*مکمل طرحی غزل*
طاہرؔ انجم صدیقی
ہم نے دنیا میں لہو رنگ تماشا دیکھا
اپنی آنکھوں سے وہی خونِ تمنّا دیکھا
کِرمَکِ ظلمتِ شب نے جہاں آنکھیں کھولیں
کہکشاں، چاند، ستاروں کا بکھرنا دیکھا
شب کہانی میں عجب موڑ لیے آئی تھی
چشمِ حیرت نے چراعوں کا پھڑکنا دیکھا
ہائے مشتاق رہا وہ بھی اجالوں کا بہت
قتل سورج کا کیا اور اندھیرا دیکھا
آخرش! بن کے اٹھے ہم ہی بہاروں کے نقیب
زرد پتّوں کا بہت دیر تماشا دیکھا
نسخۂ عشق کیا شوق سے تالیف مگر
نام کا اپنے ورق اس نے ہی سادہ دیکھا
اپنے ہاتھوں پہ اٹھا لائے وہ سورج لیکن
گھور اندھیروں کا وہی رنگ پرانا دیکھا
پھر شبِ تار مقدّر میں لکھی جائے گی
پھر فصیلوں پہ چراغوں کا تھرکنا دیکھا
عشق میں اُس کو سنورنا رہا جب بھی طاہرؔ
"اس نے آئینہ اٹھا کر مرا چہرہ دیکھا"
یہ کلام بھی ضرور پڑھیں: 🔽
یا خدا دل سے مرے ساری انا کم کردے