Translate ترجمہ

Sunday, April 16, 2023

افسانہ : بون سائی از یحی' جمیل


 یہ افسانہ ناگپور یونیورسٹی میں ایم اے (اردو) چوتھے سیمسٹر، کے نصاب میں شامل ہے۔

 بون سائی

محمد یحییٰ جمیل





        مجھے باغبانی سے زیادہ دلچسپی نہیں۔ پھر بون-سائی پودوں کے بارے میں کیا جانتا۔ کل پرکاش سے معلوم ہوا کہ بون-سائی، چینی لفظ ’پین زائی‘ کا جاپانی تلفظ ہے۔ ’بون‘ یعنی ٹرے اور’ سائی‘ یعنی درخت۔

’’پھر بون-سائی کہنا چاہیے، بون-سائی درخت نہیں؟‘ ‘

’’جس سے بات واضح ہوجائے وہ کہنا چاہیے۔‘‘ اس نے مسکراکر کہا۔ مجھے اس کی بات اچھی لگی۔ آخر زبان ہماری سہولت کے لیے ہے۔

        پرکاش سے چند روز قبل ہی میری دوستی ہوئی ہے۔ اس نے پڑوس کا بنگلہ کرایہ پر لیا ہے۔ وہ  اس کی بیوی اور تین سال کی بچی, چھوٹی سی فیملی ہے. اس بنگلے میں آنے والے ہر کرایہ دار سے میں دوستی کر لیتا ہوں۔ یوں زندگی کی یکسانیت کم ہوجاتی ہے۔ انصاری صاحب کے انتقال کے بعد ان کے بیٹے نے اس بنگلے کو کرایہ پر اٹھادیا ۔ اس کی بیوی کو امراوتی پسند نہیں اس لیے وہ ناگپور منتقل ہوگئے۔ وکیل ہے کہیں بھی پریکٹس کر سکتا ہے۔

        پچھلی مرتبہ یہاں ایک پروفیسر آگئی تھی, سنگل تھی. عمر کوئی پچاس پچپن کے بیچ رہی ہوگی۔ ہمیشہ ہلکے رنگ کی ساڑی پہنتی اور انتہائی باوقار لگتی۔ روز صبح لان میں کتاب لے کر بیٹھی ہوتی۔ اگراسے باہر نکلنے میں دیر ہوجاتی تو میں انتظار کرنے لگتا۔ شام میں کلاسیکل موسیقی کی آواز آتی. شاید ریاض بھی کرتی تھی. فنون لطیفہ سے محبت کرنے والے مجھے بہت پسند ہیں۔ باوجود اس کے میں نے اپنی دوستی ، دیدار تک محدود رکھی تھی۔ پسند اپنی جگہ, اس کی تنہائی پسندی کا احترام بھی ضروری تھا. 

         اُس کے جاتے ہی پرکاش یہاں آگیا، گویا نمبر لگائے بیٹھا تھا۔ عمر کے لمبے فرق کے باوجود وہ بہت جلد بے تکلف ہوگیا۔ ورنہ آج کے نوجوان ریٹایرڈ آدمی سے زیادہ بات کہاں کرتے ہیں؟ پھر وہ بیٹے ہی کیوں نا ہوں۔ خیر، پرکاش بہت اچھا لڑکا ہے۔ چند ہی ماہ کے لیے آیا ہے۔ اس کے گھر کا رِنوویشن مکمل ہوتے ہی وہ چلا جائے گا۔

’’آج کیوں دیر کردی؟‘‘ مہتاب نے تیوری چڑھا کر پوچھا۔

’’ہاں، ذرا دیر ہوگئی، سوری۔ ‘‘ اور کیا جواب دیتا۔ پہلے دیا کرتا تھا اور اکثر توتو میں میں شروع ہوجاتی۔ پھر جواب دینا بند کردیا تو بھی بحث کی گنجائش نکل آتی۔ گفتگو کا یہ طرز ذرا دیر سے آیا تھا۔

’’کسی دوست کے گھر بیٹھ گئے ہوں گے، مجھے کیا بے وقوف سمجھتے ہیں…‘‘وہ بڑبڑائی۔

’’چاے بنادوں؟‘‘ میں نے اس کی بات ان سنی کرتے ہوئے پوچھا۔

’’ کل شکر کم ہوگئی تھی۔تین چمچے ڈالنا۔‘‘

        مہتاب پیاری پھوپھی کی سب سے چھوٹی بیٹی تھی۔ مجھ سے زیادہ، دونوں خاندانوں کے لیے یہ رشتہ اہم تھا، سو ہوگیا۔ مجھے بھی کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ خاندان، خوبصورتی، دینداری سبھی کچھ تو تھا۔ بات شروع ہوئی اور میں گھوڑی چڑھا دیا گیا۔ لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں والا تھرل ہی نہیں ملا۔ لیکن مہتاب کا ایسا مزاج ہوگا، ابا جی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ پڑوسیوں نے پہلی بار ہمارے گھر سے اونچی آوازیں سنی تھیں۔ نوبیاہتا سہیلیوں سے سنے گئے رنگین قصوں نے مجھے بد ذوق اور خشک مزاج شوہر ثابت کیا تھا۔ بھرے پرے گھر میں ناز و نیاز کی گنجائش بھی کم تھی۔ ایک سال بعد مجھے دوسرے شہر میں ملازمت مل گئی۔ نئے شہر میں شفٹ ہوتے ہوئے سوچا تھا سال دو سال بعد واپس آجاؤں گا، لیکن وہ دن پھر کبھی نہیں آیا۔ میں یہیں ریٹایر ہوا۔

        نئے شہر میں بھی چین کہاں تھا۔ کچھ دوست بہت نالائق مل گئے۔ ویک اینڈ پر دیر رات تک بیٹھک ہوجاتی۔ مہتاب کو یہ بات بالکل پسند نہیں تھی۔ ایک مرتبہ تواس نے غصے میں اپنی نسیں کاٹنے کی کوشش تھی۔ پڑوس کی عورتوں سے میل جول کو ، جانے کیوں وہ عار سمجھتی تھی۔ رفتہ رفتہ اس کی مرضی نے قانون کی شکل اختیار کر لی۔ امی، اباجی صرف دوچار دن کے لیے آئیں۔ بھائیوں سے تہواروں پر ملاقات کروں۔ بہن سال میں ایک بار آئے اور دو دن سے زیادہ نہ ٹھہرے۔ سال میں صرف عیدین پر دعوت ہو۔ ویکیشن پر کوئی نہ آئے۔دوست اگر آئیں تو طہارت خانہ ہرگز استعمال نہ کریں۔ ضروری کام سے جاؤں اور فوراً لوٹ آؤں۔ گھریلو کاموں میں بہر حال مدد کروں۔

’’کمر میں بہت تکلیف ہے۔‘‘جب میں نے اسے چاے کی پیالی پکڑائی تو وہ دھیرے سے بولی۔

’’ہوں....‘‘

’’اگر آپ کو ایسی تکلیف ہوتی تو پل بھر برداشت نہیں کر سکتے تھے۔‘‘

کاش کسی نے درد کی پیمائش کا آلہ ایجاد کرلیا ہوتا۔ مگر کیا تب بھی میں کچھ کر پاتا؟ عرق النسا کے درد نے میرا جینا وبال کر رکھا تھا لیکن خیر۔

’’کل ڈاکٹر کو دکھا دیں گے۔‘‘

’’آپ کا کل، جلدی نہیں آتا ۔‘‘

 برسوں پہلے میں نے مہتاب کو واکنگ کا مشورہ دیا تھا۔ پھر تین گھنٹے بری طرح پریشانی میں گذرے تھے ۔ وہ مجھے بتائے بغیر اپنی کزن کے گھر چلی گئی تھی، پیدل۔ یہ اچھا سبق تھا جو مجھے آج تک یاد ہے۔ اس لیے ہر تکلیف پر ڈاکٹر بہترین آپشن تھا۔ البتہ میں ہر شام گھومنے چلا جاتا ہوں۔ پرکاش کو بھی ایوننگ واک پسند ہے۔ کیا بات ہے!

’’اچھا پرکاش، بون- سائی کی قیمت کیا ہوتی ہے؟‘‘

’’ ڈپینڈ کرتا ہے، دو،ڈھائی ہزار سے ایک لاکھ تک۔ ‘‘

’’اور اسے بننے میں کتنا وقت لگتا ہے؟‘‘

’’کسی دن نرسری آئیے، آپ کو بون-سائی کے بارے میں تفصیل سے بتاؤں گا۔‘‘

’’ضرور۔‘‘ مہتاب اگر اپنے بھائی کے گھر جائے تو موقعہ مل سکتا تھا۔ ایسے تو ممکن نہیں۔ مگر وہ پہلے بھی اپنے گھر بہت کم جایا کرتی تھی۔ پیاری پھوپھی کے انتقال کے بعد تو اس کا میکا ہی ختم ہوگیا۔ بھائی کے گھر بمشکل جاتی ہے۔ اس کی بھابھی نہیں چاہتی کہ یہ سواری وہاں اترے۔ بھائی خود نالاں ہو تو پھر بھابھی کا کیا کہنا۔

’’کل چلیں؟‘‘پرکاش نے پوچھا۔

’’ارے نہیں، بتاؤں گا تمھیں۔‘‘میں نے بات ٹال دی۔

رات کے کھانے پر میں نے پرکاش کی تعریف کی تو مہتاب کو بہت ناگوار گذرا۔

’’اب آپ نے اسے پیچھے لگا لیا؟‘‘

اسے ڈر تھا کہ کہیں میں اسے کھانے پر نہ بلالوں۔ حالانکہ کسی دوست کو کھانے پر بلائے زمانہ بیت چکا تھا۔ اب تو کوئی دوست بھول کر بھی نہیں آتا۔ اس لیے عرصہ سے چاے بھی نہیں پلائی تھی ۔ اس شہر میں شفٹ ہونے کے بعد جب میں پہلی بار گھر گیا تو امی نے کہا تھا، تیرے جانے کے بعد ایک لیٹر دودھ کم کردینا پڑا۔ میرے دوست بہت تھے اور ان کی آمد سے انھیں خوشی ہی ہوتی تھی۔ خود بھی بہت سوشل تھیں۔ اللہ درجات بلند کرے۔

        پھر جس دن پینشن لینے بینک جانا تھا میں پرکاش کی نرسری پہنچ گیا۔ اس دن دیر بھی ہوجائے تو مہتاب خاموش رہتی ۔ پرکاش بہت خوش ہوا۔ سارا کام چھوڑ کر مجھے گھماتا رہا۔ پھر بون-سائی درختوں کے پاس پہنچ کر بولا، ’’ہمارے یہاں، پیپل، املی، نیم، فائی کس، بوگن ویلا، برگد، گل مہر، سنترا، آم وغیرہ کے بون سائی بنائے جاتے ہیں۔‘‘

’’بون-سائی بنتے کیسے ہیں؟‘‘

’’ جس پودے کا بون سائی بنانا ہو اسے گملے سے نکال کر اس کی بڑی ڈالیاں کاٹ لیتے ہیں۔ جڑیں بھی کم کرتے ہیں۔ پھر اتھلے گملے میں کھاد اور مٹی کے ساتھ لگادیتے ہیں۔ اس کی غیر ضروری شاخوں اور پتوں کو کاٹتے رہنا ہوتا ہے۔ تاکہ اس کی لمبائی ایک حد سے آگے نہ بڑھے۔‘‘

’’اس کی کھاداسپیشل ہوتی ہے؟‘‘

’’نہیں، وہی عام کھاد ڈالی جاتی ہے ۔ فائی کس اور پیپل کے لیے کھاد کے ساتھ مٹی کی جگہ باریک کرش ملایا جاتاہے۔‘‘

’’دو سے تین سال بعد بون-سائی کا گملا بدلنا پڑتاہے۔‘‘

’’ہوں… دیکھو، کچھ سیدھے ہیں کچھ ذرا ترچھے، بالکل عام درختوں کی طرح۔‘‘

وہ ہنسا اور بولا، ’’یہ بھی ہماری کاریگری ہے۔‘‘

’’اچھا!‘‘

’’المونیم کے تاروں سے ڈالیوں کو اپنی مرضی کے مطابق شکل دیتے ہیں۔ اس طرح دیڑھ دو سال میں بون سائی کی ابتدائی صورت بن جاتی ہے۔ یہ دیکھیے، یہ سیدھے تنے والا بون-سائی ہے اسے Formal Upright کہتے ہیں. Informal Upright  میں اس کا تنا ٹیڑھا رکھا جاتا ہے. پہاڑوں پر تیز ہوا کی وجہ سے درخت جھک جاتے ہیں اس طرح کا لک دینے کے لیے Slanting Upright کیا جاتا ہے۔  Forest کا لک دینے کے لیے ایک برتن میں چار پانچ بون- سائی اگائے جاتے ہیں۔ یہ بون سائی بالکل جنگل کا نقشہ پیش کرتے ہیں۔ ‘‘

’’یعنی کوئی چاہے تو جنگل خرید کر لے جائے۔‘‘

’’شوق سے…‘‘

 میں نے پرکاش کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر شعر پڑھا:

’’کر علاجِ وحشت دل چارہ گر

لا دے اک جنگل مجھے بازار سے‘‘

وہ مسکرا کر میری جانب دیکھتا رہا۔

’’اردو کے بہت بڑے شاعر ہوئے ہیں، مومن خاں مومن۔ ان کا شعرہے!‘‘ میں بولا۔

’’ میں دوسری لائن سمجھا۔‘‘

’’کیا سمجھے؟‘‘

’’ مومن صاحب کو یہ گفٹ کیا جاسکتا ہے ۔‘‘ ہم دونوں دیر تک ہنستے رہے۔

آنکھوں سے پانی بہنے لگا۔ میں نے رومال سے آنکھیں صاف کیں، اور کافی پی کر گھر کے لیے نکل پڑا۔

        پھر ایک دن پرکاش بھی چلا گیا۔ لیکن جانے سے پہلے اس نے مجھے نیم کا ایک بون-سائی تحفہ میں دیا۔ نہایت قیمتی گملے والا۔ بہت پیارا ۔ میں نے اسے مومن کا شعر فریم کرکے دے دیا۔ وہ بہت خوش ہوا۔ میں نے بون -سائی بالکونی میں رکھ دیا۔ بنگلے کی جانب تاکہ اس کے ساتھ پرکاش کی یاد تازہ رہے۔

        اس دن جب سونے کے لیے لیٹا تو نیند آنکھوں سے غائب تھی۔ دیر تک جاگتا رہا۔ نومبر کا مہینہ تھا۔ ہوا میں ٹھنڈک بڑھ گئی تھی۔ میں نے مہتاب کو دیکھا، وہ گہری نیند میں تھی۔ میں آہستہ سے اٹھا اور بون-سائی کے سامنے جا بیٹھا۔ یہ بون-سائی نیم، گاؤں والے نیم کے درخت سے کتنا ملتا جلتا ہے۔ نچلی شاخ تو بالکل ویسی ہے۔ اس بون- سائی کے نیچے چند بچے کھیل رہے تھے۔

میں نے چشمہ اتار دیا اور غور سے دیکھنے لگا۔ اوہ، یہ تو میں اور میرے چھوٹے بھائی ہیں۔ منّی نمبولیاں جمع کررہی ہے۔ گھر کے آنگن میں وہ اِن کی دُکان لگائے گی۔اس نے سنہری رنگ کا شلوار کرتا پہنا ہے۔ آنکھوں میں بڑا سا کاجل لگا ہے۔ اس کے کتھیا بال، لال رنگ کے ربن سے بندھے ہیں۔ میں شاخ پر چڑھا اور کود گیا۔ ’آہ…‘میری چیخ نکل گئی۔ میرے پیر میں کانچ کا ٹکڑا چبھ گیاہے۔ دونوں بھائی دوڑ کر آئے۔ ایک نے میرا پیر اپنی گود میں رکھ لیا۔ خون سے اس کا قمیص سرخ ہونے لگا ہے۔ دوسرا کانچ کا ٹکڑا نکالنے کی کوشش کررہاہے۔ منی رو رہی ہے۔ ’’بھیا آپ کو بہت درد ہورہا ہوگا نا؟‘‘

’’نہیں.... تو رو مت۔‘‘

’’بھیا، آپ سے ملے دو سال ہوگئے۔ آپ کی بہت یاد آرہی ہے۔‘‘ وہ بولی۔

میں نے اس کے آنسو پونچھنے کے لیے ہاتھ بڑھایا اور میری انگلیاں بون-سائی کے تنے کو چھو گئیں. پھر میں تیزی سے بون-سائی لے کر گھر کے آنگن میں چلا گیا۔ اب گڑھا کرنے کے لیے کسی چیز کی ضرورت تھی۔ اسٹور میں سلاخ مل گئی۔ کچھ ہی دیر میں بالشت بھر کا گڑھا ہوگیا۔ میں نے بون-سائی کو اتھلے گملے سے نکالا اور زمین میں لگا دیا۔ مٹی برابر کرنے کے بعد اس پر پانی کا چھڑکاو کیا۔ ہلکی ہوا کے جھونکوں سے ننھا نیم لہلہانے لگا تھا۔ جلد ہی یہ چھتنار ہوجائے گا۔ اس کام سے فارغ ہوکر مجھے وہ ذہنی سکون میسر آیا جس کے لیے میں مدت سے تڑپ رہا تھا۔

        یہ کتنا بڑا ظلم ہے کہ فطرت کا گلا گھونٹ کر اسے بونا بنادیں۔اسے تناور درخت کیوں بننے نہ دیا جائے؟ آخر درخت اسی لیے تو ہے کہ پرندے اس پر گھونسلے بنائیں، اس کی شاخوں پر چہچہائیں، اس کے نیچے بچے کھیلیں، اس کے پھل کھائیں، کیڑے مکوڑے بھی اس سے اپنی غذا حاصل کریں۔ وہ بیچارہ تو سب کے لیے مفید ہے، پھر سب کو محروم کر کے اپنی تسکین کے لیے اس پر ظلم کیوں؟ بلکہ اپنی غرض کے لیے سب پر ظلم کیوں؟؟

🌳 ختم شد

Thursday, April 13, 2023

تجزیہ: نیم بپلیٹ پر گفتگو

  نیم پلیٹ" پر گفتگو" 

افسانہ نگار: طارق چھتاری

گفتگو: طاہرانجم صدیقی، مالیگاؤں. 




           خدا جانے میں نے "نیم پلیٹ" کو کب پڑھا تھا؟ سب کچھ دھندلایا ہوا ہے. ایسا لگتا ہے کہ یاد کرنے کے لئے ذرا سا بھی زور لگاؤں گا تو میرے اپنے وجود میں ہی کہیں چھناکے سے کچھ ٹوٹ پھوٹ جائے گا یا پھر میرے اپنے وجود سے کوئی چیز اکھڑ کر نیچے گر پڑے گی.

           "نیم پلیٹ" کو پڑھنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ بہت پہلے پڑھے گئے افسانے کی نیم پلیٹ اور افسانہ نگار کا نام *طارق چھتاری* آج تک ذہن سے چمٹا ہوا ہے اور طارق چھتری صاحب نے اپنے افسانے کا آغاز یوں کیا. 

           ’’کیا نام تھا اس کا ؟ اُف بالکل یاد نہیں آ رہا ہے۔‘‘

        🔸افسانہ اس سوال سے شروع ہوتا ہے اور ختم بھی ہوجاتا ہے لیکن ایک تجسس سا سارے افسانے میں سحر بن کر سمویا ہوا محسوس ہوتا ہے. ایسا لگتا ہے کہ بڑی تیزی کے ساتھ افسانہ پڑھ لیا جائے اور کیدار ناتھ کو اس سوال کا جواب دے دیا جائے لیکن افسانہ ختم ہوجانے کے بعد بھی کیدار ناتھ کی بیچارگی کا مداوا نہی‍ں ملتا اور وہ سارے افسانے میں پریشان پریشان نظر آتے ہیں. دیکھیں:

          "انھوں نے پیشانی پہ ہاتھ رکھا۔"

           "پچھتر سالہ کیدار ناتھ کے ماتھے کی بے شمار جھریاں بوڑھی ہتھیلی کے نیچے دب کر پھڑپھڑنے لگیں۔" 

          🔸اسے فنکارانہ کردار نگاری کی خوبی سمجھوں؟ خوبصورت منظرنگاری کہوں یا کمال کی جذبات نگاری کا نام دوں؟ جوبھی ہے، ہے بڑا جاندار اور شاندار.

          ’’سر لا کی ماں ..........’’ ا ن کے منھ سے بے ساختہ نکل پڑا۔

          🔸بیٹی کا نام یاد رہنا اور بیوی کا نام بھول جانا؟ بھی ایک بڑا عجیب روگ ہے. بڑا المیہ:

          "کیدار ناتھ نے جھنجھلا کر سرہانے رکھی چھڑی کو اٹھایا ، گلے میں کس کے مفلر لپیٹا اور بار بار چھڑی کو فرش پر پٹخنے لگے۔ پھر دونوں ہاتھوں میں چھڑی کو جکڑ کر اس طرح سر کے قریب لائے جیسے اس کے ہتھے سے اپنا سر پھوڑ ڈالنا چاہتے ہوں۔" 

         🔸یہ اقتباس بتاتا ہے کہ طارق چھتاری صاحب کا مشاہدہ غضب کا ہے. کیدار ناتھ کی حرکات و سکنات بالکل فطری ہیں. آدمی یاد کرنے کے لئے یقینی طور پر اپنے ماتھے یا سر کو ہاتھ ضرور لگاتا ہے.

         ’’ تعجب ہے اپنی بیوی کا نام بھول گیا !اسے مرے ہوئے بھی تو چالیس برس گذر گئے ہیں۔تین سال کا عرصہ ہوتا ہی کتنا ہے۔صرف تین سال ہی تو اس کے ساتھ رہ پایا تھا میں۔‘‘

        🔸کیدارناتھ کے مکالمے بیانیہ کا کام کرجاتے ہیں اور وہ کہانی کہنے کا آرٹ دکھا کر یہ ثابت کرجاتے ہیں کہ کہانی کو آگے سرکانے کے لئے فنکار کو تو بس بہانہ چاہئے وہ کس چیز سے کیا کام لے لے کچھ کہا نہیں جا سکتا.

        "وہ لرز گئے اور گھبرا کر ایک پاؤں اس کے اندر رکھ دیا پھر دوسرا پاؤں ، اب وہ دروازے کے باہر کھڑے تھے۔سب کچھ خالی تھا ، ان کے ذہن کی طرح ، وہ سمت بھول گئے تھے اور الماری کے بجائے باہر جانے والا دروازہ کھول بیٹھے تھے۔"

       🔸اوہ....... کیا المیہ ہے. ابھی بیوی کا نام یاد ہی نہیں آسکا تھا اور اب سمتوں نے اپنے ہاتھ پاؤں سکیڑ لئے. ہائے رے بیچارگی.

       "باہر سڑک پر کہرا جما ہوا تھا۔ کھمبوں کے بلب مدھم دیوں کی طرح ٹمٹما رہے تھے۔ سنسان سڑک پر انھیں لگا کہ یکایک بھیڑ امڈ آئی ہے۔ چاروں طرف شور ہو رہا ہے۔ باجے کے شور سے کان پھٹے جا رہے ہیں۔دور کہرے میں چھپی ہوئی ڈولی ____سرخ جوڑا پہنے دلہن مسکرا رہی ہے۔

       سڑک پر ایک پتھر کا ٹکڑا پڑا تھا ، انھیں ٹھوکر لگی اور وہ لڑکھڑا کر کھمبے سے جا ٹکرائے ، بہت زور سے دھکا دیا تھا محلے بھر کی لڑکیوں نے ، اور پھر دروازہ بند۔

’’ کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘ نام معلوم ہوتے ہوئے بھی اس کا نام پوچھا تھا انھوں نے۔ وہ شرما گئی تھی اور گھٹنوں میں منھ چھپا لیا تھا۔ انھوں نے پھر پوچھا تو اس نے آہستہ سے اپنا نام بتایا۔"

          🔸فلیش بیک تکنیک کا اچھا استعمال کیا ہے طارق صاحب نے وہ بھی اتنی ہوشیاری اور فنکاری کے ساتھ کہ پتہ ہی نہیں چلتا کب ہم کیدارناتھ کے ماضی میں ان کے حجلہءعروسی میں انھیں اپنی بیوی کا نام پوچھتے دیکھ رہے ہیں. حالانکہ بالکل ہی اٹپٹا سا لگتا ہے شوہر کا اپنی بیوی کا نام پوچھنا.

          ’’ کیا بتایا تھا اس نے ؟ اف بالکل یاد نہیں۔‘‘

         🔸اس مکالمے کو پڑھ کر..... ایک کسک سی محسوس ہوتی ہے دل میں. دل چاہتا ہے کہ انھیں سرلا کی ماں کا نام جلدی یاد آجائے. یہی تو ہوتی ہے فنکاری. یہی تو ہوتا ہے فنکار جو لفظ بیچارہ استعمال کئے بغیر کردار کی حرکات و سکنات اور رویوں سے اس کی بیچارگی ظاہر کردیتا ہے اور ایسی صورت میں قاری کو اس سے بھرپور ہمدردی بھی ہوجاتی ہے.

         ’’اچھا تو اپنے باپ کے نام کی پلیٹ اکھاڑ کر............‘‘ کھٹ سے کوئی چیز گری۔

        🔸کیا فنکاری ہے! واااہ. کمال کا بیانیہ ہے طارق چھتاری صاحب کے پاس. ایسا لگتا ہے جیسے ہمارے وجود کا کوئی ٹکڑا کھٹ سے نیچے گرگیا ہو. اس قسم کے جملوں نے تو افسانے کی تاثرانگیزی میں کمال ہی کر دکھایا ہے.

        انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کر قدموں میں آن گری ہے۔ وہ سہم گئے اور مجرم کی طرح گردن جھکا لی۔ یہ کسی کے نام کی پلیٹ تھی۔ مگر ایک حرف بھی صاف نہیں۔ سب کچھ مٹ چکا ہے۔

       🔸صرف نام کی پلیٹ کے حروف نہیں مٹے بلکہ ایک دور دھندلا گیا. ایک تہذیب کے نمایاں خطوط دھندلے ہوگئے اور پھر داد دینی پڑی طارق چھتاری صاحب کے بیانیہ کی. ایسا لگتا ہے جیسے وہ اپنے لفظوں کی انگلیوں سے ہمارے محسوسات سے کھیل رہے ہیں. کبھی کوئی منظر سامنے کررہے ہیں تو کبھی مکالموں کی چبھن کا احساس دلا رہے ہیں. کبھی جذبات نگاری کا جادو جگا رہے ہیں. دیکھیں:

       "ان کے جسم میں سنسناہٹ سی ہونے لگی۔ لاغر ٹانگیں جو ابھی ابھی کانپ رہی تھیں ، پیاسے ہرن کی کلانچیں مارنے کو بے تاب ہو اٹھیں۔"

       "وہ بھاگ رہے ہیں۔ نہیں آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔ یا رینگ رہے ہیں یا پھر کھڑے کھڑے ہی ................یہ تو معلوم نہیں مگر وہ اپنے گھر سے کئی میل دور سرلا کے گھر کے بہت قریب آن پہنچے ہیں۔"

      🔸کیا کرب بھر دیا ہے سارے افسانے میں طارق چھتاری صاحب کے ظالم قلم نے. ذرا سا دم تو لینے دیتے جناب. آپ تو اپنے قلم کو مہارت کے ساتھ چلائے چلے جارہے ہیں اور ایک حساس قاری کو سانس لینے تک کی فرصت نہیں دے رہے ہیں. کمال کے فنکار ہیں آپ بھی.

     " سرلا سے اس  کی ماں کا نام پوچھ ہی لیں گے۔

سرلا کو اپنی ماں کا نام یاد ہو گا ؟ کیوں نہیں ...........کوئی ماں کا نام بھی بھولتا ہے کیا۔

’’ پاروتی دیوی.......‘‘ ان کی ماں کا نام پاروتی دیوی تھا۔ انھیں پچھتر سال کی عمر میں بھی اپنی ماں کا نام یاد ہے۔"

        🔸یہ مزید ظلم ہے. بےچارے پچھتر برس کے بوڑھے کو اس عمر میں بھی اپنی ماں کا نام یاد ہے مگر بیوی کا نام اس کے حافظے سے یوں صاف ہوگیا ہے جیسے اس کا نام واقعی تھا ہی نہیں.

       " کیسے اپنی ماں کا نام بھولی ہو گی؟ کیدار ناتھ کا دل اندر سے اتنا خوش ہو رہا تھا کہ ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔"

      🔸امید کی ایک کرن تھی سرلا جو اپنی ماں کا نام اپنے باپ کو بتا سکتی تھی. یہی سبب ہے کہ کیدار ناتھ خوشی سے پھولے نہیں سمارہے ہیں.

      "بوڑھے آسمان کی گود سے نئے سورج کا گولا جھانک رہا ہے۔"

     🔸اس افسانے سے پہلے میں نے آج تک ایسا بیان نہیں پڑھا ہے. کیا زبردست بیان ہے! باپ کی طرف سے شفقت سے بھرپور بیان اور بیٹی کی طرف سے باپ کے لئے محبت بھرا بیان. واہ طارق صاحب واہ. شاید یہ آپ ہی کرسکتے تھے.

    "کیدار ناتھ کے پنجوں کی انگلیاں سرد ہو کر سُن پڑچکی ہیں ، جیسے ان میں گوشت ہے ہی نہیں اور وہ اندر سے بالکل خالی ، بالکل کھوکھلی ہو چکی ہیں ، پرندے ان کے سر پر منڈلاتے منڈلاتے سرلا کے مکان کے اوپر جا بیٹھتے ہیں اور وہ سرلا کے مکان کے باہر کھڑے کھڑے تھک چکے ہیں۔’’ میں یہاں کھڑا ہوں۔ آتے جاتے لوگ دیکھ کر کیا سوچیں گے۔"

   🔸طارق صاحب! مجھے ایسا محسوس ہورہا ہے جیسے آج میں داد دیتے دیتے تھک جاؤں گا. آج مجھے یقین ہوچلا ہے کہ واقعی کرشن چندر کو افسانہ خوانی پر شعرا کی طرح داد ملا کرتی تھی.

    " اب تو دن چڑھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ سرلا سو کر اٹھ گئی ہو گی۔ اندر چلنا چاہئے۔"

      "نام کی پلیٹ اکھاڑ کر ...............’’ کھٹ سے کوئی چیز گری ، انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کو قدموں میں آن گری ہے۔دھندلے دھندلے حرف ابھرنے لگے اور ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔"

        🔸اوہ.....ان کی امیدوں پر پانی پھر گیا. سرلا کے گھر کی نام کی پلیٹ نیچے آگری. وہ اب وہاں نہیں رہتی یا رہتی بھی ہے تو اب اس کی کوئی شناخت نہیں ہے. شناخت اگر رہی بھی ہوگی تو اسے زبردستی مٹا دیا گیا ہے اور نیم پلیٹ اکھڑ کر کیدار ناتھ کے قدموں میں آپڑی ہے. دھندلے دھندلے حروف ابھرنے لگے ہیں مگر پھر آنکھوں میں مارے ضعف کے اندھیرا چھا گیا ہے.

         "کیدار ناتھ نے اپنے جسم پر چڑھے گرم کپڑوں کو اس طرح ٹٹولا  جیسے وہ ڈھونڈ رہے ہوں کہ کپڑوں کے اندر جسم ہے بھی یا نہیں۔" 

         🔸انسانی جسم کے کمزور و ناتواں ہونے کا فنکارانہ بیان طارق چھتاری صاحب کے فن کا اعتراف چاہتا ہے.

         "گھر لوٹنے کے لئے بس پکڑی۔اب ان کے جسم کی ساری رگیں ڈھیلی پڑ چکی تھیں۔"

       🔸آخری امید اور آخری سہارے کو کھو دینے کے بعد انسان کی حالت یقیناُ ایسی ہی ہوجاتی ہوگی جیسی کیدار ناتھ کی ہوئی تھی.

       "اندھیرا گہرا ہو تا جا رہا تھا ، کیدار ناتھ کو محسوس ہوا کہ دیواریں ان کی طرف کھسکتی چلی آ رہی ہیں۔"

       🔸ان دو جملوں میں کیدارناتھ کی بے بسی کا کتنا اچھا اظہار کیا گیا ہے! 

     سارا افسانہ بظاہر ایک شخص کی یادداشت سے پہلے بیوی اور پھر رفتہ رفتہ سارے ناموں کے مٹ جانے کا المیہ بن کر پیش ہوا ہے.

     کردار نگاری کمال کی ہے. جذبات نگاری کا جواب نہیں. مناظر تو یوں بیان ہوئے ہیں جیسے پڑھنے والا انھیں برسوں سے جانتا ہو اور پھر جگہ جگہ طارق چھتاری صاحب کے فنکارانہ اظہار نے سارے افسانے کو عجیب سے درد، کسک اور تجسس سے بھر دیا ہے. یہ ہوتا ہے افسانہ اور یہ ہوتی ہے افسانہ نگاری.

         میرے احباب جانتے ہیں کہ پہلے میں بہت ڈینگیں مارا کرتا تھا کہ تخلیق کار مقدّم ہے. نقاد تو بیچارہ ایک طفیلی جاندار ہے. جب تک تخلیق زندہ رہے گی وہ جونک بن کر اس سے چمٹا رہے گا اور خود بھی زندہ رہنے کی کوشش کرے گا لیکن وہ تخلیق کار مجھ جیسا کمزور تخلیق کار نہیں ہوسکتا بلکہ طارق چھتاری صاحب جیسا فنکار ہوسکتا ہے.

Wednesday, April 12, 2023

افسانہ: نیم پلیٹ (طارق چھتری)


نیم پلیٹ

طارق چھتاری



 

’’کیا نام تھا اس کا ؟ اُف بالکل یاد نہیں آ رہا ہے۔‘‘ کیدار ناتھ نے اپنے اوپر سے لحاف ہٹا کر پھینک دیا اور اٹھ کر بیٹھ گئے۔

’’ یہ کیا ہو گیا ہے مجھے ، ساری رات بیت گئی نیند ہی نہیں آ رہی ہے۔ ہو گا کچھ نام وام نہیں یاد آتا تو کیا کروں ، لیکن نام تو یاد آنا ہی چاہئے۔آخر وہ میری بیوی تھی ، میری دھرم پتنی۔‘‘انھوں نے پیشانی پہ ہاتھ رکھا۔پچھتر سالہ کیدار ناتھ کے ماتھے کی بے شمار جھریاں بوڑھی ہتھیلی کے نیچے دب کر پھڑپھڑنے لگیں۔

’’ سر لا کی ماں ..........’’ ا ن کے منھ سے بے ساختہ نکل پڑا۔

’’ وہ تو ٹھیک ہے مگر کچھ نام بھی تھا اس کا۔ کیا نام تھا؟ اس کے نام کا پہلا اکچھر ..........ہاں کچھ کچھ یاد آ رہا ہے ............‘‘ انھوں نے پیر پلنگ کے نیچے لٹکا دیے اور وہ لائٹ آن کرنے کے لئے دیوار میں لگے سوئچ کی طرف بڑھے۔

’’ اس کے نام کا پہلا اکچھر ..............’’کے ‘‘ نہیں نہیں۔ہاں ہاں یاد آ گیا۔‘‘

ان کا جھریوں سے بھرا پوپلا منھ مسکرانے کے لئے تیار ہو ہی رہا تھا کہ کھانسی کا ایک ٹھسکا لگا اور پھر بھول گئے کہ وہ اکچھر کیا تھا۔

کمرے میں چاروں طرف روشنی پھیل چکی تھی۔

’’ ڈھائی بجنے کو ہیں۔‘‘ ان کی نظر ٹائم پیس پر پڑ گئی۔

ٹائم پیس .............؟ ہاں ..............ٹا..............نہیں ،  پیس.....’’سا‘‘ ارے ہاں _____

’’ سا‘‘ ہی تو تھا اس کے نام کا پہلا اکچھر۔‘‘

’’ سا‘‘ ؟ نہیں یہ تو سرلا کی ماں۔آخر نام بھی تو کچھ تھا اس کا۔‘‘ کیدار ناتھ نے جھنجھلا کر سرہانے رکھی چھڑی کو اٹھایا ، گلے میں کس کے مفلر لپیٹا اور بار بار چھڑی کو فرش پر پٹخنے لگے۔ پھر دونوں ہاتھوں میں چھڑی کو جکڑ کر اس طرح سر کے قریب لائے جیسے اس کے ہتھے سے اپنا سر پھوڑ ڈالنا چاہتے ہوں۔

’’ تعجب ہے اپنی بیوی کا نام بھول گیا !اسے مرے ہوئے بھی تو چالیس برس گذر گئے ہیں۔تین سال کا عرصہ ہوتا ہی کتنا ہے۔صرف تین سال ہی تو اس کے ساتھ رہ پایا تھا میں۔‘‘

وہ خالی خالی نظروں سے کمرے کو گھور رہے ہیں۔پلنگ، میز، کرسی اور الماری، کتابیں ..........الماری کتابوں سے بھری پڑی ہو گی ، الماری کے پٹ بند ہیں۔ وہ پلنگ کی جانب بڑھے اور پھر الماری کی طرف مڑ گئے۔ دروازہ کھولا الماری خالی تھی ____نہ اس میں کتابیں تھیں اور نہ خانے۔‘‘ ارے اس میں تو پچھلی دیوار بھی نہیں ہے۔‘‘

وہ لرز گئے اور گھبرا کر ایک پاؤں اس کے اندر رکھ دیا پھر دوسرا پاؤں ، اب وہ دروازے کے باہر کھڑے تھے۔سب کچھ خالی تھا ، ان کے ذہن کی طرح ، وہ سمت بھول گئے تھے اور الماری کے بجائے باہر جانے والا دروازہ کھول بیٹھے تھے۔ باہر سڑک پر کہرا جما ہوا تھا۔ کھمبوں کے بلب مدھم دیوں کی طرح ٹمٹما رہے تھے۔ سنسان سڑک پر انھیں لگا کہ یکایک بھیڑ امڈ آئی ہے۔ چاروں طرف شور ہو رہا ہے۔ باجے کے شور سے کان پھٹے جا رہے ہیں۔دور کہرے میں چھپی ہوئی ڈولی ____سرخ جوڑا پہنے دلہن مسکرا رہی ہے۔

سڑک پر ایک پتھر کا ٹکڑا پڑا تھا ، انھیں ٹھوکر لگی اور وہ لڑکھڑا کر کھمبے سے جا ٹکرائے ، بہت زور سے دھکا دیا تھا محلے بھر کی لڑکیوں نے ، اور پھر دروازہ بند۔

’’ کیا نام ہے تمہارا ؟‘‘ نام معلوم ہوتے ہوئے بھی اس کا نام پوچھا تھا انھوں نے۔ وہ شرما گئی تھی اور گھٹنوں میں منھ چھپا لیا تھا۔ انھوں نے پھر پوچھا تو اس نے آہستہ سے اپنا نام بتایا۔

’’ کیا بتایا تھا اس نے ؟ اف بالکل یاد نہیں۔‘‘ اور وہ چھڑی کو زمین پر ٹیکتے ہوئے تیز تیز قدموں سے چل پڑے۔ انھیں کہاں جانا ہے ؟ پتہ نہیں۔پھر بھی وہ چلتے رہے اور اب اپنے گھر سے بہت دور نکل آئے تھے۔

یہ علاقہ کون سا ہے ؟ کیلاش نگر ؟ ہاں شاید وہی ہے۔ آگے دائیں طرف ان کے دوست شرما جی کی کوٹھی ہے۔ باہر گیٹ پر نیم پلیٹ لگی ہے۔’’ ست پرکاش شرما۔‘‘ وہ ان کے دفتر کے ساتھی تھے۔ گذرے ہوئے کئی برس ہو گئے۔

اچانک کیدار ناتھ ٹھٹھکے اور رک گئے۔’’ ارے یہی تو ہے شرما جی کی کوٹھی ، ہاں باکل یہی ہے۔ وہ وہاں لگی ہے ان کے نام کی پلیٹ۔‘‘ کیدار ناتھ کو کمرے کی دھندلی فضا میں ایک تختی نظر آئی۔

’’ شرما ..........‘‘ انھوں نے پڑھا۔ ’’ رام پرکاش شرما۔‘‘

’’رام پرکاش ...........؟.نہیں ان کا نام تو ست پرکاش تھا۔ پھر غور سے دیکھا۔

’’ رام پرکاش شرما (ایڈوکیٹ)۔‘‘ صاف صاف لکھا تھا۔

انھیں یاد آیا کہ ایک روز شرما جی نے کہا تھا۔’’ میرا بیٹا رام پرکاش ایڈوکیٹ ہو گیا ہے۔‘‘

’’ اچھا تو اپنے باپ کے نام کی پلیٹ اکھاڑ کر............‘‘ کھٹ سے کوئی چیز گری۔ انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کر قدموں میں آن گری ہے۔ وہ سہم گئے اور مجرم کی طرح گردن جھکا لی۔ یہ کسی کے نام کی پلیٹ تھی۔ مگر ایک حرف بھی صاف نہیں۔ سب کچھ مٹ چکا ہے۔ ان کے جسم میں سنسناہٹ سی ہونے لگی۔ لاغر ٹانگیں جو ابھی ابھی کانپ رہی تھیں ، پیاسے ہرن کی کلانچیں مارنے کو بے تاب ہو اٹھیں۔

 وہ بھاگ رہے ہیں۔ نہیں آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔ یا رینگ رہے ہیں یا پھر کھڑے کھڑے ہی ................یہ تو معلوم نہیں مگر وہ اپنے گھر سے کئی میل دور سرلا کے گھر کے بہت قریب آن پہنچے ہیں۔

سرلا سے اس  کی ماں کا نام پوچھ ہی لیں گے۔

سرلا کو اپنی ماں کا نام یاد ہو گا ؟ کیوں نہیں ...........کوئی ماں کا نام بھی بھولتا ہے کیا۔

’’ پاروتی دیوی.......‘‘ ان کی ماں کا نام پاروتی دیوی تھا۔ انھیں پچھتر سال کی عمر میں بھی اپنی ماں کا نام یاد ہے۔

’’ پاروتی دیوی کی جے ..................‘‘ بچپن میں وہ اپنے با با کے ساتھ بیٹھے پوجا کر رہے تھے۔’’ بابا ..............اماں کا نام بھی تو پاروتی دیوی ہے۔‘‘ ’’ ہاں بیٹے یہی پاروتی دیوی ہیں جن کے نام پر تمہاری ماں کا نام رکھا گیا ہے۔‘‘ اور اس روز سے وہ آج تک روزانہ پاروتی دیوی کی پوجا کرتے ہیں اور جے بولتے ہیں۔ ماں تو بھگوان کا روپ ہوتی ہے ، پھر بھلا سرلا کیسے اپنی ماں کا نام بھولی ہو گی۔ کیدار ناتھ کا دل اندر سے اتنا خوش ہو رہا تھا کہ ہاتھ پاؤں پھولنے لگے۔ رفتار میں دھیما پن آ گیا مگر وہ اپنے بوڑھے جسم کو ڈھکیلتے ہوئے آگے بڑھتے چلے جا رہے تھے ____!!

’’ بابو جی آج اتنے سویرے آپ ادھر.........؟ ‘‘ سرلا نے  کسی سوچ میں ڈوبے کیدار ناتھ کو چائے کی پیالی دیتے ہوئے پوچھا۔ بوڑھے آسمان کی گود سے نئے سورج کا گولا جھانک رہا ہے۔ کیدار ناتھ کے پنجوں کی انگلیاں سرد ہو کر سُن پڑچکی ہیں ، جیسے ان میں گوشت ہے ہی نہیں اور وہ اندر سے بالکل خالی ، بالکل کھوکھلی ہو چکی ہیں ، پرندے ان کے سر پر منڈلاتے منڈلاتے سرلا کے مکان کے اوپر جا بیٹھتے ہیں اور وہ سرلا کے مکان کے باہر کھڑے کھڑے تھک چکے ہیں۔’’ میں یہاں کھڑا ہوں۔ آتے جاتے لوگ دیکھ کر کیا سوچیں گے۔ اب تو دن چڑھے کافی دیر ہو گئی ہے۔ سرلا سو کر اٹھ گئی ہو گی۔ اندر چلنا چاہئے۔

نام کی پلیٹ اکھاڑ کر ...............’’ کھٹ سے کوئی چیز گری ، انھیں لگا کہ ان کے ذہن سے کوئی چیز نکل کو قدموں میں آن گری ہے۔دھندلے دھندلے حرف ابھرنے لگے اور ان کی آنکھوں میں اندھیرا چھا گیا۔ اندھیری رات..............کہرے سے بھری ہو ئی سرد رات ....................بے شمار کتوں کے بھونکنے کی آوازیں ، کئی آوارہ کتے ان کے پیچھے لگ گئے ہیں۔وہ کتوں سے بچنے کے لئے ملٹن پارک میں گھس جاتے ہیں۔ملٹن پارک؟ اب تو اس کا نام گاندھی پارک ہو گیا ہے۔ گاندھی پارک ہو یا ملٹن پارک ،  ہے تو یہ وہی پارک جہاں وہ شادی کے دو دن بعد اسے لے کر آئے تھے۔پارک کی بارہ دری ٹوٹ کر کھنڈر بن گئی ہے۔ ٹوٹی ہوئی بارہ دری کے پتھروں کے نیچے سے ہوتی ہوئی ان کی نظریں چالیس برس پرانی بارہ دری میں گھس جاتی ہیں۔’’ آؤ یہاں بیٹھو .........کتنی خوبصورت ہیں یہ محرابیں۔‘‘ وہ دونوں سنگ مر مر کے ستون سے کمر ٹکا کر بیٹھ جاتے ہیں اور پھر وہ دنیا سے بے خبر بہت دیر تک اس کے پاس بیٹھے رہے۔مہینوں ............برسوں .....................کہ اچانک ان کی بیٹی سر لا نے انھیں چونکا دیا۔

’’ بابو جی آپ چپ کیوں ہیں ؟ کیا سوچ رہے ہیں ؟

’’ کچھ نہیں بیٹی۔ میں سوچ رہا تھا آج اتنے سویرے ..............اصل میں ،  میں نے سوچا جو گیندر کے دفتر جانے سے پہلے ہی پہنچ جاؤں تو اچھا ہے۔‘‘

’’ بابو جی آج تو اتوار ہے۔‘‘

’’ اوہ ، ہاں آج تو اتوار ہے۔ کیا کروں بیٹی ریٹائر ہونے کے بعد دن تاریخ یاد ہی نہیں رہتے۔‘‘

وہ دل ہی دل میں سوچنے لگے۔’’ دن تاریخ کیا اب تو بہت کچھ یاد نہیں رہا۔‘‘

اتنے میں جو گیندر بھی آنکھیں ملتے ہوئے آئے اور کیدار ناتھ کو پرنام کر کے صوفے پر بیٹھ گئے۔

’’ با بو جی اتنے سویرے ؟ سب ٹھیک ہے نا۔‘‘

’’ میرے جلد ی آنے پر یہ لوگ اتنا زور کیوں دے رہے ہیں۔ ضرور میرے اچانک آنے سے یہ سب ڈسٹرب ہوئے ہوں گے۔ مجھے چلے جانا چاہئے ، ابھی............‘‘

کیدار ناتھ کو خاموش بیٹھا دیکھ کر سرلا بول پڑی۔’’ ارے بابو جی تو بھول ہی گئے تھے کہ آج اتوار ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟

آج اتوار ہے اور میں اس طرح بغیر بتائے یہاں چلا آیا ہوں۔ ہو سکتا ہے ان دونوں کا کوئی پروگرام ہو۔ اب میری وجہ سے ............‘‘

’’ہفتے میں  چھٹی اک ایک ہی دن تو ملتا ہے ان لوگوں کو۔مگر میں بھی تو روز روز نہیں آتا ، گھر سے چل پڑا تھا ، بس چلتا رہا اور چلتے چلتے جب سرلا کے گھر کے قریب آ گیا تو سوچا، ملتا چلوں ،  کیا یہ لوگ آج میرے لئے اپنے پروگرام نہیں چھوڑ سکتے ؟‘‘

کیدار ناتھ کی آنکھوں میں آنسو چھلک آئے ہیں۔

’’ کمبخت بڑھاپے میں آنسو بھی کتنی جلدی نکل آتے ہیں۔‘‘ وہ آنسوؤں کو چھپانے کی کوشش کر رہے تھے کہ سرلا نے ان کی آنکھوں میں جھانک کر دیکھا۔’’ یہ اس طرح کیا دیکھ رہی ہے ؟ کہیں سب کچھ سمجھ تو نہیں گئی۔‘‘

’’ کیا سمجھے گی ؟ یہ کہ میں اپنی بیوی کا نام بھول گیا ہوں اور رات بھر جاگتا رہا ہوں یا یہ کہ میں رو رہا ہوں۔‘‘

’’ بیٹی آج مجھے جو گیندر سے کچھ کام تھا ...........‘‘

’’ بابو جی مجھ سے ؟‘‘ جو گیندر نے حیرت زدہ ہو کر پوچھا۔

’’ہاں یوں ہی ،  کوئی خاص بات نہیں تھی___‘‘ پھر وہ لان کی رف جھانکنے لگے۔

’’ آج بہت سردی ہے۔تمہارے لان میں تو سویرے ہی دھوپ آ جاتی ہے۔‘‘ سرلا نے لان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا :

’’ہاں بابوجی ، ابھی تو دھوپ میں تیزی بھی نہیں آئی اور اوس بھی بہت ہے ،  پورا لان گیلا..........‘‘

وہ  کہہ رہی تھی کہ جو گیندر بیچ میں بول پڑے۔

’’ بابوجی ابھی کچھ کام کے سلسلے میں آپ کہہ رہے تھے ........‘‘

’’ کیا یہ لوگ چاہتے ہیں کہ میں جلدی سے کام بتا کر چلتا بنوں تاکہ ان کے پروگرام ڈسٹرب نہ ہوں۔‘‘ کیدار ناتھ کھانسنے لگے اور کافی دیر تک کھانستے رہے۔ وہ کھانس رہے تھے اور سوچتے جا رہے تھے کہ اب کیا کہوں کہ بغیر سوچے سمجھے ہی بول پڑے ___

’’ بیٹے تمہیں نام یاد رہتے ہیں ؟‘‘

’’ کیسے نام بابوجی؟ ویسے میں ہمیشہ نام یاد رکھنے میں کمزور رہا ہوں ، اسی لئے ہسٹری کے پرچے میں میرے نمبر بہت کم آتے تھے۔‘‘

’’ اب کیا پوچھوں ؟ کیا سرلا سے یہی سوال کروں ؟مگر یہ تو بڑی بے تکی بات ہو گی۔ اگر سرلا خود ہی بول پڑے کہ بابو جی مجھے نام یاد رہتے ہیں ، تو جلدی سے پوچھ لوں کہ بتاؤ تمہاری ماں کا کیا نام تھا ___‘‘

کیدار ناتھ نے حسرت بھری نظروں سے سرلا کی طرف دیکھا لیکن وہ خاموش بیٹھی رہی اور پھر اٹھ کر کچن کی طرف چل دی ___

سورج چڑھے کافی دیر ہو چکی تھی۔ دھوپ میں بھی تیزی آتی جا رہی تھی۔لان کی ہری گھاس پر جمے شبنم کے قطرے اپنا وجود کھو چکے تھے۔ کیدار ناتھ نے اپنے جسم پر چڑھے گرم کپڑوں کو اس طرح ٹٹولا  جیسے وہ ڈھونڈ رہے ہوں کہ کپڑوں کے اندر جسم ہے بھی یا نہیں۔

دوپہر کا کھانا تیار تھا۔ لیکن ابھی تک سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھنے کا موقع نہیں مل پایا تھا۔ سرلا صبح سے کھانا تیار کرنے میں لگی ہوئی تھی۔ کیدار ناتھ باہر دھوپ میں جا کر بیٹھتے تو کبھی اندر آ کر برآمدے میں ٹہلنے لگتے۔ کبھی جو گیندر سے ادھر اُدھر کی باتیں ہوتیں اور کبھی سرلا آتی تو اس تلاش میں رہتے کہ ذرا جو گیندر اٹھ کر جائیں اور وہ اکیلے میں سرلا سے اس کی ماں کا نام پوچھ لیں۔

 

’’اب دوپہر کے کھانے کا وقت ہو چکا ہے۔ کھانے پر بات میں بات نکلے گی ، تب تو پاچھ ہی لوں گا۔‘‘ انھوں نے سوچا اور مطمئن ہو گئے۔

کھانے کی میز سج چکی ہے۔ سرلا نے کئی طرح کی سبزیاں بنائی ہیں ___کھانا بہت لذیذ ہے۔ آج بہت دنوں بعد اپنی بیٹی کے ہاتھوں کا کھانا ملا ہے۔ نوکر کے ہاتھ کا کھاتے کھاتے ان کا دل بھر گیا تھا۔سرلا کی ماں کے ہاتھ کا ذائقہ تو اب انھیں یاد بھی نہیں۔ اس کا نام بھی تو یاد نہیں __ان کا جی چاہا کہ جلدی سے پوچھ لیں۔

’’ بیٹی تمہاری ماں کا کیا نام تھا۔‘‘

’’ ارے یہ کیا۔ اگر اس طرح وہ کوئی سوال کریں گے تو یہ دونوں کیا سوچیں گے۔ دونوں قہقہہ مار کر ہنس پڑیں گے _____‘‘ کیدار ناتھ خود پر قابو پانے کی کوشش کرنے لگے کہ کہیں بھول کر یہ سوال ان کے منھ سے نہ نکل پڑے ___‘‘ کس سے پوچھوں ؟ کمبخت خود ہی میرے ذہن میں آ جائے تو پوچھنا ہی کیوں پڑے ؟‘‘ انھوں نے بھویں سکوڑیں ، پیشانی پر بے شمار بل پڑ گئے پھر آنکھیں بند کر لیں اور اپنے ذہن سے جھوجھنے لگے۔’’ آج سرلا کا بیٹا نظر نہیں آ رہا ہے شاید اسے اپنی نانی کا نام یاد ہو____باتوں باتوں میں اس سے تو پوچھ ہی لوں گا ___‘‘’’ سرلا آج تمہارا بیٹا ......؟‘‘

’’ہاں پتا جی میں تو بتانا بھول ہی گئی۔ بی۔ اے پاس کرنے کے بعد اس نے کمپٹیشن کی تیاری شروع کر دی تھی۔ کل سے اس کے امتحان ہیں۔ دو دن پہلے ہی دلی چلا گیا ہے ____‘‘ ’’ او.......اچھا............تو گھر پر نہیں ہے۔‘‘کیدار ناتھ ایک ٹھنڈی سانس لے کر پھر کھانے میں مصروف ہو گئے۔ کھانا ختم ہو گیا اور کیدار ناتھ کو اپنی بیوی کا نام یاد نہیں آیا۔ کھانے کے بعد چائے اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے شام ہو گئی۔ کیدار ناتھ بغیر نام پوچھے ہی وہاں سے اٹھ پڑے۔ گھر لوٹنے کے لئے بس پکڑی۔اب ان کے جسم کی ساری رگیں ڈھیلی پڑ چکی تھیں۔ ہر ایک شخص کو دیکھ کر انھیں لگتا کہ اسے ضرور میری بیوی کا نام معلوم ہو گا۔ وہ ہر ایک سے پوچھنا چاہتے ہیں مگر کوئی شخص نہ تو ان کی طرف متوجہ ہوتا اور نہ ہی کچھ پوچھنے کے لئے ان کے ہونٹ کھلتے۔ سفر جاری رہا اور پھر اچانک ایک جھٹکے کے ساتھ بس رکی۔انھوں نے کھڑکی سے باہر جھانکا اور اترنے کے لئے سیٹ سے اٹھ کھڑے ہو گئے۔

کمرے میں چاروں طرف اندھیرا ہے۔ وہ بغیر روشنی کئے بستر پر ڈھیر ہو گئے۔ اندھیرا گہرا ہو تا جا رہا تھا ، کیدار ناتھ کو محسوس ہوا کہ دیواریں ان کی طرف کھسکتی چلی آ رہی ہیں۔ انھوں نے آنکھوں پر زور دے کر دیواروں کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں جلن ہو نے لگی۔ پورے کمرے میں دھواں بھر گیا تھا۔’’ اٹھ کر لائٹ جلا دی جائے۔‘‘ انھوں نے سوچا۔ مگر روشنی میں تو انھیں نیند ہی نہیں آتی۔ اندھیرے میں بھی کب آتی ہے۔ اب ان کی آنکھیں شعلوں کی طرح دہکنے لگی تھیں۔ جسم سے بھی آگ نکلنے لگے گی۔آگ کی لپٹیں بہت تیز  ہو گئی ہیں ،  سرلا کی ماں کی چتا جل رہی ہے ، روشنی بہت تیز ہے او انھیں نیند نہیں آ رہی ہے۔تو پھر آنکھیں نیند سے بوجھل کیوں ہوتی جا رہی ہیں _____؟جگہ جگہ سے جسم گل گیا ہے۔ وہ جدھر کروٹ لیتے ہیں ادھر سے شدید درد کی لہر اٹھتی ہے۔ ان کے ہاتھ پیر بالکل ٹھنڈے ہوتے جا رہے تھے کہ اچانک ذہن سے کوئی چیز نکل کر پلنگ کے نیچے فرش پر جا پڑی۔کیدار ناتھ اٹھ کر بیٹھ گئے۔لائٹ جلائی اور الماری کھول کر تمام کتابیں فرش پر بکھیر دیں۔ایک ایک کر کے میز کی دراز کے تمام کاغذات نکال ڈالے اور پرانے بکس سے کچھ فائلیں نکالیں پھر دیوانوں کی طرح انھیں الٹ پلٹ کر دیکھنے لگے _____کسی کاغذ کو پڑھتے ،  کسی کو پھاڑ کر پھینک دیتے اور کسی کو تہہ کر کے رکھ لیتے۔’’کمبخت اس کی کوئی چٹھی بھی تو نہیں مل رہی ہے۔‘‘ اب کیدار ناتھ نے جھنجھلا کر کتابوں ، کاغذوں اور فائلوں کو نوچ کر پھینکنا شروع کر دیا ہے۔ دونوں ہاتھ بالکل شل ہو چکے ہیں۔ سانس رکنے لگی ہے۔ انھوں نے گھبرا کر گلے میں بندھے مفلر کا بل کھولنا چاہا کہ پتہ نہیں کیسے گرفت اور تنگ ہو گئی پھر ایک جھٹکے کے ساتھ مفلر کھینچ لیا اور بری طرح ہانپنے لگے۔’’ڈھونڈنے سے کوئی فائدہ نہیں _____یاد کرنا بھی بیکار ہے ، اب کچھ یاد نہیں آئے گا۔‘‘ اور وہ یاد کرنے لگے کہ ان کی بیوی کا کیا نام تھا۔

شانتی......................؟

نہیں _________

سروجنی________

نہیں ..............نہیں .......

سرشٹھا.............؟

اف یہ بھی نہیں ____

ہزاروں نام ان کے ذہن میں تیزی سے آنے لگے۔ پھر وہ بھول گئے کہ وہ کیا یاد کر رہے تھے۔

آج کون سا دن ہے ؟

اتوار_____

نہیں اتوار تو کل تھا۔

کل؟

اتوار تو اس دن تھا جب وہ سرلا کے گھر گئے تھے اور سرلا کے گھر گئے ہوئے اب صدیاں گذر چکی ہیں۔

 ان کی آنکھوں سے زرد روشنائی ٹپک کر پورے کمرے میں پھیل گئی ہے۔ کتابیں ، کاغذات اور فائلیں ____کچھ دھندلے دھندلے حروف نظر آئے۔

’’ شرما۔ہاں میرے دفتر کے ساتھی شرما۔‘‘

’’ پورا نام کیا تھا ان کا؟۔‘‘

’’ یہ بھی بھول گیا؟۔‘‘

’’ اور ان کے بیٹے کا؟۔‘‘

’’نہیں ، اب مجھے کچھ بھی یاد نہیں ہے۔‘‘

پارک_____

’’کون سا پارک‘‘؟

’’ہاں وہی  پارک جہاں وہ کھڑی مسکرا رہی ہے۔‘‘

’’ لیکن اب تو اس پارک کا نام بھی بدل گیا ہے۔‘‘

’’ کیا ہے اس کا نیا نام؟‘‘

’’ نیا ہی کیا اب تو پرانا بھی یاد نہیں۔ میں سب کچھ بھولتا جا رہا ہوں۔‘‘

’’ میری بیٹی ____‘‘

’’ اف اس کا نام بھی نہیں یاد آ رہا ہے۔‘‘

’’ اس کے شوہر کا نام ؟‘‘

’’ہے بھگوان مجھے کیا ہوتا جا رہا ہے۔ اب تو کچھ بھی یاد نہیں۔‘‘

کیا صرف بیوی کے نام کے لئے وہ اتنے پریشان ہیں۔

نہیں ، کوئی اور چیز بھی ہے جسے وہ بھول گئے ہیں۔

’’ کیا چیز ہے وہ؟‘‘

وہ نیم پلیٹ جو بار بار ان کے ذہن سے نکل کر گر پڑتی ہے ! کیا لکھا ہے اس میں ؟ کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ سب کچھ مٹ چکا ہے _____

دیواریں ، چھت،  دروازے اور فرش ...................کچھ بھی نہیں ہے۔دور تک پھیلا ہوا ایک بہت بڑا میدان ہے۔زمین میں جگہ جگہ دراڑیں پڑ چکی ہیں۔ سور ج کا گولا پھیل کر اتنا بڑا ہو گیا ہے کہ پورا آسمان  اس کے پیچھے چھپ جاتا ہے۔ روشنی اتنی تیز ہے کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ اچانک اور کوئی بہت چھوٹی سی چیز نظر آئی۔

’’ کیا ہے وہ ؟‘‘

’’ کوئی انسان ہے جو اپنے چاروں طرف مڑ مڑ کر دیکھ رہا ہے۔ اس کے قریب کوئی بھی نہیں ، وہ تنہا ہے ، بالکل تنہا۔‘‘

’’ ارے وہ تو میری طرف بڑھ رہا ہے ، اور اب میری آنکھوں کے اتنا قریب آ گیا کہ اس کے پیچھے سارا میدان ، آسمان اور سورج کا پھیلا ہوا گولا بھی چھپ گیا ہے۔‘‘

’’ کون ہے یہ شخص؟‘‘

’’میں ؟‘‘اور ان کی آنکھوں کے سامنے خود ان کی اپنی ذات اندھیرا بن کے چھانے لگی۔

’’ مگر میں کون ہوں ؟کیا نام ہے میرا؟‘‘

’’ایں ...................اب تو میں اپنا نام بھی بھول گیا۔‘‘ وہ ماتھے پر ہاتھ رکھ کر زور سے چیخے اور بغیر ریڑھ کی ہڈی والے آدمی کی طرح دہرے ہوتے ہوتے اپنے آپ میں سمٹنے لگے۔ انھیں لگا وہ کئی گز زمین کے اندر دھنس گئے ہیں۔ ان کا دم گھٹ رہا ہے۔سر بری طرح چکرانے لگا اور آنکھوں میں نیلے پیلے بادل امڈ آئے۔ ہاتھ پاؤں سن پڑچکے ہیں  اور گلا رندھ گیا ہے ، جیسے کوئی بہت موٹی سی چیز اس میں اٹک گئی ہو۔ کانپتا ہوا ہاتھ انھوں نے گردن پر رکھ لیا اور کھنکھارنا چاہا مگر انھیں لگا کہ کھنکھارتے ہی ہچکی آ جائے گی  اور وہ مر جائیں گے۔

’’ نہیں ..........‘‘ وہ بہت زور سے چیخے۔ ان کے ہاتھ کی گرفت گلے پر خود بخود مضبوط ہو گئی تھی۔ دھندلے دھندلے حروف ابھرنے لگے۔

’’کے ................کے ..............‘‘ اف لگتا ہے دماغ کے پرخچے اڑ جائیں گے اور زبان کٹ کر دور جا گرے گی۔ انھوں نے غور سے دیکھا،  حرف کچھ کچھ صاف دکھائی دینے لگے تھے۔’’کیدا ا ا.................‘‘

اور پھر انھوں نے پڑھ لیا۔’’ کیدار ناتھ۔‘‘ وہ خوشی سے چیخ پڑے اور گلے پر ہاتھ کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ دل بہت زور سے دھڑکا،  پورے بدن میں گد گدی سی ہونے لگی اور وہ لڑکھڑاتے ہوئے پلنگ پر جا پڑے۔

’’ کیدار ناتھ، کیدار ناتھ____‘‘ وہ زور زور سے کہنے لگے جیسے اب انھیں سب کچھ یاد آ گیا ہو۔

اپنی بیٹی کا، دوست کا،  اس پارک کا اور اپنی بیوی کا نام ___ کیدار ناتھ !محسوس ہوا کہ ساری دنیا کا نام کیدار ناتھ ہے۔

پھر آہستہ سے اٹھے ، لائٹ بجھائی اور کیدار ناتھ، کیدار ناتھ کہتے ہوئے لحاف میں گھس گئے۔

صبح ہوئی تو انھوں نے خود کو بہت مطمئن محسوس کیا۔ رات بہت گہری اور سکون کی نیند آئی تھی۔!!


ختم شدہ