Translate ترجمہ

Sunday, April 23, 2023

نظم: مسجد کی فریاد

 مسجد کی فریاد

طاهر انجم صدیقی



اے عید الفطر ! میں مسجد ہوں، سن آواز تو میری

گیا رمضان ، تو آئی ، مسرت ساتھ میں لائی


تری آمد سے تو بستی میں یوں مسلم سبھی خوش ہیں

سبھی اطفال خوش ، بوڑھے بھی خوش اور نوجواں خوش ہیں


مگر آمد سے تیری میں بہت افسردہ خاطر ہوں !

غموں سے رورہی ہوں اور دکھ سے میں تڑپتی ہوں !


کہ جب تک تو نہ آئی تھی مرا رمضاں تھا اور میں تھی

نمازی کے قدم پا کر میں ہر دم شاد رہتی تھی !


اذانیں سن کے میری سمت کتنے لوگ آتے تھے! 

تلاوت کرتے جاتے تھے، نمازیں پڑھتے جاتے تھے! 


تری آمد سے پہلے ماہِ رمضان میں یہ حالت تھی

بہت ہی شاد رہتی تھی کہ میں آباد رہتی تھی


مگر تو نے تو آکر بحرِ غم میں ہے مجھے ڈالا

جو میں آبا رہتی تھی مجھے ویران کر ڈالا


نمازی اتنے کم آتے ہیں کہ دوصف کے لالے ہیں! 

کہاں رونق تھی مجھ میں اور کہاں مکڑی کے جالے ہیں! 


مسرت کا مری تو نے بتا کیوں قتل کر ڈالا ؟

کہ میں آبا د ر ہتی تھی مجھے ویران کر ڈالا


فقط اپنی خوشی کے واسطے ایسا کیا تو نے ؟

رہ مسجد سے مسلم کو ہے کیوں بھٹکا دیا تو نے ؟


تھا بہتر اس سے تیرے حق میں تو واپس چلی جاتی

صلہ اس کا تجھے ملتا خوشی بھی ڈھیر سی پاتی


مگر افسوس ! عید الفطر ! صد افسوس ! صد افسوس !

تری قسمت پر اور تقدیر مسلم پر ہے صد افسوس !


کہ میں ویراں رہوں گی جب تلک رمضاں نہ آئے گا

مسلمان فکر میں دنیا کی ، عقبٰی بھول جائے گا






نعت، حمد اور مناجات تینوں کا لطف ایک ہی کلام میں ضرور پڑھیں. 🔽
میں تری حمد لکھوں اور تو مجھے نعت سکھا 



Sunday, April 16, 2023

تجزیہ: بون سائی پر گفتگو

 *بون ۔ سائی*

افسانہ نگار: محمد یحییٰ جمیل

گفتگو: طاہرانجم صدیقی (مالیگاؤں) 





          بزمِ افسانہ کے توسط سے محمد یحییٰ جمیل کا بون سائی پڑھنے میں آیا. عنوان اپنی جانب راغب کرنے والا ہے. با معنی ہے اور افسانے کی روشنی میں اپنے علامتی مفہوم کو واضح بھی کررہا ہے.

          افسانے کی ابتدا دیکھیں:

        "مجھے باغبانی سے زیادہ دلچسپی نہیں ۔پھر بون -سائی پودوں کے بارے میں کیا جانتا؟ کل پرکاش سے معلوم ہوا کہ بون-سائی، چینی لفظ ’پین زائی‘ کا جاپانی تلفظ ہے۔ ’بون‘ یعنی ٹرے اور’ سائی‘ یعنی درخت۔"

           🔸بڑی خوبصورتی سے یحی' جمیل نے سائنسی معلومات کو مکالموں کے توسط سے افسانے کا حصہ بنا دیا ہے. یہاں یہ معلومات کسی مضمون کا ٹکڑا معلوم نہیں ہورہی ہے بلکہ افسانہ نگار کی فنکاری کے سبب افسانے کا حصہ بن گئی ہے.

           افسانے کے راوی کے پڑوس میں کرایہ دار کی حیثیت سے آنے والوں کے تذکرے کے ساتھ افسانہ آگے سرکتا ہے. اسی تذکرے میں ایک لیڈی پروفیسر کا بھی ذکر شامل ہے لیکن افسانے کا راوی بہت جلد افسانے کو اصل کہانی کی طرف یوں موڑ دیتا ہے. 

          *مہتاب کا ایسا مزاج ہوگا، ابا جی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پڑوسیوں نے پہلی بار ہمارے گھر سے اونچی آوازیں سنی تھیں۔ نوبیاہتا سہیلیوں سے سنے گئے رنگین قصوں نے مجھے بد ذوق اور خشک مزاج شوہر ثابت کیا تھا۔ بھرے پرے گھر میں ناز و نیاز کی گنجائش بھی کم تھی۔*

           🔸محمد یحی' جمیل نے کتنی خوبصورتی سے انسانی بون سائی، خواہشات کے بون سائی، چاہتوں کے بون سائی، سنہرے خوابوں کے بون سائی کو پیش کردیا ہے. بھرے پرے گھر میں نئی نویلی دلہن کے سنہرے خوابوں میں کتر بیونت کرکے بون سائی بنا کر گھر کے ٹرے میں سجانے پر جو نفسیاتی ردِ عمل سامنے آیا اسی بنیاد پر افسانہ کھڑا کر دیا ہے محمد یحی' جمیل  نے. 

          *ایک سال بعد مجھے دوسرے شہر میں ملازمت مل گئی۔ نئے شہر میں شفٹ ہوتے ہوئے سوچا تھا سال دو سال بعد واپس آجاؤں گا، لیکن وہ دن پھر کبھی نہیں آیا۔ میں یہیں ریٹایر ہوا۔*

           🔸راوی خود بھی بون سائی بن گیا ہے. وہ خود اپنی خواہشات اور چاہتوں میں کتربیونت کررہا ہے اور کھلی فضا میں آزادی سے زندگی گزارنے کی بجائے زندگی کے ایک چھوٹے سے ٹرے میں مقیّد ہوگیا ہے.

           بلکہ مہتاب کے تزکرے کے بعد افسانہ نگار کا یہ بیان بھی راوی کو رفتہ رفتہ بون سائی میں تبدیل ہوتے ہوئے دکھانے کے لیے کافی ہے. دیکھیں:

        "کچھ دوست بہت نالائق مل گئے۔ ویک اینڈ پر دیر رات تک بیٹھک ہوجاتی۔ مہتاب کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی۔ ایک مرتبہ تواس نے غصے میں اپنی نسیں کاٹنے کی کوشش تھی۔ پڑوس کی عورتوں سے میل جول کو ، جانے کیوں وہ عار سمجھتی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کی مرضی نے قانون کی شکل اختیار کر لی۔ امی، اباجی صرف دوچار دن کے لیے آئیں۔ بھائیوں سے تہواروں پر ملاقات کروں۔ بہن سال میں ایک بار آئے اور دو دن سے زیادہ نہ ٹھہرے۔ سال میں صرف عیدین پر دعوت ہو۔ ویکیشن پر کوئی نہ آئے۔دوست اگر آئیں تو طہارت خانہ ہرگز استعمال نہ کریں۔ ضروری کام سے جاؤں اور فوراً لوٹ آؤں۔ گھریلو کاموں میں بہر حال مدد کروں۔"

        ان تذکروں کے بعد بون سائی بنانے کے عمل کو بتانا اس افسانے کا اہم حصہ ہے. اس چھوٹے لیکن اہم حصے کے ذریعے افسانے کے کرداروں کی نفسیاتی کیفیات سمجھی جا سکتی ہیں. دیکھیں:

           ’’جس پودے کا بون سائی بنانا ہو اسے گملے سے نکال کر اس کی بڑی ڈالیاں کاٹ لیتے ہیں۔ جڑیں بھی کم کرتے ہیں۔ پھر اتھلے گملے میں کھاد اور مٹی کے ساتھ لگادیتے ہیں۔ اس کی غیر ضروری شاخوں اور پتوں کو کاٹتے رہنا ہوتا ہے۔ تاکہ اس کی لمبائی ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔‘‘

          🔸یہ صرف بون سائی پودوں کی بابت نہیں بتایا جارہا ہے بلکہ افسانہ نگار اپنے افسانے کے کرداروں کے ساتھ ہونے والے ہر قسم کے اس جبر کی طرف اشارہ ہے جو ان کی فطری جبلتوں اور فطری خواہشوں کے گملے سے نکال کر، بڑی ڈالی کاٹ کراس کی جڑیں کم کرکے، شاخوں اور پتوں کو بھی کتر ڈالا جاتا ہے اور گھر کے اتھلے گملے میں لگا کر اس بات کا خاص خیال رکھا جاتا ہے کہ ان کی خواہشیں بہت اونچائی تک سر نہ اٹھا پائیں اور ان کی فطری جبلتیں مخصوص حدوں کو پار نہ کرسکیں. ان ساری باتوں پر دھیان دینے کے ساتھ ساتھ اس بات کا کوئی خاص خیال نہیں رکھا جاتا کہ ان لوگوں کو مخصوص مراعات بھی دی جائیں. 

          فاضل افسانہ نگار نے اپنے افسانے کے اس اقتباس سے اپنے مرکزی خیال کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور وہ اس میں کامیاب ہیں.

          اس کے بعد وہ افسانے کے کلائمکس کی طرف تیزی سے مڑتے ہیں اور افسانے کے راوی کو بون سائی کے ساتھ جو عمل کرتے ہوئے دکھاتے ہیں وہ بھی پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے. دیکھیں:

         "میں نے بون-سائی کو اتھلے گملے سے نکالا اور زمین میں لگا دیا۔ مٹی برابر کرنے کے بعد اس پر پانی کا چھڑکاو کیا۔ ہلکی ہوا کے جھونکوں سے ننھانیم لہلہانے لگا تھا۔ جلد ہی یہ چھتنار ہوجائے گا۔"

         🔸یہ ہے فطری آزادی کی طرف راغب کرنے والا قدم. یہ ہے جیو اور جینے دو کے اصول پر چل کر اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کو گلزار کردینے کا پیغام جسے قاری تک پہنچانے میں یحی' جمیل کامیاب ہیں اور افسانہ بھی یہیں پر مکمل ہے. یہی افسانے کا کلائمکس بھی ہے اور خاصا اثردار ہے لیکن اس کے آگے بھی یحی' جمیل صاحب نے لکھا ہے اور میرے خیال سے انھیں نہیں لکھنا چاہئے تھا. آپ بھی دیکھیں:

           "اس کام سے فارغ ہوکر مجھے وہ ذہنی سکون میسر آیا جس کے لیے میں مدت سے ترس رہا تھا۔" 

        "یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ فطرت کا گلا گھونٹ کر اسے بونا بنادیں۔اسے تناور درخت کیوں بننے نہ دیا جائے؟ آخر درخت اسی لیے تو ہے کہ پرندے اس پر گھونسلے بنائیں، اس کی شاخوں پر چہچہائیں، اس کے نیچے بچے کھیلیں، اس کے پھل کھائیں، کیڑے مکوڑے بھی اس سے اپنی غذا حاصل کریں۔ وہ بیچارہ تو سب کے لیے مفید ہے، پھر سب کو محروم کر کے اپنی تسکین کے لیے اس پر ظلم کیوں؟بلکہ اپنی غرض کے لیے سب پر ظلم کیوں؟؟"

        افسانے کا مندرجہءبالا اقتباس ایک تقریر ہے جو افسانہ نگار یہ سوچ کر کرگئے ہیں کہ شاید قاری کو ان کا افسانہ سمجھ میں نہیں آیا ہو گا. جبکہ ایسا نہیں ہے. ان کا افسانہ اپنے کلائمکس سے ہی ساری باتیں سمجھا چکاہے. انھیں اس جانب دھیان دینا چاہئے تھا.

اگر کچھ الفاظ چبھ رہے ہوں تو

          "رکھیو غالبؔ مجھے اس تلخ نوائی میں معاف"


افسانہ : بون سائی از یحی' جمیل


 یہ افسانہ ناگپور یونیورسٹی میں ایم اے (اردو) چوتھے سیمسٹر، کے نصاب میں شامل ہے۔

 بون سائی

محمد یحییٰ جمیل





        مجھے باغبانی سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ پھر بون-سائی پودوں کے بارے میں کیا جانتا۔ کل پرکاش سے معلوم ہوا کہ بون-سائی، چینی لفظ ’پین زائی‘ کا جاپانی تلفظ ہے۔ ’بون‘ یعنی ٹرے اور’ سائی‘ یعنی درخت۔

’’پھر بون-سائی کہنا چاہیے، بون-سائی درخت نہیں؟‘ ‘

’’جس سے بات واضح ہوجائے وہ کہنا چاہیے۔‘‘ اس نے مسکراکر کہا۔ مجھے اس کی بات اچھی لگی۔ آخر زبان ہماری سہولت کے لیے ہے۔

        پرکاش سے چند روز قبل ہی میری دوستی ہوئی ہے۔ اس نے پڑوس کا بنگلہ کرایہ پر لیا ہے۔ وہ  اس کی بیوی اور تین سال کی بچی, چھوٹی سی فیملی ہے. اس بنگلے میں آنے والے ہر کرایہ دار سے میں دوستی کر لیتا ہوں۔ یوں زندگی کی یکسانیت کم ہوجاتی ہے۔ انصاری صاحب کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نے اس بنگلے کو کرایہ پر اٹھادیا ۔ اس کی بیوی کو امراوتی پسند نہیں اس لیے وہ ناگپور منتقل ہوگئے۔ وکیل ہے کہیں بھی پریکٹس کر سکتا ہے۔

        پچھلی مرتبہ یہاں ایک پروفیسر آگئی تھی, سنگل تھی. عمر کوئی پچاس پچپن کے بیچ رہی ہوگی۔ ہمیشہ ہلکے رنگ کی ساڑی پہنتی اور انتہائی باوقار لگتی۔ روز صبح لان میں کتاب لے کر بیٹھی ہوتی۔ اگراسے باہر نکلنے میں دیر ہوجاتی تو میں انتظار کرنے لگتا۔ شام میں کلاسیکل موسیقی کی آواز آتی. شاید ریاض بھی کرتی تھی. فنون لطیفہ سے محبت کرنے والے مجھے بہت پسند ہیں۔ باوجود اس کے میں نے اپنی دوستی ، دیدار تک محدود رکھی تھی۔ پسند اپنی جگہ, اس کی تنہائی پسندی کا احترام بھی ضروری تھا. 

         اُس کے جاتے ہی پرکاش یہاں آگیا، گویا نمبر لگائے بیٹھا تھا۔ عمر کے لمبے فرق کے باوجود وہ بہت جلد بے تکلف ہوگیا۔ ورنہ آج کے نوجوان ریٹایرڈ آدمی سے زیادہ بات کہاں کرتے ہیں؟ پھر وہ بیٹے ہی کیوں نا ہوں۔ خیر، پرکاش بہت اچھا لڑکا ہے۔ چند ہی ماہ کے لیے آیا ہے۔ اس کے گھر کا رِنوویشن مکمل ہوتے ہی وہ چلا جائے گا۔

’’آج کیوں دیر کردی؟‘‘ مہتاب نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔

’’ہاں، ذرا دیر ہوگئی، سوری۔ ‘‘ اور کیا جواب دیتا۔ پہلے دیا کرتا تھا اور اکثر توتو میں میں شروع ہوجاتی۔ پھر جواب دینا بند کردیا تو بھی بحث کی گنجائش نکل آتی۔ گفتگو کا یہ طرز ذرا دیر سے آیا تھا۔

’’کسی دوست کے گھر بیٹھ گئے ہوں گے، مجھے کیا بے وقوف سمجھتے ہیں…‘‘وہ بڑبڑائی۔

’’چاے بنادوں؟‘‘ میں نے اس کی بات ان سنی کرتے ہوئے پوچھا۔

’’ کل شکر کم ہوگئی تھی۔تین چمچے ڈالنا۔‘‘

        مہتاب پیاری پھوپھی کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ مجھ سے زیادہ، دونوں خاندانوں کے لیے یہ رشتہ اہم تھا، سو ہوگیا۔ مجھے بھی کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ خاندان، خوبصورتی، دینداری سبھی کچھ تو تھا۔ بات شروع ہوئی اور میں گھوڑی چڑھا دیا گیا۔ لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں والا تھرل ہی نہیں ملا۔ لیکن مہتاب کا ایسا مزاج ہوگا، ابا جی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پڑوسیوں نے پہلی بار ہمارے گھر سے اونچی آوازیں سنی تھیں۔ نوبیاہتا سہیلیوں سے سنے گئے رنگین قصوں نے مجھے بد ذوق اور خشک مزاج شوہر ثابت کیا تھا۔ بھرے پرے گھر میں ناز و نیاز کی گنجائش بھی کم تھی۔ ایک سال بعد مجھے دوسرے شہر میں ملازمت مل گئی۔ نئے شہر میں شفٹ ہوتے ہوئے سوچا تھا سال دو سال بعد واپس آجاؤں گا، لیکن وہ دن پھر کبھی نہیں آیا۔ میں یہیں ریٹایر ہوا۔

        نئے شہر میں بھی چین کہاں تھا۔ کچھ دوست بہت نالائق مل گئے۔ ویک اینڈ پر دیر رات تک بیٹھک ہوجاتی۔ مہتاب کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی۔ ایک مرتبہ تواس نے غصے میں اپنی نسیں کاٹنے کی کوشش تھی۔ پڑوس کی عورتوں سے میل جول کو ، جانے کیوں وہ عار سمجھتی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کی مرضی نے قانون کی شکل اختیار کر لی۔ امی، اباجی صرف دوچار دن کے لیے آئیں۔ بھائیوں سے تہواروں پر ملاقات کروں۔ بہن سال میں ایک بار آئے اور دو دن سے زیادہ نہ ٹھہرے۔ سال میں صرف عیدین پر دعوت ہو۔ ویکیشن پر کوئی نہ آئے۔دوست اگر آئیں تو طہارت خانہ ہرگز استعمال نہ کریں۔ ضروری کام سے جاؤں اور فوراً لوٹ آؤں۔ گھریلو کاموں میں بہر حال مدد کروں۔

’’کمر میں بہت تکلیف ہے۔‘‘جب میں نے اسے چاے کی پیالی پکڑائی تو وہ دھیرے سے بولی۔

’’ہوں....‘‘

’’اگر آپ کو ایسی تکلیف ہوتی تو پل بھر برداشت نہیں کر سکتے تھے۔‘‘

کاش کسی نے درد کی پیمائش کا آلہ ایجاد کرلیا ہوتا۔ مگر کیا تب بھی میں کچھ کر پاتا؟ عرق النسا کے درد نے میرا جینا وبال کر رکھا تھا لیکن خیر۔

’’کل ڈاکٹر کو دکھا دیں گے۔‘‘

’’آپ کا کل، جلدی نہیں آتا ۔‘‘

 برسوں پہلے میں نے مہتاب کو واکنگ کا مشورہ دیا تھا۔ پھر تین گھنٹے بری طرح پریشانی میں گذرے تھے ۔ وہ مجھے بتائے بغیر اپنی کزن کے گھر چلی گئی تھی، پیدل۔ یہ اچھا سبق تھا جو مجھے آج تک یاد ہے۔ اس لیے ہر تکلیف پر ڈاکٹر بہترین آپشن تھا۔ البتہ میں ہر شام گھومنے چلا جاتا ہوں۔ پرکاش کو بھی ایوننگ واک پسند ہے۔ کیا بات ہے!

’’اچھا پرکاش، بون- سائی کی قیمت کیا ہوتی ہے؟‘‘

’’ ڈپینڈ کرتا ہے، دو،ڈھائی ہزار سے ایک لاکھ تک۔ ‘‘

’’اور اسے بننے میں کتنا وقت لگتا ہے؟‘‘

’’کسی دن نرسری آئیے، آپ کو بون-سائی کے بارے میں تفصیل سے بتاؤں گا۔‘‘

’’ضرور۔‘‘ مہتاب اگر اپنے بھائی کے گھر جائے تو موقعہ مل سکتا تھا۔ ایسے تو ممکن نہیں۔ مگر وہ پہلے بھی اپنے گھر بہت کم جایا کرتی تھی۔ پیاری پھوپھی کے انتقال کے بعد تو اس کا میکا ہی ختم ہوگیا۔ بھائی کے گھر بمشکل جاتی ہے۔ اس کی بھابھی نہیں چاہتی کہ یہ سواری وہاں اترے۔ بھائی خود نالاں ہو تو پھر بھابھی کا کیا کہنا۔

’’کل چلیں؟‘‘پرکاش نے پوچھا۔

’’ارے نہیں، بتاؤں گا تمھیں۔‘‘میں نے بات ٹال دی۔

رات کے کھانے پر میں نے پرکاش کی تعریف کی تو مہتاب کو بہت ناگوار گذرا۔

’’اب آپ نے اسے پیچھے لگا لیا؟‘‘

اسے ڈر تھا کہ کہیں میں اسے کھانے پر نہ بلالوں۔ حالانکہ کسی دوست کو کھانے پر بلائے زمانہ بیت چکا تھا۔ اب تو کوئی دوست بھول کر بھی نہیں آتا۔ اس لیے عرصہ سے چاے بھی نہیں پلائی تھی ۔ اس شہر میں شفٹ ہونے کے بعد جب میں پہلی بار گھر گیا تو امی نے کہا تھا، تیرے جانے کے بعد ایک لیٹر دودھ کم کردینا پڑا۔ میرے دوست بہت تھے اور ان کی آمد سے انھیں خوشی ہی ہوتی تھی۔ خود بھی بہت سوشل تھیں۔ اللہ درجات بلند کرے۔

        پھر جس دن پینشن لینے بینک جانا تھا میں پرکاش کی نرسری پہنچ گیا۔ اس دن دیر بھی ہوجائے تو مہتاب خاموش رہتی ۔ پرکاش بہت خوش ہوا۔ سارا کام چھوڑ کر مجھے گھماتا رہا۔ پھر بون-سائی درختوں کے پاس پہنچ کر بولا، ’’ہمارے یہاں، پیپل، املی، نیم، فائی کس، بوگن ویلا، برگد، گل مہر، سنترا، آم وغیرہ کے بون سائی بنائے جاتے ہیں۔‘‘

’’بون-سائی بنتے کیسے ہیں؟‘‘

’’ جس پودے کا بون سائی بنانا ہو اسے گملے سے نکال کر اس کی بڑی ڈالیاں کاٹ لیتے ہیں۔ جڑیں بھی کم کرتے ہیں۔ پھر اتھلے گملے میں کھاد اور مٹی کے ساتھ لگادیتے ہیں۔ اس کی غیر ضروری شاخوں اور پتوں کو کاٹتے رہنا ہوتا ہے۔ تاکہ اس کی لمبائی ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔‘‘

’’اس کی کھاداسپیشل ہوتی ہے؟‘‘

’’نہیں، وہی عام کھاد ڈالی جاتی ہے ۔ فائی کس اور پیپل کے لیے کھاد کے ساتھ مٹی کی جگہ باریک کرش ملایا جاتاہے۔‘‘

’’دو سے تین سال بعد بون-سائی کا گملا بدلنا پڑتاہے۔‘‘

’’ہوں… دیکھو، کچھ سیدھے ہیں کچھ ذرا ترچھے، بالکل عام درختوں کی طرح۔‘‘

وہ ہنسا اور بولا، ’’یہ بھی ہماری کاریگری ہے۔‘‘

’’اچھا!‘‘

’’المونیم کے تاروں سے ڈالیوں کو اپنی مرضی کے مطابق شکل دیتے ہیں۔ اس طرح دیڑھ دو سال میں بون سائی کی ابتدائی صورت بن جاتی ہے۔ یہ دیکھیے، یہ سیدھے تنے والا بون-سائی ہے اسے Formal Upright کہتے ہیں. Informal Upright  میں اس کا تنا ٹیڑھا رکھا جاتا ہے. پہاڑوں پر تیز ہوا کی وجہ سے درخت جھک جاتے ہیں اس طرح کا لک دینے کے لیے Slanting Upright کیا جاتا ہے۔  Forest کا لک دینے کے لیے ایک برتن میں چار پانچ بون- سائی اگائے جاتے ہیں۔ یہ بون سائی بالکل جنگل کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ ‘‘

’’یعنی کوئی چاہے تو جنگل خرید کر لے جائے۔‘‘

’’شوق سے…‘‘

 میں نے پرکاش کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر شعر پڑھا:

’’کر علاجِ وحشت دل چارہ گر

لا دے اک جنگل مجھے بازار سے‘‘

وہ مسکرا کر میری جانب دیکھتا رہا۔

’’اردو کے بہت بڑے شاعر ہوئے ہیں، مومن خاں مومن۔ ان کا شعرہے!‘‘ میں بولا۔

’’ میں دوسری لائن سمجھا۔‘‘

’’کیا سمجھے؟‘‘

’’ مومن صاحب کو یہ گفٹ کیا جاسکتا ہے ۔‘‘ ہم دونوں دیر تک ہنستے رہے۔

آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ میں نے رومال سے آنکھیں صاف کیں، اور کافی پی کر گھر کے لیے نکل پڑا۔

        پھر ایک دن پرکاش بھی چلا گیا۔ لیکن جانے سے پہلے اس نے مجھے نیم کا ایک بون-سائی تحفہ میں دیا۔ نہایت قیمتی گملے والا۔ بہت پیارا ۔ میں نے اسے مومن کا شعر فریم کرکے دے دیا۔ وہ بہت خوش ہوا۔ میں نے بون -سائی بالکونی میں رکھ دیا۔ بنگلے کی جانب تاکہ اس کے ساتھ پرکاش کی یاد تازہ رہے۔

        اس دن جب سونے کے لیے لیٹا تو نیند آنکھوں سے غائب تھی۔ دیر تک جاگتا رہا۔ نومبر کا مہینہ تھا۔ ہوا میں ٹھنڈک بڑھ گئی تھی۔ میں نے مہتاب کو دیکھا، وہ گہری نیند میں تھی۔ میں آہستہ سے اٹھا اور بون-سائی کے سامنے جا بیٹھا۔ یہ بون-سائی نیم، گاؤں والے نیم کے درخت سے کتنا ملتا جلتا ہے۔ نچلی شاخ تو بالکل ویسی ہے۔ اس بون- سائی کے نیچے چند بچے کھیل رہے تھے۔

میں نے چشمہ اتار دیا اور غور سے دیکھنے لگا۔ اوہ، یہ تو میں اور میرے چھوٹے بھائی ہیں۔ منّی نمبولیاں جمع کررہی ہے۔ گھر کے آنگن میں وہ اِن کی دُکان لگائے گی۔اس نے سنہری رنگ کا شلوار کرتا پہنا ہے۔ آنکھوں میں بڑا سا کاجل لگا ہے۔ اس کے کتھیا بال، لال رنگ کے ربن سے بندھے ہیں۔ میں شاخ پر چڑھا اور کود گیا۔ ’آہ…‘میری چیخ نکل گئی۔ میرے پیر میں کانچ کا ٹکڑا چبھ گیاہے۔ دونوں بھائی دوڑ کر آئے۔ ایک نے میرا پیر اپنی گود میں رکھ لیا۔ خون سے اس کا قمیص سرخ ہونے لگا ہے۔ دوسرا کانچ کا ٹکڑا نکالنے کی کوشش کررہاہے۔ منی رو رہی ہے۔ ’’بھیا آپ کو بہت درد ہورہا ہوگا نا؟‘‘

’’نہیں.... تو رو مت۔‘‘

’’بھیا، آپ سے ملے دو سال ہوگئے۔ آپ کی بہت یاد آرہی ہے۔‘‘ وہ بولی۔

میں نے اس کے آنسو پونچھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور میری انگلیاں بون-سائی کے تنے کو چھو گئیں. پھر میں تیزی سے بون-سائی لے کر گھر کے آنگن میں چلا گیا۔ اب گڑھا کرنے کے لیے کسی چیز کی ضرورت تھی۔ اسٹور میں سلاخ مل گئی۔ کچھ ہی دیر میں بالشت بھر کا گڑھا ہوگیا۔ میں نے بون-سائی کو اتھلے گملے سے نکالا اور زمین میں لگا دیا۔ مٹی برابر کرنے کے بعد اس پر پانی کا چھڑکاو کیا۔ ہلکی ہوا کے جھونکوں سے ننھا نیم لہلہانے لگا تھا۔ جلد ہی یہ چھتنار ہوجائے گا۔ اس کام سے فارغ ہوکر مجھے وہ ذہنی سکون میسر آیا جس کے لیے میں مدت سے تڑپ رہا تھا۔

        یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ فطرت کا گلا گھونٹ کر اسے بونا بنادیں۔اسے تناور درخت کیوں بننے نہ دیا جائے؟ آخر درخت اسی لیے تو ہے کہ پرندے اس پر گھونسلے بنائیں، اس کی شاخوں پر چہچہائیں، اس کے نیچے بچے کھیلیں، اس کے پھل کھائیں، کیڑے مکوڑے بھی اس سے اپنی غذا حاصل کریں۔ وہ بیچارہ تو سب کے لیے مفید ہے، پھر سب کو محروم کر کے اپنی تسکین کے لیے اس پر ظلم کیوں؟ بلکہ اپنی غرض کے لیے سب پر ظلم کیوں؟؟

🌳 ختم شد