Translate ترجمہ

Tuesday, July 11, 2023

میں نے آنکھوں میں اس کی دیکھا ہے: غزل

غزل

طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں




میں نے آنکھوں میں اس کی دیکھا ہے

اک ستارہ سا جھلملاتا ہے


کیسا غم تھا؟ اٹھائے پھرتا تھا

ابر اب ٹوٹ کر جو برسا ہے


ہائے بیچارگی سمندر کی

چپ ہے اور وسعتوں میں پھیلا ہے


آؤ! پھر ایڑیاں رگڑتے ہیں

پھر سے دریا غرور کرتا ہے


پھر سے باتیں تمہاری کرتا ہوں

پھر غزل کہنے کا ارادہ ہے


آ ! سمندر سے پوچھ لیتے ہیں

کیا یہ آنکھوں سے تیری گہرا ہے؟


ایسی ویرانیاں بھی کیا دل میں؟ 

دشت، حیرت سے مجھ کو تکتا ہے


ہم عداوت کو جانتے ہی نہیں 

اپنا مسلک تو دوستی کا ہے


خواب آنکھوں میں کوئی جاگا تھا

رت جگوں کا عذاب اترا یے


"ناامیدی ہے کفر" جب سوچو

کوئی جگنو چمکنے لگتا ہے



Read this Naat please🔽
درِ نبی کا یہ اعزاز مجھ کو پانے دو


درِ نبیﷺ کا یہ اعزاز مجھ کو پانے دو (نعت)

حافظ اسماعیل یار علویؔ صاحب کے مصرعے پر

طرحی نعتِ پاک

(طاہرانجم صدیقی) 





 درِ نبیﷺ کا یہ اعزاز مجھ کو پانے دو
"مری اجل کو بصد شوق آج آنے دو"

رکو! رکو! تو ذرا پیارے قافلے والو! 
مجھے بھی ساتھ میں اپنے مدینے آنے دو

چلو! چلو! درِ رحمت ہے وا مدینے میں
شفاعت آپﷺ کے در سے مجھے بھی پانے دو

کہو! کہو! مجھے دیوانۂ نبیﷺ لیکن
درِ رسول ﷺ سے مجھ کو سند تو پانے دو

ہٹو! ہٹو! نظر آیا ہے گنبدِ خضری'
مری نگاہ کو معراج اس کی پانے دو

گرو گرو! درِ اقدس پہ تم تڑپ کے گرو!
نصیب اوجِ ثریّا پہ آج جانے دو

جہاں جہاں پہ پڑے پاؤں میرے آقاﷺ کے
وہاں کی مٹی مجھے چوم چوم آنے دو

پڑھو! پڑھو! مرے ساتھ اب درودیں تم بھی خوب
خدا کی ہے یہ جو سنّت مجھے نبھانے دو

لکھو لکھو! مرے حصے میں نیکیاں لکھّو!
فرشتو! نعتِ نبیﷺ مجھ کو گنگنانے دو

کِھلو! کھِلو! گلو! گلشن میں شوق سے لیکن
گلِ مدینہ کی اک پنکھڑی تو لانے دو

کھُلا! کھُلا! مرے عصیاں کا ہائے رے دفتر!
حضورﷺ! آپ کی کملی میں منہ چھپانے دو 

اٹھوں! اٹھوں! تو یوں عشقِ نبیﷺ میں طاہرؔ میں
کہ آپ ﷺ دیکھیں، فرشتوں سے کہہ دیں "جانے دو!" 


اس غزل کا ہر شعر مطعع ہے. ضرور پڑھیں. 🔽


Friday, July 07, 2023

 *غزل*

(طاہر انجم صدیقی) 


کرے تو کیا کرے سوچو یہ خاکسارِ دشت؟

"نظر اٹھانے نہیں دیتا روزگارِ دشت"


میں روندنا ہی نہیں چاہتا وقارِ دشت

قدم کو چومنے بے چین ہے قطارِ دشت


کچھ احتیاط بھی رکھتا ہے ہوشیارِ دشت

تب اس کے سامنے بے بس ہے اختیارِ دشت 


نہ پوچھ دشت نوردوں سے تو خمارِ دشت

ہمیشہ دیکھ یوں ہی بیٹھ کر غبارِ دشت


بُلائے کھول کے بانہیں سدا حصارِ دشت

مجھے بھی چین کہاں لینے دے خمارِ دشت


چلا ہے جوش میں طاہرؔ جو شہ سوارِ دشت

شکایتیں نہ کرے اس سے اِخْتِصارِ دشت


خدا ہی جانے ہے کیوں کر وہ سوگوارِ دشت

بنائے بیٹھا ہے آنکھوں کو آبشارِ دشت


کبھی اسے سبھی کہتے تھے ہائے! یارِ دشت

وہ سر جھکائے ہوئے گزرا شرم سارِ دشت


کھُلا تمام ہی سمتوں سے ہے دیارِ دشت

کوئی تو مجنوں ہو لیلی' کا پھر سے یارِ دشت


تمہارے ساتھ ہوا تھا کوئی قرارِ دشت؟ 

!جو ساتھ لے کے چلے آئے یادگارِ دشت


کہیں ملے جو تمہیں عشق درکنارِ دشت

سلام کہنا ہمارا ہو گر مزارِ دشت


لٹا رہا ہے خوشی سے کوئی غبارِ دشت

ہے میرے پاس مداوائے خلفشارِ دشت


ہمارے آنے سے تم دیکھو حالِ زارِ دشت

وہ اور ہوں گے جو بن جاتے ہیں شکارِ دشت


یہ آبلے ہیں یا طاہرؔ کوئی نگارِ دشت

یا دستِ دشت کا ہے کوئی شاہکارِ دشت


Read this please🔽

بس ذرا دیر ہی کرلینا گوارا ہم کو