فریم کے باہر
(طاہر انجم صدیقی)
باہر ہوائیں شور مچاتی ہوئی پھر رہی تھیں. دھرتی پر اندھیرا پاؤں پسارنے کی کوشش میں تھا. گھنی اور کالی کالی بدلیوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا. ساری فضا گرد و غبار سے اٹی پڑی تھی. ہوائیں شور مچاتی ہوئی ہال کی باہری دیواروں اور کھڑکیوں کے شیشوں سے سر ٹکرا رہی تھیں. ہال کے اندر آویزاں ایک فریم کے شیشے کے اندر سے وہ بائیں طرف دیکھ رہا تھا لیکن فریم کے باہر وہ بڑی تیز آواز سے ہنس رہا تھا ۔ اس کی ہنسی میں ایک عجیب قسم کا زہر سا ملا ہوا تھا ۔ اور وہ زہر خندی کے ساتھ ہنستا جا رہا تھا ۔ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنی ہنسی کےذریعے کسی کا بری طرح مذاق اڑا رہا ہو ۔۔۔۔اُسے اپنی ہنسی سے بری طرح ذلیل کر رہا ہو۔۔۔۔اور اپنے مقابل شخص کو بالکل ہی حقیر سمجھ کر ہنس رہا ہو.اس کی زہر آلود ہنسی مکمل انتقام بن کر ہال میں گونج رہی تھی.وہ ہال بڑا وسیع تھا۔۔۔۔ہال کے اندر ساگوان کی لکڑیوں سے بنی ڈھیر ساری نشستیں قوس کے سے انداز میں سجی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ نشستوں کے سامنے ایک میز سی بنائی گئی تھی. ہر میز پر مائک رکھا ہوا. تھا۔۔۔.نشستوں کا قوس جس سمت مڑتا تھا اُدھر ایک اسٹیج سا بنا ہوا تھا ۔۔۔۔اسٹیج پر بڑی خوبصورت اور اونچی نشست بنائی گئی تھی. اس کے سامنے رکھی میز پر بھی ایک مائک موجود تھا. ۔۔۔۔اسٹیج پر کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔اور نہ ہی قوس کے سے انداز میں سجائی گئی نشستوں کی قطاروں میں کوئی نظر آ رہا تھا۔ایسا لگتا تھا جیسے ان نشستوں ، اسٹیج اور ڈائس پر صرف اور صرف اس زہر خند ہنسی کا ہی قبضہ ہو ۔۔۔۔اور تمام جگہوں سے وہی ہنسی صدائے باز گشت بن کر ہال کی دیواروں سے کھیل رہی ہو.باہر کا شور اور اندھیرا اسی بازگشت کے ساتھ مل کر اندر دندناتے پھرنے کی خاطر دیواروں اور کھڑکیوں کے شیشوں سے سر ٹکراتا پھر رہا تھا.اچانک ہی ہنسی کی آوازوں نے ہال کی دیواروں اور کرسیوں سے ٹکرا ٹکرا کر دم توڑ دیا ۔۔۔۔اور ایک آواز ابھری.”کیا بات ہے؟۔۔۔۔اتناکیوں ہنس رہے ہو تم اور کس بات پر ہنسے جارہے ہو؟“نئی لیکن باوقار آواز نے سوال کیا۔ جواب میں ہنسنے والی آواز نے بولنا شروع کیا.”میں ؟۔۔۔۔میں ہنس رہا ہوں تو صرف اس لئے کہ تم نے میری بہت مخالفت کی ۔۔۔۔ مجھے ہزار روکنا چاہا ۔۔۔۔ میرے راستے میں لاکھ رکاوٹیں ڈالیں ۔۔۔۔مگر دیکھو میں رکا نہیں اور آ ۔۔۔۔"" نہیں..... میں نے تم کو روکنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ورنہ تم ماضی کے کسی کونے کھدرے میں ہی رینگ رہے ہوتے..... میں تو بس اپنی راہ چلتا گیا.....میں اپنے وچاروں اور ارادوں پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہا...... ورنہ اگر میں تمہارے خلاف چلا ہوتا تو آج تم میرے سامنے کھڑے نہیں ہوتے."پروقار آواز کے فوراْ بعد ہنسنے والے آواز ہال میں سنائی دینے لگی."یہ سب صرف باتیں ہی ہیں. یقین جانو کہ اگر میں تمہارے ساتھ چلا نہیں تو کیا ہوا ؟ ۔۔۔۔میں نے اپنی راہیں الگ بنا لیں۔۔۔۔میں نے سفر کب بند کیا تھا؟ ۔۔۔۔دیکھ لو ۔۔۔۔میں زندگی میں اگر تم سے کبھی پیچھے تھا تو اب تمہارے سامنے کھڑا ہوں ۔۔۔۔تمہارے آدرشوں ۔۔۔۔تمہارے اصولوں۔۔۔۔اور تمہارے نظریات کی مٹّی پلید کرتے کرتے میں یہاں تک آ پہنچا ہوں ۔۔۔۔اور تم تو مجھ سے اچھّی طرح واقف ہو چکے ہو کہ میرے نظریات ۔۔۔۔میرے خیالات ۔۔۔۔اور میرے مقاصد نے تمہیں قدم قدم پر صدمہ پہنچایا ہے ۔۔۔۔تمہیں گولی مارنے میں اگر میں خود شامل نہیں تھا تو میرے اس قدم کے پیچھے میرا دماغ اور میرے نظریات ضرور کام کر رہے تھے ۔۔۔۔اور اب بھی کر رہے ہیں۔“ہال کے باہر کی تاریکیوں میں اضافہ ہو چکا تھا. ہواؤں نے آندھیوں کا روپ دھارن کرلیا تھا. درخت اپنی جگہوں سے اکھڑ رہے تھے. فضا مزید غبار آلود ہوچکی تھی. تاریکیوں نے اپنے پاؤں مزید پسار لیے تھے. اور زہر خند لہجے والی آواز ہال میں گونج رہی تھی."میں تمہیں آج بھی روز مرتا ہوا دیکھتا ہوں کیونکہ اس اسٹیج اور قوس کی ترتیب میں سجی ان نشستوں پر بیٹھنے والے جب یہاں ملتے ہیں تو تمہارے نظریات، تمہارے وچار اور تمہارے مقاصد کی ارتھیاں سجاتے ہیں۔ تمہارے آدرشوں کی قبریں بناتے ہیں اور دھرتی پر میرا تانڈو شروع ہوجاتا ہے. تم یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو۔۔۔۔بے بس ۔۔۔۔بے کس۔۔۔۔۔کچھ بھی تو نہیں کرسکتے تم۔۔۔۔کیونکہ تم لاچار اور مجبور ہوچکے ہو۔ بالکل ویسے ہی جیسے کبھی تم نے مجھے لاچار اور بے بس بنا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔ہاہاہاہا!“زہریلی ہنسی ہال میں گونج ہی رہی تھی کہ پروقار آواز پھر سنائی دی."کاش! میں ایسا کرجاتا..... میں نے کبھی بھی تم کو بے بس اور مجبور کرنے کی کوشش نہیں کی. میں تو خود طاقت اور غصے کو استعمال کرنے کا مخالف رہا ہوں لیکن آج سوچتا ہوں کہ تمہارے خلاف مجھے دونوں کا استعمال کرلینا چاہئیے تھا. اگر میں واقعی ایسا کر گزرتا تو اس دھرتی کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا."مگر جواب میں وہی زہرآلود ہنسی پورے ہال میں گونج گونج کر کرسیوں ،پوڈیم اور اسٹیج پر تانڈو کرنے لگی۔دوسرے فریم میں حرکت پیدا ہوئی ۔۔۔۔اس میں سجی تصویر کے لبوں میں جنبش پیدا ہوئی اور ایک اطمینان بھری آواز ہال میں پھیلتی چلی گئی۔” میں مجبور نہیں۔۔۔۔"بیشک تمہارے نظریات نے میری جان لے لی تھی.... میں مر گیا تھا لیکن میرے وچار آج بھی زندہ ہیں. تم کو تو لگا تھا کہ میرا خون بہا کر میرے وچار کا بھی قتل کر دو گے......مگر دیکھ لو آج بھی میرے وچار امر ہیں اور میرے وچار دھارک آج بھی اسی دھرتی پر سانس لے رہے ہیں جس پر میرے سینے سے ابلنے والا خون بہا تھا.مجبور تم ہو۔۔۔کیونکہ تم کل بھی ہارے تھے اور آج بھی ہار ہی جاتے ہو۔۔۔۔۔معلوم ہے کیسے؟ ۔۔۔۔ایسے کہ تمہارے نظریات کی حمایت میں اٹھنے والی ہزاروں آوازوں پر میرے آدرشوں کی ایک کمزور سی آواز بھی بھاری پڑجاتی ہے۔۔۔۔۔بالکل اسی طرح جیسے میری آواز نے تمہاری ہنسی کی لاشیں بچھا دی ہیں۔۔۔۔۔دیکھ لو!۔۔۔۔ان نشستوں ۔۔۔۔پوڈیم۔۔۔۔اور اسٹیج کے اطراف تمہارے قہقہے مردہ پڑے ہیں۔“اس نے ہال میں نظریں دوڑائیں ۔اس کے اپنے قہقہے چاروں طرف مردہ پڑے ہوئے تھے۔اس نے کمزور سی آواز والے اس نحیف و نزار شخص کو دیکھا ۔وہ دھوتی پہنے ،لاٹھی لئے اپنے فریم میں مسکراتا کھڑا تھا اور اس کی عینک سے باہر جھانکتی آنکھیں اسے دیکھ رہی تھیں۔اسے محسوس ہوا کہ اس بوڑھے کی نظروں کی چبھن اس کے برداشت سے باہر ہے.وہ لپک کر فریم میں واپس گھس گیا اور اس بوڑھے سے نظریں چرانے لگا۔ اس کے فریم میں گھستے ہی ایک چھناکے کی آواز ہال میں گونجی اور فریم کے شیشہ کی کرچیاں ہال کے مخملی فرش پر بکھرتی چلی گئیں.(ختم شدہ)
افسانہ : فریم سے باہر.
ReplyDeleteمبصر : فریدہ نثار احمد انصاری.
" باپو کاکا" کی یاد تازہ کرواتا ہوا افسانہ! گاندھی جی کے آدرش اور موجودہ دور کے سیاست دانوں کی نیز وطن کے پرآشوب ماحول پر قلم نے کمند کسی اور ایک عمدہ تحریر قاری کی نظر نواز ہوئی.
فریم کے اندر ہر کردار خوبصورت نظر آتا ہے پر جب یہی کردار حقیقی زندگی میں اپنے کاموں میں مگن رہتا ہے تب اسی کے آدرشوں کی وجہ اس کے قتل کا سبب بن جاتی ہے.
اسلوب رواں لیکن منظر کشی نے آدھی تحریر کو اپنی گرفت میں لیا.
نیک خواہشات.
بہت شکریہ
Deleteذاکر حسین فیضی صاحب کا تبصرہ:
ReplyDeleteجناب آپ کا یہ افسانہ بہت اچھا ہے ۔
مجھے پسند آیا تھا ۔ آپ کی خدمت میں بہت بہت مبارکباد پیش کرتا ہوں ، اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
ڈاکٹر عائشہ فرحین صاحبہ کا تبصرہ:
ReplyDeleteمختصر لیکن بہت ہی اچھا افسانہ ہے۔ایجاز و ابہام کے ساتھ آپ نے ظالم کی ہار اور مظلوم کی جیت ،جھوٹ ،مکاری ،فساد کے سامنے عدم تشدد ،خاموش احتجاج،آخر تک لڑ اپنے سچے اصولوں ،ادرشواں کو امر کردینے کی کہانی خوب ہے۔
بے شک چاہے ظالموں کا ظلم ،کتنا ہی کیوں نہ بڑھ جائے،ایک دن جیت مظلوم بے بسوں کی ہی ہوگی ،مارنے والوں نے امن شانتی کے نشاں کا تو قتل کردیا لیکن ان کے بتائے راہ اور اصولوں کا قتل نہ کرسکے۔وہ آج بھی اپنی آب تاب کے ساتھ ہر ظلم۔کے خلاف آواز اٹھانے تیار ہیں۔
سید محمد امجد صاحب کا تبصرہ:
ReplyDeleteپرانی تصویروں کو نئے فریم میں قرینہ سے بٹھا دیا گیا ہے. لگتا تو سہل ہے مگر یہ کام آساں نہیں ہوتا.
مبارک باد محترم 💐
فرخندہ ضمیر صاحبہ کا تبصرہ:
ReplyDeleteافسانہ ۔ فریم کے باہر
طاہر انجم صدیقی بہت محنتی نوجوان ہیں ۔ اردو ادب کی آبیاری میں سرگرداں ہیں ۔
انکے کے افسانوں کی بنت اور موضوع کی پیشکش میں جّدّت طرازی ہے ۔
فریم کے باہر افسانہ اس وچار دھارا کو ،اس سوچ کو اس فکر کو آشکار کرتا ہے جس سے آج سب واقف ہیں ۔
گاندھی جی کے فلسفے کو بہتر طریقے سے پیش کیا ہے ۔" اہنسا " ایک فلسفہ ہی نہیں بلکہ ہمارے نبصلی اللہ علیہ وسلم کے خیالات کی تقلید تھی ۔اسی سے اسلام نے دلوں کو، ملکوں کو فتح کیا اور گاندھی جی نے ملک کو آزاد کرایا ۔
لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ آج گاندھی جی کا فلسفہ دم توڑ رہا ہے ۔ملک میں تخریبی طاقتیں بے لگام ہو رہی ہیں ۔
اس کہانی کا جو انجام ہے کاش ویسا ہو جائے ۔
طاہر انجم صدیقی کو دعائیں ۔ زورِ قلم اور زیادہ