غزل
طاہرانجم صدیقی
دھندلائے ہوئے شیش نظارے میں نہیں تھا
کہہ دو کہ میں پلکوں کے ستارے میں نہیں تھا
سب لوگ مجھے اپنا بنانے پہ بضد تھے
میں ایک فقط تیرے اِجارے میں نہیں تھا
میں چونچ سے نکلا تو بڑی آگ پہ برسا
نمرود! کبھی تیرے شرارے میں نہیں تھا
اِک تم جو مِرے ساتھ کھڑے تھے دمِ آخر
"برباد بھی ہو کر مَیں خسارے میں نہیں تھا"
پھیلی ہیں غلط فہمیاں کس بات سے میری؟
اک لفظِ غلط بھی تِرے بارے میں نہیں تھا
ہم آج بھی اس حکم کے محکوم ہیں جاناں!
وہ حکم جو ابرو کے اشارے میں نہیں تھا
میں خوش ہوں نمو بن کے زمیں چیر رہا ہوں
پھٹ جائے کسی ایسے غبارے میں نہیں تھا
دعویٰ تو تھا جذبات سمو لینے کا لیکن
آرام کسی ایک بھی پارے میں نہیں تھا
اس وقت سے میں قیدِ سلاسِل کا ہوں عادی
جب میرا قدم وقت کے دھارے میں نہیں تھا
مٹّی پہ رہا، اُٹھ کے فلک چومنے نکلا
طاہرؔ میں کسی ٹوٹتے تارے میں نہیں تھا
عید الفطر کی آمد پر مسجد کی فریاد ضرور پڑھیں🔽
اے عیدالفطر! میں مسجد ہوں سن آواز تو میری