Translate ترجمہ

Friday, February 17, 2023

حمد: کون منکر ہو بھلا اُس نور کی تحریر کا؟


 حمد

(حمد برطرح غالبؔ)

طاہرانجم صدیقی 


 کون منکر ہو بھلا اُس نور کی تحریر کا؟ 

میں بھی اک نقطہ ہوں اس کے ہونے کی تفسیر کا


خواب کا مالک وہی، آقا وہی تعبیر کا

رنگ دیتا ہے شکستوں کو وہی تسخیر کا


فکر دامن گیر رکھّوں یا خوشی سے جھوم اٹھوں؟ 

ہر سِرا تھامے رکھا ہے اس نے جب تقدیر کا


مجھ کو جانے دو فرشتو! ورنہ دو گے کیا جواب؟ 

وہ سبب پوچھے جو آمد میں مِری تاخیر کا


ناز اپنی بندگی پر میں کروں یا چپ رہوں؟ 

لن ترانی پر دکھائے رنگ وہ تاثیر کا


یاد اسیری میں اسے اتنا کیا ہے دوستو 

ذکر کرنے لگ گیا حلقہ ہر اک زنجیر کا


حمد اس کی ہی ہے جس نے شعر کا فن دے دیا

میں تو اک پرزہ ہوں بس اللہ تشہیر کا


وہ مجھے بھی غازیوں کی صف میں رکھّے گا جناب

میں قلم سے لے رہا ہوں کام اگر شمشیر کا


بے کہے اُس کی نوازش، رحمت و فضل و کرم! 

مدَّعا عَنقا ہی رہنے دو مری تقریر کا


گر مجھے اپنے کرم کی وہ کرے تصویر تو

دیکھنا صدقہ اتاریں حور تک تصویر کا


نامۂ اعمال دیکھے، بخش دے پھر وہ کہے

"نقش فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا؟"


وہ عطا کردے مِرے تیشے کو گر طاہرؔ ہنر

کون سا مشکل بڑا ہے لانا جوئے شیر کا؟


 زندگی کو قافیہ کی گئی اس غزل کو بھی دیکھ لیں. نوازش ہوگی. 

🔽

ہم چلے تو چلی ہے جدھر زندگی

 

Tuesday, February 14, 2023

غزل: ہم چلے تو چلی ہے جدھر زندگی

 غزل

طاہر انجم صدیقی 




ہم چلے، تو چلی ہے، جدھر زندگی! 

ہیں قضا کی ہی دہلیز پر زندگی! 


ساتھ ٹھہری رہی عمر بھر زندگی! 

موت پر باندھ! رختِ سفر زندگی!


آخری ہچکیاں تو بھی لینے لگی؟

لگ گئی ہے کسی کی نظر زندگی!


صبح دم پھر سے ہنگامہ ہائے جہاں

پرسکوں تھی بہت رات بھر زندگی


وقت نے پوچھا حیران کس نے کیا؟ 

ہم بھی کہنے لگے چیخ کر "زندگی!"


ایک تو ہے گلے جا لگی موت سے

ہم نے چاہا تجھے ٹوٹ کر زندگی


دل کے ارمان صدیوں بھی پورے نہ ہوں

اور ملی ہے بہت مختصر زندگی


موت کا کیا بتائیں کہ طاہر ہے کیا؟ 

زندگی دوستو! تھی مگر زندگی!


🔽کیا آپ یہ غزل پڑھ چکے ہیں؟ 

وہ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا نہیں کرتے؟


Saturday, February 11, 2023

غزل: وہ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا نہیں کرتے؟

غزل

طاہرانجم صدیقی



وہ ہم سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا نہیں کرتے؟

بتا دے کوئی انھیں ہم دغا نہیں کرتے


انھیں ہی مات مِلا کرتی ہے بساطوں پر

"جو چال سوچ سمجھ کر چلا نہیں کرتے"


وہی شکایتیں کرتے ہیں راستوں کی بہت 

جو اپنے تلوے کبھی آبلہ نہیں کرتے


 نتیجہ دیکھ چکے ہیں، بکھرنا پڑتا ہے

ہم اپنی ذات کو اب آئینہ نہیں کرتے


انھیں ہی گھیرے رہا کرتی ہے ہوس اکثر

قلندروں میں جو طاہر رہا نہیں کرتے


عجیب لوگ ہیں اپنی سنائے جاتے ہیں

ادیب لوگ کسی کی سنا نہیں کرتے


ہم ایسے لوگ ہیں سر بھی کٹا کے خوش ہوں گے

وہ اور ہوں گے جو طاہرؔ وفا نہیں کرتے



اس غزل کو بھی دیکھ لیں. 🔽

کہانی پھر کوئی لکھوا رہے ہیں