غزل
طاہرانجم صدیقی
اپنا بستر اُٹھا کے لے آیا
یعنی میں گھر اُٹھا کے لے آیا
آتے آتے تمہاری بستی سے
ایک منظر اُٹھا کے لے آیا
خواب کی کرچیوں سے خوفزدہ
نیند کا ڈر اُٹھا کے لے آیا
میل دنیا کے زائچوں سے نہیں
کیا مقدّر اُٹھا کے لے آیا!
کوئی منزل نہیں تھی گٹھری میں
میں برابر اُٹھا کے لے آیا
روندنے کو اکڑ رہا تھا جو
میں وہی سر اُٹھا کے لے آیا
سورجوں کے حصار سے طاہرؔ
چاند کو گھر اُٹھا کے لے آیا
22/6/24
خواب کی کرچیوں سے خوفزدہ
ReplyDeleteنیند کا ڈر اُٹھا کے لے آیا
کیا کہنے محترم بہت اچھی غزل بہت خوب ____
بہت شکریہ
DeleteBahot khoob
ReplyDeleteبہت شکریہ
DeleteBahot khoob
ReplyDeleteبہت شکریہ
Deleteبہت ہی زبردست
ReplyDeleteبہت شکریہ
Deleteماشاءاللہ بہت خوبصورت غزل ہے قافیہ پیمائی اور ردیف کا خوبصورت استعمال کیا گیا ہے خیالات کچھ نئے ہیں اور کچھ قدیمیت کا احساس کراتے ہیں کل ملا کر غزل سادہ اور خوبصورت ہے
ReplyDeleteبہت شکریہ محترم! بہت شکریہ. آپ کے حوصلہ افزاکلمات مزید کچھ لکھنے پر آمادہ کررہے ہیں. جزاک اللہ
Deleteماشاءاللہ۔ نہایت خوبصورت کلام مقطع لاجواب بہت بہت مبارک باد
ReplyDeleteبہت شکریہ
DeleteSurajon ke Hisar se .........Bahot khoob janab
ReplyDeleteبہت شکریہ
Deleteسہل ممتنع میں نئے خیالات کے ساتھ خوبصورت اشعار کہے ہیں محترم، مبارکباد پیش کرتا ہوں۔
ReplyDeleteبہت شکریہ محترم
Delete