Translate ترجمہ

Friday, December 30, 2022

افسانہ : باپو کاکا


باپو کاکا
افسانہ نِگار  :    طاہر انجم صدیقی  ( مالیگاؤں) 
    


 ساٹھ پینسٹھ برس کے باپو کاکا میں نام کے علاوہ اور کو ئی عجیب بات نہیں تھی ۔ ’’باپو کاکا‘‘ نام ہی کہاں تھا؟ دو رشتوں کی پہچان تھا ۔ ویسے ان کا اصل نام رام داس تھا مگر ’’اہنسا پارک ‘‘میں رکھوالے کی حیثیت سے تقرری کے بعد وہاں تفریح کے لئے آنے والوں نے انہیں ’’باپو کاکا‘‘بنا دیا تھا ۔
لوگ پارک میں لگے مہاتما گاندھی کے قد آدم مجسمے کو دیکھتے اور پھر انہیں دیکھ کر کہہ اٹھتے ۔’’ارے باپو ۔۔۔۔۔ارے کاکا۔۔۔۔۔تم تو باکل باپو گا ندھی جیسے لگتے ہو ۔۔۔۔۔بالکل باپو لگتے ہو کاکا ۔۔۔۔باپو کاکا۔۔۔‘‘
جب وہ پارک میں آئے تھے تو کرتا پاجامہ پہنے تھے لیکن گاندھی جی کے چاہنے والوں نے انہیں دھوتیاں لا کر دیں اور پہنے پر مجبور کیا ۔ خود کے تئیں لوگوں کے پیار کو دیکھ کر باپوکاکا نے کرتا پاجامہ ترک کر دیا اور بخوشی دھوتی پہننے لگے ۔
دس سال کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی انہیں اچھی طرح یاد تھا کہ اسلم نام کے ایک نوجوان نے ہی انہیں سب سے پہلے باپو گاندھی کے ہم شکل ہونے کا احساس دلا کر ایک گول فریم کی بغیر نمبر کی عینک انہیں پہننے کو دی تھی کیو نکہ بڑھاپے کے باوجود بھی ان کی بینائی کمزور نہیں ہوئی تھی. دوسرے روز اس کے دوست ارون نے ایک لاٹھی لا کر دی تھی ۔۔۔اور پھر ان دونوں نے مل کر ایک دھوتی بھی خرید کر انہیں دی تھی ۔ ان دوستوں کی تقلید میں دیگر اور بہت سے لوگوں نے بھی انہیں دھوتیاں لا کر دی تھیں ۔ اس طرح ان کے پاس اچھی خاصی تعداد میں دھوتیاں جمع ہو گئیں ۔ تب ہی تو وہ روزانہ صبح اشنان کے بعد دھوتیاں تبدیل کیا کرتے تھے لیکن ۔۔۔اس صبح انہوں نے اشنان نہیں کیا اور نہ ہی دھوتی تبدیل کی۔  
اس روز جب باپو کاکا کی آنکھ کھلی تو صبح کے دھندلکے مشرقی افق پر سنہری تھال چھوڑ کر جا چکے تھے ۔ پارک کی دس سالہ دیکھ ریکھ کے دوران پہلی مرتبہ ان کی آ نکھ اتنی دیر سے کھلی تھی ۔ ورنہ صبح صادق سے پہلے ہی اپنا پیوند زدہ بستر چھوڑ دینا ان کا معمول تھا ۔          وہ موسم کی شدت سے بے پرواہ اپنا بستر چھوڑ کر اٹھ کھڑے ہوتے ۔۔۔دھوتی ٹھیک کرتے ۔۔۔دھوتی کے پلے کو اپنے بائیں کندھے پر ڈالتے ۔۔۔دائیں طرف اڑسا ہوا بٹوا درست کرتے ۔۔۔۔۔سر ہانے لاٹھی او ر عینک کے پاس رکھی ہوئی پیتل کی بالٹی اٹھا کر اپنی جھونپڑی کا دروازہ کھولتے ۔۔۔۔اور سامنے دیکھتے ۔۔۔باہر تھوڑی ہی دوری پر دو فٹ اونچے چبوترے پر کھڑے مہاتما گاندھی کے قدِآدم مجسمے پر ان کی نظریں جاٹھہرتیں ۔۔۔پوسٹ لیمپ کی روشنی میں ماہر مجسمہ ساز کے ہاتھوں قائم کی گئی ابدی مسکراہٹ گاندھی جی کے ہونٹوں پر پھیلی صاف دکھائی دیتی ۔۔۔۔انہیں محسوس ہوتا کہ مجسمے کے ساتھ ہی کوئی ان کے اندر بھی مسکرا رہا ہے ۔۔۔اس کے ہونٹوں پر گاندھی جی کی ابدی مسکراہٹ ہے ۔۔۔وہ دھیرے دھیرے پھیل رہی ہے ۔۔۔۔اور پھیلتے پھیلتے خود ان کے ہونٹوں تک آ گئی ہے ۔۔۔۔باپو کاکا خود بھی مسکرانے لگتے ۔۔۔ان ہونٹوں پر وہی ابدی مسکراہٹ پھیل جاتی مگر اپنی مسکرا ہٹ سے لا علم باپو کاکا اطراف کا جائزہ لیتے ۔۔۔انہیں پارک کی ہر شئے مسکراتی دکھائی دیتی ۔۔۔۔بیل بوٹے ۔۔۔۔درخت ۔۔۔پودے ۔۔۔۔جھاڑجھنکاڑ ۔ دیواریں ۔۔۔زمین اور آسمان۔۔۔ سبھی مسکراتے محسوس ہوتے۔
 اس مسکراتی فضا میں باپو کاکا اپنے ہاتھ میں بالٹی لئے سیدھے پارک کی بورنگ پر چلے جاتے ۔۔۔۔وہاں تین چار بالٹی پانی سے اشنان کرتے ۔۔واپس اپنی جھونپڑی میں جا کر دھوتی تبدیل کرتے ۔۔۔۔اتاری ہوئی گیلی دھوتی باہر لا کر دیوار کے قریب پڑے پتھر پر رکھتے اور پاس ہی نیم کیے درخت کے نیچے آلتی پالتی مار کر پرایا نام کا آسن جما لیتے ۔۔۔ان کا رخ مہا تما گاندھی کے مجسمے کی طرف ہوتا ۔۔۔۔اس دوران ان کی زبان سے گاندھی جی کے بول الفاظ کی صورت میں نکلتے اور سوئی ہوئی چڑیوں کو جگاتے رہتے ۔۔۔ 
 ’’ایشور اللہ تیرو نام ۔۔۔۔۔ایشور اللہ تیرو نام ۔۔۔۔‘‘ 
اس بول کی تکرار کو سن کر بیدار ہونے والی چڑیاں جب دوسری خوابیدہ چڑیوں کو جگانا شروع کرتیں تو نیم کے درخت کے نیچے بیٹھے باپو کاکا اپنی آنکھیں موند لیتے ۔۔اور منہ ہی منہ میں کچھ بدبدانے لگتے اس دوران کبھی کبھی کوئل کی کوک اور کوؤں کی کائیں کائیں بھی ان کے کانوں کے پردوں سے ٹکراتی رہتیں ۔۔۔تھوڑی دیر بعد جب چڑیوں کا خوشگوار شور اپنے شباب پر جا پہنچتا تو سورج چپکے چپکے مشرقی کنارے سے سر اٹھاتا ۔۔۔۔اور دھیرے دھیرے اوپر سرکنے لگتا ۔۔۔جیسے جیسے اجالا پھیلتا چڑیوں کا شور اس میں تحلیل ہوتا جاتا ۔۔۔جب سورج کی نرم گرم شعاعیں با پو کاکا تک پہنچیں تو وہ اپنی آنکھیں کھولتے ۔۔۔ان کی نظریں آہستہ آہستہ اوپر اٹھتیں اور گاندھی جی کے مجسمے پر سے رینگتی ہوئی ان کے چہرے پر جا ٹھہرتی ۔۔۔۔پھر وہاں سے پھسلتی ہوئی مجسمے کے پیروں تک چلی جاتیں۔۔۔۔وہ اٹھتے اور آگے بڑھ کر گاندھی جی کے پیروں کے پاس کی گرد اُٹھا کرآشیر واد کے طور پر بڑے احترام سے اپنے ماتھے پر لگا لیتے اور سیدھے اپنی جھونپڑی میں چلے جاتے.  
اندر جاکر اپنا بستر ایک کنارے رکھتے ۔۔۔۔عینک اپنی آنکھوں پر لگاتے ۔۔۔۔اور لاٹھی اٹھا کر جھونپڑی کے دروازے سے باہر نکلتے ۔۔۔۔پتھر پر رکھی گیلی دھوتی اٹھاتے ۔۔۔دوبارہ بورنگ پر جاتے ۔۔۔دھوتی کو اچھی طرح دھوتے اور سوکھنے کے لئے پھیلا کر پارک کی صاف صفائی میں جٹ جاتے ۔۔۔۔
لیکن اس روز جب ان کی آنکھ کھلی تو سورج طلوع ہو چکا تھا. چڑیوں کا خوشگوار شور کمزور پڑ چکا تھا اور ان کو محسوس ہورہا تھا کہ وہ بھی چڑیوں کے شور ہی کی طرح کمزور ہو چکے ہیں ۔ ان کی آنکھوں کے پپوٹے سوجے ہو ئے تھے ۔۔۔آنکھوں کی سفیدی میں نظر آنے والے لال ڈورے صاف ظاہر کر رہے تھے کہ ان کی نیند پوری نہیں ہوئی ہے ۔۔۔اور واقعی اخیر شب تک انہیں نیند نہیں آئی ہے۔۔۔۔وہ جاگ کر کر وٹیں بدلتے رہے تھے ۔۔۔بے چین رہے تھے ۔۔۔۔انہیں رہ رہ کر احساس ہو رہا تھا کہ ان کے چاروں طرف آ گ ہی آگ ہے ۔۔۔۔آگ میں بہت سارے لوگ جل رہے ہیں۔۔۔چیخ رہے ہیں ۔۔۔وہ آگ دھیرے دھیرے بڑھ رہی ہے ۔۔۔انہیں بھی جلا رہی ہے ۔۔۔ان کی جھونپڑی ۔۔۔۔۔پورا پارک ۔۔۔خود گاندھی جی بھی اس آگ کی لپیٹ میں ہیں۔۔۔۔باپو کاکا گاندھی جی کو بچانا چاہتے ہیں ۔۔۔۔گاندھی جی کی طرف بڑھتے ہیں ۔۔مگر گاندھی جی غائب ہوجاتے ہیں ۔۔۔۔انہیں چبوترہ خالی دکھائی دیتا ہے ۔۔۔جس کے اطراف آگ ہی آگ ہے ۔۔۔۔پورے پارک میں آگ ہے ۔۔۔پارک کے باہر جہاں بھی ان کی نظر جاتی ۔۔۔۔۔آگ ہی آگ نظر آ تی ہے اور دور دور تک گاندھی جی انہیں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتے ہیں ۔۔۔۔انہی احساسات میں کروٹیں بدلتے ہوئے ان کی رات گذری تھی ۔۔۔۔
وہ اپنے آپ کو بہت سمجھاتے رہے ۔۔۔دلاسے دیتے رہے ۔۔۔مگر ان کا دل نہ جانے کس مٹی کا بنا ہوا تھا کہ سمجھتا ہی نہیں تھا اور اسے جتنا بھی سمجھتاتے اتنا ہی الجھتا چلا جاتا ۔۔اور الجھتا بھی کیوں نہیں کہ شہر میں برپا ہونے والا فساد اُن کی آنکھوں کے سامنے ہی تو پھوٹا تھا۔ پارک میں اسلم اور ارون کے درمیان کوئی سخت قسم کی بحث جاری تھی باپو کاکا ان دونوں کی زور دار بحث سن ہی رہے تھے کہ دونوں آپس میں گتھم گتھا ہو گئے ۔۔۔۔باپو کاکا انہیں آوازیں دیتے دیتے لپکے مگر ان کے قریب پہنچنے سے پہلے ہی لوگوں نے دونوں کو الگ کر دیا ۔۔۔اور پھر نہ جانے کیا ہوا کہ انہیں الگ کرنے والے لوگ ہی آپس میں الجھ گئے ۔۔۔ہاتھا پائی کا زور چلا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہندو مسلم فساد کی شکل اختیار کر گیا ۔
  پارک سے پھوٹنے والے فساد نے درجنوں لاشیں گرا کر ۔۔۔پچاسوں کو زخمی کرکے۔۔۔ سینکڑوں مقامات نذر آتش کرکے پو رے شہر کو آگ اور دھوئیں میں لپیٹ کر رکھ دیا تھا ۔۔۔ ہندوؤں نے مسلمانوں کا اور مسلمانوں نے ہندوؤں کا دل کھول کر جانی و مالی نقصان کر نا جاری رکھا تھا لیکن حساس باپو کاکا بے چینی سے کروٹیں بدل بدل کر رات کے آخر پہر تک جاگ کر بس ذرا ہی دیر سو کر اٹھے تو سورج طلوع ہو چکا تھا ۔انہوں نے اپنی سوجی ہوئی آنکھوں کے پپوٹے دو ایک بار کھول بند کئے اور آہستگی سے اٹھ بیٹھے ۔۔۔ایک سرد آہ بھری اور بالٹی اٹھائے بغیر ہی بڑی نقاہت کے ساتھ جھونپڑی کے دروازے تک آئے۔۔۔دروازہ کھول کر باہر دیکھا اور چونک پڑے کیونکہ سامنے چبوترہ خالی پڑا تھا اور مہاتما گاندھی کا مجسمہ غائب تھا ۔۔۔وہ جلدی جلدی پارک کے گیٹ پر لگے پبلک ٹیلی فون کی طرف لپکے ۔ 
اپنی دھوتی میں اڑسائے بٹوئے سے ایک سکہ نکال کر ریسیوراٹھایا ۔سکہ سوراخ میں ڈالا۔۔۔پولس اسٹیشن کا نمبر ڈائل کیا اور جلدی جلدی مہاتما گاندھی کے مجسمے کے غائب ہونے کی رپورٹ دے کر گیٹ پر ہی پولس کا انتظار کرنے لگے ۔ 
پارک کے چاروں طرف دور نزدیک جگہ جگہ سے دھوئیں کے کالے کالے بادل اوپر اٹھتے صاف دکھائی دے رہے تھے ۔ ان پر افسوس کرتے ہوئے بس تھوڑے ہی دیر گزری تھی کہ کرفیو کی قائم کردہ خاموش فضا میں پولس جیپ کی آواز ابھر کر ان کے کانوں کے پردوں سے ٹکرائی ۔انہوں نے پارک کا گیٹ کھول دیا ۔  جیپ سیدھے پارک میں داخل ہوئی ۔ اس کا انجن خاموش ہو آ اور ایک انسپکٹر کے ساتھ ہی کئی کانسٹیبل نیچے اتر کر ان کی طرف لپکے ۔انسپکٹر نے باپو کاکا کو غور سے دیکھ کر پوچھا ۔
  ’’کون سا پتلا غائب ہوا ہے ؟۔۔۔۔۔‘‘
’’گا ندھی جی کا ساب ۔۔۔۔۔وہ اس چبوترے پر کا."   
باپو کاکا نے خالی چبوترے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔ 
’’ابے بڈھے! یہاں شہر کی کنڈیشن خراب ہے اور تجھے مذاق سوجھا ہے۔۔۔۔وہ چبوترے پر تیرا باپ کھڑا ہے کیا ؟ ۔۔۔"
انسپکٹر نے گاندھی کے مجسمے کو دیکھ کر کہا
"کہاں ساب؟ وہ تو خالی ہے"
 انہوں نے حیرت سے چبوترے کو دیکھا. 
’’ابے اندھے ۔۔۔۔مذاق کرتا سالے بڈھے ۔۔۔۔‘‘ 
اتنا کہہ کر انسپکٹر نے ایک زور دار لات باپو کاکا کو دے ماری۔۔۔۔وہ چاروں خانے چت زمین پر گر گئے ۔۔۔۔مگر ان کے گرتے ہی چبوترے کی طرف سے کسی بھاری بھرکم چیز کے گرنے کی آواز پر انسپکٹر نے سر گھما کر دیکھا ۔۔۔۔چبوترے کے نیچے مہاتما گاندھی کا مجسمہ چاروں خانے چت پڑا تھا۔ 

   ختم شُد...


اس کو بھی پڑھیں. 🔽

Wednesday, December 28, 2022

افسانہ : فریم کے باہر

  فریم کے باہر 

  (طاہر انجم صدیقی) 


 

          باہر ہوائیں شور مچاتی ہوئی پھر رہی تھیں. دھرتی پر اندھیرا پاؤں پسارنے کی کوشش میں تھا. گھنی اور کالی کالی بدلیوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا. ساری فضا گرد و غبار سے اٹی پڑی تھی. ہوائیں شور مچاتی ہوئی ہال کی باہری دیواروں اور کھڑکیوں کے شیشوں سے سر ٹکرا رہی تھیں. ہال کے اندر آویزاں ایک فریم کے شیشے کے اندر سے وہ بائیں طرف دیکھ رہا تھا لیکن فریم کے باہر وہ بڑی تیز آواز سے ہنس رہا تھا ۔ اس کی ہنسی میں ایک عجیب قسم کا زہر سا ملا ہوا تھا ۔ اور وہ زہر خندی کے ساتھ ہنستا جا رہا تھا ۔ایسا لگتا تھا جیسے وہ اپنی ہنسی کےذریعے کسی کا بری طرح مذاق اڑا رہا ہو ۔۔۔۔اُسے اپنی ہنسی سے بری طرح ذلیل کر رہا ہو۔۔۔۔اور اپنے مقابل شخص کو بالکل ہی حقیر سمجھ کر ہنس رہا ہو. 
          اس کی زہر آلود ہنسی مکمل انتقام بن کر ہال میں گونج رہی تھی. 
          وہ ہال بڑا وسیع تھا۔۔۔۔ہال کے اندر ساگوان کی لکڑیوں سے بنی ڈھیر ساری نشستیں قوس کے سے انداز میں سجی ہوئی تھیں ۔۔۔۔ نشستوں کے سامنے ایک میز سی بنائی گئی تھی. ہر میز پر مائک رکھا ہوا. تھا۔۔۔.نشستوں کا قوس جس سمت مڑتا تھا اُدھر ایک اسٹیج سا بنا ہوا تھا ۔۔۔۔اسٹیج پر بڑی خوبصورت اور اونچی نشست بنائی گئی تھی. اس کے سامنے رکھی میز پر بھی ایک مائک موجود تھا. ۔۔۔۔اسٹیج پر کوئی نہیں تھا ۔۔۔۔اور نہ ہی قوس کے سے انداز میں سجائی گئی نشستوں کی قطاروں میں کوئی نظر آ رہا تھا۔
          ایسا لگتا تھا جیسے ان نشستوں ، اسٹیج اور ڈائس پر صرف اور صرف اس زہر خند ہنسی کا ہی قبضہ ہو ۔۔۔۔اور تمام جگہوں سے وہی ہنسی صدائے باز گشت بن کر ہال کی دیواروں سے کھیل رہی ہو. 
          باہر کا شور اور اندھیرا اسی بازگشت کے ساتھ مل کر اندر دندناتے پھرنے کی خاطر دیواروں اور کھڑکیوں کے شیشوں سے سر ٹکراتا پھر رہا تھا. 
        اچانک ہی ہنسی کی آوازوں نے ہال کی دیواروں اور کرسیوں سے ٹکرا ٹکرا کر دم توڑ دیا ۔۔۔۔اور ایک آواز ابھری. 
        ”کیا بات ہے؟۔۔۔۔اتناکیوں ہنس رہے ہو تم اور کس بات پر ہنسے جارہے ہو؟“
        نئی لیکن باوقار آواز نے سوال کیا۔ جواب میں ہنسنے والی آواز نے بولنا شروع کیا.
        ”میں ؟۔۔۔۔میں ہنس رہا ہوں تو صرف اس لئے کہ تم نے میری بہت مخالفت کی ۔۔۔۔ مجھے ہزار روکنا چاہا ۔۔۔۔ میرے راستے میں لاکھ رکاوٹیں ڈالیں ۔۔۔۔مگر دیکھو میں رکا نہیں اور آ ۔۔۔۔"
" نہیں..... میں نے تم کو روکنے کی کبھی کوشش ہی نہیں کی ورنہ تم ماضی کے کسی کونے کھدرے میں ہی رینگ رہے ہوتے..... میں تو بس اپنی راہ چلتا گیا.....میں اپنے وچاروں اور ارادوں پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہا...... ورنہ اگر میں تمہارے خلاف چلا ہوتا تو آج تم میرے سامنے کھڑے نہیں ہوتے."
پروقار آواز کے فوراْ بعد ہنسنے والے آواز ہال میں سنائی دینے لگی. 
          "یہ سب صرف باتیں ہی ہیں. یقین جانو کہ اگر میں تمہارے ساتھ چلا نہیں تو کیا ہوا ؟ ۔۔۔۔میں نے اپنی راہیں الگ بنا لیں۔۔۔۔میں نے سفر کب بند کیا تھا؟ ۔۔۔۔دیکھ لو ۔۔۔۔میں زندگی میں اگر تم سے کبھی پیچھے تھا تو اب تمہارے سامنے کھڑا ہوں ۔۔۔۔تمہارے آدرشوں ۔۔۔۔تمہارے اصولوں۔۔۔۔اور تمہارے نظریات کی مٹّی پلید کرتے کرتے میں یہاں تک آ پہنچا ہوں ۔۔۔۔اور تم تو مجھ سے اچھّی طرح واقف ہو چکے ہو کہ میرے نظریات ۔۔۔۔میرے خیالات ۔۔۔۔اور میرے مقاصد نے تمہیں قدم قدم پر صدمہ پہنچایا ہے ۔۔۔۔تمہیں گولی مارنے میں اگر میں خود شامل نہیں تھا تو میرے اس قدم کے پیچھے میرا دماغ اور میرے نظریات ضرور کام کر رہے تھے ۔۔۔۔اور اب بھی کر رہے ہیں۔“
          ہال کے باہر کی تاریکیوں میں اضافہ ہو چکا تھا. ہواؤں نے آندھیوں کا روپ دھارن کرلیا تھا. درخت اپنی جگہوں سے اکھڑ رہے تھے.  فضا مزید غبار آلود ہوچکی تھی. تاریکیوں نے اپنے پاؤں مزید پسار لیے تھے. اور زہر خند لہجے والی آواز ہال میں گونج رہی تھی. 
        "میں تمہیں آج بھی روز مرتا ہوا دیکھتا ہوں کیونکہ اس اسٹیج اور قوس کی ترتیب میں سجی ان نشستوں پر بیٹھنے والے جب یہاں ملتے ہیں تو تمہارے نظریات، تمہارے وچار اور تمہارے مقاصد کی ارتھیاں سجاتے ہیں۔ تمہارے آدرشوں کی قبریں بناتے ہیں اور دھرتی پر میرا تانڈو شروع ہوجاتا ہے. تم یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہو۔۔۔۔بے بس ۔۔۔۔بے کس۔۔۔۔۔کچھ بھی تو نہیں کرسکتے تم۔۔۔۔کیونکہ تم لاچار اور مجبور ہوچکے ہو۔ بالکل ویسے ہی جیسے کبھی تم نے مجھے لاچار اور بے بس بنا کر رکھ دیا تھا۔۔۔۔۔ہاہاہاہا!“
        زہریلی ہنسی ہال میں گونج ہی رہی تھی کہ پروقار آواز پھر سنائی دی. 
        "کاش! میں ایسا کرجاتا..... میں نے کبھی بھی تم کو بے بس اور مجبور کرنے کی کوشش نہیں کی. میں تو خود طاقت اور غصے کو استعمال کرنے کا مخالف رہا ہوں لیکن آج سوچتا ہوں کہ تمہارے خلاف مجھے دونوں کا استعمال کرلینا چاہئیے تھا. اگر میں واقعی ایسا کر گزرتا تو اس دھرتی کا نقشہ ہی کچھ اور ہوتا."
مگر جواب میں وہی زہرآلود ہنسی پورے ہال میں گونج گونج کر کرسیوں ،پوڈیم اور اسٹیج پر تانڈو کرنے لگی۔
دوسرے فریم میں حرکت پیدا ہوئی ۔۔۔۔اس میں سجی تصویر کے لبوں میں جنبش پیدا ہوئی اور ایک اطمینان بھری آواز ہال میں پھیلتی چلی گئی۔
” میں مجبور نہیں۔۔۔۔
"بیشک تمہارے نظریات نے میری جان لے لی تھی.... میں مر گیا تھا لیکن میرے وچار آج بھی زندہ ہیں. تم کو تو لگا تھا کہ میرا خون بہا کر میرے وچار کا بھی قتل کر دو گے......مگر دیکھ لو آج بھی میرے وچار امر ہیں اور میرے وچار دھارک آج بھی اسی دھرتی پر سانس لے رہے ہیں جس پر میرے سینے سے ابلنے والا خون بہا تھا. 
مجبور تم ہو۔۔۔کیونکہ تم کل بھی ہارے تھے اور آج بھی ہار ہی جاتے ہو۔۔۔۔۔معلوم ہے کیسے؟ ۔۔۔۔ایسے کہ تمہارے نظریات کی حمایت میں اٹھنے والی ہزاروں آوازوں پر میرے آدرشوں کی ایک کمزور سی آواز بھی بھاری پڑجاتی ہے۔۔۔۔۔بالکل اسی طرح جیسے میری آواز نے تمہاری ہنسی کی لاشیں بچھا دی ہیں۔۔۔۔۔دیکھ لو!۔۔۔۔ان نشستوں ۔۔۔۔پوڈیم۔۔۔۔اور اسٹیج کے اطراف تمہارے قہقہے مردہ پڑے ہیں۔“
اس نے ہال میں نظریں دوڑائیں ۔اس کے اپنے قہقہے چاروں طرف مردہ پڑے ہوئے تھے۔
اس نے کمزور سی آواز والے اس نحیف و نزار شخص کو دیکھا ۔وہ دھوتی پہنے ،لاٹھی لئے اپنے فریم میں مسکراتا کھڑا تھا اور اس کی عینک سے باہر جھانکتی آنکھیں اسے دیکھ رہی تھیں۔
اسے محسوس ہوا کہ اس بوڑھے کی نظروں کی چبھن اس کے برداشت سے باہر ہے.
          وہ لپک کر فریم میں واپس گھس گیا اور اس بوڑھے سے نظریں چرانے لگا۔ اس کے فریم میں گھستے ہی ایک چھناکے کی آواز ہال میں گونجی اور فریم کے شیشہ کی کرچیاں ہال کے مخملی فرش پر بکھرتی چلی گئیں. 
          
(ختم شدہ) 

Monday, December 26, 2022

مضمون : ایک انسان فنکار، احمد عثمانی

*ایک انسان فنکار: احمد عثمانی*

تحریر: طاہرانجم صدیقی (مالیگاؤں)


         شہر مالیگاوں پیشتر شعرا نے جہاں پوری اردو دنیا میں اپنے شہر کا نام روشن کیا وہی افسانہ نگاروں بے بھی اردو کی نئی پرانی تمام بستیوں کو اپنے قلم کے ذریعے مالیگاؤں سے متعارف کرایا ہے. مذکورہ افسانہ نگاروں کی صف میں نشاط شاہدوی، سلطان سبحانی، سجاد عزیز، عرفان عارف، شبیر ہاشمی، خیال انصاری، خان انعام الرحمن اور مجید انور وغیرہ کا نام جتنی اہمیت رکھتا ہے اتنا ہی اہم نام احمد عثمانی صاحب کا بھی ہے. 
           احمد عثمانی شہر مالیگاوں کی اس ادبی شخصیت کا نام ہے جس نے نہ صرف افسانے لکھے بلکہ ناول اور بچوں کی کہانیاں تخلیق کرنے میں بھی پیچھے نہیں رہے. افسانے انہوں نے جہاں عام سے لکھے وہی علامتی، تمثیلی، اور تجریدی افسانے بھی لکھے اور اردو کے افسانوی ادب میں اپنے حصے کے جواہرات شامل کیا. اپنی اہمیت کا احساس دوسروں کے دلوں میں پیدا کیا اور ایک ادیب کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کی. 
           ان کی بنی ہوئی شناخت کے سبب ہی جب میں ان سے پہلی مرتبہ افسانہ نگار کی ہے حیثیت سے ملا تو مجھے یقین نہیں آرہا تھا کہ وہ وہی احمد عثمانی ہیں جنہوں نے "رات کا منظر" ، "اپنے آپ کا قیدی" اور "اپنی مٹی" جیسے افسانوں کے مجموعے اردو ادب کو بخشے ہیں. 
           گہری گندمی رنگت، پیشانی پر تفکر کے نشانات، بولنے میں تھوڑے سے تیز رفتار مگر اچانک ہی جملے کو درمیان سے  توڑ دینے کے عادی، جملے کی تکمیل پر بعض اوقات اوپری تالو سے زبان رگڑ کر کسی نامعلوم ذائقے کے متلاشی اور سفاری سوٹ میں ذرا سے دبتے قد والے اس انسان سے مل کر قطعی طور پر مجھے محسوس نہیں ہو رہا تھا کہ وہ اتنے بڑے ادیب ہیں بلکہ احمد عثمانی صاحب سے گفتگو کے دوران صاف طور پر یہ احساس اپنا سر اٹھا رہا تھا کہ اس وقت احمد عثمانی صاحب اپنی شناخت اور اپنی عظمت کی اونچی کرسی سے اتر کر میری اپنی سطح پر، خود میرے اپنے سامنے اور میرے ساتھ کھڑے ہیں. 
           بالکل عام سا لہجہ، سیدھے سادے الفاظ، باتوں میں کوئی الجھاؤ نہیں، گفتگو میں کوئی خورد برد نہیں. ان کی باتوں سے لگتا تھا جیسے ان کے دل و ذہن اور زبان کے درمیان کوئی بھی چیز حائل نہیں ہے ورنہ ان کی سطح کے کچھ ہی ادیب ہوں گے جو نئی نسل کے ایک نوجوان افسانہ نگار سے اس قسم کا برتاؤ کر سکیں کیونکہ ان کی باتوں سے، ان کی حرکات سے یا پھر ان کے رکھ رکھاؤ سے کہیں نہ کہیں ان کے عظیم فنکار ہونے کی بو آہی جاتی ہے مگر احمد عثمانی صاحب تو بڑے ہی خلوص کے ساتھ پیش آئے اور انہوں نے اپنے برتاؤ سے مجھے جتنی عزت بخشی اس سے کہیں زیادہ عظمت وہ اپنے لئے میرے دل میں بنا گئے. 
          اتنے پرخلوص اتنے ملنسار اور اسے سیدھے سادے احمد عثمانی صاحب کی تخلیقات کی دنیا میں جب ہم  داخل ہوتے ہیں تو پھر وہ کہیں بھی سمجھو تہ نہیں کرتے. مسلسل اپنی فنکاری کا اظہار کرتے چلے جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات تو ان کے فن کا کوئی سرا بھی ہمارے ہاتھ آ نہیں پاتا اور وہ آگے بڑھ جاتے ہیں.
          احمد عثمانی صاحب نے جہاں ترقی پسندوں کا ساتھ دیا وہیں جدیدیت کی تحریک سے بھی آشنا رہے. یہاں تک کہ مابعد جدیدیت کی لہر سے بھی وہ واقف رہے ہیں اور اپنے گرد و پیش ہونے والی تبدیلیوں پر نگاہ رکھ کر انہوں نے ان سے بھرپور استفادہ کیا ہے. نیز اس استفادے سے اپنے فن کو پختگی عطا کی ہے تاکہ تادیر ادبی دنیا میں ان کے فن کی روشنی پھیلی رہے اور یہ سچ بھی ہے کہ اسی ادیب کا تخلیق کردہ ادب صدیوں تک زندہ رہا ہے جس نے زمانے کے تغیر کے ساتھ اپنے فن میں بھی تبدیلیاں پیدا کرکے اسے زمانے کی ضرورت کے مطابق استعمال کیا ہے. 
          اس لیے احمد عثمانی صاحب کے ناول "زندگی تیرے لیے" اور بچوں کے ناولٹ "نوٹ کے پودے" کے بعد ان کا افسانوی مجموعہ "قفس"بھی منظر عام پر آ چکا ہے. اس موقع پر مجھے اس بات کا احساس ہو رہا ہے کہ یقینا مذکورہ مجموعے میں شامل افسانے بھی آج کے مسائل سے ضرور آنکھیں ملائیں گے اور ان کی ضرورتوں کو بھی ضرور پورا کریں گے. 
          قفس کے ساتھ مری نیک خواہشیں طاہر قفس کے بعد بھی اِک عزم ان کا شہ پر ہو
          مذکورہ بالا تمام سطور "قفس" کے اجرا کی تقریب میں میں نے احمد عثمانی صاحب کے سامنے پڑھی تھیں مگر اب ان سطور کو لکھ رہا رہا ہوں تو احمد عثمانی صاحب اس دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں. آج رات ہی ان کی تدفین عمل میں آئی ہے.
          قفس کے بعد بھی وہ رکے نہیں، وہ تھکے نہیں، وہ نچلے نہیں بیٹھے بلکہ لکھتے رہے اور مسلسل لکھتے رہے حتی کہ شہر مالیگاؤں میں منعقد ہونے والی بیشتر افسانوی نشستوں شریک ہوکر اپنے افسانے بھی سناتے رہے. افسانہ نگاری کی نئی نسل کو راہیں دکھاتے رہے. حوصلہ دیتے رہے. نیز ماہنامہ بیباک کے مدیر ہارون بی اے صاحب نے اپنی علالت کے بعد ماہنامہ بیباک کی ادارت کی جو ذمہ داریاں ان کے کاندھوں پر ڈالی تھیں وہ  اسے اخیر وقت تک سنبھالے رہے اور باقاعدگی سے "بیباک"جیسا ادبی رسالہ ہر ماہ نکالتے رہے.
          اب "زندگی تیرے لئے" احمد عثمانی صاحب جیسا "اپنے آپ کا قیدی" "رات کا منظر" چھوڑ کر "قفس" توڑ" کر" اپنی مٹی" میں دفن ہوچکا ہے. صرف اس فنکار انسان کی یادیں،  باتیں اور الفاظ ہمارے درمیان زندہ ہیں. ایسے موقع پر اللہ سے دعا ہے کہ وہ اس" فنکارانسان" کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے. آمین!



یہ بھی پڑھیں :