Translate ترجمہ

Friday, April 28, 2023

غزل: دھندلائے ہوئے شیش نظارے میں نہیں تھا

 غزل

طاہرانجم صدیقی



دھندلائے ہوئے شیش نظارے میں نہیں تھا

کہہ دو کہ میں پلکوں کے ستارے میں نہیں تھا


سب لوگ مجھے اپنا بنانے پہ بضد تھے

میں ایک فقط تیرے اِجارے میں نہیں تھا


میں چونچ سے نکلا تو بڑی آگ پہ برسا

نمرود! کبھی تیرے  شرارے میں نہیں تھا


اِک تم جو مِرے ساتھ کھڑے تھے دمِ آخر

"برباد بھی ہو کر مَیں خسارے میں نہیں تھا"


پھیلی ہیں غلط فہمیاں کس بات سے میری؟

اک لفظِ غلط بھی تِرے بارے میں نہیں تھا


ہم آج بھی اس حکم کے محکوم ہیں جاناں! 

وہ حکم جو ابرو کے اشارے میں نہیں تھا


میں خوش ہوں نمو بن کے زمیں چیر رہا ہوں

پھٹ جائے کسی ایسے غبارے میں نہیں تھا


دعویٰ تو تھا جذبات سمو لینے کا لیکن

آرام کسی ایک بھی پارے میں نہیں تھا


اس وقت سے میں قیدِ سلاسِل کا ہوں عادی

جب میرا قدم وقت کے دھارے میں نہیں تھا 


مٹّی پہ رہا، اُٹھ کے فلک چومنے نکلا

طاہرؔ میں کسی ٹوٹتے تارے میں نہیں تھا




عید الفطر کی آمد پر مسجد کی فریاد ضرور پڑھیں🔽

اے عیدالفطر! میں مسجد ہوں سن آواز تو میری



Sunday, April 23, 2023

نظم: مسجد کی فریاد

 مسجد کی فریاد

طاهر انجم صدیقی



اے عید الفطر ! میں مسجد ہوں، سن آواز تو میری

گیا رمضان ، تو آئی ، مسرت ساتھ میں لائی


تری آمد سے تو بستی میں یوں مسلم سبھی خوش ہیں

سبھی اطفال خوش ، بوڑھے بھی خوش اور نوجواں خوش ہیں


مگر آمد سے تیری میں بہت افسردہ خاطر ہوں !

غموں سے رورہی ہوں اور دکھ سے میں تڑپتی ہوں !


کہ جب تک تو نہ آئی تھی مرا رمضاں تھا اور میں تھی

نمازی کے قدم پا کر میں ہر دم شاد رہتی تھی !


اذانیں سن کے میری سمت کتنے لوگ آتے تھے! 

تلاوت کرتے جاتے تھے، نمازیں پڑھتے جاتے تھے! 


تری آمد سے پہلے ماہِ رمضان میں یہ حالت تھی

بہت ہی شاد رہتی تھی کہ میں آباد رہتی تھی


مگر تو نے تو آکر بحرِ غم میں ہے مجھے ڈالا

جو میں آبا رہتی تھی مجھے ویران کر ڈالا


نمازی اتنے کم آتے ہیں کہ دوصف کے لالے ہیں! 

کہاں رونق تھی مجھ میں اور کہاں مکڑی کے جالے ہیں! 


مسرت کا مری تو نے بتا کیوں قتل کر ڈالا ؟

کہ میں آبا د ر ہتی تھی مجھے ویران کر ڈالا


فقط اپنی خوشی کے واسطے ایسا کیا تو نے ؟

رہ مسجد سے مسلم کو ہے کیوں بھٹکا دیا تو نے ؟


تھا بہتر اس سے تیرے حق میں تو واپس چلی جاتی

صلہ اس کا تجھے ملتا خوشی بھی ڈھیر سی پاتی


مگر افسوس ! عید الفطر ! صد افسوس ! صد افسوس !

تری قسمت پر اور تقدیر مسلم پر ہے صد افسوس !


کہ میں ویراں رہوں گی جب تلک رمضاں نہ آئے گا

مسلمان فکر میں دنیا کی ، عقبٰی بھول جائے گا






نعت، حمد اور مناجات تینوں کا لطف ایک ہی کلام میں ضرور پڑھیں. 🔽
میں تری حمد لکھوں اور تو مجھے نعت سکھا 



Sunday, April 16, 2023

تجزیہ: بون سائی پر گفتگو

 *بون ۔ سائی*

افسانہ نگار: محمد یحییٰ جمیل

گفتگو: طاہرانجم صدیقی (مالیگاؤں) 





          بزمِ افسانہ کے توسط سے محمد یحییٰ جمیل کا بون سائی پڑھنے میں آیا. عنوان اپنی جانب راغب کرنے والا ہے. با معنی ہے اور افسانے کی روشنی میں اپنے علامتی مفہوم کو واضح بھی کررہا ہے.

          افسانے کی ابتدا دیکھیں:

        "مجھے باغبانی سے زیادہ دلچسپی نہیں ۔پھر بون -سائی پودوں کے بارے میں کیا جانتا؟ کل پرکاش سے معلوم ہوا کہ بون-سائی، چینی لفظ ’پین زائی‘ کا جاپانی تلفظ ہے۔ ’بون‘ یعنی ٹرے اور’ سائی‘ یعنی درخت۔"

           🔸بڑی خوبصورتی سے یحی' جمیل نے سائنسی معلومات کو مکالموں کے توسط سے افسانے کا حصہ بنا دیا ہے. یہاں یہ معلومات کسی مضمون کا ٹکڑا معلوم نہیں ہورہی ہے بلکہ افسانہ نگار کی فنکاری کے سبب افسانے کا حصہ بن گئی ہے.

           افسانے کے راوی کے پڑوس میں کرایہ دار کی حیثیت سے آنے والوں کے تذکرے کے ساتھ افسانہ آگے سرکتا ہے. اسی تذکرے میں ایک لیڈی پروفیسر کا بھی ذکر شامل ہے لیکن افسانے کا راوی بہت جلد افسانے کو اصل کہانی کی طرف یوں موڑ دیتا ہے. 

          *مہتاب کا ایسا مزاج ہوگا، ابا جی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پڑوسیوں نے پہلی بار ہمارے گھر سے اونچی آوازیں سنی تھیں۔ نوبیاہتا سہیلیوں سے سنے گئے رنگین قصوں نے مجھے بد ذوق اور خشک مزاج شوہر ثابت کیا تھا۔ بھرے پرے گھر میں ناز و نیاز کی گنجائش بھی کم تھی۔*

           🔸محمد یحی' جمیل نے کتنی خوبصورتی سے انسانی بون سائی، خواہشات کے بون سائی، چاہتوں کے بون سائی، سنہرے خوابوں کے بون سائی کو پیش کردیا ہے. بھرے پرے گھر میں نئی نویلی دلہن کے سنہرے خوابوں میں کتر بیونت کرکے بون سائی بنا کر گھر کے ٹرے میں سجانے پر جو نفسیاتی ردِ عمل سامنے آیا اسی بنیاد پر افسانہ کھڑا کر دیا ہے محمد یحی' جمیل  نے. 

          *ایک سال بعد مجھے دوسرے شہر میں ملازمت مل گئی۔ نئے شہر میں شفٹ ہوتے ہوئے سوچا تھا سال دو سال بعد واپس آجاؤں گا، لیکن وہ دن پھر کبھی نہیں آیا۔ میں یہیں ریٹایر ہوا۔*

           🔸راوی خود بھی بون سائی بن گیا ہے. وہ خود اپنی خواہشات اور چاہتوں میں کتربیونت کررہا ہے اور کھلی فضا میں آزادی سے زندگی گزارنے کی بجائے زندگی کے ایک چھوٹے سے ٹرے میں مقیّد ہوگیا ہے.

           بلکہ مہتاب کے تزکرے کے بعد افسانہ نگار کا یہ بیان بھی راوی کو رفتہ رفتہ بون سائی میں تبدیل ہوتے ہوئے دکھانے کے لیے کافی ہے. دیکھیں:

        "کچھ دوست بہت نالائق مل گئے۔ ویک اینڈ پر دیر رات تک بیٹھک ہوجاتی۔ مہتاب کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی۔ ایک مرتبہ تواس نے غصے میں اپنی نسیں کاٹنے کی کوشش تھی۔ پڑوس کی عورتوں سے میل جول کو ، جانے کیوں وہ عار سمجھتی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کی مرضی نے قانون کی شکل اختیار کر لی۔ امی، اباجی صرف دوچار دن کے لیے آئیں۔ بھائیوں سے تہواروں پر ملاقات کروں۔ بہن سال میں ایک بار آئے اور دو دن سے زیادہ نہ ٹھہرے۔ سال میں صرف عیدین پر دعوت ہو۔ ویکیشن پر کوئی نہ آئے۔دوست اگر آئیں تو طہارت خانہ ہرگز استعمال نہ کریں۔ ضروری کام سے جاؤں اور فوراً لوٹ آؤں۔ گھریلو کاموں میں بہر حال مدد کروں۔"

        ان تذکروں کے بعد بون سائی بنانے کے عمل کو بتانا اس افسانے کا اہم حصہ ہے. اس چھوٹے لیکن اہم حصے کے ذریعے افسانے کے کرداروں کی نفسیاتی کیفیات سمجھی جا سکتی ہیں. دیکھیں:

           ’’جس پودے کا بون سائی بنانا ہو اسے گملے سے نکال کر اس کی بڑی ڈالیاں کاٹ لیتے ہیں۔ جڑیں بھی کم کرتے ہیں۔ پھر اتھلے گملے میں کھاد اور مٹی کے ساتھ لگادیتے ہیں۔ اس کی غیر ضروری شاخوں اور پتوں کو کاٹتے رہنا ہوتا ہے۔ تاکہ اس کی لمبائی ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔‘‘

          🔸یہ صرف بون سائی پودوں کی بابت نہیں بتایا جارہا ہے بلکہ افسانہ نگار اپنے افسانے کے کرداروں کے ساتھ ہونے والے ہر قسم کے اس جبر کی طرف اشارہ ہے جو ان کی فطری جبلتوں اور فطری خواہشوں کے گملے سے نکال کر، بڑی ڈالی کاٹ کراس کی جڑیں کم کرکے، شاخوں اور پتوں کو بھی کتر ڈالا جاتا ہے اور گھر کے اتھلے گملے میں لگا کر اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ان کی خواہشیں بہت اونچائی تک سر نہ اٹھا پائیں اور ان کی فطری جبلتیں مخصوص حدوں کو پار نہ کرسکیں. ان ساری باتوں پر دھیان دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا کہ ان لوگوں کو مخصوص مراعات بھی دی جائیں. 

          فاضل افسانہ نگار نے اپنے افسانے کے اس اقتباس سے اپنے مرکزی خیال کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ اس میں کامیاب ہیں.

          اس کے بعد وہ افسانے کے کلائمکس کی طرف تیزی سے مڑتے ہیں اور افسانے کے راوی کو بون سائی کے ساتھ جو عمل کرتے ہوئے دکھاتے ہیں وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے. دیکھیں:

         "میں نے بون-سائی کو اتھلے گملے سے نکالا اور زمین میں لگا دیا۔ مٹی برابر کرنے کے بعد اس پر پانی کا چھڑکاو کیا۔ ہلکی ہوا کے جھونکوں سے ننھانیم لہلہانے لگا تھا۔ جلد ہی یہ چھتنار ہوجائے گا۔"

         🔸یہ ہے فطری آزادی کی طرف راغب کرنے والا قدم. یہ ہے جیو اور جینے دو کے اصول پر چل کر اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو گلزار کردینے کا پیغام جسے قاری تک پہنچانے میں یحی' جمیل کامیاب ہیں اور افسانہ بھی یہیں پر مکمل ہے. یہی افسانے کا کلائمکس بھی ہے اور خاصا اثردار ہے لیکن اس کے آگے بھی یحی' جمیل صاحب نے لکھا ہے اور میرے خیال سے انھیں نہیں لکھنا چاہئے تھا. آپ بھی دیکھیں:

           "اس کام سے فارغ ہوکر مجھے وہ ذہنی سکون میسر آیا جس کے لیے میں مدت سے ترس رہا تھا۔" 

        "یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ فطرت کا گلا گھونٹ کر اسے بونا بنادیں۔اسے تناور درخت کیوں بننے نہ دیا جائے؟ آخر درخت اسی لیے تو ہے کہ پرندے اس پر گھونسلے بنائیں، اس کی شاخوں پر چہچہائیں، اس کے نیچے بچے کھیلیں، اس کے پھل کھائیں، کیڑے مکوڑے بھی اس سے اپنی غذا حاصل کریں۔ وہ بیچارہ تو سب کے لیے مفید ہے، پھر سب کو محروم کر کے اپنی تسکین کے لیے اس پر ظلم کیوں؟بلکہ اپنی غرض کے لیے سب پر ظلم کیوں؟؟"

        افسانے کا مندرجہءبالا اقتباس ایک تقریر ہے جو افسانہ نگار یہ سوچ کر کرگئے ہیں کہ شاید قاری کو ان کا افسانہ سمجھ میں نہیں آیا ہو گا. جبکہ ایسا نہیں ہے. ان کا افسانہ اپنے کلائمکس سے ہی ساری باتیں سمجھا چکاہے. انھیں اس جانب دھیان دینا چاہئے تھا.

اگر کچھ الفاظ چبھ رہے ہوں تو

          "رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف"


افسانہ : بون سائی از یحی' جمیل


 یہ افسانہ ناگپور یونیورسٹی میں ایم اے (اردو) چوتھے سیمسٹر، کے نصاب میں شامل ہے۔

 بون سائی

محمد یحییٰ جمیل





        مجھے باغبانی سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ پھر بون-سائی پودوں کے بارے میں کیا جانتا۔ کل پرکاش سے معلوم ہوا کہ بون-سائی، چینی لفظ ’پین زائی‘ کا جاپانی تلفظ ہے۔ ’بون‘ یعنی ٹرے اور’ سائی‘ یعنی درخت۔

’’پھر بون-سائی کہنا چاہیے، بون-سائی درخت نہیں؟‘ ‘

’’جس سے بات واضح ہوجائے وہ کہنا چاہیے۔‘‘ اس نے مسکراکر کہا۔ مجھے اس کی بات اچھی لگی۔ آخر زبان ہماری سہولت کے لیے ہے۔

        پرکاش سے چند روز قبل ہی میری دوستی ہوئی ہے۔ اس نے پڑوس کا بنگلہ کرایہ پر لیا ہے۔ وہ  اس کی بیوی اور تین سال کی بچی, چھوٹی سی فیملی ہے. اس بنگلے میں آنے والے ہر کرایہ دار سے میں دوستی کر لیتا ہوں۔ یوں زندگی کی یکسانیت کم ہوجاتی ہے۔ انصاری صاحب کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نے اس بنگلے کو کرایہ پر اٹھادیا ۔ اس کی بیوی کو امراوتی پسند نہیں اس لیے وہ ناگپور منتقل ہوگئے۔ وکیل ہے کہیں بھی پریکٹس کر سکتا ہے۔

        پچھلی مرتبہ یہاں ایک پروفیسر آگئی تھی, سنگل تھی. عمر کوئی پچاس پچپن کے بیچ رہی ہوگی۔ ہمیشہ ہلکے رنگ کی ساڑی پہنتی اور انتہائی باوقار لگتی۔ روز صبح لان میں کتاب لے کر بیٹھی ہوتی۔ اگراسے باہر نکلنے میں دیر ہوجاتی تو میں انتظار کرنے لگتا۔ شام میں کلاسیکل موسیقی کی آواز آتی. شاید ریاض بھی کرتی تھی. فنون لطیفہ سے محبت کرنے والے مجھے بہت پسند ہیں۔ باوجود اس کے میں نے اپنی دوستی ، دیدار تک محدود رکھی تھی۔ پسند اپنی جگہ, اس کی تنہائی پسندی کا احترام بھی ضروری تھا. 

         اُس کے جاتے ہی پرکاش یہاں آگیا، گویا نمبر لگائے بیٹھا تھا۔ عمر کے لمبے فرق کے باوجود وہ بہت جلد بے تکلف ہوگیا۔ ورنہ آج کے نوجوان ریٹایرڈ آدمی سے زیادہ بات کہاں کرتے ہیں؟ پھر وہ بیٹے ہی کیوں نا ہوں۔ خیر، پرکاش بہت اچھا لڑکا ہے۔ چند ہی ماہ کے لیے آیا ہے۔ اس کے گھر کا رِنوویشن مکمل ہوتے ہی وہ چلا جائے گا۔

’’آج کیوں دیر کردی؟‘‘ مہتاب نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔

’’ہاں، ذرا دیر ہوگئی، سوری۔ ‘‘ اور کیا جواب دیتا۔ پہلے دیا کرتا تھا اور اکثر توتو میں میں شروع ہوجاتی۔ پھر جواب دینا بند کردیا تو بھی بحث کی گنجائش نکل آتی۔ گفتگو کا یہ طرز ذرا دیر سے آیا تھا۔

’’کسی دوست کے گھر بیٹھ گئے ہوں گے، مجھے کیا بے وقوف سمجھتے ہیں…‘‘وہ بڑبڑائی۔

’’چاے بنادوں؟‘‘ میں نے اس کی بات ان سنی کرتے ہوئے پوچھا۔

’’ کل شکر کم ہوگئی تھی۔تین چمچے ڈالنا۔‘‘

        مہتاب پیاری پھوپھی کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ مجھ سے زیادہ، دونوں خاندانوں کے لیے یہ رشتہ اہم تھا، سو ہوگیا۔ مجھے بھی کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ خاندان، خوبصورتی، دینداری سبھی کچھ تو تھا۔ بات شروع ہوئی اور میں گھوڑی چڑھا دیا گیا۔ لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں والا تھرل ہی نہیں ملا۔ لیکن مہتاب کا ایسا مزاج ہوگا، ابا جی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پڑوسیوں نے پہلی بار ہمارے گھر سے اونچی آوازیں سنی تھیں۔ نوبیاہتا سہیلیوں سے سنے گئے رنگین قصوں نے مجھے بد ذوق اور خشک مزاج شوہر ثابت کیا تھا۔ بھرے پرے گھر میں ناز و نیاز کی گنجائش بھی کم تھی۔ ایک سال بعد مجھے دوسرے شہر میں ملازمت مل گئی۔ نئے شہر میں شفٹ ہوتے ہوئے سوچا تھا سال دو سال بعد واپس آجاؤں گا، لیکن وہ دن پھر کبھی نہیں آیا۔ میں یہیں ریٹایر ہوا۔

        نئے شہر میں بھی چین کہاں تھا۔ کچھ دوست بہت نالائق مل گئے۔ ویک اینڈ پر دیر رات تک بیٹھک ہوجاتی۔ مہتاب کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی۔ ایک مرتبہ تواس نے غصے میں اپنی نسیں کاٹنے کی کوشش تھی۔ پڑوس کی عورتوں سے میل جول کو ، جانے کیوں وہ عار سمجھتی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کی مرضی نے قانون کی شکل اختیار کر لی۔ امی، اباجی صرف دوچار دن کے لیے آئیں۔ بھائیوں سے تہواروں پر ملاقات کروں۔ بہن سال میں ایک بار آئے اور دو دن سے زیادہ نہ ٹھہرے۔ سال میں صرف عیدین پر دعوت ہو۔ ویکیشن پر کوئی نہ آئے۔دوست اگر آئیں تو طہارت خانہ ہرگز استعمال نہ کریں۔ ضروری کام سے جاؤں اور فوراً لوٹ آؤں۔ گھریلو کاموں میں بہر حال مدد کروں۔

’’کمر میں بہت تکلیف ہے۔‘‘جب میں نے اسے چاے کی پیالی پکڑائی تو وہ دھیرے سے بولی۔

’’ہوں....‘‘

’’اگر آپ کو ایسی تکلیف ہوتی تو پل بھر برداشت نہیں کر سکتے تھے۔‘‘

کاش کسی نے درد کی پیمائش کا آلہ ایجاد کرلیا ہوتا۔ مگر کیا تب بھی میں کچھ کر پاتا؟ عرق النسا کے درد نے میرا جینا وبال کر رکھا تھا لیکن خیر۔

’’کل ڈاکٹر کو دکھا دیں گے۔‘‘

’’آپ کا کل، جلدی نہیں آتا ۔‘‘

 برسوں پہلے میں نے مہتاب کو واکنگ کا مشورہ دیا تھا۔ پھر تین گھنٹے بری طرح پریشانی میں گذرے تھے ۔ وہ مجھے بتائے بغیر اپنی کزن کے گھر چلی گئی تھی، پیدل۔ یہ اچھا سبق تھا جو مجھے آج تک یاد ہے۔ اس لیے ہر تکلیف پر ڈاکٹر بہترین آپشن تھا۔ البتہ میں ہر شام گھومنے چلا جاتا ہوں۔ پرکاش کو بھی ایوننگ واک پسند ہے۔ کیا بات ہے!

’’اچھا پرکاش، بون- سائی کی قیمت کیا ہوتی ہے؟‘‘

’’ ڈپینڈ کرتا ہے، دو،ڈھائی ہزار سے ایک لاکھ تک۔ ‘‘

’’اور اسے بننے میں کتنا وقت لگتا ہے؟‘‘

’’کسی دن نرسری آئیے، آپ کو بون-سائی کے بارے میں تفصیل سے بتاؤں گا۔‘‘

’’ضرور۔‘‘ مہتاب اگر اپنے بھائی کے گھر جائے تو موقعہ مل سکتا تھا۔ ایسے تو ممکن نہیں۔ مگر وہ پہلے بھی اپنے گھر بہت کم جایا کرتی تھی۔ پیاری پھوپھی کے انتقال کے بعد تو اس کا میکا ہی ختم ہوگیا۔ بھائی کے گھر بمشکل جاتی ہے۔ اس کی بھابھی نہیں چاہتی کہ یہ سواری وہاں اترے۔ بھائی خود نالاں ہو تو پھر بھابھی کا کیا کہنا۔

’’کل چلیں؟‘‘پرکاش نے پوچھا۔

’’ارے نہیں، بتاؤں گا تمھیں۔‘‘میں نے بات ٹال دی۔

رات کے کھانے پر میں نے پرکاش کی تعریف کی تو مہتاب کو بہت ناگوار گذرا۔

’’اب آپ نے اسے پیچھے لگا لیا؟‘‘

اسے ڈر تھا کہ کہیں میں اسے کھانے پر نہ بلالوں۔ حالانکہ کسی دوست کو کھانے پر بلائے زمانہ بیت چکا تھا۔ اب تو کوئی دوست بھول کر بھی نہیں آتا۔ اس لیے عرصہ سے چاے بھی نہیں پلائی تھی ۔ اس شہر میں شفٹ ہونے کے بعد جب میں پہلی بار گھر گیا تو امی نے کہا تھا، تیرے جانے کے بعد ایک لیٹر دودھ کم کردینا پڑا۔ میرے دوست بہت تھے اور ان کی آمد سے انھیں خوشی ہی ہوتی تھی۔ خود بھی بہت سوشل تھیں۔ اللہ درجات بلند کرے۔

        پھر جس دن پینشن لینے بینک جانا تھا میں پرکاش کی نرسری پہنچ گیا۔ اس دن دیر بھی ہوجائے تو مہتاب خاموش رہتی ۔ پرکاش بہت خوش ہوا۔ سارا کام چھوڑ کر مجھے گھماتا رہا۔ پھر بون-سائی درختوں کے پاس پہنچ کر بولا، ’’ہمارے یہاں، پیپل، املی، نیم، فائی کس، بوگن ویلا، برگد، گل مہر، سنترا، آم وغیرہ کے بون سائی بنائے جاتے ہیں۔‘‘

’’بون-سائی بنتے کیسے ہیں؟‘‘

’’ جس پودے کا بون سائی بنانا ہو اسے گملے سے نکال کر اس کی بڑی ڈالیاں کاٹ لیتے ہیں۔ جڑیں بھی کم کرتے ہیں۔ پھر اتھلے گملے میں کھاد اور مٹی کے ساتھ لگادیتے ہیں۔ اس کی غیر ضروری شاخوں اور پتوں کو کاٹتے رہنا ہوتا ہے۔ تاکہ اس کی لمبائی ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔‘‘

’’اس کی کھاداسپیشل ہوتی ہے؟‘‘

’’نہیں، وہی عام کھاد ڈالی جاتی ہے ۔ فائی کس اور پیپل کے لیے کھاد کے ساتھ مٹی کی جگہ باریک کرش ملایا جاتاہے۔‘‘

’’دو سے تین سال بعد بون-سائی کا گملا بدلنا پڑتاہے۔‘‘

’’ہوں… دیکھو، کچھ سیدھے ہیں کچھ ذرا ترچھے، بالکل عام درختوں کی طرح۔‘‘

وہ ہنسا اور بولا، ’’یہ بھی ہماری کاریگری ہے۔‘‘

’’اچھا!‘‘

’’المونیم کے تاروں سے ڈالیوں کو اپنی مرضی کے مطابق شکل دیتے ہیں۔ اس طرح دیڑھ دو سال میں بون سائی کی ابتدائی صورت بن جاتی ہے۔ یہ دیکھیے، یہ سیدھے تنے والا بون-سائی ہے اسے Formal Upright کہتے ہیں. Informal Upright  میں اس کا تنا ٹیڑھا رکھا جاتا ہے. پہاڑوں پر تیز ہوا کی وجہ سے درخت جھک جاتے ہیں اس طرح کا لک دینے کے لیے Slanting Upright کیا جاتا ہے۔  Forest کا لک دینے کے لیے ایک برتن میں چار پانچ بون- سائی اگائے جاتے ہیں۔ یہ بون سائی بالکل جنگل کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ ‘‘

’’یعنی کوئی چاہے تو جنگل خرید کر لے جائے۔‘‘

’’شوق سے…‘‘

 میں نے پرکاش کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر شعر پڑھا:

’’کر علاجِ وحشت دل چارہ گر

لا دے اک جنگل مجھے بازار سے‘‘

وہ مسکرا کر میری جانب دیکھتا رہا۔

’’اردو کے بہت بڑے شاعر ہوئے ہیں، مومن خاں مومن۔ ان کا شعرہے!‘‘ میں بولا۔

’’ میں دوسری لائن سمجھا۔‘‘

’’کیا سمجھے؟‘‘

’’ مومن صاحب کو یہ گفٹ کیا جاسکتا ہے ۔‘‘ ہم دونوں دیر تک ہنستے رہے۔

آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ میں نے رومال سے آنکھیں صاف کیں، اور کافی پی کر گھر کے لیے نکل پڑا۔

        پھر ایک دن پرکاش بھی چلا گیا۔ لیکن جانے سے پہلے اس نے مجھے نیم کا ایک بون-سائی تحفہ میں دیا۔ نہایت قیمتی گملے والا۔ بہت پیارا ۔ میں نے اسے مومن کا شعر فریم کرکے دے دیا۔ وہ بہت خوش ہوا۔ میں نے بون -سائی بالکونی میں رکھ دیا۔ بنگلے کی جانب تاکہ اس کے ساتھ پرکاش کی یاد تازہ رہے۔

        اس دن جب سونے کے لیے لیٹا تو نیند آنکھوں سے غائب تھی۔ دیر تک جاگتا رہا۔ نومبر کا مہینہ تھا۔ ہوا میں ٹھنڈک بڑھ گئی تھی۔ میں نے مہتاب کو دیکھا، وہ گہری نیند میں تھی۔ میں آہستہ سے اٹھا اور بون-سائی کے سامنے جا بیٹھا۔ یہ بون-سائی نیم، گاؤں والے نیم کے درخت سے کتنا ملتا جلتا ہے۔ نچلی شاخ تو بالکل ویسی ہے۔ اس بون- سائی کے نیچے چند بچے کھیل رہے تھے۔

میں نے چشمہ اتار دیا اور غور سے دیکھنے لگا۔ اوہ، یہ تو میں اور میرے چھوٹے بھائی ہیں۔ منّی نمبولیاں جمع کررہی ہے۔ گھر کے آنگن میں وہ اِن کی دُکان لگائے گی۔اس نے سنہری رنگ کا شلوار کرتا پہنا ہے۔ آنکھوں میں بڑا سا کاجل لگا ہے۔ اس کے کتھیا بال، لال رنگ کے ربن سے بندھے ہیں۔ میں شاخ پر چڑھا اور کود گیا۔ ’آہ…‘میری چیخ نکل گئی۔ میرے پیر میں کانچ کا ٹکڑا چبھ گیاہے۔ دونوں بھائی دوڑ کر آئے۔ ایک نے میرا پیر اپنی گود میں رکھ لیا۔ خون سے اس کا قمیص سرخ ہونے لگا ہے۔ دوسرا کانچ کا ٹکڑا نکالنے کی کوشش کررہاہے۔ منی رو رہی ہے۔ ’’بھیا آپ کو بہت درد ہورہا ہوگا نا؟‘‘

’’نہیں.... تو رو مت۔‘‘

’’بھیا، آپ سے ملے دو سال ہوگئے۔ آپ کی بہت یاد آرہی ہے۔‘‘ وہ بولی۔

میں نے اس کے آنسو پونچھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور میری انگلیاں بون-سائی کے تنے کو چھو گئیں. پھر میں تیزی سے بون-سائی لے کر گھر کے آنگن میں چلا گیا۔ اب گڑھا کرنے کے لیے کسی چیز کی ضرورت تھی۔ اسٹور میں سلاخ مل گئی۔ کچھ ہی دیر میں بالشت بھر کا گڑھا ہوگیا۔ میں نے بون-سائی کو اتھلے گملے سے نکالا اور زمین میں لگا دیا۔ مٹی برابر کرنے کے بعد اس پر پانی کا چھڑکاو کیا۔ ہلکی ہوا کے جھونکوں سے ننھا نیم لہلہانے لگا تھا۔ جلد ہی یہ چھتنار ہوجائے گا۔ اس کام سے فارغ ہوکر مجھے وہ ذہنی سکون میسر آیا جس کے لیے میں مدت سے تڑپ رہا تھا۔

        یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ فطرت کا گلا گھونٹ کر اسے بونا بنادیں۔اسے تناور درخت کیوں بننے نہ دیا جائے؟ آخر درخت اسی لیے تو ہے کہ پرندے اس پر گھونسلے بنائیں، اس کی شاخوں پر چہچہائیں، اس کے نیچے بچے کھیلیں، اس کے پھل کھائیں، کیڑے مکوڑے بھی اس سے اپنی غذا حاصل کریں۔ وہ بیچارہ تو سب کے لیے مفید ہے، پھر سب کو محروم کر کے اپنی تسکین کے لیے اس پر ظلم کیوں؟ بلکہ اپنی غرض کے لیے سب پر ظلم کیوں؟؟

🌳 ختم شد

Thursday, April 13, 2023

تجزیہ: نیم بپلیٹ پر گفتگو

  نیم پلیٹ" پر گفتگو" 

افسانہ نگار: طارق چھتاری

گفتگو: طاہرانجم صدیقی، مالیگاؤں. 




           خدا جانے میں نے "نیم پلیٹ" کو کب پڑھا تھا؟ سب کچھ دھندلایا ہوا ہے. ایسا لگتا ہے کہ یاد کرنے کے لئے ذرا سا بھی زور لگاؤں گا تو میرے اپنے وجود میں ہی کہیں چھناکے سے کچھ ٹوٹ پھوٹ جائے گا یا پھر میرے اپنے وجود سے کوئی چیز اکھڑ کر نیچے گر پڑے گی.

           "نیم پلیٹ" کو پڑھنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ بہت پہلے پڑھے گئے افسانے کی نیم پلیٹ اور افسانہ نگار کا نام *طارق چھتاری* آج تک ذہن سے چمٹا ہوا ہے اور طارق چھتری صاحب نے اپنے افسانے کا آغاز یوں کیا. 

           ’’کیا نام تھا اس کا ؟ اُف بالکل یاد نہیں آ رہا ہے۔‘‘

        🔸افسانہ اس سوال سے شروع ہوتا ہے اور ختم بھی ہوجاتا ہے لیکن ایک تجسس سا سارے افسانے میں سحر بن کر سمویا ہوا محسوس ہوتا ہے. ایسا لگتا ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ افسانہ پڑھ لیا جائے اور کیدار ناتھ کو اس سوال کا جواب دے دیا جائے لیکن افسانہ ختم ہوجانے کے بعد بھی کیدار ناتھ کی بیچارگی کا مداوا نہی‍ں ملتا اور وہ سارے افسانے میں پریشان پریشان نظر آتے ہیں. دیکھیں:

          "انھوں نے پیشانی پہ ہاتھ رکھا۔"

           "پچھتر سالہ کیدار ناتھ کے ماتھے کی بے شمار جھریاں بوڑھی ہتھیلی کے نیچے دب کر پھڑپھڑنے لگیں۔" 

          🔸اسے فنکارانہ کردار نگاری کی خوبی سمجھوں؟ خوبصورت منظرنگاری کہوں یا کمال کی جذبات نگاری کا نام دوں؟ جوبھی ہے، ہے بڑا جاندار اور شاندار.

          ’’سر لا کی ماں ..........’’ ا ن کے منھ سے بے ساختہ نکل پڑا۔

          🔸بیٹی کا نام یاد رہنا اور بیوی کا نام بھول جانا؟ بھی ایک بڑا عجیب روگ ہے. بڑا المیہ:

          "کیدار ناتھ نے جھنجھلا کر سرہانے رکھی چھڑی کو اٹھایا ، گلے میں کس کے مفلر لپیٹا اور بار بار چھڑی کو فرش پر پٹخنے لگے۔ پھر دونوں ہاتھوں میں چھڑی کو جکڑ کر اس طرح سر کے قریب لائے جیسے اس کے ہتھے سے اپنا سر پھوڑ ڈالنا چاہتے ہوں۔" 

         🔸یہ اقتباس بتاتا ہے کہ طارق چھتاری صاحب کا مشاہدہ غضب کا ہے. کیدار ناتھ کی حرکات و سکنات بالکل فطری ہیں. آدمی یاد کرنے کے لئے یقینی طور پر اپنے ماتھے یا سر کو ہاتھ ضرور لگاتا ہے.

         ’’ تعجب ہے اپنی بیوی کا نام بھول گیا !اسے مرے ہوئے بھی تو چالیس برس گذر گئے ہیں۔تین سال کا عرصہ ہوتا ہی کتنا ہے۔صرف تین سال ہی تو اس کے ساتھ رہ پایا تھا میں۔‘‘

        🔸کیدارناتھ کے مکالمے بیانیہ کا کام کرجاتے ہیں اور وہ کہانی کہنے کا آرٹ دکھا کر یہ ثابت کرجاتے ہیں کہ کہانی کو آگے سرکانے کے لئے فنکار کو تو بس بہانہ چاہئے وہ کس چیز سے کیا کام لے لے کچھ کہا نہیں جا سکتا.

        "وہ لرز گئے اور گھبرا کر ایک پاؤں اس کے اندر رکھ دیا پھر دوسرا پاؤں ، اب وہ دروازے کے باہر کھڑے تھے۔سب کچھ خالی تھا ، ان کے ذہن کی طرح ، وہ سمت بھول گئے تھے اور الماری کے بجائے باہر جانے والا دروازہ کھول بیٹھے تھے۔"

       🔸اوہ....... کیا المیہ ہے. ابھی بیوی کا نام یاد ہی نہیں آسکا تھا اور اب سمتوں نے اپنے ہاتھ پاؤں سکیڑ لئے. ہائے رے بیچارگی.

       "باہر سڑک پر کہرا جما ہوا تھا۔ کھمبوں کے بلب مدھم دیوں کی طرح ٹمٹما رہے تھے۔ سنسان سڑک پر انھیں لگا کہ یکایک بھیڑ امڈ آئی ہے۔ چاروں طرف شور ہو رہا ہے۔ باجے کے شور سے کان پھٹے جا رہے ہیں۔دور کہرے میں چھپی ہوئی ڈولی ____سرخ جوڑا پہنے دلہن مسکرا رہی ہے۔

       سڑک پر ایک پتھر کا ٹکڑا پڑا تھا ، انھیں ٹھوکر لگی اور وہ لڑکھڑا کر کھمبے سے جا ٹکرائے ، بہت زور سے دھکا دیا تھا محلے بھر کی لڑکیوں نے ، اور پھر دروازہ بند۔

’’ کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘ نام معلوم ہوتے ہوئے بھی اس کا نام پوچھا تھا انھوں نے۔ وہ شرما گئی تھی اور گھٹنوں میں منھ چھپا لیا تھا۔ انھوں نے پھر پوچھا تو اس نے آہستہ سے اپنا نام بتایا۔"

          🔸فلیش بیک تکنیک کا اچھا استعمال کیا ہے طارق صاحب نے وہ بھی اتنی ہوشیاری اور فنکاری کے ساتھ کہ پتہ ہی نہیں چلتا کب ہم کیدارناتھ کے ماضی میں ان کے حجلہءعروسی میں انھیں اپنی بیوی کا نام پوچھتے دیکھ رہے ہیں. حالانکہ بالکل ہی اٹپٹا سا لگتا ہے شوہر کا اپنی بیوی کا نام پوچھنا.

          ’’ کیا بتایا تھا اس نے ؟ اف بالکل یاد نہیں۔‘‘

         🔸اس مکالمے کو پڑھ کر..... ایک کسک سی محسوس ہوتی ہے دل میں. دل چاہتا ہے کہ انھیں سرلا کی ماں کا نام جلدی یاد آجائے. یہی تو ہوتی ہے فنکاری. یہی تو ہوتا ہے فنکار جو لفظ بیچارہ استعمال کئے بغیر کردار کی حرکات و سکنات اور رویوں سے اس کی بیچارگی ظاہر کردیتا ہے اور ایسی صورت میں قاری کو اس سے بھرپور ہمدردی بھی ہوجاتی ہے.

         ’’اچھا تو اپنے باپ کے نام کی پلیٹ اکھاڑ کر............‘‘ کھٹ سے کوئی چیز گری۔

        🔸کیا فنکاری ہے! واااہ. کمال کا بیانیہ ہے طارق چھتاری صاحب کے پاس. ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے وجود کا کوئی ٹکڑا کھٹ سے نیچے گرگیا ہو. اس قسم کے جملوں نے تو افسانے کی تاثرانگیزی میں کمال ہی کر دکھایا ہے.

        انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کر قدموں میں آن گری ہے۔ وہ سہم گئے اور مجرم کی طرح گردن جھکا لی۔ یہ کسی کے نام کی پلیٹ تھی۔ مگر ایک حرف بھی صاف نہیں۔ سب کچھ مٹ چکا ہے۔

       🔸صرف نام کی پلیٹ کے حروف نہیں مٹے بلکہ ایک دور دھندلا گیا. ایک تہذیب کے نمایاں خطوط دھندلے ہوگئے اور پھر داد دینی پڑی طارق چھتاری صاحب کے بیانیہ کی. ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے لفظوں کی انگلیوں سے ہمارے محسوسات سے کھیل رہے ہیں. کبھی کوئی منظر سامنے کررہے ہیں تو کبھی مکالموں کی چبھن کا احساس دلا رہے ہیں. کبھی جذبات نگاری کا جادو جگا رہے ہیں. دیکھیں:

       "ان کے جسم میں سنسناہٹ سی ہونے لگی۔ لاغر ٹانگیں جو ابھی ابھی کانپ رہی تھیں ، پیاسے ہرن کی کلانچیں مارنے کو بے تاب ہو اٹھیں۔"

       "وہ بھاگ رہے ہیں۔ نہیں آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔ یا رینگ رہے ہیں یا پھر کھڑے کھڑے ہی ................یہ تو معلوم نہیں مگر وہ اپنے گھر سے کئی میل دور سرلا کے گھر کے بہت قریب آن پہنچے ہیں۔"

      🔸کیا کرب بھر دیا ہے سارے افسانے میں طارق چھتاری صاحب کے ظالم قلم نے. ذرا سا دم تو لینے دیتے جناب. آپ تو اپنے قلم کو مہارت کے ساتھ چلائے چلے جارہے ہیں اور ایک حساس قاری کو سانس لینے تک کی فرصت نہیں دے رہے ہیں. کمال کے فنکار ہیں آپ بھی.

     " سرلا سے اس  کی ماں کا نام پوچھ ہی لیں گے۔

سرلا کو اپنی ماں کا نام یاد ہو گا ؟ کیوں نہیں ...........کوئی ماں کا نام بھی بھولتا ہے کیا۔

’’ پاروتی دیوی.......‘‘ ان کی ماں کا نام پاروتی دیوی تھا۔ انھیں پچھتر سال کی عمر میں بھی اپنی ماں کا نام یاد ہے۔"

        🔸یہ مزید ظلم ہے. بےچارے پچھتر برس کے بوڑھے کو اس عمر میں بھی اپنی ماں کا نام یاد ہے مگر بیوی کا نام اس کے حافظے سے یوں صاف ہوگیا ہے جیسے اس کا نام واقعی تھا ہی نہیں.

       " کیسے اپنی ماں کا نام بھولی ہو گی؟ کیدار ناتھ کا دل اندر سے اتنا خوش ہو رہا تھا کہ ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔"

      🔸امید کی ایک کرن تھی سرلا جو اپنی ماں کا نام اپنے باپ کو بتا سکتی تھی. یہی سبب ہے کہ کیدار ناتھ خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں.

      "بوڑھے آسمان کی گود سے نئے سورج کا گولا جھانک رہا ہے۔"

     🔸اس افسانے سے پہلے میں نے آج تک ایسا بیان نہیں پڑھا ہے. کیا زبردست بیان ہے! باپ کی طرف سے شفقت سے بھرپور بیان اور بیٹی کی طرف سے باپ کے لئے محبت بھرا بیان. واہ طارق صاحب واہ. شاید یہ آپ ہی کرسکتے تھے.

    "کیدار ناتھ کے پنجوں کی انگلیاں سرد ہو کر سُن پڑچکی ہیں ، جیسے ان میں گوشت ہے ہی نہیں اور وہ اندر سے بالکل خالی ، بالکل کھوکھلی ہو چکی ہیں ، پرندے ان کے سر پر منڈلاتے منڈلاتے سرلا کے مکان کے اوپر جا بیٹھتے ہیں اور وہ سرلا کے مکان کے باہر کھڑے کھڑے تھک چکے ہیں۔’’ میں یہاں کھڑا ہوں۔ آتے جاتے لوگ دیکھ کر کیا سوچیں گے۔"

   🔸طارق صاحب! مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے آج میں داد دیتے دیتے تھک جاؤں گا. آج مجھے یقین ہوچلا ہے کہ واقعی کرشن چندر کو افسانہ خوانی پر شعرا کی طرح داد ملا کرتی تھی.

    " اب تو دن چڑھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ سرلا سو کر اٹھ گئی ہو گی۔ اندر چلنا چاہئے۔"

      "نام کی پلیٹ اکھاڑ کر ...............’’ کھٹ سے کوئی چیز گری ، انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کو قدموں میں آن گری ہے۔دھندلے دھندلے حرف ابھرنے لگے اور ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔"

        🔸اوہ.....ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا. سرلا کے گھر کی نام کی پلیٹ نیچے آگری. وہ اب وہاں نہیں رہتی یا رہتی بھی ہے تو اب اس کی کوئی شناخت نہیں ہے. شناخت اگر رہی بھی ہوگی تو اسے زبردستی مٹا دیا گیا ہے اور نیم پلیٹ اکھڑ کر کیدار ناتھ کے قدموں میں آپڑی ہے. دھندلے دھندلے حروف ابھرنے لگے ہیں مگر پھر آنکھوں میں مارے ضعف کے اندھیرا چھا گیا ہے.

         "کیدار ناتھ نے اپنے جسم پر چڑھے گرم کپڑوں کو اس طرح ٹٹولا  جیسے وہ ڈھونڈ رہے ہوں کہ کپڑوں کے اندر جسم ہے بھی یا نہیں۔" 

         🔸انسانی جسم کے کمزور و ناتواں ہونے کا فنکارانہ بیان طارق چھتاری صاحب کے فن کا اعتراف چاہتا ہے.

         "گھر لوٹنے کے لئے بس پکڑی۔اب ان کے جسم کی ساری رگیں ڈھیلی پڑ چکی تھیں۔"

       🔸آخری امید اور آخری سہارے کو کھو دینے کے بعد انسان کی حالت یقیناُ ایسی ہی ہوجاتی ہوگی جیسی کیدار ناتھ کی ہوئی تھی.

       "اندھیرا گہرا ہو تا جا رہا تھا ، کیدار ناتھ کو محسوس ہوا کہ دیواریں ان کی طرف کھسکتی چلی آ رہی ہیں۔"

       🔸ان دو جملوں میں کیدارناتھ کی بے بسی کا کتنا اچھا اظہار کیا گیا ہے! 

     سارا افسانہ بظاہر ایک شخص کی یادداشت سے پہلے بیوی اور پھر رفتہ رفتہ سارے ناموں کے مٹ جانے کا المیہ بن کر پیش ہوا ہے.

     کردار نگاری کمال کی ہے. جذبات نگاری کا جواب نہیں. مناظر تو یوں بیان ہوئے ہیں جیسے پڑھنے والا انھیں برسوں سے جانتا ہو اور پھر جگہ جگہ طارق چھتاری صاحب کے فنکارانہ اظہار نے سارے افسانے کو عجیب سے درد، کسک اور تجسس سے بھر دیا ہے. یہ ہوتا ہے افسانہ اور یہ ہوتی ہے افسانہ نگاری.

         میرے احباب جانتے ہیں کہ پہلے میں بہت ڈینگیں مارا کرتا تھا کہ تخلیق کار مقدّم ہے. نقاد تو بیچارہ ایک طفیلی جاندار ہے. جب تک تخلیق زندہ رہے گی وہ جونک بن کر اس سے چمٹا رہے گا اور خود بھی زندہ رہنے کی کوشش کرے گا لیکن وہ تخلیق کار مجھ جیسا کمزور تخلیق کار نہیں ہوسکتا بلکہ طارق چھتاری صاحب جیسا فنکار ہوسکتا ہے.

Wednesday, April 12, 2023

افسانہ: نیم پلیٹ (طارق چھتری)


نیم پلیٹ

طارق چھتاری



 

’’کیا نام تھا اس کا ؟ اُف بالکل یاد نہیں آ رہا ہے۔‘‘ کیدار ناتھ نے اپنے اوپر سے لحاف ہٹا کر پھینک دیا اور اٹھ کر بیٹھ گئے۔

’’ یہ کیا ہو گیا ہے مجھے ، ساری رات بیت گئی نیند ہی نہیں آ رہی ہے۔ ہو گا کچھ نام وام نہیں یاد آتا تو کیا کروں ، لیکن نام تو یاد آنا ہی چاہئے۔آخر وہ میری بیوی تھی ، میری دھرم پتنی۔‘‘انھوں نے پیشانی پہ ہاتھ رکھا۔پچھتر سالہ کیدار ناتھ کے ماتھے کی بے شمار جھریاں بوڑھی ہتھیلی کے نیچے دب کر پھڑپھڑنے لگیں۔

’’ سر لا کی ماں ..........’’ ا ن کے منھ سے بے ساختہ نکل پڑا۔

’’ وہ تو ٹھیک ہے مگر کچھ نام بھی تھا اس کا۔ کیا نام تھا؟ اس کے نام کا پہلا اکچھر ..........ہاں کچھ کچھ یاد آ رہا ہے ............‘‘ انھوں نے پیر پلنگ کے نیچے لٹکا دیے اور وہ لائٹ آن کرنے کے لئے دیوار میں لگے سوئچ کی طرف بڑھے۔

’’ اس کے نام کا پہلا اکچھر ..............’’کے ‘‘ نہیں نہیں۔ہاں ہاں یاد آ گیا۔‘‘

ان کا جھریوں سے بھرا پوپلا منھ مسکرانے کے لئے تیار ہو ہی رہا تھا کہ کھانسی کا ایک ٹھسکا لگا اور پھر بھول گئے کہ وہ اکچھر کیا تھا۔

کمرے میں چاروں طرف روشنی پھیل چکی تھی۔

’’ ڈھائی بجنے کو ہیں۔‘‘ ان کی نظر ٹائم پیس پر پڑ گئی۔

ٹائم پیس .............؟ ہاں ..............ٹا..............نہیں ،  پیس.....’’سا‘‘ ارے ہاں _____

’’ سا‘‘ ہی تو تھا اس کے نام کا پہلا اکچھر۔‘‘

’’ سا‘‘ ؟ نہیں یہ تو سرلا کی ماں۔آخر نام بھی تو کچھ تھا اس کا۔‘‘ کیدار ناتھ نے جھنجھلا کر سرہانے رکھی چھڑی کو اٹھایا ، گلے میں کس کے مفلر لپیٹا اور بار بار چھڑی کو فرش پر پٹخنے لگے۔ پھر دونوں ہاتھوں میں چھڑی کو جکڑ کر اس طرح سر کے قریب لائے جیسے اس کے ہتھے سے اپنا سر پھوڑ ڈالنا چاہتے ہوں۔

’’ تعجب ہے اپنی بیوی کا نام بھول گیا !اسے مرے ہوئے بھی تو چالیس برس گذر گئے ہیں۔تین سال کا عرصہ ہوتا ہی کتنا ہے۔صرف تین سال ہی تو اس کے ساتھ رہ پایا تھا میں۔‘‘

وہ خالی خالی نظروں سے کمرے کو گھور رہے ہیں۔پلنگ، میز، کرسی اور الماری، کتابیں ..........الماری کتابوں سے بھری پڑی ہو گی ، الماری کے پٹ بند ہیں۔ وہ پلنگ کی جانب بڑھے اور پھر الماری کی طرف مڑ گئے۔ دروازہ کھولا الماری خالی تھی ____نہ اس میں کتابیں تھیں اور نہ خانے۔‘‘ ارے اس میں تو پچھلی دیوار بھی نہیں ہے۔‘‘

وہ لرز گئے اور گھبرا کر ایک پاؤں اس کے اندر رکھ دیا پھر دوسرا پاؤں ، اب وہ دروازے کے باہر کھڑے تھے۔سب کچھ خالی تھا ، ان کے ذہن کی طرح ، وہ سمت بھول گئے تھے اور الماری کے بجائے باہر جانے والا دروازہ کھول بیٹھے تھے۔ باہر سڑک پر کہرا جما ہوا تھا۔ کھمبوں کے بلب مدھم دیوں کی طرح ٹمٹما رہے تھے۔ سنسان سڑک پر انھیں لگا کہ یکایک بھیڑ امڈ آئی ہے۔ چاروں طرف شور ہو رہا ہے۔ باجے کے شور سے کان پھٹے جا رہے ہیں۔دور کہرے میں چھپی ہوئی ڈولی ____سرخ جوڑا پہنے دلہن مسکرا رہی ہے۔

سڑک پر ایک پتھر کا ٹکڑا پڑا تھا ، انھیں ٹھوکر لگی اور وہ لڑکھڑا کر کھمبے سے جا ٹکرائے ، بہت زور سے دھکا دیا تھا محلے بھر کی لڑکیوں نے ، اور پھر دروازہ بند۔

’’ کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘ نام معلوم ہوتے ہوئے بھی اس کا نام پوچھا تھا انھوں نے۔ وہ شرما گئی تھی اور گھٹنوں میں منھ چھپا لیا تھا۔ انھوں نے پھر پوچھا تو اس نے آہستہ سے اپنا نام بتایا۔

’’ کیا بتایا تھا اس نے ؟ اف بالکل یاد نہیں۔‘‘ اور وہ چھڑی کو زمین پر ٹیکتے ہوئے تیز تیز قدموں سے چل پڑے۔ انھیں کہاں جانا ہے ؟ پتہ نہیں۔پھر بھی وہ چلتے رہے اور اب اپنے گھر سے بہت دور نکل آئے تھے۔

یہ علاقہ کون سا ہے ؟ کیلاش نگر ؟ ہاں شاید وہی ہے۔ آگے دائیں طرف ان کے دوست شرما جی کی کوٹھی ہے۔ باہر گیٹ پر نیم پلیٹ لگی ہے۔’’ ست پرکاش شرما۔‘‘ وہ ان کے دفتر کے ساتھی تھے۔ گذرے ہوئے کئی برس ہو گئے۔

اچانک کیدار ناتھ ٹھٹھکے اور رک گئے۔’’ ارے یہی تو ہے شرما جی کی کوٹھی ، ہاں باکل یہی ہے۔ وہ وہاں لگی ہے ان کے نام کی پلیٹ۔‘‘ کیدار ناتھ کو کمرے کی دھندلی فضا میں ایک تختی نظر آئی۔

’’ شرما ..........‘‘ انھوں نے پڑھا۔ ’’ رام پرکاش شرما۔‘‘

’’رام پرکاش ...........؟.نہیں ان کا نام تو ست پرکاش تھا۔ پھر غور سے دیکھا۔

’’ رام پرکاش شرما (ایڈوکیٹ)۔‘‘ صاف صاف لکھا تھا۔

انھیں یاد آیا کہ ایک روز شرما جی نے کہا تھا۔’’ میرا بیٹا رام پرکاش ایڈوکیٹ ہو گیا ہے۔‘‘

’’ اچھا تو اپنے باپ کے نام کی پلیٹ اکھاڑ کر............‘‘ کھٹ سے کوئی چیز گری۔ انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کر قدموں میں آن گری ہے۔ وہ سہم گئے اور مجرم کی طرح گردن جھکا لی۔ یہ کسی کے نام کی پلیٹ تھی۔ مگر ایک حرف بھی صاف نہیں۔ سب کچھ مٹ چکا ہے۔ ان کے جسم میں سنسناہٹ سی ہونے لگی۔ لاغر ٹانگیں جو ابھی ابھی کانپ رہی تھیں ، پیاسے ہرن کی کلانچیں مارنے کو بے تاب ہو اٹھیں۔

 وہ بھاگ رہے ہیں۔ نہیں آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔ یا رینگ رہے ہیں یا پھر کھڑے کھڑے ہی ................یہ تو معلوم نہیں مگر وہ اپنے گھر سے کئی میل دور سرلا کے گھر کے بہت قریب آن پہنچے ہیں۔

سرلا سے اس  کی ماں کا نام پوچھ ہی لیں گے۔

سرلا کو اپنی ماں کا نام یاد ہو گا ؟ کیوں نہیں ...........کوئی ماں کا نام بھی بھولتا ہے کیا۔

’’ پاروتی دیوی.......‘‘ ان کی ماں کا نام پاروتی دیوی تھا۔ انھیں پچھتر سال کی عمر میں بھی اپنی ماں کا نام یاد ہے۔

’’ پاروتی دیوی کی جے ..................‘‘ بچپن میں وہ اپنے با با کے ساتھ بیٹھے پوجا کر رہے تھے۔’’ بابا ..............اماں کا نام بھی تو پاروتی دیوی ہے۔‘‘ ’’ ہاں بیٹے یہی پاروتی دیوی ہیں جن کے نام پر تمہاری ماں کا نام رکھا گیا ہے۔‘‘ اور اس روز سے وہ آج تک روزانہ پاروتی دیوی کی پوجا کرتے ہیں اور جے بولتے ہیں۔ ماں تو بھگوان کا روپ ہوتی ہے ، پھر بھلا سرلا کیسے اپنی ماں کا نام بھولی ہو گی۔ کیدار ناتھ کا دل اندر سے اتنا خوش ہو رہا تھا کہ ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔ رفتار میں دھیما پن آ گیا مگر وہ اپنے بوڑھے جسم کو ڈھکیلتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے ____!!

’’ بابو جی آج اتنے سویرے آپ ادھر.........؟ ‘‘ سرلا نے  کسی سوچ میں ڈوبے کیدار ناتھ کو چائے کی پیالی دیتے ہوئے پوچھا۔ بوڑھے آسمان کی گود سے نئے سورج کا گولا جھانک رہا ہے۔ کیدار ناتھ کے پنجوں کی انگلیاں سرد ہو کر سُن پڑچکی ہیں ، جیسے ان میں گوشت ہے ہی نہیں اور وہ اندر سے بالکل خالی ، بالکل کھوکھلی ہو چکی ہیں ، پرندے ان کے سر پر منڈلاتے منڈلاتے سرلا کے مکان کے اوپر جا بیٹھتے ہیں اور وہ سرلا کے مکان کے باہر کھڑے کھڑے تھک چکے ہیں۔’’ میں یہاں کھڑا ہوں۔ آتے جاتے لوگ دیکھ کر کیا سوچیں گے۔ اب تو دن چڑھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ سرلا سو کر اٹھ گئی ہو گی۔ اندر چلنا چاہئے۔

نام کی پلیٹ اکھاڑ کر ...............’’ کھٹ سے کوئی چیز گری ، انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کو قدموں میں آن گری ہے۔دھندلے دھندلے حرف ابھرنے لگے اور ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ اندھیری رات..............کہرے سے بھری ہو ئی سرد رات ....................بے شمار کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ، کئی آوارہ کتے ان کے پیچھے لگ گئے ہیں۔وہ کتوں سے بچنے کے لئے ملٹن پارک میں گھس جاتے ہیں۔ملٹن پارک؟ اب تو اس کا نام گاندھی پارک ہو گیا ہے۔ گاندھی پارک ہو یا ملٹن پارک ،  ہے تو یہ وہی پارک جہاں وہ شادی کے دو دن بعد اسے لے کر آئے تھے۔پارک کی بارہ دری ٹوٹ کر کھنڈر بن گئی ہے۔ ٹوٹی ہوئی بارہ دری کے پتھروں کے نیچے سے ہوتی ہوئی ان کی نظریں چالیس برس پرانی بارہ دری میں گھس جاتی ہیں۔’’ آؤ یہاں بیٹھو .........کتنی خوبصورت ہیں یہ محرابیں۔‘‘ وہ دونوں سنگ مر مر کے ستون سے کمر ٹکا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر وہ دنیا سے بے خبر بہت دیر تک اس کے پاس بیٹھے رہے۔مہینوں ............برسوں .....................کہ اچانک ان کی بیٹی سر لا نے انھیں چونکا دیا۔

’’ بابو جی آپ چپ کیوں ہیں ؟ کیا سوچ رہے ہیں ؟

’’ کچھ نہیں بیٹی۔ میں سوچ رہا تھا آج اتنے سویرے ..............اصل میں ،  میں نے سوچا جو گیندر کے دفتر جانے سے پہلے ہی پہنچ جاؤں تو اچھا ہے۔‘‘

’’ بابو جی آج تو اتوار ہے۔‘‘

’’ اوہ ، ہاں آج تو اتوار ہے۔ کیا کروں بیٹی ریٹائر ہونے کے بعد دن تاریخ یاد ہی نہیں رہتے۔‘‘

وہ دل ہی دل میں سوچنے لگے۔’’ دن تاریخ کیا اب تو بہت کچھ یاد نہیں رہا۔‘‘

اتنے میں جو گیندر بھی آنکھیں ملتے ہوئے آئے اور کیدار ناتھ کو پرنام کر کے صوفے پر بیٹھ گئے۔

’’ با بو جی اتنے سویرے ؟ سب ٹھیک ہے نا۔‘‘

’’ میرے جلد ی آنے پر یہ لوگ اتنا زور کیوں دے رہے ہیں۔ ضرور میرے اچانک آنے سے یہ سب ڈسٹرب ہوئے ہوں گے۔ مجھے چلے جانا چاہئے ، ابھی............‘‘

کیدار ناتھ کو خاموش بیٹھا دیکھ کر سرلا بول پڑی۔’’ ارے بابو جی تو بھول ہی گئے تھے کہ آج اتوار ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟

آج اتوار ہے اور میں اس طرح بغیر بتائے یہاں چلا آیا ہوں۔ ہو سکتا ہے ان دونوں کا کوئی پروگرام ہو۔ اب میری وجہ سے ............‘‘

’’ہفتے میں  چھٹی اک ایک ہی دن تو ملتا ہے ان لوگوں کو۔مگر میں بھی تو روز روز نہیں آتا ، گھر سے چل پڑا تھا ، بس چلتا رہا اور چلتے چلتے جب سرلا کے گھر کے قریب آ گیا تو سوچا، ملتا چلوں ،  کیا یہ لوگ آج میرے لئے اپنے پروگرام نہیں چھوڑ سکتے ؟‘‘

کیدار ناتھ کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے ہیں۔

’’ کمبخت بڑھاپے میں آنسو بھی کتنی جلدی نکل آتے ہیں۔‘‘ وہ آنسوؤں کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے کہ سرلا نے ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔’’ یہ اس طرح کیا دیکھ رہی ہے ؟ کہیں سب کچھ سمجھ تو نہیں گئی۔‘‘

’’ کیا سمجھے گی ؟ یہ کہ میں اپنی بیوی کا نام بھول گیا ہوں اور رات بھر جاگتا رہا ہوں یا یہ کہ میں رو رہا ہوں۔‘‘

’’ بیٹی آج مجھے جو گیندر سے کچھ کام تھا ...........‘‘

’’ بابو جی مجھ سے ؟‘‘ جو گیندر نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔

’’ہاں یوں ہی ،  کوئی خاص بات نہیں تھی___‘‘ پھر وہ لان کی رف جھانکنے لگے۔

’’ آج بہت سردی ہے۔تمہارے لان میں تو سویرے ہی دھوپ آ جاتی ہے۔‘‘ سرلا نے لان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :

’’ہاں بابوجی ، ابھی تو دھوپ میں تیزی بھی نہیں آئی اور اوس بھی بہت ہے ،  پورا لان گیلا..........‘‘

وہ  کہہ رہی تھی کہ جو گیندر بیچ میں بول پڑے۔

’’ بابوجی ابھی کچھ کام کے سلسلے میں آپ کہہ رہے تھے ........‘‘

’’ کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں جلدی سے کام بتا کر چلتا بنوں تاکہ ان کے پروگرام ڈسٹرب نہ ہوں۔‘‘ کیدار ناتھ کھانسنے لگے اور کافی دیر تک کھانستے رہے۔ وہ کھانس رہے تھے اور سوچتے جا رہے تھے کہ اب کیا کہوں کہ بغیر سوچے سمجھے ہی بول پڑے ___

’’ بیٹے تمہیں نام یاد رہتے ہیں ؟‘‘

’’ کیسے نام بابوجی؟ ویسے میں ہمیشہ نام یاد رکھنے میں کمزور رہا ہوں ، اسی لئے ہسٹری کے پرچے میں میرے نمبر بہت کم آتے تھے۔‘‘

’’ اب کیا پوچھوں ؟ کیا سرلا سے یہی سوال کروں ؟مگر یہ تو بڑی بے تکی بات ہو گی۔ اگر سرلا خود ہی بول پڑے کہ بابو جی مجھے نام یاد رہتے ہیں ، تو جلدی سے پوچھ لوں کہ بتاؤ تمہاری ماں کا کیا نام تھا ___‘‘

کیدار ناتھ نے حسرت بھری نظروں سے سرلا کی طرف دیکھا لیکن وہ خاموش بیٹھی رہی اور پھر اٹھ کر کچن کی طرف چل دی ___

سورج چڑھے کافی دیر ہو چکی تھی۔ دھوپ میں بھی تیزی آتی جا رہی تھی۔لان کی ہری گھاس پر جمے شبنم کے قطرے اپنا وجود کھو چکے تھے۔ کیدار ناتھ نے اپنے جسم پر چڑھے گرم کپڑوں کو اس طرح ٹٹولا  جیسے وہ ڈھونڈ رہے ہوں کہ کپڑوں کے اندر جسم ہے بھی یا نہیں۔

دوپہر کا کھانا تیار تھا۔ لیکن ابھی تک سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھنے کا موقع نہیں مل پایا تھا۔ سرلا صبح سے کھانا تیار کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ کیدار ناتھ باہر دھوپ میں جا کر بیٹھتے تو کبھی اندر آ کر برآمدے میں ٹہلنے لگتے۔ کبھی جو گیندر سے ادھر اُدھر کی باتیں ہوتیں اور کبھی سرلا آتی تو اس تلاش میں رہتے کہ ذرا جو گیندر اٹھ کر جائیں اور وہ اکیلے میں سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھ لیں۔

 

’’اب دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا ہے۔ کھانے پر بات میں بات نکلے گی ، تب تو پاچھ ہی لوں گا۔‘‘ انھوں نے سوچا اور مطمئن ہو گئے۔

کھانے کی میز سج چکی ہے۔ سرلا نے کئی طرح کی سبزیاں بنائی ہیں ___کھانا بہت لذیذ ہے۔ آج بہت دنوں بعد اپنی بیٹی کے ہاتھوں کا کھانا ملا ہے۔ نوکر کے ہاتھ کا کھاتے کھاتے ان کا دل بھر گیا تھا۔سرلا کی ماں کے ہاتھ کا ذائقہ تو اب انھیں یاد بھی نہیں۔ اس کا نام بھی تو یاد نہیں __ان کا جی چاہا کہ جلدی سے پوچھ لیں۔

’’ بیٹی تمہاری ماں کا کیا نام تھا۔‘‘

’’ ارے یہ کیا۔ اگر اس طرح وہ کوئی سوال کریں گے تو یہ دونوں کیا سوچیں گے۔ دونوں قہقہہ مار کر ہنس پڑیں گے _____‘‘ کیدار ناتھ خود پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگے کہ کہیں بھول کر یہ سوال ان کے منھ سے نہ نکل پڑے ___‘‘ کس سے پوچھوں ؟ کمبخت خود ہی میرے ذہن میں آ جائے تو پوچھنا ہی کیوں پڑے ؟‘‘ انھوں نے بھویں سکوڑیں ، پیشانی پر بے شمار بل پڑ گئے پھر آنکھیں بند کر لیں اور اپنے ذہن سے جھوجھنے لگے۔’’ آج سرلا کا بیٹا نظر نہیں آ رہا ہے شاید اسے اپنی نانی کا نام یاد ہو____باتوں باتوں میں اس سے تو پوچھ ہی لوں گا ___‘‘’’ سرلا آج تمہارا بیٹا ......؟‘‘

’’ہاں پتا جی میں تو بتانا بھول ہی گئی۔ بی۔ اے پاس کرنے کے بعد اس نے کمپٹیشن کی تیاری شروع کر دی تھی۔ کل سے اس کے امتحان ہیں۔ دو دن پہلے ہی دلی چلا گیا ہے ____‘‘ ’’ او.......اچھا............تو گھر پر نہیں ہے۔‘‘کیدار ناتھ ایک ٹھنڈی سانس لے کر پھر کھانے میں مصروف ہو گئے۔ کھانا ختم ہو گیا اور کیدار ناتھ کو اپنی بیوی کا نام یاد نہیں آیا۔ کھانے کے بعد چائے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شام ہو گئی۔ کیدار ناتھ بغیر نام پوچھے ہی وہاں سے اٹھ پڑے۔ گھر لوٹنے کے لئے بس پکڑی۔اب ان کے جسم کی ساری رگیں ڈھیلی پڑ چکی تھیں۔ ہر ایک شخص کو دیکھ کر انھیں لگتا کہ اسے ضرور میری بیوی کا نام معلوم ہو گا۔ وہ ہر ایک سے پوچھنا چاہتے ہیں مگر کوئی شخص نہ تو ان کی طرف متوجہ ہوتا اور نہ ہی کچھ پوچھنے کے لئے ان کے ہونٹ کھلتے۔ سفر جاری رہا اور پھر اچانک ایک جھٹکے کے ساتھ بس رکی۔انھوں نے کھڑکی سے باہر جھانکا اور اترنے کے لئے سیٹ سے اٹھ کھڑے ہو گئے۔

کمرے میں چاروں طرف اندھیرا ہے۔ وہ بغیر روشنی کئے بستر پر ڈھیر ہو گئے۔ اندھیرا گہرا ہو تا جا رہا تھا ، کیدار ناتھ کو محسوس ہوا کہ دیواریں ان کی طرف کھسکتی چلی آ رہی ہیں۔ انھوں نے آنکھوں پر زور دے کر دیواروں کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں جلن ہو نے لگی۔ پورے کمرے میں دھواں بھر گیا تھا۔’’ اٹھ کر لائٹ جلا دی جائے۔‘‘ انھوں نے سوچا۔ مگر روشنی میں تو انھیں نیند ہی نہیں آتی۔ اندھیرے میں بھی کب آتی ہے۔ اب ان کی آنکھیں شعلوں کی طرح دہکنے لگی تھیں۔ جسم سے بھی آگ نکلنے لگے گی۔آگ کی لپٹیں بہت تیز  ہو گئی ہیں ،  سرلا کی ماں کی چتا جل رہی ہے ، روشنی بہت تیز ہے او انھیں نیند نہیں آ رہی ہے۔تو پھر آنکھیں نیند سے بوجھل کیوں ہوتی جا رہی ہیں _____؟جگہ جگہ سے جسم گل گیا ہے۔ وہ جدھر کروٹ لیتے ہیں ادھر سے شدید درد کی لہر اٹھتی ہے۔ ان کے ہاتھ پیر بالکل ٹھنڈے ہوتے جا رہے تھے کہ اچانک ذہن سے کوئی چیز نکل کر پلنگ کے نیچے فرش پر جا پڑی۔کیدار ناتھ اٹھ کر بیٹھ گئے۔لائٹ جلائی اور الماری کھول کر تمام کتابیں فرش پر بکھیر دیں۔ایک ایک کر کے میز کی دراز کے تمام کاغذات نکال ڈالے اور پرانے بکس سے کچھ فائلیں نکالیں پھر دیوانوں کی طرح انھیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے _____کسی کاغذ کو پڑھتے ،  کسی کو پھاڑ کر پھینک دیتے اور کسی کو تہہ کر کے رکھ لیتے۔’’کمبخت اس کی کوئی چٹھی بھی تو نہیں مل رہی ہے۔‘‘ اب کیدار ناتھ نے جھنجھلا کر کتابوں ، کاغذوں اور فائلوں کو نوچ کر پھینکنا شروع کر دیا ہے۔ دونوں ہاتھ بالکل شل ہو چکے ہیں۔ سانس رکنے لگی ہے۔ انھوں نے گھبرا کر گلے میں بندھے مفلر کا بل کھولنا چاہا کہ پتہ نہیں کیسے گرفت اور تنگ ہو گئی پھر ایک جھٹکے کے ساتھ مفلر کھینچ لیا اور بری طرح ہانپنے لگے۔’’ڈھونڈنے سے کوئی فائدہ نہیں _____یاد کرنا بھی بیکار ہے ، اب کچھ یاد نہیں آئے گا۔‘‘ اور وہ یاد کرنے لگے کہ ان کی بیوی کا کیا نام تھا۔

شانتی......................؟

نہیں _________

سروجنی________

نہیں ..............نہیں .......

سرشٹھا.............؟

اف یہ بھی نہیں ____

ہزاروں نام ان کے ذہن میں تیزی سے آنے لگے۔ پھر وہ بھول گئے کہ وہ کیا یاد کر رہے تھے۔

آج کون سا دن ہے ؟

اتوار_____

نہیں اتوار تو کل تھا۔

کل؟

اتوار تو اس دن تھا جب وہ سرلا کے گھر گئے تھے اور سرلا کے گھر گئے ہوئے اب صدیاں گذر چکی ہیں۔

 ان کی آنکھوں سے زرد روشنائی ٹپک کر پورے کمرے میں پھیل گئی ہے۔ کتابیں ، کاغذات اور فائلیں ____کچھ دھندلے دھندلے حروف نظر آئے۔

’’ شرما۔ہاں میرے دفتر کے ساتھی شرما۔‘‘

’’ پورا نام کیا تھا ان کا؟۔‘‘

’’ یہ بھی بھول گیا؟۔‘‘

’’ اور ان کے بیٹے کا؟۔‘‘

’’نہیں ، اب مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہے۔‘‘

پارک_____

’’کون سا پارک‘‘؟

’’ہاں وہی  پارک جہاں وہ کھڑی مسکرا رہی ہے۔‘‘

’’ لیکن اب تو اس پارک کا نام بھی بدل گیا ہے۔‘‘

’’ کیا ہے اس کا نیا نام؟‘‘

’’ نیا ہی کیا اب تو پرانا بھی یاد نہیں۔ میں سب کچھ بھولتا جا رہا ہوں۔‘‘

’’ میری بیٹی ____‘‘

’’ اف اس کا نام بھی نہیں یاد آ رہا ہے۔‘‘

’’ اس کے شوہر کا نام ؟‘‘

’’ہے بھگوان مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو کچھ بھی یاد نہیں۔‘‘

کیا صرف بیوی کے نام کے لئے وہ اتنے پریشان ہیں۔

نہیں ، کوئی اور چیز بھی ہے جسے وہ بھول گئے ہیں۔

’’ کیا چیز ہے وہ؟‘‘

وہ نیم پلیٹ جو بار بار ان کے ذہن سے نکل کر گر پڑتی ہے ! کیا لکھا ہے اس میں ؟ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ سب کچھ مٹ چکا ہے _____

دیواریں ، چھت،  دروازے اور فرش ...................کچھ بھی نہیں ہے۔دور تک پھیلا ہوا ایک بہت بڑا میدان ہے۔زمین میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ سور ج کا گولا پھیل کر اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ پورا آسمان  اس کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ روشنی اتنی تیز ہے کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ اچانک اور کوئی بہت چھوٹی سی چیز نظر آئی۔

’’ کیا ہے وہ ؟‘‘

’’ کوئی انسان ہے جو اپنے چاروں طرف مڑ مڑ کر دیکھ رہا ہے۔ اس کے قریب کوئی بھی نہیں ، وہ تنہا ہے ، بالکل تنہا۔‘‘

’’ ارے وہ تو میری طرف بڑھ رہا ہے ، اور اب میری آنکھوں کے اتنا قریب آ گیا کہ اس کے پیچھے سارا میدان ، آسمان اور سورج کا پھیلا ہوا گولا بھی چھپ گیا ہے۔‘‘

’’ کون ہے یہ شخص؟‘‘

’’میں ؟‘‘اور ان کی آنکھوں کے سامنے خود ان کی اپنی ذات اندھیرا بن کے چھانے لگی۔

’’ مگر میں کون ہوں ؟کیا نام ہے میرا؟‘‘

’’ایں ...................اب تو میں اپنا نام بھی بھول گیا۔‘‘ وہ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر زور سے چیخے اور بغیر ریڑھ کی ہڈی والے آدمی کی طرح دہرے ہوتے ہوتے اپنے آپ میں سمٹنے لگے۔ انھیں لگا وہ کئی گز زمین کے اندر دھنس گئے ہیں۔ ان کا دم گھٹ رہا ہے۔سر بری طرح چکرانے لگا اور آنکھوں میں نیلے پیلے بادل امڈ آئے۔ ہاتھ پاؤں سن پڑچکے ہیں  اور گلا رندھ گیا ہے ، جیسے کوئی بہت موٹی سی چیز اس میں اٹک گئی ہو۔ کانپتا ہوا ہاتھ انھوں نے گردن پر رکھ لیا اور کھنکھارنا چاہا مگر انھیں لگا کہ کھنکھارتے ہی ہچکی آ جائے گی  اور وہ مر جائیں گے۔

’’ نہیں ..........‘‘ وہ بہت زور سے چیخے۔ ان کے ہاتھ کی گرفت گلے پر خود بخود مضبوط ہو گئی تھی۔ دھندلے دھندلے حروف ابھرنے لگے۔

’’کے ................کے ..............‘‘ اف لگتا ہے دماغ کے پرخچے اڑ جائیں گے اور زبان کٹ کر دور جا گرے گی۔ انھوں نے غور سے دیکھا،  حرف کچھ کچھ صاف دکھائی دینے لگے تھے۔’’کیدا ا ا.................‘‘

اور پھر انھوں نے پڑھ لیا۔’’ کیدار ناتھ۔‘‘ وہ خوشی سے چیخ پڑے اور گلے پر ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ دل بہت زور سے دھڑکا،  پورے بدن میں گد گدی سی ہونے لگی اور وہ لڑکھڑاتے ہوئے پلنگ پر جا پڑے۔

’’ کیدار ناتھ، کیدار ناتھ____‘‘ وہ زور زور سے کہنے لگے جیسے اب انھیں سب کچھ یاد آ گیا ہو۔

اپنی بیٹی کا، دوست کا،  اس پارک کا اور اپنی بیوی کا نام ___ کیدار ناتھ !محسوس ہوا کہ ساری دنیا کا نام کیدار ناتھ ہے۔

پھر آہستہ سے اٹھے ، لائٹ بجھائی اور کیدار ناتھ، کیدار ناتھ کہتے ہوئے لحاف میں گھس گئے۔

صبح ہوئی تو انھوں نے خود کو بہت مطمئن محسوس کیا۔ رات بہت گہری اور سکون کی نیند آئی تھی۔!!


ختم شدہ

Monday, April 10, 2023

از: وسیم عقیل شاہ افسانہ:(روایت)

  افسانہ    

   روایت   

   وسیم عقیل شاہ 





   

    "رحمت ہو تجھ پر اے اللہ کی بندی، تیرا در سخی کا در اس سوالی کا سوال پورا کر  ـ" 

     اس گونج دار فریاد کے ساتھ ہی آمین آمین کی مترنم تکرار سے سناٹے میں ڈوبا پورا کاریڈور دھمک اٹھا ـ چند ہی ساعتوں میں یوں لگا جیسے کسی نے 'سن رائز اپارٹمنٹ' کی مردنی چھائی اس سات منزلہ عمارت میں نئی جان پھونک دی ہو ـ دروازے دھڑا دھڑ کھلنے اور بند ہونے لگے ـ اپارٹمنٹ کے دیگر مکینوں کی طرح میں بھی چونک پڑا ـ مگر اگلے ہی پل میرے ذہن کے پردے پر بابا پیر شُکراللہ کے آستانے کی متبرک تصویر اپنی تمام تر جزیات کے ساتھ متحرک ہو اٹھی ـ تصویر کا نقش اتنا گہرا تھا کہ میں لوبان کی خوشبو تک محسوس کرنے لگا ـ مجھے یقین ہوگیا کہ یہ وہی مست فقیر بابا سلیم ہیں، جو سات آٹھ فقیروں کو ساتھ لیے دو برس پہلے تک ہر سال ہمارے گھر آتے رہے تھے ـ لہذا میں نے دروازہ کھولنے سے پہلے بہو کو آواز دی کہ وہ ڈرائنگ روم کو ذرا دیکھ لے ـ پھر کچھ توقف سے دروازے کی طرف بڑھا ـ بہو فوزیہ نے بڑی سرعت سے ٹی پائی پر رکھے برتن اٹھائے، سوفے وغیرہ کی شیٹس اور کھڑکیوں کے پردے درست کیے ـ 

     میں نے دروازہ کھول کر ان کا استقبال کیا اور پورے احترام کے ساتھ انھیں اندر لے آیا ـ جیسے ہی فقیروں کی یہ ٹولی اندر داخل ہوئی پورا گھر خس کی روح پرور خوشبو سے معطر ہوگیا ـ ان کے سروں پر بندھے سبز رنگ عمامے اور ٹخنوں تک جُھل رہے ہرے ہرے جبوں کو دیکھ کر محسوس ہو رہا تھا جیسے عطرِ خس اپنا رنگ بھی ساتھ لایا ہے ـ بہو نے پردے کی آڑ سے ٹھنڈے پانی کی بوتلیں اور کانچ کے خالی گلاس ایک خوبصورت سِرامک ٹرے میں رکھ کر مجھے سونپے ـ 

     مجھے بابا سلیم کے علاوہ ان میں سے کسی کی بھی صورت یاد نہیں تھی مگر یہ یقین تھا کہ یہی سات آٹھ فقیر بابا سلیم کے ساتھ ہمارے یہاں دعوت پر آتے رہے تھے ـ ان کے جُبّے اجلے اور جھولیاں دھلی ہوئی تھیں، مگر چہرے دھوپ کی تمازت سے جھلسے ہوئے نظر آ رہے تھے ـ بھوک ان کی الجھی ہوئی داڑھیوں میں اٹکی پڑی صاف دکھائی دیتی تھی ـ بابا سلیم کا حال بھی تقریباً ایسا ہی تھا ـ پہلے تو انھوں نے بہ نظر غائر ڈرائنگ روم کا جائزہ لیا ، پھر کچھ کہنا چاہا، لیکن لفظ ان کے کپکپاتے ہونٹوں کو چھو کر لوٹ گئے ـ بعد ازاں عصا اور کاسے کو ایک طرف رکھا اور درمیان میں رکھے سنگل صوفے پر اس انداز بیٹھ گئے جیسے مراقبے میں بیٹھے ہوں ـ پانی پیش کر دینے کے بعد میں نے دیکھا فقیروں کے چہروں پر بھی مغائرت تھی اور اسی اجنبیت سے وہ نظر گھما گھما کر دیوار کے ٹیکسچر کلر کو تو کبھی چھت کے پی اوپی اور اس میں لگی ایل ای ڈی لائٹس کی کاریگری کو دیکھ رہے تھے ـ 

     بابا سلیم یوں تو گویا دھیان لگائے بیٹھے تھے لیکن بار بار ان کی نظر کچن کے دروازے پر دستک دے رہی تھی ـ مجھے یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ وہ ریحانہ کی عدم موجودگی کو محسوس کر رہے ہیں ـ ہمارے خانوادے سے ان کے تعلق کی واحد کڑی میری بیوی ریحانہ تھی ـ گھر میں ریحانہ کے علاوہ انھیں کوئی سمجھ نہیں پاتا تھا اور وہ بھی گویا ہم میں سے صرف ریحانہ ہی کو جانتے تھے ـ ان کا ویسا سروکار گھر کے دوسرے کسی فرد سے رہا بھی نہ تھا ـ آج بھی ان کی صدا کا راست تخاطب اللہ کی سخی بندی یعنی ریحانہ ہی سے تھا ـ 

      ریحانہ کو اولیائے کرام پر حد درجہ اعتقاد تھا ـ پیر باباؤں کے آستانوں پر جانا، منتیں ماننا، نذر و نیاز کرنا اور درگاہ کے فقیروں کی غم گساری کرنا اس کا دینی فریضہ تھا ـ پیر بابا شکر اللہ سے اسے خاص عقیدت تھی ـ ہر تین چار مہینوں کے درمیان چالیس کلو میٹر کا سفر طے کر کے ان کی مزار پر حاضری دینے جایا کرتی تھی ـ قلندرانہ صفت رکھنے والے مست فقیر بابا سلیم انھی پیر بابا شکراللہ کے در کے سائل تھے ـ یہیں ریحانہ ان سے پہلی بار ملی اور ان کے زہد و تقوے سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی ـ تبھی سے بابا سلیم، ولی اللہ پیر بابا شکراللہ کے صندل پر ہر سال ہمارے گھر دعوت کھانے آنے لگے تھے ـ میں برسوں سے اس پر تکلف دعوت کا شاہد رہا ہوں ، اور 'بے اختیار' میزبان بھی ـ 

      میں نے دیکھا بابا سلیم کی بے چینی بڑھتی جا رہی ہے ـ ریحانہ کی غیر حاضری اب انھیں کھلنے لگی تھی ـ میرے لیے یہ حیرت اب تک بنی ہوئی تھی کہ جس کسی نے انھیں اس فلیٹ کا پتا دیا اس نے انھیں مزید کچھ کیوں نہیں بتایا !! سردست میں بھی انھیں اس وقت تک کچھ بھی بتانا نہیں چاہتا تھا جب تک میں انھیں پیٹ بھر کھانا کھلا کر اپنی نیک بیوی کی روایت کو قائم نہ کر لوں ـ اسی بیچ دل کے کسی گوشے میں انچاہی مسرت کا ایک دیپ بھی جل اٹھا تھا، کہ آج میں ان فقیروں کا 'با اختیار' میزبان ہوں ـ لیکن مجھے تھیلیاں لٹکائے بازار جانے کی ضرورت نہیں تھی ـ گھر میں سب کچھ موجود تھا ـ اناج، تیل اور مسالوں کے علاوہ فریج میں ہفتے بھر کا مٹن ،چکن اور سبزی؛ غرض کہ میرا بیٹا ارشد ہرا دھنیا، کڑی پتہ اور پودین ہرا تک ایک ہفتے کا اسٹاک کر کے رکھ لیتا ہے ـ 

      میرے کچن میں جا کر آنے کے کچھ دیر بعد ہی مکسر گرائنڈر کی گھُر گھُر اور پھر مزید کچھ دیر بعد کوکر کی سیٹی کی آواز سے ڈرائنگ روم میں بیٹھے فقیروں کی ریاضت میں جیسے خلل پڑ گیا ہو ـ ابھی اس کیفیت سے محظوظ ہوئے بیس منٹ ہی گزرے ہوں گے کہ مسالوں کی اشتہا انگیز مہک اڑنے لگی اور اب میری بھی بھوک مچل کر شدید ہوگئی ـ 

      مہک جب بگھونے میں کھل کھل کرتے دلیم کی اٹھتی تو مومن باڑے کی پوری رمضانی گلی کو مہکا دیتی تھی ـ اس دن لنگر کا سا سماں ہوتا ـ ریحانہ بڑے خلوص سے ان فقیروں کی دعوت کیا کرتی تھی ـ دن کے شروع ہوتے ہی مسالے باٹ کر بِگُل بجا دیتی تو میرے بھی کان پھڑ پھڑا جاتے ـ میں سرکاری ملازم کی طرح بے دلی سے  تھیلیاں لٹکائے بازار کو روانہ ہوجاتا ـ اس دن مزید دو سیگڑیوں کا انتظام کیا جاتا ـ کسی پر دلیم تو کسی پر پلاؤ ـ زردہ اکثر چھوٹی سیگڑی پر اور چھوٹی پتیلی میں پکتا ـ اور گوشت کا سالن ہر دعوت کی مین ڈش ہوتا تھا ـ دیر تک گفگیر ہلتی، کوچے چلتے، ڈھکنے ہٹائے اور ڈھانکے جاتے اور اخیر کار اگلے کمرے میں سبز قالین پر سرخ دسترخوان بچھ جاتے ـ میری ذمہ داری آفتابہ لیے سلفچی میں مہمانوں کے ہاتھ دھلوانے سے لے کر اختتام پر دوبارہ ہاتھ دھلوانے تک محدود تھی ـ اس مختصر دورانیے میں مجھے طباق اور رکابیوں کو بھرا ہوا رکھنا ہوتا تھا ـ بعد از طعام سینی میں سجے لسی سے لبالب آب خوروں کو پیش کرنا یا پِرچ میں کھیر اتار اتار کر پلانا بھی میرے ذمے کا اہم کام تھا ـ پھر کھانے سے فراغت کے بعد جب ریحانہ ان کا عشائیہ کمنڈلوں میں بھر دیتی تو کمنڈلوں کو پورے احترام کے ساتھ مہمانوں کے سپرد کرنا بھی میرے فرائض میں شامل تھا ـ 

      کچن سے آتی کانچ کے برتنوں کی جل ترنگ کی سی آواز سے میں اپنے فلیٹ میں واپس لوٹا ـ یقیناً کھانا پک کر تیار چکا ہوگا ـ اس قیاس کے ساتھ ہی میں نے نظر اٹھائی اور دیکھا کہ اب سچ مچ سبھی فقیر مراقبے کی سی کیفیت میں لگ رہے تھے ـ ان کے چہروں پر اے سی کی ٹھنڈک کا سکون تھا، وگرنہ اپریل کی دھوپ تو ان کی صورتوں کو کباب بنائے ہوئے تھی ـ اتنا وقت بیت جانے کے بعد بھی سب پر خاموشی چھائی ہوئی تھی، گویا سکینہ نازل ہو رہی ہو ـ البتہ درمیان میں دو باتیں ضرور ہوئیں، لیکن ان دو باتوں میں ریحانہ کا ذکر کسی نے نہیں کیا ، میں نے، نہ ان میں سے کسی نے ـ بابا سلیم نے میری اس دریافت پر کہ آپ لوگ پچھلے دو برس سے کیوں تشریف نہیں لائے، بتایا کہ دو سال سے وہ آٹھ سو کلومیٹر دور آستانہء یاوری سے کسب فیض کر رہے تھے ـ ان کے اس جواب پر میرے ذہن میں ارشد کے الفاظ گونجے:

      "چھوڑیے ابو، شاید انھیں امی کی خبر مل گئی ہوگی ـ " 

      یہ الفاظ ارشد نے مجھ سے پچھلے برس اس وقت کہے تھے جب میں ان فقیروں کی مسلسل دوسری بار غیر حاضری پر کچھ فکر مند سا ہوگیا تھا ـ ارشد کے یہ الفاظ اس مزاج کے غماز تھے ـ اسے ریحانہ کا مزاروں پر جانا، یوں فقیروں کو مہمان بنا کر گھر میں لانا بالکل پسند نہ تھا ـ لیکن ریحانہ کی کھینچی ہوئی لکیر وہ کیسے پار کرتا ـ 

      اسی اثنا بابا سلیم نے فلیٹ کی تعریف کرتے ہوئے کہا : " مکان اچھا بنایا ہے ـ" بابا کے یہ جملے میرے لیے غیر متوقع تھے ـ ایک کاغذی مسکراہٹ میرے چہرے پر ابھری ـ اسی اثنا مجھے بہو فوزیہ کا خیال گزرا جو اس وقت کچن میں اپنی تمام صلاحیتیں جھونک رہی تھی ـ ابھی دو ڈھائی برس پہلے ہی وہ بہو بن کر اس گھر میں آئی اور بہت جلد دلوں میں گھر کر گئی ـ اس نے اپنی خوش مزاجی اور سگھڑ پن سے گھر کو جنت بنائے رکھنے میں کوئی کسر رکھ نہیں چھوڑی ہے ـ فوزیہ کی انھی خوبیوں کو دیکھ کر میں ارشد کے مستقبل سے مطمئن ہوجاتا ہوں ـ میں فوزیہ کو اپنی ہی طرح معصوم اور فرما بردار بھی سمجھتا ہوں ـ جس طرح مجھے گھر کے متعلق ریحانہ کے کسی فیصلے پر کبھی کوئی اعتراض نہیں رہا ویسے ہی اس نے بھی کبھی ارشد کے فیصلوں پر اعتراض نہیں کیا، نہ اس کے آگے سوچنے کی سعی کی ـ ارشد کی ہر بات، ہر حکم کو وہ حرف آخر سمجھ کر تسلیم کرتی ہے ـ ارشد نے مومن باڑے کا گھر بیچ کر راتوں رات ہمیں 'سن رائز 'اپارٹمنٹ میں شفٹ کروا دیا ـ اس نے کچھ نہ کہا، اور نہ میں نے ـ اور میں بھلا کہتا بھی کیا ! میں تو شروع ہی سے امور خانہ داری سے دور رہا ہوں، اور گھر کے ہر فیصلے پر چاہے ریحانہ کا فیصلہ ہو کہ ارشد کا ، بس اللھم خیر کہتا رہا ـ اور حقیقت تو یہ بھی ہے کہ ریحانہ کسی طور اپنا گھر، اپنا محلہ چھوڑ کر کہیں اور جا کر رہنے کے لیے راضی نہیں تھی ـ کسی اپارٹمنٹ میں تو قطعی نہیں، اس کے نزدیک فلیٹوں کی زندگی گوشہ نشینی کی زندگی تھی ـ ارشد لاکھ دہائی دیتا لیکن وہ سرے سے انکار کر دیتی تھی ـ حالانکہ وہ ارشد کے سوشل اسٹیٹس کو سمجھتی تھی ـ لیکن اس نے ارشد کے جاب، اس کے کلچر اور اس کے دوستوں کو کبھی اپنے فیصلے میں رکاوٹ بننے نہیں دیا ـ 

       ادھر ظہر کی اذان کے لیے موذن نے کھنکارا اور ادھر بہو نے پردے کی آڑ سے کھانا لگ جانے کی اطلاع دی ـ 'آئیے' کہتے ہوئے میں نے ہاتھ دھلوانے کے لیے سب سے واش بیسن کی طرف چلنے کی گزارش کی ـ بابا سلیم کے نشست چھوڑتے ہی سبھی فقیر اٹھ کر ریل گاڑی کے ڈبوں کی مانند میرے پیچھے لگ گئے ـ ہاتھ دھلوانے کے بعد میں انھیں ڈائننگ روم میں لے گیا، جہاں ڈائننگ ٹیبل پر کھانا سج چکا تھا ـ ہر چند کہ وہ سب ایک عجب سی جھجک میں مبتلا تھے ، لیکن ان کی آنکھیں بھوک کو مات دینے کے جذبے سے چمک رہی تھیں ـ  ٹیبل پر بچھے پلاسٹک کے سلور دستر خوان پر کانچ کے ایک جیسے دکھائی دینے والے تین چار بڑے پیالے ڈھکے ہوئے تھے ـ نیز ٹیبل کے سروں تک سلیقے سے پھیلی ہوئی ایک جیسی ڈیزائن کی پلیٹیں، آنکھوں میں چبھنے کی حد تک چمچما رہی تھیں ـ ڈھائی تین گھنٹے کی انتظار جیسی ریاضت کے بعد اگر صرف دو روٹیاں ہی میسر آ جائے تو بھوکوں کے لیے کسی عرفان سے کم نہیں ـ لیکن ٹیبل پر چکن گریوی ، بھونے گوشت کا تری دار شوربہ ، زیرہ رائس ، گاجر کا حلوہ، سلاد کی پلیٹوں کی لمبی قطار، بٹر نان کے ڈھیر اور ڈھنگ سے سینکی گئی روٹیاں بھاپ اڑا اڑا کر استقبال کر رہی تھیں ـ  

        اپنی اپنی نشست سنبھالنے کے بعد اب سب لوگ بابا سلیم کی بسمہ اللہ کا انتظار کرنے لگے ، مگر بابا ـ ـ ـ ـ ـ ـ میرا دل ایک دم سے دھڑکا ـ مجھے خدشہ ہوا کہ مبادا ریحانہ سے متعلق اس وقت نہ پوچھ بیٹھے ـ دراصل میرے لیے ان لوگوں کی وقعت چند معمولی فقیروں سے زیادہ کچھ بھی نہیں تھی، لیکن ان کی نسبت ریحانہ سے تھی ـ بابا سلیم ریحانہ کے لیے پیر و مرشد کا درجہ رکھتے ہیں ـ اسی لیے سردست ان کی قدر  میرے لیے مقدم اور اولین ترجیح تھی ـ  

        بابا سلیم ریحانہ ہی کے منتظر تھے ـ  یقیناً وہ ہوتی تو ضرور دروازے پر کھڑی نگرانی کر رہی ہوتی اور مجھے یہاں سے وہاں دوڑاتی رہتی ـ اس دوران مجھ سے زیادہ اس کی مصروفیت دیکھنے کے قابل ہوتی تھی ـ اور اب بابا سلیم کی پیشانی پر ابھری سلوٹوں کو دیکھ کر میری حالت دیکھنے کے قابل تھی ـ بابا سلیم کے یوں دیر تک کھانا شروع نہ کرنے کی اس کشمکش کے بیچ میں نے سوچا کہ اگر ابھی نہیں تو کھانے کے بعد ضرور ریحانہ کے بارے میں پوچھیں گے ـ اس لیے بھی کہ بابا سلیم اکثر کھانے سے فارغ ہونے کے بعد ہی کلام فرماتے تھے ـ اس وقت ریحانہ کا موجود ہونا ضروری ہوتا تھا ـ اور ان کا یہ کلام حاضرین کے لیے مذہبی وعظ ہوا کرتا تھا ـ بابا سلیم کا کلام یا وعظ جو بھی ہو، بڑا فلسفیانہ طرز کا ہوتا تھا ـ سننے والے یقیناً آسانی سے سمجھ نہیں پاتے ہوں گے ، لیکن سنتے پوری دلجمعی کے ساتھ تھے ـ ریحانہ ویسے تو کچھ پڑھی لکھی نہ تھی کہ اس قدر ادق اور ثقیل زبان میں بابا کی رشد و ہدایت کو سمجھ سکے گی ، لیکن اس سنجیدگی سے سنتی تھی جیسے ایک ایک لفظ کو گرہ میں باندھ رہی ہو ـ میں نے اپنی پوری زندگی زبان کی تدریس کی لیکن میں خود بھی ان فلسفیانہ لفظیات اور تراکیب کو سمجھنے سے قاصر رہتا تھا ـ 

         سردست میری پریشانی کا سبب یہ تھا کہ اس وقت یا جب کھانا ختم ہوگا تب، بابا سلیم ریحانہ کی عدم موجودگی پر استفسار کریں گے تو میں انھیں کس طرح بتاؤں گا کہ ریحانہ آپ کی میزبانی کرنے یا آپ کو سننے کے لیے اب اس دنیا میں زندہ نہیں ہے ـ دو سال پہلے جب بابا سلیم اپنے ساتھیوں کے ساتھ آ کر چلے گئے تھے ، اس کے کچھ دو مہینے بعد ریحانہ مختصر علالت کی تاب نہ لاکر اچانک اللہ کو پیاری ہوگئی تھی ـ 

        آخر کار بابا سلیم نے بسمہ اللہ پڑھ لی ـ سب نے گویا راحت کا سانس لیا ـ مجھے بھی تناؤ سے راحت ملی ـ تمام لوگ اطمینان کے ساتھ کھانا کھانے میں منہمک ہو گئے ـ سبھی نے سیر ہو کر کھانا کھایا، کولڈرنکس پی اور واپس ڈرائنگ روم میں آ کر صوفوں پر دھنس گئے ـ کچھ دیر بعد فوزیہ نے پارسل کنٹینر میرے حوالے کیے اور میں نے ان کے ـ میں آخری کنٹینر ان کے حوالے کر کے اپنی نشست پر بیٹھا ہی تھا کہ بابا سلیم نے آخرکار ریحانہ کا ذکر چھیڑ ہی دیا ـ اب میں اس صورت حال کے لیے تیار تھا، لیکن تب بھی ویسی ہمت جٹانے میں ناکام ثابت ہو رہا تھا ـ جیسا بھی ہو مجھے اب انھیں ریحانہ کے انتقال کی خبر سنانی تھی، سو سنا دی ـ 

        میرا آخری جملہ ابھی پورا بھی نہ ہوا تھا کہ وہ ایک دم سے سیدھے ہوگئے ، جیسے صوفے کی پشت پر کانٹے اگ آئے ہوں ـ ان کے باقی ساتھیوں کو بھی مانو سانپ سونگھ گیا! بابا سلیم مجھے اس طرح دیکھنے لگے گویا مجھ سے کوئی ناقابل معافی گناہ سرزد ہوگیا ہو ـ پھر آہستہ آہستہ وہ یکسر گہرے رنج میں ڈوبتے چلے گئے ـ آن کی آن میں پورے کمرے پر غم و اندوہ کی لہر دوڑ گئی ـ وفور جذبات سے میرا دل بھی بیٹھ گیا ـ کچھ دیر اسی کیفیت میں غرق رہنے کے بعد انھوں نے آنکھیں بند کر لیں ـ پھر چند منٹوں بعد جب ان کی آنکھیں کھلیں تو ان کے ساتھی سعادت مند شاگردوں کی طرح بڑے ادب سے سبق سننے کے انداز میں ان کی طرف متوجہ ہوگئے ـ فوزیہ بھی پردے کی آڑ لیے کھڑی ادھر کی کیفیات کا اندازہ لگا رہی تھی ـ بابا سلیم نے ریحانہ کی مغفرت کے لیے خوب دل سے دعائیں کیں، جن پر ایک بار پھر آمین آمین کی مترنم صدائیں گونج اٹھیں ـ بعد ازاں کچھ توقف فرمایا اپنا وعظ شروع کیا ـ 

        اب کی دفعہ بابا سلیم کا خطاب پہلے کی طرح مختصر نہیں تھا ـ انھوں نے بہت دیر تک اپنی رشد ہدایت میں دین و دنیا اور اس کی جزیات کو سموئے رکھا،اس وعظ میں تہذیبوں کے بکھرنے کا نوحہ بھی اور روایت کے قائم رکھنے کا عزم اور ہدایت صاف تھی ـ حیرت کی بات یہ تھی کہ مجھے ان کی باتیں سمجھ میں آ رہی تھیں ـ اور جو کچھ وہ نہیں کہہ رہے تھے اس کے مفاہیم بھی مجھ پر منکشف ہو رہے تھے ـ کیا صرف چند گھنٹوں ہی میں میرا عقیدہ اتنا پختہ ہوگیا تھا ! ریحانہ کہا کرتی تھی، عقیدہ مضبوط ہو تو جو کہا نہیں گیا وہ بھی سمجھ میں آجاتا ہے ـ 

        دوران خطاب بابا سلیم نے پردے کے پیچھے کھڑی میری بہو فوزیہ سے بھی تخاطب کیا،اسے ڈھیروں دعائیں دیں اور دیر تک اس کے ہاتھوں کے بنے کھانے کی تعریف کرتے رہے ـ اسی درمیان مجھے یہ خوشگوار احساس ہوا کہ پردے کے پیچھے فوزیہ نظر جھکائے دیوار سے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگی اور ہلکی سی مسکان کے ساتھ اپنے ڈوپٹے کے کنارے کو شہادت کی انگلی پر لپیٹ رہی ہوگی ـ اور ایسا کرتے ہوئے وہ بالکل.... بالکل ریحانہ کی طرح لگ رہی ہوگی ـ 

        

                                        ختم شدہ ـ

Wednesday, April 05, 2023

مناجات بہرِ نعت: میں تری حمد لکھوں اور تو مجھے نعت سکھا

 مناجاتِ بہرِ نعت

از: طاہرانجم صدیقی، مالیگاؤں، انڈیا



میں تری حمد لکھوں اور تو مجھے نعت سکھا

"وَ رَفَعْنَا لَكَ ذِكْرَكَ" کا مجھے راز بتا


دیکھ "اُنْظُرْنَا" کا انداز کہاں سے لاؤں؟ 

میں تجھے سجدے کروں، دل کو ادب گاہ بنا


جن کے سینے میں وحی اپنی بسائی تونے

ان کے جلوے کو مِرا سینہ مدینہ بھی بنا


ہے تِرا حکم "اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ" اللہ مجھے

ان کے فرمان پہ"تسلیم بجا" کہنا سکھا


تیرے قرآن میں بھی نعت کو ڈھونڈے طاہرؔ

اس کو ترتیل سے قرآن کا پڑھنا تو سکھا




یہ نعتِ پاک آپ کے ذوقِ مطالعہ کی منتظر ہے. 🔽

خدایا پہلے سکھا دے شعار خوابوں کو 

Saturday, April 01, 2023

مزاح: پَنے میاں کا چاند

 *پُنّے مِیاں کا چاند*


ازقلم: طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں، انڈیا




          ہمارے ننھے سے پُنّے میاں ان دنوں چرچا میں تھے. چرچا کا سبب تھا چاند. چاند بھی ایسا ویسا نہیں. رمضان کا چاند تھا. پُنّے میاں جانتے تھے کہ اس چاند کے دکھائی دیتے ہی کھانے کے ہوٹلوں اور چائے خانوں کو اچھی طرح سے پردہ کرایا جاتا ہے اور شیاطین بند کر دیے جاتے ہیں لیکن پنّے میاں کا منہ کسی بھی حال بند ہونے کو تیار نہیں تھا. ان کو اس مرتبہ شوق چرایا تھا چاند دیکھنے کا. حالانکہ ان کو گھر کا چاند تک دھندلا دکھائی دیتا تھا. 

          ان کے چاند نے ان کو سمجھاتے ہوئے کہا تھا.

          "دیکھو جی! یہ چاند واند کا چکر چھوڑو! بیس اور دو سو کے نوٹوں کا فرق تو تم سمجھتے نہیں ہو..... باریک سے چاند کو کیسے دیکھو گے؟

         پنّے میاں ہتھے سے ہی اکھڑ گئے. 

        " دیکھ گڈو کی امّاں! نوٹ کی بات مت کر....... اتنی واہیات نوٹ چھاپی ہے جہاں پناہ نے کہ بس اللہ کی پناہ! اب بھلا بتاؤ...... کہاں پرانا سو کا نوٹ اور کہاں یہ نیا؟ مجھ کو تو یہ پرانا نوٹ نئے سو کے نوٹ کے سامنے ہاتھی کے کان جیسا لگتا ہے. اور یہ نیا دس کا نوٹ...... اونہہ...... ایسا لگتا ہے جیسے ساڑھے چار روپے بارہ آنے کا نوٹ ہے.......بات کرتی ہے نوٹ کی......."

        "اور وہ دوہزار کا نوٹ...... اس کی بھی کچھ سنادو......"

       " او پپّو کی نانی! وہ نوٹ کسی بچے کو تھما کر دیکھ..... دو کے چار نہ کر دے تو صاحب علی خان نام نہیں میرا.......ہمارے زمانے میں ایسے نوٹ بچوں کے دل بہلانے کو استعمال ہوتے تھے لیکن اب تو دل دہلاتا ہے یہ نوٹ."

       "بچوں کی تو بات ہی مت کرنا جی........ خود تمہیں پچھلی عید کی چاند رات کو دو ہزار کا نوٹ......... "

      " او..... رک میری چاندنی بیگم! رک ذرا....... چاند رات پر سے یاد آیا کہ مجھ کو اب کی مرتبہ رمضان کا چاند دیکھنا ہے. تو مجھ کو باتوں کے کھلونوں میں مت بہلا..... اس بار میں کسی کی سنوں گا نہیں ہاں. بس چاند دیکھوں گا مطلب چاند دیکھوں گا."

        "میں کہتی ہوں تم گڈو کو گڑیا سمجھ کر بلاتے ہو اور گڑیا کو گڈو جان کر چلّاتے ہو......تم کہاں باریک سا چاند دیکھنے پر اڑے ہو....... ضد چھوڑو جی........"

        "منی کی دادی! جب میں نے تجھ سے کہہ دیا نا کہ چاند دیکھوں گا تو بس دیکھوں گا."

       " ہاں بابا! جاؤ سورج دیکھو...... چاند دیکھو....... اور دیکھ لینا تو مجھ کو بھی دکھا دینا."

      "اے لو کر لو بات!....... پیر خود محتاج ہے شفاعت خاک کرے گا......"

      "اسی لیے تو کہہ رہی ہوں جی کہ موئے چاند کا فراق چھوڑو."

      "نہیں چاندنی بیگم نہیں! کم سے کم تو تو نہ روک چاند دیکھنے سے.......تجھے معلوم ہے کہ چاند دیکھنے سے بھی ثواب ملتا ہے."

      اتنا کہتے کہتے پُنّے میاں نے اپنے جیبِ خاص سے پان کی ڈبیا نکالی اور بیگم کے ذریعے لگائے گئے پانوں کی تہوں میں سے ایک پان منہ میں رکھ لیا.

      ان کی بیگم فوراً سمجھ گئیں کہ پُنّے میاں نے توپ کے دہانے میں گولہ داخل کر دیا ہے. اب ان کے سامنے ٹکنا موت کو دعوت دینے جیسا ہے. 

      "ہاں آئی گڑیا..... ابھی آئی"

      کہہ کر پُنّے مِیاں کو جُل دے گئیں. اب یہ الگ بات ہے کہ اس وقت تو گڑیا گھر میں تھی ہی نہیں.      

      پُنّے مِیاں توپ کا دہانہ کھولے چاندنی بیگم کو جاتے ہوئے دیکھتے رہ گئے. 

      تھوڑی دیر بعد وہ گھر سے نکلے تو ایک دوست ان کے ہتھے چڑھ گئے. 

      "اماں سنو یار! شفیق! کہاں بھاگے جا رہے ہو تم! آج رمضان کی چاند رات ہے. کچھ خبر وبر ہے. تم کو آج چاند واند دیکھنا ہے کہ نہیں؟" 

      "نہیں یار پُنّے! چاند کہاں دکھائی دیتا ہے اب مجھے!"

      "ہاں! ٹھیک ہے تمہاری نظر کمزور ہے لیکن انتیس کا چاند دیکھنے کا جو ثواب ہے اس سے کیوں ہاتھ دھونا؟...... چاند دیکھنا چاہئے تم کو."

       "پُنّے مِیاں! تم تو میری نظر پہ یوں تبصرہ کررہے ہو جیسے آج بھی سوئی میں دھاگہ پرو لیتے ہو"

      "اَمَاں میاں شفیق! ناراض کیوں ہوتے ہو؟ نظر تو ہماری بھی کچھ بہت اچھی نہیں ہے."

      پُنّے مِیاں نے رازدارانہ انداز سے ادھر ادھر دیکھا کہ کہیں کوئی سن تو نہیں رہا ہے؟ اور پھر اپنی بات جاری رکھی. 

     " دیکھو یار شفیق! میرے کہنے کا مطلب ہے کہ کم از ہم چاند دیکھنے کی اداکاری تو کر سکتے ہی‍ں نا؟ تو ہم کو چاند دیکھنا چاہئے....... ہاتھ آئے ثواب سے کیوں ہاتھ دھونا......سمجھے."

     "ہاں بھئی! سمجھ گیا......ہم دیکھیں گے چاند...... آتا ہوں شام کو."

     "اپنی مسجد والی چوک پر ہی آنا."

     پُنّے مِیاں نے سمجھانے کے سے انداز میں کہا اور آگے بڑھ گئے.

     اس روز پُنّے مِیاں کی حالت دیدنی تھی. وہ سارا دن سیماب پا رہے. پھرکی طرح ادھر ادھر گھومتے رہے. اپنے یار دوستوں کو چاند دیکھنے کی دعوت دیتے رہے اور یہ سلسلہ کچھ ایسا چلا کہ شام کو جب لوگ باگ چاند دیکھنے جمع ہوئے تو سارا محلہ جان چکا تھا کہ آج پُنّے مِیاں چاند دیکھنے والے ہیں. 

     بچوں کی خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا. وہ ہر کس و ناکس سے ٹکراتے، پوچھتے پھر رہے تھے کہ چاند کب دکھے گا؟ نوجوان الگ الگ ٹولیاں بنا کر گپیں لڑاتے کھڑے تھے. بزرگوں میں پُنّے میاں بار بار آسمان کی جانب دیکھ رہے تھے. مارے جذبات کے انہوں نے شمالاً جنوباً بھی نظر دوڑا دی تھی کہ مبادا چاند کہیں ادھر سے نہ جھانک لے. وہ پان پہ پان چباتے جاتے تھے اور باتوں کے گولے داغے جاتے تھے مگر کم بخت چاند بھی جیسے ٹھانے بیٹھا تھا کہ "اب کی بار نو دیدار!"

     لوگ باگ مچل رہے تھے. بچے پنجوں پر اچھل رہے تھے مگر چندا ماما بھلا کب نکل رہے تھے؟ وہ تو کہیں دبکے بیٹھے تھے کہ اگر ایک طبقہ دیکھ لے اور ایک فرقہ نہ دیکھے تو تفرقہ پڑجائے. کوئی آج ہی تراویح پڑھائے اور کوئی دن بھر کھائے. 

     ایسے حالات میں بھی لوگ آسمان پر چاند کو کم، زمین پر پُنّے مِیاں کو زیادہ تلاش کرتے رہے. وجہ تھی ان کا دھنڈورا.     

     "چاند دیکھوں گا!"

     "چاند دیکھنا چاہئے!" 

     "چاند دیکھ کر ثواب کمانا ہی چاہئے!"

      الگ الگ اقوالِ پُنّوی جس تیزی سے لوگوں کے ذہنوں میں گردش کررہے تھے اس سے کہیں زیادہ تیز پُنّے مِیاں کی نظریں گھوم رہی تھیں. 

      مغرب کی اذان ہو چکی تھی مگر پُنّے مِیاں چاند دیکھ کر ثواب کمانے کے لیے مسجد والی چوک پر ڈٹے رہے. جماعت ختم ہوگئی لیکن پُنّے مِیاں کا ہاتھوں کا چھجہ بنا بنا کر مغربی افق پر چاند کو کھوجنے کا خود ساختہ فریضہ ختم نہیں ہوا.

      "وہ رہا چاند!" 

      "کہاں؟" 

      "کدھر؟" 

      پُنّے مِیاں کی نظریں بڑی تیزی سے آسمان کی طرف لپکیں. سبھوں کے ساتھ وہ بھی فلکیات کی خاک چھاننے میں مصروف ہوگئے مگر اچانک ہی

      "کھی کھی کھی" 

      کی آوازوں نے اسے شوشہ ثابت کردیا. ان کا پارہ چڑھ گیا. 

      "یہ کیا بیہودگی ہے بھئی! اب چاند کو بھی مذاق بناؤ گے تم لوگ!" 

      چاند دیکھنے والوں میں سے قہقہوں نے سر ابھارا. 

       "وہ رہا چاند!" 

       "وہ دیکھو چاند!" 

      " چاند دِکھ گیا" 

      جیسے جملوں کی تکرار اور کھی کھی کے ساتھ ادھر ادھر سے قہقہوں کا وہ زور اٹھا کہ پُنّے مِیاں کسے پکڑوں؟ کسے ڈانٹوں کی زندہ تصویر بنے ایک طرف لپکے ہی تھے کہ لڑکھرائے اور دھڑام سے زمین پر آرہے.

      لوگ باگ ان کی طرف لپکے. وہ ان کو زمین سے اٹھانا ہی چاہتے تھے کہ پُنّے مِیاں خود ہی اٹھے، کپڑے جھاڑے اور تن کر کھڑے ہوگئے. انھیں دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ وہ ابھی ابھی زمیں بوس ہوئے تھے. 

      ان کے دوست شفیق کی نظر جیسے ہی ان کے ماتھے پر پڑی وہ بیساختہ ہنسنے لگے. انہوں نے لوگوں کو مخاطب کیا اور ہنستے ہوئے کہا.

      "لو بھئی! پُنّے مِیاں کا چاند دیکھو چاند!" 

      لوگ پُنّے مِیاں کی طرف متوجہ ہوئے. ان کے ماتھے پر ایک بڑا سا گومڑ نکل آیا تھا.

       "چاند دیکھو چاند"

       کے ساتھ قہقہوں کا وہ زور چلا کہ خدا کی پناہ!

       اس کے بعد بہت دنوں تک پُنّے مِیاں جہاں کہیں دکھائی دیتے کسی کونے کھدرے سے  "چاند دیکھو چاند!" کا نعرہ ان کے کانوں سے آ ٹکراتا. وہ اول فول بکتے ہوئے کنّی کاٹ جانے میں ہی عافیت سمجھتے. 

      

(ختمۂ جاریہ)




طنز و مزاح کے شاعر بدرالدین بادل