Translate ترجمہ

Thursday, September 28, 2023

نعتِ رحمت اللعالمین : طاہر انجم صدیقی

 نعتِ رحمت اللعالمین ﷺ

(برزمینِ میرؔ) 

طاہرانجم صدیقی 

مورخہ 24 ستمبر 2023، بوقت : (09:55)


گر حبِ نبی سے کبھو سرشار نہ ہووے

ڈرتا ہوں کہ بیڑا ہی تِرا پار نہ ہووے


ممکن نہیں، ممکن نہیں، ممکن ہی نہیں ہے

مومن ہو ولے طیبہ کا بیمار نہ ہووے 


طیبہ کی  گلی، کوچوں میں پھرتے ہی رہیں ہم

اور اپنا کوئی قافلہ سالار نہ ہووے


'اس واسطے تڑپوں ہوں' کہ طیبہ ہے بہت دور

اور خوف ہے آ جاؤں تو تکرار نہ ہووے


ہو مجھ کو عطا ذکرِ محمدﷺ کا وظیفہ

اور شرط ہو اس میں کوئی اتوار نہ ہووے


اڑ کر ہی چلا آؤں ولے زور نہیں کچھ

حامی بھی پرندوں کی کوئی ڈار نہ ہووے


محشر میں چھُپا کر مجھے چادر میں کہیں وہ

"یا رب! کِسو کو اس سے سروکار نہ ہووے"


طیبہ کا بلاوا ہو تو کچھ ایسا بلاوا

حائل مرے رستے میں بھی دیوار نہ ہووے


اِک تیر چلے ان کی نگاہوں کا اِدھر بھی

آجائے بسے دل میں جگر پار نہ ہووے


جب نعت لکھوں رب کی رضا، اُن کی رضا ہو

مقصد تو کبھی درہم و دینار نہ ہووے


اے کاش! بھٹک جاؤں مدینے کی گلی میں

ویزا بھی نہ ہو پاس میں، "آدھار" نہ ہووے


محشر کی تپش میں بھلا جائیں گے کہاں ہم؟ 

گر اُن کی شفاعت کبھو چھتنار نہ ہووے


بولیں وہ فرشتوں سے ذرا دیکھ تو آؤ! 

گر نعت کِسو دن کِسو پرکار نہ ہووے


کیا بات ہو! کیا لطف ہو! کیا ہو گا مقدّر!

ہو اُن کا کرم اور خدا قہّار نہ ہووے


کشتی بھی ہو اور بحرِ کرم جوش میں ہو خوب

ہاتھوں میں ہمارے کوئی پتوار نہ ہووے


اے کاش وہ دن آوے کہ وہ خواب میں آویں

طاہرؔ کبھو اس خواب سے بیدار نہ ہووے


طاہرؔ کو خدا نعت کا تو میرؔ بنا دے

غزلیں یہ سنا کر کبھو اسٹار نہ ہووے

Thursday, August 24, 2023

غزل: نئے اجالوں کے جلتے چراغ روندے گئے







غزل

طاہرانجم صدیقی 




"نئے اجالوں کے جلتے چراغ روندے گئے"
مری قبا پہ ستاروں کے داغ روندے گئے

 کرو نہ تذکرہ سورج کا تم اندھیروں میں
اسی خطا پہ تو روشن دماغ روندے گئے

ہوا تھا یوں کہ اندھیروں پہ احتجاج کیا
ہوا یوں چاند ستاروں کے باغ روندے گئے

حرام کردی گئی روشنی اندھیروں پر
طلوعِ صبح کے سارے سراغ روندے گئے

جلے چراغ لویں کاٹ دیں زمانے نے
بجھے چراغ بنامِ فراغ روندے گئے

انڈیلنے کو چلے روشنی مناظر میں
صراحی چھِن گئی طاہرؔایاغ روندے گئے

Friday, July 28, 2023

سلامِ نور

 نور ہوں سردار جس کے ایسی جنّت پر سلام

(طاہرؔ انجم صدیقی ، مالیگاؤں) 


نور نوری پشت پر، سجدے کی وسعت پر سلام
نور کی گردن پہ بوسے کی سعادت پر سلام

نور کے کانوں میں جو گھولیں اذانیں نور نے
اس اذانِ نور اور نوری سماعت پر سلام

نور آئے، نور سے بولے چُنیں بس ایک نور
نور کی خاطر جو دی بیٹے کی رخصت پر سلام 

اہلِ بیتِ نور کا جس میں ہے نوری تذکرہ
ہاں اسی قرآن کی نورانی آیت پر سلام

نور کا کہنا کہ یہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں
نور کے الفاظ پر، نورانی عظمت پر سلام

نور کعبے سے ملا اک دو نہیں پچیس بار
نور کے پیدل سفر، نوری ریاضت پر سلام

کیا اندھیروں کے خطوط آئے اُجالا چل پڑا! 
ظلم کے ہاتھوں نہ کی تھی، نوری بیعت پر سلام

مقتدی جو کھا گئیں، تاریکیاں افسوس کن
نور اکیلا بچ گیا، نوری امامت پر سلام

نور کے ساتھی بہتّر، سب پہ امّت کا درود
نور والے قافلے، نوری قیادت پر سلام

نور نے جانیں نچھاور کی ہیں دینِ نور پر
نور سے جو پائی اس نوری سخاوت پر سلام

نور اکیلا ڈٹ گیا تھا کہہ اٹھے گا کارزار
جو ملی تھی نور سے اس نوری جرأت پر سلام

کانپ اٹھّے دشمنانِ نور نوری خوف سے
ذوالفقارِ نور کی دوشاخہ ہیبت پر سلام

نور نے خود ہی سکھائی تھی جو اپنے نور کو
اس نمازِ عشق میں سجدے کی حالت پر سلام

آفریں ہر اک رکوع اور سجدے پر صد آفریں 
جو نہ پوری ہو سکی اس نوری رکعت پر سلام

نور کے حصے لکھی تھی کربلا کی ریت پر
جس پہ نازاں ہو شہادت اس شہادت پر سلام

نوجواناں اترائیں گے جنّت میں طاہرؔ دیکھنا
نور ہوں سردار جس کے ایسی جنّت پر سلام