*پیام انصاری*
*(حالات سے رلانے والا مزاحیہ شاعر)*
(طاہرانجم صدیقی، مالیگاؤں)
دبلے پتلے بدن، پستہ قد گوری، رنگت ماتھے پر تفکر کی گہری لکیروں اور معمولی کپڑوں کے مالک اس شاعر کو جب شہر مالیگاؤں کے لوگ دیکھتے تھے تو بے ساختہ مسکرا اٹھتے تھے مگر فورا ہی ان کی یہ مسکراہٹ سنجیدگی میں بدل جاتی تھی اور وہ لوگ اس شاعر کو ہمدردی اور ترحم آمیز نظروں سے دیکھنے پر مجبور ہو جاتے تھے کیونکہ اس شاعر کا حلیہ اس کی کسمپرسی کے داستان سنا رہا ہوتا تھا۔ اس کا چہرہ اس کی پریشانیوں کی کہانی بیان کررہا ہوتا تھا اور اس کا پیشہ اس کی غربت اور افلاس کا افسانہ بیان کر رہا ہوتا تھا۔
مگر جب اسی شاعر کے اشعار کی بات کی جائے تو شہر مالیگاؤں کی مشاعرہ گاہوں میں اس کے نام کا اعلان "کھی کھی کھی" کی آوازیں بلند کردیتا تھا اور جب وہ شاعر اپنا کام خود اپنے منفرد انداز میں سناتا تھا تو لوگ مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہو جاتے تھے۔ ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر گر پڑتے تھے اور بیچارے شاعر کو داد بھی نہیں دے پاتے تھے۔ جب تک وہ اپنی ہنسی سنبھال کر پیٹ کے مروڑ کو کم کرتے وہ شاعر دادو تحسین سے بے پرواہ اپنے دوسرے اشعار سنانے میں مگن ہو جاتا تھا۔
یہ وہی شاعر ہے جس پر ترس کھا کر، اسے صرف چھٹی جماعت کا تعلیم یافتہ سمجھ کر، اسے ہلکا پھلکا اور دبلا پتلا دیکھ کر، اسے غریب دوست جان کر ایک گوشت پوست، قد کاٹھی، تعلیم اور روپیوں سے امیر شخص نے پی ایچ ڈی کے لیے اپنے شہر مالیگاؤں آنے کی بات ظاہر کی تھی۔
اپنا نام سن کر وہ شاعر بڑی زور سے ہنسا تھا کہ مالیگاؤں کا وہ مداح جو ممبئی میں کسی کالج میں جونیئرلیکچرار تھا وہ پروفیسر شپ کے لئے اسی شاعر پر پی ایچ ڈی کرنا چاہتا تھا مگر وہ شاعر ممبئی سے مالیگاؤں چلے آئے اس دوست پر ہنس رہا تھا کیونکہ اس شاعر کے بقول مذکورہ شاعر انتہائی پھٹیچر، غریب، چھٹی کلاس تک ہی پڑھا ہوا تھا۔
پھر بھی جب وہ پی ایچ ڈی کے لیے اپنے دوست کے بتائے گئے پتے یعنی گھر کے نام پر ٹوٹے پھوٹے مکان پر پہنچا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ دروازے پر اس کا وہی چھٹی جماعت کا تعلیم یافتہ، ہلکا پھلکا، دبلا پتلا اور غریب دوست کھڑا تھا۔ تب اس نے اس سے پوچھا تھا کہ وہ یہاں کیا کر رہا ہے تو وہ شاعر مسکرا کر بولا تھا کہ میں ہوں تمہارے بچپن کا دوست شبیر احمد محمد ایوب اور آج کا پیغام انصاری وہ ہلکا پھلکا اور تک بند شاعر جس پر تم پی ایچ ڈی کرنے آئے ہو۔ "خوش آمدید"
جی ہاں یہ وہی پیام انصاری تھےتھا جنہیں لوگ شبیر احمد کی بجائے پیام انصاری کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد یوپی سے مالیگاؤں آئے تھے۔ انہوں نے 7 مارچ 1924 کو دنیا آنکھیں کھولیں۔ انھیں وراثت میں چار لوم ملے تھے لیکن وہ بہنوں کے حصے میں چلے گئے اور وہ اپنے اور اپنوں کے پیٹ کی خاطر دوسروں کا پیٹ صاف کرنے کا چورن بیچنے لگے۔
ان کے حالات کے بعد جب گفتگو کا رخ ان کے اشعار کی طرف موڑتے ہیں تو انھیں کے بقول ان کی تاحیات شاعری کا پٹارا ہاتھ لگتا ہے۔ جس کا نام ہے "پلاسٹک کے آنسو"۔
پیام انصاری کے مزاحیہ اشعار کے مجموعہ "پلاسٹک کے آنسو" کا نام ایسا نام ہے جس پر غور کرتے ہی ذہن کے کسی کونے سے مسکراہٹ ابھرتی ہے اور ہونٹوں تک ک آتے آتے معدوم سی ہو جاتی ہے۔
پیام انصاری نےاپنی پہلی ہی ہزل کے مطلع کے ذریعے علمِ عروض سے اپنی وابستگی کا اظہار یوں کرتے ہیں:
اہک جوتا، تین چپل، پانچ سینڈل، چار لات
فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلات
ماڈرن بیٹی کی رخصتی پر وہ نئے زمانے کے مطابق یوں نصیحت کرتے ہیں:
اپنے شوہر کو دلدّل ہی بنانا بانو
لکس صابن سے تو ہرروز نہانا بانو
مدرسوں اور مسجدوں کے چندہ خور ٹرسٹ کے خلاف احتجاجا لکھتے ہیں:
کھا گئے چندہ مدرسے کا ٹرسٹی بن کر
جن کو ہم شیخ سمجھتے تھے وہ ڈاکو نکلے
پھر ملا جیسی صورت والوں کا پول کھولتے ہیں:
ملا جیسی صورت والا وہ جو میرا پڑوسی ہے
اس نے میرا مرغا چرایا رات کو ساڑھے تین بجے
ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ایک خیال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیام انصاری نہ جانے کیوں ملّا لوگوں پر اتنا طنز کرتے ہیں کہ پلاسٹک کے آنسو میں دو چار اشعار کے بعد ایک نہ ایک شعر ملّا صفت افراد کی شانِ عالمانہ میں گستاخانہ عرض کر ہی دیتے ہیں۔ دیکھیں:
حبّ نبی کا دعوی لیکن حافظ، قاری، ملا جی
شوق سے دیکھیں ٹیلیویژن میرے آقا شاہ امم
اس شعر کو بھی دیکھ لیں جس میں پیام انصاری ملا لوگوں کا نام بدل کر پھر ان پر یوں کرم کرتے ہیں:
ہم میاں بیوی پہ اب اتنا کرم ہے پیر کا
رات دن گڑبڑ بڑ ہے ،گھر میں ہے چلن کفگیر کا
وہ اتنے پر ہی بس نہیں کرتے بلکہ مولوی، ملا کو یوں ڈراتے ہیں:
حشر کے دن ہر بشر دیکھا بھالا جائے گا
مولوی، ملا کا بھی کس بل نکالا جائے گا
اس کے بعد وہ مالیگاؤں کے سیٹھوں کو تلملا کر رکھ دینے والے چار مصرعے پلاسٹک کے آنسو کے صفحات پر یوں ثبت کرتے ہیں:
کھڑ کھڑ آتی ہوئی مشینوں میں
ہم غریبوں کا خون جلتا ہے
ہم کماتے ہیں رات دن اے دوست
اپنے ٹکڑوں پہ سیٹھ پلتا ہے
حالانکہ پیام انصاری کو یہ علم رہا ہی ہوگا کہ سیٹھوں سے پہلے خود مزدور ہی پاور لوم سے روزی کشید کرکے اپنے بیوی بچوں کو پالنے کا جتن کرتا ہے۔
ایک مزاح نگار اور خاص طور پر مزاح لکھنے والا ایک شاعر اگر بیگم کا ذکر نہ کرے تو شاید اس کی شاعری کو وہ ادھورا ہی سمجھے۔ غالبا اسی لئے پیام انصاری بھی ذکر نہ کرے ایسا ممکن ہی نہیں ہے اسی لئے پیام انصاری نے بھی بیگم اور زن مرید کے تعلق سے یوں لکھا ہے:
بیگم کا اپنی ہاتھ بٹانے میں رہ گیا
اک زن مرید جھاڑو لگانے میں رہ گیا
لیکن پیام انصاری ہنسی ہنسی میں موجودہ حالات کے مطابق بڑی پیاری بات کی ہے۔ دیکھیں:
پڑھ لکھ کے غیر کرسی کے حقدار ہوگئے
اور میں پتنگ کی پیچ لڑانے میں رہ گیا
ہماری قوم کے لئے بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم تعلیم سے دور ہوکر محکوم بیٹھے ہیں جبکہ ہمارے سامنے موجود دوسری قوموں نے خود کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے دنیا والوں پر حکمرانی کا سلسلہ دراز کررہا ہے۔
ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کی خدمات کو بری طرح نظر انداز کرنے پر احتجاج کرتے ہوئے پیام انصاری نے یوں لکھا ہے:
جس نے وطن کے واسطے دی اپنی جاں اسے
غدار کہتے جاؤ گے کہ پندرہ اگست ہے
لیکن اسی نظم میں ہندوستان کو دیمک کی طرح کھوکھلا کردیئے والی رشوت خوری کی طرف طنز بھرا اشارہ کرتے ہوئے پیام انصاری نے اپنے بیدار ہونے کا ثبوت یوں دیا ہے:
رشوت ہمارے باپ کا پہلا سبق پیام
مسکا ہمیں لگاؤ کہ پندرہ اگست ہے
پیام انصاری کے کلام میں اس شعر پر نظر پڑتے ہی ادبی چاشنی کا احساس ہوتا ہے اور شعر پر داد دیتے ہی بنتی ہے۔ دیکھیں:
اب بزم ناز میں ہم آئیں تو کیسے آئیں؟
درباں لیے کھڑا ہے ڈنڈا تیری گلی میں
غرض کہ پیام انصاری کی پلاسٹک کے آنسو کے مطالعہ کے دوران ایک طرف جہاں مزاح پر مشتمل اشعار ملتے ہیں وہیں دوسری طرف طنز کے ایسے نشتر بھی دکھائی دیتے ہیں جو ذہن وہ دل پر کچوکے لگاتے ہیں۔
وہی پیام جو طنز و مزاح کا شاعر
نظر میں آپ کی جوکر ہے کیا کیا جائے؟
امید ہے کہ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد آپ کے ذہنوں میں پیام انصاری کے فن اور شخصیت کے تعلق سے بہت ساری باتیں اور یادیں اجاگر ہوں۔ اگر واقعی ایسا ہو تو آپ بھی قلم اٹھائیں اور اس شاعر کو اس کا حق دینے کی کوشش ضرور کریں۔
(ختم شد)
یہ تحریر بھی آپ کی منتظر ہے🔽