غزل
طاہر انجم صدیقی
تمہاری بات آفاقی نہیں ہے
مگر انداز بھی خاکی نہیں ہے
...............................................
ابھی تو چاند نکلا بھی نہیں ہے
ابھی تو رات بھی آدھی نہیں ہے
ق
کوئی جگنو نہ تارہ ہے کہیں پر
ابھی تو روشنی پھیلی نہیں ہے
ق
ابھی ٹھہرو! کہ سانسیں ہم جلائیں
بجز اپنے یہاں کوئی نہیں ہے
زیادہ تجربہ تم کو ہے لیکن
ہماری عمر کم تھوڑی نہیں ہے
تمہاری دشمنی سے رب بچائے
تمہاری دوستی اچھی نہیں ہے
نچھاور جاں کرو جاناں پہ، جانو!
میاں یہ جان بھی مہنگی نہیں ہے
خمار آنکھوں سے ان کی پی گیا ہوں
قسم سے میں نے طاہرؔ پی نہیں ہے
فقیروں میں تلاشو! مِل بھی جاؤں
امیرِ شہر سے یاری نہیں ہے
نہ کیجیے مانگ کر شرمندہ دل کو
کہا نا! میں نے تم کو "جی! نہیں ہے"
چراغاں فتح کا مت کیجئے گا
ہماری سانس ابھی اُکھڑی نہیں ہے
یہ دنیا کاٹنے کو دوڑتی ہے
ہمارے ساتھ جب تو ہی نہیں ہے
غزل کہنے کا فن مشکل بڑا ہے
غزل کہنے میں آسانی نہیں ہے
یہ آزادی بھلا کس کام کی ہے؟
قلم کو میرے آزادی نہیں ہے
چراغ اپنا جلانے میں مزہ کیا؟
اندھیرا بھی نہیں، آندھی نہیں ہے
مخالف رت جگوں کے ہم ہیں لیکن
مہرباں نیند ہم پر ہی نہیں ہے
نئے افلاک اس کو ڈھونڈ لیں گے
وہ اک طائر جو لاہوتی نہیں ہے
مرے کردار زندہ ہیں زمیں پر
کہانی میری اسطوری نہیں ہے
!اگر تم ساتھ ہو میرے تو سمجھو
مری دنیا ابھی اجڑی نہیں ہے
میں اپنی ذات کا مختار ٹھہرا
کسی کھونٹے پہ یہ لٹکی نہیں ہے
!کیلنڈر کی طرح جب چاہو پلٹو
مری تاریخ تو ایسی نہیں ہے
تم اپنی فکر ہی سے پستہ قد ہو
ہماری فکر تو بونی نہیں ہے
مری تہذیب مجھ میں ہے سلامت
مری حرکت کوئی اوچھی نہیں ہے
ترے بارے میں کیا تجھ کو بتائیں؟
ہمیں خود سے ہی آگاہی نہیں ہے
غلط فہمی ہے طاہرؔ یہ سمجھنا
غلط فہمی غلط فہمی نہیں ہے
یہ غزل بھی آپ کے ذوقِ مطالعہ کو دعوت دیتی ہے🔽
No comments:
Post a Comment