غزل
طاہرانجم صدیقی
اپنا بستر اُٹھا کے لے آیا
یعنی میں گھر اُٹھا کے لے آیا
آتے آتے تمہاری بستی سے
ایک منظر اُٹھا کے لے آیا
خواب کی کرچیوں سے خوفزدہ
نیند کا ڈر اُٹھا کے لے آیا
میل دنیا کے زائچوں سے نہیں
کیا مقدّر اُٹھا کے لے آیا!
کوئی منزل نہیں تھی گٹھری میں
میں برابر اُٹھا کے لے آیا
روندنے کو اکڑ رہا تھا جو
میں وہی سر اُٹھا کے لے آیا
سورجوں کے حصار سے طاہرؔ
چاند کو گھر اُٹھا کے لے آیا
22/6/24