Translate ترجمہ

Wednesday, May 31, 2023

"بھورے بالوں والا" کا تجزیاتی مطالعہ

"بھورے بالوں والا" کا تجزیاتی مطالعہ


افسانہ نگار: ڈاکٹر شہروز خاور

تجزیاتی گفتگو: طاہر انجم صدیقی

تاریخ: ٢٠، مئی ٢٠٢٣ء بروز سنیچر

زیرِ اہتمام: انجمن محبانِ ادب و سٹی کالج، مالیگاؤں 

بمقام: سٹی کالج، مالیگاؤں





          ڈاکٹر شہروز خاور کے افسانے کا عنوان پڑھ کر غبارے والا، بانسری والا، پنکچر والا اور کنجی آنکھوں والا جیسے افسانوں کے کئی عنوانات ذہن کی سطح پر ابھرتے ہیں. فاضل افسانہ نگار نے فیشن کے طور پر اس افسانے کا عنوان "بھورے بالوں والا" نہیں رکھا ہے بلکہ اس افسانے کا تقاضہ تھا کہ اس کا عنوان کچھ اسی قسم کا رکھا جائے. اس کا سبب یہ ہے کہ افسانے میں کسی بھی کردار کا نام اور مذہب ظاہر نہیں کیا گیا ہے. ایسے افسانوں میں گڈو، راجو یا پھر والا کے لاحقے کے ساتھ استعمال کی گئی صفات کو نام کے طور پر استعمال کرلیا جاتا ہے.

         افسانہ سیدھے سادے بیانیے اور مکالمے پر مشتمل ہے. افسانے میں فلیش بیک تکنیک کا استعمال ہوا ہے بلکہ باریک بینی سے دیکھا جائے تو کہانی بیان کرنے کے لیے افسانے کے ایک کردار کو آگے کردیا گیا ہے. راوی ایک چھوٹا بچہ ہے جو کسی آشرم، یتیم خانے یا بچوں کے کسی مددگار ٹرسٹ میں دیگر بچوں کے ساتھ رہا ہے فاضل افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ ان کے کسی ادارے کے تعلق سے وضاحتاً کچھ نہ لکھنے کے باوجود بھی ہے قاری کی سمجھ میں آجاتا ہے کہ کہانی نے کسی ایسے ہی ادارے میں جَنَم لیا ہوگا. 

           فاضل افسانہ نگار کی کامیاب کوشش رہی ہے کہ وہ زبان کی خامیوں سے بچیں. لیکن وہ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ راوی کی زبان اس کی عمر اور اس کے ماحول کے مطابق ہونی چاہیے تھی. جبکہ اس افسانے میں صاف طور پر محسوس ہوتا ہے کہ فاضل افسانہ نگار اور افسانے کے راوی کی زبان میں فرق مشکل ہی سے کیا جا سکے گا.

           افسانے کا پہلا جملہ دیکھیں:

            "آج کا خوشی کا دن تھا لیکن میں اپنے انتخاب پر اتنا بھی خوش نہیں تھا جتنا میرے دوست سمجھ رہے تھے."

            اس جملے میں بھاری بھرکم الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا ہے لیکن ان کا استعمال کسی بچے کے بس کا محسوس نہیں ہوتا. خاص طور پر نفسیاتی طور پر متاثرہ کسی بچے کا تو خاص طور پر محسوس نہیں ہوتا.

            اسی قبیل کے مزید چند جملے دیکھیں:

           اول: " میں نے پیچھے مڑ کر دیکھنا مناسب نہیں سمجھا یا شاید میں دیکھنا ہی نہیں چاہتا تھا یا پھر مجھے دیکھنا بھی نہیں چاہیے تھا."           

           دوم: "دائیں جانب چند کرسیاں اور ایک ٹیبل ایسے رکھے تھے جیسے کئی برسوں سے ان کے لیے سے وہی جگہ مختص کر دی گئی ہو."

           سوم: "میرے ہوتے ہوئے بھی فقرے اچھالے جا رہے تھے.

           ان جملوں سے قاری کے بچکانہ پن کی بو نہیں آتی بلکہ یہ کسی باشعور شخص کے محسوس ہوتے ہیں. جن کو پڑھ کر نہیں سمجھا جاسکتا کہ یہ کسی بچے کی زبان سے ادا ہو رہے ہوں گے.

           بھورے بالوں والا" سے منتخب یہ چند جملے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ افسانے کے راوی کی زبان افسانے اور اس کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتی اس کا سبب یہ ہے کہ افسانے میں بچوں کے کھیلنے کا تو تذکرہ ہے لیکن کہیں بھی ان بچوں کی تعلیم و تربیت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے. جبکہ افسانہ نگار کو ایسا کرنا چاہیے تھا. 

           اس کے علاوہ افسانے میں کسی جگہ افسانے کی داخلی منطق بھی راوی کی زبان کے لئے کوئی جواز فراہم کرتی نظر نہیں آتی.         

           افسانے کے پہلے جملے کو دوبارہ دیکھیں:

           "آج خوشی کا دن تھا لیکن میں اپنے انتخاب پر اتنا بھی خوش نہیں تھا جتنا میرے دوست سمجھ رہے تھے." 

           اس جملے کو پڑھ کر سمجھا جا سکتا ہے کہ فاضل افسانہ نگار نے افسانے کے کردار کے توسط سے افسانے کا آغاز ایک تضاد سے کرتے ہوئے لکھا ہے  کہ اس روز خوشی کا دن تھا مگر راوی اتنا خوش نہیں تھا جتنا اس کے دوست سمجھ رہے تھے لیکن دوستوں کی اس سمجھ کا کوئی منطقی جواز افسانے میں موجود نہیں ہے اور اگر افسانے کے راوی کے دل میں بھورے بالوں والے کے والدین کی فطرت کی وجہ سے گود لینے والوں کے تعلق سے یہ خدشات پیدا ہو گئے ہوں کہ کہیں وہ بھی بات بات پر لڑائی کرنے والے، سختی کرنے والے اور شک کرنے والے نہ ہوں تو پھر جملے کا پہلا حصہ سوالیہ نشان کی زد میں آجائے گا اور افسانے کا راوی خود کے گود لئے جانے کے دن کو خوشی کا دن نہیں کہے گا. 

           حالانکہ جب تضاد بیانی سے افسانے کا آغاز کرکے قاری کو افسانے کی قرأت کے لئے روک لیا جاتا ہے تو پھر افسانہ نگار پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس تضاد بیانی کو افسانے کی داخلی منطق سے جواز بھی مہیا کرے لیکن "بھورے بالوں والا" والا کی داخل منطق اس معاملے میں میں گونگی ثابت ہوتی ہے. 

           "بھورے بالوں والا" کی کہانی ایک یتیم بچے کی کہانی ہے جس کی اوٹ سے فاضل افسانہ نگار یہ بتانا چاہتے ہیں کہ والدین کی تو تو میں میں، لڑائی جھگڑے اور شکوک و شبہات کی وجہ سے بچوں پر غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں بچوں کے اپنے بھی جذبات و احساسات ہوتے ہیں اگر وہ مجروح ہوں تو پھر بچے بغاوت اور احتجاج پر اتر آتے ہیں. 

           چونکہ فاضل افسانہ نگار کا تعلق درس و تدریس سے ہے اس لیے انہوں نے بچوں کی نفسیات کی بنیاد پر افسانے کی عمارت کھڑی کی ہے اور بتایا ہے کہ میاں بیوی کے نامناسب رویوں کی وجہ سے ان کا اپنا بیٹا گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے جس کی کمی پوری کرنے کے لیے وہ دوسرے بچے کو گود لیتے ہیں مگر وہ بھی ان کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر بھاگ جاتا ہے اور پھر انھیں اپنے ہی بچے کو گود لینا پڑتا ہے. 

           اس افسانے میں کئی ایسے مقامات آتے ہیں کہ افسانے کا عقدہ وقت سے پہلے ہی کھل جاتا ہے اور پڑھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ بھورے بالوں والا گود لینے والوں کا ہی بیٹا ہے. 

           افسانے کے راوی کی زبانی ثبوت دیکھیں:

           "ان کی کار میدان میں داخل ہوئی تو بھورے بالوں والا کھیل چھوڑ کر بھاگا اور اپنے پلنگ کے نیچے جا کر چھپ گیا."

           اس جملے کی رو سے بھورے بالوں والے کا بھاگنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی کار کو پہچان چکا تھا اس لئے کھیل چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا. حالانکہ یہاں پلنگ کے نیچے جا کر چھپنے کا جو منظر بیان کیا گیا ہے اس سے راوی کے اختیارات پر سوالیہ نشان عائد ہوتا ہے کیونکہ افسانے کا راوی تو کھیلنے کی جگہ پر ہی موجود تھا. بھلا وہ بھورے بالوں والے کے پلنگ کے نیچے جا چھپنے کا منظر کیسے بیان کرسکتا ہے؟ اگر فاضل افسانہ نگار "پلنگ کے نیچے چھپ گیا ہوگا" کا استعمال کرلیتے تو بعد میں استعمال شدہ جملوں کے استعمال کا جواز بھی مل جاتا کہ بھورے بالوں والا جب کبھی ناراض یا غصے میں ہوتا تھا تو جا کر پلنگ کے نیچے چھپ جاتا تھا اور وہ جگہ صرف راوی کو ہی معلوم تھی. 

           اسی مقام پر دوسرے ہی پیراگراف میں اس منظر کے بعد راوی کے خیالات کے اس اظہار سے قاری کو دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی ہے. 

           "ممکن ہے ان کا بیٹا مر گیا ہو؟" 

          سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف بچے کے مرنے پر ہی لوگ گود لیتے ہیں؟ جواب ہونا چاہئے "نہیں"

          کیونکہ صرف اپنے بچے کے مرجانے پر کسی دوسرے بچے کو گود نہیں لیتے بلکہ اولاد کا گھر چھوڑ کر بھاگ جانااولاد اور اولاد کا نہ ہونا اور  بھی گود لینے کا بڑا سبب بنتا ہے. 

          چونکہ فاضل افسانہ نگار کو خدشہ تھا کہ اگر وہ ابتدا میں بھورے بالوں والے کے گھر سے بھاگنے کا تذکرہ کر بیٹھتے تو افسانہ پہلے ہی کھل جاتا. اس لئے انہوں نے افسانہ نگارانہ فریب کا استعمال کرلیا ہے.

          افسانے کے راوی سے جب گود لینے والے کہتے ہیں کہ وہ انہیں چھوڑ کر کبھی نہ جائے تب بھی افسانے کا تاثر زائل ہوتا ہے اور صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ان کا بیٹا انہیں چھوڑ کر چلا گیا ہے اور وہ وہی بھورے بالوں والا ہے. 

          اسی پیراگراف میں چھٹیاں ختم ہوتے ہی نئی اسکول میں افسانے کے راوی کے بھی ایڈمیشن کے اظہار سے  سمجھ میں آ جاتا ہے کہ بھورے بالوں والا ہی ان کا بیٹا ہے جو اسکول جاتا تھا مگر اب وہ گھر میں ہی نہیں ہے. اگر یہاں فاضل افسانہ نگار لفظ "بھی" کا استعمال نہیں کرتے تو اس اعتراض کی گنجائش نہیں نکلتی. 

          اتنا ہی نہیں بلکہ اس اظہار کے بعد فورا ہی راوی کو بھورے بالوں والے کے ہی طرح کے محسوسات کا ذکر بھی افسانے کے تاثر کو مجروح کرتا ہے.

          آگے چل کر فاضل افسانہ نگار جب ایک مرتبہ راوی کی زبانی کہلواتے ہیں کہ سب کچھ ویسا ہی ہو رہا تھا جیسا بھورے بالوں والے کے ساتھ ہوتا تھا تب بھی کا تاثر مجروح ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور قاری کی سمجھ میں آجاتا ہے کہ بھورے بالوں والا ہی گود لینے والو‍ ں کا سگا بیٹا ہے.

         اس کے بعد افسانے میں بیان کردہ سارے خیالات چغلی کھاتے چلے جاتے ہیں کہ بھورے بالوں والا ہی گود لینے والوں کا بیٹا ہے.

         کسی افسانے کا تجسس قبل از وقت ہی ختم ہوجائے اور اس کا تاثر خود افسانہ نگار ہی کئی مقامات پر مجروح کرے اور اس افسانے سے قاری کی دلچسپی ختم ہوجائے تو اس افسانے کو بہت کامیاب افسانہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ قاری کی دلچسپی ایسے افسانے  سے کم ہو جاتی ہے اور وہ ورق پلٹ کر آگے بڑھ جانا مناسب سمجھتا ہے.

         اسی طرح افسانے کے راوی کے گود لینے والوں کے گھر میں پلنگ کے نیچے جا چھنے کا منطقی جواز بھی افسانے میں موجود نہیں ہے. سبب یہ ہے کہ راوی اس وقت کمرے کے دروازے کو مضبوطی سے بند کر لیتا ہے اور بات واضح ہو چکی ہوتی ہے کہ راوی پر گود لینے والوں کی لڑائی سے کچھ اچھا تاثر مرتب نہیں ہورہا ہے. اس لیے اس کا مضبوطی سے دروازہ بند لینا سمجھ میں آتا ہے لیکن دروازہ بند کر لینے کے باوجود بھی ہے پلنگ کے نیچے جا چھپنا بڑا مصنوعی محسوس ہوتا ہے. 

         اس کے بعد کا حصہ بھی تصنع بھرا محسوس ہوتا ہے جب راوی گود لینے والوں کے گھر سے بھاگ کر واپس پرانے مقام پر پہنچ کر ہچکچاتا اور یہ محسوس کرتا ہے کہ وہاں اسی کا انتظار ہورہا تھا اور وہاں دیدی کا راوی کو "بھورے بالوں والے" کہہ کر بلانا بھی کم مصنوعی نہیں لگتا.

          نیز اسی مقام پر راوی کا یہ بیان کرنا کہ دیدی اسے اتنا جانتی تھی کہ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر ہی سب کچھ سمجھ جاتی تھی. اگر واقعی وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر ہی سب کچھ سمجھ جاتی تھی تو قاری یہ سوچنے میں حق بجانب ہوگا کہ دیدی راوی کو اس وقت بھورے بالوں والا کہہ کر کیوں بلاتی ہے؟ لیکن یہی تو وہ درد ہے جو افسانہ نگار کو افسانے کے تانے بانے بُننے پر مجبور کرگیا ہے مگر افسوس ہے کہ فاضل افسانہ نگار نے اس تاثر کو واقعات کی اپنی ہی ترتیب سے کئی مقامات پر اس طرح مجروح کیا ہے کہ یہاں قاری پر وہ اتنا اثر ڈالنے میں کامیاب نظر نہیں آتے جتنا ہونا چاہئے تھا. 

          بلکہ میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ افسانوں کو بڑی باریک بینی سے دیکھنے والے ڈاکٹر شہروز خاور جیسا شخص اپنے ہی افسانے کی اتنی موٹی موٹی باتوں کو نظر انداز کیسے کر گیا؟

          امید کرتا ہوں کہ وہ میری باتوں پر غور کریں گے. 

          اگر میری گفتگو میں کہیں تلخی پیدا ہوگئی ہو تو

          "رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف"

          خدا حافظ.

4 comments:

  1. Flash back کو اردو میں کیا کہیں گے

    ReplyDelete

  2. فلیش بیک (flash back):
    حالیہ واقعات بیان کرتے ہوئے ان سے ایتلاف یا تلازم یا رشتہ رکھنے والے ماضی کے واقعات بیان کرنا۔ فلیش بیک سنیما کا طریق کار ہے جسے جدید فکشن میں اپنایا گیا ہے۔ اس کی ابتدا جاسوسی ناولوں سے ہوتی ہے جن کے سر انجام پر اکثر ماضی کے واقعات بیان کیے جاتے ہیں۔ وہاں سے یہ طریقہ جدید افسانے ، ناول ، ڈرامے اور شاعری میں اختیار کیا جانے لگا ہے.
    (سلیم شہزاد "فرہنگِ ادبیات" صفحہ 604)

    آسان لفظوں میں 'یادِ ماضی' بھی کہہ سکتے ہیں.

    ReplyDelete
  3. بہت خوب تجزیہ پیش کیا گیا ہے... طاہر انجم صدیقی صاحب آپ کی اس علمی گیرائی کو سلام....

    ReplyDelete