Translate ترجمہ

Friday, March 24, 2023

پُنّے میاں (مزاح) از: طاہر انجم صدیقی

انشائیہ 

 پُنّے میاں

ازقلم: طاہر انجم صدیقی




          پُنّے میاں عمر کی چوتھی دہائی کو پار کر چکے ہیں. ان کا قد ساڑھے تین فٹ ہی ہے. ان کو دیکھ کرسوچا جا سکتا ہے کہ اپنی ماں کا یہ سپوت جب پالنے کا پوت رہا ہوگا تو اس کے پاؤں پالنے میں کیسے نظر آئے ہوں گے؟ صرف پاؤں ہی کیا دیکھنے والی آنکھ کو ہاتھ بھی سجھائی نہیں دیتا ہوگا۔ یہ بیچارے ہتھیلی بھر کی جسامت کے ساتھ دنیا میں وارد جو ہوئے تھے. 

          ممتا کی ماری ماں بیچاری! جب کاجل لگانا چاہتی ہوگی تو پُنّے میاں کی ناک کالی ہوجاتی ہوگی۔ ناک سے کترا کر نکلتے نکلتے ہونٹوں کی شامت آجاتی ہوگی۔ ہونٹوں کو بچاتے بچاتے محاروۃً نہیں بلکہ عملاً ان کا منہ کالا ہوجاتا ہوگا۔ منہ دھلانے کے چکر میں ان کی مکمل والدہ ء محترمہ گھن چکر بن جاتی ہوں گی۔ (مکمل اس لئے کہ وہ قد کاٹھی میں ٹھیک ٹھاک تھیں) وہ سوچتی ہوں گی کہ اپنے جان سے پیارے بے بی کو سنبھالیں یا جانسن بے بی سوپ کو؟ کیونکہ سوپ حجم میں یقیناً پُنّے میاں کے سر سے تھوڑا بڑا ہی دکھائی دیتا ہوگا۔

        حالانکہ پُنّے میاں پیدائشی طور پُنّے نہیں تھے. بالکل ننھّے سے تھے مگر جوانی کے جوش اور بڑبڑاتے ہوئے پُر جوش رہنے کے وبال نے انھیں پُنّے میاں بنا ڈالا۔ پھیکو، بکواسی اور مسٹر تفصّل حسین جیسے القابات تو انھیں لڑکپن کی دہلیز پار کرتے ہی عطا کئے جا چکے تھے. البتہ پُنّے میاں ان کی ذات سے یوں چمٹ کر رہ گیا جیسے کنجوس اپنے مال سے زندگی بھر چمٹا رہتا ہے۔ وجہ تسمیہ وہ خود تھے۔

وہ اپنی ہر بات میں "اپُن نے ایسا کیا، اپُن نے ویسا کیا، اپُن نے ایسا بولااور اپُن نے ویسا بولا، اپن اِدھر گیا ،اپن اُدھر گیا جیسی شکلوں میں اپُن نے، اپُن نے" کا استعمال اتنی کثرت سے کرتے تھے کہ لوگ باگ انھیں " پُنّے میاں" ہی کہنے لگ گئے۔ طرہ یہ کہ ’’پُنّے میاں‘‘ ان سے یوں گھُل مِل گیا جیسے ان دونوں کی ٹوپیاں اور لنگوٹیاں ایک ساتھ سِلی اور دُھلی گئیں ہوں۔

          اسی ’’پُنّے میاں‘‘ نام کے سبب کئی جگہوں سے ان کی شادی کا ہونے والارشتہ اٹوٹ ہونے سے قبل ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگیا مگر ’’پُنّے میاں‘‘ ان کی شادی کے کارڈ تک ان کا تعاقب کرتا رہا اورشادی کارڈ پر مسلمانوں کی طرح فوری اتی کرمن کر بیٹھا۔ غالباً یہی وجہ تھی کہ شبِِ زفاف کے دوسرے روز ملاقات ہوتے ہی پُنِّے میاں نے خوشی خوشی بتایا تھا کہ ان کی دولہن یعنی پُنّی بیگم ان سے "پنّے میاں" کا مطلب اور وجہ تسمیہ جاننا چاہ رہی تھی۔ 

شبِ زفاف سے یاد آیا کہ پُنّے میاں دولہوں کی دنیا کے اکلوتے سامع تھے جنہوں نے اس رات کی اونچ نیچ کے بارے میں مناظرے کرنے تک کے دعوے کئے تھے لیکن جب وہ خود گھوڑی چڑھے تو اسی اونچ نیچ سمجھانے والے دوست سے انہوں نے مکرر ارشاد فرمایا اور پوری سنجیدگی سے فرمایا تھا۔ حالانکہ جب بعد میں یار دوستوں تک یہ خبر پہنچا دی گئی تو پُنّے میاں یوں جُل دینے کی کوشش کرنے لگے۔ 

"اماں نہیں یار! وہ تو اپُن مٗذاق کررہا تھا بھائی سے۔ "

          پُنّے میاں کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ وہ قد سے بھلے ہی بونے ہیں مگر پسند امیتابھ بچن کو کرتے ہیں اور اسی قد کی مناسبت سے اتنی ہی لمبی لمبی چھوڑتے بھی ہیں۔ 

        ایک مرتبہ بیٹھے بیٹھے بتانے لگے کہ جب وہ اسکول پڑھتے تھے تواپنی سائیکل کو ایک طرف اتنا ترچھا کرکے چلاتے تھے کہ پیڈل زمین سے جا لگتا تھا اور سائیکل ٹائروں کی بجائےرِنگ پر چلاکرتی تھی۔دوستوں میں سے ایک نے کہا کہ سائیکل تھوڑی سے سیدھی کرلو پُنّے میاں!مگر وہ ہتھے سے ہی اکھڑ گئے۔

"کیوں سیدھی کروں بھلا۔ اپُن نے سائیکل ایسے ہی چلائی ہے مطلب چلائی ہے بس۔ تمہارے باپ کا کیاجاتا ہے؟"

ایک ساتھی نے ان کا جملہ ختم ہوتے ہی ان کی تائید کردی۔

"ارے بھئی مانتے کیوں نہیں! وہ سائیکل اتنی ہی ٹیڑھی چلاتے تھے۔ بس اس کا ٹیوب ٹائر نکال لیتے تھے تبھی تو وہ رِنگ پر چلا کرتی تھی۔"

  ایک مرتبہ پُنّے میاں کے دوستوں کے ساتھ شہر سے دور نکلے۔ ان کے دوست ٹکہ تلنے کے لئے چولہے کی آگ سلگانے کا جتن کرنے لگے۔ ہوا برابر ان کی کوششوں پر پانی پھیرتی رہی۔ وہ جس سمت سے بھی چولہے کو بچانا چاہتے ہوا اسی سمت سے چولہے پر حملہ آور ہوجاتی۔ اللہ اللہ کرکے چولہے کی لکڑیوں نے آگ پکڑی ہی تھی کہ پُنّے میاں نے ایک بڑی سی لکڑی چولہے میں ٹھونس دی۔ آگ پکڑتی لکڑیوں نے وہ دھواں دھار احتجاج کیا کہ ان کے یار دوست ہتھے سے اکھڑ گئے۔ نتیجتہً ان کو وہ ڈانٹ پلائی گئی کہ پُنّے میاں کو لذید ترین ٹکہ بھی منہ بسور بسور کر ہی کھانا پڑا۔

         ایک مرتبہ یہی پُنّے میاں تھے جب ایک ہل اسٹیشن کے تفریحی سفر پر انھیں منرل واٹر کی چار پانچ بوتلیں لانے کو کہا گیا تھا۔ انھیں بوتلوں کی خرید کے لئے رقم جان بوجھ کر نہیں دی گئی تھی۔ موسم چونکہ گرم تھا اس لئےدوستوں کی طرف سےہدایت کی گئی کہ ذرا پانی ٹھنڈا دیکھ کر لانا۔ پانی تھوڑا کم ٹھنڈا رہے تو بھی چلے گا ۔لیکن گرم پانی مت لانا۔ آٹھ لوگوں سے بھری گاڑی میں جب وہ داخل ہوئے تو گاڑی آگے بڑھنے لگی لیکن ان کے ہاتھ میں پانی کی صرف ایک ہی بوتل دیکھ کر ایک دوست فوراً پوچھ بیٹھا۔

          "یہ کیا یار پُنّے! صرف ایک ہی بوتل؟ اتنا لمبا سفر ہے۔ ہم آٹھ لوگ ہیں اور موسم اتنا گرم ہے۔"

پُنّے میاں فوراً دلیل دینے لگے۔

          "ارے یار ! یہی ایک بوتل تھی ۔ اس لئے ایک ہی لے آیا۔"

          ان کی بات پر کسی کو بھی یقین نہیں آیا کہ شدید گرمی میں اتنی بڑی دوکان پر پانی کی صرف ایک ہی بوتل ہو۔

          "ایسا تو نہیں ہوسکتا یارپُنّے!"

          "یعنی میں جھوٹ بول رہا ہوں؟ چلو چل کر پوچھ لو۔"

            پُنّے میاں کویقین تھا کہ یاردوست ہیں یقین کرلیں گے؟ مگر وہ یہ بھول گیے تھے کہ وہ پُنّے میاں کے دوست تھے. گاڑی چلانے والےدوست نے فوراً سے پیشتر ہی گاڑی کو یوٹرن دے دیا ۔وہ یو ٹرن اتنی صفائی سے لیا گیا تھا کہ آج تک اس ڈرائیور دوست کو اس کے لئے داد دی جاتی ہے۔

یوٹرن کے ساتھ ساتھ پُنّے میاں کی زبان بھی اِدھر اُدھر ٹرن لینے کی کوشش کرنے لگی۔

" ارے نہیں یار ! میرا مطلب تھا.......وہ دوکان والا........مطلب کہ موسم کی وجہ....... دراصل یہی........."

          پُنّے میاں کی زبان رکنے سے پہلے ہی گاڑی اسی دوکان پر واپس جا رکی. وہ بولتے رہے۔ اپنی فطرت کے مطابق پُنّے میاں کی زبان سرعتِ الفاظ کا شکار رہی۔ ان کے ہاتھوں کی حرکت میں برکت ہوتی گئی اور اس سے کہیں زیادہ تیزی سے ان کےچہرے پر جغرافیائی تبدیلیاں بھی نظر آنے لگیں۔ 

"ارے یار ! میرا مطلب تھا کہ پانی کی بوتل ختم۔۔۔۔۔۔ مطلب تھا کہ دوکان والے ۔۔۔۔۔۔میں کہنا یہ چاہ رہا تھا کہ دوکان والے نے ابھی ابھی فریزر میں پانی کی بوتلیں ڈالی ہیں۔"

ڈرائیور دوست نے اندر بیٹھے بیٹھے ہی دوکان دار سے ہانک لگا کر پوچھ لیا۔

"ٹھنڈے پانی کی کتنی بوتل ہے بھائی؟"

"ہے نا بھائی صاحب! آپ جتنی کہو دے دوں۔"

           گاڑی کی چھت اگر کمزور ہوتی تو یقیناً دوستوں کے قہقہوں سے اڑ ہی جاتی۔ پُنّے میاں پُنّے میاں جھینپے اورہاتھ پاؤں ڈھیلے کرکے بیٹھ گئے۔ انہوں نےتھوڑی دیر کے لئے چپ پیر کا روزہ رکھ لیا لیکن دوستوں میں کانا پھوسی اور کھی کھی جاری رہی۔

(ختم شد) 




Thursday, March 16, 2023

ہزل: کب دو گے ہمیں صاحب! آرام خدا جانے؟

 ہزل

طاہر انجم صدیقی 




کب دو گے ہمیں صاحب! آرام خدا جانے؟ 

کیوں ہم سے نکلتے ہیں سو کام خدا جانے؟


لگتے ہو میاں تم بھی ہم کو تو چچا چھکّن

"آغاز قیامت ہے، انجام خدا جانے"


لاحول پڑھا کرتے ہیں تم کو جو سنتے ہیں

کیوں خود کو سمجھتے ہو خیّامؔ خدا جانے؟ 


اِک ذہن کی تیزی کو سنتے ہیں میاں بدّھو

کھا جاتے ہیں کتنے ہی بادام خدا جانے؟ 


رشوت کو ہمیشہ ہی سودھان رہے پولس

کب دے گا خدا ان کو وِشرام خدا جانے؟ 


ستّر کی خزاؤں نے سب جھاڑ دئیے پتّے

کیوں بن کے نکلتے ہیں گلفام خدا جانے؟ 


اِک شعر اُڑایا تھا دی اس کو خبر کس نے؟ 

کس درجہ مچائے گا کہرام خدا جانے؟ 


ہیں جھرّیاں چہرے پہ کہہ دوں تو برا مانیں

آئینہ دکھانے کا انجام خدا جانے


اشعار خدا جس پر آسان کرے اس کو

کیوں دیں متشاعر کا وہ نام خدا جانے؟ 


بیلن بھی ہے، چمچے بھی سب پاس رکھے طاہرؔ

ڈھائیں گی قیامت کیا مادام! خدا جانے؟



 یہ کلام بھی آپ کے ذوق کی داد چاہتا ہے. 🔽

ہم نے دنیا میں لہو رنگ تماشا دیکھا


Sunday, March 12, 2023

غزل : ہم نے دنیا میں لہو رنگ تماشا دیکھا

*مکمل طرحی غزل*

طاہرؔ انجم صدیقی




ہم نے دنیا میں لہو رنگ تماشا دیکھا

اپنی آنکھوں سے وہی خونِ تمنّا دیکھا


کِرمَکِ ظلمتِ شب نے جہاں آنکھیں کھولیں

کہکشاں، چاند، ستاروں کا بکھرنا دیکھا


شب کہانی میں عجب موڑ لیے آئی تھی

چشمِ حیرت نے چراعوں کا پھڑکنا دیکھا


ہائے مشتاق رہا وہ بھی اجالوں کا بہت

قتل سورج کا کیا اور اندھیرا دیکھا


آخرش! بن کے اٹھے ہم ہی بہاروں کے نقیب

زرد پتّوں کا بہت دیر تماشا دیکھا


نسخۂ عشق کیا شوق سے تالیف مگر

نام کا اپنے ورق اس نے ہی سادہ دیکھا


اپنے ہاتھوں پہ اٹھا لائے وہ سورج لیکن

گھور اندھیروں کا وہی رنگ پرانا دیکھا


پھر شبِ تار مقدّر میں لکھی جائے گی

پھر فصیلوں پہ چراغوں کا تھرکنا دیکھا


عشق میں اُس کو سنورنا رہا جب بھی طاہرؔ

"اس نے آئینہ اٹھا کر مرا چہرہ دیکھا"


یہ کلام بھی ضرور پڑھیں: 🔽

یا خدا دل سے مرے ساری انا کم کردے