Translate ترجمہ

Friday, December 30, 2022

حمد : کس نے بادل کو برسنے کی ادائیں دی ہیں

حمد

کس نے با دل کو برسنے کی ادائیں دی ہیں؟

(طاہرانجم صدیقی) 


کس نے بادل کو برسنے کی ادائیں دی ہیں؟
کس نے بجلی کو تڑپنے کی ادائیں دی ہیں؟

کس نے پھولوں کو تبسم کا ہنر بخشا ہے؟
کس نے کلیوں کو چٹکنے کی ادائیں دی ہیں؟

کس نے ہیروں کو ضیا پاشی کا فن ہے بخشا؟
کس نے جگنو کو چمکنے کی ادائیں دی ہیں؟

کس نے سیرابی کی تا ثیر رکھی پانی میں؟
کس نے شعلوں کو دہکنے کی ادائیں دی ہیں؟

کس نے شب چاند ستاروں سے سجا رکھی ّہے؟
کس نے سورج کو ابھر نے کی ادائیں دی ہیں؟

کس نے ساحل سے سمندر کی حدیں قائم کی؟
کس نے دریا کو مچلنے کی ادائیں دی ہیں م؟

کس نے بخشے ہیں مجھے شعر و سخن کے جوہر؟
کس نے معنیٰ کو پر کھنے کی ادائیں دی ہیں؟

میرا اللہ جو ہر شئے پہ ہے قادر اس نے 
میرے ہاتھوں کو بھی لکھنے کی ادائیں دی ہیں؟


اس غزل کو بھی پڑھ لیں. 🔽

افسانہ : باپو کاکا


باپو کاکا
افسانہ نِگار  :    طاہر انجم صدیقی  ( مالیگاؤں) 
    


 ساٹھ پینسٹھ برس کے باپو کاکا میں نام کے علاوہ اور کو ئی عجیب بات نہیں تھی ۔ ’’باپو کاکا‘‘ نام ہی کہاں تھا؟ دو رشتوں کی پہچان تھا ۔ ویسے ان کا اصل نام رام داس تھا مگر ’’اہنسا پارک ‘‘میں رکھوالے کی حیثیت سے تقرری کے بعد وہاں تفریح کے لئے آنے والوں نے انہیں ’’باپو کاکا‘‘بنا دیا تھا ۔
لوگ پارک میں لگے مہاتما گاندھی کے قد آدم مجسمے کو دیکھتے اور پھر انہیں دیکھ کر کہہ اٹھتے ۔’’ارے باپو ۔۔۔۔۔ارے کاکا۔۔۔۔۔تم تو باکل باپو گا ندھی جیسے لگتے ہو ۔۔۔۔۔بالکل باپو لگتے ہو کاکا ۔۔۔۔باپو کاکا۔۔۔‘‘
جب وہ پارک میں آئے تھے تو کرتا پاجامہ پہنے تھے لیکن گاندھی جی کے چاہنے والوں نے انہیں دھوتیاں لا کر دیں اور پہنے پر مجبور کیا ۔ خود کے تئیں لوگوں کے پیار کو دیکھ کر باپوکاکا نے کرتا پاجامہ ترک کر دیا اور بخوشی دھوتی پہننے لگے ۔
دس سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی انہیں اچھی طرح یاد تھا کہ اسلم نام کے ایک نوجوان نے ہی انہیں سب سے پہلے باپو گاندھی کے ہم شکل ہونے کا احساس دلا کر ایک گول فریم کی بغیر نمبر کی عینک انہیں پہننے کو دی تھی کیو نکہ بڑھاپے کے باوجود بھی ان کی بینائی کمزور نہیں ہوئی تھی. دوسرے روز اس کے دوست ارون نے ایک لاٹھی لا کر دی تھی ۔۔۔اور پھر ان دونوں نے مل کر ایک دھوتی بھی خرید کر انہیں دی تھی ۔ ان دوستوں کی تقلید میں دیگر اور بہت سے لوگوں نے بھی انہیں دھوتیاں لا کر دی تھیں ۔ اس طرح ان کے پاس اچھی خاصی تعداد میں دھوتیاں جمع ہو گئیں ۔ تب ہی تو وہ روزانہ صبح اشنان کے بعد دھوتیاں تبدیل کیا کرتے تھے لیکن ۔۔۔اس صبح انہوں نے اشنان نہیں کیا اور نہ ہی دھوتی تبدیل کی۔  
اس روز جب باپو کاکا کی آنکھ کھلی تو صبح کے دھندلکے مشرقی افق پر سنہری تھال چھوڑ کر جا چکے تھے ۔ پارک کی دس سالہ دیکھ ریکھ کے دوران پہلی مرتبہ ان کی آ نکھ اتنی دیر سے کھلی تھی ۔ ورنہ صبح صادق سے پہلے ہی اپنا پیوند زدہ بستر چھوڑ دینا ان کا معمول تھا ۔          وہ موسم کی شدت سے بے پرواہ اپنا بستر چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے ۔۔۔دھوتی ٹھیک کرتے ۔۔۔دھوتی کے پلے کو اپنے بائیں کندھے پر ڈالتے ۔۔۔دائیں طرف اڑسا ہوا بٹوا درست کرتے ۔۔۔۔۔سر ہانے لاٹھی او ر عینک کے پاس رکھی ہوئی پیتل کی بالٹی اٹھا کر اپنی جھونپڑی کا دروازہ کھولتے ۔۔۔۔اور سامنے دیکھتے ۔۔۔باہر تھوڑی ہی دوری پر دو فٹ اونچے چبوترے پر کھڑے مہاتما گاندھی کے قدِآدم مجسمے پر ان کی نظریں جاٹھہرتیں ۔۔۔پوسٹ لیمپ کی روشنی میں ماہر مجسمہ ساز کے ہاتھوں قائم کی گئی ابدی مسکراہٹ گاندھی جی کے ہونٹوں پر پھیلی صاف دکھائی دیتی ۔۔۔۔انہیں محسوس ہوتا کہ مجسمے کے ساتھ ہی کوئی ان کے اندر بھی مسکرا رہا ہے ۔۔۔اس کے ہونٹوں پر گاندھی جی کی ابدی مسکراہٹ ہے ۔۔۔وہ دھیرے دھیرے پھیل رہی ہے ۔۔۔۔اور پھیلتے پھیلتے خود ان کے ہونٹوں تک آ گئی ہے ۔۔۔۔باپو کاکا خود بھی مسکرانے لگتے ۔۔۔ان ہونٹوں پر وہی ابدی مسکراہٹ پھیل جاتی مگر اپنی مسکرا ہٹ سے لا علم باپو کاکا اطراف کا جائزہ لیتے ۔۔۔انہیں پارک کی ہر شئے مسکراتی دکھائی دیتی ۔۔۔۔بیل بوٹے ۔۔۔۔درخت ۔۔۔پودے ۔۔۔۔جھاڑجھنکاڑ ۔ دیواریں ۔۔۔زمین اور آسمان۔۔۔ سبھی مسکراتے محسوس ہوتے۔
 اس مسکراتی فضا میں باپو کاکا اپنے ہاتھ میں بالٹی لئے سیدھے پارک کی بورنگ پر چلے جاتے ۔۔۔۔وہاں تین چار بالٹی پانی سے اشنان کرتے ۔۔واپس اپنی جھونپڑی میں جا کر دھوتی تبدیل کرتے ۔۔۔۔اتاری ہوئی گیلی دھوتی باہر لا کر دیوار کے قریب پڑے پتھر پر رکھتے اور پاس ہی نیم کیے درخت کے نیچے آلتی پالتی مار کر پرایا نام کا آسن جما لیتے ۔۔۔ان کا رخ مہا تما گاندھی کے مجسمے کی طرف ہوتا ۔۔۔۔اس دوران ان کی زبان سے گاندھی جی کے بول الفاظ کی صورت میں نکلتے اور سوئی ہوئی چڑیوں کو جگاتے رہتے ۔۔۔ 
 ’’ایشور اللہ تیرو نام ۔۔۔۔۔ایشور اللہ تیرو نام ۔۔۔۔‘‘ 
اس بول کی تکرار کو سن کر بیدار ہونے والی چڑیاں جب دوسری خوابیدہ چڑیوں کو جگانا شروع کرتیں تو نیم کے درخت کے نیچے بیٹھے باپو کاکا اپنی آنکھیں موند لیتے ۔۔اور منہ ہی منہ میں کچھ بدبدانے لگتے اس دوران کبھی کبھی کوئل کی کوک اور کوؤں کی کائیں کائیں بھی ان کے کانوں کے پردوں سے ٹکراتی رہتیں ۔۔۔تھوڑی دیر بعد جب چڑیوں کا خوشگوار شور اپنے شباب پر جا پہنچتا تو سورج چپکے چپکے مشرقی کنارے سے سر اٹھاتا ۔۔۔۔اور دھیرے دھیرے اوپر سرکنے لگتا ۔۔۔جیسے جیسے اجالا پھیلتا چڑیوں کا شور اس میں تحلیل ہوتا جاتا ۔۔۔جب سورج کی نرم گرم شعاعیں با پو کاکا تک پہنچیں تو وہ اپنی آنکھیں کھولتے ۔۔۔ان کی نظریں آہستہ آہستہ اوپر اٹھتیں اور گاندھی جی کے مجسمے پر سے رینگتی ہوئی ان کے چہرے پر جا ٹھہرتی ۔۔۔۔پھر وہاں سے پھسلتی ہوئی مجسمے کے پیروں تک چلی جاتیں۔۔۔۔وہ اٹھتے اور آگے بڑھ کر گاندھی جی کے پیروں کے پاس کی گرد اُٹھا کرآشیر واد کے طور پر بڑے احترام سے اپنے ماتھے پر لگا لیتے اور سیدھے اپنی جھونپڑی میں چلے جاتے.  
اندر جاکر اپنا بستر ایک کنارے رکھتے ۔۔۔۔عینک اپنی آنکھوں پر لگاتے ۔۔۔۔اور لاٹھی اٹھا کر جھونپڑی کے دروازے سے باہر نکلتے ۔۔۔۔پتھر پر رکھی گیلی دھوتی اٹھاتے ۔۔۔دوبارہ بورنگ پر جاتے ۔۔۔دھوتی کو اچھی طرح دھوتے اور سوکھنے کے لئے پھیلا کر پارک کی صاف صفائی میں جٹ جاتے ۔۔۔۔
لیکن اس روز جب ان کی آنکھ کھلی تو سورج طلوع ہو چکا تھا. چڑیوں کا خوشگوار شور کمزور پڑ چکا تھا اور ان کو محسوس ہورہا تھا کہ وہ بھی چڑیوں کے شور ہی کی طرح کمزور ہو چکے ہیں ۔ ان کی آنکھوں کے پپوٹے سوجے ہو ئے تھے ۔۔۔آنکھوں کی سفیدی میں نظر آنے والے لال ڈورے صاف ظاہر کر رہے تھے کہ ان کی نیند پوری نہیں ہوئی ہے ۔۔۔اور واقعی اخیر شب تک انہیں نیند نہیں آئی ہے۔۔۔۔وہ جاگ کر کر وٹیں بدلتے رہے تھے ۔۔۔بے چین رہے تھے ۔۔۔۔انہیں رہ رہ کر احساس ہو رہا تھا کہ ان کے چاروں طرف آ گ ہی آگ ہے ۔۔۔۔آگ میں بہت سارے لوگ جل رہے ہیں۔۔۔چیخ رہے ہیں ۔۔۔وہ آگ دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے ۔۔۔انہیں بھی جلا رہی ہے ۔۔۔ان کی جھونپڑی ۔۔۔۔۔پورا پارک ۔۔۔خود گاندھی جی بھی اس آگ کی لپیٹ میں ہیں۔۔۔۔باپو کاکا گاندھی جی کو بچانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔گاندھی جی کی طرف بڑھتے ہیں ۔۔مگر گاندھی جی غائب ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔انہیں چبوترہ خالی دکھائی دیتا ہے ۔۔۔جس کے اطراف آگ ہی آگ ہے ۔۔۔۔پورے پارک میں آگ ہے ۔۔۔پارک کے باہر جہاں بھی ان کی نظر جاتی ۔۔۔۔۔آگ ہی آگ نظر آ تی ہے اور دور دور تک گاندھی جی انہیں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔۔۔۔انہی احساسات میں کروٹیں بدلتے ہوئے ان کی رات گذری تھی ۔۔۔۔
وہ اپنے آپ کو بہت سمجھاتے رہے ۔۔۔دلاسے دیتے رہے ۔۔۔مگر ان کا دل نہ جانے کس مٹی کا بنا ہوا تھا کہ سمجھتا ہی نہیں تھا اور اسے جتنا بھی سمجھتاتے اتنا ہی الجھتا چلا جاتا ۔۔اور الجھتا بھی کیوں نہیں کہ شہر میں برپا ہونے والا فساد اُن کی آنکھوں کے سامنے ہی تو پھوٹا تھا۔ پارک میں اسلم اور ارون کے درمیان کوئی سخت قسم کی بحث جاری تھی باپو کاکا ان دونوں کی زور دار بحث سن ہی رہے تھے کہ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئے ۔۔۔۔باپو کاکا انہیں آوازیں دیتے دیتے لپکے مگر ان کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی لوگوں نے دونوں کو الگ کر دیا ۔۔۔اور پھر نہ جانے کیا ہوا کہ انہیں الگ کرنے والے لوگ ہی آپس میں الجھ گئے ۔۔۔ہاتھا پائی کا زور چلا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہندو مسلم فساد کی شکل اختیار کر گیا ۔
  پارک سے پھوٹنے والے فساد نے درجنوں لاشیں گرا کر ۔۔۔پچاسوں کو زخمی کرکے۔۔۔ سینکڑوں مقامات نذر آتش کرکے پو رے شہر کو آگ اور دھوئیں میں لپیٹ کر رکھ دیا تھا ۔۔۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کا اور مسلمانوں نے ہندوؤں کا دل کھول کر جانی و مالی نقصان کر نا جاری رکھا تھا لیکن حساس باپو کاکا بے چینی سے کروٹیں بدل بدل کر رات کے آخر پہر تک جاگ کر بس ذرا ہی دیر سو کر اٹھے تو سورج طلوع ہو چکا تھا ۔انہوں نے اپنی سوجی ہوئی آنکھوں کے پپوٹے دو ایک بار کھول بند کئے اور آہستگی سے اٹھ بیٹھے ۔۔۔ایک سرد آہ بھری اور بالٹی اٹھائے بغیر ہی بڑی نقاہت کے ساتھ جھونپڑی کے دروازے تک آئے۔۔۔دروازہ کھول کر باہر دیکھا اور چونک پڑے کیونکہ سامنے چبوترہ خالی پڑا تھا اور مہاتما گاندھی کا مجسمہ غائب تھا ۔۔۔وہ جلدی جلدی پارک کے گیٹ پر لگے پبلک ٹیلی فون کی طرف لپکے ۔ 
اپنی دھوتی میں اڑسائے بٹوئے سے ایک سکہ نکال کر ریسیوراٹھایا ۔سکہ سوراخ میں ڈالا۔۔۔پولس اسٹیشن کا نمبر ڈائل کیا اور جلدی جلدی مہاتما گاندھی کے مجسمے کے غائب ہونے کی رپورٹ دے کر گیٹ پر ہی پولس کا انتظار کرنے لگے ۔ 
پارک کے چاروں طرف دور نزدیک جگہ جگہ سے دھوئیں کے کالے کالے بادل اوپر اٹھتے صاف دکھائی دے رہے تھے ۔ ان پر افسوس کرتے ہوئے بس تھوڑے ہی دیر گزری تھی کہ کرفیو کی قائم کردہ خاموش فضا میں پولس جیپ کی آواز ابھر کر ان کے کانوں کے پردوں سے ٹکرائی ۔انہوں نے پارک کا گیٹ کھول دیا ۔  جیپ سیدھے پارک میں داخل ہوئی ۔ اس کا انجن خاموش ہو آ اور ایک انسپکٹر کے ساتھ ہی کئی کانسٹیبل نیچے اتر کر ان کی طرف لپکے ۔انسپکٹر نے باپو کاکا کو غور سے دیکھ کر پوچھا ۔
  ’’کون سا پتلا غائب ہوا ہے ؟۔۔۔۔۔‘‘
’’گا ندھی جی کا ساب ۔۔۔۔۔وہ اس چبوترے پر کا."   
باپو کاکا نے خالی چبوترے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ 
’’ابے بڈھے! یہاں شہر کی کنڈیشن خراب ہے اور تجھے مذاق سوجھا ہے۔۔۔۔وہ چبوترے پر تیرا باپ کھڑا ہے کیا ؟ ۔۔۔"
انسپکٹر نے گاندھی کے مجسمے کو دیکھ کر کہا
"کہاں ساب؟ وہ تو خالی ہے"
 انہوں نے حیرت سے چبوترے کو دیکھا. 
’’ابے اندھے ۔۔۔۔مذاق کرتا سالے بڈھے ۔۔۔۔‘‘ 
اتنا کہہ کر انسپکٹر نے ایک زور دار لات باپو کاکا کو دے ماری۔۔۔۔وہ چاروں خانے چت زمین پر گر گئے ۔۔۔۔مگر ان کے گرتے ہی چبوترے کی طرف سے کسی بھاری بھرکم چیز کے گرنے کی آواز پر انسپکٹر نے سر گھما کر دیکھا ۔۔۔۔چبوترے کے نیچے مہاتما گاندھی کا مجسمہ چاروں خانے چت پڑا تھا۔ 

   ختم شُد...


اس کو بھی پڑھیں. 🔽

Wednesday, December 28, 2022

افسانہ : فریم کے باہر

  فریم کے باہر 

  (طاہر انجم صدیقی) 


 

          باہر ہوائیں شور مچاتی ہوئی پھر رہی تھیں. دھرتی پر اندھیرا پاؤں پسارنے کی کوشش میں تھا. گھنی اور کالی کالی بدلیوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا. ساری فضا گرد و غبار سے اٹی پڑی تھی. ہوائیں شور مچاتی ہوئی ہال کی باہری دیواروں اور کھڑکیوں کے شیشوں سے سر ٹکرا رہی تھیں. ہال کے اندر آویزاں ایک فریم کے شیشے کے اندر سے وہ بائیں طرف دیکھ رہا تھا لیکن فریم کے باہر وہ بڑی تیز آواز سے ہنس رہا تھا ۔ اس کی ہنسی میں ایک عجیب قسم کا زہر سا ملا ہوا تھا ۔ اور وہ زہر خندی کے ساتھ ہنستا جا رہا تھا ۔ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنی ہنسی کےذریعے کسی کا بری طرح مذاق اڑا رہا ہو ۔۔۔۔اُسے اپنی ہنسی سے بری طرح ذلیل کر رہا ہو۔۔۔۔اور اپنے مقابل شخص کو بالکل ہی حقیر سمجھ کر ہنس رہا ہو. 
          اس کی زہر آلود ہنسی مکمل انتقام بن کر ہال میں گونج رہی تھی. 
          وہ ہال بڑا وسیع تھا۔۔۔۔ہال کے اندر ساگوان کی لکڑیوں سے بنی ڈھیر ساری نشستیں قوس کے سے انداز میں سجی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ نشستوں کے سامنے ایک میز سی بنائی گئی تھی. ہر میز پر مائک رکھا ہوا. تھا۔۔۔.نشستوں کا قوس جس سمت مڑتا تھا اُدھر ایک اسٹیج سا بنا ہوا تھا ۔۔۔۔اسٹیج پر بڑی خوبصورت اور اونچی نشست بنائی گئی تھی. اس کے سامنے رکھی میز پر بھی ایک مائک موجود تھا. ۔۔۔۔اسٹیج پر کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔اور نہ ہی قوس کے سے انداز میں سجائی گئی نشستوں کی قطاروں میں کوئی نظر آ رہا تھا۔
          ایسا لگتا تھا جیسے ان نشستوں ، اسٹیج اور ڈائس پر صرف اور صرف اس زہر خند ہنسی کا ہی قبضہ ہو ۔۔۔۔اور تمام جگہوں سے وہی ہنسی صدائے باز گشت بن کر ہال کی دیواروں سے کھیل رہی ہو. 
          باہر کا شور اور اندھیرا اسی بازگشت کے ساتھ مل کر اندر دندناتے پھرنے کی خاطر دیواروں اور کھڑکیوں کے شیشوں سے سر ٹکراتا پھر رہا تھا. 
        اچانک ہی ہنسی کی آوازوں نے ہال کی دیواروں اور کرسیوں سے ٹکرا ٹکرا کر دم توڑ دیا ۔۔۔۔اور ایک آواز ابھری. 
        ”کیا بات ہے؟۔۔۔۔اتناکیوں ہنس رہے ہو تم اور کس بات پر ہنسے جارہے ہو؟“
        نئی لیکن باوقار آواز نے سوال کیا۔ جواب میں ہنسنے والی آواز نے بولنا شروع کیا.
        ”میں ؟۔۔۔۔میں ہنس رہا ہوں تو صرف اس لئے کہ تم نے میری بہت مخالفت کی ۔۔۔۔ مجھے ہزار روکنا چاہا ۔۔۔۔ میرے راستے میں لاکھ رکاوٹیں ڈالیں ۔۔۔۔مگر دیکھو میں رکا نہیں اور آ ۔۔۔۔"
" نہیں..... میں نے تم کو روکنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ورنہ تم ماضی کے کسی کونے کھدرے میں ہی رینگ رہے ہوتے..... میں تو بس اپنی راہ چلتا گیا.....میں اپنے وچاروں اور ارادوں پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہا...... ورنہ اگر میں تمہارے خلاف چلا ہوتا تو آج تم میرے سامنے کھڑے نہیں ہوتے."
پروقار آواز کے فوراْ بعد ہنسنے والے آواز ہال میں سنائی دینے لگی. 
          "یہ سب صرف باتیں ہی ہیں. یقین جانو کہ اگر میں تمہارے ساتھ چلا نہیں تو کیا ہوا ؟ ۔۔۔۔میں نے اپنی راہیں الگ بنا لیں۔۔۔۔میں نے سفر کب بند کیا تھا؟ ۔۔۔۔دیکھ لو ۔۔۔۔میں زندگی میں اگر تم سے کبھی پیچھے تھا تو اب تمہارے سامنے کھڑا ہوں ۔۔۔۔تمہارے آدرشوں ۔۔۔۔تمہارے اصولوں۔۔۔۔اور تمہارے نظریات کی مٹّی پلید کرتے کرتے میں یہاں تک آ پہنچا ہوں ۔۔۔۔اور تم تو مجھ سے اچھّی طرح واقف ہو چکے ہو کہ میرے نظریات ۔۔۔۔میرے خیالات ۔۔۔۔اور میرے مقاصد نے تمہیں قدم قدم پر صدمہ پہنچایا ہے ۔۔۔۔تمہیں گولی مارنے میں اگر میں خود شامل نہیں تھا تو میرے اس قدم کے پیچھے میرا دماغ اور میرے نظریات ضرور کام کر رہے تھے ۔۔۔۔اور اب بھی کر رہے ہیں۔“
          ہال کے باہر کی تاریکیوں میں اضافہ ہو چکا تھا. ہواؤں نے آندھیوں کا روپ دھارن کرلیا تھا. درخت اپنی جگہوں سے اکھڑ رہے تھے.  فضا مزید غبار آلود ہوچکی تھی. تاریکیوں نے اپنے پاؤں مزید پسار لیے تھے. اور زہر خند لہجے والی آواز ہال میں گونج رہی تھی. 
        "میں تمہیں آج بھی روز مرتا ہوا دیکھتا ہوں کیونکہ اس اسٹیج اور قوس کی ترتیب میں سجی ان نشستوں پر بیٹھنے والے جب یہاں ملتے ہیں تو تمہارے نظریات، تمہارے وچار اور تمہارے مقاصد کی ارتھیاں سجاتے ہیں۔ تمہارے آدرشوں کی قبریں بناتے ہیں اور دھرتی پر میرا تانڈو شروع ہوجاتا ہے. تم یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو۔۔۔۔بے بس ۔۔۔۔بے کس۔۔۔۔۔کچھ بھی تو نہیں کرسکتے تم۔۔۔۔کیونکہ تم لاچار اور مجبور ہوچکے ہو۔ بالکل ویسے ہی جیسے کبھی تم نے مجھے لاچار اور بے بس بنا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔ہاہاہاہا!“
        زہریلی ہنسی ہال میں گونج ہی رہی تھی کہ پروقار آواز پھر سنائی دی. 
        "کاش! میں ایسا کرجاتا..... میں نے کبھی بھی تم کو بے بس اور مجبور کرنے کی کوشش نہیں کی. میں تو خود طاقت اور غصے کو استعمال کرنے کا مخالف رہا ہوں لیکن آج سوچتا ہوں کہ تمہارے خلاف مجھے دونوں کا استعمال کرلینا چاہئیے تھا. اگر میں واقعی ایسا کر گزرتا تو اس دھرتی کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا."
مگر جواب میں وہی زہرآلود ہنسی پورے ہال میں گونج گونج کر کرسیوں ،پوڈیم اور اسٹیج پر تانڈو کرنے لگی۔
دوسرے فریم میں حرکت پیدا ہوئی ۔۔۔۔اس میں سجی تصویر کے لبوں میں جنبش پیدا ہوئی اور ایک اطمینان بھری آواز ہال میں پھیلتی چلی گئی۔
” میں مجبور نہیں۔۔۔۔
"بیشک تمہارے نظریات نے میری جان لے لی تھی.... میں مر گیا تھا لیکن میرے وچار آج بھی زندہ ہیں. تم کو تو لگا تھا کہ میرا خون بہا کر میرے وچار کا بھی قتل کر دو گے......مگر دیکھ لو آج بھی میرے وچار امر ہیں اور میرے وچار دھارک آج بھی اسی دھرتی پر سانس لے رہے ہیں جس پر میرے سینے سے ابلنے والا خون بہا تھا. 
مجبور تم ہو۔۔۔کیونکہ تم کل بھی ہارے تھے اور آج بھی ہار ہی جاتے ہو۔۔۔۔۔معلوم ہے کیسے؟ ۔۔۔۔ایسے کہ تمہارے نظریات کی حمایت میں اٹھنے والی ہزاروں آوازوں پر میرے آدرشوں کی ایک کمزور سی آواز بھی بھاری پڑجاتی ہے۔۔۔۔۔بالکل اسی طرح جیسے میری آواز نے تمہاری ہنسی کی لاشیں بچھا دی ہیں۔۔۔۔۔دیکھ لو!۔۔۔۔ان نشستوں ۔۔۔۔پوڈیم۔۔۔۔اور اسٹیج کے اطراف تمہارے قہقہے مردہ پڑے ہیں۔“
اس نے ہال میں نظریں دوڑائیں ۔اس کے اپنے قہقہے چاروں طرف مردہ پڑے ہوئے تھے۔
اس نے کمزور سی آواز والے اس نحیف و نزار شخص کو دیکھا ۔وہ دھوتی پہنے ،لاٹھی لئے اپنے فریم میں مسکراتا کھڑا تھا اور اس کی عینک سے باہر جھانکتی آنکھیں اسے دیکھ رہی تھیں۔
اسے محسوس ہوا کہ اس بوڑھے کی نظروں کی چبھن اس کے برداشت سے باہر ہے.
          وہ لپک کر فریم میں واپس گھس گیا اور اس بوڑھے سے نظریں چرانے لگا۔ اس کے فریم میں گھستے ہی ایک چھناکے کی آواز ہال میں گونجی اور فریم کے شیشہ کی کرچیاں ہال کے مخملی فرش پر بکھرتی چلی گئیں. 
          
(ختم شدہ) 

Monday, December 26, 2022

مضمون : ایک انسان فنکار، احمد عثمانی

*ایک انسان فنکار: احمد عثمانی*

تحریر: طاہرانجم صدیقی (مالیگاؤں)


         شہر مالیگاوں پیشتر شعرا نے جہاں پوری اردو دنیا میں اپنے شہر کا نام روشن کیا وہی افسانہ نگاروں بے بھی اردو کی نئی پرانی تمام بستیوں کو اپنے قلم کے ذریعے مالیگاؤں سے متعارف کرایا ہے. مذکورہ افسانہ نگاروں کی صف میں نشاط شاہدوی، سلطان سبحانی، سجاد عزیز، عرفان عارف، شبیر ہاشمی، خیال انصاری، خان انعام الرحمن اور مجید انور وغیرہ کا نام جتنی اہمیت رکھتا ہے اتنا ہی اہم نام احمد عثمانی صاحب کا بھی ہے. 
           احمد عثمانی شہر مالیگاوں کی اس ادبی شخصیت کا نام ہے جس نے نہ صرف افسانے لکھے بلکہ ناول اور بچوں کی کہانیاں تخلیق کرنے میں بھی پیچھے نہیں رہے. افسانے انہوں نے جہاں عام سے لکھے وہی علامتی، تمثیلی، اور تجریدی افسانے بھی لکھے اور اردو کے افسانوی ادب میں اپنے حصے کے جواہرات شامل کیا. اپنی اہمیت کا احساس دوسروں کے دلوں میں پیدا کیا اور ایک ادیب کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی. 
           ان کی بنی ہوئی شناخت کے سبب ہی جب میں ان سے پہلی مرتبہ افسانہ نگار کی ہے حیثیت سے ملا تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ وہی احمد عثمانی ہیں جنہوں نے "رات کا منظر" ، "اپنے آپ کا قیدی" اور "اپنی مٹی" جیسے افسانوں کے مجموعے اردو ادب کو بخشے ہیں. 
           گہری گندمی رنگت، پیشانی پر تفکر کے نشانات، بولنے میں تھوڑے سے تیز رفتار مگر اچانک ہی جملے کو درمیان سے  توڑ دینے کے عادی، جملے کی تکمیل پر بعض اوقات اوپری تالو سے زبان رگڑ کر کسی نامعلوم ذائقے کے متلاشی اور سفاری سوٹ میں ذرا سے دبتے قد والے اس انسان سے مل کر قطعی طور پر مجھے محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اتنے بڑے ادیب ہیں بلکہ احمد عثمانی صاحب سے گفتگو کے دوران صاف طور پر یہ احساس اپنا سر اٹھا رہا تھا کہ اس وقت احمد عثمانی صاحب اپنی شناخت اور اپنی عظمت کی اونچی کرسی سے اتر کر میری اپنی سطح پر، خود میرے اپنے سامنے اور میرے ساتھ کھڑے ہیں. 
           بالکل عام سا لہجہ، سیدھے سادے الفاظ، باتوں میں کوئی الجھاؤ نہیں، گفتگو میں کوئی خورد برد نہیں. ان کی باتوں سے لگتا تھا جیسے ان کے دل و ذہن اور زبان کے درمیان کوئی بھی چیز حائل نہیں ہے ورنہ ان کی سطح کے کچھ ہی ادیب ہوں گے جو نئی نسل کے ایک نوجوان افسانہ نگار سے اس قسم کا برتاؤ کر سکیں کیونکہ ان کی باتوں سے، ان کی حرکات سے یا پھر ان کے رکھ رکھاؤ سے کہیں نہ کہیں ان کے عظیم فنکار ہونے کی بو آہی جاتی ہے مگر احمد عثمانی صاحب تو بڑے ہی خلوص کے ساتھ پیش آئے اور انہوں نے اپنے برتاؤ سے مجھے جتنی عزت بخشی اس سے کہیں زیادہ عظمت وہ اپنے لئے میرے دل میں بنا گئے. 
          اتنے پرخلوص اتنے ملنسار اور اسے سیدھے سادے احمد عثمانی صاحب کی تخلیقات کی دنیا میں جب ہم  داخل ہوتے ہیں تو پھر وہ کہیں بھی سمجھو تہ نہیں کرتے. مسلسل اپنی فنکاری کا اظہار کرتے چلے جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان کے فن کا کوئی سرا بھی ہمارے ہاتھ آ نہیں پاتا اور وہ آگے بڑھ جاتے ہیں.
          احمد عثمانی صاحب نے جہاں ترقی پسندوں کا ساتھ دیا وہیں جدیدیت کی تحریک سے بھی آشنا رہے. یہاں تک کہ مابعد جدیدیت کی لہر سے بھی وہ واقف رہے ہیں اور اپنے گرد و پیش ہونے والی تبدیلیوں پر نگاہ رکھ کر انہوں نے ان سے بھرپور استفادہ کیا ہے. نیز اس استفادے سے اپنے فن کو پختگی عطا کی ہے تاکہ تادیر ادبی دنیا میں ان کے فن کی روشنی پھیلی رہے اور یہ سچ بھی ہے کہ اسی ادیب کا تخلیق کردہ ادب صدیوں تک زندہ رہا ہے جس نے زمانے کے تغیر کے ساتھ اپنے فن میں بھی تبدیلیاں پیدا کرکے اسے زمانے کی ضرورت کے مطابق استعمال کیا ہے. 
          اس لیے احمد عثمانی صاحب کے ناول "زندگی تیرے لیے" اور بچوں کے ناولٹ "نوٹ کے پودے" کے بعد ان کا افسانوی مجموعہ "قفس"بھی منظر عام پر آ چکا ہے. اس موقع پر مجھے اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ یقینا مذکورہ مجموعے میں شامل افسانے بھی آج کے مسائل سے ضرور آنکھیں ملائیں گے اور ان کی ضرورتوں کو بھی ضرور پورا کریں گے. 
          قفس کے ساتھ مری نیک خواہشیں طاہر قفس کے بعد بھی اِک عزم ان کا شہ پر ہو
          مذکورہ بالا تمام سطور "قفس" کے اجرا کی تقریب میں میں نے احمد عثمانی صاحب کے سامنے پڑھی تھیں مگر اب ان سطور کو لکھ رہا رہا ہوں تو احمد عثمانی صاحب اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں. آج رات ہی ان کی تدفین عمل میں آئی ہے.
          قفس کے بعد بھی وہ رکے نہیں، وہ تھکے نہیں، وہ نچلے نہیں بیٹھے بلکہ لکھتے رہے اور مسلسل لکھتے رہے حتی کہ شہر مالیگاؤں میں منعقد ہونے والی بیشتر افسانوی نشستوں شریک ہوکر اپنے افسانے بھی سناتے رہے. افسانہ نگاری کی نئی نسل کو راہیں دکھاتے رہے. حوصلہ دیتے رہے. نیز ماہنامہ بیباک کے مدیر ہارون بی اے صاحب نے اپنی علالت کے بعد ماہنامہ بیباک کی ادارت کی جو ذمہ داریاں ان کے کاندھوں پر ڈالی تھیں وہ  اسے اخیر وقت تک سنبھالے رہے اور باقاعدگی سے "بیباک"جیسا ادبی رسالہ ہر ماہ نکالتے رہے.
          اب "زندگی تیرے لئے" احمد عثمانی صاحب جیسا "اپنے آپ کا قیدی" "رات کا منظر" چھوڑ کر "قفس" توڑ" کر" اپنی مٹی" میں دفن ہوچکا ہے. صرف اس فنکار انسان کی یادیں،  باتیں اور الفاظ ہمارے درمیان زندہ ہیں. ایسے موقع پر اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس" فنکارانسان" کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے. آمین!



یہ بھی پڑھیں :



Friday, December 23, 2022

غزل : یہی کہ ڈوب مروں گا نا اور کیا ہوگا؟

مکمل طرحی غزل  



طاہر انجم صدیقی 


یہی کہ ڈوب مروں گا نا! اور کیا ہوگا؟
شناوروں میں مرا نام تو لکھا ہوگا 

قدم قدم پہ بڑا سخت معرکہ ہوگا
ہمارے جینے کا جب فلسفہ نیا ہو گا

ہمارے شعر کا کچھ رنگ یوں جدا ہوگا
ہماری فکر کا اپنا ہی زاویہ ہوگا

پھر آج حکم ہے ہتھیار ڈال دینے کا
سنا تھا ہم نے کہ اب کے مقابلہ ہوگا

مِرے اجالے کریں گے اندھیروں کی تکفیر
مِرا چراغ ہواؤں کا مرثیہ ہوگا

میں ہچکیوں سے یہی سوچ کر بہت خوش ہوں
ہتھیلی پر وہ ِمِرا نام لکھ رہا ہوگا

ہمارے خون کے چھینٹے جہاں پڑے ہوں گے
وہیں سے دیکھنا، سورج ابھررہا ہوگا

حسینیت پہ تصدّق کریں گے جانیں ہم
ہمارے سامنے جس روز کربلا ہو گا

اس غزل کو بھی پڑھیں. نوازش ہوگی. 🔽






Monday, December 19, 2022

رومانی افسانہ : پنکھڑی اک گلاب کی سی

*پنکھڑی اک گلاب کی سی*

(طاہرانجم صدیقی) 





           ہم لوگ اپنی دوڑتی بھاگتی مصروف زندگیوں سے تھوڑا وقت چرا کر مہینے دو مہینے میں کہیں نہ کہیں تفریح کے لئے نکل جایا کرتے تھے. میں راستوں کے اطراف قدرت کے سجائے گئے حسیں مناظر سے ہمیشہ ہی لطف اندوز ہوا کرتا تھا. پیچھے کی طرف دوڑے بھاگتے درختوں کی قطاریں، ایک چکّر سا کاٹتے ہوئے میدان، کھیت اور وادیاں، لپکتے چلے آنے والے چھوٹے بڑے پہاڑ، کہیں ان پہاڑوں کی چوٹیوں کو جھک کر چومتے سفید، سرمئی، اجلے اجلے ابر کے ٹکڑے اور ان کی بلائیں لے کر گزر جانے والی سیاہ بدلیاں، زمین کی محبت میں پہاڑوں سے اترتے چلے آنے والے جھرنے، لہراتی بل کھاتی ندیاں، ٹکٹکی باندھے آسمان کو تکے چلی جانے والی جھیلیں مجھے ہمیشہ ہی بڑی بھلی لگتی تھیں. البتہ جب کہیں چٹیل میدانوں یا ریگستانوں کے آس پاس سے گزر ہوتا تو مجھے محسوس ہوتا کہ میں ان سے ناواقف نہیں ہوں. مگر اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا. میں ہل اسٹیشن پہنچنے تک اپنے موبائل پر مسلسل پڑھتا رہا. میرے دوست شکایت کرتے رہ گئے مگر میں نے ہل اسٹیشن پہنچنے کے بعد کتاب ختم کرکے ہی موبائل کو جیب میں رکھا.
          ہم لوگ گاڑی سے اتر کر اپنے جانے پہچانے مقام کی طرف بڑھے. وہاں قدرت نے چاروں طرف ہریالی بچھا رکھی تھی. ہواؤں کے تسلسل اور ان میں شامل ٹھنڈک زمین سےآٹھ نو سو فٹ اوپر اٹھ آنے کا خوش کن احساس پیدا کررہی تھی. موت کی سی خاموش گہری کھائی سے لوگوں کو بچانے کے لئے دور تک لوہے کا مضبوط جنگلہ لگایا گیا تھا. جنگلے سے دس پندرہ فٹ آگے بانس کی کھپچیوں اور بَلّیوں پر پلاسٹک کا سائبان تان کر چھوٹی چھوٹی دوکانیں بنائی گئی تھیں. ان دوکانوں کے مالک آنے والوں کو آوازیں دے کر اپنی طرف بلا رہے تھے. 
          "بولو بھائی چائے...... ہاں میڈم ناشتہ......" 
          "گرما گرم بھُٹا لے لو بھئی بھُٹّا!" 
          "بولو سر! گرین ٹی..... کولڈرنک...... آئسکریم....." 
           ہم دوستوں کے قدم بغیر کسی آواز کے اس دوکان کی طرف بڑھ گئے جس کے سامنے وہ کھڑی ہوئی تھی. سفید لباس اور اس کے گلے میں پڑا ہلکے زعفرانی رنگ کا دوپٹہ اسے بن سنور کر آنے والی دوسری لڑکیوں سے ممتاز کررہا تھا. وہ اپنی فیملی کے ساتھ ایک سفید گھوڑے کے پاس کھڑی تھی. اسے دیکھتے دیکھتے میرے ذہن میں ایک تکونی سایہ سا لہرا گیا. 
          کسی نے مجھے ٹہوکا سا دیا تو میں چونک اٹھا. 
          "اوئے رامش! کتابی کیڑے! اب کیا اس کا چہرہ بھی پڑھ ڈالے گا؟"
          مجھ سے مخاطب اپنے دوست کو میں نے خالی خالی نظروں سے دیکھا.
          میری آنکھوں میں اس دوشیزہ کے معصوم چہرے کا عکس دھندلا ہی نہیں ہوا تھا. اس کی گوری اور دل کی گہرائیوں کو روشن کر دینے والی رنگت دل کی دیواروں پر آویزاں تھی. ستواں ناک کے نیچے قدرت کے سجائے ہوئے یاقوتی ہونٹ میری آنکھوں میں اب بھی خمار کی صورت موجود تھے. شام کی سرخی کو شرما دینے والے رخساروں کی رنگت اور ان پر اٹھلانے والی ناگن لٹیں میرے دل کو جکڑے چلی جارہی تھیں. کمان ابروؤں تلے لانبی لانبی پلکوں کے سائبان میں بڑی بڑی کٹورا آنکھوں کی سفیدی میں تیرتی سیاہ پتلیاں دل کے تاروں کو مسلسل چھیڑے جا رہی تھیں. اس کا لہجہ کانوں میں رس گھول رہا تھا. اس کی میٹھی آواز دل تک اترتی چلی جارہی تھی، اس کے قہقہوں سے آس پاس جلترنگ بجتے محسوس ہورہے تھے. 
           وہ ایک شہزادی کی طرح دکھائی دے رہی تھی. اس کے ہاتھوں میں گھوڑے کی لگام تھی. گھوڑا باکل کسی غلام کی طرح سر جھکائے کھڑا تھا. گھوڑے کی دم زمین کو چھورہی تھی لیکن اس شہزادی کی پتلی اور نازک کمر کو چھو کر اٹھلاتے ہوئے بَھرے بَھرے کولہوں کو چوم چوم لینے والے بالوں نے ہواؤں سے ساز باز کر رکھی تھی. وہ تھوڑے تھورے وقفے سے اسے اپنی بانہوں میں سمیٹ لینے کو مچل رہے تھے. وہ ایک عجیب سی شان کے ساتھ انھیں سہلاتی ہوئی اپنے شانوں سے پیچھے دھکیل رہی تھی.
           اسے دیکھتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہورہا تھا جیسے میں ابھی کچھ کہنے کے لئے لبوں کو جنبش دوں تو میرے الفاظ اشعار میں ڈھل جائیں. اس کے لہراتے بالوں کو دیکھ کر لگتا تھا کہ ہواؤں میں ہاتھ لہرا دوں تو سارے منظر پر جادو سا چھا جائے. اس کے رخساروں کی سرخی سے گمان ہورہا تھا کہ آسمان کی طرف ہاتھ بڑھا دوں تو شام اپنے رنگوں میں میری انگلیاں ڈبو دے. ان رنگوں کو زمین پر جھٹک دوں تو سینکڑوں رنگوں کے پھول کھِل جلائیں.
          پھول میرے دل میں کھل رہے تھے.......ایک..... دو اور سینکڑوں نہیں. ..... بلکہ انگنت پھول...... ان میں سے کچھ پھولوں کی پنکھڑیوں میں اس کے ہونٹ لرز رہے تھے. کچھ پھول اس کے سرخ رخساروں کی حیا سے شرما رہے تھے. کسی پھول میں اس کی آنکھوں کی سفیدی کِھلی ہوئی تھی. کسی پھول میں اس کی پرکشش رنگت مچل رہی تھی اور کسی کسی پھول سے وہ جھانکتی ہوئی سی محسوس ہورہی تھی. ان پھولوں کی جداگانہ خوشبوؤں کی لپٹیں اُٹھ اُٹھ کر فضا میں گھلی چلی جارہی تھیں. 
          وہ میری سانسوں میں عطر عطر سا اترتی چلی جا رہی تھی. میری روح تک اس کی خوشبو سے سرشار ہو چکی تھی. وہ میری نس نس میں اٹھلاتی پھر رہی تھی. میں محسوس کر رہا تھا کہ وہ میرے روئیں روئیں سے جھانک کر مجھے دیکھ رہی تھی. اس کے ہونٹ لرز رہے تھے. اس کے رخساروں کی سرخی مزید بڑھ رہی تھی. شرم سے جھک جانے والی لانبی لانبی پلکیں اس کی کٹورا آنکھوں کی پتلیوں پر عارضی نقاب ڈال رہی تھیں. میں مبہوت سا اسے تکے چلا جارہا تھا. میں بہت مسرور تھا. سرشار تھا. معطر تھا. وہ بھی شادماں دکھائی دے رہی تھی. ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ میری کیفیت سے لطف اندوز ہورہی ہو.
          وہ مجھے دیکھ رہی تھی. مسکرا رہی تھی. میرے ذہن میں ریت کے ذرات سے اٹی فضا واضح ہورہی تھی...... تکونی سائے ریت کے ذرات کا پردہ سرکا کر جھانکنے کا جتن کررہے تھے......آگ کی لَپٹیں لہرا رہی تھیں.
          میں اس سے کچھ بولنا چاہتا تھا مگر بولنے سے پہلے اس کی آواز کا جادو میری زبان گنگ کئے جارہا تھا. میں چاہتا تھا کہ اس کی طرف قدم بڑھاؤں مگر اس کے حسن کا طلسم میرے پیروں کو جکڑے ہوئے تھا. میں اٹھنا چاہتا تھا لیکن اس کے وجود کا قرب میرے اعصاب پر قابض تھا. میں اسے دیکھے جا رہا تھا. وہ پھولوں سے جھانکتی اپنی کٹورا آنکھوں سے آنکھ مچولی کھیل رہی تھی. اس کی ہنسی کا جلترنگ میرے کانوں سے دل تک اترتا چلا جارہا تھا.......اور پھر اسی جلترنگ میں مدھم مدھم سی بھنبھناہٹ شامل ہوگئی......چاروں طرف سے وہی بھنبھناہٹ ابھرتی سی محسوس ہوئی.......اور لکڑیوں کے چٹخنے کی آوازیں واضح طور پر سنائی دینے لگیں.......ہمارے چاروں طرف انگاروں کے پھول کھل اٹھے. 
          اچانک ہی ان پھولوں میں ہلچل سی ہوئی اور وہ میرے سامنے آکھڑی ہوئی. میری سانسیں رک سی گئیں. اس نے میری طرف ہاتھ بڑھا دیا. میں نے اس کے ہاتھ کو دیکھا. مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے روشنی کا ایک ہالہ سا میری طرف بڑھا ہوا ہے. اس کی ہتھیلی پر چاندنی سی روشن روشن کوئی چیز کھِلی ہوئی ہے. 
          اس نے مٹھی بند کرلی. میرے وجود میں کوئی چیز بجھ سی گئی. میں تڑپ اٹھا. میں پہلو بدل ہی رہا تھا کہ اس نے اپنے یاقوتی لبوں کو جنبش دی. 
          "آپ کہاں گم ہیں شہزادہ خامون! کچھ فرمائیں کہ جان میں جان آئے."
          اس کے ہونٹوں سے پھول جھڑنے لگے. 
           اس کی آواز کے ساتھ ہی ایک عجیب قسم کی ٹھنڈک میرے کانوں سے ہوتی ہوئی دل تک پہنچنے لگی. میرے اندر کچھ اضطراب سا مچ گیا. مجھے اپنے اندر بڑی گہرائیوں سے کچھ آوازوں کا ایک کَوندا سا لپکتا محسوس ہونے لگا. میرے وجود نے مجھ سے سرگوشی کی.
          "اینیکسی......." 
          اس نام کی مٹھاس میری روح کی گہرائیوں تک پھیلتی چلی گئی. 
          "اینیکسی" 
          میرا وجود اس نام سے سرشار ہو کر مچل اٹھا. میرے زبان سے بے ساختہ نکلا. 
          "اینیکسی...... میری اینیکسی.......میری روح کی گہرائیوں پر قابض اینیکسی! اب تک تم کہاں تھیں؟....... بھلا کوئی روح اپنے جسم کو چھوڑ کر یوں رخصت ہوتی ہے جیسے تم وداع ہوئی تھیں؟ .......  میں نے تم کو کہاں نہیں تلاش کیا؟....... مصر کے سارے اہراموں میں تمہارے کے لئے بھٹکتا رہا....نیل کی گہرائیوں نے میرے منہ سے نکلی تمہارے نام کی پکار سنی...... فرات کے کناروں نے مجھے تمہارے عشق میں دیوانہ وار ادھر ادھر بھاگتے ہوئے دیکھا.......میرے تلوؤں نے تمہاری ایک جھلک کے لئے ریگستانوں کی پیاس بجھا ڈالی..... بابل اور نینوا کی وادیوں کا چپہ چپہ میرے ساتھ مل کر اینیکسی اینیکسی پکارتا رہا...... مگر تم ......تم کو نہ ملنا تھا......نہ ملیں......ہم دونوں کو تو ایک ساتھ حنوط کیا گیا تھا.......ہم نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑرکھا تھا. ہم دونوں کا دوسرا ہاتھ ایک دوسرے کی کمر پر تھا. ہم ایک ہی تابوت میں تھے.. .....ہمارے جسم بھلے دو رہے ہوں.... مگر ہماری روحیں زمین اور آسمان کے کناروں کی طرح ملی ہوئی تھیں.........اس تابوت کو توڑ کر تم کہاں چلی گئیں تھیں اینیکسی.....؟"
          "میرے خامون....... میرے شہزادے...... معاف کرنا مجھے.... دراصل میں آپ کو بے جان ہوتے ہوئے دیکھ نہیں سکتی تھی......میں چاہتی تھی کہ آپ کے قدموں میں اپنی روح بچھا دوں...... اور میں نے وہی کیا بھی...... آپ میری تلاش میں بڑی سرعت سے کہیں نکل چکے تھے....... اس لئے مجھ پر آپ کی نظر نہیں پڑ سکی تھی...... اپنی روح کو آپ کے قدموں میں بچھا دینے والا وہ لمحہ بے انتہا مسرور کن تھا. میری روح عجیب قسم کی لذتوں سے سرشار تھی....... اور جب اس سرور کے درمیان آپ کا خیال آیا تو میں نے دیکھا کہ آپ اپنا جسم چھوڑ کر کہیں رخصت ہو چکے تھے....... اس کے بعد میں خود بھی تو آپ کے لئے دیوانہ وار ادھر ادھر بھٹکتی رہی ہوں..... میں نے بھی آپ کے لئے بہت سارے ملکوں کی سرحدوں کو روندا ہے.......آپ کو کیا لگتا ہے...... آپ کی اینیکسی آپ کے بغیر رہ سکتی ہے شہزادہ خامون؟..... میں نے تو آپ کے لئے اپنا محل...... عیش و آرام..... سب کچھ چھوڑ دیا تھا...... تخت و تاج کو ٹھوکر میں اڑا دیا تھا..... آپ کے بغیر جی لینا کیا مجھ کو زیب دیتا؟ اس وقت جب ہماری روحوں کے اطراف کا ماحول گلنار تھا. میں آپ کے قدموں کی خاک کو اپنے ماتھے پر سجا رہی تھی."
          میں نے دیکھا. اینیکسی کی آنکھوں سے دو موتی نیچے ڈھلک آئے. وہ جیسے ہی زمین پر گرے زمین نے سسکاری سی بھری اور ان آنسوؤں کی جگہ دو پودوں کو سجا دیا. ان پودوں میں اینکسی کی آنکھوں کی شباہت کی دو پتیاں کھِل کر مجھے دیکھنے لگیں.
          میں تڑپ اٹھا. میرے اندر ایک ہلچل سی مچ گئی. میں اٹھ کھڑا ہوا. میں نے دونوں ہاتھوں سے اپنی اینیکسی کا ہاتھ تھام لیا. صدیوں بعد اینیکسی کا لمس پاکر مجھے یوں محسوس ہوا جیسے میرے ہاتھوں میں روئی کا گالہ اور چاند کا ہالہ سا آگیا ہو. ایک عجیب سی لہر میرے ہاتھوں سے گزری اور ذہن و دل پر چھا گئی. 
          میں نے اس کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا. مزید دو موتی ڈھلکنے کو بیتاب تھے. میں نے ٹھنڈی سانس لی. انگلی کی پور سے ان آنسوؤں کو پونچھا. 
          "جانِ حیات اینیکسی! روتی کیوں ہو تم؟ دیکھو! قدرت نے ہمیں ملا ہی دیا ہے نا....."
          میری انگلی کا پور پہلے کافور سا ٹھنڈا ہوا اور پھر گرم ہونے لگا. گرم ہوتا گیا اور کسی انگارے کی مانند جلنے لگا. ہمارے تابوت کے چاروں طرف انگارے دہکتے رہے. لکڑیاں چٹخ چٹخ کر ہماری محبت کی گواہی دیتی رہیں. تکونی سایہ ہمیں گھیرے کھڑے لوگوں کی بھنبھناہٹ سنتا رہا. میں نے اپنی اینیکسی کو دیکھا. اس کی کٹورا آنکھوں میں پیار کا سمندر امڈا آیا تھا. اس نے مچل کر مجھے پوری قوت سے جکڑ لیا...... چاروں طرف دہکتے انگاروں پر اینیکسی کی سانسوں کی گرمی غالب آگئی. 
          "اینیکسی..... میری جان اینیکسی..."
          میں نے اسے سینے سے جکڑ لینے میں اپنی پوری قوت سی صرف کردی. میں اسے شاہانہ ظلم سے محفوظ رکھنے کے لئے اپنے اندر ہی کہیں چھپا لینا چاہتا تھا..... وہ بھی میرے وجود میں مدغم ہو جانے کو بیتاب تھی....... اسی بیتابی میں اس نے میری ہتھیلی پر کچھ رکھ دیا..... میں نے مٹھی بند کرلی. دہکتے انگاروں کے درمیان میری ہتھیلی ٹھنڈی پڑنے لگی...... ٹھنڈک بڑھتی گئی.... آگ کی لَپٹیں تیز ہوتی گئیں. میرا پورا ہاتھ یخ بستہ ہونے کو تھا. رفتہ رفتہ میرے سارے وجود پر وہی ٹھنڈک غالب آتی چلی گئی. 
          اینیکسی میری بانہوں میں تھی. میری مٹھی بند تھی. ہم دونوں ایک ہی تابوت میں تھے. تابوت کے چاروں طرف انگارے دہک رہے تھے..... خوفو کے اہرام کے تکونی سائے میں جلائی گئی وہ آگ ہماری محبت کی گواہ تھی. ہم دونوں ایک ساتھ پگھل جانے کو بیتاب تھے....... میری برف ہوتی مُٹھّی سارے وجود کو ٹھنڈا کئے دے رہی تھی. 
          اچانک ہی کوئی میری مٹھی کھولنے کی کوشش کرنے لگا. 
         " رامش! یہ تو مُٹّھی میں کیا لئے بیٹھا ہے؟ اتنی ٹھنڈی کیوں ہے تیری مٹھی؟......تیرا پورا ہاتھ ہی برف ہورہا ہے! .....مگر رامش! تجھے تو بڑا تیز بخار ہے یار!"
         میں نے خالی خالی نظروں سے بولنے والے کو دیکھا.؟ وہ میرا دوست تھا....... میں نے اینیکسی کو دیکھا...... وہ میری بانہوں میں نہیں تھی..... میرے چاروں طرف ہریالی بچھی ہوئی تھی. اینیکسی گھوڑے کے پاس بھی نہیں تھی. گھوڑا ابھی بھی کسی غلام کی ہی طرح سر جھکائے کھڑا تھا......میں نے بند مٹھی کھولی...... میری ہتھیلی پر چاندنی سی کوئی شئے رکھی ہوئی تھی.....سفید..... خوشبودار......روشن روشن...... ایک پنکھڑی..... گلاب کی سی........
         
                    (ختم شد) 

Sunday, December 18, 2022

غزل : کوئی بھی میرے قد کے برابر نہیں ہوا


غزل

طاہرانجم صدیقی




کوئی بھی میرے قد کے برابر نہیں ہوا
پھر بھی شکایتیں کہ فلک بھر نہیں ہوا

میں نے ستارے جان کے کنکر بچھا لیے
مانا کہ آسماں مِرا بستر نہیں ہوا

آ! دیکھ! شاہکار ترشتے ہوئے کبھی
اک تو ہی اپنی فکر کا آزر نہیں ہوا

میں اپنی جھونپڑی کا شہنشاہ ہوں جناب
دنیا کو روندنے کو سکندر نہیں ہوا

میں بھی طلسمِ ہوش رُبا کے سفر میں ہوں
لیکن ابھی بھی دوستو! پتھر نہیں ہوا

جس کو بھی دیکھتا ہوں پجاری انا کا ہے
طاہر میں اپنی ذات کا محور نہیں ہوا

اس غزل پر بھی کرم فرمائیں 🔽





Tuesday, December 13, 2022

غزل : تمہاری بات آفاقی نہیں ہے

غزل

طاہر انجم صدیقی 


تمہاری بات آفاقی نہیں ہے
مگر انداز بھی خاکی نہیں ہے
...............................................

ابھی تو چاند نکلا بھی نہیں ہے 
ابھی تو رات بھی آدھی نہیں ہے
ق
کوئی جگنو نہ تارہ ہے کہیں پر
ابھی تو روشنی پھیلی نہیں ہے
ق
ابھی ٹھہرو! کہ سانسیں ہم جلائیں
بجز اپنے یہاں کوئی نہیں ہے

 زیادہ تجربہ تم کو ہے لیکن
ہماری عمر کم تھوڑی نہیں ہے

 تمہاری دشمنی سے رب بچائے
تمہاری دوستی اچھی نہیں ہے

نچھاور جاں کرو جاناں پہ، جانو! 
میاں یہ جان بھی مہنگی نہیں ہے

خمار آنکھوں سے ان کی پی گیا ہوں
قسم سے میں نے طاہرؔ پی نہیں ہے

فقیروں میں تلاشو! مِل بھی جاؤں
امیرِ شہر سے یاری نہیں ہے

نہ کیجیے مانگ کر شرمندہ دل کو
کہا نا! میں نے تم کو "جی! نہیں ہے"

چراغاں فتح کا مت کیجئے گا
ہماری سانس ابھی اُکھڑی نہیں ہے

یہ دنیا کاٹنے کو دوڑتی ہے
ہمارے ساتھ جب تو ہی نہیں ہے

غزل کہنے کا فن مشکل بڑا ہے
 غزل کہنے میں آسانی نہیں ہے

یہ آزادی بھلا کس کام کی ہے؟
قلم کو میرے آزادی نہیں ہے

 چراغ اپنا جلانے میں مزہ کیا؟
اندھیرا بھی نہیں، آندھی نہیں ہے

مخالف رت جگوں کے ہم ہیں لیکن
مہرباں نیند ہم پر ہی نہیں ہے

نئے افلاک اس کو ڈھونڈ لیں گے
وہ اک طائر جو لاہوتی نہیں ہے

مرے کردار زندہ ہیں زمیں پر
کہانی میری اسطوری نہیں ہے

!اگر تم ساتھ ہو میرے تو سمجھو 
مری دنیا ابھی اجڑی نہیں ہے

میں اپنی ذات کا مختار ٹھہرا
کسی کھونٹے پہ یہ لٹکی نہیں ہے

!کیلنڈر کی طرح جب چاہو پلٹو
مری تاریخ تو ایسی نہیں ہے

تم اپنی فکر ہی سے پستہ قد ہو
ہماری فکر تو بونی نہیں ہے

مری تہذیب مجھ میں ہے سلامت
مری حرکت کوئی اوچھی نہیں ہے

ترے بارے میں کیا تجھ کو بتائیں؟ 
ہمیں خود سے ہی آگاہی نہیں ہے

غلط فہمی ہے طاہرؔ یہ سمجھنا
غلط فہمی غلط فہمی نہیں ہے


یہ غزل بھی آپ کے ذوقِ مطالعہ کو دعوت دیتی ہے🔽




Monday, December 12, 2022

مضمون : پیام انصاری (حالات سے رلانے والا مزاحیہ شاعر)

*پیام انصاری*

*(حالات سے رلانے والا مزاحیہ شاعر)*

(طاہرانجم صدیقی، مالیگاؤں) 





          دبلے پتلے بدن، پستہ قد گوری، رنگت ماتھے پر تفکر کی گہری لکیروں اور معمولی کپڑوں کے مالک اس شاعر کو جب شہر مالیگاؤں کے لوگ دیکھتے تھے تو بے ساختہ مسکرا اٹھتے تھے مگر فورا ہی ان کی یہ مسکراہٹ سنجیدگی میں بدل جاتی تھی اور وہ لوگ اس شاعر کو ہمدردی اور ترحم آمیز نظروں سے دیکھنے پر مجبور ہو جاتے تھے کیونکہ اس شاعر کا حلیہ اس کی کسمپرسی کے داستان سنا رہا ہوتا تھا۔ اس کا چہرہ اس کی پریشانیوں کی کہانی بیان کررہا ہوتا تھا اور اس کا پیشہ اس کی غربت اور افلاس کا افسانہ بیان کر رہا ہوتا تھا۔
          ‏ مگر جب اسی شاعر کے اشعار کی بات کی جائے تو شہر مالیگاؤں کی مشاعرہ گاہوں میں اس کے نام کا اعلان "کھی کھی کھی"  کی آوازیں بلند کردیتا تھا اور جب وہ شاعر اپنا کام خود اپنے منفرد انداز میں سناتا تھا تو لوگ مارے ہنسی کے لوٹ پوٹ ہو جاتے تھے۔ ہنستے ہنستے ایک دوسرے پر گر پڑتے تھے اور بیچارے شاعر کو  داد بھی نہیں دے پاتے تھے۔ جب تک وہ اپنی ہنسی سنبھال کر پیٹ کے مروڑ کو کم کرتے وہ شاعر دادو تحسین سے بے پرواہ اپنے دوسرے اشعار سنانے میں مگن ہو جاتا تھا۔
          ‏یہ وہی شاعر ہے جس پر ترس کھا کر، اسے صرف چھٹی جماعت کا تعلیم یافتہ سمجھ کر، اسے ہلکا پھلکا اور دبلا پتلا دیکھ کر، اسے غریب دوست جان کر ایک گوشت پوست، قد کاٹھی، تعلیم اور روپیوں سے امیر شخص نے پی ایچ ڈی کے لیے اپنے شہر مالیگاؤں آنے کی بات ظاہر کی تھی۔
          ‏ اپنا نام سن کر وہ شاعر بڑی زور سے ہنسا تھا کہ مالیگاؤں کا وہ مداح جو ممبئی میں کسی کالج میں جونیئرلیکچرار تھا وہ  پروفیسر شپ کے لئے اسی شاعر پر پی ایچ ڈی کرنا چاہتا تھا مگر وہ شاعر ممبئی سے مالیگاؤں چلے آئے اس دوست پر ہنس رہا تھا کیونکہ اس شاعر کے بقول مذکورہ شاعر انتہائی پھٹیچر، غریب، چھٹی کلاس تک ہی پڑھا ہوا تھا۔
          ‏ پھر بھی جب وہ پی ایچ ڈی کے لیے اپنے دوست کے بتائے گئے پتے یعنی گھر کے نام پر ٹوٹے پھوٹے مکان پر پہنچا تو حیرت زدہ رہ گیا کہ دروازے پر اس کا وہی چھٹی جماعت کا تعلیم یافتہ، ہلکا پھلکا، دبلا پتلا اور غریب دوست کھڑا تھا۔ تب اس نے اس سے پوچھا تھا کہ وہ یہاں کیا کر رہا ہے تو وہ شاعر مسکرا کر بولا تھا کہ میں ہوں تمہارے بچپن کا دوست شبیر احمد محمد ایوب اور آج کا پیغام انصاری وہ ہلکا پھلکا اور تک بند شاعر جس پر تم پی ایچ ڈی کرنے آئے ہو۔ "خوش آمدید"
          ‏ جی ہاں یہ وہی پیام انصاری تھےتھا جنہیں لوگ شبیر احمد کی بجائے پیام انصاری کے نام سے جانتے ہیں۔ ان کے آباؤ اجداد یوپی سے مالیگاؤں آئے تھے۔ انہوں نے 7 مارچ 1924 کو دنیا آنکھیں کھولیں۔  انھیں وراثت میں چار لوم ملے تھے لیکن وہ بہنوں کے حصے میں چلے گئے اور وہ اپنے اور اپنوں کے پیٹ کی خاطر دوسروں کا پیٹ صاف کرنے کا چورن بیچنے لگے۔
          ‏ان کے حالات کے بعد جب گفتگو کا رخ ان کے اشعار کی طرف موڑتے ہیں تو انھیں کے بقول ان کی تاحیات شاعری کا پٹارا ہاتھ لگتا ہے۔ جس کا نام ہے "پلاسٹک کے آنسو"۔
          پیام انصاری کے مزاحیہ اشعار کے ‏مجموعہ "پلاسٹک کے آنسو" کا نام ایسا نام ہے جس پر غور کرتے ہی ذہن کے کسی کونے سے مسکراہٹ ابھرتی ہے اور ہونٹوں تک ک آتے آتے معدوم سی ہو جاتی ہے۔
          ‏  پیام انصاری نےاپنی پہلی ہی ہزل کے مطلع کے ذریعے علمِ عروض سے اپنی وابستگی کا اظہار یوں کرتے ہیں:
          ‏اہک جوتا، تین چپل، پانچ سینڈل، چار لات
          ‏فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلاتن، فاعلات
          ‏
          ‏ماڈرن بیٹی کی رخصتی پر وہ نئے زمانے کے مطابق یوں نصیحت کرتے ہیں:
          ‏ اپنے شوہر کو دلدّل ہی بنانا بانو
          ‏لکس صابن سے تو ہرروز نہانا بانو
          مدرسوں اور مسجدوں کے چندہ خور ٹرسٹ کے خلاف احتجاجا لکھتے ہیں:
          ‏ کھا گئے چندہ مدرسے کا ٹرسٹی بن کر
          ‏جن کو ہم شیخ سمجھتے تھے وہ ڈاکو نکلے
          ‏ پھر ملا جیسی صورت والوں کا پول کھولتے ہیں:
          ‏ ملا جیسی صورت والا وہ جو میرا پڑوسی ہے
          ‏ اس نے میرا مرغا چرایا رات کو ساڑھے تین بجے
          ‏ان اشعار کو پڑھنے کے بعد ایک خیال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پیام انصاری نہ جانے کیوں ملّا لوگوں پر اتنا طنز کرتے ہیں کہ پلاسٹک کے آنسو‌‌‌‌‌‌‌‌ میں دو چار اشعار کے بعد ایک نہ ایک شعر ملّا صفت افراد کی شانِ عالمانہ میں گستاخانہ عرض کر ہی دیتے ہیں۔ دیکھیں:
          ‏حبّ نبی کا دعوی لیکن حافظ، قاری، ملا جی
          ‏شوق سے دیکھیں ٹیلیویژن میرے آقا شاہ امم 
          ‏اس شعر کو بھی دیکھ لیں جس میں پیام انصاری ملا  لوگوں کا نام بدل کر پھر ان پر یوں کرم کرتے ہیں:
          ‏ہم میاں بیوی پہ اب اتنا کرم ہے پیر کا 
          ‏رات دن گڑبڑ بڑ ہے ،گھر میں ہے چلن کفگیر کا
          ‏وہ اتنے پر ہی بس نہیں کرتے بلکہ مولوی، ملا کو یوں ڈراتے ہیں:
          ‏حشر کے دن ہر بشر دیکھا بھالا جائے گا
          ‏ مولوی، ملا کا بھی کس بل نکالا جائے گا
          ‏اس کے بعد وہ مالیگاؤں کے سیٹھوں کو تلملا کر رکھ دینے والے چار مصرعے پلاسٹک کے آنسو کے صفحات پر یوں ثبت کرتے ہیں:
          ‏ کھڑ کھڑ آتی ہوئی مشینوں میں 
          ‏ہم غریبوں کا خون جلتا ہے
          ‏ہم کماتے ہیں رات دن اے دوست
          ‏اپنے ٹکڑوں پہ سیٹھ پلتا ہے
          ‏حالانکہ پیام انصاری کو یہ علم رہا ہی ہوگا کہ سیٹھوں سے پہلے خود مزدور ہی پاور لوم سے روزی کشید کرکے اپنے بیوی بچوں کو پالنے کا جتن کرتا ہے۔
          ‏ ایک مزاح نگار اور خاص طور پر مزاح لکھنے والا ایک شاعر اگر بیگم کا ذکر نہ کرے تو شاید اس کی شاعری کو وہ ادھورا ہی سمجھے۔ غالبا اسی لئے پیام انصاری بھی ذکر نہ کرے ایسا ممکن ہی نہیں ہے اسی لئے پیام انصاری نے بھی بیگم اور زن مرید کے تعلق سے یوں لکھا ہے:
          ‏ بیگم کا اپنی ہاتھ بٹانے میں رہ گیا 
          ‏اک زن مرید جھاڑو لگانے میں رہ گیا
          ‏ لیکن پیام انصاری ہنسی ہنسی میں موجودہ حالات کے مطابق بڑی پیاری بات کی ہے۔ دیکھیں:
          ‏پڑھ لکھ کے غیر کرسی کے حقدار ہوگئے
          ‏ اور میں پتنگ کی پیچ لڑانے میں رہ گیا
          ‏ہماری قوم کے لئے بڑے دکھ کی بات یہ ہے کہ ہم تعلیم سے دور ہوکر محکوم بیٹھے ہیں جبکہ ہمارے سامنے موجود دوسری قوموں نے خود کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرکے دنیا والوں پر حکمرانی کا سلسلہ دراز کررہا ہے۔
          ہندوستان کی آزادی میں مسلمانوں کی خدمات کو بری طرح نظر انداز کرنے پر احتجاج کرتے ہوئے پیام انصاری نے یوں لکھا ہے:
          ‏ جس نے وطن کے واسطے دی اپنی جاں اسے 
          ‏غدار کہتے جاؤ گے کہ پندرہ اگست ہے
          ‏لیکن اسی نظم میں ہندوستان کو دیمک کی طرح کھوکھلا کردیئے والی رشوت خوری کی طرف طنز بھرا اشارہ کرتے ہوئے پیام انصاری نے اپنے بیدار ہونے کا ثبوت یوں دیا ہے:
          ‏رشوت ہمارے باپ کا پہلا سبق پیام
          ‏مسکا ہمیں لگاؤ کہ پندرہ اگست ہے
          ‏پیام انصاری کے کلام میں اس شعر پر نظر پڑتے ہی ادبی چاشنی کا احساس ہوتا ہے اور شعر پر داد دیتے ہی بنتی ہے۔ دیکھیں:
          ‏اب بزم ناز میں ہم آئیں تو کیسے آئیں؟
          ‏درباں لیے کھڑا ہے ڈنڈا تیری گلی میں
          ‏غرض کہ پیام انصاری کی پلاسٹک کے آنسو کے مطالعہ کے دوران ایک طرف جہاں مزاح پر مشتمل اشعار ملتے ہیں وہیں دوسری طرف طنز کے ایسے نشتر بھی دکھائی دیتے ہیں جو ذہن وہ دل پر کچوکے لگاتے ہیں۔ 
          ‏وہی پیام جو طنز و مزاح کا شاعر
          ‏نظر میں آپ کی جوکر ہے کیا کیا جائے؟
          ‏امید ہے کہ اس مضمون کو پڑھنے کے بعد آپ کے ذہنوں میں پیام انصاری کے فن اور شخصیت کے تعلق سے بہت ساری باتیں اور یادیں اجاگر ہوں۔ اگر واقعی ایسا ہو تو آپ بھی قلم اٹھائیں اور اس شاعر کو اس کا حق دینے کی کوشش ضرور کریں۔
(ختم شد) 

          



یہ تحریر بھی آپ کی منتظر ہے🔽



Monday, December 05, 2022

غزل : سورج، چاند ستارو! ملنے آئے ہو؟

کچھ اشعار



سورج، چاند ستارو! ملنے آئے ہو؟
تھوڑا بیٹھو! خاک پہن کر آتے ہیں

سر پہ انا کا بوجھ اٹھا کر لائے ہو؟ 
ٹھہرو ہم افلاک پہن کر آتے ہیں

ظلّ ِ الہی سے دو باتیں کرنی ہیں
ہم لہجہ بیباک پہن کر آتے ہیں

ان کی محفل کو رنگین بنانا ہے
ست رنگی پوشاک پہن کر آتے ہیں

وہ ہیں اہلِ دانش طاہرؔ رُک جاؤ! 
ہم فہم و ادراک پہن کر آتے ہیں

(طاہر انجم صدیقی)
04/11/2022

: اس حمد کو ضرور پڑھیں 🔽