Translate ترجمہ

Thursday, July 18, 2024

شکیب جلالی کا کلام: ندرت، محاکات اور زندگی کے تناظر میں

  شکیب جلالی کا کلام 

ندرت، محاکات اور زندگی کے تناظر میں

(طاہرانجم صدیقی) 




شکیبؔ جلالی کے اشعار کے سرسری مطالعے کے دوران پتہ چلا  کہ شکیبؔ کے کئی اشعار میرے ادبی بچپن کے انتخاب میں شامل ہیں. مثلاً 

سوچو تو سلوٹوں سے بھری ہے تمام روح 

دیکھو تو ایک شکن بھی نہیں ہے لباس میں


ذرا نہ موم ہوا پیار کی حرارت سے 

چٹخ کے ٹوٹ گیا دل کا سخت ایسا تھا


یہ ایک ابر کا ٹکڑا کہاں کہاں برسے 

تمام دشت ہی پیاسا دکھائی دیتا ہے

اور میں سوچتا ہوں کہ اگر اُن دنوں شکیبؔ جلالی کا شعری مجموعہ میرے ہاتھ لگ گیا ہوتا تو شاید میں بھی احمد ندیم قاسمی کی طرح تمام اشعار پر نشان لگاتا چلا جاتا. 

یہ اعتراف دیکھیں:

"میں ایک کام سے اپنے گاؤں گیا اور ساتھ یہ شکیب کا مجموعہ" روشنی اے روشنی" لیتا گیا. مقصد یہ تھا کہ اس کی کسی ایک نمایاں خصوصیت کو اپنے مضمون کا موضوع بناؤں اور اس خصوصیت کے حوالے سے اشعار چن لوں مگر جب میں مجموعے کی ابتدائی پچیس تیس غزلیں پڑھ چکا تو میں نے محسوس کیا کہ میں نے اس کی تمام غزلوں کے اشعار پر نشان لگا دیے ہیں اور کوئی ایک شعر بھی ایسا نہیں ہے جسے شکیبؔ کے کمالِ فن کے تذکرے پر نظر انداز کیا جا سکے. "

(احمد ندیم قاسمی، کلیاتِ شکیب جلالی صفحہ نمبر 16) 

یہ اقتباس کسی عام شخص کی تحریر کا نہیں ہے بلکہ فنون کے اس مدیر کا ہے جسے ساری اردو دنیا میں قدر اور احترام کی نگاہوں سے دیکھا گیا، نیز دنیا کے کونے کونے سے ارسال کی گئی تخلیقات کو فنون میں اشاعت کے لیے صرف اور صرف معیار کی کسوٹی پر پرکھنے میں پیش پیش رہنے والے احمد ندیم قاسمی جیسا خاص شخص کسی شاعر کے اشعار کے تعلق سے مذکورہ بالا اعتراف ضبطِ تحریر میں لاتا ہے تو یہ اس شاعر کے لیے اعتراف کے ساتھ ساتھ اعزاز بھی ہے. 

اسی شاعر شکیبؔ جلالی کے فن کی ندرت اور امیجری یعنی محاکات پر سرسری گفتگو کے لیے میں نے قلم اٹھایا ہے. سرسری ان معنوں میں کہ محض ایک مضمون میں کسی ایک فنکار پر سیر حاصل گفتگو کا دعوی خواص اور عوام دونوں کے لیے ہی کھوکھلا ثابت ہوگا. 

ناصر کاظمی, احمد فراز اور شہزاد احمد جیسے کامیاب غزلیں کہنے والے شعراء کی موجودگی میں اپنا مقام بنا لینا ہی یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ اس شاعر کے کلام میں محض شاعری کی روایت پسندی نہیں ہوگی، اس کا کلام کسی نہ کسی وجہ سے مذکورہ بالا شعرا کے کلام کے مابین اپنے وجود کو منفرد ثابت کرنے والا ہوگا اور اس شاعر کے پاس یقینی طور پر کچھ خداداد صلاحیتیں موجود ہوں گی جن کی بنیاد پر اس کے اشعار مذکورہ شعرا کے کلام کے درمیان اپنی ندرت کا احساس کرا جاتے ہوں گے آج ہم اسی نادر اور منفرد کلام کہنے والے شکیب جلالی کے تعلق سے کچھ باتیں کریں گے. 

شکیب جلالی کے تعلق سے کہا جاتا ہے کہ اگر اس دور میں شکیب جلالی جیسا شاعر پیدا نہ ہوتا تو عین ممکن تھا کہ اردو غزل ایک دم دو سو سال پیچھے چلی جاتی اور آئندہ نسل میں اس کا کوئی نام لیوا باقی نہیں رہتا. غالبا یہی سبب ہے کہ اقبال منہاس کو یہ اعتراف کرنا پڑا. 

"شکیب نے اردو غزل کی آبرو بچا لی. شکیب نے اردو غزل کو ایک نئی تازگی عطا کی. جس سے غزل پھلنے پھولنے لگی اور جو یہ کہہ رہے تھے کہ غزل پر جمود طاری ہوگیا ہے. شرم کے مارے منہ چھپانے لگے. 

(شکیب جلالی ایک مطالعہ صفحہ نمبر ٣٨)

فصیلِ جسم پہ تازہ لہو کے چھینٹے ہیں 

حدودِ وقت سے آگے نکل گیا ہے کوئی

شکیب کے انفراد لئے یوں تو اس کے بہت سارے اشعار پیش کئے جاسکتے ہیں لیکن چونکہ شکیب جلالی کے اشعار کو سرسری طور پر دیکھا گیا ہے اس لیے اس پر تفصیلی گفتگو کسی اور وقت کے لئے اٹھا رکھتے ہیں. اس کا سبب یہ ہے کہ شکیب کے اشعار میں ندرت اپنا احساس بار بار کراتی ہے. اسی زاویۂ نگاہ سے ذیل کے اشعار بھی دیکھے جا سکتے ہیں:


ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا 

ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے 


اتر کے ناؤ سے بھی کب سفر تمام ہوا؟ 

زمین پہ پاؤں دھرا تو زمین چلنے لگی 


تو نے کہا نہ تھا کہ میں کشتی پہ بوجھ ہوں 

آنکھوں کو اب نہ ڈھانپ مجھے ڈوبتے بھی دیکھ


میں شاخ سے اڑا تھا ستاروں کی آس میں 

مرجھا کے آ گرا ہوں مگر سرد گھاس میں


میں خاک داں سے نکل کر بھی کیا ہوا آزاد 

ہر اک طرف سے مجھے آسماں نے گھیرا ہے


بیتے دنوں کے زخموں کریدے ہیں رات بھر 

آئی نہ جن کو نیند وہ کیا خواب دیکھتے، 

چونکہ شکیب جلالی کو امیجری کے لیے بھی جانا جاتا ہے اس لئے امیجری یا محاکات کے تعلق سے سلیم شہزاد صاحب کی فرہنگ ادبیات کی غواصی کے بعد جو موتی ہاتھ لگا وہ حاضر ہے:

"محاکہ" بمعنی "حکائی بیان" کی جمع جو سامع یا قاری کے سامنے شعری بیان کی کیفیات کا نقشہ پیش کرے یعنی کچھ ذہنی تصویروں کے ذریعے شعری کیفیات کی ترسیل. رومی نقاد ہوریس نے دوہزار سال پیشتر شاعری کی جو تعریف کی تھی کہ شاعری لفظی مصوری ہے، وہ محاکات ہی کے ذیل میں آتی ہے اور پیکریت کا نیا شعری تصور بھی اسی سے مماثلت رکھتا ہے."

(فرہنگ ادبیات. صفحہ 692)

چونکہ امیجری پر کچھ باتیں کرنی ہیں اس لئے ذیل کے اقتباس کو بھی ضرور دیکھیں: 

"شکیب جلالی کو امیجز کا شاعر کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ اس نے اپنے اشعار میں مکمل طور پر امیجز ہی تراشے ہیں. شکیب جلالی کا کوئی عام سا شعر بھی اٹھا کر دیکھیں تو اس میں بھی پیکر تراشی اپنے پورے جوبن پر نظر آئے گی. وہ اپنے اشعار میں علامت اور تصویر کشی کی طرف بھرپور توجہ دیتا ہے. قاری کے سامنے بنا بنایا پیکر لے اتا ہے."

(ذوالفقار احسن..... شکیب جلالی ایک مطالعہ صفحہ 47)

شکیب کیسی اڑان، اب وہ پر ہی ٹوٹ گئے

کہ زیرِ دام جب آئے تو پھڑپھڑائے بہت

شعر سنتے ہی زیرِ دام آنے والا وہ پرندہ ذہن کی اسکرین پر اجاگر ہوجاتا ہے جو آزاد ہونے کے لئے پورا زور صرف کرتا ہے. تڑپتا ہے. پھڑپھڑاتا ہے مگر بے سود..... قفس اس کا مقدر بن جاتا ہے اور اڑان محض ایک خیال. یا تو وہ پر آزادی کی اس جدو جہد میں ہی ٹوٹ جاتے ہیں یا تو پھر قفس کا حصہ بنانے سے پہلے توڑ دئیے جاتے ہیں اور یہ سارا عمل شکیب جلالی کسی پینسل، برش یا رنگوں کے توسط سے نہیں بناتا بلکہ اپنے لفظوں کے ذریعے کچھ ایسی جادوگری کرتا ہے کہ نہ صرف صیاد کی گرفت میں پھڑپھڑانے والے پرندے کی تصویر بن جاتی ہے بلکہ ذرا سا دھیان دیں تو اس پرندے کے پروں سے پھڑپھڑانے کے درمیان ٹوٹ بکھرنے والے چھوٹے چھوٹے پر بھی نظر آتے ہیں اور پروں کو آزادی کے لئے پھڑپھڑانے کی آوازیں تک سنائی دیتی ہیں. میں اس مقام پر سوچتا ہوں کہ کسی نے درست ہی کہا ہے کہ موسیقی شور سنا سکتی ہے، تصویر نہی‍ں دکھا سکتی اور مصور تصویر بنا سکتا ہے، آواز نہیں سنا سکتا لیکن لفظوں کا استعمال کرنے والا تصویر بھی دکھا سکتا ہے، آواز بھی سنا سکتا ہے بلکہ محسوسات تک سے واقف کرا سکتا ہے. بالکل یہی صورتحال یہاں بھی ہے اور شکیب جلالی کے شعر پڑھنے والے کو صرف پرندے کی متحرک تصویر نظر آتی ہے بلکہ پرندے کے دل میں اجاگر ہوجانے والا آزادی کا وہ خیال، قید ہوجانے کا خوف اور سارا زور صرف کرڈالنے کا مصمم ارادہ لیکن ان سب کے باوجود بھی قفس کا حصہ بن جانے والا مقدر اور قفس کی مایوس کن فضا اس فضا میں سراٹھاتا اپنی فطری اڑان کو بھول جانے یا اس اڑان کے لئے ترستے رہنے اور آہیں بھرنے کا منظرنامہ بھی سامنے آجاتا ہے. 

یا پھر شکیب کا یہ شعر دیکھ لیں:

اسی لیے تو ہوا رو پڑی درختوں میں

ابھی میں کھل نہ سکا تھا کہ رُت بدلنے لگی

کیا یہ شعر ہوا کے چلنے سے پتوں کے سرسرانے کو رونا متشکل کرتا اور کسی غنچے کے بن کھلے مُرجھانے کی حسرت بھری تصویر بناتا محسوس نہیں ہوتا؟ ہوتا ہے مگر ذرا سا غور کریں تو یہاں شکیب کے حالاتِ زندگی کا منظر نامہ بھی بنتا ہے. والدہ کا حادثہ، والد کا ذہنی توازن اور شکیب کے ناتواں کاندھے پر ذمہ داریوں کا بوجھ. شکیب کو کم عمری میں ہی جن حالات کا سامنا کرنا پڑا ان حالات کا سامنا کرنے کے بعد اگر ایسے اشعار وضع نہیں ہوں تو بھلا شاعر آپ بیتی کو جگ بیتی کب بنائے گا؟ یا پھر وہ صرف جگ بیتی ہی بیان کرتا رہے گا. اس کی اپنی ذات کا اظہار وہ کب کرے گا؟

شکیب جلالی کا یہ شعر بھی دیکھیں:

آکر گرا تھا کوئی پرندہ لہو میں تر

تصویر اپنی چھوڑ گیا ہے چٹان پر

کیا اس شعر کو پڑھتے یا سنتے ہی کسی چٹان پر اونچائی سے گرنے والے ایک پرندے کی تصویر نہیں بنتی؟ حالانکہ اس شعر کے تعلق سے ذوالفقار احسن نے "شکیب جلالی فن اور شخصیت" کے صفحہ نمبر 30 پر یوں لکھا ہے:

یہاں پیکر کے تمام اجزاء معنی خیز ہے اور مستقل تعبیر کے متقاضی ہیں. 1) آ کر گرا 2) پرندہ 3) لہو میں تر 4) تصویر 5) چھوڑ گیا 7) چٹان پر.

لیکن ہم جب شعر سے پہلی بار دوچار ہوتے ہیں تو نہ الگ الگ اجزا کے معنی پر غور کرتے ہیں اور نہ ان کی آپسی مسابقت (competitiveness) کی ہمارے ذہن میں کوئی اہمیت ہوتی ہے. ہم اس شعر کو محض اس کے مجموعی پیکری تاثر اور وقت کے دو مقررہ لمحات (آ کر گرا تھا، چھوڑ گیا) کے حوالے سے دیکھتے ہیں. "آ کر گرا" میں پرواز، رفتار، بے قابو رفتار کا تاثر بھی ہے لیکن چٹان کا لفظ سامعہ کو بھی متحرک کرتا ہے کہ سخت چٹان پر جب پرندہ گرا ہوگا تو آواز بھی آئی ہوگی. گویا ہلکے سے گولی چلی ہو. "

جبکہ میری مانیں تو چٹان پر لہو میں تر پرندے کے آگرنے اور چٹان کے سینے پر لہو کے نشانات چھوڑ جانے سے جو متحرک تصویر ذہن کی اسکرین پر بنتی ہے اس میں ذوالفقار احسن نے گولی کی جس آواز کی جانب اشارہ کیا ہے اس طرف دھیان نہیں دیا جائے تو ہم اس پرندے کو اقبال کا وہ شاہین بھی سمجھ سکتے ہی‍ں جس کا کام کسی اور آسمان کی طرف پرواز کرنا ہے. 

اب آپ یہاں پر "چھوڑ گیا" کی طرف غور کریں تو محسوس کریں گے کہ وہ باحوصلہ پرندہ جو اڑتے اڑتے تھکن سے چور ہو چکا ہو، اس کے شہ پر مسلسل اڑان سے شل اور زخمی ہو چکے ہوں اور وہ ایک مضبوط چٹان کے سینے پر آگرا ہو لیکن مرا نہ ہو. اس کے دل میں اڑان کا جذبہ اور پروں میں حوصلہ باقی ہو تو وہ پھر نئے آسمان تلاش میں چٹان پر اپنے لہو کے نشانات چھوڑ کر پرواز کر گیا ہو.

میں اسی لئے کہنا چاہتا ہوں کہ کسی بھی فن پارے کو مخصوص عینک لگا کر دیکھنا اس کے فنکار پر ظلم ہے. اگر قنوطیت، کرب اور موت کی مخصوص عینک لگا کر دیکھیں تو اس شعر میں موت کا اظہار مل جائے گا لیکن اگر شکیب جلالی کے بقول دیکھیں: 

کب سے ہیں ایک حرف پہ نظریں جمی ہوئیں

وہ پڑھ رہا ہوں جو نہیں لکھا کتاب میں 

اور شکیب کے نہیں لکھے گئے الفاظ کو پڑھیں تو اسی مایوسی اور قنوطیت بھرے شعر سے زندگی کو کشید کیا جاسکتا ہے. 

آپ جب کبھی شکیب جلالی کا مطالعہ کریں تو اپنے زاویۂ نگاہ کو بدلیں اور دوسروں کی عینکوں سے دیکھنے کی بجائے اپنی نظر اور اپنے نظریے سے دیکھیں تو شکیب کے اشعار سے زندگی کے ساتھ ساتھ مزید بہت کچھ کشید کرسکیں گے. 

مثال کے طور پر شکیبؔ جلالی کا یہ شعر دیکھیں:

ہوا نے توڑ کے پتھر زمیں پہ پھینکا ہے

کہ شب کی جھیل میں پتھر گرا دیا ہے کوئی

اس شعر کی سماعت یا قرأت کے بعد ہوا سے جھیل میں گرنے والے پتے کی ایک متحرک تصویر دکھائی دیتی ہے اور غور کریں تو سمجھ میں آتا ہے کہ نازک مزاج لوگوں اور حساس لوگوں کے لیے یہ منظر بھی گراں بار ہے اور شکیب جلالی کی رو سے جھیل میں پتھر گرنے کے مترادف ہے. یا پھر جواز لے مدیر سید عارف کے شعر

گرے گا ایک بھی پتہ تو چیخ ابھرے گی

یہ ڈال ڈال کا رشتہ بہت پرانا ہے. 

مضمون کی طوالت کے دامن گیر خوف کے سبب ذیل کے اشعار دیکھ لیں اور اپنے طور ان پر غور کریں کہ شکیب جلالی نے ان اشعار میں کیسی کیسی متحرک تصاویر کو اپنے لفظوں سے پینٹ کر کے رکھ دیا ہے. 


کمرے خالی ہوگئے سایوں سے آنگن بھر گیا

ڈوبتے سورج کی کرنیں جب پڑیں میدان میں


بس چلے تو اپنی عریانی کو اس سے ڈھانپ لوں

میلی چادر سی تنی ہے جو کھلے میدان پر


وہ خموشی انگلیاں چٹخا رہی تھی اے شکیب

یا کہ بوندیں بج رہی تھیں رات روشندان پر


یوں آئینہ بدست ملی پربتوں کی برف

شرماکے دھوپ لوٹ گئی آفتاب میں


دف بجائیں گے برگ و شجرطصف بہ صف، ہر طرف

خشک مٹی سے پھوٹے گا نم صبر کر صبر کر


چوما ہے میرا نام لبِ سرخ نے شکیب

یا پھول رکھ دیا ہے کسی نے کتاب پر 

اپنی بات کو ذوالفقار احسن کی اس بات کے بعد ختم کرنا پسند کروں گا:

پیکر پر مبنی شاعری کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ سامع/قاری رک کر اس کے معنی نہیں پوچھتا. اس پیکر کی جو معنویت خود سامع/قاری کے ذہن میں ہوتی ہے وہ تمام دوسرے تاملات اور تمام مسابقتی تعبیرات کو روک دیتی ہے اور ایک ایسی شعری صورتِ حال پیش کرتی ہے جو تعبیر سے ماورا اور صرف احساس و محسوس پر مبنی ہوتی ہے."

(شکیب جلالی فنباور شخصیت صفحہ 30)

یہ معاملات شکیب جلالی کے زیادہ تر اشعار سنتے ہی سامنے آجاتے ہیں. امید ہے کہ آپ اس زاویے سے بھی شکیب جلالی کے اشعار کو دیکھتے ہی ہوں گے اور اگر اب تک نہیں دیکھا ہے تو ضرور دیکھیں. 

حالانکہ بعض تنقید نگاروں اور دانشوروں نے شکیب جلالی کے حالات، والدہ کی موت، والد کے پاگل خانے پہنچنے اور خود شکیب کی خودکشی کے سبب اسے قنوطیت زدہ اور بیچارہ شاعر مشہور کرتے ہیں جبکہ ایسا ہے نہیں. شکیب محض مایوسی، موت، شکوے شکایت اور محرومیوں کو بیان کرنے والا شاعر نہیں ہے بلکہ اس کے یہاں مسرتوں اور زندگی کا اظہار بھی ملتا ہے. دیکھیں:

کیوں رو رہے ہو راہ کے اندھے چراغ کو 

کیا بجھ گیا ہوا سے لہو کا شرار بھی

اس شعر کو دیکھیں اور سوچیں کہ یہاں مایوسیاں ہیں، موت ہے، محرومیاں ہیں یا پھر کچھ اور؟ کچھ اور ہی ہے. اور وہ کچھ اور زمانے والوں سے دو دو ہاتھ کرلینے پر اُکسانے والا ہے، مایوس ہو کر اپنے آپ کو آندھی کالی راتوں کے حوالے کرنے کی بجائے باامید ہو کر جہدِ مسلسل کا درس دیتا ہوا محسوس ہوتا ہے. 

نیز ایسے ہی کچھ امید و حوصلے اور زندگی سے بھر پور اشعار بھی شکیب نے کہے ہیں. دیکھیں:

کتنے طوفان اُٹھے ، کتنے ستارے ٹوٹے 

پھر بھی ڈوبا نہیں اب تک دل بیدار یہاں


کہتا ہے آفتاب ذرا دیکھنا کہ ہم 

ڈوبے تھے گہری رات میں کالے نہیں ہوئے


توڑ کر حلقہ شب ڈال کے تاروں پر کمند

آدمی عرشۂ آفاق پہ چھا جائے گا


ٹھوکر سے میرا پاؤں تو زخمی ہوا ضرور 

رستے میں جو کھڑا تھا وہ کہسار ہٹ گیا. 

ایک مرتبہ پھر سے شکیب جلالی کا مطالعہ کریں اور پہلے سے طے شدہ نظریوں کو پسِ پشت ڈال کر مطالعہ کریں. یقیناً اس فنکار کے اشعار سے آپ کو قنوطیت، موت، افسردگی، شکایات اور رنج وغم کے علاوہ مزید کچھ اور مل ہی جائے گا. 


(ختم شد) 

Saturday, June 22, 2024

غزل: اپنا بستر اُٹھا کے لے آیا

 غزل

طاہرانجم صدیقی  


اپنا بستر اُٹھا کے لے آیا

یعنی میں گھر اُٹھا کے لے آیا


آتے آتے تمہاری بستی سے

ایک منظر اُٹھا کے لے آیا


خواب کی کرچیوں سے خوفزدہ

نیند کا ڈر اُٹھا کے لے آیا


میل دنیا کے زائچوں سے نہیں

کیا مقدّر اُٹھا کے لے آیا! 


کوئی منزل نہیں تھی گٹھری میں

میں برابر اُٹھا کے لے آیا


روندنے کو اکڑ رہا تھا جو

میں وہی سر اُٹھا کے لے آیا


سورجوں کے حصار سے طاہرؔ 

چاند کو گھر اُٹھا کے لے آیا


22/6/24 



Thursday, April 11, 2024

اٹھائیس کا چاند(طنزومزاح)

چھپانا ہی ہوتا تو چھ دسمبر چھپا لیتا. کیلنڈر سے بلیک ڈے اور مسلمانوں کے ماتھے سے کالا داغ مٹ جاتا."

 طنزومزاح

اٹھائیس کا چاند 

(طاہر انجم صدیقی)




         پُنّے میاں اپنی زبان کی چرخی میں الجھ کر رہ گئے. وہ یاروں میں یہ بھول گئے تھے کہ دوست اچھائی سے زیادہ برائیاں جانتے ہیں. 

         اس روز بھی ان کی زبان کی  قینچی چل رہی تھی. 

         "اپُن نے بھی جوانی میں خوب روزہ رکھا ہے. ایک روزہ نہیں چھوٹتا تھا اپُن کا. بلکہ کئی مرتبہ تو بغیر سحری کے بھی روزہ رکھا ہے اور وہ بھی ایسا کہ.........."

         شفیق نے پُنّے میاں کی بات درمیان سے ہی اچک لی. 

         "کیا بولے؟ روزہ اور تم؟......... پنّے میاں ذرا آدمی دیکھ کر چھوڑا کرو.......سارا رمضان تو ہم دونوں غیر شرعی پردہ دار ہوٹلوں میں کھاتے تھے اور بات کررہے ہو........تمہارے لیے ایک وقت کا کھانا چھوڑنا تو مشکل ہے اور بڑے آئے بغیر سحری کا روزہ رکھنے والے......... اِدھر دیکھو! یار خان کو! جب روزہ نہیں رکھ پاتا نا تو تمہاری طرح لمبی لمبی چھوڑتا بھی نہیں ہوں. بتاؤں کیا تمہارے روزے کی داستانِ طلسم پیٹ رُبا؟"       

         پُنّے میاں تھوڑا سا جھینپ گیے.....اور منانے والے انداز میں بولے.

          "ارے نہیں یار شفیق! تم تو برا مان گیے. جانے دو."

          "نہیں...... میں تو بتاؤں گا......!"

شفیق نے کمر کس لی. پّنّے میاں کی لنگوٹی کھُل گئی. 

          شفیق نے اکرم، عمران، ریاض اور سلطان کو مخاطب کیا. وہ چاروں سننے کے لئے خم ٹھونک کر میدان میں اتر آئے لیکن پُنّے میاں ہتھے سے اکھڑ گیے. وہ تن کر کھڑے ہو گیے.

          "تم کھڑے رہو یا چلے جاؤ میں تو بتاؤں گا...... سنو بھائی لوگ! داستانِ غیرسحراں! ....... جب یہ روزے تھے نا...... تو صرف گھر والوں کے لیے تھے !...... صبح گیارہ ہی بجے ان کا بارہ بج چکا تھا. آدھمکے دربارِ جہانگیری میں.......لگے زنجیر ہلانے....."

" مگر یار شفیق زنجیر تو انصاف مانگنے کے لیے ہلائی جاتی ہے نا؟ "

" ہاں! پُنّے میاں! انصاف ہی تو مانگنے آئے تھے. پیٹ کے چوہوں کے لئے. ان سے خیریت دریافت کی تو مُسمُسی صورت بنا کر کہنے لگے. 

"یار شفیق! پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں. تمہاری بھابھی نے سحری لے لیے زبردستی اٹھا دیا تھا. آج "سَم قدر ( شبِ قدر) ہے. بڑا روزہ ہے نا!......مگر یار شفیق! ابھی تو سارا دن پڑا ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اپُن نے دو دن سے کچھ کھایا پیا نہیں ہے. یہ دھوپ تو چٹکا ایسا ماررہی ہے جیسے بھری دوپہر کی ہو....... گلا سوکھ کا کانٹا ہو رہا ہے....... رحم کرو یار....... کچھ کھلا پلا دو مجھ........"

          "ایسا؟ ایسا کب بولا تھا؟"

          پُنّے میاں نے شفیق کی بات کاٹ دی. شفیق تنک ہی گیا. 

           "پُنّے میاں! تم تو ایسے گھگیا گھگیا رہے تھے کہ بس "اللہ کے نام پہ کھلا دو باوا" بولنا ہی باقی رہ گیا تھا اور ابھی پوچھ رہے ہو کہ ایسا کب بولا تھا؟"

            " جاؤ! یار میں تم سے بات نہیں کرتا."

            پُنّے میاں پھول گئے.

            "اور ہاں بھائی لوگ! ان کا ماہرِ فلکیات والا قصہ بھی سناتا ہوں؟"        

            " کیوں نہیں؟"

            " ضرور سناؤ."          

             یکے بعد دیگرے سبھی تائیداً بول پڑے اور  پُنّے میاں کی بولتی بند ہوگئی. ان کا منہ کچھ کہنے کے لیے کھلا کا کھلا ہی رہ گیا. وہ جانتے تھے کہ اب تو یہ گڑا مردہ اُکھڑ کر ہی دم لے گا. 

             شفیق نے اپنی ٹوپی درست کی اور  پُنّے میاں کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہنے لگے.

             "یقین جانو کہ  پُنّے میاں نے سارا رمضان کچھ کھایا ہو یا نہ کھایا ہو مگر میرا کان کھانے ضرور کھاتے رہے ہیں. کیوں میاں بتاؤں یا نہیں؟" 

             "تم اور نہیں بتاؤ گے؟ ہو ہی نہیں سکتا. عورتوں اور تم میں کوئی فرق نہیں ہے. جب تک سترہ گھر جاکر گا نہ لو تم کو چین کہاں رہے گا؟"

      پُنّے میاں نے عورتوں کی طرح ہاتھ نچایا اور ذرا سے مردانہ لہجے میں بولے.

            "تم کو لگتا ہے اس طرح میں رک جاؤں گا.......بھول رہے ہو  پُنّے میاں کہ میرا نام شفیق ضرور ہے.....لیکن ایسے معاملات میں قطعی شفقت نہیں کرتا.......ہاں تو دوستو! میں کہہ رہا تھا کہ یہ پُنّے میاں سارا رمضان میرا کان کھاتے رہے. پوچھو کیسے؟"

           " کیسے بھئی" 

           " کیسے؟" 

           "کیسے؟" 

            سارے دوست کورس بن گئے. 

         " کیوں پُنّے میاں! کیسے کان کھاتے رہے ان کا؟"

    ریاض نے  پُنّے سے ہی پوچھ لیا اور گیند  پُنّے میاں کے پالے میں ڈال دی.

          " مجھ سے کیا پوچھتے ہو؟ یہ بی بی سی لندن شفیق ہے نا. ان سے ہی پوچھو...... ان کا ہی پیٹ پھولا ہوا ہے. جب تک بَکیں گے نہیں ان کی نارمل ڈیلیوری نہیں ہونے والی."

          "ہاں بھیّا! ہم تو بکیں گے.......اور تم اپنی وہ بک بک بھول گئے جو سارا رمضان کرتے رہے...... سنو دوستو! یہ اپنے جو  پُنّے میاں ہیں نا...... رمضان کا چاند نظر آتے ہی بھاگے بھاگے میرے پاس آئے. حالانکہ یہ اس روز اوندھے منہ گر گئے تھے اور خود ان کے ماتھے پر بڑا سا گومڑ چاند بن کر چمکنے لگا تھا لیکن. خدا جانے انہوں نے چاند کو کب اور کہاں دیکھ لیا. تب سے برابر مجھ سے رابطے میں ہیں.

          اس روز کا چاند ٹھیک طرح سے غروب بھی نہیں ہوا ہو گا کہ یہ میرے گھر طلوع ہوگئے. لگے دور ہی سے آوازیں لگانے. 

          "شفیق میاں! او شفیق میاں!" 

          میں نے سوچا کہ کیا افتاد آپڑی ہے پُنّے میاں پر جو اس طرح چیخ پکار کررہے ہیں. میں سرعت سے باہر نکلا تو یہ میاں سرگوشی کرنے لگے. 

           "معلوم ہے شفیق میاں کہ آج رمضان کا جو چاند دکھائی دیا ہے نا وہ انتیس کا چاند تھا."

          "مگر یار پُنّے! ہم نے تو ابھی ابھی تیس کا چاند دیکھا ہے نا؟" 

           میں نے وضاحت کی تو یہ فوراً رازدارانہ انداز سے کہنے لگے." 

           "کسی سے بتانا مت کہ ہم نے جو ابھی دیکھا ہے یہ کل کا چاند ہے." 

میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آیا. بس سر کھجا کر پوچھ بیٹھا. 

"کل کا چاند؟" 

ہاں! بھئی! یہ کل ہی کا چاند ہے. ہمارا ایک روزہ چھوٹ چکا ہے."

           اس بات پر تو میں اپنے پُنّے میاں کا گومڑ والا چاند دیکھتا رہ گیا جو ان کے ماتھے پر پوری تابناکی کے ساتھ موجود تھا. اس پر طرہ یہ کہ ہمارے طرم خان مزید کہنے لگے. 

          " ایسے حالات میں جب شک ہو کہ چاند ہو چکا ہے مگر یقین نہ ہو تو اس سے اگلے دن کو یوم الشک یعنی شک کا دن کہتے ہیں. اس روز روزہ رکھنا منع کیا گیا ہے."

          اب بھیّا میں تو پریشان ہوگیا. یہ یوم الشک کیا ہے؟ مجھے پُنُے میاں پر ہی شک ہونے لگا. کہیں یہ دو والی تو نہیں دے رہے ہیں. اس سے پہلے میں نے یوم الشک کبھی نہیں سنا تھا. مسجد کے امام صاحب سے پوچھا اور پُنّے میاں کا اعتراف کیا تو پھر ہمارے پُنّے میاں روز روز آدھمکنا شروع ہو گئے. روز یہی بات، روز یہی موضوع اور پھر اس میں یہ بات کہ آج سعودی میں اتنا روزہ ہوا، آج اتنا ہوا اور تو اور یہ ہمارے پڑوسی ملک کے بارے میں بتا بتا کر سارا رمضان ڈراتے رہے ہیں."

          "ڈراتے رہے سے کیا مطلب؟"

         "اس میں ڈرنے کی کیا بات؟"

         "کہیں تم یہ تو نہیں سمجھ بیٹھے تھے کہ رمضان شروع ہوتے ہی شیطان کے ساتھ تم کو بھی بند کردیا جائے گا؟"

           " نہیں یار! یہ آ آ کر بتاتے رہے ہیں کہ ہمارے پڑوسی ملک میں روزہ ہم سے ایک دن آگے چل رہا ہے. سعودی کے برابر چل رہا ہے....... اور ہاں آخر آخر میں تو سعودی کی دھمکیاں جاری کردی تھیں ہمارے پنّے میاں نے."

           وہ کیسے بھئی؟...... سعودی کب سے ہوگئے کہ ان کے نام کی دھمکیاں دی جائیں؟...... جس دن ایسا ہوگیا نا اس دن سے مسلم ممالک کی تاریخ کا سنہرا باب شروع ہوجائے گا."

           "ذرا ہم بھی تو سنیں پنّے میاں کی دھمکیاں!" 

           سلطان نے کہا اور سبھوں نے کمر کا لی. 

           شفیق نے مزید چہک کر کہنا شروع کیا اور پنّے میاں دھم سے زمین پر آ بیٹھے."

             "یہ جس دن بڑے روزہ سے تھے نا...... اس دن تو غضب ڈھایا تھا......میں گیارہ بجے سے ان کے ساتھ کھانے کے چکر میں ادھر ادھر مارا مارا پھرتا رہا اور یہ مسلسل مجھ کو پکاتے رہے. بار بار چاند کا تذکرہ...... بار بار سعودی کا ذکر...... بار بار پاکستان کا ذکر.......اور پھر یہ کہ اب کی بار سعودی والے ہمارے ساتھ عید منائیں گے. ہمارے یہاں جس دن عید ہوگی سعودی عرب میں بھی اسی دن عید ہوگی. مجھ کو لگا کہ چاند کے چکّر میں پُنّے میاں چکور ہوگئے ہیں."

            " ایسا!" ریاض نے درمیان میں کہا

           " کیا بات کرتے ہو؟" اکرم نے سوال کیا اور شفیق نے اپنی بات جاری رکھی.

          "وہ تو سب چھوڑو! غضب تو یہ ہوا کہ اٹھائیسویں روزے کو آدھمکے پنّے میاں......بڑے رازدارانہ انداز سے کہنے لگے. 

          "میاں شفیق! کسی کو بتانا مت! آج اٹھائیسویں تاریخ ہے."

          "اب بھلا اٹھائیس تاریخ میں چھپانے والی ایسی کون سی بات تھی؟ چھپانا ہی ہوتا تو چھ دسمبر چھپا لیتا. کیلنڈر سے بلیک ڈے اور مسلمانوں کے ماتھے سے کالا داغ مٹ جاتا."

          "شفیق میاں! تم بہت جلدی سنجیدہ ہوجاتے ہو یار! میرے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ ہم کو آج اٹھائیس تاریخ ہونے کے باوجود بھی چاند دیکھنا ہے."

          "میاں پنّے! کچھ خوف کرو اللہ کا...... اب بھلا اٹھائیس کا چاند کہاں سے لاؤ گے.  پہلے ہی کیسی کیسی بدعات رائج ہیں. اب تم اٹھائیس والی بھی ایجاد کرو گے؟" 

         "نہیں یار! تم سمجھو تو سہی! میں کہہ رہا ہوں کہ رمضان کا ہمارا پہلا روزہ چھوٹ چکا ہے تم دھیان ہی نہیں دے رہے ہو....... تو اس حساب سے آج انتیسواں روزہ ہے نا؟...... اٹھائیس کا چاند کیسے ہوگا بھلا؟ انتیس کا چاند دیکھیں گے نا ہم لوگ!......... "

         پُنّے میاں فیثاغورث بن گئے. شفیق پُنّے میاں کا حساب کچھ کچھ سمجھ گیا مگر ان سے الجھ گیا. 

         " پُنّے میاں! اگر لوگوں نے ہم کو اٹھائیس کا چاند دیکھتے ہوئے پکڑ لیا تو ہمارا ایسا مذاق بنے گا نا کہ ہم چاند تو دور کی بات ہے سورج دیکھنا بھی بھول جائیں گے. "

         "ارے یار شفیق تم تو ایسے کہہ رہے ہو جیسے ہم چاند کے بہانے چاندنی کو تاڑیں گے......."

          پُنّے میاں نے ایک دبا کر کہا. 

         "پُنّے! اب ہم صرف تاڑنے ہی کے تو رہ گئے ہیں.......مگر ایک بات کا دھیان رکھنا کہ اگر قدرت نے ہم کو تاڑ لیا نا تو بڑے خسارے میں رہیں گے."

          "ابے مولانا! منہ میں دانت نہیں پیٹ میں آنت نہیں اب کیا کریں گے تاڑ توڑ کے..... چلو اٹھو! چاند دیکھنے!"

          پُنّے میاں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اٹھادیا. 

         میں اٹھ کر پُنّے کے ساتھ چلا. ساتھ کیا خاک چل رہا تھا؟ ایسا لگتا تھا کہ پُنّے میاں کو پر لگ گئے ہیں. سمجھنا مشکل تھا کہ وہ چل رہے ہیں، دوڑ رہے ہیں یا اڑ رہے ہیں. تینوں کا ملغوبہ بنے پُنّے میاں نظروں سے اوجھل ہوگئے. 

         اللہ اللہ کرکے میں مسجد والے چوک میں پہنچا تو پُنّے میاں کی بجائے پندرہ بیس لوگ گھیرا بنائے کھڑے نظر آئے. 

          میں دوڑ کر قریب پہنچا تو پُنّے میاں کو ایک گڑھے سے باہر نکالا جارہا تھا. پائپ لائن کی درستی کے لیے کھودے گئے اس گڑھے میں اچھا خاصا گدلا گدلا پانی بھرا ہوا تھا اور پُنے میاں ایک دن کا سی ایم بن گڑھے سے برآمد ہو رہے تھے. 

         میں نے ادھر ادھر دیکھا. پُنّے کو دیکھا اور پوچھ بیٹھا. 

         "یہ کیسے ہوگیا؟" 

         محلے کے ایک دیڑھ شیانے نوجوان نے زور سے کہنا شروع کیا. 

         "ارے چاچا! ہم لوگ یہاں قریب ہی کھڑے تھے کہ پُنّے چاچا دوڑتے ہوئے آئے. وہ آسمان پر نہ جانے کیا ڈھونڈ رہے تھے کہ ہمارے چلانے اور بتانے کے باوجود بھی یہ اس گڑھے میں اوندھے منہ گرپڑے وہ تو اچھا ہوا کہ ان کو چوٹیں نہیں آئیں...... مگر پُنّے چاچا تم آسمان میں کیا دیکھ رہے تھے؟"

         اب میری ہنسی چھوٹ پڑی. پُنّے کو دیکھتے ہوئے میں بیساختہ بول پڑا. 

         "اٹھائیس کا چاند دیکھ رہے تھے!" 

         "اٹھائیس کا چاند؟"

         "مطلب؟" 

         "ارے؟"

         "یہ کیا بات ہوئی؟"

           الگ الگ آوازیں ایک حیرت کا اظہار بن گئیں. 

         میں نے مختصراً تفصیل بتادی.......لوگوں کے قہقہے اٹھائیس کے چاند کو ان کی چاندنی بیگم کے حوالے کرنے کے بعد بھی جاری رہے. چاندنی بیگم نے پُنّے میاں کو دیکھا تو اپنا سر پیٹ کر رہ گئیں......... وہ تو اچھا ہوا کہ میں اس گڑھے میں غروب نہیں ہوا ورنہ میری بیوی اپنا ماتھا پیٹنے کی بجائے مجھے ہی پیٹ کر رکھ دیتی.

         شفیق کے اس جملے پر سبھوں کے ساتھ ساتھ خود پُنّے میاں بھی ہنس پڑے.


(ختمۂ جاریہ)

طاہرستان پر تشریف آوری کے لیے شکریہ! آپ کی رائے اہمیت کی حامل ہوگی

Thank you very much for visiting *TAHIRISTAAN*. Visit again.