Translate ترجمہ

Tuesday, January 03, 2023

غزل: یہی کہ ڈوب مروں گا نا اور کیا ہوگا

غزل

طاہر انجم صدیقی 

 

یہی کہ ڈوب مروں گا نا! اور کیا ہوگا؟
شناوروں میں مرا نام تو لکھا ہوگا 

قدم قدم پہ بڑا سخت معرکہ ہوگا
ہمارے جینے کا جب فلسفہ نیا ہو گا

ہمارے شعر کا کچھ رنگ بھی جدا ہوگا
ہماری فکر کا اپنا ہی زاویہ ہوگا

پھر آج حکم ہے ہتھیار ڈال دینے کا
سنا تھا ہم کہ اب کے مقابلہ ہوگا

مِرے اجالے کریں گے اندھیروں کی تکفیر
مِرا چراغ ہواؤں کا مرثیہ ہوگا

میں ہچکیوں سے یہی سوچ کر بہت خوش ہوں
ہتھیلی پر وہ ِمِرا نام لکھ رہا ہوگا

ہمارے خون کے چھینٹے جہاں پڑے ہوں گے
وہیں سے دیکھنا، سورج ابھررہا ہوگا

حسینیت پہ تصدّق کریں گے جانیں ہم
ہمارے سامنے جس روز کربلا ہو گا


نئے سال کی آمد پر ایک نظم. 🔽

افسانہ: اپنے حصے کا نخلستان

اپنے حصے کا نخـــلســــــتان 

طاہر انجم صدیقی (مالیگاؤں)







گوری رنگت والا بچہ اور اس کا بابا نہ جانے کب سے اپنے ہی سایوں کو روند رہے تھے۔ان کے سائے دھیرے دھیرے بڑھتے جا رہے تھے۔ اُس گول مٹول سے بچے نے اپنی آنکھوں کے کٹوروں کو بالکل ہی چھوٹا کرلیا اورریگستان کے سینے پرحدِ نگاہ تک پھیلتی چلی جانے والی دھوپ کو دیکھتے ہوئے کہا۔

’’کتنی تیز دھوپ ہے بابا!؟‘‘

’’ہاں بیٹا! بہت تیز ہے مگر اپنے حصّے کا نخلستان ڈھوندنا تو پڑے گا ۔۔۔۔۔‘‘

باپ نے اپنے سر پر لپٹے کپڑے کے ایک سرے سے پہلے بچے کے چہرے پر امڈ آنے والی ڈھیر ساری پسینے کی بوندوں کو صاف کیا پھر اپنا چہرہ بھی پونچھ لیا۔ پسینے کے ساتھ ریت کے باریک باریک ذرات اس کپڑے سے لپٹے چلے آئے۔ 

باپ نے اپنے بیٹے کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا ۔

’’اِدھر آ بیٹا ! ۔۔۔۔میری چھاؤں میں آجا ۔۔۔۔‘‘

گوری رنگت والا چھ سات برس کا معصوم چہرے والا وہ بچّہ اپنے باپ کے سائے میں ہو گیا ۔

’’ہاں بابا! اب دھوپ نہیں لگتی ۔۔۔۔مگر کتنی گرمی ہے  ؟۔۔۔۔اور یہ ہوا اپنے ساتھ کتنی ریت اڑا رہی ہے؟‘‘

بچے نے اپنی پلکوں کے دریچوں کو کھول بند کرتے ہوئے کہا۔

’’ہوں !۔۔۔۔رک بیٹا ذرا!‘‘

وہ دونوں رک گئے۔

باپ نے اپنے سر کا کپڑا کھولا۔اس کے دو ٹکڑے کئے ۔ چھوٹا ٹکڑا بچے کے سر اور چہرے پر اس طرح لپیٹا کہ صرف اس کی آنکھوں کے کٹورے ہی کھلے رہ گئے۔

’’لے بیٹا! میری انگلی پکڑ کر چل ۔‘‘

دونوں ریگستان کی سلگتی ریت پرچلتے رہے۔

ہوا کے گرم تھپیڑے ان سے ٹکراتے رہے۔

ریت کے ذراّت اڑتے رہے. 

ان کے بالوں اور کپڑوں سے الجھتے رہے. 

پلکیں بند کر لینے کے باوجود بھی ان کی آنکھوں کو پریشان کرتے رہے ۔

وہ دونوں اپنے سایوں کے ساتھ ساتھ ریگستان کے سینے کو بھی روندتے رہے. 

اس سفر میں انہیں کئی نخلستان ملے لیکن ان پر دوسرے لوگ قابض تھے ۔

ان کو اپنے حصّے کے نخلستان کی تلاش تھی۔

دھوپ بڑی شدت کی تھی۔

ہوائیں تیز چل رہی تھیں۔

ریت سارے ریگستان میں اپنا وجود پھیلائے ہوئے تھی۔

باپ نے اپنی آنکھوں کو مسلتے ہوئے صحرا کے سکوت کو توڑا۔

’’تجھے معلوم ہے بیٹا !۔۔۔۔ایک مرتبہ میں بھی اپنے بابا کے ساتھ ایسے ہی ریگستان سے گذر رہا تھا۔۔۔۔لیکن اس روز دھوپ تو اِس سے بھی تیز تھی  ۔۔۔۔مگر جیسے میں نے تجھے اپنے سائے میں کیا ہے نا ۔۔۔۔تیرے دادا نے بھی مجھے اپنے سائے میں کر لیا تھا ۔‘‘

’’پھر تو تم کو بھی دھوپ نہیں لگ رہی ہو گی ۔۔۔۔ ہے نا ؟‘‘

بچے کو محسوس ہوا جیسے اس کے بابا کو کوئی نخلستان مل گیا ہو۔ وہ بہت خوش ہوگیا۔

’’ہاں بیٹا! مجھے بھی دھوپ نہیں لگ رہی تھی ۔۔۔۔مگر معلوم ہے پھر کیا ہوا تھا ؟‘‘

’’کیا ہوا تھا بابا؟‘‘

لپیٹے گئے کپڑے سے جھانکتی بچے کی کٹورا آنکھیں سوالیہ نشان بن گئیں۔

’’تیرے دادا آسمان کی طرف چلے گئے تھے ۔‘‘

’’آسمان کی طرف  !!۔۔۔۔وہ کیسے بابا ؟‘‘

بچے کی آنکھوں کے حلقے مزید پھیل گئے۔

اس نے حیرت اور معصومیت سے پوچھا۔

’’رک بیٹا! بتاتا ہوں۔۔۔۔ذرا انگلی چھوڑ تو میری!‘‘

بچے نے دیکھا کہ وہ ابھی تک اپنے بابا کی انگلی تھامے کھڑا تھا۔ 

اس نے جھٹ سے انگلی چھوڑ دی۔

’’۔۔۔۔دیکھ بیٹا! ۔۔۔۔ایسے گئے تھے وہ آسمان کی طرف!‘‘

اس نے اپنے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا دئیے ۔

بچے نے آسمان کی طرف اٹھے ہوئے اس کے ہاتھوں کو دیکھا۔

بچے پر پڑنے والا بابا کا سایہ غائب ہو گیا. 

اس کے بابا کے پیر دھیرے دھیرے اُپر اٹھنے لگے۔

اس کا منہ حیرت سے کھل گیا۔

وہ اپنے بابا کواوپر اٹھتا دیکھتا رہا ۔

دھوپ کی شدّت نے اس کی حیرت کو جھلسایا تو وہ چونک گیا ۔

اس نے اپنے سر اور چہرے پر لپٹے کپڑے کو کھول کر آسمان کی طرف دیکھا۔

اس کابابا اوپر جارہا تھا ۔

’’بابا !۔۔۔۔نیچے آؤ نا! ۔۔۔۔کتنی تیز دھوپ ہے؟‘‘

اس نے اپنے بابا کو واپس بلایا۔

’’۔۔۔۔۔۔۔۔‘‘

’’بابا !۔۔۔۔ بہت تیزدھوپ ہے ۔۔۔۔تم کچھ بولتے کیوں نہیں؟ ۔۔۔۔اوپر کیوں جا رہے ہوبابا؟ ۔۔۔۔نیچے آؤ نا !‘‘

اوپر سے کوئی جواب نہ آیا۔

وہ چلانے لگا۔

’’با با ۔۔۔۔ بابا۔۔۔۔او بابا!۔۔۔۔نیچے آؤ نا بابا!۔۔۔۔نیچے ۔۔۔۔نی۔۔۔۔چے ۔۔۔۔نی ۔۔۔۔نی‘‘

اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی بوندیں نکل کر گالوں سے لڑھکیں اور اس کے گرد آلود کپڑے میں جذب ہوگئیں۔ 

اس نے اوپر دیکھتے دیکھتے اپنے گٹھنے سلگتی ریت پر ٹیک دئیے۔

آنسوؤں کی بہت ساری بوندیں اُس کی آنکھوں سے نکل پڑیں اور اُس نے دہاڑ مار مار کر روتے ہوئے اپنے لب کھولے ۔

’’با با۔۔۔۔نی ۔۔۔۔چے ۔۔۔۔بابا!۔۔۔۔‘‘

مگر نیچے نظر پڑتے ہی اُس کی آواز گلے میں ہی اٹک گئی ۔

نیچے اُس کا بابا ریگستان کی سلگتی ریت پر اپنے ہی سائے پر بے حس و حرکت پڑا تھا ۔

وہ ابھی اپنے بابا کو اِس حالت میں آنسو بھری آنکھوں سے دیکھ ہی رہا تھا کہ کسی نے اُس کے گرد آلود کپڑے کا کنارہ پیچھے کی طرف کھینچا۔

وہ بڑی پھرتی سے پیچھے مُڑا۔

اُس کے پیچھے ایک چھ سات سالہ، کٹورا آنکھوں والا  بچّہ کھڑا تھا.

اس سے پہلے کہ وہ کچھ سمجھتا، کٹورا آنکھوں والے بچے نے معصومانہ انداز میں اُسے دیکھتے ہوئے کہا. 

’’کتنی تیز دھوپ ہے بابا!‘‘

اُس نے گوری رنگت والے اُس بچّے کو دیکھا۔

پھراپنے اطراف حدِّ نگاہ تک پھیلتے چلے گئے گرم ریگستان کو دیکھا اور ایک ٹھنڈی سانس لے کر اٹھ کھڑا ہوا ۔

اس کے منہ سے بیساختہ نکلا۔

’’اِدھر آ بیٹا ! ۔۔۔۔میری چھاؤں میں آجا ۔۔۔۔‘‘


(ختم شد)




اس کو پڑھیں🔽

پنکھڑی اِک گلاب کی سی



مضمون: ایک پیریڈ کا اسٹوڈنٹ

 مختار یونس سر کے شعری مجموعے کے اجرا میں پڑھا گیا مضمون




*ایک پیریڈ کا اسٹوڈنٹ*

طاہر انجم صدیقی ( مالیگاؤں) 


          انسانی ذہن بھولنا چاہے تو ورلڈ ٹریڈ سینٹرجیسےحادثے کو بھی چٹکیوں میں اڑا دیتا ہے اور یاد رکھنا چاہے تو بیچارے اخترانصاری یوں پریشان ہوجاتے ہیں:
یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا
بعض مرتبہ یہی حافظہ ایسی باتیں سامنے لے آتا ہے کہ طبیعت ہری ہوجاتی ہے۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوتا ہے۔  مختار یونس سر کا نام سن کر ذہن کے کسی گوشے سے ایک مسکراہٹ سر اٹھا کر لبوں تک چلی آتی ہے اور ذہن و دل کی فضا کو محترم کر دیتی ہے لیکن اس فضا میں سبزی ترکاری کاٹنے والی ایک شمشیربھی چمکنے لگتی ہے۔
           اس شمشیرکے بے نیام ہونے کا قصہ یہ ہے کہ میں مالیگاؤں ہائی اسکول اینڈ جونیئر کالج کی بارہویں جماعت کے طالبِ علم کی حیثیت اپنے آخری دنوں کو گن رہا تھا کہ میرے اندر کے شاعر نے اپنی کلاس کے تمام لوگوں کے ناموں کو ایک نظم میں استعمال کر ڈالا۔ وہ نظم میں نے مختار یونس سر کو دکھائی۔  ان کا پہلا سوال بحر سمجھنےسےمتعلق تھا۔  پھر انہوں نےکچھ اشعار پڑھے اور کہا۔
           "بحر تو ٹھیک ہے اور اس میں تم نے لڑکوں کا نام استعمال کیا ہے ان کی تو کوئی بات نہیں لیکن لڑکیوں کا نام کیوں استعمال کیا ہے؟"
          میں سوچنے لگا کہ کیا کہوں؟ بلکہ مجھے کیا کہنا چاہئے؟ سمجھ میں بھی نہیں آرہا تھا لیکن سامنے تھے مختار یونس سر!  فوراً سوال بدل گئے۔
         " تم نے اس نظم کو کیوں لکھا ہے؟"
         میرے پاس اس سوال کا بھی جواب تیارنہیں تھا۔ میں سوچ ہی رہا تھا کہ مختار یونس سر نے سوال بدلنے کی ہیٹ ٹرک کرڈالی۔
         "کیا اسے اخبار میں شائع کرنا ہے؟ اگر ایسا کیا تو لڑکیوں کے گھر والے اس پر اعتراض کرسکتے ہیں۔ تب تم کیا کرو گے؟"
         میں نے کہا۔
         "نہیں سر! اس کو اخبار میں چھپانا نہیں ہے بلکہ میں اس نظم کا زیراکس کرکے اپنی کلاس میں بانٹ دوں گا۔"
        مختار سرمسکرانے لگے اور انہوں نے کہا۔
       " بیٹا! قلم تلوار ہے۔  اس سے سبزی ترکاری کاٹنے کا کام نہیں لینا چاہئے۔"
       یقین جانیں کہ مختار یونس سر کے اس جملے نے قلم کی اہمیت کو مجھ پر یوں اجاگر کرکیا کہ میں نے ان سے اپنی نظم واپس لے لی۔  میرے یار دوست اس نظم کو مانگتے رہ گئے مگر میں نے اس کا زیراکس تک کسی کو نہیں دیا اور اس نظم سے یوں دستبردار ہوا کہ اب وہ نظم خود میرے اپنے پاس بھی محفوظ نہیں۔
          مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مختار یونس سر جب ہماری کلاس میں پہلی مرتبہ آئے تھے تب میں سولہ برس کی بالی عمر کو سلام کرنے کے قابل ہو چکا تھا۔
اونچے قد کے ساتھ ان کے خیالات کا قد بھی ذرا نکلتا ہوا ہی تھا۔ اللہ نے ان کو صحت اچھی دی تھی اور وہ گفتگو بھی بڑی صحت مند کیا کرتے تھے۔ ان کی گفتگو سے یقینی طور پر آس پاس کے لوگوں پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہوں گے کیونکہ سنا ہے کہ ہنسنے مسکرانے سے زندگی اور صحت کے علاوہ صرف حاسدین پر ہی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔
ان سے متاثر ہونے کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ جب مجھے مختار یونس سر کے مزحیہ کلام کے مجموعہ کے اجرا کی تقریب میں اپنے تاثرات کے اظہار کے لئے کہا گیا تو قلمی طور پر بونا ہونے کے باوجود بھی میں نے انکار نہیں کیا۔سبب تھے مختار یونس سر۔
یقین جانیں کہ انہوں نے ہم لوگوں کو بارہوں جماعت میں صرف ایک سبق ’’لکھنو کا چِہلُم‘‘ ہی پڑھایا تھا۔ میں دوسروں کی بات نہیں کرتا لیکن آج بھی مجھ کو ان کے پڑھانے کا اسٹائل،پڑھنے کا انداز،سمجھانے کا ہنر اور بچوں میں سمجھ لینے کی امنگ بھر دینے کا فن یاد آتا ہے۔
ہم لوگوں کو اردو کا مضمون عبدالحلیم کاردار سر پڑھایا کرتے تھے لیکن’’ لکھنو کا چہلم‘‘ آتے ہی انہوں نے اوراق پلٹنے کا حکم دے دیا۔ کچھ لوگ پریشان ہوگئے اور کچھ خوش لیکن کچھ ہی دنوں بعدعبدالحلیم کاردار سر کی جگہ مختار یونس سرکی کلاس میں آمد سے یہ پریشانی دور اور خوشی کافور ہو گئی۔
سر نے آتے ہی کہا۔
’’جو صاحبِ کتاب ہیں وہ کتاب نکالیں اور جن کے پاس کتاب نہیں ہے وہ اہلِ کتاب سے استفادہ کریں۔‘‘
سر کی اس بات کوکچھ لوگ سمجھ گئے اور جو نہیں سمجھے وہ سمجھا دئیے گئے۔
ادھر ادھر کی باتوں کے بعد مختار یونس سر نے ہم میں سے ایک کو اردو کی کتاب سے ’’لکھنو کا چہلم‘‘ پڑھنے کو کہا۔
اس نے پڑھنا شروع کیا۔
’’لکھنو کا چَہلَم‘‘
سر نے فوراً ٹوکا ۔
’’چَہلَم نہیں چِہلُم پڑھو‘‘
وہ کسی پڑھنے والے کوکہیں پر بھی روک کر اس سے آگے کسی کو بھی پڑھنے کو کہتے رہے اور غلط پڑھنے پر کلاس کو مزاح بھرے جملوں سے زعفران زار کرتے رہے۔
ایک نے جیسے ہی لفظ اِمام کو اَمام پڑھا مختار یونس سر کی رگِ ظرافت پھڑک اٹھی۔انہوں نے فوراً کہا۔
’’رُکو! او اَمام !ایسے اَمام کے پیچھے نماز بھی حرام۔ یہ لفظ اِمام ہے اِمام ۔‘‘
ایک نے لفظ ’’دُلدُل‘‘ کو ’’دَلدَل‘‘ پڑھ دیا تو مختار یونس سر نے اپنا رنگِ شوخیانہ یوں ظاہر کیا ۔
’’ارے بیٹا! یہ کربلا کے دُلدُل کو کس دَلدَل میں پھنسانے کا ارادہ ہے؟
ایک نے’’ انوپ اَنجن‘‘ کو’’انوپ اِن جن‘‘ پڑھا تو سر نےٹوکا کہ ’’ایسے اِنجن والی ٹرین کامنزل تک پہنچنا مشکل ہے۔
ہماری کلاس کےاس ارجنٹائنا دورہ کے درمیان مختار یونس سر نے کلاس میں بیٹھے ہوشیار،کم ہوشیارسبھی کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ جیسے کبڈی کا کوئی دھاکڑ کھلاڑی جب مخالف خیمے میں پہنچتا ہے تو ایک ہلچل سی مچ جاتی ہے۔ہر کوئی الرٹ اور اٹینشن والے موڈ میں دکھائی دیتا ہے۔وہی حال ہماری کلاس کا تھا۔
اس کے بعد مختار یونس سر نے"لکھنو کا چہلم" خود پڑھنا شروع کیا۔ پہلے ہی جملے میں موجود "گھٹا ٹوپ اندھیرا‘‘ کو انہوں نے اس انداز سے پڑھا کہ سن کر محسوس ہوتا تھا کہ یہ اندھیرا ہمارے اطراف پھیلا ہوا ہے. 
مختار یونس سر نے اپنے مخصوص انداز سے اس سبق کو کچھ یوں پڑھا کہ آج ستائیس سال گزر جانے کے باوجود بھی مجھے وہ یاد ہیں۔ ان کے پڑھنے کا انداز یاد ہے۔ ان کے پڑھانے کا طریقہ یاد ہے۔ کاش! وہ آج حیات ہوتے تو دیکھتے کہ ان کے ایک پیریڈ کے اسٹوڈنٹ نے قلم کی تلوار سے سبزی ترکاری تو نہیں کاٹ ڈالی؟
میں عتیق شعبان سر کو مختار یونس سر کے مزاحیہ کلام کی تالیف پر مبارکباددینےکے بعدیہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آپ ان کی مزاحیہ نثر کی اشاعت کی بھی کوئی سبیل نکالیں تاکہ اردو دنیا ان کے مزاح سے لطف اندوز ہو، مالیگاؤں کے حوالے سے مزاح کا یہ محترم نام پہچانے اور 
ان کے فن کا اعتراف کرے۔



 Read this also:👇