Translate ترجمہ

Tuesday, January 16, 2024

منوررانا شعری موضوعات کے آئینے میں

منورراناؔ
شعری موضوعات کے آئینے میں

طاهر انجم صديقی

(مالیگاؤں9371556600)

 

 

         ’’غزل لغوی معنی کے اعتبار سے بھلے ہی عورتوں سے باتیں کرنے کا نام ہو مگر وقت کی رفتار اور زمانے کی کروٹوں نے اسے ممختلف موضوعات کا لبادہ مرحمت فرما کر اس کے دامنِ تنگ کو اتنی وسعت عطا کر دی ہے کہ آج غزل میں ہر طرح کے مضمون کو پیش کرنے کی گنجائش ہے۔‘‘                                                              ( تاریخ اردو ادب صفحہ۳)

       حالانکہ آج بھی حسن و عشق کے معاملات کے بیان کرنے والے کو قابلِ گردن زدنی نہیں سمجھا جاتا اور نہ ہی صنفِ نازک سے متعلقہ دیگر موضوعات کو غزل بدر جانا جاتا ہے بلکہ صرف ان موضوعات تک ہی نظر کو محدود رکھ کر زندگی کے لئے حقائق سے نظریں چرانے کو قابل تحسین نہیں سمجھا جاتا۔ یہی سبب ہے کہ نئی غزل کے شعراء نے زندگی میں بکھرے پڑے چھوٹے بڑے انگنت حقائق کو اپنے کلام میں جگہ دے کر غزل کی حیاتِ جاوداں کے لئے اہم کام کیا ہے. شاید وہ جانتے ہوں کہ فن وہی زندہ رہتا ہے جس کے فنکار وقت اور حالات کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے اس میں ترمیم و اضافہ کرتے رہتے ہیں۔

       نئی غزل کے ایسے ہی ایک فنکار تھے منور راناؔ، جو کلکتہ کے ہونے کے باوجود پورے ہندوستان بلکہ اردو کی نئی پرانی تمام بستیوں میں اپنے کلام کی انفرادیت سے پہنچانے جاتے رہیں گے۔ انہوں نے اپنے کلام کے متعلق یوں عرض کیا تھا کہ

جو پڑھ سکو تو پڑھو آنسوؤں کی تحریریں

میں داستان جوانی نہیں سناتا ہوں

       وہ آنسوؤں کی تحریریں ہمارے سامنے یوں پیش کرتے تھے کہ بات دل کی گہرائیوں میں اترتی محسوس ہوتی تھی اور یوں لگتا تھا جیسے ان کے اشعار کی انگلیاں ہمارے محسوسات کو ٹٹول رہی ہیں اور ان کے افکار کے ہاتھ ہمارے ذہن و دل پر ایک عجیب سا جادو کر رہے ہیں.

      اہم نکتہ یہ ہے کہ ایسا کرنے کے لئے نہ وہ بے معنی علامات کا استعمال کرتے تھے، نہ ہی غیر واضح الفاظ کا، نہ ہی بے سر و پا تراکیب کا سہارا لیتے تھے اور نہ ہی مبہم استعارات کا۔ ان کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہ بہت ہی سادہ انداز اور نہایت ہی آسان زبان میں شعر کہتے تھے اور سامرسٹ مام کی اس میزان پر کھرے اترتے تھے:

         ’’اُن چیزوں کے بارے میں جنھیں تم جانتے ہو، اتنی سادہ زبان استعمال کرو جتنی تم میں ہو.‘‘

         منورراناؔ کے کلام کے مطالعہ کے دوران اس بات کا شدت سے احساس ہوتا ہے کہ وہ اپنے ماضی الضمیر کی ادائیگی کے لئے قابلِ فہم اور سلیس زبان استعمال کر کے بڑی سے بڑی ، چھوٹی سے چھوٹی، واضح سے واضح اور الجھی سے الجھی بات بھی نہایت ہی آسانی اور روانی سے ہم تک پہنچا دیتے تھے ۔ یہ ان کے کلام کی بلاغت کا واضح اور بڑا ثبوت ہے۔ مثلاً۔

سب اوڑھ لیں گے مٹی کی چادر کو ایک دن

دنیا کا ہر چراغ ہوا کی نظر میں ہے

       منور راناؔ کے کلام میں جہاں دل کے محسوسات لفظوں کی شکل میں آشکار ہوتےہیں، وہیں فطرت کا تذکرہ بھی چھپا ملتا ہے۔ اگر انہوں نے اپنے اشعار میں انسانی انا اور خودداری کا ذکر کیا ہے تو انسان کے ٹوٹ بکھرنے کا تذکرہ بھی ان کے کلام میں ملتا ہے۔ ان کا کلام اگر آدمی کے وقار کی داستان سناتا ہے تو اس کے ذلیل و خوار ہونے کا افسانۂ عبرت بھی بیان کرتا ہے۔ مثالیں دیکھیں:

جب ان کا سامنا ہوا کچھ بھی رہا نہ یاد

ویسے کئی سوال مِرے من میں آئے تھے

 

بہت پانی برستا ہے تو مٹی بیٹھ جاتی ہے

نہ رویا کر بہت رونے سے چھاتی بیٹھ جاتی ہے

چمک یوں ہی نہیں آتی ہے خودداری کے چہرے پر

انا کو میں نے دو دو وقت کا فاقہ کرایا ہے

 

میں پٹریوں کی طرح زمین پر پڑا رہا

سینے سے غم گزرتے رہے ریل کی طرح

       ان کے اشعار میں عام بول چال میں استعمال ہونے والے الفاظ، محاورے اور کہاوتوں کی موجودگی ان کی کشادہ ذہنی اور کشادہ قلبی کا ثبوت مہیا کرتی ہے اور ہم یہ محسوس کئے بغیر نہیں رہتے کہ وہ بالکل عامیانہ الفاظ اور عام باتیں بھی بغیر کسی جھجھک اور بڑی بے تکلفی سے استعمال کرتے تھے۔ ذیل کے اشعار اس بات کا ثبوت ہیں. دیکھیں:

ہر چہرے میں آتا ہے نظر ایک ہی چہرہ

لگتا ہے کوئی میری نظر باندھے ہوئے ہے

 

گوالے دورہ پر حصہ ہمارا بھی لگتا ہے

کئی صدیوں سے ہم بھی گائے کا گوبر اٹھاتے ہیں

 

پریشانی کا موسم بھی بہت دلچسپ موسم ہے

مرے چہرے کو لوگوں نے غموں کا پوسٹر جانا

 

لڑکپن میں کئے وعدے کی کچھ قیمت نہیں ہوتی

انگوٹھی ہاتھ میں رہتی ہے منگنی ٹوٹ جاتی ہے

 

 ایرے غیر لوگ بھی پڑھنے لگے ہیں ان دنوں

آپ کو عورت نہیں اخبار ہونا چاہیے

       منور راناؔ کا عام لفظوں کو برتنے کا ڈھنگ اور رنگ دیکھ کر ہم ان لفظوں کے عمومی ہونے کی بات بھول جاتے ہیں۔

      ان کے اشعار میں مفلسی خاص طور پر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے۔ وہ اپنے کلام میں مفلسی و ناداری کے عجیب عجیب مناظر ہماری بصیرتوں اور بصارتوں کے سامنے اجاگر کرتے تھے ۔ ان مناظر کو دیکھ کر اگر ہماری آنکھوں سے آنسو نہیں ٹپکتے ، ہونٹوں سے سرد آہ نہیں نکلتی تو دل میں مسرت و شادمانی کے جذبات سرد ضرور پڑجاتے ہیں اور ہم منور راناؔ کے لفظوں کی بدولت مفلس ونادار لوگوں کے درد کو اپنے دل کے حساس گوشوں میں موجود پاتے ہیں۔ ان باتوں کے استدلال کے لئے ان  کے یہ اشعار دیکھیں اور اپنی دلی کیفیات پر نظر رکھ کر انھیں سرد آنہوں یا ٹھنڈی سانسوں سے داد دیں۔

پیٹ کے خاطرفٹ پاتھوں بیچ رہا ہوں تصویریں

میں کیا جانوں روزہ ہے یا میرا روزہ ٹوٹ گیا

 

ہم خانہ بدوشوں کی طرح گھر میں رہے ہیں

کمرے نے ہمارے کبھی شیشم نہیں دیکھا

 

اے خدا پھول سے بچوں کی حفاظت کرن

مفلسی چاہ رہی ہے مِرے گھر میں رہنا

 

اے خدا تو فیس کے پیسے عطا کردے مجھے

میرے بچوں کو بھی یونیورسٹی اچھی لگی

       ان کے مجموعۂ کلام "کہو ظلِ الٰہی سے" میں غربت پر بہت سے اشعارکی موجودگی سے محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے مفلسی و ناداری کے وار سہے تھے. غربت کے مصائب برداشت کئے تھے۔ فاقوں سے گزرے تھے اور حقیقتاً بھی ایسا ہی ہے کہ مفلسی و ناداری میں خود انہوں نے اپنی ماں کو بھوکے پیٹ سوتے دیکھا ہے۔ غالباً یہی وجہ ہے کہ ان کے یہاں مفلسی ایک کرب آمیز نئے بن کر سامنے آتی ہے۔

مفلسی مجھ سے یہ کہتی ہے منور ؔصاحب !

جیب خالی ہو تو میلے میں بھی مت جانا

 

میں ہوں مِرابچہ ہے کھلونوں کی دوکاں ہے

 اب کوئی میرے پاس بہانہ بھی نہیں ہے

 

 میرے بچے نامرادی میں جواں بھی ہو گئے

 میری خواہش صرف بازاروں کو تکتی رہ گئی

         ان کے غربت و مفلسی پر مشتمل اشعار پڑھ کر ان کی شاعری کے تجرباتی ہونے کا اعتراف کرتے ہی بنتا ہے کیونکہ پہاڑوں کے کھردرے پن کو اختیار وہی کر سکتا ہے جس نے غربت کے کوہساروں کے درمیان کافی وقت گزارا ہو۔ جس نے خود بھی ٹھوکریں کھائی ہوں اور دوسروں کوزخمی ہوتے ہوئے بھی دیکھا ہو۔ یہی سبب ہے کہ منور راناؔ نے اپنے کلام میں غربت کے کھردرے پن کا اظہار بار ہا گیا ہے ۔  ان کے مجموعۂ کلام کے مطالعہ کے دوران ایک پہلو یہ بھی اجاگر ہوتا ہے کہ اتنی مفلسی و پریشانی اور مشکلات کے باوجود بھی غریب لوگ احساسِ کمتری کا شکار نہیں ہوتے ۔ نہ ہی ان کے دلوں میں مایوسی اپنا گھر بناتی ہے۔

اللہ غریبوں کا مددگار ہے راناؔ

ہم لوگوں کے بچے کبھی سردی نہیں کھاتے

 

خوش رہتا ہے وہ اپنی غریبی میں ہمیشہ

رانا کبھی شاہوں کی غلامی نہیں کرتے

میں فقیری میں بھی سکندر ہوں

مجھ پر دولت کا مت اثر ڈالو

         اس قبیل کے اشعار کو پڑھ کر یہ خاص بات بھی واضح ہوتی ہے کہ منورراناؔ نام کا شاعر بھلے ہی کسی ٹرانسپورٹ کا مالک ہو مگر اس کا دل آج بھی غریب ہے اورغریبوں کے لئے دھڑکنا بھی جانتا ہے۔ 

منور راناؔ کے کلام میں تیسری بات جو شدت سے اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے وہ ہے انسانی رشتوں کا ذکر اور خاص طور پر ماں کا تذکرہ۔ کیونکہ ماں کی ممتا، اس کی محبت ، اس کی عظمت کا بیان وہ مختلف زاویوں سے کرتے تھے۔

لبوں پہ اس کے کبھی بددعا نہیں ہوتی

بس ایک ماں ہے جو مجھ سے خفا نہیں ہوتی

کھانے کی چیزیں ماں نے جو بھیجی ہیں گاؤں سے

باسی بھی ہوگئی ہیں تو لذت و ہی رہی

         ان کے اشعار میں جہاں بھی ماں کا تذکرہ ملتا ہے۔ وہاں وہ بہت زیادہ جذباتی ہو جاتے تھے۔

یاروں کو مسرت مِری دولت پہ ہے لیکن

 اک ماں ہے جو بس میری خوشی دیکھ کے خوش ہے

 دیکھئے ماں کی عظمت کا ذکر وہ کتنے معصومانہ انداز سے کرتے تھے!

 اے اندھیرے دیکھ لے منہ تیرا کالا ہو گیا

 ماں نے آنکھیں کھول دیں گھر میں اجالا ہو گیا

 

تیرے دامن میں ستارے ہیں تو ہوں گے اے فلک

 مجھ کو اپنی ماں کی میلی اوڑھنی اچھی لگی

 

میں نے کل شب چاہتوں کی سب کتا ہیں پھاڑ دیں

 صرف اک کا نغذ پہ لکھا لفظ ماں رہنے دیا

         ان پر اسی قسم کی شاعری کی وجہ سے اپنے قاری کے جذباتی استحصال کا الزام عائد کیا جاتا ہے لیکن یہ محض الزام ہی ہے ۔انصاف نہیں ہے کیونکہ جب خدا سےجذباتی وابستگی ہوتی ہے تو حمد و مناجات کی تخلیق ہوتی ہے۔ رسول کریم صل اللہ تعالی علیہ وسلم سے دلی لگاؤ پر نعت موزوں ہوتی ہے۔ امراء وشاہوں کی جانب نظر جھکتی ہے تو قصائد وجود میں آتے ہیں اور محبوب سے جذباتی وابستگی پر تغزل بھری غزلیں سامنے آتی ہے۔ غرض کہ بغیر جذباتی وابستگی کے شعرِ احسن کا موزوں ہونا محال ہے۔  اس لئے منور راناؔ اپنے اشعار میں یوں حسن پیدا کرتے دکائی دیتے ہیں. :

 یہی گھر تھا جہاں مل جل کے سب ایک ساتھ رہتے تھے

 یہی گھر ہے الگ بھائی کی افطاری نکلتی ہے

 

اب مجھے اپنے حریفوں سے ذرا بھی ڈر نہیں

 میرے کپڑے بھائیوں کے جسم پر آنے لگے

 

کانٹوں سے بچ گیا تھا مگر پھول چڑھ گیا

 میرے بدن میں بھائی کا ترشول چڑھ گیا

         بہنوں کا تذکرہ ان کے اشعار میں یوں ملتا ہے:

 جب یہ سنا کہ ہار کے لوٹا ہوں جنگ سے

 راکھی زمیں پہ پھینک کے بہنیں چلی گئیں

         اگر منور رانا ؔکی غزلوں پر ایک طائرانہ نگاہ ڈالی جائے تو یہ بات نظروں میں آئے بغیر نہیں رہتی کہ وہ بچین اور بچوں کا ذکر بڑے ہی معصومانہ، متاثرانہ اور فنگارانہ انداز سے کرتے تھےاور اس بات کا شدت سے احساس دلا جاتے تھے کہ بچپن کی یادیں ان کے لئے کسی خزانے سے کم نہیں ہیں۔ دیکھئے :

نیم کا پیڑ تھا، برسات تھی اور جھولا تھا

 گاؤں میں گزرا زمانہ بھی غزل جیسا تھا

 

انہیں اپنی ضرورت کے ٹھکانے یا درہتے ہیں

کہاں پر ہے کھلونوں کی دوکان بچے سمجھتے ہیں

         مفلسی وناداری ، انسانی رشتوں ، بزرگوں اور بچوں کے ذکر کے علاوہ منور راناؔ حسن و عشق کے معاملات کا بھی بیان کرتے تھے لیکن ان کے بیان میں پھوہڑپن نہیں ہوتا تھا اور نہ ہی وہ ذہنی عیاشی کرتے دکھائی دیتے تھے بلکہ وہ ایک عجیب سے رکھ رکھاؤ اور وقار کے ساتھ اپنے محبوب کا تذکرہ کرتے تھے۔ دیکھیں:

کبھی خوشی سے خوشی کی طرف نہیں دیکھا

تمہارے بعد کسی کی طرف نہیں دیکھا

یہ سوچ کر کہ تیرا انتظار لازم ہے

تمام عمر گھڑی کی طرف نہیں دیکھا

         حسن کی بارگاہ سے خراج حاصل کرنے کی غرض سے اشعاربھی منورراناؔ کے یہاں ملتے ہیں مگر ان میں ایک دھیمی سی آنچ ہوتی ہے۔ ایک مدّھم سی لے ہوتی ہے اور اپنے محبوب کے وقار کو ٹھیس پہنچائے بغیر وہ اشعار کو ہمارے سامنے یوں پیش کرتے تھے:

میرے کمرے میں اندھیرا نہیں رہنے دیتا

آپ کا غم مجھے تنہا نہیں رہنے دیا

 

پھر ایک امتحاں سے گزرا ہے عشق کو

رونا ہے اور آنکھوں کو مَیلا کئے بغیر

 

تمہارے خوابوں سے آنکھیں مہکتی رہتی ہیں

تمہاری یادوں سے دل زعفران رہتا ہے

 

اس ڈرسے کہ دنیا کہیں پہچان نہ جائے

محفل میں کبھی اس کو مسلسل نہیں دیکھا

 

ہمی اکیلے نہیں جاگتے ہیں راتوں کو

اسے بھی نیند بڑی مشکلوں سے آتی ہے

         وہ اپنے اشعار میں محبوب کی جدائی کا ذکر کرتے ہوئے بھی اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ تہذیب کا دامن تھامے رہتے ہیں اور محبوب کے وقار کو عزیز رکھتے ہوئے اپنے اشعار تخلیق کرتے تھے:

میں جس کے واسطے جلتا رہا دینے کی طرح

 اسی نے چھوڑ دیا مجھ کو حاشیے کی طرح

 

کسی کا پوچھنا! کب تک ہماری راہ دیکھو گے

 ہمارا فیصلہ! جب تک کہ یہ بینائی رہتی ہے

 

بس اتنی مختصر ہے بچھڑنے کی داستاں

 آنچل تھے اور سر سے الگ کر دیئے گئے

 

راستہ تکنے میں آنکھیں بھی گنوا دیں راناؔ

 پھر بھی محروم رہے آپ کے دیدار سے ہم

         زندگی کی محبت بھری ٹھوکروں کی داستان مرتب کرتے کرتے منورراناؔ اپنے وطن کے حالات بھی بیان کرتے تھے:

محبت روز پتھر سے ہمیں انساں بناتی ہے

تعصب روز ان آنکھوں پر پردہ ڈال جاتا ہے

 

بڑا گہرا تعلق ہے سیاست سے تباہی کا

کوئی بھی شہر جاتا ہے تودلّی مسکراتی ہے

 

طوائف کی طرح اپنی  غلط کاری کے چہرےپر

حکومت مندر و مسجد کا پردہ ڈال دیتی ہے

         منور رانا کے اشعار میں شہر اور گاؤں کا ذکر بھی ملتاہے۔ وہ اکثر گاؤں کا ذکر بڑے لگاؤ کے ساتھ کرتے تھے اور بسا اوقات وہ شہر کی رنگین زندگی کو گاؤں کی سادگی کے سامنے ہیچ بتاتے ہیں۔ اس کا سبب صرف یہ ہے کہ خود ان کا بچپن گاؤں میں گزرا تھا۔ ان کی معصوم آنکھوں نے خود گاؤں کے سادہ لوگوں کا رہن سہن دیکھا تھا۔ ان کے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں نے گاؤں میں گھروندے بنائے ہیں۔ تب ہی تو وہ گاؤں اور گاؤں والوں کے تعلق سے ذیل جیسے اشعار موزوں کر گئے ہیں:

 تمہارے شہر کی یہ رونقیں اچھی نہیں لگتیں

ہمیں جب گاؤں کے کچے گھروں کی یاد آتی ہے

 

خدا کے واسطے اے بےضمیری گاؤں مت آنا

 یہاں بھی لوگ مرتے ہیں مگر کردار زندہ ہے

 

 تمہارے شہر میں میّت کو سب کا ندھانہیں دیتے

ہمارے گاؤں میں چھپّر بھی سب مل کر اٹھاتے ہیں

         ان کے یہاں دشمنی اور دوستی پر کہے گئے اشعار میں انسانی نفسیات کا عنصر بھی شامل ملتا ہے۔ مثلا ذیل کے چند اشعار دیکھیئے :

وہ دشمن ہی ہی آواز دے اس کو محبت سے

 سلیقے سے بِٹھا کر دیکھ ہڈّی بیٹھ جاتی ہے

 

اگرحریفوں میں ہوتا توبچ بھی سکتا تھا

بُرا کیا جو اسے دوستوں میں چھوڑ آئے

 

تم بہادر ہو بہت راناؔ ہمیں تسلیم ہے

کیا کرو گے پاؤں پر دشمن اگر گر جائے گا؟

 

 ہمارے ہاتھ میں تلوار بھی ہے موقع بھی

 مگر گرے ہوئے دشمن پہ وار کیا کرنا؟

 

 یہ حوصلہ ہے جو مجھ سے عقاب ڈرتے ہیں

وگر نہ گوشت کہاں بال و پر کے نیچے ہے

 

 ہم توقع سے زیادہ سخت جاں ثابت ہوئے

وہ سمجھتا تھا کہ پتّھر سے ثمر کر جائے گا

         ہمت اور حوصلوں کے ساتھ ہی منورراناؔ انسان کی خود داری اور انا کو بھی اپنے اشعار کا موضوع بناتے تھے۔ نیز انسانی ظرف کی باتیں بھی وہ بڑے فنکارانہ انداز سے ہم تک پہنچا گئے ہیں۔ دیکھیں:

 ہمارے پاؤں میں کانٹے چبھے ہوئے تھے مگر

 کبھی سفر میں شکایت نہ ہمسفر سے ہوئی

 

شکم کی آگ میں جلنے دیا نہ عزت کو

 کسی نے پوچھ لیا تو خلال کرنے لگے

 

جن سے ملتے ہوئے توہین ہو خودداری کی

 ایسے بے فیض امیروں کی طرف کیا دیکھیں؟

 

میں نہتّوں پہ کبھی وار نہیں کرتا ہوں

میرے دشمن تِری تلوار نہ گرنے پائے

 

میرے اجداد قائل ہی نہیں تھے خود پرستی کے

 کہ عالم ہو کے بھی اپنے کو علامہ نہیں لکھتا

         منور راناؔ کی غزلوں میں اسلام، اسلامی تواریخ کے مختلف روشن ابواب بھی استعار ہ اورکبھی تلمیح بن کر لہو کی گردش کو تیز کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ دیکھیں:

اس قوم کو تلوار سے ڈر ہی نہیں لگتا

 تم نے کبھی زنجیر کا ماتم نہیں دیکھا

 

کہیں بے نور نہ ہو جائیں وہ بوڑھی آنکھیں

 گھر میں ڈرتے تھے خبر بھی مرے بھائی دیتے

 

کسی کے پاس آتے ہیں تو دریا سوکھ جاتے ہیں

 کسی کی ایڑیوں سے ریت میں چشمہ نکلتا ہے

         یہ تو وہ موضوعات ہیں جن پر منور رانا ؔاکثر و بیشتر اپنے فن کی بنیاد رکھا کرتے ہیں لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ دیگر موضوعات کو برتنا ہی نہیں جانتے بلکہ وہ نیکی، بدی، مزدور، اجرت، کنگن، چوڑی، گلشن، پھول تتلی، گھر سفر باڑائی ، سرحد ، اسکول، جنگل، دھوپ عورت اوردرخت، کھنڈر، زندگی، موت ،لشکر سمندر، ضرورت، زمینداری، قتل، صحرا ، شہرت، مسجد، مندر، موسم ، آنگن غرض کہ بے شمار موضوعات پر شعر کہتے ہیں لوگوں نے خومخواہ انھیں ماں اور بہنوں کا شاعر بنا کر رکھ دیا ورنہ ان کے کلام کو پڑھ کر ہم اس میں موجود موضوعات کی رنگا رنگی کو محسوس کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ وہ جس موضوع کو بھی برتیں اس کا حق ضرور ادا کرتے تھے۔ نیز اس ادائیگی میں وہ اپنے فن کی خوبیوں کو بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ مثال کے لئے ہم ان کا ایک موضوع "پرندہ" منتخب کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ وہ اس کا حق کسی طرح ادا کرتے ہیں۔ ان کا ایک شعر دیکھئے:

کسی بھی شاخ پہ اک گھونسلے کی چاہت میں

تمام عمر پرندہ گزار دیتا ہے

         پرندوں کی نفسیات کا ایک پہلو ہیکہ دو دو چار آشیانے نہیں بناتے بلکہ اپنے ایک اور چھوٹے سے آشیانے میں مسرور رہتے ہیں۔ دوسرا شعر دیکھیں :

 وہ چڑیاں تھیں دعائیں پڑھ کے جو مجھ کو جگاتی تھیں

 میں اکثر سوچتا تھا یہ تلاوت کون کرتا ہے

         پرندوں کی صبح کے وقت ایک ساتھ چہچہانے کی فطرت کے ساتھ منور راناؔ نے صبح کے وقت پرندوں اور خاص طور پر چڑیوں کی خدا کی حمد وثنا کے خیال کو ملا کر بڑے ہی اچھے انداز سےبیان کیا ہے۔

اس موضوع پر ان کا تیسر ا شعر دیکھئے:

پرندے چونچ میں تنکے دبائے جاتے ہیں

میں سوچتا ہوں کی اب گھر بسا لیا جائے

         پرندوں کی تکالیف اُٹھا اُٹھا کرتنکا تنکا جمع کر کے اپنا آشیانہ بنانے کی عادت کا تذکرہ کر کے منور راناؔ نے کاہل اور مجرد زندگی گزارنے والوں کو شرم دلائی ہے کہ یہ بچارے بے زبان پرندے اپنے خاندان کے لئے کتنی تکالیف اٹھاتے ہیں اور انسان جسے خدا نے دنیا میں اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہے، قانونِ فطرت کی خلاف ورزی کر کے خود کو ان پرندوں سے بدتر بنا لیتا ہے۔

         منورراناؔ عام طور پر پرندوں کی آڑ میں انسانی کیفیات ، نفسیات اور حرکات و عادات کا بیان بہت ہی سلیقے سے کرتے تھے۔ اس بات کی دلیل ان اشعار سےبہ آسانی مل جاتی ہے۔ دیکھیں:

گفتگو فون پہ ہو جاتی ہے راناؔ صاحب

 اب کسی چھت پر کبوتر نہیں پھینکا جاتا

 

آنکھوں میں کوئی خواب سنہرا نہیں آتا

 اس جھیل پہ اب کوئی پرندہ نہیں آتا

 

نئے کمرے میں اب چیزیں پرانی کون رکھتا ہے ؟

پرندوں کے لئے شہروں میں پانی کون رکھتا ہے؟

 

ہم پرندوں کی طرح صبح سے دانے کے لئے

 گھر سے چل پڑتے ہیں کچھ پیسے کمانے کے لئے

         ان کی غزلوں میں اس قسم کے اور بہت سے اشعار مل جاتے ہیں ۔ جن میں وہ پرندوں کی باتیں بیان کر کے انسانی حالات بھی بیان کر جاتے ہیں اور فن کی ڈور برابر تھامے رکھتے ہیں۔

         جن موضوعات پر منور راناؔ کے اشعار کے حوالے سے بات کی گئی ہے ان پر انہوں نے اکثر اشعار کہے ہیں مگر اتنے جداگانہ انداز اور زاویوں سے اشعار تخلیق کئے ہیں کہ تکرار کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔

         اگر ایک فنکار دنیا جہان کی زمین آسمان کی، جنگل گلستان کی باتیں کرتا ہے تو اردو ادب اسے اتناحق بھی دیتا کہ وہ اپنے اور اپنے فن کے تعلق سے بھی لب کشائی کر سکے۔ شاید اسی لئے منور راناؔ نے اپنے اور اپنے فن کے تعلق سے بھی اشعار موزوں کئے تھے ہیں۔دیکھیں:

 خوشامد، چاپلوی اور مکاری نہیں لاتے

 ہم اپنے شعر میں الفاظ درباری نہیں لاتے

 

بھروسہ ہے ہمیں اپنے ہنر پر اس لئے ہم نے

 ہمیشہ نام ہی لکھّا نسب نامہ نہیں لکھّا


عیب جوئی سے اگر فرصت ملے تو دیکھنا

دوستو! کچھ خوبیاں بھی حضرتِ راناؔ میں ہے

         منور راناؔ کے صرف مشاعروں کی دنیا کے شاعر ہونے کی حقیقت سے قطع نظر اس بات کا احساس ان کے کلام سے ہو ہی جاتا ہے کہ وہ ایک ایسے فنکار تھے جن

کے فن کی جڑیں ماضی میں پیوست ، شاخیں حال میں پھیلی اور سائے مستقبل تک پہنچتے دکھائی دیتے ہیں۔

 

 

Tahir Anjum Siddiqui

31, Asnarganj, Malegaon Dist.Nasik

423203 (MS)

Mob.: 9371556600

Email: tahiranjumsiddiqui@gmail.com

8 comments:

  1. عمدہ خراج - بہترین مضمون

    ReplyDelete
  2. ماشاء اللہ,طاہر بھائی بہت تفصیلی اور متاثر کن مضمون قلم بند کیا ہے .منور رانا بھلے ہی تا حیات مشاعروں سے وابستہ رہے, مگر مرحوم کے یہاں کاغذ کے سہارے اظہار کا ذریعہ بننے والی اثر دار شاعری کی کمی نہیں ہے.
    مرحوم کا یہ شعر بھی اپنے أپ میں حقیقت لئے ہوئے ہے..
    کسی کی مستقل سانسیں وفا داری نہیں کرتی
    تمہارا ساتھ بھی اک دن زرینہ چھوٹ جائے گا
    بہت خوب عمدہ خراج عقیدت پیش کی ہے. بہت بہت مبارک باد..

    ReplyDelete
  3. بہترین مضمون
    میرا بھی یہی ماننا ہے کہ وہ غزل کے ایک بہترین شاعر تھے

    ReplyDelete