جنونِ شوق کا درس دینے والے اسحٰق خضر صاحب!
(از: طاہر انجم صدیقی)
میں نے اپنے بچپن میں شہر مالیگاؤں کی سائزنگوں کی چمنیوں کے اوپری سِروں پر تیر کے نشان اور مرغ کو دیکھا تھا. بڑوں سے معلوم کرنے پر علم ہوا کہ ان دُخانی کھمبوں پر موجود تیر اور مرغ کا رخ جس جانب ہوتا ہے ہوا کا رخ ادھر ہی سمجھنا چاہیے. جب ذرا ہوش سنبھالا اور اردو ادب سے شغف ہوا تو یہ جانا کہ اس تیر اور مرغ کو "باد نما" کہتے ہیں لیکن میں نے ادارۂ نثری ادب میں ایک ایسے چہرے کو بھی دیکھا ہے جس پر ذرا سی درشتگی کے آثار سے افسانہ کہانی یا مضمون پڑھنے والے کے تلفظ کی درستگی کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا. افسوس ہے کہ گزشتہ کچھ برسوں سے وہ چہرہ نثری ادب کی تقریبات سے رفتہ رفتہ روٹھتا ہوا منوں مٹی کے نیچے روپوش ہو چکا ہے.
میرے اور مجھ جیسے کچھ نہ کچھ سیکھ لینے کی تڑپ رکھنے والوں کے لیے وہ چہرہ کسی تلفظ نما سے کم نہیں تھا. اس چہرہ بردار شخصیت کا نام تھا اسحٰق خضر. ان کے چہرے کی لکیروں میں اضافے اور ماتھے کی سلوٹوں میں گہرائی کے سبب بغیر کسی لغت سے رجوع ہوئے علم ہو جاتا تھا کہ جس تلفظ کے ساتھ لفظ کو پڑھا گیا ہے وہ تلفظ غلط ہے.
ظاہر سی بات ہے کہ تلفظ کی اتنی درستگی کچھ یوں ہی تو نہیں آئی ہوگی. ان کا مطالعہ، ان کی محنت اور ان کی اردو سے رغبت کے توسط سے ہی تو ان کے اندر تلفظ نمائی کا خاصّہ پیدا ہوا ہوگا.
اسحٰق خضر صاحب شاعر بھی تھے، مقالے بھی لکھا کرتے تھے، سنجیدہ اور طنز و مزاح پر مشتمل مضامین بھی لکھا کرتے تھے لیکن ایک وقت ایسا آیا کہ انہوں نے افسانے کی جانب بھی توجہ دینے شروع کی تھی. میں نے تو ان کی زبانی افسانچے تک سنے ہیں لیکن جب ایک شعر کے تعلق سے ڈاکٹر اقبال برکی سر نے بتایا کہ یہ اسحاق خضر صاحب کا شعر ہے تو میں نے برملا کہا تھا کہ اگر ان کی شاعری ایسی ہے تو ان کو اشعار کی جانب بھرپور توجہ کی دینی چاہیے. وہ شعر تھا.
جنونِ شوق میں جس سمت بے ارادہ چلے
ہم اپنے قافلے والوں سے کچھ زیادہ چلے
اسحق خضر صاحب کا مشہورِ زمانہ یہ شعر کسی بھی میدانِ عمل میں عمل کے دھنی لوگوں پر صادق آتا ہے. یہ شعر اسحٰق خضر صاحب کو اردو ادب میں بہت دنوں تک زندہ رکھے گا اور صدائے بازگشت بن کر ہمارے اطراف گھومتا رہے گا.
اس شعر کی شانِ نزول کے تعلق سے جاننا چاہیں تو اسحٰق خضر صاحب کے شعری مجموعے "تشنگی رختِ سفر" کے پس ورق پر موجود ڈاکٹر اشفاق انجم صاحب کا یہ اقتباس دیکھا جا سکتا ہے:
"یتیمی اور بے کسی کے دکھ اپنے اندر سمو کر چہرے پر بشاشت اور ہونٹوں پر مسکراہٹ سجانا بڑی جگر کاوی اور حوصلہ مندی کا متقاضی ہے اور یہ حوصلہ اسحٰق خضر صاحب کی شخصیت کا بنیادی جوہر ہے."
ڈاکٹر اشفاق انجم صاحب کی تحریر کا چھوٹا سا یہ اقتباس اسحٰق خضر صاحب کی اسی حوصلہ مندی کا مظہر ہے جو مذکورہ شعر میں جنونِ شوق کا سبب ہے.
چھوٹا سا یہ اقتباس اسحٰق خضر صاحب کی محنتوں، ان کے جنون اور ان کے حوصلوں کی کہانی بیان کررہا ہے. ہم اس کے توسط سے سمجھ سکتے ہیں کہ اسحٰق خضر صاحب نے اپنی تعلیم کن حالات میں مکمل کی ہوگی؟ ان کو تعلیم کے حصول کے درمیان کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہوگا؟ اور انھیں صدر مدرس جیسے عہدے پر فائز ہونے تک کتنی کڑی محنت کرنی پڑی ہوگی؟
غالباً یہی سبب ہے کہ حالات کی بھٹی میں تپ کر کندن بننے والے اسحٰق خضر صاحب نے اپنے مذکورہ شعر میں "جنونِ شوق" کی ترکیب جب استعمال کی ہوگی تو خود پر بیتی اور اپنے حوصلوں کی پختگی یقینی طور پر ان کے سامنے رہی ہوگی. تب انہوں نے یہ مطلع کہا ہوگا:
جنونِ شوق میں جس سمت بے ارادہ چلے
ہم اپنے قافلے والوں سے کچھ زیادہ چلے
یہ سبب ہوگا کہ اپنے شعری مجموعے "تشنگی رختِ سفر" کے سرورق پر انہوں نے جو شعر سجایا تھا وہ شعر
بھی مذکورہ مطلعے کی تشریح کرتا ہوا دکھائی دیتا ہے:
دھوپ جس کی ہمسفر ہو، تشنگی رختِ سفر
اس مسافر کے لیے واماندگی کچھ بھی نہیں
"
ان کے شعری مجموعے" تشنگی رختِ سفر" میں جہاں کہیں حوصلوں اور جنون کی بات ہوتی ہے ان کا جنونِ شوق میں اپنے قافلے والوں سے کچھ زیادہ چلنے والا خیال چپکے سے سر اٹھاتا ہے اور اس شعر کے آس پاس ہی کہیں ڈیرہ جما لیتا ہے. یہ بات غلط محسوس ہوتی ہو تو رختِ سفر کے طور پر پیاس اور دھوپ کو ہمسفر بنا لینے والے، آگے آگے بڑھتے چلتے چلے جانے والے باحوصلہ انسان کو سامنے رکھیں اور اسحٰق خضر صاحب کا یہ مطلع پھر سے پڑھیں:
جنونِ شوق میں جس سمت بے ارادہ چلے
ہم اپنے قافلے والوں سے کچھ زیادہ چلے
اسحٰق خضر صاحب لاتقنطو کا درس بھی جب اپنے شعر میں دیتے ہیں تو ان کا مذکورہ مطلع اس درس کے تعاقب میں چلا آتا یے:
خضر ذرا سی مصیبت پہ ہوش کھو بیٹھے
خدا کی ذات پہ تم کو یقین ہے کہ نہیں
وہ انسان کو مایوس نہ ہونے کا درس دیتے ہوئے جب یہ کہتے ہیں کہ ذرا سی مصیبت پر اپنے ہوش مت کھو بلکہ اپنے رب کی ذات پر یقین رکھ کہ اندھیری رات میں حوصلہ رکھنے والوں کے لیے وہ جگنو ضرور بھیجتا ہے. اس لیے شوق کے جنون میں امید باندھ، اپنے قافلے والوں سے بھی آگے چلتے چلے جانا چاہیے تاکہ اندھیری رات کٹے اور سحر کی سفیدی نئے سورج کی نوید بن کر ابھرے.
غالباً یہی سبب ہے کہ جب اسحٰق خضر صاحب ٹھوکریں کھاکر گرنے والے انسان کو دیکھتے ہیں تو اس کا دامن امیدوں سے یوں بھرنا چاہتے ہیں:
جو ہم گرے کہیں طاقت سمیٹ کر اٹھّے
ہر ایک گام پہ اک حوصلہ تھکن سے ملا
اس مقام پر سوچا جا سکتا ہے کہ تھکن سے چور ہو کر گرنے والا انسان اپنی ہی تھکن سے حوصلہ کب حاصل کر سکے گا؟ اسی وقت حاصل کرسکے گا جب اس کے اندر ایک جنون کا سمندر ٹھاٹھیں ماررہا ہو اور وہ گر کر اٹھنے کے بعد یہ کہنا ضرور جانتا ہو کہ
جنونِ شوق میں جس سمت بے ارادہ چلے
ہم اپنے قافلے والوں سے کچھ زیادہ چلے
ایسے انسان کے سامنے حالات بہت ہی کٹھن ہوں، اور بقول اسحٰق خضر صاحب!
کہیں لہو لہو زمیں، کہیں دھواں دھواں فلک
عذاب ہیں نئے نئے پہ جان سخت ہے وہی
وہ عزم کی ایک چٹان بن کر ان کے سامنے ڈٹا ہوا ہو اور آگے بڑھنا جانتا ہو. یہ کہنے کے لیے کہ ضرورآگے بڑھنا چاہتا ہو کہ
جنونِ شوق میں جس سمت بے ارادہ چلے
ہم اپنے قافلے والوں سے کچھ زیادہ چلے
اسی لیے اسحق خضر صاحب! انسان کے دل میں عزم کا چراغ جلائے رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے شعر میں صاف طور پر کہتے ہیں
آندھیاں لاکھ مصائب کی چلا کرتی ہیں
عزمِ محکم کو مگر دل سے مٹایا نہ گیا
اب آپ ہی سوچیں کہ کون بھلا اپنے دل سے عزمِ محکم کو مٹنے نہیں دے گا؟ وہی جو جنونِ شوق میں ایک سمت نکل پڑا ہو اور اپنے قافلے والوں سے تھوڑا زیادہ چلنا جانتا ہو کیونکہ بقول اے پی جے عبدالکلام انتظار کرنے والوں کو بس اتنا ہی ملتا ہے جتنا کوشش کرنے والے چھوڑ دیتے ہیں.
آج کے لیے بس اتنا ہی...... بقیہ باتیں پھر کسی اور وقت کے اٹھا رکھتے ہیں اور ابھی ہمارے دلوں میں اپنی یادوں کے چراغ روشن کر جانے والے اسحٰق خضر صاحب کے لیے دعائیں کرلیتے ہیں کہ رختِ سفر میں ہمارے طرف سے کچھ تحائف بھی زادِ راہ ہوں..
No comments:
Post a Comment