Translate ترجمہ

Wednesday, January 25, 2023

تجزیہ : "کڑوا تیل" پر گفتگو. افسانہ نگار: غضنفر

 کڑوا تیل

افسانہ نگار: غضنفر

گفتگو: طاہر انجم صدیقی( مالیگاؤں) 



          جب"کڑوا تیل" پڑھنا شروع کیا تو میں سوچ میں پڑگیا کہ"غضنفرصاحب کا نام اردو ادب کا اتنا بڑا نام ہے اور وہ افسانے کے نام پر بچوں کی کہانیوں کی سی باتیں افسانے کے نام پر کیوں پیش کررہے ہیں؟ میں نے اپنے ادبی بچپن سے جس نام کو اردو افسانے کے حوالے سے دیکھا ہے، اس نام سے کولہو کے بیل کی کہانی کیوں پیش کی گئی ہے؟
           مگر جب افسانے کا مطالعہ پورا ہوگیا تومجھے اپنے اندر سے ایک آواز سی اٹھتی محسوس ہوئی ۔
"طاہر! تم ابھی بچّے ہ ہو۔ شاید تمہارے ادبی دودھ کے دانت ابھی ابھی ٹوٹے ہیں !" 
         اور مجھے کہنا پڑا کہ کیا کہانی بُنی ہے جناب غضنفر نے!! 
         بیانیہ چست، جزویات نگاری کمال کی، مکالمے بالکل فطری، منظر نگاری بہترین، جذبات نگاری کا بھی جواب نہیں۔ تکنیک سادہ بیانیہ کی سی لیکن فلیش بیک اور فلیش فارورڈ دونوں عوامل ساتھ لئے ہوئے۔ کردار نگاری ایسی کہ داد دینی ہی پڑے اور کلائمکس ایسا کہ افسانہ ختم ہوا تو کولہو کے بیل سے ہمدردی کے جذبات دل کے اندر زندہ ملے۔ 
         جب غضنفر صاحب "کڑواتیل" میں ایک مکالمہ لکھتے ہیں :
         " اس گھانی کے بعد آپ کی باری آئے گی۔"
تو وہ افسانے کے راوی کو بھی اس ظلم میں شریک کر لیتے ہیں جو کولہو سے جتے بیل پر کیا جا رہا ہے اورافسانے کا ذیل کا جملہ پوری طاقت کے ساتھ ظلم کرنے کی طرف اشارہ کرتا ہے:
       "کولہو کسی پائیدار لکڑی کا بنا ہوا تھا۔"
افسانے میں ظلم و جبر کے تسلسل کی طرف بھی واضح اشارہ موجود ہے۔دیکھیں:
          "بیل جس دائرے میں گھوم رہا تھا اس دائرے کا فرش دبا ہوا تھا ۔کمرے کے باقی فرش کے مقابلے میں اس حصے کی زمین کی سطح نیچی ہو گئی تھی ۔"
          افسانے میں کولہو کے دائرے کی زمین کا نیچے دب جانا اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ بیل کو سونٹے کے جبر سےاس حصے پر اتنی مرتبہ چلنے پر مجبور کیا گیا ہے کہ ہے کہ وہ زمین باقی زمینوں کے مقابلے میں نیچے دب گئی ہے۔
          یہاں پر ایک خاص بات کی طرف دھیان جاتا ہے کہ غضنفر صاحب کے پاس جزویات نگاری کا فن بھی کمال کا ہے۔ وہ جزویات نگاری کے لئے بہت سارے الفاظ خرچ نہیں کرتے بلکہ کم سے کم لفظوں میں اپنی بات بھی کہہ جاتے ہیں ۔ اس بات کا ثبوت "کڑوا تیل " کے ان مقامات سے یکجا کیا جا سکتا ہے جہاں وہ کولہو، کولہو کے بیل ، کولہو سےنکلنے والے تیل ، کولہو کے لئے تیار کئے جانے والے نوجوان بیل اور کولہو کے باہر کی دنیا کی تفصیلات بیان کرتے ہیں۔تفصیلات کیا ہیں ؟ ایسا لگتا ہے جیسے وہ قاری کے ذہن کے اسکرین پر لفظوں سےمتحرک تصاویر بناتے چلے جارہے ہیں۔ ایک مثال دیکھیں:
          "کولہو کسی پائیدار لکڑی کا بنا تھا اور کمرے کے بیچوں بیچ کچے فرش میں بڑی کاری گری اورمضبوطی کے ساتھ گڑا تھا۔ کولہو کی پکی ہوئی پائدار لکڑی تیل پی کر اور بھی پک گئی تھی اور کسی سیاہی آمیز سرخ پتھر کی طرح دمک رہی تھی۔
          اس کا منہ اوکھلی کی طرح کھلا ہوا تھا۔منہ کے اندر سے اوپر کی جانب موسل کی مانند ایک گول مٹول ڈندا نکلا ہوا تھا جس کے اوپری سرے سے جوئے کا ایک سرا جڑا تھا۔جوئے کا دوسرا سرا بیل کے کندھے سے بندھا تھا جسے بیل کھینچتا ہوا ایک دائرے میں گھوم رہا تھا۔
بیل جس دائرے میں گھوم رہا تھا اس دائرے کا فرش دبا ہوا تھا ۔کمرے کے باقی فرش کے مقابلے میں اس حصے کی زمین کی سطح نیچی ہو گئی تھی ۔"
          میں نے خود کبھی کولہو اور اس میں جتے بیل کو گھومتے نہیں دیکھا لیکن افسانے کے اس حصے کو پڑھ لینے کے بعد یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کولہو اب میرے لئے کسی اجنبی چیز کا نام بھی نہیں ہے ۔ یہ غضنفر صاحب کی جزویات نگاری کا کمال ہے۔اس قسم کی خوبصورت جزویات نگاری سے افسانہ "کڑواتیل"سجا ہوا ہے جس پر سر دھنتے ہی بنتا ہے اور غضنفر صاحب کے فن کے لئے بیساختہ داددینے کو دل چاہتا ہے.
          "کڑواتیل" میں ایک جگہ لکھا ہے:
          "دانے ڈنڈے سے دب کر چپٹے ہوتے جارہے تھے۔"
          غضنفر صاحب یہاں صرف دانوں کو ہی کچلتا ہوا نہیں بتانا چاہتے ہیں بلکہ یہاں تو وہ بیل کی آزادی، بیل کے حقوق، بیل کی خواہشات کے کچلے جانے کی تڑپ ظاہر کرنا چاہتے ہیں اور ان دبے کچلے دانوں سے بوند بوند ٹپکنے والا تیل اُس مظلوم بیل سے اپنا مفاد کشید کرلینے والوں کی طرف واضح کرتا ہے۔
          "کڑوا تیل"کا راوی جب کہانی بیان کرتے ہوئے کہتا ہے :
          "لہراتی ہوئی پٹیاں میری آنکھوں پر بندھ گئیں۔"
تو اس کا یہ بیان صرف بیان نہیں ہے بلکہ مظلوم سےایک قسم کی ہمدردی کا احساس ہے۔ یہ احساس افسانے میں کئی بہانوں سے اجاگر کیا ہے۔ راوی کا بیل کی آنکھوں پر پٹی باندھنے کا سبب پوچھنا، شاہ جی سے تیل نکلنے کے بعد بچ رہنے والے کَھل کو بیل کو کھِلانے کے بارے میں پوچھنا اور پھر بیل کی کمزوری کا اظہار کرکے اسے ریٹائرڈ کرنے کو کہنا افسانے میں اسی ہمدردی کا اظہار ہے جس کے لئے افسانہ بُنا گیا ہے۔
            یہ تو ہوا اس سادی سی کہانی کا معاملہ جو کولہو کے بیل کو مرکز کرکے لکھی ہے۔ اگر ہم اس سے کوئی اور مطلب اخذ نہ بھی کریں تب بھی غضنفر صاحب کے فن کی داد دینی ہی پڑے گی لیکن جب یہی کہانی اپنی علامات کو آشکار کرتی ہے تو پھر دل کہتا ہے شاید اسی لئے غضنفر صاحب کا نام اردو فکشن کے لئے ایک معیار کا نام ہے۔
            "کڑوا تیل" کا مرکزی کردار بیل لاغر ہو چکا ہے۔اس کی آنکھوں پر پٹیاں بندھی ہوئی ہیں۔ ناک میں نکیل پڑی ہے۔ منہ پر جاب چڑھا ہے۔ بیل جوئے سے بندھا کولہو کے دائرے میں گھوم رہا ہے۔ کبھی اس کا پیر لڑکھڑا جائے تو شاہ جی کا سونٹا لہراتا ہوا سڑاک سڑاک اس کی پیٹھ پر آپڑتا ہے۔ بیل اپنی تلملاہٹ اور لڑکھڑاہٹ دونوں پر تیزی سے قابو پاکر اسی مخصوص دائرے میں گھومنے لگتا ہے۔
            اس افسانے کوپڑھنے کے بعد مجھے یوں محسوس ہوا جیسے وہ کولہو کا بیل خود میں ہوں جس کو استعمال کرتے ہوئے میرے اپنے خاندان کے لوگ زندگی سے عرق کشید رہے ہیں اور میری آنکھوں پر فرض کی پٹیاں کسی ہوئی ہیں۔ میرے منہ پر ادب و احترام کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ میری ناک میں روایات کی نکیل پڑی ہوئی ہے اور میں سماج میں ہونے والی بدنامی کے سونٹے کی "سڑاک سڑاک" سے خوفزدہ ہو کر کولہو کے بیل کی طرح مخصوص دائرے میں گھوم رہا ہوں جس کے فرش پر کسی چاک کو رکھ کر طاقت کے ساتھ نیچے دبا دیا گیا ہو۔ یعنی گھر سے فیکٹری اور فیکٹری سے گھر۔
            پھر مجھے محسوس ہوا کہ نہیں نہیں یہ تو میرا سیٹھ ہے جو زندگی کا عرق نکالنے کے لئے اپنے کولہو میں مجھے جوتے ہوئے ہے۔ میری آنکھوں پر ضرورت کی پٹی بندھی ہے۔ منہ پر مصلحت کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ ناک میں خاندانی  روایات کی نکیل پڑی ہوئی ہے۔ مستقبل کی فکر کے سونٹے سڑاک سڑاک" میری پیٹھ پر پڑتے ہیں اور میں لوہے کی مشینوں کے گرد ضروریاتِ زندگی کا تیل کشید کرنے کے لئے گھوم رہا ہوں۔ اس تیل سے تو مجھے ایک بوند بھی نہیں ملنے والی۔ نہ ہی بچ رہنے والی کَھل میرے حصے میں آنے والی ہے۔
            پھر دل نے کہا نہیں ایسا بھی نہیں بلکہ یہ تو ہماری قوم کے ملّا ہیں جو اپنے کولہو میں ہمیں جوت کر زندگی سے عرق کشید کرنا چاہتے ہیں اور ہم اعتقاد کی پٹی آنکھوں پر باندھے، احترام کا جاب منہ پر چڑھائے، جہنم کے عذاب کے خوف کی نکیل ناک میں ڈالے، ان کی خانقاہوں سے جتے ان کے بتائے گئے گھیروں میں گھوم رہے ہیں۔ ہمارے نذرانوں کا تیل کشید ہو رہا ہے۔ہمارے پیٹھ پربددعاؤں کے سونٹے لہرا رہے ہیں اور ہم گھومتے جارہے ہیں۔
            پھر محسوس ہوا کہ نہیں یہ تو ہمارے سیاسی لیڈران یا حکمراں ہیں جو اپنے کولہو میں ہماری پوری قوم کو جوتے ہوئے ہیں۔ قوم کی آنکھوں پر ڈر اور خوف کی پٹی بندھی ہوئی ہے۔ منہ پر نقصان کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ ناک میں سرکاری فیصلوں کی نکیل ہے اور ہم ان کی گندی سیاست کے کولہو سے جتےاس دائرے میں گھوم رہے ہیں جسے انہوں نے اپنے سیاسی مفاد کے لئے کھینچ رکھا ہے۔ اگر ہم ذرا سا بھی ڈگمگاتے ہیں تو ہماری پیٹھ پر ان کی چالبازیوں کے سونٹے قہر بن کر ٹوٹ پڑتے ہیں۔
            پھر محسوس ہوا کہ غضنفر صاحب نے اس افسانے میں محض ایک کولہو کے بیل کی کہانی نہیں بیان کی ہے بلکہ یہ کہانی تو اقوامِ متحدہ کی کہانی ہے جو اپنے مفادات کا عرق کشید کرنے کے لئے دنیا کے زیادہ تر ممالک کو اپنے کولہو میں جوتے ہوئے ہے۔ ان کی آنکھوں پر دھمکیوں کی پٹیاں بندھی ہوئی ہے۔ ان کے منہ پر اقتصادیات کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ ناک میں ملک کی سلامتی کی نکیل پڑی ہوئی ہے۔ منہ پر قرضہ جات کا جاب چڑھا ہوا ہے۔ مستقبل کی فکر سے بندھے تمام ممالک اقوامِ متحدہ کے کولہو سے جتے ہوئے ہیں اور خوب گاڑھا گاڑھا تیل کشید ہوکر ڈالرس کی قدر میں اضافہ کرتا جارہا ہے۔ کوئی ملک اگر عراق کی طرح بدکتا ہے تو پابندیوں کے سونٹے سڑاک سڑاک اس کی پیٹھ پر پڑنے لگتے ہیں۔ افغانستان کی طرح کولہو کے دائرے سے باہر نکلنا چاہتا ہے تو اس کی پیٹھ پر افواج کی گنیں، میزائل اور بم سونٹےبن کر سڑاک سڑاک  پڑنے لگتے ہیں اور کولہو سے جتے ممالک کولہو کے دائرے میں گھوم رہے ہیں۔ خواہ انھیں کھَل ملے یا نہ ملے۔
          اس لئے نہ ہی میں اس ظلم کے خلاف بغاوت کا اعلان کرکے اپنی مرضی کے مطابق کولہو سے باہر کی آزاد فضا میں سانس لینا چاہتا ہوں۔ نہ ہی مزدوری کے کولہو سے رسی تڑا کر کچھ اور کرنا چاہتا ہوں۔ نہ میری قوم کٹھ ملاؤں کے کولہو سے خود کو آزاد کرانا چاہتی ہے۔ نہ ہم مختلف سیاسی مسائل کی نکیل سے خود کو آزاد کرانا چاہتے ہیں۔ نہ ہی دنیا کے ممالک اقوامِ متحدہ کی دادا گیری کی نکیل سے آزاد ہوکر کھلی فضا میں سانس لینا چاہتے ہیں۔
           سبھی سر جھکائے کولہو کے بیل کی طرح مظلوم بنے گھوم رہے ہیں۔ آنکھوں پر پٹی بندھی ہے۔ منہ پر جاب چڑھا ہوا ہے۔ ناک میں نکیل ہے۔ کوئی جو ہم پر ترس کھا رہا ہے۔ ہم سے ہمدردی رکھتا ہےوہ چاہ کر بھی کچھ نہیں کرپارہا ہے کیونکہ وہ بھی ضرورت کے کولہو سے بندھا ہوا ہے اور شاہ جی سونٹے پہ سونٹا مارے جارہے ہیں۔ تیل نکلتا جارہا ہے۔ بھلےہی نکلنے والاتیل ہمارے درد اور تکلیف کی بدولت ہمیں"کڑوا تیل" محسوس ہورہا ہو لیکن وہ شاہ جی کے لئے تو بڑا ہی مفید ہے۔
           غضنفر صاحب کی اس سادہ سی کہانی کی علامات کی پرتیں ہر اس ماحول میں کُھلیں گی جہاں کسی مظلوم پر ظلم کرکے فائدہ کشید کیا جارہا ہو اور یہ علامتی کہانی کی خوبی ہی ہے کہ اس کا ایک تاثر قائم نہیں ہوتا۔ الگ الگ قارئین پر ایک ہی علامتی کہانی کا الگ الگ تاثر قائم ہوتا ہے۔ اب یہ الگ بات ہے کہ افسانے کا ذہین قاری بسا اوقات افسانے میں برتی گئی علامتوں کے پروں سے مفاہیم کی ان سرحدوں کو بھی پھلانگ جاتا ہے جو خود افسانہ نگار کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتیں ۔حالانکہ کہتے ہیں کہ افسانہ وحدتِ تاثر کی زمین پر اپنی بنیادیں استوار کرتا ہے لیکن افسانے میں برتی گئیں علامات الگ الگ قارئین کو ان کے مزاج و مطالعہ و مشاہدہ و نظریات کی بنیادوں پر جدا جدا مفاہیم ماخوذ کر لینے کی آزادی عطا کرتی ہیں۔ اسے کولہو کے بیل کی طرح محض ایک ہی معنی سے جوتے نہیں رکھنا چاہتیں۔
حالانکہ بعض علامتی کہانیاں اتنی زیادہ الجھی ہوئی ہوتیں ہیں کہ قاری عجیب قسم کی الجھنوں کا شکار ہوجاتا ہے۔ معنی کا کوئی در اس پر کھُلتا ہی نہیں ہے جبکہ غضنفر صاحب کے اس افسانے کی کہانی میں علامتیں اتنی واضح ہیں کہ قاری ایک خاص معنی نکال ہی سکتا ہے۔یہ کہانی اس کے لئے معمہ بننے کی بجائےایک اچھی کہانی کے طور پر یاد بھی رہے گی۔
٭ختم شد٭

Tuesday, January 24, 2023

غزل : میں ایک لفظِ انا کا ہوا غلام نہیں

 

 غزل 

طاہر انجم صدیقی




 میں ایک لفظ انا کا ہوا غلام نہیں"

مری لغت میں کہیں لفظ انتقام نہیں"


کلام کہنے میں جس کے کوئی کلام نہیں

ادب کی بزم میں اس کا کہیں پہ نام نہیں


ضروری تو نہیں جو بھی ہو میرے پیچھے ہو

مجھے بتاؤ میں فنکار ہوں، امام نہیں


ذرا رکو تو سہی، دوستو! سنو تو سہی

ابھی تو درد کا قصہ ہوا تمام نہیں


 ہے لفظ لفظ اسی ایک شخص سے منسوب

مری کتاب میں جس شخص کا ہی نام نہیں 


جسے بھی دیکھو وہ آنکھیں دکھاتا ہے طاہرؔ

ہمارے ہاتھ میں شمشیرِ بے نیام نہیں


چھوٹی سی یہ نظم اپنے دوستوں سے ضرور شیئر کریں. 🔽

چلو اک کام کرتے ہیں (معرّی' نظم) 



Friday, January 20, 2023

افسانہ مکھیاں

افسانہ


مکّھیاں

(طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں) 


          کالج سے واپسی پراکرم اپنے پُرانے مکان کی طرف سے گزرا۔ اس مکان کے بازو والے خستہ حال جھونپڑے کی چھت اپنے آگے بنائے گئے ٹاٹ کے سائبان میں جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی۔سائبان کے نیچے لگی چارپائی کے اطراف مکّھیاں بھنبھنا رہیں تھیں۔ انھیں دیکھ کر وہ سوچنے لگا.
          ۔۔۔۔۔اتنی ساری مکّھیاں میں نے اور کہاں دیکھی ہیں؟۔۔۔۔۔کچرے کے ڈھیر پر؟۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟ ۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر؟؟؟۔۔۔۔۔جواب ملا کہیں اور۔۔۔۔”
وہ پھر سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔۔کہاں؟؟؟؟۔۔۔۔۔مگر جواب میں بہت سارے سوالیہ نشانات اس کےذہن میں بکھرتے چلے گئے اور اس نے زینو چاچا کی چارپائی کی طرف دیکھا۔
          پہلی نظر میں وہ دکھائی ہی نہیں دئیے۔ ذرا غور کرنے پر ان کا وجود چارپائی سے الگ ہوا اور پھر جھرّیوں کے جال کے ساتھ ننگی چارپائی کی بنت میں استعمال ہونے والی رسّیوں میں کھو سا گیا۔ رسّیاں بھی تو ان کی جلد کی طرح میلی ہو چکی تھیں۔ زینو چاچا اپنے بدن کی طرح لاغر چارپائی میں دھنسے پڑے تھے۔ اُس کے ایک پائے کو اُن کی سانسوں کی طرح باندھ کر جبراً کھڑا کیا گیا تھا۔ دوسرے پائے کو ان کی زندگی کے گراف کی طرح اونچا اٹھانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔
          ان کی ذرا سی حرکت سے ڈھیر ساری مکھیاں بھنبھنانے لگتیں۔ حالانکہ چارپائی کا ضروری حصہ بننے سے پہلے زینو چاچا اپنے کپڑوں پر مکھّی تک بیٹھنے نہیں دیتے تھے۔ سفید کپڑے تو ان کی جان ہوا کرتے تھے۔ قمیص، پتلون ہو یا کرتا پاجامہ ان کا رنگ سفید ضرور ہوا کرتا تھا۔ جوانی میں تو ان کی ٹوپی، رومال، بیلٹ، پین، جوتے اور موزے تک سفید ہوا کرتے تھے۔ وہ تھے تو پاور لوم مزدور مگر جب صبح سویرے اپنے گھر سے کھانے کا ٹفن لئے نکلتے تو ان پر کسی رئیس زادے کا گمان ہوتا تھا. دن بھر پاور لوم سے لوہا لے کر گھر کے تانے بانے سلجھانے کے لئے زینو چاچا اپنے کمزور اور دبلے پتلے بدن کو مشقّت میں ڈالے رہتے۔ شام کو پرندوں کے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ جانے کے ایک آدھ گھنٹہ بعد وہ پاور لوم کارخانے سے تھکے ہارے باہر نکلتے۔
         کپاس کے ذرّات ضرورت بن کر ان کے بالوں سے چمٹے صاف دکھائی دیتے ۔ وہ بیس برس کی عمر میں ہی مکمل بوڑھے نظرآتے لیکن بوڑھے ہو جانے پر بھی جوان بیٹوں نے انھیں آرام نہیں دیا۔ وہ مسلسل محنت مزدوری کرتے رہے اور بیٹے مفت کا لقمہ توڑتے رہے۔
          چھ مہینہ پہلے جب ان کے لئے چارپائی لگائی گئی تھی تب رسّیاں بڑی صاف ستھری تھیں۔ چارپائی بھی تو اچانک ہی لگانی پڑی تھی۔رات آٹھ بجے کے قریب وہ معمول کے مطابق اپنے گھر پہنچے تو باہر ہی سے انہوں نے آواز دی۔
         ’’شہناز!۔۔۔۔۔اے ۔۔۔۔۔شہناز بیٹی!۔۔۔۔۔ذرا پانی دے تو۔۔۔۔۔‘‘
          تھوڑی دیر بعدان کی چھوٹی بہو شہناز بڑبڑاتی ہوئی پانی بھری ٹوٹی بالٹی لائی اور ایک جھٹکے سے رکھ کر کچھ بڑبڑاتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔ انہوں نے ایک گہری سانس لے کرواپس جاتی ہوئی شہناز کو دیکھا اور سوچنے لگے۔
           ’’صرف یہی لوگ تو رہ گئے ہیں ساتھ میں۔۔۔۔۔شریفہ اور نازیہ کی شادی تو میں نے باہر دوسرے شہر میں کردی ہے۔۔۔۔چلو اچھا ہے سکون سے تو ہیں دونوں۔۔۔۔۔مگر یہ سلیم تو شادی کے ایک مہینے بعد ہی گھر سےالگ ہو گیا تھا۔ تب سے وہ ادھر آتا ہی کہاں ہے؟ اور کریم نے بھی تو جاتے جاتے کتنا جھگڑا کیا تھا ؟؟؟۔۔۔۔۔اب رہ گیا یہ علیم! تو یہ بھی کہاں ٹھیک سے بات کرتا ہے۔۔۔۔۔‘‘
           بس اس سے آگے وہ مزید کچھ نہیں سوچ سکے اور دھڑام سے زمین پر گر گئے۔
          گرنے سے کئی ایک جگہ چوٹیں آئیں مگر جب پاس پڑوس کے لوگوں نے انھیں اٹھایا گیا تو پتہ چلا کہ ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔
تب ان کے لئے چارپائی لگادی گئی۔
          اب اُسی چارپائی سے کچروں کے ڈھیر سے زیادہ بدبو اٹھتی تھی اور گندگی سے کہیں زیادہ مکّھیاں ان کے بدن اور چارپائی پر بھنبھناتی تھیں۔ تبھی تو ان کی بہو انھیں کھانا یوں دیتی جیسے کچرے کے ڈھیر پر کچرا پھینک کر بڑی تیزی سے دور چلی جانا چاہتی ہو۔ ان کا اپنابیٹا بھی اُن سے گندگی کے ڈھیر کی طرح کترا کر گزرتا تھا مگر مکّھیاں برابر انھیں گھیرے رہتیں۔
          بالکل غیر محسوس طریقے سے زینو چاچا کا بدن لاغر ہوتے ہوتے مکّھیوں کا حصّہ بنتا چلا گیا۔ کئی مرتبہ آتے جاتے دیکھ کر انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اکرم کو بلایا۔ ہاتھ ہلتے ہی مکّھیوں کی بھبھناہٹ ایک احتجاج بن کر اس کے کانوں تک پہنچی مگر وہ سرد آہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔
          ان سے ملنے ہی کی وجہ سے ان کی بہو بیٹے سے اس کی ان بن ہوئی تھی۔
          اکرم دو ایک دن کے ناغے سے برابر ان سے ملنے جایا کرتا تھا لیکن ایک روز جب وہ زینو چاچا کی چارپائی کے ایک کو نے پر بیٹھا ان سے باتیں کررہا تھا کہ اُس کے والدین خودمعاشی طور پربہت پریشان ہیں۔ ورنہ ان کے لئے علاج کا کچھ انتظام ضرور کرتے اور وہ تو خود ابھی کالج میں ہے۔اس کے پاس کہاں اتنے پیسے کہ وہ ان کی کچھ مدد کر سکے؟ اگر وہ چاہیں تو ان کے بیٹے کو سرکاری دواخانے میں علاج کے لئے لے جانے کو کہہ سکتے ہیں۔ وہ خودبھی ساتھ ہی رہے گا اور ۔۔۔۔۔۔
          مگردرمیان میں ہی چاچا کی بہو اندر سے تلملاتی ہوئی آئی اور برس پڑی ۔
           ’’اے اکرم ! تو مت آیا کر تو یہاں ۔۔۔۔۔‘‘
وہ ہکا بکا ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگا اور اس کی چڑھی ہوئی تیوریاں دیکھتے ہوئے بولا۔
          ’’شہناز بھابھی ۔۔۔۔کیا ہوا ؟۔۔۔۔۔ایسے کیوں بول رہی ہو؟۔۔۔۔۔”
          ” ‎بس بول دی نا ۔۔۔۔۔۔۔نہیں آنا ادھر تو نہیں آنا سمجھے ۔۔۔۔اور اتنی ہی ہمدردی ہے اگر ان سے تولے جا اپنے گھر رکھ سمجھے ۔۔۔۔۔دیکھو جی ! یہ اکرم ابّا کو تمہارے بارے میں کیا کیا بول رہا تھا ابھی۔۔۔۔۔اور میں بول رہی ہوں تو منہ چلارہا ہے مجھ سے۔۔۔۔۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ پیر پٹختی ہوئی گھر میں چلی گئی مگر علیم تیزی سے باہر نکلا ۔
          اسے دیکھ کر اکرم کا خون کھول اٹھا. جینس پینٹ، جینس شرٹ، گلے میں سنہری چین ۔ بائیں ہاتھ میں کڑا ، بال فلمی ہیرو کے انداز سے سنوارے ہوئے اپنے بالوں کو مزید سنوارتے ہوئے کہنے لگا ۔
          ’’سن اےاکرم ! دوبارہ ادھر آیا نا۔۔۔۔۔تو ہاتھ پاؤں توڑ ڈالوں گا. سمجھا کیا؟ ۔۔۔۔۔دکھائی مت دینا ادھر دوبارہ ۔۔۔۔۔سالے لڑائی لگاتا ہے باپ بیٹے میں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
           ’’کیسی لڑائی علیم بھائی ۔۔۔؟ اس نے زینو چاچا کی طرف دیکھا ۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔۔۔اکرم بس اتنا سمجھ سکا کہ اس کا زینو چاچا سے ملنا ان لوگوں کو خراب لگتا ہے ۔
          ’’ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔چلا جاتا ہوں ۔۔۔۔۔نہیں آؤں گا ۔۔۔۔۔۔چلو چاچا ۔۔۔جو غلطی ہوئی معاف کرنا ۔۔۔۔۔‘‘
اس نے جھک کر چاچا سے کہا ۔
          اکرم کی آواز بھرا گئی۔ علیم اندر چلا گیا ۔ چاچا خاموش رہے ۔عجیب سی نظروں سے اُسے دیکھتے رہے ۔ اُس نے اٹھ کراپنی چپل پہنی اور چلتے چلتے زینو چاچا کو دیکھا ۔ ان کی آنکھوں کے کناروں سے آنسو ڈھلک رہے تھے ۔اکرم کی آنکھیں بھیگنے لگیں…… اور کیوں نہ بھیگتیں ؟ وہ انہیں کی گود میں کھیل کر تو بڑا ہوا تھا ۔ حالانکہ وہ رشتے میں اس کے کچھ نہیں لگتے تھے ۔ بس پڑوسی تھے لیکن اسے بچپن میں زینو چاچا سےبہت پیار ملا تھا۔
اکرم کو اُس کے گھر والوں نے بتایا تھا کہ صبح جب اُس کی آنکھ کھلتی تو ناشتے کی بجائے زینو چاچا کا تقاضا کرتا اور ان کے لئے اتنی ضد کرتا کہ کسی کے ذریعے زینو چاچا کی گود میں پہنچا ہی دیا جاتا ۔ وہ اگر ناشتہ کر رہے ہوتے تو زانو پر بٹھا کر اپنے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے نوالے اُس کے منہ میں ڈالتے۔ ناشتے کے بعد اُس کا منہ دُھلاتے، تولیہ سے اپنا اور اُس کا منہ ہاتھ پونچھتے اور اُسے گود میں اٹھا کر ہوٹل کی طرف چل دیتے ۔
          اپنے لئے گرما گرم چائے اور اکرم لئے دودھ کا آرڈر دیتے۔ دودھ آ جانے پر چائے کا گلاس ایک طرف رکھ کر دودھ ٹھنڈا کرنے لگتے ۔۔۔۔ گلاس ہلاتے جاتے ۔۔۔اور اُس میں پھونک بھی مارتے جاتے۔ حالانکہ وہ بہت گرم چائے پینے کے عادی تھے مگر دودھ ٹھنڈا کرنے کے چکّر میں اُن کی چائے بھی ٹھنڈی ہو جاتی ۔ جب وہ ٹھنڈا ہوجانے والا دودھ اُسے پلا دیتے تو چائے ان کے انتظار میں پانی ہو جاتی ۔ وہ اسے ایک ہی سانس میں پی جاتے ۔
        جب ہو ٹل سے واپس آ کر زینو چاچا اکرم کو اُس کے گھر والوں کے سپرد کرتے تو وہ ان سے چمٹ جاتا۔ ان کے کپڑے، داڑھی، کان، ناک یا سر کے بالوں میں سے جو بھی ہاتھ آجاتا اسے مضبوطی سے جکڑ لیتا مگر جیسے تیسے وہ اُسے گھر والوں کو سونپ کر پاورلوم کارخانے کی جانب چل دیتے اور اکرم اُن کے لیے روروکر پورا گھر سر پر اٹھا لیتا تھا لیکن آج زینو چاچا کو دیکھنے کے بعد ایک سرد آہ بھر کر بوجھل قدموں سے اُسے آگے بڑھ جانا پڑا۔ ایسا لگتا جیسے ان کے اطراف کی مکھیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہو اوراُس ذہن کے سوالیہ نشانات بھی اتنی ہی تیزی سے پھیلتے جارہے ہوں۔
          “۔۔۔۔۔کہاں دیکھی ہے اتنی مکھیاں میں نے ؟۔۔۔۔کہاں ہے ؟؟۔۔۔۔۔کچڑے کے ڈھیر پر ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟؟؟۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر ؟؟؟؟؟ مگر جواب میں سوالیہ نشانات ذہن میں پھیلتے چلے جاتے۔
ایک دن جب اکرم ادھر گیا تو زینو چاچا کی چارپائی سے مکھیوں کے بھنبھنانے کا شور نہیں اٹھا ۔اُن کا جنازہ ہی اٹھ گیا ۔۔۔وہ جنازے کے ساتھ ساتھ تھا ۔
جنازے کو چاروں طرف سے دیکھ چکا تھا ۔ مکھیوں کا کہیں پتہ نہیں تھا مگران کی بھنبھناہٹ برابر اُس کے ذہن میں گونج رہی تھی ۔وہ جنازے کو کاندھا دے رہا تھا۔ مکھیاں ان کے جنازے کے ساتھ نظر نہیں آرہی تھیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بے شمار مکھیاں اُس کے ذہن میں بھنبھناتی ہوئی رینگ رہی ہوں ۔
         رینگتی بھنبھناتی مکھیوں کو اپنے ذہن میں لئے لئےاکرم جنازے سے آگے بڑھ گیا۔قبرستان قریب آگیا ۔ وہ جنازے سے آ گے بڑھتا گیا ۔ اچانک مکھیوں کی بھنبھنانے کا وہی شور اکرم کے کان کے پردوں سے ٹکرایا ۔ اُس نے فوراً پلٹ کر جنازے کی طرف دیکھا زینو چاچا کا جنازہ ان کے بیٹوں کے کاندھوں پر تھا ۔مگر مکھیاں وہاں نہیں تھیں۔ اُس نے مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرف دھیان دیا اور نظر گھما کرقبرستان کی دیوار کی طرف دیکھا۔ رس نکالنے والی مشین سے گنے کا سارا رس نکال کر گنّے کے تقریباً سوکھ جانے والے پھوگ کو ایک آدمی پہلے سے پڑے پھوگ کے ڈھیر پرپھینک رہا تھا جس پر بے شمار مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔

(ختم شد)


اس افسانے کو پڑھ کر زندگی کی زنجیر کو سمجھیں🔽