مکمل طرحی غزل
طاہرانجم صدیقی
بخش دی ہے تو نے گر فطرت یہ سیلانی مجھے
حکم کیوں دیتا ہے پھر یہ ظلُ سبحانی مجھے؟
کربلا سے ہو کے آیا ہوں میں جب سے دوستو!
دیکھتا رہتا ہے حسرت سے بہت پانی مجھے
کس خرابے کے مکیں ہیں؟ آپ کچھ مت بولنا
سب کہانی کہہ گئی آنکھوں کی ویرانی مجھے
تیرے در کی چاکری کا لطف جب سے مل گیا
اِک نظر بھاتی نہیں دنیا کی سلطانی مجھے
چیر کر سینہ سمندر کا کنارے آ لگا
دیکھتی حیرت سے یے اُٹھ اُٹھ کے طغیانی مجھے
میں سرکتا ہوں ہر اک لمحہ تِری جانب مگر
روکتی ہے ہر گھڑی دنیا تِری فانی مجھے
برہمی دے، سخت لہجہ دے، صداقت دے مگر
یا خدا ہرگز نہ دینا زہر افشانی مجھے
کر رہے ہیں آپ اپنا وہ گریباں چاک چاک
اور بچا بیٹھی مِری ہی چاک دامانی مجھے
میں بہت چاہوں، سنبھل جاؤں مگر میں کیا کروں؟
ہوش میں آنے کہاں دے جام مژگانی مجھے؟
رات بھر سجدے سے پیشانی اُٹھائی ہی نہیں
چومنی تھی خواب میں آج کی پیشانی مجھے
یاخدا ان کو بھی دے دے داد دینے کا ہنر
شعر گوئی میں جو بخشی ہے فراوانی مجھے
طور کر، برقِ تجلی ہی گرا دل پر مرے
لن ترانی ہے، دکھا جلوؤں کی تابانی مجھے
مار ڈالے گا کرم اپنوں کا طاہرؔ ایک دن
اور جینے ہی نہ دیں گے دشمنِ جانی مجھے
سبحان اللہ سبحان اللہ سبحان اللہ
ReplyDeleteبہت عمدہ
کیا بات ہے
بہت بہت مبارک ہو طاہر بھائی
واہ جناب واہ
ReplyDelete