Translate ترجمہ

Tuesday, January 03, 2023

مضمون: ایک پیریڈ کا اسٹوڈنٹ

 مختار یونس سر کے شعری مجموعے کے اجرا میں پڑھا گیا مضمون




*ایک پیریڈ کا اسٹوڈنٹ*

طاہر انجم صدیقی ( مالیگاؤں) 


          انسانی ذہن بھولنا چاہے تو ورلڈ ٹریڈ سینٹرجیسےحادثے کو بھی چٹکیوں میں اڑا دیتا ہے اور یاد رکھنا چاہے تو بیچارے اخترانصاری یوں پریشان ہوجاتے ہیں:
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
بعض مرتبہ یہی حافظہ ایسی باتیں سامنے لے آتا ہے کہ طبیعت ہری ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوتا ہے۔  مختار یونس سر کا نام سن کر ذہن کے کسی گوشے سے ایک مسکراہٹ سر اٹھا کر لبوں تک چلی آتی ہے اور ذہن و دل کی فضا کو محترم کر دیتی ہے لیکن اس فضا میں سبزی ترکاری کاٹنے والی ایک شمشیربھی چمکنے لگتی ہے۔
           اس شمشیرکے بے نیام ہونے کا قصہ یہ ہے کہ میں مالیگاؤں ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کی بارہویں جماعت کے طالبِ علم کی حیثیت اپنے آخری دنوں کو گن رہا تھا کہ میرے اندر کے شاعر نے اپنی کلاس کے تمام لوگوں کے ناموں کو ایک نظم میں استعمال کر ڈالا۔ وہ نظم میں نے مختار یونس سر کو دکھائی۔  ان کا پہلا سوال بحر سمجھنےسےمتعلق تھا۔  پھر انہوں نےکچھ اشعار پڑھے اور کہا۔
           "بحر تو ٹھیک ہے اور اس میں تم نے لڑکوں کا نام استعمال کیا ہے ان کی تو کوئی بات نہیں لیکن لڑکیوں کا نام کیوں استعمال کیا ہے؟"
          میں سوچنے لگا کہ کیا کہوں؟ بلکہ مجھے کیا کہنا چاہئے؟ سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا لیکن سامنے تھے مختار یونس سر!  فوراً سوال بدل گئے۔
         " تم نے اس نظم کو کیوں لکھا ہے؟"
         میرے پاس اس سوال کا بھی جواب تیارنہیں تھا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ مختار یونس سر نے سوال بدلنے کی ہیٹ ٹرک کرڈالی۔
         "کیا اسے اخبار میں شائع کرنا ہے؟ اگر ایسا کیا تو لڑکیوں کے گھر والے اس پر اعتراض کرسکتے ہیں۔ تب تم کیا کرو گے؟"
         میں نے کہا۔
         "نہیں سر! اس کو اخبار میں چھپانا نہیں ہے بلکہ میں اس نظم کا زیراکس کرکے اپنی کلاس میں بانٹ دوں گا۔"
        مختار سرمسکرانے لگے اور انہوں نے کہا۔
       " بیٹا! قلم تلوار ہے۔  اس سے سبزی ترکاری کاٹنے کا کام نہیں لینا چاہئے۔"
       یقین جانیں کہ مختار یونس سر کے اس جملے نے قلم کی اہمیت کو مجھ پر یوں اجاگر کرکیا کہ میں نے ان سے اپنی نظم واپس لے لی۔  میرے یار دوست اس نظم کو مانگتے رہ گئے مگر میں نے اس کا زیراکس تک کسی کو نہیں دیا اور اس نظم سے یوں دستبردار ہوا کہ اب وہ نظم خود میرے اپنے پاس بھی محفوظ نہیں۔
          مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مختار یونس سر جب ہماری کلاس میں پہلی مرتبہ آئے تھے تب میں سولہ برس کی بالی عمر کو سلام کرنے کے قابل ہو چکا تھا۔
اونچے قد کے ساتھ ان کے خیالات کا قد بھی ذرا نکلتا ہوا ہی تھا۔ اللہ نے ان کو صحت اچھی دی تھی اور وہ گفتگو بھی بڑی صحت مند کیا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو سے یقینی طور پر آس پاس کے لوگوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہوں گے کیونکہ سنا ہے کہ ہنسنے مسکرانے سے زندگی اور صحت کے علاوہ صرف حاسدین پر ہی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ان سے متاثر ہونے کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ جب مجھے مختار یونس سر کے مزحیہ کلام کے مجموعہ کے اجرا کی تقریب میں اپنے تاثرات کے اظہار کے لئے کہا گیا تو قلمی طور پر بونا ہونے کے باوجود بھی میں نے انکار نہیں کیا۔سبب تھے مختار یونس سر۔
یقین جانیں کہ انہوں نے ہم لوگوں کو بارہوں جماعت میں صرف ایک سبق ’’لکھنو کا چِہلُم‘‘ ہی پڑھایا تھا۔ میں دوسروں کی بات نہیں کرتا لیکن آج بھی مجھ کو ان کے پڑھانے کا اسٹائل،پڑھنے کا انداز،سمجھانے کا ہنر اور بچوں میں سمجھ لینے کی امنگ بھر دینے کا فن یاد آتا ہے۔
ہم لوگوں کو اردو کا مضمون عبدالحلیم کاردار سر پڑھایا کرتے تھے لیکن’’ لکھنو کا چہلم‘‘ آتے ہی انہوں نے اوراق پلٹنے کا حکم دے دیا۔ کچھ لوگ پریشان ہوگئے اور کچھ خوش لیکن کچھ ہی دنوں بعدعبدالحلیم کاردار سر کی جگہ مختار یونس سرکی کلاس میں آمد سے یہ پریشانی دور اور خوشی کافور ہو گئی۔
سر نے آتے ہی کہا۔
’’جو صاحبِ کتاب ہیں وہ کتاب نکالیں اور جن کے پاس کتاب نہیں ہے وہ اہلِ کتاب سے استفادہ کریں۔‘‘
سر کی اس بات کوکچھ لوگ سمجھ گئے اور جو نہیں سمجھے وہ سمجھا دئیے گئے۔
ادھر ادھر کی باتوں کے بعد مختار یونس سر نے ہم میں سے ایک کو اردو کی کتاب سے ’’لکھنو کا چہلم‘‘ پڑھنے کو کہا۔
اس نے پڑھنا شروع کیا۔
’’لکھنو کا چَہلَم‘‘
سر نے فوراً ٹوکا ۔
’’چَہلَم نہیں چِہلُم پڑھو‘‘
وہ کسی پڑھنے والے کوکہیں پر بھی روک کر اس سے آگے کسی کو بھی پڑھنے کو کہتے رہے اور غلط پڑھنے پر کلاس کو مزاح بھرے جملوں سے زعفران زار کرتے رہے۔
ایک نے جیسے ہی لفظ اِمام کو اَمام پڑھا مختار یونس سر کی رگِ ظرافت پھڑک اٹھی۔انہوں نے فوراً کہا۔
’’رُکو! او اَمام !ایسے اَمام کے پیچھے نماز بھی حرام۔ یہ لفظ اِمام ہے اِمام ۔‘‘
ایک نے لفظ ’’دُلدُل‘‘ کو ’’دَلدَل‘‘ پڑھ دیا تو مختار یونس سر نے اپنا رنگِ شوخیانہ یوں ظاہر کیا ۔
’’ارے بیٹا! یہ کربلا کے دُلدُل کو کس دَلدَل میں پھنسانے کا ارادہ ہے؟
ایک نے’’ انوپ اَنجن‘‘ کو’’انوپ اِن جن‘‘ پڑھا تو سر نےٹوکا کہ ’’ایسے اِنجن والی ٹرین کامنزل تک پہنچنا مشکل ہے۔
ہماری کلاس کےاس ارجنٹائنا دورہ کے درمیان مختار یونس سر نے کلاس میں بیٹھے ہوشیار،کم ہوشیارسبھی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جیسے کبڈی کا کوئی دھاکڑ کھلاڑی جب مخالف خیمے میں پہنچتا ہے تو ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ہر کوئی الرٹ اور اٹینشن والے موڈ میں دکھائی دیتا ہے۔وہی حال ہماری کلاس کا تھا۔
اس کے بعد مختار یونس سر نے"لکھنو کا چہلم" خود پڑھنا شروع کیا۔ پہلے ہی جملے میں موجود "گھٹا ٹوپ اندھیرا‘‘ کو انہوں نے اس انداز سے پڑھا کہ سن کر محسوس ہوتا تھا کہ یہ اندھیرا ہمارے اطراف پھیلا ہوا ہے. 
مختار یونس سر نے اپنے مخصوص انداز سے اس سبق کو کچھ یوں پڑھا کہ آج ستائیس سال گزر جانے کے باوجود بھی مجھے وہ یاد ہیں۔ ان کے پڑھنے کا انداز یاد ہے۔ ان کے پڑھانے کا طریقہ یاد ہے۔ کاش! وہ آج حیات ہوتے تو دیکھتے کہ ان کے ایک پیریڈ کے اسٹوڈنٹ نے قلم کی تلوار سے سبزی ترکاری تو نہیں کاٹ ڈالی؟
میں عتیق شعبان سر کو مختار یونس سر کے مزاحیہ کلام کی تالیف پر مبارکباددینےکے بعدیہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ان کی مزاحیہ نثر کی اشاعت کی بھی کوئی سبیل نکالیں تاکہ اردو دنیا ان کے مزاح سے لطف اندوز ہو، مالیگاؤں کے حوالے سے مزاح کا یہ محترم نام پہچانے اور 
ان کے فن کا اعتراف کرے۔



 Read this also:👇


 


خاکہ: ایک حقیقی شاعر: فرحان دلؔ

ایک حقیقی شاعر : فرحان دل

ازقلم: طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں 




          فرحان دل صرف دیکھنے میں ہی شاعر نظر نہیں آتے بلکہ وہ حقیقتاً شاعر ہیں. وہ نہ صرف شاعر ہیں بلکہ بڑے غضب کے شاعر ہیں. شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری کے قدردانوں میں اچھے اچھوں کے نام آتے ہیں. میں نے تو بہت سارے ایسے لوگوں کو بھی فرحان کے تعلق سے گفتگو کرتے ہوئے سنا ہے جو مالیگاؤں کی شاعری کو دوسرے درجے کی چیز سمجھتے ہیں. فرحان دل کی ایک شناخت یہ بھی ہے کہ وہ جس طرح نکلتے قدوقامت کے ہیں ان کا کلام بھی انہی کی طرح ذرا نکلتا ہوا ہی ہوتا ہے.

          خاص طور پر ان کی طویل ترین غزلیں اور نظمیں پڑھنے سے تعلق رکھتی ہیں. وہ اپنے کلام کو مشاعروں میں بھلے ہی اس ڈرامائی انداز میں پیش نہیں کر پاتے جتنا لوگ کر لیا کرتے ہیں لیکن کاغذ پر شائع ہونے والے ان کے کلام پر پڑھنے والے سر ضرور دھنتے ہیں.

          شاید یہی وجہ ہے کہ نثر نگاری کی صلاحیت رکھنے والے فرحان دل کو جب نثری انجمنوں میں خاطر خواہ پذیرائی ہوتی نظر نہیں آئی تو انہوں نے نثری پروگراموں سے اجتناب کرنا شروع کردیا.

         وہ آج کل شاعری کا ایک واٹس اپ گروپ دبستانِ سخن چلا رہے ہیں جس میں روزانہ ایک مصرعہ دیا جاتا ہے اور اس مصرعہ پر گروپ میں شامل اراکین اور ایڈمن کی جانب سے فی البدیہہ اشعار موزوں کیے جاتے ہیں. اگر شعر میں کوئی سقم ہو، بحر میں کوئی نقص ہو یا لفظوں کا غلط استعمال ہوا ہو تو دوستانہ ماحول میں اس پر گفتگو کی جاتی ہے.

          فرحان دل نہ صرف خود اپنا وضع کردہ مصرعہ دیتے ہیں بلکہ دوسرے شعرائے کرام کے مصرعوں کو بھی ان کے نام اور بحر و ردیف و قافیہ کی وضاحت کے ساتھ دبستانِ سخن میں پیش کرتے ہیں. 

راقم کو بھی اس گروپ کا رکن ہونے کا اعزاز حاصل ہے.

          یہی وجہ ہے کہ اس موقع پر میں یہ بات کہہ دینا چاہتا ہوں کہ جس شاعر پر متشاعر ہونے کا شک ہو اسے اس گروپ میں شامل کردیں.

          فرحان دل کے دبستانِ سخن میں اس کی ساری قلعی کھُل جائے گی کیونکہ وہاں فرحان دل جیسے سچے شاعر، شکیل میواتی جیسے پکّے شاعر، شکیل انجم جیسے اچھے شاعر کی موجودگی میں اسے کچھ نہ کچھ تو کہنا ہی پڑے گا اور جیسے ہی وہ کچھ کہے گا، خود اس کی اور دوسرے لوگوں کی سمجھ میں آجائے گا کہ وہ کتنا بڑا فنکار ہے؟

          فرحان دل فیبریکشنر بھی ہیں. ناولٹی فیبریکشن کی اپنی شاپ سے رزقِ حلال کشید کرتے تھے. لفظوں کو جوڑ جوڑ اشعار کی شکل دینے والے اس شاعر نے کبھی سوچا بھی نہیں ہوگا کہ اسے لوہے، اینگل اور پتھروں کو توڑ جوڑ کر کھڑکی، دروازے، ٹیبل، اسٹول اور دیگر چیزیں بنانی پڑیں گی. 

          اس کام سے پہلے فرحان ریڈیم کٹنگ کے ذریعے لوگوں کی گاڑیوں کو خوبصورت عطا کیا کرتے تھے نیز وہ موبائل لیمیشن کا کام بھی نہایت خوبصورتی سے کیا کرتے تھے. 

          اگر آپ کسی سچے فنکار سے ملنا چاہتے ہیں تو ایک مرتبہ فرحان دل سے ضرور ملاقات کریں. یقینا آپ کو ان سے مل کر دلی مسرت کا احساس ہوگا اور آپ ان کے اشعار پر داد دیئے بغیر نہیں رہ سکیں گے. 

          حالانکہ راقم آج کل اپنے احباب کے ساتھ کوشش میں ہے کہ فرحان دل کو نثری انجمنوں سے بھی مربوط کیا جائے کیونکہ میں نے ان کی ان بیاضوں کو دیکھا ہے جن پر افسانے تو افسانے، ناولٹ اور طنزومزاح پر مشتمل مضامین بھی موجود ہیں لیکن ان کی یہ صلاحیتیں عوام و خواص دونوں کی نظروں سے مخفی ہیں. 

          اگر ہم لوگ کامیاب ہوگئے تو یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ مستقبل میں ایک اچھے شاعر کے علاوہ ایک اچھے نثرنگار کا استقبال مالیگاؤں کا اردو ادب کرسکتا ہے اور یہ استقبال ہونا ہی چاہئے.


یہ تحریر بھی آپ کے ذوقِ مطالعہ کی داد چاہتی ہے. 🔽

ایک انسان فنکار: احمد عثمانی



 



Sunday, January 01, 2023

نظم : گیا سال وہ، یہ نیا سال ہے

 نیا سال

(طاہرانجم صدیقی) 





گیا سال وہ یہ نیا سال ہے 

ہمارا ابھی تک برا حال ہے 

گرانی ابھی بھی ہے بازار میں 

مسائل سبھی کے ہیں گھر بار میں 

کہیں فکر لوگوں کو چولہے کی ہے 

کہیں فکر ورثے کی ، حصے کی ہے 

کہیں فکر دال اور آٹے کی ہے 

کہیں فکر بزنس میں گھاٹے کی ہے 

کہیں فکر پالک ، بجا لے کی ہے 

کہیں فکر رنگیں اجالے کی ہے 

کہیں فکر اسکولی بستے کی ہے 

کہیں فکر با دام و پستے کی ہے

کہیں لوڈ شیڈنگ پر حیرتیں 

کہیں پر ہیں مزدوروں سے نفرتیں 

کہیں پر تو راکیل ملتا نہیں 

کہیں پر بنا اے سی چلتا نہیں 

کہیں بند راشن کا ہے کچھ ملال 

کہیں ہوتے جاتے ہیں مر غے حلال 

کہیں پر ہے گھر پٹی بڑھنے کا غم

کہیں پر حویلی بھی پڑتی ہے کم 

کہیں ترسیں بڑھ جانے کو اجرتیں 

کہیں غم نہیں بڑ ھنے سے قیمتیں

کوئی بھٹکے ہے نوکری کے لئے 

کو ئی تڑ پے ہے لیڈری کےلئے 

کوئی غمزدہ سب گنوا دینے پر

کوئی خوش ہے دو لت کما لینے پر 

کوئی ہے پریشان بیماری سے 

کوئی خوش ہے اپنی زمیں داری سے 

کہیں بچے کی فیس کا ہے خیال 

کہیں ٹیکس کو ما ر لینے کی چال 

کہیں فکر ہے چھت ٹپک جا نے کی 

کہیں فکر بلڈنگ بنوا نے کی 

غرض کہ جد ھر دیکھو حیرانیاں 

جہاں پر بھی دیکھو پریشانیاں 

ہیں باقی مسائل گئے سال کے

نئے ہیں مسائل نئے سال کے



اس حمد سے صَرفِ نظری نہ کریں. نوازش ہوگی. 🔽