Translate ترجمہ

Thursday, March 16, 2023

ہزل: کب دو گے ہمیں صاحب! آرام خدا جانے؟

 ہزل

طاہر انجم صدیقی 




کب دو گے ہمیں صاحب! آرام خدا جانے؟ 

کیوں ہم سے نکلتے ہیں سو کام خدا جانے؟


لگتے ہو میاں تم بھی ہم کو تو چچا چھکّن

"آغاز قیامت ہے، انجام خدا جانے"


لاحول پڑھا کرتے ہیں تم کو جو سنتے ہیں

کیوں خود کو سمجھتے ہو خیّامؔ خدا جانے؟ 


اِک ذہن کی تیزی کو سنتے ہیں میاں بدّھو

کھا جاتے ہیں کتنے ہی بادام خدا جانے؟ 


رشوت کو ہمیشہ ہی سودھان رہے پولس

کب دے گا خدا ان کو وِشرام خدا جانے؟ 


ستّر کی خزاؤں نے سب جھاڑ دئیے پتّے

کیوں بن کے نکلتے ہیں گلفام خدا جانے؟ 


اِک شعر اُڑایا تھا دی اس کو خبر کس نے؟ 

کس درجہ مچائے گا کہرام خدا جانے؟ 


ہیں جھرّیاں چہرے پہ کہہ دوں تو برا مانیں

آئینہ دکھانے کا انجام خدا جانے


اشعار خدا جس پر آسان کرے اس کو

کیوں دیں متشاعر کا وہ نام خدا جانے؟ 


بیلن بھی ہے، چمچے بھی سب پاس رکھے طاہرؔ

ڈھائیں گی قیامت کیا مادام! خدا جانے؟



 یہ کلام بھی آپ کے ذوق کی داد چاہتا ہے. 🔽

ہم نے دنیا میں لہو رنگ تماشا دیکھا


11 comments:

  1. السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ
    جناب یہ تازہ ہزل زیادہ متاثر نہ کرسکی. از راہ کرم آپ سنجیدگی کے ساتھ سنجیدہ غزل پر ہی توجہ دیں تو بہتر رہے گا. ردّ و قبول تسلیم.

    ReplyDelete
    Replies
    1. آپ کے مشورے کے لیے شکرگزار ہوں جناب!

      Delete
  2. کیا کہنے طاہر بھائی •• واہ واہ

    ReplyDelete
  3. واہ، بہت خوب

    ReplyDelete
  4. شہناز فاطمہ
    بھئی واہ لطف آگیا ہر شعر لاجواب ہے خصوصاً مقطع تو غضب کا یے بہت داد اور تحسین کے ساتھ نیک خواہشات اور پرخلوص دلی مبارک باد قبول کریں اللہ کرے زور قلم اور زیادہ آمین

    ReplyDelete
  5. واہ، بہت خوب! ماشاءاللہ

    ReplyDelete
  6. ایک شعر اڑایا--------
    ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام کے مصداق
    مزاح کے ساتھ طنز
    بہت خوب جناب

    ReplyDelete