Translate ترجمہ

Wednesday, June 14, 2023

غزل: بس ذرا دیر ہی کرلینا گوارا ہم کو

 غزل

از: طاہر انجم صدیقی 




بس ذرا دیر ہی کر لینا گوارا ہم کو
اُٹھ بھی جائیں تو اگر کر دے اشارہ ہم کو

اپنی لیلی' کے تصور میں مگن بیٹھے تھے
"قیس نے دشت سے جس وقت پکارا ہم کو"

ہم تو پلکوں پہ سجاتے ہیں تمہارا ہر غم
یوں عطا کرتی ہے تقدیر ستارہ ہم کو

ایڑیاں رگڑیں مگر بھیک نہ لی دریا سے
اور تکتا رہا حیرت سے کنارا ہم کو

گرد آلود رہے، چیتھڑے پہنے ہوئے ہم
وقتِ رخصت تری خلقت نے سنوارا ہم کو

اپنی مٹی کو اٹھا لائیں گے ہم مٹی سے
وقتِ محشر جو خدا تو نے پکارا ہم کو

تجھ سے امید معافی کی بڑی رکھتے ہیں
تیرے محبوب کا ہے نام سہارا ہم کو

تم رہے ساتھ تو وہ بات الگ تھی طاہرؔ
اب تو بھاتا نہیں کوئی بھی نظارہ ہم کو


یہ غزل ضرور پڑھیں. 🔽


Wednesday, May 31, 2023

"بھورے بالوں والا" کا تجزیاتی مطالعہ

"بھورے بالوں والا" کا تجزیاتی مطالعہ


افسانہ نگار: ڈاکٹر شہروز خاور

تجزیاتی گفتگو: طاہر انجم صدیقی

تاریخ: ٢٠، مئی ٢٠٢٣ء بروز سنیچر

زیرِ اہتمام: انجمن محبانِ ادب و سٹی کالج، مالیگاؤں 

بمقام: سٹی کالج، مالیگاؤں





          ڈاکٹر شہروز خاور کے افسانے کا عنوان پڑھ کر غبارے والا، بانسری والا، پنکچر والا اور کنجی آنکھوں والا جیسے افسانوں کے کئی عنوانات ذہن کی سطح پر ابھرتے ہیں. فاضل افسانہ نگار نے فیشن کے طور پر اس افسانے کا عنوان "بھورے بالوں والا" نہیں رکھا ہے بلکہ اس افسانے کا تقاضہ تھا کہ اس کا عنوان کچھ اسی قسم کا رکھا جائے. اس کا سبب یہ ہے کہ افسانے میں کسی بھی کردار کا نام اور مذہب ظاہر نہیں کیا گیا ہے. ایسے افسانوں میں گڈو، راجو یا پھر والا کے لاحقے کے ساتھ استعمال کی گئی صفات کو نام کے طور پر استعمال کرلیا جاتا ہے.

         افسانہ سیدھے سادے بیانیے اور مکالمے پر مشتمل ہے. افسانے میں فلیش بیک تکنیک کا استعمال ہوا ہے بلکہ باریک بینی سے دیکھا جائے تو کہانی بیان کرنے کے لیے افسانے کے ایک کردار کو آگے کردیا گیا ہے. راوی ایک چھوٹا بچہ ہے جو کسی آشرم، یتیم خانے یا بچوں کے کسی مددگار ٹرسٹ میں دیگر بچوں کے ساتھ رہا ہے فاضل افسانہ نگار کا کمال یہ ہے کہ ان کے کسی ادارے کے تعلق سے وضاحتاً کچھ نہ لکھنے کے باوجود بھی ہے قاری کی سمجھ میں آجاتا ہے کہ کہانی نے کسی ایسے ہی ادارے میں جَنَم لیا ہوگا. 

           فاضل افسانہ نگار کی کامیاب کوشش رہی ہے کہ وہ زبان کی خامیوں سے بچیں. لیکن وہ یہ بھول بیٹھے ہیں کہ راوی کی زبان اس کی عمر اور اس کے ماحول کے مطابق ہونی چاہیے تھی. جبکہ اس افسانے میں صاف طور پر محسوس ہوتا ہے کہ فاضل افسانہ نگار اور افسانے کے راوی کی زبان میں فرق مشکل ہی سے کیا جا سکے گا.

           افسانے کا پہلا جملہ دیکھیں:

            "آج کا خوشی کا دن تھا لیکن میں اپنے انتخاب پر اتنا بھی خوش نہیں تھا جتنا میرے دوست سمجھ رہے تھے."

            اس جملے میں بھاری بھرکم الفاظ کا استعمال نہیں کیا گیا ہے لیکن ان کا استعمال کسی بچے کے بس کا محسوس نہیں ہوتا. خاص طور پر نفسیاتی طور پر متاثرہ کسی بچے کا تو خاص طور پر محسوس نہیں ہوتا.

            اسی قبیل کے مزید چند جملے دیکھیں:

           اول: " میں نے پیچھے مڑ کر دیکھنا مناسب نہیں سمجھا یا شاید میں دیکھنا ہی نہیں چاہتا تھا یا پھر مجھے دیکھنا بھی نہیں چاہیے تھا."           

           دوم: "دائیں جانب چند کرسیاں اور ایک ٹیبل ایسے رکھے تھے جیسے کئی برسوں سے ان کے لیے سے وہی جگہ مختص کر دی گئی ہو."

           سوم: "میرے ہوتے ہوئے بھی فقرے اچھالے جا رہے تھے.

           ان جملوں سے قاری کے بچکانہ پن کی بو نہیں آتی بلکہ یہ کسی باشعور شخص کے محسوس ہوتے ہیں. جن کو پڑھ کر نہیں سمجھا جاسکتا کہ یہ کسی بچے کی زبان سے ادا ہو رہے ہوں گے.

           بھورے بالوں والا" سے منتخب یہ چند جملے اس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ افسانے کے راوی کی زبان افسانے اور اس کے ماحول سے مطابقت نہیں رکھتی اس کا سبب یہ ہے کہ افسانے میں بچوں کے کھیلنے کا تو تذکرہ ہے لیکن کہیں بھی ان بچوں کی تعلیم و تربیت کا ذکر نہیں کیا گیا ہے. جبکہ افسانہ نگار کو ایسا کرنا چاہیے تھا. 

           اس کے علاوہ افسانے میں کسی جگہ افسانے کی داخلی منطق بھی راوی کی زبان کے لئے کوئی جواز فراہم کرتی نظر نہیں آتی.         

           افسانے کے پہلے جملے کو دوبارہ دیکھیں:

           "آج خوشی کا دن تھا لیکن میں اپنے انتخاب پر اتنا بھی خوش نہیں تھا جتنا میرے دوست سمجھ رہے تھے." 

           اس جملے کو پڑھ کر سمجھا جا سکتا ہے کہ فاضل افسانہ نگار نے افسانے کے کردار کے توسط سے افسانے کا آغاز ایک تضاد سے کرتے ہوئے لکھا ہے  کہ اس روز خوشی کا دن تھا مگر راوی اتنا خوش نہیں تھا جتنا اس کے دوست سمجھ رہے تھے لیکن دوستوں کی اس سمجھ کا کوئی منطقی جواز افسانے میں موجود نہیں ہے اور اگر افسانے کے راوی کے دل میں بھورے بالوں والے کے والدین کی فطرت کی وجہ سے گود لینے والوں کے تعلق سے یہ خدشات پیدا ہو گئے ہوں کہ کہیں وہ بھی بات بات پر لڑائی کرنے والے، سختی کرنے والے اور شک کرنے والے نہ ہوں تو پھر جملے کا پہلا حصہ سوالیہ نشان کی زد میں آجائے گا اور افسانے کا راوی خود کے گود لئے جانے کے دن کو خوشی کا دن نہیں کہے گا. 

           حالانکہ جب تضاد بیانی سے افسانے کا آغاز کرکے قاری کو افسانے کی قرأت کے لئے روک لیا جاتا ہے تو پھر افسانہ نگار پر لازم ہو جاتا ہے کہ وہ اس تضاد بیانی کو افسانے کی داخلی منطق سے جواز بھی مہیا کرے لیکن "بھورے بالوں والا" والا کی داخل منطق اس معاملے میں میں گونگی ثابت ہوتی ہے. 

           "بھورے بالوں والا" کی کہانی ایک یتیم بچے کی کہانی ہے جس کی اوٹ سے فاضل افسانہ نگار یہ بتانا چاہتے ہیں کہ والدین کی تو تو میں میں، لڑائی جھگڑے اور شکوک و شبہات کی وجہ سے بچوں پر غلط اثرات مرتب ہوتے ہیں بچوں کے اپنے بھی جذبات و احساسات ہوتے ہیں اگر وہ مجروح ہوں تو پھر بچے بغاوت اور احتجاج پر اتر آتے ہیں. 

           چونکہ فاضل افسانہ نگار کا تعلق درس و تدریس سے ہے اس لیے انہوں نے بچوں کی نفسیات کی بنیاد پر افسانے کی عمارت کھڑی کی ہے اور بتایا ہے کہ میاں بیوی کے نامناسب رویوں کی وجہ سے ان کا اپنا بیٹا گھر چھوڑ کر چلا جاتا ہے جس کی کمی پوری کرنے کے لیے وہ دوسرے بچے کو گود لیتے ہیں مگر وہ بھی ان کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو کر بھاگ جاتا ہے اور پھر انھیں اپنے ہی بچے کو گود لینا پڑتا ہے. 

           اس افسانے میں کئی ایسے مقامات آتے ہیں کہ افسانے کا عقدہ وقت سے پہلے ہی کھل جاتا ہے اور پڑھنے والے سمجھ جاتے ہیں کہ بھورے بالوں والا گود لینے والوں کا ہی بیٹا ہے. 

           افسانے کے راوی کی زبانی ثبوت دیکھیں:

           "ان کی کار میدان میں داخل ہوئی تو بھورے بالوں والا کھیل چھوڑ کر بھاگا اور اپنے پلنگ کے نیچے جا کر چھپ گیا."

           اس جملے کی رو سے بھورے بالوں والے کا بھاگنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ اپنے والدین کی کار کو پہچان چکا تھا اس لئے کھیل چھوڑ کر بھاگ کھڑا ہوا. حالانکہ یہاں پلنگ کے نیچے جا کر چھپنے کا جو منظر بیان کیا گیا ہے اس سے راوی کے اختیارات پر سوالیہ نشان عائد ہوتا ہے کیونکہ افسانے کا راوی تو کھیلنے کی جگہ پر ہی موجود تھا. بھلا وہ بھورے بالوں والے کے پلنگ کے نیچے جا چھپنے کا منظر کیسے بیان کرسکتا ہے؟ اگر فاضل افسانہ نگار "پلنگ کے نیچے چھپ گیا ہوگا" کا استعمال کرلیتے تو بعد میں استعمال شدہ جملوں کے استعمال کا جواز بھی مل جاتا کہ بھورے بالوں والا جب کبھی ناراض یا غصے میں ہوتا تھا تو جا کر پلنگ کے نیچے چھپ جاتا تھا اور وہ جگہ صرف راوی کو ہی معلوم تھی. 

           اسی مقام پر دوسرے ہی پیراگراف میں اس منظر کے بعد راوی کے خیالات کے اس اظہار سے قاری کو دھوکہ دینے کی کوشش کی گئی ہے. 

           "ممکن ہے ان کا بیٹا مر گیا ہو؟" 

          سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا صرف بچے کے مرنے پر ہی لوگ گود لیتے ہیں؟ جواب ہونا چاہئے "نہیں"

          کیونکہ صرف اپنے بچے کے مرجانے پر کسی دوسرے بچے کو گود نہیں لیتے بلکہ اولاد کا گھر چھوڑ کر بھاگ جانااولاد اور اولاد کا نہ ہونا اور  بھی گود لینے کا بڑا سبب بنتا ہے. 

          چونکہ فاضل افسانہ نگار کو خدشہ تھا کہ اگر وہ ابتدا میں بھورے بالوں والے کے گھر سے بھاگنے کا تذکرہ کر بیٹھتے تو افسانہ پہلے ہی کھل جاتا. اس لئے انہوں نے افسانہ نگارانہ فریب کا استعمال کرلیا ہے.

          افسانے کے راوی سے جب گود لینے والے کہتے ہیں کہ وہ انہیں چھوڑ کر کبھی نہ جائے تب بھی افسانے کا تاثر زائل ہوتا ہے اور صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ان کا بیٹا انہیں چھوڑ کر چلا گیا ہے اور وہ وہی بھورے بالوں والا ہے. 

          اسی پیراگراف میں چھٹیاں ختم ہوتے ہی نئی اسکول میں افسانے کے راوی کے بھی ایڈمیشن کے اظہار سے  سمجھ میں آ جاتا ہے کہ بھورے بالوں والا ہی ان کا بیٹا ہے جو اسکول جاتا تھا مگر اب وہ گھر میں ہی نہیں ہے. اگر یہاں فاضل افسانہ نگار لفظ "بھی" کا استعمال نہیں کرتے تو اس اعتراض کی گنجائش نہیں نکلتی. 

          اتنا ہی نہیں بلکہ اس اظہار کے بعد فورا ہی راوی کو بھورے بالوں والے کے ہی طرح کے محسوسات کا ذکر بھی افسانے کے تاثر کو مجروح کرتا ہے.

          آگے چل کر فاضل افسانہ نگار جب ایک مرتبہ راوی کی زبانی کہلواتے ہیں کہ سب کچھ ویسا ہی ہو رہا تھا جیسا بھورے بالوں والے کے ساتھ ہوتا تھا تب بھی کا تاثر مجروح ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے اور قاری کی سمجھ میں آجاتا ہے کہ بھورے بالوں والا ہی گود لینے والو‍ ں کا سگا بیٹا ہے.

         اس کے بعد افسانے میں بیان کردہ سارے خیالات چغلی کھاتے چلے جاتے ہیں کہ بھورے بالوں والا ہی گود لینے والوں کا بیٹا ہے.

         کسی افسانے کا تجسس قبل از وقت ہی ختم ہوجائے اور اس کا تاثر خود افسانہ نگار ہی کئی مقامات پر مجروح کرے اور اس افسانے سے قاری کی دلچسپی ختم ہوجائے تو اس افسانے کو بہت کامیاب افسانہ نہیں کہا جا سکتا بلکہ قاری کی دلچسپی ایسے افسانے  سے کم ہو جاتی ہے اور وہ ورق پلٹ کر آگے بڑھ جانا مناسب سمجھتا ہے.

         اسی طرح افسانے کے راوی کے گود لینے والوں کے گھر میں پلنگ کے نیچے جا چھنے کا منطقی جواز بھی افسانے میں موجود نہیں ہے. سبب یہ ہے کہ راوی اس وقت کمرے کے دروازے کو مضبوطی سے بند کر لیتا ہے اور بات واضح ہو چکی ہوتی ہے کہ راوی پر گود لینے والوں کی لڑائی سے کچھ اچھا تاثر مرتب نہیں ہورہا ہے. اس لیے اس کا مضبوطی سے دروازہ بند لینا سمجھ میں آتا ہے لیکن دروازہ بند کر لینے کے باوجود بھی ہے پلنگ کے نیچے جا چھپنا بڑا مصنوعی محسوس ہوتا ہے. 

         اس کے بعد کا حصہ بھی تصنع بھرا محسوس ہوتا ہے جب راوی گود لینے والوں کے گھر سے بھاگ کر واپس پرانے مقام پر پہنچ کر ہچکچاتا اور یہ محسوس کرتا ہے کہ وہاں اسی کا انتظار ہورہا تھا اور وہاں دیدی کا راوی کو "بھورے بالوں والے" کہہ کر بلانا بھی کم مصنوعی نہیں لگتا.

          نیز اسی مقام پر راوی کا یہ بیان کرنا کہ دیدی اسے اتنا جانتی تھی کہ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر ہی سب کچھ سمجھ جاتی تھی. اگر واقعی وہ اس کی آنکھوں میں دیکھ کر ہی سب کچھ سمجھ جاتی تھی تو قاری یہ سوچنے میں حق بجانب ہوگا کہ دیدی راوی کو اس وقت بھورے بالوں والا کہہ کر کیوں بلاتی ہے؟ لیکن یہی تو وہ درد ہے جو افسانہ نگار کو افسانے کے تانے بانے بُننے پر مجبور کرگیا ہے مگر افسوس ہے کہ فاضل افسانہ نگار نے اس تاثر کو واقعات کی اپنی ہی ترتیب سے کئی مقامات پر اس طرح مجروح کیا ہے کہ یہاں قاری پر وہ اتنا اثر ڈالنے میں کامیاب نظر نہیں آتے جتنا ہونا چاہئے تھا. 

          بلکہ میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ افسانوں کو بڑی باریک بینی سے دیکھنے والے ڈاکٹر شہروز خاور جیسا شخص اپنے ہی افسانے کی اتنی موٹی موٹی باتوں کو نظر انداز کیسے کر گیا؟

          امید کرتا ہوں کہ وہ میری باتوں پر غور کریں گے. 

          اگر میری گفتگو میں کہیں تلخی پیدا ہوگئی ہو تو

          "رکھیو غالب مجھے اس تلخ نوائی میں معاف"

          خدا حافظ.

Thursday, May 11, 2023

کولاژ: سعادت حسن منٹو: طاہر انجم صدیقی

  (مجھے نہیں معلوم کہ اس مضمون کو مضامین کی صنف کا کون سا نام دیا جائے گا؟ لیکن میں نے اپنی سمجھ کے مطابق اسے ایک نام دے دیا ہے. معذرت خواہ ہوں.)


 ١١، مئی 1912 سعادت حسن منٹو کے ١١١ ویں یومِ ولادت کی مناسبت سے پیش ہے ایک تحریر. 

🔸 سعادت حسن منٹو 🔸

کولاژ: طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں



          انسان کسی بھی شخص شئے یا مقام کے تعلق سے انہیں لوگوں کی باتیں قابلِ قبول سمجھتا ہے جو اس شخص، شئے یا مقام سے قریب رہے ہوں. البتہ ان کے قریب رہنے والوں کی باتوں کے حوالے سے راقم الحروف نے سعادت حسن منٹو کے تعلق سے لکھے گئے اس مضمون میں کرشن چندر، احمد شجاع پاشا، باری علیگ، شورش کاشمیری، ممتاز مفتی، ڈاکٹر خواجہ محمد زکریہ، تحسینفراقی، سید وقار عظیم، شاہدہ ناز، سجاد ظہیر، شمیم حنفی، سید فراز احمد، حمید اختر، کنہیا لال کپور، یوسف ظفر اور یونس جاوید وغیرہ کی باتوں میں بہت ہی کم بلکہ نہیں کے برابر ترمیم و اضافہ کرکے انہیں پیش کیا ہےاور حقیقت تو یہ ہے کہ راقم الحروف نے اس مضمون میں صرف اور صرف لفظوں کے موتی ایک دھاگے میں پرونے کا کام کیا ہے. وہ بھی اس احساس کے ساتھ کہ موتی بہرحال دوسروں کے ہی ہیں. البتہ ان موتیوں کی مدد سے اردو کے افسانوی ادب کے ایک عظیم فنکار سعادت حسن منٹو کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کی کوشش ضرور کی ہے. 

          لانبا، ترچھا، چپٹا، گورا گورا، ہاتھ کی پشت پروریدیں ابھری ہوئیں. گردن کا حلقوم باہر نکلا ہوا، سوکھی ٹانگوں پر بڑے بڑے پاؤں لیکن بے ڈول نہیں. ایک عجیب سی نفاست، نسائیت لئے ہوئے، چہرے پر جھنجھلاہٹ، آواز میں بے چینی لکھنے میں اضطراب، آداب میں تلخی، چلنے میں عجلت. سعادت حسن منٹو کو پہلی بار دے کر ان ہی باتوں کا احساس ہوتا تھا. (کرشن چند)

          اسے دیکھ کر یوں محسوس ہوتا تھاجیسے یرقان میں مبتلا ہے.(کنہیا لال کپور) منٹو کا ماتھا سیمیں پردے کی طرح مستطیل تھا. نیچے سے کم فراخ اور اوپر سے زیادہ، بال سیدھے، لمبے اور گھنے تھے. آنکھوں میں ایک وحشی چمک، ایک بے باک درشتی، ایک ایسی سوجھ بوجھ تھی جسے دیکھ کر لگتا تھا کہ جیسے منٹو موت کے دروازے کے اندر جا کر لوٹ آیا ہو. (کرشن چندر) 

          سعادت حسن منٹو (11 مئی) 1912ء  میں ضلع لدھیانہ کے ایک گاؤں میں پیدا ہوا. وہ امرتسر کے ایک انتہائی معزز کشمیری خاندان کا رکن تھا. وہ لوگ اپنی ذہانت کے لیے دور دور مشہور تھے(احمد شجاع پاشا) 

          منٹو نے مقامی اسکول سے میٹرک پاس کرنے کے بعد اعلی تعلیم کے لیے علیگڑھ کا رخ کیا مگر جلد ہی اسے وہاں سے رخصت ہونا پڑا(احمد شجاع پاشا) 

          سعادت حسن منٹو کے والد منصف تھے. انہوں نے دو شادیاں کی تھیں. سعادت کی والدہ ان کی دوسری بیوی تھی. انہوں نے اپنی پہلی اہلیہ کی اولاد کی تعلیم و تربیت پر اتنی توجہ کی کہ ان کی وفات کے بعد چھوٹی بیگم اور ان کی اولاد سعادت اور اس کی بڑی بہن ناصرہ اقبال کے لیے تلخ یادوں کے سوا اور کچھ باقی نہ بچا. (ابوسعید قریشی) 

          منٹو اپنے بزرگوں کی عزت کرتا تھا، ان سے محبت نہیں. اس کے آداب میں، اخلاق میں زاویہ ء نگاہ میں اس قدر شدید اختلاف تھا کہ اس نے بچپن ہی سے اپنا گھر چھوڑ دیا تھا اور اپنے لئے نئی راہ کی تلاش شروع کر دی تھی. علی گڑھ، لاہور، امرتسر، بمبئی، دہلی ان مقامات نے منٹو کے مختلف رنگ دیکھے ہیں. روسی ادب کا پرستار منٹو، چینی ادب کا شیدا منٹو، تلخی اور یاسیت کا شکار منٹو، گمنام منٹو، بھٹیار خانوں، شراب خانوں اور قحبہ خانے میں جانے والا منٹو اور پھر گھریلو منٹو، محبت کرنے والا منٹو، دوستوں کی مدد کرنے والا منٹو، ترشی اور تلخی کو مٹھاس میں سمونے والا منٹو، اردو کا معروف ترینمنٹو (کرشن چندر) 

          باری علیگ نے منٹو کو ایک فلم دیکھنے پر آمادہ کیا اور واپسی پر اس فلم پر تبصرہ لکھنے کی شرط رکھی. دوسرے روز "مساوات" میں جو چند سطریں منٹو کی شائع ہوئیں اس سے وہ بہت خوش ہوا اور ان سطروں کی اشاعت نے ہی سعادت حسن کے اندر چھپے ہوئے افسانہ نگار منٹو کو بیدار کیا. (باری علیگ) اور شاید منٹو وہ پہلا ادیب تھا جو فلم اسے ادب کی طرف آیا اور اپنی شہرت کی بنیادیں استوار کرکے پھر فلم کی طرف چلا گیا. (کرشن چندر) بمبئی کو یہ فخر حاصل ہے کہ اس نے منٹو کی صلاحیتوں کو جلا بخشی. وہ بمبئی میں ایک عام ہفتہ وار پرچے کے مدیر کی حیثیت سے داخل ہوا اور جب وہاں سے باہر نکلا تو ایک مشہور آدمی تھا. (احمد شجاع پاشا) 

          وہ ایک کاغذ لیتا اور اپنے قلم سے 786 لکھ کر افسانہ لکھنا شروع کر دیتا. نہ اس نے کبھی اپنے کرداروں کے متعلق سوچا اور نہ نقطہ ء عروج کے متعلق. پہلا جملہ لکھنے کے بعد اس کے قلم میں روانی پیدا ہوجاتی. اس کی آنکھیں متبسم ہوجاتیں اور وہ لکھتے چلا جاتا. لکھنے سے پہلے اسے خود بھی معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ کیا لکھنے والا ہے اور فقرہ لکھ کر منٹو نے کبھی اسے کاٹا نہ تھا. (ممتاز مفتی) اس کاقلم مشین کی طرح چلنے لگتا. آدھے گھنٹے کے اندر اندر کہانی ختم کرکے وہ جھپاک سے ایڈیٹر کے سپرد کردیتا. وہ اپنی تحریر پر نظرِ ثانی کرنے کا عادی نہیں تھا. ایک ہاتھ سے کہانی ایڈیٹر کے حوالے کرتا اور دوسرا ہاتھ نقدی وصول کرنے کے لئے آگے بڑھا دیتا. رقم گننا اس نے کبھی گوارہ نہ کیا. اسے وہ گھٹیا اور ذلیل حرکت خیال کرتا تھا. اس دور میں اس کا 30 روپے روز کا خرچ تھا. جب تک پورا جمع نہ کر لیتا چین نہ پڑتا. اس کی ضرورت نے اسے زودنویس بنا ڈالا تھا. اس نے ایک ایک نشست میں طویل سے طویل افسانہ ہی ختم نہیں کیا بلکہ بسا اوقات ایک ہی نشست میں کی افسانوں کا مجموعہ لکھ ڈالا. اس کا اصول تھا کہ پہلے علیحدہ علیحدہ قیمت پر افسانے بیچتا. پھر کسی ناشر کے پاس مجموعہ بھیجتا اور اس طرح ایک معقول رقم پیدا کر لیتا لیکن جو کچھ کماتا اس کا بہت بڑا حصہ شراب کی بھینٹ چڑھ جاتا. 

          منٹو نے خود 1951ء میں لکھا تھا کہ وہ فیشن نویس، دہشت پسند، سنکی، لطیفہ باز اور رجعت پسند سہی لیکن ایک بیوی کا خاوند اور تین بچیوں کا باپ بھی تھا. ان میں سے اگر کوئی بیمار ہوجاتا اور موزوں و مناسب علاج کے لیے اسے درد کے در کی بھیک مانگنی پڑتی تو اسے بہت کوفت ہوتی. اس کے دوست بھی تھے جو اس سے زیادہ مفلوق الحال تھے. بروقت اگر وہ ان کی مدد نہ کر سکتا تو اسے بہت تکلیف ہوتی. دنیوی معاملات میں اگر وہ کسی کا یا خود اپنا سر جھکا ہوا دیکھتا تو اسے بہت دکھ ہوتا. 

          منٹو کے دوستوں اور نقادوں کا خیال تھا کہ اس کی زندگی ایک مستقل عذاب تھی اور موت نے اس کو اس عذاب سے نجات دلادی لیکن وہ زندگی سے پوری طرح لطف اندوز ہوتا تھا اور اس نے شجرِ ممنوعہ کے ہر گوشے سے زندگی کا رس نچوڑ تھا. 

          اس کی تحریریں دنیا جہاں کی گندگیوں سے آلودہ ہوتی تھی لیکن وہ خود ایک صاف ستھرا آدمی تھا. اس کی عادتیں بڑی پاک صاف تھیں. (احمد شجاع پاشا) صفائی، باقاعدگی اور عمدگی اس کے مزاج کا خاصہ تھیں. وہ لاابالی پن، پھوہڑپن جو اکثر ادیبوں کے گھروں میں ملتا ہے منٹو کے ہاں نہیں تھا. منٹو کے گھر میں کوئی بات ٹیڑھی نہیں تھی. صرف اس کی سوچ ٹیڑھی تھی مگر اس میں بھی ایک واضح ترکیب تھی.(کرشن چندر)

           مختصر اردو افسانے میں تقلیل اور اختصار کے عمل کا آغاز منٹو سے ہوتا ہے. (انیس ناگی) اس کے افسانوں کے رنگ عجیب ہوتے تھے. ان کی تراش نرالی ہوتی تھی. اس کے استعارے اچھوتے ہوتے تھے. ان میں شعریت اور شفقی اوصاف نہیں ہوتے تھے. وہ ادب میں حسن نہیں اقلیدس کا قائل تھا. ہر چیز نپی تلی رکھتا تھا. وہ اپنے استعاروں کے مفہوم، تاثر اور حدود اربعہ سے بخوبی واقف تھا اور لاشعوری حسن سے نہیں، ایک متعین ترتیب اور جیومیٹری کی اشکال سے تاثر پیدا کرنا چاہتا تھا اور اکثر رومانیت پسندوں سے کہیں زیادہ کامیاب رہتا تھا. (کرشن چندر)

          اس کی بیشتر تخلیقات عظیم بشریت کے نصب العین پر پوری اترتی تھیں اور اپنی سادگی اور سچائی اور تلخی کے اندر ایک شعری حُسن کی نمو رکھتی تھیں جس کے حصول کے لئے انسان کا سینہ آج تک ترس رہا ہے. (کرشن چندر)

          خاص طور پر جنسیات کے مسئلے پر جس بیباکانہ انداز میں منٹو نے قلم اٹھایا تھا، ہمارے ادب میں اور ہندی ادب میں اور مراٹھی، گجراتی، بنگالی زبان کے تراجم میں اور دوسری زبان میں بھی اس کی مثال ڈھونڈنا مشکل ہے. منٹو نے پہلے تو شرم اور شرم کے خول اکھاڑے ہیں پھر غلاظت کو صاف کیا ہے اور پھر اصل موضوع کو صابن سے دھو کر اتنا چمکایا کہ آج ہم میں سے ہر شخص جنس کی اہمیت، اس کی پیچیدگیوں، اس کے گوناگوں تاثرات سے بخوبی واقف نظر آتا ہے. اس جنسی تعلیم کے لیے ہم بڑی حد تک منٹو کے معترف ہیں. یہ تعلیم اس نے اپنی جوانی اور اپنی صحت کو خطرہ میں ڈال کردی ہے. (‌کرشن چندر) 

          سچائی کی تلاش میں وہ کیچڑ کے اندر گٹھنوں گٹھنوں تک دھنس گیا. اس کے کپڑے ضرور آلودہ ہو گئے لیکن اس کی روح کبھی میلی نہیں ہوئی اس کے افسانوں کے اندر چھپا چھپا کرب اس کا گواہ ہے. وہ عورت کی عزت کا، اس کی عصمت کا اور اس کے گھریلو پن کا جس قدر قائل تھا کوئی دوسرا مشکل سے ہوتا. اس لیے جب وہ عورتکی عزت کو جاتے ہوئے دیکھتا، اسے اپنا ناموس کھوتے ہوئے دیکھتا، اس کے گھریلو پن کو مٹتے ہوئے دیکھتا تو وہ بے قرار ہو جاتا اور بے تاب ہو کر جاننا چاہتا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اور جب وہ ہر بار اپنے مشاہدے کو بروئے کار لا کر ایک ہی تسلسل کو، ایک ہی ترتیب کو، سماج کے ایک ہی نظام کو دیکھتا تو وہ غصے میں آکر اسے تھپڑ مارنا چاہتا. منٹو اپیل کا قائل نہیں تھا. وہ ڈرانے اور تھپڑ مارنے کا قائل تھا. اس کے ہر افسانے کے آخر میں ایک طمانچہ ہوتا تھا جو پڑھنے والے کے منہ پر اس طرح پڑتا تھا کہ قاری بھنّا کر رہ جاتا تھا اور منٹو کو صلواتیں سنانا لگتا تھا مگر منٹو اس طمانچے سے کبھی باز نہیں آیا جسے بہت سے نقاد منٹو کی اذیت پسندی کہتے تھے. اس کی وہ اذیت پسندی، اذیت پسندی نہیں بلکہ اس کی زخمی انسانیت کی ایک بدلی ہوئی صورت تھی اور یہی چیز آپ کو منٹو کے اطوار وگفتار، اس کی تخلیقات، اس کے قول و فعل میں ہر جگہ دکھائی دے گی. (کرشن چندر)

          وہ معاشرے کے ابنارمل کرداروں کو خصوصی طور پر قابلِ توجہ سمجھتا تھا. ان کی ذہنی اور نفسیاتی کمزوریوں کو ہمدردانہ انداز میں دیکھتا تھا اور انہیں مجرم سمجھنے کی بجائے ان کی انسانیت کو واضح کرنے کی کوشش کرتا تھا. (ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا) وہ ہمارے ان افسانہ نگاروں میں سے تھا جنہوں نے اردو افسانوں کو رومانیت کی دھند سے نکالا اور اسے حقیقت نگاری بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بے رحم حقیقت نگاری کے عنصر سے باثروت کیا. (تحسین فراقی)

          منٹو اپنے افسانوں میں سیدھے سادے، روزمرہ کے بول چال کے جملوں سے ایسی مثال اور تشبیہ سے، جو دوسروں کی نظر میں بالکل حقیر اور بے حیثیت تھیں، اور ایسے چلتے ہوئے فقروں سے جن میں سنجیدگی اور متانت کا شائبہ تک نہیں ہوتا تھا، گہری سے گہری، سنجیدہ سے سنجیدہ اور مؤثر سے مؤثر بات کہنے کا کام لیتا تھا. (سید وقار عظیم) 

          منٹو اپنے طرز احساس کے اعتبار سے ایک ارتقائی نقطہ ء نظر کا حامی تھا اس لیے اس نے انسان، جنس اور سماج کی تثلیث کو اپنی تحریروں کا محور بنایا. لہذا اس نے جہاں جنسی حقیقت نگاری اور سیاسی ابتری کی المناک منظر نگاری کی وہاں انسانی نفسیات کا بھرپور مطالعہ کرکے اس کے اندر کی خلا کو بھی پر کرنے کی کوشش کی. 

          کلرک، مزدور، طوائف، رندِخرابات، زاہدِ پاکباز، کشمیر یا بمبئی، دہلی، لاہور، فلم اسٹوڈیو، کالج، بازار، گھر، ہوٹل، چائے خانے، بچے، بوڑھے، جوان، عورتیں، مرد اور ان سب کی ذہنی الجھنیں اور ان ساری چیزوں سے بڑھ کر جنس اور اس کے گوناگوں مظاہر منٹو کے موضوعات تھے. (سید وقار عظیم) 

          منٹو کی تحریریں بے حد شور مچاتی تھیں. اس کی نثر پڑھ کر یوں لگتا تھا جیسے کوئی سازندہ اکارڈین رکھ کر کنستر بجا رہا ہو. منٹو اپنے تحریروں میں شدتِ احساس پیدا کرنے کے معاملے میں اور ہوگیا تھا. ہم عصر افسانہ نگاروں سے زیادہ نمایاں ہونے کے جنون میں اس نے لفظوں کی جگہ گالیاں برت ڈالی تھیں.(شاہدہ ناز) اس کے چند افسانے ہمارے ادب کے بہترین افسانوں میں شمار کیے جا سکتے ہیں لیکن یہ بھی صحیح ہے کہ اس کے بعض افسانے خراب ہیں. (سجاد ظہیر) دنیا کی ہر چیز کی طرح منٹو نہ اچھا ہے اور نہ محض برا. (سید وقار عظیم) 

          بحیثیت افسانہ نگار منٹو کے وژن کا سب سے اہم پہلو یہی تھا کہ کہانی کےڈھانچے کی تعمیر میں سب کام کرنے والے کسی مذہب یا اس کی بنیاد میں شامل کسی بھی لفظ پر وہ اپنی ذات کو مسلط نہیں کرتا تھا. ہر شئے، ہر اسم، تصویر کے ہر نقطے اور ہر لکیر کی اپنی حیثیت کا تعین وہ اس طور پر کرتا تھا کہ اس کی اپنی شخصیت کبھی ان پر غالب نہیں آتی تھی. (شمیم حنفی) 

          وہ جو کچھ بھی کہنا چاہتا تھا اس کا کسی تکلف یا تمہید کے بغیر فوراً آغاز کر دیتا تھا. وہ سادہ گو اور سادہ بیان تھا لیکن اس کے ہاں کہانی کا مرکزی کردار اتنا جاندار، اتنا پرتاثیراور سچا ہوتا تھا کہ قاری کہانی کے بہاؤ کے ساتھ بہنے پر مجبور ہو جاتا تھا. (سید سرفراز احمد) 

          وہ عظیم افسانہ نگار تھا. فنِ افسانہ نگاری کے تمام اسرار و رموز پر اس کی پوری پوری گرفت تھی. اسے افسانے کی ایک ایک سطر پر بھرپور داد ملتی تھی. سامعین اس کا افسانہ سن کر واہ واہ کی صدائیں بے ساختہ بلند کرتے تھے. جس طرح مقبول شاعر مشاعروں کو اپنی شاعری سے لوٹ لیتے ہیں اس طرح منٹو بھی افسانہ سنا کر ادبی نشست کو لوٹ لیا کرتا تھا. اس جیسا افسانہ نگار اردو زبان کو شاید ہی اب نصیب ہو. (حبیب جالب)

          لوگ کہتے ہیں منٹو شراب بہت پیتا تھا لیکن میں اسے تسلیم نہیں کرتا. میں اس منٹو کو جانتا تو ضرور ہوں جو شراب پیتا تھا لیکن مجھے اس منھ پھٹ، بے لگام اور انا پرست، بے لحاظ منٹو کے پیچھے جو شراب پیتا تھا، اصلی منٹو بھی نظر آتا تھا جو انتہائی کمزور، انتہائی نرم و نازک جذبات سے معمور نظر آتا تھا. اس منٹو کو بہت کم لوگ جانتے تھے لیکن جو اس کو جانتے تھے انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ منٹو کی اصل صورت ہی یہ تھی. اس کی بیباکی، بے لگامی اور اکھڑ پن اسی چیز کی بازگشت تھی. جن لوگوں نے اسے بہت قریب سے دیکھا تھا انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ تھوڑی سی کوشش کے بعد اس کے اندر جھانک کر دیکھا جائے تو محض چھلا چھلایا، نرم و نازک اور بالکل بے بس و بے کس آدمی نظر آتا تھا. (حمید اختر) 

          وہ طبعی موت نہیں مرا. اسے مار ڈالا گیا اور اسے مارنے والوں میں سب سے بڑا ہاتھ اس کے دوستوں کا تھا. اچھے اور برے دونوں قسم کے دوستوں کا. برے دوستوں نے اس کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا اور اس کی دشمنی کے لیے اسے مل کر برباد کرتے رہے اور اچھے دوستوں نے اس سے کنارہ کشی اختیار کرکے مارڈالا. (حمید اختر)

          18 جنوری 1955 کو منٹو انتقال کر گیا ہے اور اسے میانی صاحب قبرستان میں دفن کردیا گیا. (یوسف ظفر) جی چاہتا ہے وہ کچھ اور جی لیتا. اسے کہانی کی ضرورت نہ سہی مگر کہانی کو اس کی ضرورت تھی. (یونس جاوید)