Translate ترجمہ

Friday, January 20, 2023

افسانہ مکھیاں

افسانہ


مکّھیاں

(طاہر انجم صدیقی، مالیگاؤں) 


          کالج سے واپسی پراکرم اپنے پُرانے مکان کی طرف سے گزرا۔ اس مکان کے بازو والے خستہ حال جھونپڑے کی چھت اپنے آگے بنائے گئے ٹاٹ کے سائبان میں جھانکنے کی کوشش کر رہی تھی۔سائبان کے نیچے لگی چارپائی کے اطراف مکّھیاں بھنبھنا رہیں تھیں۔ انھیں دیکھ کر وہ سوچنے لگا.
          ۔۔۔۔۔اتنی ساری مکّھیاں میں نے اور کہاں دیکھی ہیں؟۔۔۔۔۔کچرے کے ڈھیر پر؟۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟ ۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر؟؟؟۔۔۔۔۔جواب ملا کہیں اور۔۔۔۔”
وہ پھر سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔۔۔کہاں؟؟؟؟۔۔۔۔۔مگر جواب میں بہت سارے سوالیہ نشانات اس کےذہن میں بکھرتے چلے گئے اور اس نے زینو چاچا کی چارپائی کی طرف دیکھا۔
          پہلی نظر میں وہ دکھائی ہی نہیں دئیے۔ ذرا غور کرنے پر ان کا وجود چارپائی سے الگ ہوا اور پھر جھرّیوں کے جال کے ساتھ ننگی چارپائی کی بنت میں استعمال ہونے والی رسّیوں میں کھو سا گیا۔ رسّیاں بھی تو ان کی جلد کی طرح میلی ہو چکی تھیں۔ زینو چاچا اپنے بدن کی طرح لاغر چارپائی میں دھنسے پڑے تھے۔ اُس کے ایک پائے کو اُن کی سانسوں کی طرح باندھ کر جبراً کھڑا کیا گیا تھا۔ دوسرے پائے کو ان کی زندگی کے گراف کی طرح اونچا اٹھانے کی ناکام کوشش کی گئی تھی۔
          ان کی ذرا سی حرکت سے ڈھیر ساری مکھیاں بھنبھنانے لگتیں۔ حالانکہ چارپائی کا ضروری حصہ بننے سے پہلے زینو چاچا اپنے کپڑوں پر مکھّی تک بیٹھنے نہیں دیتے تھے۔ سفید کپڑے تو ان کی جان ہوا کرتے تھے۔ قمیص، پتلون ہو یا کرتا پاجامہ ان کا رنگ سفید ضرور ہوا کرتا تھا۔ جوانی میں تو ان کی ٹوپی، رومال، بیلٹ، پین، جوتے اور موزے تک سفید ہوا کرتے تھے۔ وہ تھے تو پاور لوم مزدور مگر جب صبح سویرے اپنے گھر سے کھانے کا ٹفن لئے نکلتے تو ان پر کسی رئیس زادے کا گمان ہوتا تھا. دن بھر پاور لوم سے لوہا لے کر گھر کے تانے بانے سلجھانے کے لئے زینو چاچا اپنے کمزور اور دبلے پتلے بدن کو مشقّت میں ڈالے رہتے۔ شام کو پرندوں کے اپنے آشیانوں کی طرف لوٹ جانے کے ایک آدھ گھنٹہ بعد وہ پاور لوم کارخانے سے تھکے ہارے باہر نکلتے۔
         کپاس کے ذرّات ضرورت بن کر ان کے بالوں سے چمٹے صاف دکھائی دیتے ۔ وہ بیس برس کی عمر میں ہی مکمل بوڑھے نظرآتے لیکن بوڑھے ہو جانے پر بھی جوان بیٹوں نے انھیں آرام نہیں دیا۔ وہ مسلسل محنت مزدوری کرتے رہے اور بیٹے مفت کا لقمہ توڑتے رہے۔
          چھ مہینہ پہلے جب ان کے لئے چارپائی لگائی گئی تھی تب رسّیاں بڑی صاف ستھری تھیں۔ چارپائی بھی تو اچانک ہی لگانی پڑی تھی۔رات آٹھ بجے کے قریب وہ معمول کے مطابق اپنے گھر پہنچے تو باہر ہی سے انہوں نے آواز دی۔
         ’’شہناز!۔۔۔۔۔اے ۔۔۔۔۔شہناز بیٹی!۔۔۔۔۔ذرا پانی دے تو۔۔۔۔۔‘‘
          تھوڑی دیر بعدان کی چھوٹی بہو شہناز بڑبڑاتی ہوئی پانی بھری ٹوٹی بالٹی لائی اور ایک جھٹکے سے رکھ کر کچھ بڑبڑاتی ہوئی واپس اندر چلی گئی۔ انہوں نے ایک گہری سانس لے کرواپس جاتی ہوئی شہناز کو دیکھا اور سوچنے لگے۔
           ’’صرف یہی لوگ تو رہ گئے ہیں ساتھ میں۔۔۔۔۔شریفہ اور نازیہ کی شادی تو میں نے باہر دوسرے شہر میں کردی ہے۔۔۔۔چلو اچھا ہے سکون سے تو ہیں دونوں۔۔۔۔۔مگر یہ سلیم تو شادی کے ایک مہینے بعد ہی گھر سےالگ ہو گیا تھا۔ تب سے وہ ادھر آتا ہی کہاں ہے؟ اور کریم نے بھی تو جاتے جاتے کتنا جھگڑا کیا تھا ؟؟؟۔۔۔۔۔اب رہ گیا یہ علیم! تو یہ بھی کہاں ٹھیک سے بات کرتا ہے۔۔۔۔۔‘‘
           بس اس سے آگے وہ مزید کچھ نہیں سوچ سکے اور دھڑام سے زمین پر گر گئے۔
          گرنے سے کئی ایک جگہ چوٹیں آئیں مگر جب پاس پڑوس کے لوگوں نے انھیں اٹھایا گیا تو پتہ چلا کہ ان پر فالج کا حملہ ہوا ہے۔
تب ان کے لئے چارپائی لگادی گئی۔
          اب اُسی چارپائی سے کچروں کے ڈھیر سے زیادہ بدبو اٹھتی تھی اور گندگی سے کہیں زیادہ مکّھیاں ان کے بدن اور چارپائی پر بھنبھناتی تھیں۔ تبھی تو ان کی بہو انھیں کھانا یوں دیتی جیسے کچرے کے ڈھیر پر کچرا پھینک کر بڑی تیزی سے دور چلی جانا چاہتی ہو۔ ان کا اپنابیٹا بھی اُن سے گندگی کے ڈھیر کی طرح کترا کر گزرتا تھا مگر مکّھیاں برابر انھیں گھیرے رہتیں۔
          بالکل غیر محسوس طریقے سے زینو چاچا کا بدن لاغر ہوتے ہوتے مکّھیوں کا حصّہ بنتا چلا گیا۔ کئی مرتبہ آتے جاتے دیکھ کر انہوں نے اپنے ہاتھ کے اشارے سے اکرم کو بلایا۔ ہاتھ ہلتے ہی مکّھیوں کی بھبھناہٹ ایک احتجاج بن کر اس کے کانوں تک پہنچی مگر وہ سرد آہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔
          ان سے ملنے ہی کی وجہ سے ان کی بہو بیٹے سے اس کی ان بن ہوئی تھی۔
          اکرم دو ایک دن کے ناغے سے برابر ان سے ملنے جایا کرتا تھا لیکن ایک روز جب وہ زینو چاچا کی چارپائی کے ایک کو نے پر بیٹھا ان سے باتیں کررہا تھا کہ اُس کے والدین خودمعاشی طور پربہت پریشان ہیں۔ ورنہ ان کے لئے علاج کا کچھ انتظام ضرور کرتے اور وہ تو خود ابھی کالج میں ہے۔اس کے پاس کہاں اتنے پیسے کہ وہ ان کی کچھ مدد کر سکے؟ اگر وہ چاہیں تو ان کے بیٹے کو سرکاری دواخانے میں علاج کے لئے لے جانے کو کہہ سکتے ہیں۔ وہ خودبھی ساتھ ہی رہے گا اور ۔۔۔۔۔۔
          مگردرمیان میں ہی چاچا کی بہو اندر سے تلملاتی ہوئی آئی اور برس پڑی ۔
           ’’اے اکرم ! تو مت آیا کر تو یہاں ۔۔۔۔۔‘‘
وہ ہکا بکا ہو کر اس کا منہ دیکھنے لگا اور اس کی چڑھی ہوئی تیوریاں دیکھتے ہوئے بولا۔
          ’’شہناز بھابھی ۔۔۔۔کیا ہوا ؟۔۔۔۔۔ایسے کیوں بول رہی ہو؟۔۔۔۔۔”
          ” ‎بس بول دی نا ۔۔۔۔۔۔۔نہیں آنا ادھر تو نہیں آنا سمجھے ۔۔۔۔اور اتنی ہی ہمدردی ہے اگر ان سے تولے جا اپنے گھر رکھ سمجھے ۔۔۔۔۔دیکھو جی ! یہ اکرم ابّا کو تمہارے بارے میں کیا کیا بول رہا تھا ابھی۔۔۔۔۔اور میں بول رہی ہوں تو منہ چلارہا ہے مجھ سے۔۔۔۔۔‘‘
اتنا کہہ کر وہ پیر پٹختی ہوئی گھر میں چلی گئی مگر علیم تیزی سے باہر نکلا ۔
          اسے دیکھ کر اکرم کا خون کھول اٹھا. جینس پینٹ، جینس شرٹ، گلے میں سنہری چین ۔ بائیں ہاتھ میں کڑا ، بال فلمی ہیرو کے انداز سے سنوارے ہوئے اپنے بالوں کو مزید سنوارتے ہوئے کہنے لگا ۔
          ’’سن اےاکرم ! دوبارہ ادھر آیا نا۔۔۔۔۔تو ہاتھ پاؤں توڑ ڈالوں گا. سمجھا کیا؟ ۔۔۔۔۔دکھائی مت دینا ادھر دوبارہ ۔۔۔۔۔سالے لڑائی لگاتا ہے باپ بیٹے میں ۔۔۔۔۔۔۔‘‘
           ’’کیسی لڑائی علیم بھائی ۔۔۔؟ اس نے زینو چاچا کی طرف دیکھا ۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آیا ۔۔۔اکرم بس اتنا سمجھ سکا کہ اس کا زینو چاچا سے ملنا ان لوگوں کو خراب لگتا ہے ۔
          ’’ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔۔چلا جاتا ہوں ۔۔۔۔۔نہیں آؤں گا ۔۔۔۔۔۔چلو چاچا ۔۔۔جو غلطی ہوئی معاف کرنا ۔۔۔۔۔‘‘
اس نے جھک کر چاچا سے کہا ۔
          اکرم کی آواز بھرا گئی۔ علیم اندر چلا گیا ۔ چاچا خاموش رہے ۔عجیب سی نظروں سے اُسے دیکھتے رہے ۔ اُس نے اٹھ کراپنی چپل پہنی اور چلتے چلتے زینو چاچا کو دیکھا ۔ ان کی آنکھوں کے کناروں سے آنسو ڈھلک رہے تھے ۔اکرم کی آنکھیں بھیگنے لگیں…… اور کیوں نہ بھیگتیں ؟ وہ انہیں کی گود میں کھیل کر تو بڑا ہوا تھا ۔ حالانکہ وہ رشتے میں اس کے کچھ نہیں لگتے تھے ۔ بس پڑوسی تھے لیکن اسے بچپن میں زینو چاچا سےبہت پیار ملا تھا۔
اکرم کو اُس کے گھر والوں نے بتایا تھا کہ صبح جب اُس کی آنکھ کھلتی تو ناشتے کی بجائے زینو چاچا کا تقاضا کرتا اور ان کے لئے اتنی ضد کرتا کہ کسی کے ذریعے زینو چاچا کی گود میں پہنچا ہی دیا جاتا ۔ وہ اگر ناشتہ کر رہے ہوتے تو زانو پر بٹھا کر اپنے ہاتھ سے چھوٹے چھوٹے نوالے اُس کے منہ میں ڈالتے۔ ناشتے کے بعد اُس کا منہ دُھلاتے، تولیہ سے اپنا اور اُس کا منہ ہاتھ پونچھتے اور اُسے گود میں اٹھا کر ہوٹل کی طرف چل دیتے ۔
          اپنے لئے گرما گرم چائے اور اکرم لئے دودھ کا آرڈر دیتے۔ دودھ آ جانے پر چائے کا گلاس ایک طرف رکھ کر دودھ ٹھنڈا کرنے لگتے ۔۔۔۔ گلاس ہلاتے جاتے ۔۔۔اور اُس میں پھونک بھی مارتے جاتے۔ حالانکہ وہ بہت گرم چائے پینے کے عادی تھے مگر دودھ ٹھنڈا کرنے کے چکّر میں اُن کی چائے بھی ٹھنڈی ہو جاتی ۔ جب وہ ٹھنڈا ہوجانے والا دودھ اُسے پلا دیتے تو چائے ان کے انتظار میں پانی ہو جاتی ۔ وہ اسے ایک ہی سانس میں پی جاتے ۔
        جب ہو ٹل سے واپس آ کر زینو چاچا اکرم کو اُس کے گھر والوں کے سپرد کرتے تو وہ ان سے چمٹ جاتا۔ ان کے کپڑے، داڑھی، کان، ناک یا سر کے بالوں میں سے جو بھی ہاتھ آجاتا اسے مضبوطی سے جکڑ لیتا مگر جیسے تیسے وہ اُسے گھر والوں کو سونپ کر پاورلوم کارخانے کی جانب چل دیتے اور اکرم اُن کے لیے روروکر پورا گھر سر پر اٹھا لیتا تھا لیکن آج زینو چاچا کو دیکھنے کے بعد ایک سرد آہ بھر کر بوجھل قدموں سے اُسے آگے بڑھ جانا پڑا۔ ایسا لگتا جیسے ان کے اطراف کی مکھیوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہوتا جا رہا ہو اوراُس ذہن کے سوالیہ نشانات بھی اتنی ہی تیزی سے پھیلتے جارہے ہوں۔
          “۔۔۔۔۔کہاں دیکھی ہے اتنی مکھیاں میں نے ؟۔۔۔۔کہاں ہے ؟؟۔۔۔۔۔کچڑے کے ڈھیر پر ؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔گڑ کی بھیلی کے اطراف؟؟؟؟۔۔۔۔۔یا بیف مارکیٹ کے فرش پر جمے خون کے لوتھڑوں پر ؟؟؟؟؟ مگر جواب میں سوالیہ نشانات ذہن میں پھیلتے چلے جاتے۔
ایک دن جب اکرم ادھر گیا تو زینو چاچا کی چارپائی سے مکھیوں کے بھنبھنانے کا شور نہیں اٹھا ۔اُن کا جنازہ ہی اٹھ گیا ۔۔۔وہ جنازے کے ساتھ ساتھ تھا ۔
جنازے کو چاروں طرف سے دیکھ چکا تھا ۔ مکھیوں کا کہیں پتہ نہیں تھا مگران کی بھنبھناہٹ برابر اُس کے ذہن میں گونج رہی تھی ۔وہ جنازے کو کاندھا دے رہا تھا۔ مکھیاں ان کے جنازے کے ساتھ نظر نہیں آرہی تھیں لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا جیسے بے شمار مکھیاں اُس کے ذہن میں بھنبھناتی ہوئی رینگ رہی ہوں ۔
         رینگتی بھنبھناتی مکھیوں کو اپنے ذہن میں لئے لئےاکرم جنازے سے آگے بڑھ گیا۔قبرستان قریب آگیا ۔ وہ جنازے سے آ گے بڑھتا گیا ۔ اچانک مکھیوں کی بھنبھنانے کا وہی شور اکرم کے کان کے پردوں سے ٹکرایا ۔ اُس نے فوراً پلٹ کر جنازے کی طرف دیکھا زینو چاچا کا جنازہ ان کے بیٹوں کے کاندھوں پر تھا ۔مگر مکھیاں وہاں نہیں تھیں۔ اُس نے مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرف دھیان دیا اور نظر گھما کرقبرستان کی دیوار کی طرف دیکھا۔ رس نکالنے والی مشین سے گنے کا سارا رس نکال کر گنّے کے تقریباً سوکھ جانے والے پھوگ کو ایک آدمی پہلے سے پڑے پھوگ کے ڈھیر پرپھینک رہا تھا جس پر بے شمار مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں۔

(ختم شد)


اس افسانے کو پڑھ کر زندگی کی زنجیر کو سمجھیں🔽

Sunday, January 15, 2023

تجزیہ: سنگھاردان پر گفتگو


تجزیہ

سنگھار دان

افسانہ نگار: شموئل احمد

گفتگو: طاہرانجم صدیقی (مالیگاؤں)




🔸شموئل احمد صاحب کے "سنگھار دان" کو تجزیہ کے لیے  پڑھنا، میرے لئے اس افسانے کی دوسری قرأت تھی. افسانے کا آغاز شموئل احمد صاحب نے جس طریقے سے کیا ہے افسانے کی ابتدا کا یہ آرٹ بھی خوب ہے، اس آرٹ میں کہانی کا آغاز درمیان سے کیا جاتا ہے اور ایک ایسی کشمکش بیان کی جاتی ہے کہ قاری انجام معلوم کرنے کے لئے رک جاتا ہے اور پھر فنکار کی کہانی کے بہاؤ کے ساتھ روانی سے بہتا چلاجاتاہے.
شموئل احمد صاحب نے بھی اسی آرٹ کا استعمال کرکے قاری کو باندھ لینے کا کام آغاز میں ہی کرلیا ہے.
🔸دوسرے پیراگراف میں شموئل احمد صاحب نے نہایت ہی آسانی کے ساتھ ایک پیشہ ور عورت کے لچھن کو برجموہن کی بیٹیوں میں منتقل ہوتے دکھایا ہے لیکن ایک خاص احتیاط برتی ہے کہ وہ فحش نگاری کا ارتکاب نہ کرسکیں. بس ایک بات جو مجھے کھٹک رہی ہے وہ ایک طوائف اور ویشیا کا درمیانی فرق ہے. شموئل صاحب نے افسانے کی ابتدا سے بھی پہلے یہ جملہ افسانے کے ماتھے پر سجایا ہے:
*فساد میں رنڈیاں بھی لوٹی گئی تھیں....*
جبکہ برجموہن کی بیٹیوں کے جو لچھن دکھائے بیان کئے گئے ہیں وہ کسی ویشیا کے ہیں. حالانکہ شموئل احمد صاحب نے سکنگھاردان کو نسیم جان نامی طوائف کا بتایا ہے.
اگرمیں اس تضاد کو سمجھنے میں غلطی کررہاہوں تو مجھے سمجھایا جائے.
افسانے میں ایک جگہ لکھا ہے:
*یہ خوف برجموہن کے دل میں اُسی دن گھر کر گیا تھا جس دن اس نے نسیم جان کا سنگھاردان لوٹا تھا۔*   
اس حوالے کی موجودگی میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب برجموہن کے دل میں سنگھاردان کو لوٹنے والے دن ہی یہ خوف تھا تو پھر وہ اسے گھر لے کر ہی کیوں گیا؟ اور گھر لے بھی گیا تو اپنے بیڈ روم میں رکھا.
اس عمل کا کوئی جواز افسانے میں موجود نہیں ہے. جس چیز سے آدمی کو خوف ہو وہ بھلا اسے اپنے گھر کیوں لے جائے گا؟ اگر خوفزدہ ہونے کے بعد بھی لے گیا تو اس کے اس عمل کے پیچھے ایک بھرپور جواز ہونا چاہئے مگر سنگھار دان کو گھر لے جانے کے معاملے میں افسانے کی داخلی منطق خاموش ہے.
🔸ایک جگہ برجموہن کے لات مارنے پر جب نسیم جان زمین پر گر کر دہری ہوجاتی تب شموئل صاحب نے لکھا ہے:
*اس کے بلاوز کے بٹن کھل گئے اور چھاتیاں جھونے لگیں۔*
حالانکہ شموئل احمد صاحب چاہتے تو اس پیراگراف میں نسیم جان کے بلاؤز کا بٹن کھلنے کے بعد "بو" والی منظر نگاری کرسکتے تھے مگر انہوں نے اپنے قلم پر گرفت مضبوط رکھی اور اسے پھسلنے نہیں دیا.
آگے چل کر شموئل صاحب نے ایک جگہ لکھا ہے:
*برجموہن جب اتر رہا تھا تو یہ سوچ کر اس کو لذت ملی کہ سنگھاردان لوٹ کر اس نے نسیم جان کو گویا اس کے خاندانی اثاثے سے محروم کر دیا ہے۔*
🔸جس طرف شموئل احمد صاحب نے اس جگہ اشارہ کیا ہے وہ ذہنیت بڑی زہریلی ہوتی ہے اور فسادات میں یہی ذہنیت بہت نقصان کرواتی ہے. اور ہو سکتا ہے کہ اس ذہنیت کو بدلنے کے لئے ہی شموئل صاحب نے "سنگھار دان" کا تانا بانا بُنا ہو.
اس بات کا ثبوت افسانے سے ہی یوں ملتا ہے:
*برجموہن کو کو لگا کہ آگ زنی اور لوٹ مار میں ملوث دوسرے بلوائی بھی یقینا احساس کی اس لذت سے گزر رہے ہوں گے کہ ایک فرقہ کو اس کی وراثت سے محروم کر دینے کی سازش میں وہ پیش پیش ہیں۔*
🔸شموئل احمد صاحب نے مذہبی منافرت کے سبب انسان کے رذیل بن جانے کا المیہ پیش کرتے ہوئے کتنی آسانی سے ثابت کردیا ہے کہ یہ منافرت جب انسان کے اندر سرایت کرجاتی ہے تو انسان پوری طرح سے شیطنت پر اتر آتا ہے. وہ یہ تک نہیں دیکھتا کہ وہ جس کا نقصان کررہا ہے وہ کون ہے؟ اسی لئے برجموہن نے بھی نسیم جان جیسی طوائف کو بھی نہیں دیکھا اور اس کا سنگھار دان اس کے احتجاج کے باوجود اٹھا لایا جس کا خمیازہ اسے آگے چل کر بھگتنا پڑا.
🔸اس افسانے کو پڑھنے کے بعد نہ جانے کیوں مجھے سعادت حسن منٹو کا "خوشیا" اور ٹھنڈاگوشت یاد آرہا ہے. شاید ان دونوں افسانوں کے حوالے سے میں سنگھار دان پر مزید کچھ بات کرسکوں.
          ٹھنڈا گوشت" کا ایسر سنگھ بھی ایک مجرمانہ عمل کا مرتکب ہوتاہے. پاداش میں بلونت کور کے سامنے پتّے پھینٹے تک ہی محدود رہتا ہے. پتّے پھینکنے سے معذور ہوجاتا ہے. وہی حال سنگھار دان کے برجموہن کا دکھائی دیتا ہے کہ وہ اسی احساس کے نفسیاتی اثرات کے سبب "خوشیا" بن جاتا ہے اور قاری صاف طور محسوس کرتا ہے کہ اس کی بیٹیاں اس کے وجود کو شاید "خوشیا"جیسا ہی سمجھنے لگی ہیں. تبھی تو اس کے عکس کے آئینے میں نظر آنے کے بعد بھی اس کی موجودگی کا کوئی احساس نہیں کرتیں. میری ان باتوں سے قطعی یہ مطلب اخذ نہ کیا جائے کہ شموئل صاحب کا افسانہ منٹو کے افسانوں سے میل کھاتا ہے بلکہ میں تو صاف. طورپر اظہار کرنا چاہتا ہوں کہ سنگھاردان ایک الگ کہانی ہے جس کا اپنا الگ رنگ ہے، الگ ٹریٹمنٹ ہے، الگ موضوع ہے اور الگ ہی تاثر ہے. اس افسانے میں انسان کی سفاکی پر چوٹ کی گئی ہے اور برے کام کو برے انجام تک پہنچنے کا اظہار کیا گیا ہے. 
           افسانہ بڑا رواں ہے. افسانے کی سطور میں شموئل صاحب نے ایک ایسا بہاؤ رکھ دیا ہے جو قاری کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے. افسانے کی زبان پیاری ہے اور افسانے کا ہر جزو مل کر ایک کُل بن جانے کے بعد نہایت متاثر کن بن گیا ہے. نیز .کلائمکس تو واقعی قابلِ تعریف ہے



منشی پریم چند کے "پوس کی رات" پر گفتگو






Monday, January 09, 2023

تجزیہ: پوس کی رات

تجزیہ:    پوس کی رات

 افسانہ نگار:  پریم چند

 گفتگو: طاہرانجم صدیقی

 



            منشی پریم چند کا "پوس کی رات" پہلے بھی پڑھ چکا تھا لیکن تجزیے کے لئے پڑھنے کا ایک الگ ہی موڈ ہوتا ہے. پڑھتا گیا اور لکھتا گیا. لکھتے ہوئے اس بات کا خاص خیال رکھا کہ میں منشی پریم چند جی سے مخاطب ہوں. مجھے اس انداز میں بڑی اپنائیت سی لگی. اگر کسی کی طبیعت پر گراں ہو تو میں صدقِ دل سے معذرت خواہ ہوں. دیکھیں:

منشی جی! افسانے کے آغاز میں آپ نے ہلکو کی بیوی کے لئے لکھا ہے:

"منی بہو"

           ہم بھلا کیوں اسے منی بہو مان لیں؟ وہ تو ہمارے لئے ہلکو کی بیوی ہے نا! اور ہلکو کے والدین کا تو کچھ آتا پتہ بھی نہیں ہے افسانے میں اس لئے یہ "منی بہو" والا انداز کچھ عجیب سا لگا ہے مجھے. 

  پھر آپ نے ایک جگہ ہلکو کے بھاری قدموں سے آگے بڑھنے کے تذکرے کے ساتھ قوسین کا یوں استعمال کیا ہے:

*(جو اس کےنام کو غلط ثابت کر رہا تھا)*

🔸منشی جی! آپ کو قوسین کے اس جملے کی ضرورت آپ کے زمانے میں پڑی ہوگی لیکن ہمارے زمانے میں اس جملے پر کم از کم میں تو اعتراض کر ہی سکتا ہوں. آخر آپ کیوں مزاح پیدا کرنا چاہ رہے ہیں اس کے توسط سے؟ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ اس طرح آپ افسانے کے اس مقام کے تاثر کو زائل کررہے ہیں؟

آپ کی کہانی آگے بڑھتی ہے اور آپ ہلکو کی زبان سے یہ ایک جملہ کہلواتے ہیں:

*ہلکورنجیدہ ہو کر بولا، ’’تو کیا گالیاں کھاؤں۔‘‘*

🔸یہاں بھی آپ کے فن کی داد دینی پڑے گی کہ ایک چھوٹے سے مکالمے میں آپ نے نہ جانے کتنی جھڑکیاں اور گالیاں مخفی کردی ہیں. ہلکو کا رنجیدہ ہو کر گالیوں کا تذکرہ کرنا اس بات کا غماز ہے کہ وہ بہت ساری گالیوں اور جھڑکیوں کا سامنا کرچکا ہے.

ہلکو اور منی کی مکالماتی جھڑپ کے بعد منی کو مجبوراً آگے بڑھ کر روپیہ اٹھاتے ہوئے آپ نے یوں دکھایا ہے:

*اس نے طاق پر سے روپے اٹھائے اور لاکر ہلکو کے ہاتھ پر رکھ دیے۔*

🔸 منشی جی! جن کے یہاں پیسوں کی تنگی ہو کہ تین روپے ادا کرنے میں بھی ان کی کمر ٹوٹ جاتی ہو وہ ان تین روپیوں کو اس طرح طاق پر کھلا نہیں رکھیں گے. کہیں چھپاکر، کہیں اڑس کر، یا پھر کسی ڈبے وغیرہ میں بند کرکے رکھیں گے. شاید آپ کے پاس تین روپیوں کی اتنی اہمیت نہ رہی ہو لیکن ہلکو اور اس کی بیوی کے لئے وہ تین روپے بڑے اہم رہے ہوں گے. اس لئے ان کا اس طرح طاق پر رکھ دینا ذرا غیر فطری سا لگتا ہے لیکن اس کے فوراً بعد ہی آپ نے کیا انداز اختیار کیا ہے:

*پھر بولی، ’’تم اب کی کھیتی چھوڑ دو۔ مزدوری میں سکھ سے ایک روٹی تو کھانے کو ملے گی۔ کسی کی دھونس تو نہ رہے گی اچھی کھیتی ہے مزدوری کر کے لاؤ وہ بھی اس میں جھونک دو۔ اس پر سے دھونس۔‘‘*

 🔸مُنّی کی زبان سے اس قسم کے فطری مکالمے ادا کروانے کا فن بھی داد طلب ہے. آپ نے حقیقت نگاری سے ہمیں آشنا کرکے ہم پر احسان کیا ہے. ہم آپ کے شکر گزار ہیں. 

اتنا ہی نہیں بلکہ آپ نے یہاں جس فنکاری کا اظہار کیا ہے وہ قابلِ تعریف ہے:

*ہلکو نےروپے لیے اور اسی طرح باہر چلا۔ معلوم ہوتا تھا وہ اپنا کلیجہ نکال کر دینے جارہا ہے۔ اس نے ایک ایک پیسہ کاٹ کر تین روپے کمبل کے لیے جمع کیے تھے۔ وہ آج نکلے جارہے ہیں۔ ایک ایک قدم کے ساتھ اس کا دماغ اپنی ناداری کے بوجھ سے دبا جارہاتھا۔*

🔸درون ذات جھانکنے اور جذبات کو الفاظ کا جامہ عطا کرنے کا یہ ہنر بھی آپ کے پاس ہے منشی جی! بہت خوب! کتنی خوبصورتی کے ساتھ آپ نے ہلکو کی غربت، محنت و مشقت سے تین روپے جمع کرنے اور کمبل خرید کر پوس کی سرد راتوں میں کچھ گرمی کا انتظام کرنے کے جتن کو بیان کیا ہے آپ نے. منشی جی! قابلِ تعریف ہے آپ کا یہ فن جسے آپ نے ہم تک پہنچایا ہے. 

اس کے بعد کا اقتباس بھی داد طلب ہے. دیکھیں:

*پوس کی اندھیری رات۔ آسمان پر تارے بھی ٹھٹھرتے ہوئے معلوم ہوتے تھے۔ ہلکو اپنےکھیت کے کنارے اوکھ کے پتوں کی ایک چھتری کےنیچے بانس کے کھٹولے پر اپنی پرانی گاڑھے کی چادر اوڑھے ہوئےکانپ رہا تھا۔ کھٹولے کے نیچے ا س کا ساتھی کتا ’’جبرا‘‘ پیٹ میں منھ ڈالے سردی سے کوں کوں کررہا تھا۔ دو میں سے ایک کو بھی نیند نہ آتی تھی۔*

🔸 منشی جی! آپ نے اس منظر نگاری کے ذریعے کسی آرٹسٹ کو وہ مواد مہیا کردیا ہے کہ اگر وہ چاہے تو اس اقتباس کے ذریعے ایک خوبصورت پینٹنگ بنا ڈالے. اچھا لگا افسانے کا یہ حصہ پڑھ کر. 

اور اس حصے میں تو آپ نے کمال کا ہنر سکھادیا ہے ہمیں. آپ خود دیکھیں:

*ہلکو نے گھٹنوں کو گردن میں چمٹاتے ہوئے کہا۔ ’’کیوں جبرا جاڑا لگتا ہے کہا تو تھا گھر میں پیال پر لیٹ رہ۔ تو یہاں کیا لینے آیا تھا۔ اب کھا سردی، میں کیا کروں۔ جانتا تھا۔ میں حلوہ پوری کھانے آرہا ہوں۔ دوڑتے ہوئے آگے چلے آئے۔ اب روؤ اپنی نانی کے نام کو۔‘‘ جبرانے لیٹے ہوئے دم ہلائی اور ایک انگڑائی لے کر چپ ہو گیا شاید وہ یہ سمجھ گیا تھا کہ اس کی کوں، کوں کی آواز سے اس کےمالک کو نیند نہیں آرہی ہے۔*

🔸 جانوروں اور بے جان چیزوں سے بات کرکے دل کا بوجھ ہلکا کرلینے کی نفسیات بھی بڑی عجیب ہوتی ہے. منشی جی! آپ نے یہاں اسی کا تذکرہ کیا ہے اور خوب کیا ہے. آپ نے اسی بہانے پوس کی رات کھیت میں سردی سے ٹھٹھرنے کے خلاف ایک احتجاج بھی درج کرادیا ہے۔ 

آپ نے جب یہ جملہ افسانے میں لکھا تو یہاں بھی ایک فنکارانہ بیان سامنے آیا:

*تقدیر کی خوبی ہے مزدوری ہم کریں۔ مزہ دوسرے لوٹیں۔‘‘

🔸معاشی نابرابری کے خلاف ناراضگی کا فنکارانہ اظہار ہے یہ جملہ آپ نے یہاں بھرپور کوشش کی ہے کہ قاری کو قطعی طور پر یہ احساس نہ ہو کہ ہلکو نہیں بلکہ ہلکو کی زبان سے فنکار بول رہا ہے. آپ اپنی کوشش می‍ں کامیاب ہیں. 

اور پھر پوس کی رات کی ٹھنڈ میں اپنے کھیت کی حفاظت کے لئے جاگنے والے ہلکو کی پریشانیوں کا یوں تذکرہ کیاہے:

*ہلکو، پھر لیٹا۔ اور یہ طے کر لیا کہ چاہے جو کچھ ہو اب کی سو جاؤں گا۔ لیکن ایک لمحہ میں اس کا کلیجہ کانپنے لگا۔ کبھی اس کروٹ لیٹا کبھی اس کروٹ۔ جاڑا کسی بھوت کی مانند اس کی چھاتی کو دبائے ہوئے تھا۔*

🔸واہ منشی جی واہ! آپ نے سردی سے ٹھٹھرتے کانپتے ہلکو کو یہاں جس انداز سے پیش کیا ہے وہ بھی خوب ہے. کلیجے کا کانپنا اور جاڑے کا بھوت کی مانند ہلکو کی چھاتی دبانا کمال کا بیان ہے. بڑا پیارا لگا یہ بیان بھی. 

اس کے بعد بھی سرد ہواؤں اور کھلی فضا میں آسمان کو چھت بنانے والے ہلکو کے بارے میں آپ نے لکھا:

*جب کسی طرح نہ رہا گیا تو اس نے جبرا کو دھیرے سے اٹھا یا اور اس کے سر کو تھپ تھپا کر اسے اپنی گو د میں سلا لیا۔ کتے کے جسم سےمعلوم نہیں کیسی بدبو آرہی تھی پر اسے اپنی گود سے چمٹاتے ہوئےایسا سکھ معلوم ہوتا تھا جو ادھر مہینوں سے اسے نہ ملا تھا۔*

🔸منشی جی! آپ اس اقتباس میں ہلکو کے کون سے سکھ کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہے ہیں؟ کہیں اس کی ازدواجی زندگی کی طرف تو اشارہ نہیں کرنا چاہ رہے ہیں آپ؟ مجھے لگتا ہے کہ شاید ایسا ہی ہے اور کمال ہے یہ اظہار بھی. آپ نے کیا خوبصورت بہانا تراشا ہے اس بیان کا! یہ ہنر بھی ہم تک آپ پہنچا گئے ہیں لیکن جب آپ نے لکھا:

*جبرا شاید یہ خیال کر رہا تھا کہ بہشت یہی ہے اور ہلکو کی روح اتنی پاک تھی کہ اسے کتے سے بالکل نفرت نہ تھی۔*

🔸 تو منشی جی! مجھے ایسا لگتا ہے کہ  آپ یہاں تضاد بیانی کا شکار ہوگئے ہیں ورنہ آپ کو اوپر یوں نہیں لکھنا تھا:

*کتے کے جسم سےمعلوم نہیں کیسی بدبو آرہی تھی.*

اب جب لکھ ہی دیا تھا تو پھر ہلکو کی روح کی پاکیزگی اور نفرت کا ذکر نہیں کرنا تھا. 

ہوسکتا ہے کہ میں یہاں غلطی کررہا ہوں سمجھنے کی. امید ہے کہ آپ برا نہیں مانیں میری باتوں کا.

پھر آپ نے رات میں وقت معلوم کرنے کے جس علم کے بارے میں لکھا ہے وہ اچھا لگا. دیکھیں:

*وہ سات ستارے جو قطب کے گرد گھومتے ہیں۔ ابھی اپنا نصف دورہ بھی ختم نہیں کرچکے جب وہ اوپر آجائیں گےتو کہیں سویرا ہو گا۔ابھی ایک گھڑی سے زیادہ رات باقی ہے۔*

🔸منشی جی! اب تو یہ ہنر نئی نسل کے لئے عجوبہ ہے. ہم تو اپنے موبائل کے توسط سے پتہ لگاتے ہیں کہ وقت کیا ہوا ہے؟ اور ہاں ایک خاص بات یہ بھی کہ ہم کو گوگل کے توسط سے ہی موسم کی سختی و نرمی کا پتہ چل جاتا ہے. تاروں کے ذریعے وقت معلوم کرنے کا ہنر آپ لوگوں کے ساتھ شاید رخصت ہوگیا ہو یا پھر ہوسکتا ہے کھیتی باڑی کرنے والے لوگوں کو ابھی بھی اس کا علم ہو مگر جب آپ نے اچانک یہ بیان لکھا: 

*ہلکو کےکھیت سے تھوڑی دیر کے فاصلہ پر ایک باغ تھا۔ پت جھڑ شروع ہو گئی تھی۔ باغ میں پتوں کا ڈھیر لگا ہوا تھا ہلکو نے سوچا چل کر پتیاں بٹوروں اور ان کو جلا کر خوب تاپوں.*

🔸تو منشی جی! اسے پڑھ کر مجھے لگتا ہے کہ آپ کو یہاں اس قسم کے بیانیے سے کام نہیں لینا تھا. نہ جانے کیوں مجھے یوں محسوس ہورہا ہے کہ آپ نے یہاں اپنے افسانہ نگار ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے. آپ نے جب دیکھا کہ سردی بہت زیادہ ہے تو آپ نے کھیت کے پاس کے باغ کی یاد دلا دی تاکہ آپ کہانی کو تھوڑا آگے سرکا سکیں اور کہانی کو آگے سرکانے کے بعد جب آپ نے ذیل کا جملہ لکھا:

*ہاتھ ٹھٹھرتے جاتے تھے۔ ننگے پاؤں گلے جاتے تھےاور وہ پتیوں کا پہاڑ کھڑا کر رہا تھا۔ اسی الاؤ میں وہ سردی کو جلا کر خاک کردے گا۔*

🔸تو بیساختہ میں کہہ اٹھا واہ منشی جی واہ! کیا خوبصورت اظہار کیا ہے آپ نے ہلکو کے جذبات کا. بہت اچھا لگا یہ اظہار. 

اس کے بعد ہلکو کے کھیت کا نیل گایوں کو اجاڑ دینا. ہلکو کا مزدوری کے لئے تیار نہ ہونا. منی کا لگان دینے سے انکار کرنا اور ہلکو کا کسان بنے رہنے کی ضد کرنا جیسے فطری ردِ عمل کے ساتھ افسانہ آپ نے ختم کردیا مگر میں اور مجھ جیسے قاری کے دل میں ہلکو اور منی جیسے پریشان حال لوگوں سے ایک قسم کا ہمدردانہ جذبہ بیدار کردیا اور ان کے مستقبل کی فکریں بھی پیدا کردیں. شاید آپ چاہتے بھی یہی تھے اور آپ کامیاب ہیں اپنی چاہت میں. بہت خوب