جواز ہونا چاہئے مگر سنگھار دان کو گھر لے جانے کے معاملے میں افسانے کی داخلی منطق خاموش ہے.
🔸ایک جگہ برجموہن کے لات مارنے پر جب نسیم جان زمین پر گر کر دہری ہوجاتی تب شموئل صاحب نے لکھا ہے:
*اس کے بلاوز کے بٹن کھل گئے اور چھاتیاں جھونے لگیں۔*
حالانکہ شموئل احمد صاحب چاہتے تو اس پیراگراف میں نسیم جان کے بلاؤز کا بٹن کھلنے کے بعد "بو" والی منظر نگاری کرسکتے تھے مگر انہوں نے اپنے قلم پر گرفت مضبوط رکھی اور اسے پھسلنے نہیں دیا.
آگے چل کر شموئل صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے:
*برجموہن جب اتر رہا تھا تو یہ سوچ کر اس کو لذت ملی کہ سنگھاردان لوٹ کر اس نے نسیم جان کو گویا اس کے خاندانی اثاثے سے محروم کر دیا ہے۔*
🔸جس طرف شموئل احمد صاحب نے اس جگہ اشارہ کیا ہے وہ ذہنیت بڑی زہریلی ہوتی ہے اور فسادات میں یہی ذہنیت بہت نقصان کرواتی ہے. اور ہو سکتا ہے کہ اس ذہنیت کو بدلنے کے لئے ہی شموئل صاحب نے "سنگھار دان" کا تانا بانا بُنا ہو.
اس بات کا ثبوت افسانے سے ہی یوں ملتا ہے:
*برجموہن کو کو لگا کہ آگ زنی اور لوٹ مار میں ملوث دوسرے بلوائی بھی یقینا احساس کی اس لذت سے گزر رہے ہوں گے کہ ایک فرقہ کو اس کی وراثت سے محروم کر دینے کی سازش میں وہ پیش پیش ہیں۔*
🔸شموئل احمد صاحب نے مذہبی منافرت کے سبب انسان کے رذیل بن جانے کا المیہ پیش کرتے ہوئے کتنی آسانی سے ثابت کردیا ہے کہ یہ منافرت جب انسان کے اندر سرایت کرجاتی ہے تو انسان پوری طرح سے شیطنت پر اتر آتا ہے. وہ یہ تک نہیں دیکھتا کہ وہ جس کا نقصان کررہا ہے وہ کون ہے؟ اسی لئے برجموہن نے بھی نسیم جان جیسی طوائف کو بھی نہیں دیکھا اور اس کا سنگھار دان اس کے احتجاج کے باوجود اٹھا لایا جس کا خمیازہ اسے آگے چل کر بھگتنا پڑا.
🔸اس افسانے کو پڑھنے کے بعد نہ جانے کیوں مجھے سعادت حسن منٹو کا "خوشیا" اور ٹھنڈاگوشت یاد آرہا ہے. شاید ان دونوں افسانوں کے حوالے سے میں سنگھار دان پر مزید کچھ بات کرسکوں.
          ٹھنڈا گوشت" کا ایسر سنگھ بھی ایک مجرمانہ عمل کا مرتکب ہوتاہے. پاداش میں بلونت کور کے سامنے پتّے پھینٹے تک ہی محدود رہتا ہے. پتّے پھینکنے سے معذور ہوجاتا ہے. وہی حال سنگھار دان کے برجموہن کا دکھائی دیتا ہے کہ وہ اسی احساس کے نفسیاتی اثرات کے سبب "خوشیا" بن جاتا ہے اور قاری صاف طور محسوس کرتا ہے کہ اس کی بیٹیاں اس کے وجود کو شاید "خوشیا"جیسا ہی سمجھنے لگی ہیں. تبھی تو اس کے عکس کے آئینے میں نظر آنے کے بعد بھی اس کی موجودگی کا کوئی احساس نہیں کرتیں. میری ان باتوں سے قطعی یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ شموئل صاحب کا افسانہ منٹو کے افسانوں سے میل کھاتا ہے بلکہ میں تو صاف. طورپر اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ سنگھاردان ایک الگ کہانی ہے جس کا اپنا الگ رنگ ہے، الگ ٹریٹمنٹ ہے، الگ موضوع ہے اور الگ ہی تاثر ہے. اس افسانے میں انسان کی سفاکی پر چوٹ کی گئی ہے اور برے کام کو برے انجام تک پہنچنے کا اظہار کیا گیا ہے. 
           افسانہ بڑا رواں ہے. افسانے کی سطور میں شموئل صاحب نے ایک ایسا بہاؤ رکھ دیا ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے. افسانے کی زبان پیاری ہے اور افسانے کا ہر جزو مل کر ایک کُل بن جانے کے بعد نہایت متاثر کن بن گیا ہے. نیز .کلائمکس تو واقعی قابلِ تعریف ہے



منشی پریم چند کے "پوس کی رات" پر گفتگو






1 comment:

  1. شہناز فاطمہ صاحبہ کا تبصرہ:
    بھئی واہ کیا بہترین تجزیہ کیا ہے. محترم طاہر انجم صدیقی صاحب نے پوری کہانی کا نچوڑ پیش کردیا اپنے ان لفظوں میں.
    "جس طرف شموئل احمد صاحب نے اشارہ کیا ہے وہ ذہنیت بہت زہریلی ہوتی ہے اور فسادات میں یہی ذہنیت بہت نقصان کرواتی ہے"
    لیکن یہ بات محترم طاہر انجم صدیقی صاحب کی بالکل سمجھ نہیں آئی کہ
    "جب برجموہن کے دل میں سنگار دان لوٹنے والے دن ہی خوف تھا تو پھر وہ اسے گھر لیکر ہی کیوں گیا "
    مجھے تو افسانے میں ایسا کچھ نظر نہیں آیا برجموہن کے دل اور انداز میں مجھے تو صرف اور صرف بے رحمی اور سفاکی بربریتا ہی نظر آئی.

    ہاں! یہ بالکل درست فرمایا کہ جب
    "برجموہن اتر رہا تھا تو اسے یہ سوچ کر لزت ملی کہ سنگار دان لوٹ کر اس نے نسیم جان کو گویا اسکے خاندانی اثاثے سے محروم کر دیا"
    اسے یہ خبر نہیں تھی کہ برے کام کا برا نتیجہ اسطرح زندگی میں تحلیل کر جائے گا
    بہت اچھی طرح تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے محترم طاہر انجم صدیقی صاحب نے کہ
    "منافرت جب انسان کے اندر سرایت کرجاتی ہے تو انسان پورے طور پر شیطنیت پر اتر آتا ہے "
    بہرحال ایک ایک پوائنٹ پر بہت مدلل تبصرہ و تجزیہ کیا ہے بہت داد اور تحسین و ستایش کے ساتھ نیک خواہشات اور پرخلوص دلی مبارک باد قبول کریں.
    اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آمین

    ReplyDelete