*پنکھڑی اک گلاب کی سی*
(طاہرانجم صدیقی)
ہم لوگ اپنی دوڑتی بھاگتی مصروف زندگیوں سے تھوڑا وقت چرا کر مہینے دو مہینے میں کہیں نہ کہیں تفریح کے لئے نکل جایا کرتے تھے. میں راستوں کے اطراف قدرت کے سجائے گئے حسیں مناظر سے ہمیشہ ہی لطف اندوز ہوا کرتا تھا. پیچھے کی طرف دوڑے بھاگتے درختوں کی قطاریں، ایک چکّر سا کاٹتے ہوئے میدان، کھیت اور وادیاں، لپکتے چلے آنے والے چھوٹے بڑے پہاڑ، کہیں ان پہاڑوں کی چوٹیوں کو جھک کر چومتے سفید، سرمئی، اجلے اجلے ابر کے ٹکڑے اور ان کی بلائیں لے کر گزر جانے والی سیاہ بدلیاں، زمین کی محبت میں پہاڑوں سے اترتے چلے آنے والے جھرنے، لہراتی بل کھاتی ندیاں، ٹکٹکی باندھے آسمان کو تکے چلی جانے والی جھیلیں مجھے ہمیشہ ہی بڑی بھلی لگتی تھیں. البتہ جب کہیں چٹیل میدانوں یا ریگستانوں کے آس پاس سے گزر ہوتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ میں ان سے ناواقف نہیں ہوں. مگر اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا. میں ہل اسٹیشن پہنچنے تک اپنے موبائل پر مسلسل پڑھتا رہا. میرے دوست شکایت کرتے رہ گئے مگر میں نے ہل اسٹیشن پہنچنے کے بعد کتاب ختم کرکے ہی موبائل کو جیب میں رکھا.
ہم لوگ گاڑی سے اتر کر اپنے جانے پہچانے مقام کی طرف بڑھے. وہاں قدرت نے چاروں طرف ہریالی بچھا رکھی تھی. ہواؤں کے تسلسل اور ان میں شامل ٹھنڈک زمین سےآٹھ نو سو فٹ اوپر اٹھ آنے کا خوش کن احساس پیدا کررہی تھی. موت کی سی خاموش گہری کھائی سے لوگوں کو بچانے کے لئے دور تک لوہے کا مضبوط جنگلہ لگایا گیا تھا. جنگلے سے دس پندرہ فٹ آگے بانس کی کھپچیوں اور بَلّیوں پر پلاسٹک کا سائبان تان کر چھوٹی چھوٹی دوکانیں بنائی گئی تھیں. ان دوکانوں کے مالک آنے والوں کو آوازیں دے کر اپنی طرف بلا رہے تھے.
"بولو بھائی چائے...... ہاں میڈم ناشتہ......"
"گرما گرم بھُٹا لے لو بھئی بھُٹّا!"
"بولو سر! گرین ٹی..... کولڈرنک...... آئسکریم....."
ہم دوستوں کے قدم بغیر کسی آواز کے اس دوکان کی طرف بڑھ گئے جس کے سامنے وہ کھڑی ہوئی تھی. سفید لباس اور اس کے گلے میں پڑا ہلکے زعفرانی رنگ کا دوپٹہ اسے بن سنور کر آنے والی دوسری لڑکیوں سے ممتاز کررہا تھا. وہ اپنی فیملی کے ساتھ ایک سفید گھوڑے کے پاس کھڑی تھی. اسے دیکھتے دیکھتے میرے ذہن میں ایک تکونی سایہ سا لہرا گیا.
کسی نے مجھے ٹہوکا سا دیا تو میں چونک اٹھا.
"اوئے رامش! کتابی کیڑے! اب کیا اس کا چہرہ بھی پڑھ ڈالے گا؟"
مجھ سے مخاطب اپنے دوست کو میں نے خالی خالی نظروں سے دیکھا.
میری آنکھوں میں اس دوشیزہ کے معصوم چہرے کا عکس دھندلا ہی نہیں ہوا تھا. اس کی گوری اور دل کی گہرائیوں کو روشن کر دینے والی رنگت دل کی دیواروں پر آویزاں تھی. ستواں ناک کے نیچے قدرت کے سجائے ہوئے یاقوتی ہونٹ میری آنکھوں میں اب بھی خمار کی صورت موجود تھے. شام کی سرخی کو شرما دینے والے رخساروں کی رنگت اور ان پر اٹھلانے والی ناگن لٹیں میرے دل کو جکڑے چلی جارہی تھیں. کمان ابروؤں تلے لانبی لانبی پلکوں کے سائبان میں بڑی بڑی کٹورا آنکھوں کی سفیدی میں تیرتی سیاہ پتلیاں دل کے تاروں کو مسلسل چھیڑے جا رہی تھیں. اس کا لہجہ کانوں میں رس گھول رہا تھا. اس کی میٹھی آواز دل تک اترتی چلی جارہی تھی، اس کے قہقہوں سے آس پاس جلترنگ بجتے محسوس ہورہے تھے.
وہ ایک شہزادی کی طرح دکھائی دے رہی تھی. اس کے ہاتھوں میں گھوڑے کی لگام تھی. گھوڑا باکل کسی غلام کی طرح سر جھکائے کھڑا تھا. گھوڑے کی دم زمین کو چھورہی تھی لیکن اس شہزادی کی پتلی اور نازک کمر کو چھو کر اٹھلاتے ہوئے بَھرے بَھرے کولہوں کو چوم چوم لینے والے بالوں نے ہواؤں سے ساز باز کر رکھی تھی. وہ تھوڑے تھورے وقفے سے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لینے کو مچل رہے تھے. وہ ایک عجیب سی شان کے ساتھ انھیں سہلاتی ہوئی اپنے شانوں سے پیچھے دھکیل رہی تھی.
اسے دیکھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میں ابھی کچھ کہنے کے لئے لبوں کو جنبش دوں تو میرے الفاظ اشعار میں ڈھل جائیں. اس کے لہراتے بالوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ ہواؤں میں ہاتھ لہرا دوں تو سارے منظر پر جادو سا چھا جائے. اس کے رخساروں کی سرخی سے گمان ہورہا تھا کہ آسمان کی طرف ہاتھ بڑھا دوں تو شام اپنے رنگوں میں میری انگلیاں ڈبو دے. ان رنگوں کو زمین پر جھٹک دوں تو سینکڑوں رنگوں کے پھول کھِل جلائیں.
پھول میرے دل میں کھل رہے تھے.......ایک..... دو اور سینکڑوں نہیں. ..... بلکہ انگنت پھول...... ان میں سے کچھ پھولوں کی پنکھڑیوں میں اس کے ہونٹ لرز رہے تھے. کچھ پھول اس کے سرخ رخساروں کی حیا سے شرما رہے تھے. کسی پھول میں اس کی آنکھوں کی سفیدی کِھلی ہوئی تھی. کسی پھول میں اس کی پرکشش رنگت مچل رہی تھی اور کسی کسی پھول سے وہ جھانکتی ہوئی سی محسوس ہورہی تھی. ان پھولوں کی جداگانہ خوشبوؤں کی لپٹیں اُٹھ اُٹھ کر فضا میں گھلی چلی جارہی تھیں.
وہ میری سانسوں میں عطر عطر سا اترتی چلی جا رہی تھی. میری روح تک اس کی خوشبو سے سرشار ہو چکی تھی. وہ میری نس نس میں اٹھلاتی پھر رہی تھی. میں محسوس کر رہا تھا کہ وہ میرے روئیں روئیں سے جھانک کر مجھے دیکھ رہی تھی. اس کے ہونٹ لرز رہے تھے. اس کے رخساروں کی سرخی مزید بڑھ رہی تھی. شرم سے جھک جانے والی لانبی لانبی پلکیں اس کی کٹورا آنکھوں کی پتلیوں پر عارضی نقاب ڈال رہی تھیں. میں مبہوت سا اسے تکے چلا جارہا تھا. میں بہت مسرور تھا. سرشار تھا. معطر تھا. وہ بھی شادماں دکھائی دے رہی تھی. ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ میری کیفیت سے لطف اندوز ہورہی ہو.
وہ مجھے دیکھ رہی تھی. مسکرا رہی تھی. میرے ذہن میں ریت کے ذرات سے اٹی فضا واضح ہورہی تھی...... تکونی سائے ریت کے ذرات کا پردہ سرکا کر جھانکنے کا جتن کررہے تھے......آگ کی لَپٹیں لہرا رہی تھیں.
میں اس سے کچھ بولنا چاہتا تھا مگر بولنے سے پہلے اس کی آواز کا جادو میری زبان گنگ کئے جارہا تھا. میں چاہتا تھا کہ اس کی طرف قدم بڑھاؤں مگر اس کے حسن کا طلسم میرے پیروں کو جکڑے ہوئے تھا. میں اٹھنا چاہتا تھا لیکن اس کے وجود کا قرب میرے اعصاب پر قابض تھا. میں اسے دیکھے جا رہا تھا. وہ پھولوں سے جھانکتی اپنی کٹورا آنکھوں سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھی. اس کی ہنسی کا جلترنگ میرے کانوں سے دل تک اترتا چلا جارہا تھا.......اور پھر اسی جلترنگ میں مدھم مدھم سی بھنبھناہٹ شامل ہوگئی......چاروں طرف سے وہی بھنبھناہٹ ابھرتی سی محسوس ہوئی.......اور لکڑیوں کے چٹخنے کی آوازیں واضح طور پر سنائی دینے لگیں.......ہمارے چاروں طرف انگاروں کے پھول کھل اٹھے.
اچانک ہی ان پھولوں میں ہلچل سی ہوئی اور وہ میرے سامنے آکھڑی ہوئی. میری سانسیں رک سی گئیں. اس نے میری طرف ہاتھ بڑھا دیا. میں نے اس کے ہاتھ کو دیکھا. مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے روشنی کا ایک ہالہ سا میری طرف بڑھا ہوا ہے. اس کی ہتھیلی پر چاندنی سی روشن روشن کوئی چیز کھِلی ہوئی ہے.
اس نے مٹھی بند کرلی. میرے وجود میں کوئی چیز بجھ سی گئی. میں تڑپ اٹھا. میں پہلو بدل ہی رہا تھا کہ اس نے اپنے یاقوتی لبوں کو جنبش دی.
"آپ کہاں گم ہیں شہزادہ خامون! کچھ فرمائیں کہ جان میں جان آئے."
اس کے ہونٹوں سے پھول جھڑنے لگے.
اس کی آواز کے ساتھ ہی ایک عجیب قسم کی ٹھنڈک میرے کانوں سے ہوتی ہوئی دل تک پہنچنے لگی. میرے اندر کچھ اضطراب سا مچ گیا. مجھے اپنے اندر بڑی گہرائیوں سے کچھ آوازوں کا ایک کَوندا سا لپکتا محسوس ہونے لگا. میرے وجود نے مجھ سے سرگوشی کی.
"اینیکسی......."
اس نام کی مٹھاس میری روح کی گہرائیوں تک پھیلتی چلی گئی.
"اینیکسی"
میرا وجود اس نام سے سرشار ہو کر مچل اٹھا. میرے زبان سے بے ساختہ نکلا.
"اینیکسی...... میری اینیکسی.......میری روح کی گہرائیوں پر قابض اینیکسی! اب تک تم کہاں تھیں؟....... بھلا کوئی روح اپنے جسم کو چھوڑ کر یوں رخصت ہوتی ہے جیسے تم وداع ہوئی تھیں؟ ....... میں نے تم کو کہاں نہیں تلاش کیا؟....... مصر کے سارے اہراموں میں تمہارے کے لئے بھٹکتا رہا....نیل کی گہرائیوں نے میرے منہ سے نکلی تمہارے نام کی پکار سنی...... فرات کے کناروں نے مجھے تمہارے عشق میں دیوانہ وار ادھر ادھر بھاگتے ہوئے دیکھا.......میرے تلوؤں نے تمہاری ایک جھلک کے لئے ریگستانوں کی پیاس بجھا ڈالی..... بابل اور نینوا کی وادیوں کا چپہ چپہ میرے ساتھ مل کر اینیکسی اینیکسی پکارتا رہا...... مگر تم ......تم کو نہ ملنا تھا......نہ ملیں......ہم دونوں کو تو ایک ساتھ حنوط کیا گیا تھا.......ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑرکھا تھا. ہم دونوں کا دوسرا ہاتھ ایک دوسرے کی کمر پر تھا. ہم ایک ہی تابوت میں تھے.. .....ہمارے جسم بھلے دو رہے ہوں.... مگر ہماری روحیں زمین اور آسمان کے کناروں کی طرح ملی ہوئی تھیں.........اس تابوت کو توڑ کر تم کہاں چلی گئیں تھیں اینیکسی.....؟"
"میرے خامون....... میرے شہزادے...... معاف کرنا مجھے.... دراصل میں آپ کو بے جان ہوتے ہوئے دیکھ نہیں سکتی تھی......میں چاہتی تھی کہ آپ کے قدموں میں اپنی روح بچھا دوں...... اور میں نے وہی کیا بھی...... آپ میری تلاش میں بڑی سرعت سے کہیں نکل چکے تھے....... اس لئے مجھ پر آپ کی نظر نہیں پڑ سکی تھی...... اپنی روح کو آپ کے قدموں میں بچھا دینے والا وہ لمحہ بے انتہا مسرور کن تھا. میری روح عجیب قسم کی لذتوں سے سرشار تھی....... اور جب اس سرور کے درمیان آپ کا خیال آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ اپنا جسم چھوڑ کر کہیں رخصت ہو چکے تھے....... اس کے بعد میں خود بھی تو آپ کے لئے دیوانہ وار ادھر ادھر بھٹکتی رہی ہوں..... میں نے بھی آپ کے لئے بہت سارے ملکوں کی سرحدوں کو روندا ہے.......آپ کو کیا لگتا ہے...... آپ کی اینیکسی آپ کے بغیر رہ سکتی ہے شہزادہ خامون؟..... میں نے تو آپ کے لئے اپنا محل...... عیش و آرام..... سب کچھ چھوڑ دیا تھا...... تخت و تاج کو ٹھوکر میں اڑا دیا تھا..... آپ کے بغیر جی لینا کیا مجھ کو زیب دیتا؟ اس وقت جب ہماری روحوں کے اطراف کا ماحول گلنار تھا. میں آپ کے قدموں کی خاک کو اپنے ماتھے پر سجا رہی تھی."
میں نے دیکھا. اینیکسی کی آنکھوں سے دو موتی نیچے ڈھلک آئے. وہ جیسے ہی زمین پر گرے زمین نے سسکاری سی بھری اور ان آنسوؤں کی جگہ دو پودوں کو سجا دیا. ان پودوں میں اینکسی کی آنکھوں کی شباہت کی دو پتیاں کھِل کر مجھے دیکھنے لگیں.
میں تڑپ اٹھا. میرے اندر ایک ہلچل سی مچ گئی. میں اٹھ کھڑا ہوا. میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنی اینیکسی کا ہاتھ تھام لیا. صدیوں بعد اینیکسی کا لمس پاکر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے ہاتھوں میں روئی کا گالہ اور چاند کا ہالہ سا آگیا ہو. ایک عجیب سی لہر میرے ہاتھوں سے گزری اور ذہن و دل پر چھا گئی.
میں نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا. مزید دو موتی ڈھلکنے کو بیتاب تھے. میں نے ٹھنڈی سانس لی. انگلی کی پور سے ان آنسوؤں کو پونچھا.
"جانِ حیات اینیکسی! روتی کیوں ہو تم؟ دیکھو! قدرت نے ہمیں ملا ہی دیا ہے نا....."
میری انگلی کا پور پہلے کافور سا ٹھنڈا ہوا اور پھر گرم ہونے لگا. گرم ہوتا گیا اور کسی انگارے کی مانند جلنے لگا. ہمارے تابوت کے چاروں طرف انگارے دہکتے رہے. لکڑیاں چٹخ چٹخ کر ہماری محبت کی گواہی دیتی رہیں. تکونی سایہ ہمیں گھیرے کھڑے لوگوں کی بھنبھناہٹ سنتا رہا. میں نے اپنی اینیکسی کو دیکھا. اس کی کٹورا آنکھوں میں پیار کا سمندر امڈا آیا تھا. اس نے مچل کر مجھے پوری قوت سے جکڑ لیا...... چاروں طرف دہکتے انگاروں پر اینیکسی کی سانسوں کی گرمی غالب آگئی.
"اینیکسی..... میری جان اینیکسی..."
میں نے اسے سینے سے جکڑ لینے میں اپنی پوری قوت سی صرف کردی. میں اسے شاہانہ ظلم سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنے اندر ہی کہیں چھپا لینا چاہتا تھا..... وہ بھی میرے وجود میں مدغم ہو جانے کو بیتاب تھی....... اسی بیتابی میں اس نے میری ہتھیلی پر کچھ رکھ دیا..... میں نے مٹھی بند کرلی. دہکتے انگاروں کے درمیان میری ہتھیلی ٹھنڈی پڑنے لگی...... ٹھنڈک بڑھتی گئی.... آگ کی لَپٹیں تیز ہوتی گئیں. میرا پورا ہاتھ یخ بستہ ہونے کو تھا. رفتہ رفتہ میرے سارے وجود پر وہی ٹھنڈک غالب آتی چلی گئی.
اینیکسی میری بانہوں میں تھی. میری مٹھی بند تھی. ہم دونوں ایک ہی تابوت میں تھے. تابوت کے چاروں طرف انگارے دہک رہے تھے..... خوفو کے اہرام کے تکونی سائے میں جلائی گئی وہ آگ ہماری محبت کی گواہ تھی. ہم دونوں ایک ساتھ پگھل جانے کو بیتاب تھے....... میری برف ہوتی مُٹھّی سارے وجود کو ٹھنڈا کئے دے رہی تھی.
اچانک ہی کوئی میری مٹھی کھولنے کی کوشش کرنے لگا.
" رامش! یہ تو مُٹّھی میں کیا لئے بیٹھا ہے؟ اتنی ٹھنڈی کیوں ہے تیری مٹھی؟......تیرا پورا ہاتھ ہی برف ہورہا ہے! .....مگر رامش! تجھے تو بڑا تیز بخار ہے یار!"
میں نے خالی خالی نظروں سے بولنے والے کو دیکھا.؟ وہ میرا دوست تھا....... میں نے اینیکسی کو دیکھا...... وہ میری بانہوں میں نہیں تھی..... میرے چاروں طرف ہریالی بچھی ہوئی تھی. اینیکسی گھوڑے کے پاس بھی نہیں تھی. گھوڑا ابھی بھی کسی غلام کی ہی طرح سر جھکائے کھڑا تھا......میں نے بند مٹھی کھولی...... میری ہتھیلی پر چاندنی سی کوئی شئے رکھی ہوئی تھی.....سفید..... خوشبودار......روشن روشن...... ایک پنکھڑی..... گلاب کی سی........
(ختم شد)